جواہرِ جہاد (قسط۱۰)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 583)
جہاد کے زور سے دنیا کا نظام ٹوٹے گا
اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کو اچھے حکمران نصیب فرمائے… زخمی امت اس نعمت کی بہت محتاج ہے… دشمنوں کی پوری کوشش ہے کہ… مسلمانوں کو کوئی اچھا حکمران نہ ملنے پائے… ایسا حکمران جس کے سینے میں ’’مسلمان دل‘‘ ہو… افغانستان میں مسلمانوں کو ایک اچھا حکمران ملا… اس کے ’’اندازِ حکمرانی‘‘ میں ایمانی خوشبو تھی… اس لیے اقوام متحدہ نے اسے تسلیم نہ کیا… حالانکہ ملک کے نوّے فیصد حصے پر اس کی مضبوط حکومت تھی… اور تو اور اسلامی ممالک کی کانفرنس نے بھی… اس کو نشست نہ دی… بالآخر آگ اور بارود کی بارش میں اس کی حکومت گرا دی گئی… اور مسلمان ایسے حکمران سے محروم ہو گئے… جو ان کی فکر رکھتا تھا… جو ان کیلئے روتا اور تڑپتا تھا… جو ان سے کم درجے کا لباس پہنتا تھا… اور جس کے شاہی دسترخوان پر عام غریبوں والا کھانا چُنا جاتا تھا… ہاں! دنیا کا کفر، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے ایمان کی خوشبو سے آج تک لرز رہا ہے… وہ کہتے ہیں کہ ’’عُمرؓ‘‘ نہ ہوتے تو آج اسلام دنیا کے سات سمندروں تک پھیلا ہوا سب سے بڑا دین نہ ہوتا… اور وہ کہتے ہیں کہ ’’عمرؓ‘‘ جیسے حکمران جب بھی مسلمانوں کو ملیں گے… مسلمان چھا جائیں گے، مسلمان غالب ہو جائیں گے… اب فلسطین میں حماس والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے… سرفروشی اور خدمت ’’حماس‘‘ کے ایمان میں ’’خوشبوئے عمرؓ‘‘ پیدا کرتی ہے… ایک طرف شہداء کے قافلے ہیں… نو خیز جوانیاں جو دین کی خاطر کٹ گئیں… وہ نوجوان دولھے جو بارود کی جیکٹ پہن کر… حوروں کے جھرمٹ میں گم ہو گئے… اور اٹھارہ سے پچیس سال کی وہ جوان بیٹیاں… جنہوں نے مہندی لگا کر دنیا کی دلہن بننے کی بجائے… خوشبودار خون سے حسن پایا اور جنت کی حوریں بن گئیں… حماس کے فدائی قافلے عجیب تھے، بہت باہمت، بہت پرعزم اور بہت پاک صاف… یہودی اور ان کے سرپرست خواب میں بھی ان گرجتے، کڑکڑاتے اسلامی دستوں کو نہیں بھلا سکتے… حماس نے کئی بار اسرائیل کو شکست دی… اور اس کے جاسوسی نظام کو الٹ کر رکھ دیا… حماس نے اپنے قائد، بانی اور مرشد شیخ احمد یٰسینؒ کو بندوق کے زور پر… اسرائیل سے آزاد کرایا… حماس کے سامنے خسیس یہودیوں کو بارہا گھٹنے ٹیکنے پڑے… دنیا کے کفر کو سب کچھ یاد ہے… ہاں! شیخ احمد یسین کو کون بھول سکتا ہے… امت مسلمہ کا بوڑھا اور معذور جرنیل… مجاہدین کا قابل فخر امام… اور حماس کی کارکن وہ بوڑھی عورتیں… ہاں! خوبصورت بوڑھی عورتیں جو شہیدوں کے گھروں میں راشن، کپڑے… اور دوائیاں پہنچا آتی ہیں… وہ اس کام سے بالکل نہیں تھکتیں… وہ شہیدوں کے بچوں کو خود لوری دے کر رات کو سلا آتی ہیں… اور ان کے گھروں کا چولھا جلا آتی ہیں… شہید احمد یسینؒ نے اندھا جہاد نہیں کیا… انہوں نے جہاد کے پیچھے ’’خدمت‘‘ اور ’’جماعت‘‘ کے دو بازو جوڑ دئیے ہیں… حماس والے ایک طرف یہودیوں پر آگ برساتے ہیں تو دوسری طرف… اپنے لوگوں کے گھروں کا پانی بھی خود بھرتے ہیں… شیطان ’’جماعت‘‘ اور ’’اجتماعیت‘‘ کا دشمن ہے… وہ مسلمانوں کی کسی تنظیم کو ’’جماعت‘‘ نہیں بننے دیتا… اس کے وساوس اور اس کے شبہات جماعتوں کو توڑ دیتے ہیں… وہ جانتا ہے کہ… ’’جماعت‘‘ میں اس کی موت ہے… شیخ احمد یسینؒ خود تو جسم سے معذور تھے مگر دل اور عقل سے معذور نہیں تھے… انہوں نے ’’جماعت‘‘ بنائی… یہ تو ایک آسان کام تھا… مگر پھر انہوں نے اس ’’جماعت‘‘ کو چلایا… واﷲ! یہ بہت مشکل کام تھا… شیطان کا ڈسا ہوا ہر شخص ’’جماعت‘‘ کا دشمن ہوتا ہے… اس زمانے میں منظم جماعت چلانا… لوہے کے چنے چبانے سے زیادہ مشکل ہے… مگر شیخ پر اﷲ تعالیٰ کا فضل رہا… وہ وہیل چیئر پر بھی ثابت قدم رہے… وہ یہودی عقوبت خانوں میں بھی ثابت قدم رہے… وہ خوش نصیب تھے، ان کو اچھے رفقاء ملے… جنہوں نے ان کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کی… اور پھر اس ’’بیعت‘‘ کے تقاضوں کو نبھایا… ان کو آخری عمر تک عبدالعزیز رینتیسی جیسے مدبّر اور خالد مشعل جیسے ’’شیرصفت‘‘ ساتھی نصیب رہے… اور بالآخر شیخ کو ان کی محنتوں کا صلہ شہادت کی صورت میں مل گیا… نماز فجر کے بعد… اپنی وہیل چیئر پر، یہودیوں کے ہاتھوں… سبحان اﷲ! کیا خوش نصیبی ہے کہ… شہادت خود ان کو ملنے اور چومنے آئی… اور سجا، سنوار کر اپنے ساتھ لے گئی… شیخ چلے گئے… مگر جماعت ’’منظم‘‘ تھی اور ’’بیعت‘‘ پر قائم تھی… یہاں افراد طاقتور نہیں تھے ’’نظام‘‘ طاقتور تھا… چنانچہ سرفروشی کا بازار بھی گرم رہا اور خدمت کا پھول بھی خوشبو بکھیر تا رہا… حماس نے فلسطینیوں کو سب کچھ دیا تھا تو اس بار فلسطینیوں نے ووٹ دے کر… ان کو ’’انتخابات‘‘ میں چن لیا… ہاں! حماس والے اب حکمران بن گئے ہیں… ان کے حکمران بننے پر اکثر مجاہدین نے خوشیاں منائیں… مگر میرا دل دھک دھک کرنے لگا… ’’القلم‘‘ کے بعض عزیز دوستوں نے استقبالی مضمون لکھے تو جی چاہا کہ انہیں نہ لکھنے کا مشورہ دوں… کیونکہ اب حماس کو ’’خراج تحسین‘‘ نہیں ’’دعاؤں‘‘ کی ضرورت ہے… حماس والوں کو چلنے نہیں دیا جائے گا… ان کے اور فلسطینی عوام کے میٹھے رشتے کو کڑوا کیا جائے گا… حماس میں سے کمزور ایمان والوں کو عسکریت سے دور کھینچا جائے گا… اور بالآخر امت مسلمہ کے اس قابل فخر لشکر کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے گا… اﷲ کرے ’’اسماعیل ہانیہ‘‘… ملا محمد عمر سے سبق سیکھیں… اور انہی کی طرح غیرت اور غریبی کے ساتھ حکومت چلائیں… اور جب ’’عزت کی دستار‘‘ پر سودا کرنے کی فرمائش کی جائے تو حکومت کو تھوک دیں… اور پھر اپنے مورچوں میں لوٹ جائیں… دراصل دنیا کا سارا نظام، اسلام دشمنوں نے اسی ترتیب سے بنایا ہے کہ … مسلمانوں کو ’’اچھے حکمران‘‘ نصیب نہ ہوں… اور نہ ان میں ’’خلافت‘‘ قائم ہو سکے… انشاء اﷲ، جہاد کے زور سے یہ نظام ٹوٹے گا تب… اچھے حکمرانوں کو برداشت کیا جائے گا اور مسلمانوں کو ’’مسلمان‘‘ حکمران نصیب ہو سکیں گے… فی الحال تو بس ظلم ہی ظلم ہے… اور زخم ہی زخم…
(عُمرؓ، عُمرؓ، عُمر/رنگ و نور، ج۲)
ہمیں ’’عمرؓ ‘‘ کی ضرورت ہے…
غیر مسلم ملکوں اور عوام کو ایسے حکمران تو مل گئے ہیں جو ان کے ہمدرد ہیں… جبکہ مسلمانوں کے حکمران… صرف مسلمانوں کے دشمن ہیں… افغانستان پر غیروں نے قبضہ کر لیا… کسی مسلمان حکمران نے آہ تک نہ کہی، بلکہ… غیروں کے ساتھ شامل ہو گئے… عراق پر غیروں نے قبضہ کیا… مگر مسلمان حکمرانوں کے گلے سے کوئی آواز نہ نکلی… مسلمان مشرق و مغرب میں لٹ گئے… مگر مسلمان حکمران خود انہی کا سودا کرتے رہے… اور مسلمانوں کو کافروں کے ہاتھوں فروخت کرتے رہے… ہمارے صاحب حال بزرگ، حضرت قاری محمد عرفان صاحب نور اﷲ مرقدہٗ… بہت جوش کے ساتھ فرمایا کرتے تھے… قیامت کے دن اگر میری بخشش ہو گئی تو سب سے پہلی درخواست یہ کروں گا… یا اﷲ! حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کرا دے… یہ کہتے ہوئے حضرت قاری صاحبؒ کی آنکھوں میں آنسو مچلنے لگتے تھے… ہاں! امت مسلمہ کو ہر زمانے میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی ضرورت پڑتی ہے… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ و سلم نے ان کو اﷲ تعالیٰ سے مانگا تھا نا… ہاں! ان کو مانگا تھا… اسلام کیلئے، مسلمانوں کیلئے، امت مسلمہ کیلئے… آج مجاہدین کے گھروں کے چولھے بُجھتے ہیں تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یاد آتے ہیں… وہ مجاہدین کے گھروں کا خود خیال رکھا کرتے تھے… اور ان کے گھروں کا سودا خرید کر لاتے تھے… جب مجاہدین کے خطوط آتے تو خود اُن گھروں پر دے آتے اور فرماتے جواب لکھ رکھنا… فلاں تاریخ کو قاصد محاذ پر جائے گا… اگر کسی مجاہد کی ماں، بیوی کہتی کہ ہمیں لکھنا نہیں آتا تو آدھی دنیا کا بادشاہ اس کی چوکھٹ کے باہر کاغذ قلم لیکر بیٹھ جاتا… وہ لکھواتی رہتی اور یہ لکھتے رہتے… ہائے سیدنا عمرؓ ! آپ کی کس کس ادا کو یاد کروں… آج جہاد کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں… آج مجاہدین کے ہاتھوں میں زنجیریں ہیں… آج مجاہدین کے گھروں پر چھاپوں کا خوف ہے… اور اﷲ کے رستے کے مجاہد اپنے بچوں سے دور در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں…
ہاں! آج سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ موجود نہیں ہیں… اور نہ ان کی خوشبو والا کوئی حکمران موجود ہے… ملا محمد عمر میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی خوشبو تھی… انہوں نے بعض غیر افغانی مجاہدین سے فرمایا تھا… آپ کے لئے میرا ملک حاضرہے، یہاں رہنا ہو تو خوشی سے رہیں… زلزلہ آیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یاد آئے… مدینہ منورہ میں قحط پڑا تو حضرت عمرؓ نے اس پورے عرصے میںگوشت، گھی وغیرہ کوئی لذیذ چیز نہ کھائی اور اکثر عاجزی کے ساتھ یہ دعاء کرتے تھے… یا اﷲ! حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ فرما… آج پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے… میں نے اخبار میں پڑھا کہ عراق میں بیس سے زیادہ ایسے افراد کی لاشیں ملیں جن کے نام ’’عمر‘‘ تھے… ہاں! دنیا کا کفر ’’عمر‘‘ کو مٹانا چاہتا ہے… مگر اسلام اور مسلمانوں کو ’’عمر‘‘ کی ضرورت ہے… اور جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسلمان کمزور تھے تو… اﷲ پاک نے عمرؓ کے ذریعے انہیں طاقت اور قوت بخشی تھی… اسی طرح اس زمانے میں بھی مسلمان کمزور ہیں… اب بھی انہیں قوت و طاقت ’’کردار عمر ؓ‘‘ کو اپنانے سے مل سکتی ہے… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جیسا مضبوط عقیدہ… حضرت عمرؓ جیسا طاقتور نظریہ… حضرت عمرؓ جیسا جہاد… اور حضرت عمرؓ جیسی سیاست… جو مسلمان چاہتا ہے کہ وہ اسلام اور قرآن کے قریب تر ہو جائے… اسے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے روشنی لینی ہو گی… اس لیے کہ قرآن پاک ان کی رائے کی تصدیق فرماتا تھا… اور اسلام کا پورا نقشہ ان میں موجود تھا… دینی جماعتیں حضرت عمرؓ سے روشنی لیں اور ان سے نظام سیکھیں… طاقتور افراد حضرت عمرؓ سے طاقت کا استعمال سیکھیں… جن پر دوسروں کی ذمہ داریاں ہیں وہ حضرت عمرؓ سے ذمہ داری نبھانے کا طریقہ معلوم کریں… لباس اور جوتوں میں غرق عزت کے شوقین افراد… حضرت عمرؓ سے عزت کا اصل راز معلوم کریں… اور شعراء شعر کہنے سے پہلے حضرت عمرؓ سے آداب شاعری کا درس لیں… حکمران حکومت چلانے کیلئے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے اشاروں کو سمجھیں… اور فاتحین دنیا فتح کرنے کا راز حضرت عمرؓ سے معلوم کریں… تصوف اور فقیری کے دعویدار معرفت کے نکتے حضرت عمرؓ کی خانقاہ سے سیکھیں… جہاد کے دعویدار حضرت عمرؓ کے ٹریننگ کیمپ سے سچے مجاہد بن کر نکلیں… اور خود کو سیاست کے ماہر بتانے والے حضرت عمرؓ کے دربار عالی میں حاضری دے کر اسلامی سیاست کے اصل اصول معلوم کریں… ہاں! اﷲ پاک کی قسم… ہم سب کو ’’عمر ؓ‘‘ کی ضرورت ہے… اسلام کو سمجھنے کیلئے… قرآن پاک کو دل میں اتارنے کیلئے… جہاد کے مقام کو پہچاننے کیلئے… اور اپنی عزت رفتہ حاصل کرنے کیلئے… ہاں! ہمیں اس سادہ انسان کی ضرورت ہے جو خود تجارت کرکے کماتا تھا… جی ہاں! آج یہ کام دینی تقدس کے خلاف سمجھا جاتا ہے… ہاں! ہمیں اس غیور انسان کی ضرورت ہے جو اپنے کپڑے خود سی لیتا تھا… اور ان پر پیوند لگاتا تھا… ہاں! ہمیں اس سخت انسان کی ضرورت ہے جس کی ہیبت سے کسریٰ کے کنگرے ہل جایا کرتے تھے… ہاں! ہمیں اس نرم دل انسان کی ضرورت ہے جو بوڑھی عورتوں کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کر کے ہچکیاں لے کر روتا تھا… ہاں! ہمیں اس مست انسان کی ضرورت ہے … جس کی نظروں میں اسلام کے علاوہ عزت کا کوئی اور معیار نہیں تھا… ہاں! ہمیں اس بیدار انسان کی ضرورت ہے جو خلافت کے زمانے میں راتوں کو قافلوں کا پہرہ دیا کرتا تھا… اے عمرؓ! آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں، میں آپ کی کس کس ادا کو یاد کروں… آج وزیرستان ظلم کی آگ میں جھلس رہا ہے … آج کشمیر ہم سے شکوہ کناں ہیں… آج کراچی خوف اور دہشت سے لرز رہا ہے… آج ہمارے حکمران… اجنبی لوگ ہیں… آج ہمارا اسلام لرز رہا ہے… اور دل بے چینیوں کا شکار ہے… آج امت مسلمہ کے قیدی مایوسی کے غار میں دھکیلے جارہے ہیں… آج اسلام پر تحریفات کا حملہ ہے… آج ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند ہے… اور مسلمانوں کے لئے سوچنے والے بہت کم لوگ باقی ہیں… آج ہماری سیاست ’’بد دینی‘‘ اور ’’بے فکری‘‘ کا مجموعہ ہے… اور آج ہمارا جہاد ’’نظم و ضبط‘‘ سے محروم ہے… اے عمرؓ! آپ پر اﷲ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں… شیطان آپ سے ڈرتا تھا جبکہ وہ ہم پر شیر ہے… فتنے آپ سے بھاگتے تھے جبکہ ہم پر حملہ آور ہیں… تب ہمیں آپ کی یاد ستاتی ہے… آپ ’’فاتح‘‘ تھے… پہاڑ، سمندر اور ہوائیں آپ کے ایمان کی بدولت آپ کا ساتھ دیتی تھیں… آپ مسلمانوں کے لئے بہت ہمدرد اور بہت رقیق القلب تھے… اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کی طرف سے آپ کو خوب خوب جزائے خیر نصیب فرمائے… اور ہمارے ایمان کو بھی آپ کے ایمان کی خوشبو کا کچھ حصہ نصیب فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین…
(عُمرؓ، عُمرؓ، عُمر/رنگ و نور، ج۲)
٭…٭…٭