ہیرو ایسے ہوتے ہیں

ہیرو ایسے ہوتے ہیں

میوزیم کی نیم تاریک گزرگاہوں میں شیشے کی بند الماری میں رکھی ہوئی تلواروں، چادر اور دیگر نوادرات کے ساتھ لکھی ہوئی تحریر گزشتہ 30 گھنٹوں سے مجھے ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کیے ہوئے ہے جہاں سے نکلنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ یوں لگتا ہے میں ماضی کی بھول بھلیوں مںی کھوچکا ہوں اور واپسی کا راستہ بھول چکا ہوں۔ اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا کا یہ میوزیم اس شہر کے بیچوں بیچ واقع ایک پہاڑی کے اوپر قلعے میں موجود ہے۔ اس میوزیم میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ برطانوی افواج کے ساتھ اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کی جنگوں کے حوالے سے بھی اور وہاں کے عوام کے شاندار اور تابناک ماضی کے بارے بھی۔ ایک تنگ و تاریک قیدخانہ بھی ہے جہاں مخالفین کے قیدی لاکر رکھے جاتے تھے۔ قید خانے کی دیواروں پر لکھی ہوئی ان کی بے بسی کی داستانیں ہیں۔ مرغیوں کے ڈربوں کی طرح بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے عقوبت خانے بھی، لیکن یہ تلواریں، چادر، چند تصویریں اور دیگر سامان وہاں کیوں موجود ہے؟ اس کا اسکاٹ لینڈ اور میوزیم کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے؟
اس سوال نے سب سے پہلے مجھے حیرت میں ڈالا۔ یہ سب سامان برصغیر پاک و ہند کے عظیم مجاہد اور شہید فتح علی ٹیپو سلطان کا ہے۔ یہ سب یہاں کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ اس مردِ حُر کو جس فوج نے شہید کیا تھا، اس کا سربراہ اور برطانوی فوج کا جرنیل ’’سر ڈیوڈ بیئرڈ‘‘ کا تعلق ’’ایڈنبرا‘‘ سے تھا۔

یہ شخص 6 دسمبر 1757ء میں ’’ایڈنبرا‘‘ کے ایک تاجر خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نے 1772ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ 1779ء میں اسے کیپٹن کی حیثیت سے ہندوستان بھیج دیا گیا۔ انہی دنوں کرنل ’’بیلی‘‘ کی سربراہی میں انگریز فوج ٹیپو سلطان کے والد اور میسور کے حاکم حیدر علی کے ساتھ جنگ میں مصروف تھی۔ ڈیوڈ بھی اس فوج کا حصہ بن گیا۔ اس جنگ میں انگریز کو بُری طرح شکست ہوئی۔ اکثریت ماری گئی اور بچے قیدی بنالیے گئے۔ ڈیوڈ شدید زخمی اور 4 سال قید میں رہنے کے بعد رہا ہوا۔ ایڈنبرا کے لوگ اس کی ماں کی بہادری کی داستان بھی بیان کرتے ہیں کہ کیسے اس نے بیٹے کی قید کے دوران صبر کا مظاہرہ کیا۔ رہائی کے بعد انگلستان آیا۔ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔ 1790ء میں دوبارہ ہندوستان بھیج دیا گیا۔ یہاں اس نے لارڈ کارنیوالس کے زیر سایہ ایک بریگیڈ کو کمانڈ کیا۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ جنگیں لڑیں۔

٭ ٹیپو سلطان ہندوستان میں برطانیہ کے مفادات کے لیے اتنا بڑا خطرہ ثابت ہوا تھا کہ اس کی موت کی وجہ سے برطانیہ میں قومی جشن منایا گیا۔ ٭

آخری جنگ میں 50 ہزار سپاہیوں نے حصہ لیا۔ برطانوی فوج کے سپاہی 26 ہزار تھے جن میں 4 ہزار گورے تھے اور باقی ہندوستان سے بھرتی کےس ہوئے۔ 16 ہزار گھڑسوار نظام حیدرآباد نے دیے۔ باقی مرہٹہ ہندوئوں نے حصہ لیا، جبکہ ٹیپو سلطان کے ساتھ 30 ہزار سپاہی تھے۔ جب میر صادق کی غداری کی وجہ سے برطانوی فوج قلعے کے کھلے دروازوں سے اندر داخل ہوئی تو ٹیپو سلطان کے ساتھ لڑنے والے فرانسیسی سپاہیوں نے اسے خفیہ راستے سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا جس پر اس نے اپنا تاریخی فقرہ کہا تھا: ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘ 4 مئی 1799ء کو اسلامی دنیا کے اس لازوال فرزند نے جامِ شہادت نوس کیا۔ لارڈ ولز لے نے نبض دیکھی۔ برطانوی فوج میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ اسی شام ٹیپو سلطان کو سپرد خاک کردیا گیا۔ اس رات میسور میں شدید طوفان آیا۔ بارہویں رجمنٹ کا لیفٹیننٹ رچرد بیلے لکھتا ہے: ’’میں نے طوفان، جھکڑ اور آندھیوں کا شور کئی بار دیکھا، مگر اپنی پوری زندگی میں کبھی میں نے ایسی تباہ کن صورت حال نہیں دیکھی۔‘‘ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ساتھیوں میں غلام حسین علی خان المعروف غلام حسینی نواب آف کرناٹک کا نام خاص طور پر تحریر کرتی ہے جس نے خفیہ طور پر انگریزوں کو مدد فراہم کی، لیکن جنگ جیتنے کے بعد انگریز نے پورے میسور پر حکومت کرنا چاہی تو غلام حسینی نے مخالفت کی۔
اپنی سربراہی پر اصرار کیا، جس پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے اُسے زہر دے کر ہلاک کردیا۔ ٹیپو سلطان کی داستان برصغیر پاک و ہند ہی نہیں، مسلم تاریخ کا بھی ایک روشن باب ہے۔ وہ نسل جو آج میرے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے، اسے اپنے ماضی سے اس قدر لاعلم کردیا گیا ہے کہ اسے علم ہی نہیں ان کے آبائواجداد کس جرأت و بہادری کے پیکر ہوا کرتے تھے، لیکن ایڈنبرا کے میوزیم میں یہ تمام نوادرات محفوظ ہیں جو ٹیپو سلطان کے قاتل کو بطور تحفہ عطا کردیے گئے تھے،
لیکن ان نوادرات کے ساتھ ایک تحریر ہے جس کے الفاظ میرے شکستہ خوابوں اور گمنام آرزوئوں کے لیے ایک ایسا زخم ہیں جو اس میوزیم کی سیر کے دوران لگا اور شاید عمر بھر اس سے ٹیسیں اُٹھتی رہیں۔ تحریر یوں ہے: ’’ٹیپو سلطان ہندوستان میں برطانیہ کے مفادات کے لیے اتنا بڑا خطرہ ثابت ہوا تھا کہ اس کی موت کی وجہ سے برطانیہ مںت قومی جشن منایا گیا۔‘‘
یہ تحریر بتاتی ہے کہ قومیں کیسے اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں، لیکن وہ قوم جو اب برطانیہ میں لکھی جانے والی نرسری کی نظموں اور انہیں لکھی ہوئی کتابوں کی لوریوں کو پڑھ کر جوان ہورہی ہے۔ اسے کیا خبر کہ اس کا کوئی ماضی بھی تھا جس پر فخر کیا جانا چاہیے۔ دنیا میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے اپنے ماضی پر فخر نہ کیا اور اس میں غیرت، محبت، عظمت اور اعتماد کے چراغ روشن ہوئے ہوں۔ دوسروں کی عظمتوں کی کہانیاں پڑھ کر جوان ہونے والے مرعوب ذہن اور مردہ ضمیر لے کر پلتے اور پسماندگی کی دلدل میں زندگی گزارتے ہیں۔