بچوں کے نام رکھنے کا طریقہ
س… مسلمان بچے کا نام تجویز کرتے وقت قرآن شریف سے نام کے حروف نکالنا اور بچے کے نام کے حروف کے اعداد اور تاریخِ پیدائش کے اعداد کو آپس میں ملاکر نام رکھنے کا طریقہ کس حد تک دُرست ہے؟ بچے کا نام تجویز کرنے کا صحیح اسلامی طریقہ کیا ہے؟ قرآن و سنت کی رُو سے بتائیں۔
ج… قرآن و سنت میں علم الاعداد پر اعتماد کرنے کی اجازت نہیں، لہٰذا یہ طریقہ غلط ہے۔ نام رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے حسنیٰ کی طرف نسبت کرکے نام رکھے جائیں، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اپنے بزرگوں کے ناموں پر نام رکھے جائیں۔
ناموں میں تخفیف کرنا
س… میرا پورا نام “عبدالقادر” ہے، مگر تعلیمی اسناد میں مجھے “قادر” لکھا گیا ہے جو کہ میرے لئے ایک پریشان کن مسئلہ ہے، اور “قادر” سے “عبدالقادر” کروانا بہت ہی پیچیدہ طریقہٴ کار ہے، اس لئے میں اپنا نام “قادر” ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ عام طور پر لوگ بھی مجھے “قادر” ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جبکہ یہ نام خدا کی صفت ہے، اس نام کے کیا اوصاف ہیں؟ کیا میں یہ نام رکھ سکتا ہوں؟
ج… “القادر” اللہ تعالیٰ کا پاک نام ہے اور “عبدالقادر” کے معنی ہیں: “قادر کا بندہ”، اور جب “عبدالقادر” کی جگہ صرف “قادر” کہنے لگے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ بندے کا نام اللہ تعالیٰ کے نام پر رکھ دیا گیا اور اس کا گناہ ہونا بالکل واضح ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع “معارف القرآن” جلد:۴ صفحہ:۱۳۲ میں لکھتے ہیں:
“افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جنھوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دئیے، ان کی صورت و سیرت سے تو پہلے بھی مسلمان سمجھنا ان کا مشکل تھا، نام سے پتا چل جاتا تھا، اب نئے نام انگریزی طرز کے رکھے جانے لگے، لڑکیوں کے نام خواتینِ اسلام کے طرز کے خلاف خدیجہ، عائشہ، فاطمہ کے بجائے نسیم، شمیم، شہناز، نجمہ، پروین ہونے لگے۔ اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ جن لوگوں کے اسلامی نام ہیں: عبدالرحمن، عبدالخالق، عبدالرزّاق، عبدالغفار، عبدالقدوس وغیرہ ان میں تخفیف کا یہ غلط طریقہ اختیار کرلیا گیا کہ صرف آخری لفظ ان کے نام کی جگہ پکارا جاتا ہے، رحمن، خالق، رزّاق، غفار کا خطاب انسانوں کو دیا جارہا ہے۔ اور اس سے زیادہ غضب کی بات یہ ہے کہ “قدرت اللہ” کو “اللہ صاحب” اور “قدرت خدا” کو “خدا صاحب” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ سب ناجائز و حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔
یہ گناہِ بے لذّت اور بے فائدہ ایسا ہے جس کو ہمارے ہزاروں بھائی اپنے شب و روز کا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی فکر نہیں کرتے کہ اس ذرا سی حرکت کا انجام کتنا خطرناک ہے۔”
ناموں کو صحیح ادا نہ کرنا
س… ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے نام ان کے باپ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں، جیسے: رضیہ عبدالرحیم، فاطمہ کلیم وغیرہ۔ ان کی تعلیمی اسناد بھی اسی نام سے ہوتی ہیں، شادی کے بعد ان کے ناموں کے ساتھ شوہر کے نام مثلاً رضیہ رحیم کی جگہ رضیہ جمال، فاطمہ کلیم کی جگہ فاطمہ کاشف، خدانخواستہ شوہر فوت ہوجاتا ہے تو پھر یہ نام تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان ناموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج… باپ کا یا شوہر کا نام محض شناخت کے لئے ہوتا ہے، بچی کی جب تک شادی نہیں ہوتی اس وقت تک اس کی شناخت “دخترِ فلاں” کے ساتھ ہوتی ہے، اور شادی کے بعد “زوجہٴ فلاں” کے ساتھ۔ شرعاً “دخترِ فلاں” کہنا بھی صحیح ہے اور “زوجہٴ فلاں” کہنا بھی۔
بچوں کے غیراسلامی نام رکھنا
س… آج کل بہت سے لوگ اپنے بچوں کے نام اسلام کے ناموں (یعنی جو نام پہلے لوگ رکھتے تھے) کے مطابق نہیں رکھتے، کیا اس سے گناہ نہیں ہوتا؟
ج… اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے نام اچھے رکھے جائیں، اس لئے مسلمانوں کا اپنی اولاد کا نام غیراسلامی رکھنا بُرا ہے۔
“آسیہ” نام رکھنا
س… میرا نام “آسیہ خاتون” ہے اور میں بہت سے لوگوں سے سن سن کر تنگ آچکی ہوں کہ اس نام کے معنی غلط ہیں اور یہ نام بھی نہیں رکھنا چاہئے۔
ج… لوگ غلط کہتے ہیں، “آسیہ” نام صحیح ہے، عین اور صاد کے ساتھ “عاصیہ” نام غلط ہے، اور ان دونوں کے معنی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
“محمد احمد” نام رکھنا کیسا ہے؟
س… کیا “محمد احمد” بچے کا نام رکھ سکتے ہیں؟
ج… کوئی حرج نہیں۔
“محمد یسار” نام رکھنا
س… میں نے اپنے بیٹے کا نام “محمد یسار” رکھا ہے، کیا یہ نام ٹھیک ہے؟
ج… یہ نام ٹھیک ہے، کئی صحابہ کا نام تھا، والله اعلم!
“عارش” نام رکھنا دُرست نہیں
س… میرے بیٹے کا نام “عارش” ہے، سب کہہ رہے ہیں کہ یہ نام صحیح نہیں ہے، تو کیا نام بدل دُوں؟ نیز عارش کے معنی بھی بتادیں۔
ج… “عارش” اور “عامرش” فضول نام ہیں، اس کی جگہ “محمد عامر” نام رکھیں۔
“جمشید حسین” نام رکھنا
س… میرا نام “جمشید حسین” ہے، کیا میرا موجودہ نام ٹھیک ہے؟
ج… یہ نام صحیح ہے، بدلنے کی ضرورت نہیں۔
“حارث” نام رکھنا
س… کیا “حارث” اسلامی نام ہے؟ اور اس کے لفظی معنی کیا ہیں؟
ج… “حارث” صحیح نام ہے، اس کے معنی ہیں: “کھیتی کرنے والا، محنت کرنے والا۔”
س… میرے بیٹے نام “حارث” ہے اور مجھے “حارث” نام کے متعلق یہ پتا چلا ہے کہ یہ نام شیطان کے ناموں میں سے ایک نام ہے، تو کیا یہ جاننے کے بعد نام تبدیل کرلینا چاہئے؟
ج… نہیں! صحیح نام ہے، تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔
“خزیمہ” نام رکھنا
س… “تبلیغی نصاب” میں ایک نام “زینت بنت خزیمہ” پڑھا، “خزیمہ” نام مجھے پسند آیا، آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ “خزیمہ” کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ کسی صحابی کا نام تھا؟ کیا میں یہ نام اپنے لڑکے کا رکھ سکتا ہوں؟
ج… “خزیمہ” متعدّد صحابہ کرام کا نام تھا، ان میں خزیمہ بن ثابت انصاری مشہور ہیں، جن کا لقب “ذوالشہادتین” ہے (یعنی ان کی ایک گواہی دو مردوں کے برابر ہے)۔
اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام رکھنا
س… اگر کوئی عورت اپنے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگائے تو یہ کیسا ہے؟
ج… کوئی حرج نہیں، انگریزی طرز ہے۔
بچوں کے نام کیا تاریخِ پیدائش کے حساب سے رکھے جائیں؟
س… کیا بچوں کے نام تاریخِ پیدائش کے حساب سے رکھنے چاہئیں؟ عدد وغیرہ ملاکر بہتر اور اچھے معنی والے نام رکھ لینے چاہئیں؟ اسلام کی رُو سے جواب بتائیے۔
ج… عدد ملاکر نام رکھنا فضول چیز ہے، معنی و مفہوم کے لحاظ سے نام اچھا رکھنا چاہئے، البتہ تاریخی نام رکھنا جس کے ذریعہ سنِ پیدائش محفوظ ہوجائے، صحیح ہے۔
لفظِ “محمد” کو اپنے نام کا جز بنانا
س… شرعی اعتبار سے کیا “محمد” کا لفظ اپنے نام کے ساتھ لگانا دُرست ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ نام زمین پر لکھا ہوا گر جائے تو کیا اس کی بے ادبی نہیں ہوتی؟ اور کیا اس کو اپنے نام کے ساتھ نہ لگایا جائے تو بہتر ہوگا؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی اپنے نام کے ساتھ ملانا دُرست ہے، بلکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ نامی پر بچے کا نام “محمد” رکھا جائے تو اس کی فضیلت حدیث میں آئی ہے۔ اس پاک نام کا زمین پر گرانا بے ادبی ہے، کہیں مل جائے تو ادب و احترام کے ساتھ اُٹھاکر کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے جہاں بے ادبی کا اندیشہ نہ ہو۔
کسی کے نام کے ساتھ لفظِ “محمد” کے اُوپر “ “ لکھنا
س… وہ لوگ جن کے نام سے پہلے یا بعد “محمد” آتا ہے، “محمد” کے اُوپر چھوٹا سا “ “ لگا دیتے ہیں، آخر کیوں؟ حقیقت میں “ “ مختصراً “محمد صلی اللہ علیہ وسلم” کی نشاندہی کرتا ہے۔
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی کے سوا کسی اور کے نام پر “ “ کی علامت نہیں لکھنی چاہئے۔ جن ناموں میں لفظِ “محمد” استعمال ہوتا ہے، وہ ان ناموں کا جز ہوتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ نامی کی حیثیت اس کی نہیں ہوتی۔
“محمد” نام پر “ “ کا نشان لگانا
س… کیا “محمد” کے نام کے ساتھ “صلی اللہ علیہ وسلم” یا “ “ لکھنا ضروری ہے؟ میں نے اکثر “محمد” کے نام کے ساتھ “ “ لکھا ہوا دیکھا ہے، اگر لکھنا ضروری ہے تو کیا اس طرح بھی کہ روزنامہ “جنگ” اخبار کے فلمی صفحے کی اشاعت میں فلم “محمد بن قاسم” کے “محمد” کے اُوپر بھی “ “ لگا تھا۔ نعوذ باللہ اس کا مفہوم دُوسرا نکلتا ہے، یہ کیوں؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی سن کر دُرود پڑھنا ضروری ہے، اور قلم سے لکھنا بہت اچھی بات ہے۔ مگر جب یہ اسمِ مبارک کسی اور شخص کے نام کا جز ہو، اس وقت اس پر “ “ کا نشان نہیں لگانا چاہئے، کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں ہوتا۔
“عبدالرحمن، عبدالرزّاق” کو “رحمن” اور “رزّاق” سے پکارنا
س… “عبدالرحمن، عبدالخالق، عبدالرزّاق” ہمارے ہاں عام رواج یہ ہے کہ “عبد” کو چھوڑ کر صرف “رحمن، خالق اور رزّاق” وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں، اس طرح کے نام تو اللہ تعالیٰ کے ہیں، کیا یہ ناموں کی بے ادبی نہیں ہے؟
ج… “عبد” کا لفظ ہٹاکر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ بندے کو پکارنا نہایت قبیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام دو قسم کے ہیں، ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دُوسرے کے لئے ہو ہی نہیں سکتا، جیسے: “اللہ، رحمن، خالق، رزّاق” وغیرہ۔ ان کا غیراللہ کے لئے استعمال کرنا قطعی حرام اور گستاخی ہے، جیسے کسی کا نام “عبداللہ” ہو اور “عبد” کو ہٹاکر اس شخص کو “اللہ صاحب” کہا جائے، یا “عبدالرحمن” کو “رحمن صاحب” کہا جائے، یا “عبدالخالق” کو “خالق صاحب” کہا جائے، یہ صریح گناہ اور حرام ہے۔ اور دُوسری قسم ان ناموں کی ہے جن کا استعمال غیراللہ کے لئے بھی آیا ہے، جیسے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو “روٴف رحیم” فرمایا گیا ہے، ایسے ناموں کے دُوسرے کے لئے بولنے کی کسی حد تک گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن “عبد” کے لفظ کو ہٹاکر اللہ تعالیٰ کا نام بندے کے لئے استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں۔ بہت سے لوگ اس گناہ میں مبتلا ہیں اور یہ محض غفلت اور بے پروائی کا کرشمہ ہے۔
“مسیح اللہ” نام رکھنا
س… میرے بھائی کا نام “مسیح اللہ” ہے، بہت سے آدمی کہتے ہیں کہ: “یہ عیسائی جیسا نام ہے، کیا تم عیسائی ہو؟ اس نام کو تبدیل کردو” بتائیے یہ نام دُرست ہے یا نہیں؟
ج… یہ نام صحیح ہے، کیا “محمد عیسیٰ” نام رکھنے سے آدمی عیسائی ہوجاتا ہے․․․؟
بچی کا نام “تحریم” رکھنا شرعاً کیسا ہے؟
س… میں نے اپنی بیٹی کا نام “تحریم” رکھا ہے، معنوی اعتبار سے اس لفظ کا مطلب ہے: ۱- حرمت والی، ۲-نماز سے پہلے پڑھی جانے والی تکبیر یعنی “تکبیرِ تحریمہ”، ۳-منع کی گئی وغیرہ۔ کچھ علماء و عام لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے بیٹی کا نام دُرست نہیں رکھا، براہِ کرم آپ اس سلسلے میں میری راہ نمائی فرمائیں۔
ج… “تحریم” کے معنی ہیں: “حرام کرنا”، آپ خود دیکھ لیجئے کہ یہ نام بچی کے لئے کس حد تک موزوں ہے․․․!
مسلمان کا نام غیرمسلموں جیسا ہونا
س… اندیا کے مشہور فلم اسٹار “دلیپ کمار” مسلمان ہیں، لیکن ان کا نام جو زیادہ مشہور ہے وہ ہندو نام ہے، کیا یہ اسلام کی روشنی میں جائز ہے؟
ج… جائز نہیں۔
“پرویز” نام رکھنا صحیح نہیں
س… میں کافی عرصے سے سن رہا ہوں کہ “پرویز” نام رکھنا اچھا نہیں ہے، جب بزرگوں سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو صرف اتنی وضاحت کی گئی کہ یہ نام اچھا نہیں۔ میرے کافی دوستوں کا یہ نام ہے۔ صفحہ “کتاب و سنت کی روشنی” میں “اخبار جہاں” میں جناب حافظ بشیر احمد غازی آبادی نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ نام ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دُشمن کا تھا، بات کچھ واضح نہیں ہوئی؟
ج… “پرویز” شاہِ ایران کا نام تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کردیا تھا (نعوذ باللہ)، یا ہمارے زمانے میں مشہور منکرِ حدیث کا نام تھا، اب خود سوچ لیجئے ایسے کافر کے نام پر نام رکھنا کیسا ہے․․․؟
“فیروز” نام رکھنا شرعاً کیسا ہے؟
س… “فیروز” نام رکھنا کیسا ہے؟ جبکہ ایک صحابی کا نام بھی فیروز تھا، اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قاتل کا نام بھی فیروز تھا۔
ج… “فیروز” نام کا کوئی مضائقہ نہیں، باقی اگر کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کی نیت سے یہ نام رکھتا ہے تو جیسی نیت ویسی مراد․․․!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اپنا نام رکھنا
س… میرا مسئلہ نام کے بارے میں ہے، میرا نام “محمد” ہے، چنانچہ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ نام صحیح ہے کہ نہیں؟ کیونکہ میرے دوست اور بہت سے لوگ بھی اس نام کے بارے میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ یہ نام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، چنانچہ اس کی بے ادبی ہوتی ہے۔
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمِ مبارک پر بچوں کے نام رکھنا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آج تک مسلمانوں میں رائج ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت ثابت ہے، بلکہ ایک حدیث میں اس نام کے رکھنے کی فضیلت آئی ہے۔
“عبدالمصطفیٰ” اور “غلام اللہ” نام رکھنا
س… “عبدالمصطفیٰ” اور “غلام اللہ” نام رکھنا کیسا ہے؟ جبکہ “عبد” کے معنی بندے اور “غلام” کے معنی بیٹے کے ہیں؟
ج… “عبدالمصطفیٰ” کے نام سے بعض اکابر نے منع فرمایا ہے کہ اس میں عبدیت کی نسبت غیراللہ کی طرف ہے۔ “غلام اللہ” میں غلام کے معنی “عبد” کے ہیں۔ “غلام” کے معنی بیٹے کے نہ متبادر ہیں، نہ مراد ہیں، اس لئے یہ نام صحیح ہے، والله اعلم!
لڑکیوں کے نام “شازیہ، روبینہ، شاہینہ” کیسے ہیں؟
س… کیا لڑکیوں کے نام “شازیہ، روبینہ اور شاہینہ” غیراسلامی نام ہیں؟
ج… مہمل نام ہیں۔
“اللہ داد، اللہ دتہ اور اللہ یار” سے بندوں کو مخاطب کرنا
س… کیا اللہ تعالیٰ کے ذاتی ناموں سے کسی انسان کو مخاطب کرنا جائز ہے؟ جیسے “رحمن، اللہ داد، اللہ دتہ، اللہ یار” وغیرہ، کیونکہ میں نے کسی اسلامی کتاب جو کہ اسمائے الٰہی کے موضوع پر تھی، میں پڑھا تھا کہ اللہ کے ذاتی نام انسان نہ اپنائے تو اچھا ہے، اور اللہ کے صفاتی اور فعلی نام ہی اپنانے چاہئیں۔ براہِ کرم آپ اس پر روشنی ڈالیں تاکہ راہ نمائی مل سکے۔
ج… “رحمن” اور “اللہ” تو اللہ تعالیٰ کے پاک نام ہیں، لیکن “اللہ دتہ” اور “اللہ یار” تو اللہ تعالیٰ کے نام نہیں، کیونکہ “اللہ دتہ” ترجمہ ہے “عطاء اللہ” کا، اور “اللہ یار” ترجمہ ہے “ولی اللہ” کا۔ اس لئے آپ کی ذکر کردہ مثالیں صحیح نہیں۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ذاتی اور صفاتی ناموں کا تعلق ہے، تو اہلِ علم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پاک نام “اللہ” تو اسمِ ذاتی ہے اور باقی تمام نام صفاتی ہیں، ان صفاتی ناموں میں “رحمن” ذاتی نام کی مانند ہے کہ کسی دُوسرے کو “رحمن” کہنا جائز نہیں۔ اسی طرح دُوسرے بعض نام ایسے ہیں جن کا کسی دُوسرے کے لئے استعمال جائز نہیں، مثلاً کسی کو “رَبّ العالمین” کہنا جائز نہیں۔ البتہ بعض نام ایسے ہیں کہ دُوسروں کے لئے بھی ان کو استعمال کیا گیا ہے، مثلاً “روٴف” اور “رحیم” اللہ تعالیٰ کے نام ہیں، لیکن قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی “روٴف رحیم” فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح “شکور” اللہ تعالیٰ کا نام ہے، لیکن قرآنِ کریم میں بندوں کو بھی “شکور” فرمایا گیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کو کسی دُوسرے پر بولنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کا ضابطہ یہ نکلا کہ معنی و مفہوم کے لحاظ سے اگر وہ نام اللہ تعالیٰ کے لئے مختص ہے تو اس کو کسی دُوسرے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص نہیں تو دُوسروں کے لئے اس کا استعمال جائز ہے۔
“نائلہ” نام رکھنا
س… “نائلہ” کیا عربی لفظ ہے؟ اس کے کیا معنی ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ یہ عزیٰ، لات اور نائلہ وغیرہ بتوں کے نام ہیں، جن کی کسی زمانے میں پوجا کی جاتی تھی، لیکن آج کل “نائلہ” نام لڑکیوں کا بڑے شوق سے رکھا جارہا ہے، کیا شرعاً “نائلہ” نام رکھنا جائز ہے؟
ج… جی ہاں! عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں: “عطیہ، سخی، حاصل کرنے والی”۔ یہ بعض صحابیات کا بھی نام تھا (اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا بھی)، اگر یہ ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تبدیل کرنے کا حکم فرماتے۔
“الرحمن” کسی انجمن کا نام رکھنا
س… ہمارے علاقے میں ایک “الرحمن فلاحی سوسائٹی” نامی ایک انجمن قائم ہوئی، یہ انجمن دِینی اور فلاحی کام انجام دیتی ہے۔ بتلائے “الرحمن” کسی انجمن کا نام رکھنا جائز ہے؟
ج… “الرحمن” اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے، کسی فرد یا انجمن کا یہ نام رکھنا جائز نہیں۔
اپنے نام کے ساتھ “حافظ” لگانا
س… اگر کوئی لڑکی یا لڑکا حافظ ہو اور اپنے نام کے آگے “حافظ” لگاسکتا ہے یا نہیں؟ جیسے “ارم” نام ہے تو “حافظہ ارم” لکھ سکتی ہے یا کہہ سکتی ہے یا نہیں؟
ج… اگر رِیاکاری مقصود نہ ہو تو جائز ہے۔
اپنے نام کے ساتھ “شاہ” لکھنا یا کسی کو “شاہ جی” کہنا کیسا ہے؟
س… ایک حدیث میں نے پڑھی تھی، کمی بیشی اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ “شاہ” لکھے یا کہلوائے، جیسے “شاہ جی”، “شاہ صاحب” وغیرہ تو وہ شخص گناہ گار ہوگا کیونکہ یہ نام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہی زیب دیتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج… حدیث میں “شہنشاہ” کہلوانے کی ممانعت آئی ہے، جس کے معنی ہیں “بادشاہوں کا بادشاہ”، یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ “سیّد” وغیرہ کو جو “شاہ صاحب” کہتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں۔
“سیّد” کا مصداق کون ہے؟
س… جنابِ عالی! میں آپ کا اسلامی صفحہ پابندی سے پڑھتا ہوں۔ مسائل اور ان کا حل پڑھ کر میری دِینی معلومات میں بڑا اضافہ ہوا۔ میرے ذہن میں بھی ایک سوال ہے جس کا حل چاہتا ہوں۔ اُمید ہے کہ جناب تسلی بخش جواب سے تمام قارئین کی معلومات میں اضافہ فرمائیں گے۔ اسلام سے قبل ہندوستان میں بت پرست قوم آباد تھی، جو کہ اپنے عقائد کے اعتبار سے چار ذاتوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ۱-برہمن، ۲-چھتری، ۳-ویش، ۴-شودر۔ پھر ان میں بھی درجہ بندی تھی، کوئی اُونچا، کوئی نیچا، اس بنا پر برہمن کے نام کے ساتھ اس کی شناخت کا کوئی لفظ شامل ہوتا ہے جیسے: “دوبے، تربیدی، چوبے” وغیرہ، جس وقت ہندوستان میں اسلام کا ظہور ہوا، اور لوگ انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے مسلمان ہونے لگے، مگر اسلام قبول کرنے کے باوجود ان میں ہندوانہ ذہنیت باقی رہی جو کہ آج تک مسلمان کسی نہ کسی شکل میں ہندووٴں کے رسم و رواج کو اپنائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہندووٴں کی طرح مسلمانوں نے بھی چار ذاتیں بنالیں۔ “برہمن” کے مقابلے میں “سیّد”، “چھتری” کے مقابلے میں “پٹھان”، اور بقیہ لوگ کوئی “شیخ” ہے، کوئی “مغل”۔ “سیّد” کے دو طبقے ہیں، سنی سیّد، شیعہ سیّد۔ پھر ان میں مزید درجہ بندی ہے جو کہ ہر “سیّد” اپنے نام کے ساتھ شناخت کے لئے کوئی لفظ استعمال کرتا ہے۔ جیسے: “صدیقی، فاروقی، عثمانی، علوی، جعفری” وغیرہ۔ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ: “میرا تعلق ایک ایسے گروہ سے ہے جو ہندوستان میں شراب کی تجارت کرتا تھا، سب لوگ اجتماعی حیثیت سے مسلمان ہوگئے، بعد کو خیال آیا کہ ہم کون سے مسلمان ہیں؟ سب نے فیصلہ کیا کہ ہم لوگ صدقِ دِل سے مسلمان ہوئے ہیں اس لئے ہم سب “صدیقی” مسلمان ہیں، اسی وجہ سے میں اپنے کو “صدیقی” لکھتا ہوں۔” اب میں اصل مدعا بیان کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ: ایک موقع پر لفظِ “سیّد” پر بات ہو رہی تھی تو میرے ایک دوست (جو کہ اسکول ماسٹر ہیں) نے کہا: “ایوب صاحب! آپ بھی سیّد ہیں” میں نے کہا: “میں تو سیّد نہیں ہوں” تو انہوں نے ایک موٹی سی کتاب لاکر مجھ کو دی اور کہا کہ اس کو پڑھئے۔ یہ کتاب کراچی کے ایک صاحب نے لکھی ہے اور غالباً وہ دو مرتبہ چھپ چکی ہے، اس میں لفظ “سیّد” پر بڑی تحقیق کی گئی ہے، اس میں بتایا ہے کہ لفظِ “سیّد” نہ تو خاندانی ہے اور نہ نسلی، یہ لفظ اسلام سے قبل عرب میں استعمال ہوتا تھا، “سیّد” کے معنی سردار کے ہیں، خاندان کے سربراہ کو “سیّد” کہتے تھے، یہود و نصاریٰ سب ہی اس لفظ کو استعمال کرتے تھے، ہر ایک زبان میں کوئی نہ کوئی لفظ عزّت و احترام کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ انگریزی میں “مسٹر” اور ہندی میں “شری مان”، اُردو میں “جنابِ عالی” و “محترم”۔ بطور ثبوت انہوں نے ایسے مضامین اور کتابیں دِکھائیں جہاں لفظِ “سیّد” استعمال ہوا ہے، کتابوں کے نام و مصنّفین کے ناموں کے ساتھ کہیں لفظِ “سیّد” استعمال ہوا ہے، کسی جگہ لفظِ “سیّد” احترام و بزرگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ “سیّد خاندان” اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی نہیں کرتے ہیں کہ ان کو کوئی اصل “سیّد” لڑکا نہیں ملتا ہے۔ اب مندرجہ بالا وضاحت کے بعد میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی اَحکامات کی روشنی میں:
اوّل:… جبکہ لفظِ “سیّد” نہ خاندانی ہے، نہ نسلی تو ہر مسلمان جو کہ اس کا مستحق ہے، اس کے نام کے ساتھ لفظِ “سیّد” استعمال ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ہر مسلمان ایک دُوسرے کا بھائی ہے اور اُونچ نیچ کی قرآن نے نفی کردی ہے۔
دوم:… جو لوگ اپنی تعریف خود کرتے ہیں، یعنی “سیّد” کہہ کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں سردار ہوں، عزّت دار ہوں اور قابلِ احترام ہوں، بزرگ ہوں، خواہ اس کا کردار کچھ ہی ہو، کیا یہ دُرست ہے؟ اس کے لئے کیا حکم ہے؟
سوم:… جو لوگ “سیّد” کا بہانہ کرکے لڑکیوں کی شادی نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… آپ کے سوال میں چند اُمور قابلِ تحقیق ہیں۔
اوّل:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کا جزوِ ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام اہلِ ایمان کے لئے سب سے بڑھ کر محبوب و محترم ہے، جیسا کہ ارشادِ ربانی:
“اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوٴْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہ اُمَّھَاتُھُمْ۔” (الاحزاب:۶)
اور حدیث:
“لا یوٴمن أحدکم حتّٰی أکون أحبّ الیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین۔” (مشکوٰة ص:۱۲)
سے واضح ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا لازمی نتیجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین سے محبت ہے، جس درجے کا تعلق ہوگا، اسی درجے کی محبت بھی ہوگی۔
دوم:… ہر شخص کو طبعاً اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد سے محبت رکھنا بھی اہلِ ایمان کے لئے تقاضائے ایمان ہے، اور متعدّد نصوص میں اس کا حکم بھی ہے۔
سوم:… جس طرح بادشاہ کی اولاد شہزادے شہزادیاں کہلاتے ہیں، اسی طرح سیّدالرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو “سیّد” کہا جاتا ہے، اور یہ لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سبطینِ کریمین رضی اللہ عنہما کے لئے خود استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: “ابنی ھٰذا سیّد” اور حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما کے حق میں فرمایا: “سیّدا شباب أھل الجنّة”۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ نہ بھی استعمال فرمایا ہوتا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو اپنا آقا اور سردار سمجھنا ہمارا فرض تھا کہ آقا کی اولاد بھی آقا کہلاتی ہے، یہی معنی “سیّد” کے ہیں۔
چہارم:… کسی شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں پیدا ہونا ایک غیراختیاری فضیلت ہے، جو لائقِ شکر تو بلاشبہ ہے مگر لائقِ فخر نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب اور نسبت کی ذمہ داریاں بھی بہت نازک ہیں، اولاد اپنے باپ کی جانشین اسی وقت کہلاتی ہے جبکہ اس کے نقشِ قدم پر ہو۔ جو شخص شہزادہ ہوکر چوہڑوں والے کام کرے، وہ چوہڑوں سے بدتر سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس کے نسب میں بھی شبہ ہوجاتا ہے کہ اس کا نسب واقعتا بادشاہ سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟ اسی طرح جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں پیدا ہوکر گندے عقائد، گندے اعمال اور گندے اخلاق میں مبتلا ہوتے ہیں ان کی حالت زیادہ خطرناک ہے، اور ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ پسرِ نوح کی طرح ان کے حق میں بھی “اِنَّہ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ” نہ فرمادیا جائے، چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“وأنتم ألا تسمعون (ان أولیاوٴہ الَّا المتقون) فان کنتم أولئک فذاک والا فانظروا یأتی الناس بالأعمال یوم القیامة وتأتون بالأثقال فنعرض عنکم۔ ثم رفع یدیہ فقال: یا أیھا الناس! ان قریشًا أھل أمانة فمن بغاھم العواثر أکبہ الله بمنخریہ، قالھا ثلاثًا۔”
(مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۶)
ترجمہ:… “کیا تم یہ نہیں سن رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے دوست صرف متقی اور پرہیزگار لوگ ہیں، پس اگر تم بھی متقی اور پرہیزگار ہو تب تو ٹھیک ہے، ورنہ دیکھو! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن دُوسرے لوگ تو اعمال لے کر آئیں اور تم بوجھ لادکر آوٴ، جس کے نتیجے میں ہم تم سے منہ موڑ لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اُٹھاکر فرمایا: لوگو! بے شک قریش اہلِ امانت ہیں، پس جو شخص ان سے خیانت کرے گا اور ان کی لغزشیں تلاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو نتھنوں کے بل اوندھا کردیں گے۔”
پس سیّدوں کو اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق و اَحوال کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہئے کہ وہ اپنے جدِ امجد سیّد الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر مناسبت رکھتے ہیں؟ نصاریٰ کی شکل و صورت اور وضع و قطع اپناکر اور بدکرداروں اور بدقماشوں کے اخلاق و اعمال اختیار کرکے “سیّد” کہلانا لائقِ شرم ہے۔
پنجم:… یہ گفتگو تو ان حضرات کے بارے میں ہے جو صحیح النسب “سیّد” ہیں، لیکن اس دور میں بہت سے جعلی سیّد بنے ہوئے ہیں۔ امیرِ شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری نے ایک ایسے ہی سیّد کے بارے میں مزاحاً فرمایا تھا: “بھئی! ہم تو قدیم سے سیّد چلے آتے ہیں، ہمارے سیّد ہونے میں تو شبہ ہوسکتا ہے کہ خدا جانے سیّد ہیں بھی یا نہیں، مگر فلاں صاحب کے سیّد ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ وہ تو میری آنکھوں کے سامنے سیّد بنا ہے۔”
یہ جعلی سیّد کئی جرائم کے مرتکب ہیں، اوّل: اپنے نسب کا تبدیل کرنا، جس پر دوزخ کی وعید ہے، حدیث میں ہے:
“من ادعٰی الٰی غیر أبیہ ․․․․ فعلیہ لعنة الله والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولا عدل۔” (مشکوٰة ص:۲۳۹)
ترجمہ:… “جس نے اپنا نسب تبدیل کیا ․․․․․ اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت، اس کا نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل۔”
ان لوگوں کا دُوسرا جرم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف محض جھوٹی نسبت کرنا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت کرنا بدترین گناہ اور ذلیل ترین حرکت ہے۔ تیسرے ان لوگوں کا مقصد محض جھوٹا فخر ہے اور فخر و تعلّی، خالق و مخلوق دونوں کی نظر میں رذالت اور کمینگی کی علامت ہے۔ چوتھے یہ لوگ اپنے رذیل اخلاق و اعمال کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذُرّیتِ طیبہ کے لئے ننگ و عار اور بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور لوگ ان کو دیکھ کر یوں سمجھتے ہیں کہ سیّد (نعوذ باللہ) ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ششم:… مگر ان نقلی اور جعلی سیّدوں کی وجہ سے ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم اولادِ رسول کی توہین و گستاخی کریں۔ ایک بزرگ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار ان سے کسی صاحب نے اپنی کوئی ضرورت و حاجت مندی ذکر کی اور کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہوں، مجھ سے تعاون فرمائیے۔ ان (بزرگ) کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ تم اولادِ رسول ہو؟ وہ صاحب اس کا کیا جواب دیتے؟ خاموش رہ گئے۔ رات کو وہ بزرگ خواب دیکھتے ہیں کہ میدانِ محشر قائم ہے اور لوگ شفاعت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہو رہے ہیں، یہ بزرگ بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کا اُمتی ہوں، میری بھی شفاعت فرمائیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تمہارے اُمتی ہونے کی کیا دلیل ہے؟ اگر میری اولاد کا اولاد ہونا بغیر دلیل کے قابلِ تسلیم نہیں تو تمہارا اُمتی ہونا بغیر دلیل کے کیسے تسلیم کیا جائے؟ اس بزرگ کو اپنی غلطی پر تنبیہ ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی۔
بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج و احباب (رضی اللہ عنہم) کے حق میں گستاخیاں کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں اب بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد کی بے ادبی کرنے لگے ہیں۔ جن صاحب کی موٹی سی کتاب کا آپ نے حوالہ دیا ہے، مجھے ان صاحب کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے، اور یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد کے خلاف نفرت و بغض کا اظہار کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف شوشے چھوڑتے رہتے ہیں، جن کا عقل و ایمان سے دُور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ میں آپ سے موٴدّبانہ ومخلصانہ التماس کروں گاکہ آپ اس گرداب میں مبتلا نہ ہوں۔ “سیّد” اگر سردار کو کہتے ہیں تو خود ہی سوچئے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہماری سردار نہیں تو کیا ہے؟ پس اگر ان کو اصطلاحِ عرفی کے طور پر “سیّد” کہا جائے تو ناگواری کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہمارے لئے لائقِ احترام نہیں؟ اگر ہم ان کو احتراماً “سیّد” کہتے ہیں تو آخر یہ کس دلیلِ عقلی یا شرعی سے ممنوع ہے؟
ہفتم:… اللہ تعالیٰ نے برادریاں، خاندان، قومیں، ذاتیں خود بنائی ہیں، جیسا کہ خود فرمایا ہے: “وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ” اور اس میں بہت سی مصلحتیں رکھی ہیں جن کی طرف “لِتَعَارَفُوْا” کے لفظ سے اشارہ فرمایا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ صفات و اخلاق اور ملکات بیشتر “أَبًا عنْ جَدٍّ” منتقل ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض خاندان اپنی خاندانی روایات اور اخلاق و صفات کی بنا پر ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور دُوسرے بعض خاندان اس اخلاقی معیار کو قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں، یہ بات روزمرّہ مشاہدے کی ہے، جس پر کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض خاندانوں کے تفوّق کو برقرار رکھا ہے، چنانچہ مشہور ارشاد ہے: “انسانوں کی بھی کانیں ہیں، جس طرح سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، جو لوگ جاہلیت میں شریف و معزَّز تھے وہ اسلام میں بھی بہتر و معزَّز ہوں گے، جبکہ دِین کا فہم حاصل کرلیں۔” اس ارشاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانوں کو سونے چاندی کی کانوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ بعض کانیں اعلیٰ اور عمدہ ہوتی ہیں اور بعض ناقص اور گھٹیا۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانِ قریش کے فضائل بیان فرمائے ہیں، جو حدیث کے ہر طالبِ علم کو معلوم ہیں۔
ہشتم:… بعض خاندانوں کا بعض سے اعلیٰ و اشرف ہونا تو عقلاً و شرعاً مُسلَّم ہے، لیکن اس مسئلے میں دو سنگین غلطیاں کی جاتی ہیں، اوّل یہ کہ بعض لوگ خاندانوں کو غرور اور فخر کا ذریعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزّت و کرامت کی چیز خاندان نہیں، بلکہ آدمی کا ذاتی نامہٴ عمل ہے، جیسا کہ: “اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقَاکُمْ” میں صراحتاً بیان فرمایا ہے، پس ذاتی اعمال سے قطعِ نظر کرکے کسی شخص کا سیّد، قریشی، ہاشمی، صدیقی، فاروقی ہونے پر فخر کرنا اور ان نسبتوں کو فخر کے طور پر اپنے نام کے ساتھ چسپاں کرنا، اس کی حماقت اور مردودیت کی علامت ہے، احادیث شریفہ میں نسب پر فخر کرنے کی شدید مذمت آئی ہے۔
دُوسری غلطی اس کے برعکس یہ کی جاتی ہے کہ معزّز خاندانوں کی توہین و تنقیص کی جاتی ہے اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسلام میں نسب اور خاندان کوئی چیز ہی نہیں، یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ قرب عنداللہ میں خاندان کو کوئی دخل نہیں بلکہ اس کا مدار اعمالِ صالحہ کی بدولت ولایت کے اعلیٰ ترین مقامات طے کرسکتا ہے اور دُوسرا شخص اعلیٰ ترین خاندان میں پیدا ہوکر اپنی بدعملی و بدکرداری کی وجہ سے جہنم کا کندہ بن سکتا ہے۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ: “ایک اعرابی اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا کہ بیٹا! عمل کر، قیامت کے دن یہ پوچھا جائے گا کہ تو کیا کماکر لایا؟ یہ نہیں پوچھیں گے کہ تیرا نسب نامہ کیا تھا؟” الغرض کسی فرد کی فضیلت و بزرگی کا مدار خاندان پر نہیں بلکہ علم و عمل اور زُہد و تقویٰ پر ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے دُنیوی مصالح کے لئے خاندان اور شعوب و قبائل بنائے ہیں اور ان پر کفو وغیرہ کے بعض مسائل بھی جاری ہوتے ہیں، مثلاً: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لئے زکوٰة حلال نہیں، اس لئے خاندانوں کا انکار کرنا اور شریف خاندانوں کی فضیلت کو پامال کرنا غلط ہے، درحقیقت اس کا منشا بھی کبر ہے۔
نہم:… خاندانوں پر فخر اور غرور کا ایک شعبہ یہ ہے کہ سیّد خاندان کی لڑکی کا غیرسیّد لڑکے سے نکاح جائز نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ والدین کی رضامندی سے سیّد لڑکی کا نکاح کسی بھی مسلمان سے ہوسکتا ہے، البتہ والدین کی رضامندی کے بغیر چونکہ بہت سی خاندانی اُلجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں، اس لئے غیرکفو میں لڑکی کا والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ سادات کے جدِ امجد حضرت علی بن حسین (رضی اللہ عنہما) نے جو “زین العابدین” کے لقب سے مشہور ہیں، اپنے غلام کو آزاد کرکے اپنی ہمشیرہ کا نکاح اس کے ساتھ کردیا، اور اپنی باندی کو آزاد کرکے اپنا نکاح اس سے کرلیا۔ اُموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے ان کو پیغام بھیجا کہ: “آپ نے خاندانِ قریش کی ناک کاٹ دی، آپ کی ہمشیرہ کے لئے اعلیٰ خاندان میں رشتے مل سکتے ہیں، مگر آپ نے اسے ایک غلام کے حبالہٴ عقد میں دے دیا، اور آپ کو اپنے لئے اُونچے سے اُونچا رشتہ مل سکتا تھا مگر آپ نے ایک باندی کو آزاد کرکے بیوی بنالیا۔”
جواب میں حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا: “تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ (یہ قرآنِ کریم کی آیت کا ایک ٹکڑا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو آزاد کرکے اپنی (پھوپھی زاد) بہن (حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا) کا عقد ان سے کردیا، اور حضرت صفیہ (رضی اللہ عنہا) کو آزاد کرکے ان سے اپنا عقد کرلیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کیا ہے۔”
مجھے اُمید ہے کہ آپ کے سوال نامے کے جواب میں یہ مختصر اِشارات کافی ہوں گے، وَ ِللهِ الْحَمْدُ اَوَّلًا وَّآخِرًا!
اچھے، بُرے ناموں کے اثرات
س… شریعت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ کسی کے نام کا اس شخصیت پر اثر ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر “زید” کے حالات خراب ہیں، اب وہ اپنا نام بدل لیتا ہے تو کیا اس کے نام بدلنے سے اس کی شخصیت پر اثر پڑے گا؟
ج… اچھے نام کے اچھے اثرات اور بُرے نام کے بُرے اثرات تو بلاشبہ ہوتے ہیں، اسی بنا پر اچھا نام رکھنے کا حکم ہے، لیکن “زید” تو بُرا نام نہیں کہ اس کی وجہ سے زید کے حالات خراب ہوں اور نام بدل دینے سے اس کے حالات دُرست ہوجائیں۔ اس لئے آپ کی مثال دُرست نہیں۔
“اصحاب” اور “صحب” دونوں الفاظ ہم معنی ہیں
س… ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر کورَس کی صورت میں دُرود شریف پڑھا جاتا ہے، اس کے تمام الفاظ یہ ہیں: “اللّٰھم صل علٰی محمد وعلٰی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلّم” براہِ کرم مطلع کریں کہ “اصحابہ” اور “صحبہ” دونوں الفاظ کا مطلب ایک ہی ہے یا تمام اصحاب کے لئے جمع کا صیغے میں لفظ “اصحابہ” کا استعمال دُرست ہوگا؟ آپ کے جواب پر ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کو توجہ دینی چاہئے۔
ج… “صحبہ” اور “اصحابہ” دونوں لفظ صحیح ہیں، اور دونوں کا ایک ہی مطلب ہے، یہ دونوں لفظ جمع کے صیغے ہیں۔
کیا کسی شخص کو “وکیل” کہنا غلط ہے؟
س… ایک صاحب فرماتے ہیں کہ: “پڑوسی ملک بھارت میں وکیل کو “بھاڑو” اور بیرسٹر کو “مہابھاڑو” کہا جاتا ہے، لہٰذا ہم تمہیں بھی یہی کہیں گے۔” عرض کیا کہ: “وہاں کی بات چھوڑیں، وہاں تو بت پرستی بھی ہوتی ہے، جو ہمارے مذہب میں ناجائز ہے، جو الفاظ نازیبا آپ استعمال فرما رہے ہیں وہ تو ہمارے ہاں بہت ہی بُرے معنی میں لئے جاتے ہیں، یعنی فاحشہ عورتوں کی ناجائز کمائی کھانے والے لوگ۔ ہمارے ہاں تو نکاح کے وقت دُولہا اور دُلہن کے بھی وکیل ہوتے ہیں، آیتِ قرآنی میں وکیل اس طرح آیا ہے: “حسبنا الله ونعم الوکیل” اور ہمیں اس کی پیروی کرتے ہوئے ایک بہتر مددگار بننے کی پوری کوشش کرنی چاہئے” تو وہ صاحب میرے بارے میں فرماتے ہیں: “تم کفر کے مرتکب ہو رہے ہو، جو صفت خدا نے اپنے لئے رکھی ہے اسے خود سے منسوب کرتے ہو” (واضح رہے کہ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں، میرا مطلب خدا کی پیروی ہے)۔ صاحب! اگر خدا اور اس کے فرشتے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود بھیجیں اور ایمان والوں کو بھی اس کا حکم ہو اور ہم بھی دُرود بھیجیں تو وہ کام جو اللہ پاک نے کیا، وہی ہم نے بھی کیا مگر اطاعتِ رَبی میں کیا، نہ کہ توبہ توبہ نعوذ باللہ کوئی اللہ میاں کی ہمسری میں؟ (اللہ معاف فرمائے) پھر اگر “حسبنا الله ونعم الوکیل” کی پیروی میں ہم بہتر وکیل اور بہتر مددگار بننے کی کوشش کریں تو پناہِ خدا! کیا واقعی ان حضرت کی رائے میرے لئے صحیح ہے؟ مجھے کس طرح توبہ کرنی چاہئے اور مجھے تو اپنی یہ بات غلط نہیں لگتی کہ جہاں اِلحاد، شرک اور بت پرستی ہوتی ہو، ہمیں وہاں کی بات نہیں ماننی چاہئے۔
ج… اللہ تعالیٰ کے پاک نام دو طرح کے ہیں، ایک وہ جن کا اطلاق کسی دُوسرے پر جائز نہیں، اور دُوسرے وہ جن کا اطلاق کسی دُوسرے پر بھی جائز ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ کا نام “الروٴف” بھی ہے، “الرحیم” بھی ہے، حالانکہ قرآنِ کریم میں یہ صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ذکر کی گئی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ایک نام “الوکیل” بھی ہے، اس کا استعمال دُوسروں کے لئے بھی جائز ہے، اگرچہ دونوں جگہ کے مفہوم میں وہی فرق ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہے، پس آپ کا موقف صحیح ہے اور ان صاحب کا موقف غلط ہے۔
کنیت کو بطورِ نام استعمال کرنا
س… میرا نام “ابوبکر” ہے، ایک دفعہ ایک عالم صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تو کوئی نام نہیں، صرف کنیت ہے۔ برائے مہربانی شریعت کی رُو سے مجھے مشورہ دیجئے کہ میں اپنا نام تبدیل کرلوں یا نام بڑھا دُوں یعنی نام کے بعد “ابوبکر” استعمال کروں؟
ج… کنیت کو بھی تو بطور نام کے استعمال کیا جاسکتا ہے، آپ کا نام صحیح ہے، بدلنے کی ضرورت نہیں۔
“ابو القاسم” کنیت رکھنا
س… ہمارے شہر میاں چنوں میں ایک شخص ہے جس کا نام صوفی محمد بشیر ہے، وہ عطریات کا کام کرتا ہے، اس نے ایک مدرسہ بھی بنایا ہوا ہے، اس نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام “اسرارِ ابراہیمیہ” ہے، اس کتاب پر انہوں نے اپنی کنیت “ابوالقاسم” لکھی ہے، یعنی بمعہ نام کے یوں لکھا ہے: “ابو القاسم صوفی محمد بشیر”۔ ان کے مدرسہ کی جانب سے جو اِشتہار نکلتا ہے اس پر کنیت “ابو القاسم” لکھا ہوتا ہے، اور میں نے سنا ہے کہ “ابو القاسم” کنیت صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، کوئی اپنی کنیت “ابو القاسم” نہیں رکھ سکتا۔ برائے مہربانی احادیث سے ثابت کریں کہ “ابو القاسم” کنیت صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یا نہیں؟ حضور کے علاوہ اور کوئی بھی اپنی کنیت “ابو القاسم” رکھ سکتا ہے؟
ج… مشکوٰة شریف میں ص:۴۰۷ کے حاشیہ میں “مرقاة” سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت پر “ابو القاسم” کی کنیت رکھنے کی ممانعت جمہور سلف اور فقہائے امصار کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک محدود تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی اجازت ہے۔ البتہ اِمام شافعی اور اہلِ ظاہر اب بھی ممانعت کے قائل ہیں۔
اپنے نام کے ساتھ “صدیقی” یا “عثمانی” بطور تخلص رکھنا
س… اگر کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ تخلص “صدیقی” یا “فاروقی”، “عثمانی” یا “علوی” شجرہٴ نسب کے حساب سے نہیں، عقیدت و محبت کی وجہ سے ملاتا ہے، مثلاً “غلام سروَر صدیقی” نام کے ساتھ ملانا جائز ہے یا نہیں؟ عقیدت و محبت کی وجہ سے۔
ج… عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے کسی بزرگ کی طرف نسبت کرنے کا تو مضائقہ نہیں، لیکن “صدیقی” یا “فاروقی” وغیرہ کہلانے میں تلبیس و تدلیس پائی جاتی ہے، سننے والے یہی سمجھیں گے کہ حضرت کو ان بزرگوں سے نسبی تعلق ہے اور غلط نسب جتانا حرام ہے، اس لئے یہ بھی دُرست نہ ہوگا۔
لقب اور تخلص رکھنا شرعاً کیسا ہے؟
س… ایک حدیث نظر سے گزری جو حسب و نسب کے بارے میں کچھ اس طرح ہے جیسے کوئی شخص “شیخ” “صدیقی” نہیں، مگر اپنے آپ کو “صدیقی” لکھے، یا “قریشی” نہیں ہے، اپنے آپ کو “قریشی” کہے یا نسباً “انصاری” نہیں ہے اور اپنے آپ کو “انصاری” کہے، یا “سیّد” نہیں ہے، “سیّد” کہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے باپ کی نسبت چھوڑ کر کسی دُوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے تو جنت اس پر حرام ہے۔ (مسلم، بخاری، ابوداوٴد) مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں اگر شاعر، مصنف، آرٹسٹ، ادیب اور دُوسرے مختلف حضرات شوقیہ اپنا تخلص: پروانہ، ناز، آسی، ناشا وغیرہ رکھ لیتے ہیں کیا یہ بھی اسی زُمرے میں آتے ہیں؟
ج… یہ حدیث نسب تبدیل کرنے سے متعلق ہے، کسی لقب یا تخلص کے اختیار کرنے کی (بشرطیکہ وہ بذاتِ خود غلط نہ ہو) اس میں ممانعت نہیں۔
اپنے نام کے ساتھ غیرمسلم کے نام کو بطور تخلص رکھنا
س… اگر کوئی آدمی اپنے نام کے ساتھ تخلص کے لئے کسی ہندو کے نام پر نام رکھ لے تو کیا یہ دُرست ہے اسلام کی روشنی میں؟
ج… جو نام ہندووٴں کے ساتھ مخصوص ہیں ان کو کسی مسلمان کے نام کا جز بنانا صحیح نہیں۔
ستاروں کے نام پر نام رکھنا اور خاص پتھر پہننا
س… یہ فرمائیے کہ یہ ستارگان دیکھ کر مثلاً: ستارہ عطارد، برج سنبلہ پر نام رکھا جاتا ہے، اور پھر پتھر لاجوردی، نیلم، زرقون وغیرہ پہنانے کے لئے کہا جاتا ہے، یہ شرعی طور پر کہاں تک جائز ہے اور اس کی کیا حیثیت ہے؟
ج… ان چیزوں پر یقین کرنا بے خدا قوموں کا کام ہے، ایک مسلمان کو ان چیزوں پر اعتماد کرنے کی ممانعت ہے۔
کیا “خدا” اللہ تعالیٰ کا نامِ مبارک ہے؟
س… قرآنِ کریم کی سورة الاعراف کی آیت نمبر:۱۸۰ میں ارشادِ ربانی ہے: “اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں، سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔” قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے ۹۹ نام ہیں، جن میں “خدا” نام نہیں ہے، لہٰذا آپ قرآنِ کریم کی رُو سے یہ بتائیں کہ “خدا” کہہ کر پکارنا کہاں تک دُرست ہے؟ نہایت ممنون ہوں گا۔
ج… یہ تو ظاہر ہے کہ “خدا” عربی زبان کا لفظ نہیں، فارسی لفظ ہے، جو عربی لفظ “رَبّ” کے مفہوم کو ادا کرتا ہے، “رَبّ” اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے اور قرآن و حدیث میں بار بار آتا ہے، فارسی اور اُردو میں اسی کا ترجمہ “خدا” کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس لئے “خدا” کہنا صحیح ہے اور ہمیشہ سے اکابرِ اُمت اس لفظ کو استعمال کرتے آئے ہیں۔
لفظِ “خدا” کے استعمال پر اِشکالات کا جواب
س… روزنامہ “جنگ” کراچی ۷/اگست ۱۹۹۲ء (اسلامی صفحہ اقرأ) میں بعنوان “اللہ تعالیٰ کے لئے لفظِ خدا کا استعمال” ایک سائل کا سوال اور آپ کا یہ جواب نظر سے گزرا کہ اسمِ ذات اللہ کا ترجمہ لفظ “خدا” سے کیا جاسکتا ہے، آپ کے اس موقف پر مختصر معروضات پیشِ خدمت ہیں۔
آپ کی یہ بات تو دُرست ہے کہ “قرآنِ کریم کا ترجمہ دُوسری زبانوں میں کیا جاتا ہے” لیکن اس سے آپ کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اسمِ ذات کا بھی ترجمہ کیا جاسکتا ہے، دُرست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں مذکورہ تمام انبیاء و رُسل کے ذاتی ناموں کا کوئی ترجمہ ہرگز نہیں کیا جاتا، لہٰذا ان کے اسمائے گرامی کو تراجم میں جوں کا توں قائم رکھا جاتا ہے مزید یہ کہ انبیاء اور رُسل کے علاوہ بھی جو دیگر انسانوں کے ذاتی نام قرآن پاک میں بیان ہوئے ہیں، ان تک کا ترجمہ بھی نہیں کیا جاتا ہے، آپ خود بھی تو انسانی اسمائے ذات کا کوئی ترجمہ نہیں فرماتے ہیں۔
جب صورت یہ ہو کہ قرآنِ کریم میں مذکور ایک عام انسان تک کے ذاتی نام کا ترجمہ جائز نہ ہو تو آخر مالکِ ُکل کائنات کے عظیم ترین ذاتی نام “اللہ” کا ترجمہ “خدا، بھگوان یا گاڈ” کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟ پھر یہ کہ قرآن سے قطع نظر پوری دُنیا میں بھی یہی اُصول رائج ہے کہ ذاتی ناموں کا ترجمہ کسی بھی زبان میں ہرگز نہ کیا جائے۔
محترم! ذرا سوچئے کہ جہاں عام انسان تک کے ذاتی نام کا اس قدر اہتمام و احترام ہو، وہاں تمام انسانوں کے خالق اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کا ترجمہ “خدا” کرکے اسمِ اعظم “اللہ” کے ساتھ کتنی بڑی جسارت، کتنی بڑی توہین اور کتنی بڑی بے حرمتی نادانستہ طور پر کی جاتی ہے، لہٰذا اس سنگین غلطی کا ازالہ ضروری ہے تاکہ اسمِ ذات “اللہ” کو صرف اور صرف اللہ ہی کہا اور لکھا جائے۔
مندرجہ بالا حقائق کے پیشِ نظر آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنے موقف پر نظرِ ثانی فرمائیں اور صحیح موقف “جنگ” میں ضرور شائع فرمادیں تاکہ آپ کے تمام قارئین کرام بھی اصلاح کریں۔
ج… آپ کا سارا خط اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ میں نے یہ کہا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ‘ کے اسمِ ذات “اللہ” کا ترجمہ لفظِ “خدا” سے کیا جاسکتا ہے، حالانکہ یہ مفروضہ ہی غلط ہے اور غلط فہمی پر مبنی ہے۔ میں نے سائل کے جواب میں یہ لکھا تھا کہ: “اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی نام کا دُوسری زبان میں ترجمہ کردیا جائے تو اس کے ناجائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟”
میں نے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام کا ترجمہ کرنے کو لکھا ہے، تعجب ہے کہ آپ جیسا فہیم آدمی اس کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے اسمِ ذات “اللہ” کا ترجمہ کرنے کو صحیح قرار دیا ہے۔ “اللہ” حق تعالیٰ شانہ‘ کا اسمِ ذات ہے، اس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا، نہ کوئی عاقل اس کے ترجمے کو صحیح کہہ سکتا ہے، میں نے اللہ تعالیٰ کے دیگر اسمائے حسنیٰ کے ترجمے کو لکھا ہے اور یہ کہ “خدا” کا لفظ اسمائے حسنیٰ مبارکہ میں سے کسی لفظ کا ترجمہ ہے۔
اب وضاحت سے لکھتا ہوں کہ لفظِ “خدا” حق تعالیٰ شانہ‘ کے اسمِ ذات “اللہ” کا ترجمہ نہیں، لفظِ “خدا” فارسی کا لفظ ہے، جس کے معنی مالک، صاحب، آقا اور واجب الوجود کے ہیں، غیاث اللغات میں ہے:
“خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند مگر در صورتے کہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔ وگفتہ اند کہ خدا بمعنی خود آئندہ است، چہ مرکب است از کلمہ “خود” و کلمہ “آ” کہ صیغہ امر است از آمدن، و ظاہر است کہ امر بترکیب اسم معنی اسم فاعل پیدا می کند، و چوں حق تعالیٰ بظہور خود بدیگرے محتاج نیست لہٰذا بایں صفت خواندند، از رشیدی، و خیابان و خان آرزو در سراج اللغات نیز از علامہ دوانی سو اِمام فخرالدین رازی ہمیں نقل کردہ۔”
ترجمہ:… “لفظِ “خدا” (خا کی پیش کے ساتھ) مالک اور صاحب کے معنی میں ہے۔ جب لفظِ “خدا” مطلق ہو تو حق تعالیٰ شانہ‘ کے علاوہ کسی دُوسرے پر نہیں بولتے، مگر جس صورت میں کہ کسی چیز کی طرف مضاف ہو، مثلاً کہ خدا، دہ خدا۔ اور علماء نے کہا ہے کہ لفظِ “خدا” کے اصل معنی ہیں خود ظاہر ہونے والا (یعنی جس کا وجود ذاتی ہو، کسی دُوسرے کا محتاج نہ ہو) کیونکہ “خدا” کا لفظ دو لفظوں سے مرکب ہے، “خود” اور “آ” اور ان کا لفظ آمدن سے امر کا صیغہ ہے، اور فارسی کا قاعدہ ہے کہ امر کا صیغہ کسی اسم کے ساتھ مل کر اسم فاعل کے معنی دیتا ہے، چونکہ حق تعالیٰ شانہ‘ اپنے وجود و ظہور میں کسی دُوسرے کے محتاج نہیں، اس لئے حق تعالیٰ کے لئے یہ صفت استعمال کی گئی۔ یہ مضمون “رشیدی” اور “خیابان” (دو کتابوں کے نام) سے مأخوذ ہے، اور خان آرزو نے بھی سراج اللغات میں علامہ دوانی اور اِمام فخرالدین رازی سے یہی نقل کیا ہے۔”
غیاث اللغات کی اس تصریح سے معلوم ہوا، لفظِ “خدا” اپنے اصل معنی کے لحاظ سے حق تعالیٰ شانہ‘ کا صفاتی نام ہے، یعنی وہ ذاتِ پاک جس کا وجود اپنا ذاتی ہے، اور وہ اپنے وجود میں کسی دُوسرے کا محتاج نہیں، اس لئے اس لفظ کا اطلاق حق تعالیٰ شانہ‘ کے سوا کسی دُوسرے پر نہیں ہوتا، اور یہ کہ یہ لفظ عربی لفظ “مالک” اور “رَبّ” کے ہم معنی ہے، جس طرح عربی میں لفظِ “رَبّ” مطلق بولا جائے تو اس کا اطلاق حق تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں، البتہ اضافت کے ساتھ استعمال کیا جائے، مثلاً: “رَبّ المال” (مال کا مالک)، “رَبّ البیت” (گھر کا مالک) تو اس کا اطلاق دُوسروں پر بھی ہوتا ہے، اسی طرح “خدا” کا لفظ جب مطلق بولا جائے تو اس سے مالک علی الاطلاق مراد ہوتا ہے اور وہ حق تعالیٰ شانہ‘ کی ذاتِ پاک ہے، اور جب یہ لفظ اضافت کے ساتھ بولا جائے جیسے کہ “خدا (گھر کا مالک) “دہ خدا” (گاوٴں کا مالک) تو یہ لفظ اضافت کے ساتھ دُوسروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
کیا پیدائش سے چند گھنٹوں بعد مرنے والے بچوں کے نام رکھنا ضروری ہے؟
س… جو بچے زندہ پیدا ہوئے اور چند گھنٹوں یا چند دن بعد مرگئے، ان کے نام رکھنا ضروری ہیں اور ایسے بچے جو دس پندرہ سال قبل مرچکے جن کے نام اس وقت نہیں رکھے گئے تو کیا اب ان کے نام رکھ دینا ضروری ہے؟
ج… ایسے بچوں کے نام رکھنے چاہئیں۔
غلط نام سے پکارنا یا والد کو “بھائی” کہنا، والدہ کو “آپا” کہنا کیسا ہے؟
س… کچھ لوگوں کے گھروں میں ایسا رواج ہے کہ بچے اور بلکہ بڑے بھی اپنے رشتہ داروں کو غلط نام سے پکارتے ہیں، مثلاً: بچہ اپنی ماں کو “بھابھی” اور باپ کو “بھائی” کہہ کر پکارتا ہے، اسی طرح باپ کو اس کے نام کے ساتھ “بھائی” کہہ کر پکارنا جیسے “ستار بھائی”، “عبداللہ بھائی” وغیرہ، اسی طرح کچھ بچے اپنی ماں کو “باجی” کہہ کر پکارتے ہیں یا “آپا” کہتے ہیں، آپ سے دریافت کرنا ہے کہ اس طرح نام لینا شرعاً کیسا ہے؟
ج… غلط نام سے پکارنا تو ظاہر ہے کہ غلط ہی ہے، اور کچھ نہیں تو کم سے کم جھوٹ تو ضرور ہے اور والدین کی توہین بھی ہے، اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ اور جن گھروں میں اس کا غلط رواج ہے اسے تبدیل کرنا چاہئے۔
غلط نام سے پکارنا
س… اکثر لوگوں کے نام عبدالصمد، عبدالحمید، عبدالقہار، عبدالرحیم، عبدالرحمن وغیرہ رکھے جاتے ہیں جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ ان کو صرف صمد، حمید، قہار اور رحیم وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں، پورا نام نہیں لیتے، حالانکہ یہ انتہائی سخت گناہ ہے کیونکہ یہ تمام نام اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں، کوئی انسان (نعوذ باللہ) صمد یعنی بے نیاز، حمید یعنی جس کی حمد کی جائے، اور قہار، رحمن، غفار کیونکر ہوسکتا ہے؟ ان ناموں کی متحمل تو صرف اور صرف اللہ کی ذاتِ عالی ہے۔ مہربانی فرماکر اس سلسلے میں کچھ روشنی ڈالیں کہ مسلمانوں کو اس قسم کے نام رکھنے چاہئیں یا نہیں؟
ج… نام تو بہت اچھے ہیں اور ضرور رکھنا چاہئیں، مگر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ غلط نام سے پکارنا دُرست نہیں بلکہ گناہ ہے، اس لئے پورا نام لینا چاہئے۔