ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے معاشی برتری کا خواب اس وقت تک پورا نہیں کیا جب تک اس کے پاس ایک مضبوط فوجی قوت موجود نہ تھی جو دنیا بھر میں اس کے مفادات کا تحفظ کرتی۔ دنیا بھر کی معیشتوں کے استحصال کی کہانی عالمی سودی نظام، کاغذ کی جعلی اور فراڈ کرنسی کے ذریعے مصنوعی دولت کے بل بوتے پر فوجی طاقت میں اضافے کے گرد گھومتی ہے۔ 1694ء میں جب بینک آف انگلینڈ کا چارٹر حاصل کیا گیا تو اسی سال اس بینک نے کاغذ کے نوٹوں کا اجرا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیابھر میں سونا اور چاندی سرمائے کے معیار کے طور پر بازاروں مں استعمال ہوتے تھے۔ اس سے پہلے جولائی 1690ء میں برطانیہ کو Beachy Head کی جنگ میں بدترین شکست ہوئی تھی۔ اس کے 11 بحری جہاز تباہ ہوگئے تھے۔ فرانس کا رودبارِ انگلستان پر تسلط ہو گیا تھا۔ برطانیہ کا پوری دنیا پر معاشی اور فوجی برتری کا خواب چکنا چور ہو رہا تھا۔ اس زمانے میں ایک طاقتور بحری فوج ہی عالمی غنڈہ گردی کی علامت تھی۔ خزانہ خالی ہو چکا تھا۔
ایسے میں یہودی سود خوروں کے جھتے نے بینک آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی۔ کاغذ کی جعلی کرنسی جاری کی، جس نے صرف 12 دن کے اندر ایک کروڑ 20 لاکھ پونڈ اکٹھا کر کے حکومت کے حوالے کیے تا کہ وہ ایک مضبوط بحریہ ترتیب دے سکے۔ یہاں سے 8 فیصد اجتماعی سود کا آغاز ہوا جو پوری قوم کوادا کرنا پڑا اور سالانہ 8 ہزار پونڈ سروس چارجز کے دھندے کا آغاز ہوا۔ اس طرح پوری قوم کو سود کے لالچ میں ڈال کر اس کے سرمائے کو حکومت کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
فوجی طاقت اور سود کے علاوہ ایک تیسری چیز معاشی برتری کے ضروری تھی ا ور وہ تھی آبادی۔ اس وقت آبادی کو کم کرنے کے نعرے نہیں لگائے گئے۔ یہ تو بعد میں محکوم قوموں کو مغلوب کرنے کے لیے بلند کیے گئے۔ 1721ء تک برطانیہ کی آبادی 71 لاکھ سے ایک کروڑ 42 لاکھ ہوگئی، یینب دگنی ہوگئی۔
عوام کے ہاتھوں میں جعلی کرنسی دے کر سود کے لالچ میں گرفتار کرتے ہوئے جو سرمایہ حاصل کیا گیا اس سے فوجی طاقت بڑھائی گئی۔ صنعتوں کا جال بچھایا گیا جسے یہ لوگ صنعتی انقلاب کہتے ہیں۔ فوجی بحری جہاز افریقہ کے ساحلوں پر کھڑے ہوتے اور وہاں سے غلاموں کو جانوروں کی طرح پکڑ پکڑ کر اپنے کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے لایا جانے لگا۔ امریکا کے مشرقی ساحلوں سے لے کر بنگال بنارس اور جارجیا تک برطانوی کاروباری کمپنیاں مال کمانے لگیں۔ ان تمام کے تحفظ کے لیے برطانوی جنگی جہاز موجود ہوتے۔
٭ قومیں جب زوال کے آخری کنارے پر جا پہنچیں تو انہیں غفلت کے تالاب میں مزید دھکا دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ خود بخود پھسلتی ذلت کی گہرائیوں میں اترنے لگتی ہیں۔ ٭ سراج الدولہ سے ٹیپو سلطان تک اور پھر آخر میں 1857ء کی مفلوک الحال اور باجگذار مغلیہ سلطنت کا خاتمہ، سارے ہتھکنڈے آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ٭
پورے بحراو قیانوس اور بحرہند میں ان جنگی جہازوں کا راج تھا۔ ان کی نگرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی تجارتی کمپنیاں مقامی تجارت اور صنعت کو تباہ کر کے اپنے مال کی کھپت پیدا کرتیں۔ 30 لاکھ سے زیادہ افریقی لوگوں کو غلام بنا کر کھیتوں میں کام پر لگایا گیا۔ ان تمام کمپنیوں کو سرمایہ بینک آف انگلینڈ فراہم کرتااور یہ کمپنیاں واپس اپنا منافع وہاں جمع کرواتیں۔اس سرمائے سے حکومت کو کھل کھیلنے کا اختیار حاصل تھا۔ آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ نئی نئی طاقتیں دنیا کے نقشے پر ابھرآئیں۔ ان کا کام اس سودی نظام اور اس سے جنم لینے والے کا رپوریٹ کلچر کی برتری کا تحفظ کرنا، قوموں کو مغلوب کر کے ان میں اپنے لیے سرمایہ کاری اور منافع خوری کے منافع فراہم کرنا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 45 ہزار کارپوریٹ کمپنیاں ہیں، جن کو 500 بنیادی کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں۔ ان کو 20 بڑے بینک سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ لوگوں کے ہاتھ میں جعلی کاغذی نوٹ تھما کر سود کے لالچ میں گرفتار کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ جتنا فوجی قوت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اتنی ہی مغلوب اور محکوم قوموں کی زندگیاں عذاب بنتی جا رہی ہیں۔ کہیں منڈیوں پر قبضہ کرنے کے لیے زبردستی قرضوں میں جکڑا جاتا ہے تو کہیں وسائل کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے وہاں خون خرابے کرائے جاتے ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اپنی مرضی کے حکمران مسلط کیے جاتے اور آخری کار کسی ملک میں اپنی فوجیں بھی اتار دی جاتی ہیں۔ افریقہ جیسے معدنی وسائل سے مالا مال براعظم کی تباہی وبربادی اور قحط و بیماری اس مہذب دنیا کے منہ پر بدترین تھپڑ ہے۔ جنوبی امریکا سے لے کر ویت نام اور پھر افغانستان و عراق تک معاشی برتری اور بالادستی کا یہ گھن چکر فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہی چلایا جاتا ہے۔ طاقت اور معیشت کا توازن بدلتا ہے تو پرانی طاقتیں اسٹیج سے ہٹ جاتی ہیں اور نئی یہاں آکر دھماچوکڑی مچاتی ہیں۔ انگلینڈ، جرمنی اور جاپان پیچھے ہٹے تو امریکا اور روس آگئے، پھر امریکا ہی رہ گیا، مگر اب اس کھیل میں چین اور بھارت اپنے گھوڑوں پر زین کس رہے ہیں۔
ان دونوں ممالک کی نا آسودہ تمنائوں کا راستہ پاکستان سے ہو کر گذرتا ہے۔ چین تو اپنے مشرق کی سمت بھی اثر ورسوخ رکھتا ہے اور شمال کی جانب بھی، لیکن بھارت کا خواب برصغیر کی قدیم راجدھانی پر معاشی اور فوجی قبضہ مستحکم ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کا اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ 2010ء سے 2015ء تک بھارت 80 ارب ڈالر کے اسلحے کی خریداری کے معاہدات کرچکا ہے۔ اس ضمن میں زمینی فوج سے زیادہ فضائی اور بحری افواج کی طرف توجہ دی جاری ہے۔نئے طیاروں کی خریداری ساڑھے 30 ارب ڈالر سے کی گئی ہے۔ اسی طرح بحری افواج کے ذریعے سے جس طرح پورے بحرِ ہند میں اپنا اثروسوخ بڑھانے کے لیے کوشش اس سے اندازہ ہوتا ہے اس کے جہازوں اور فیلٹوں کی نظر جنوبی چین کے سمندر، بحرالکاہل اور بحیرہ احمر تک ہو جائے گی۔ دنیا کے تمام فوجی رسائل اس صورت حال کو جس تشویش سے دیکھ رہے ہیں، اس کا ایک فیصد بھی پاکستان میں نظر نہیں آتا۔
قومیں جب زوال کے آخری کنارے پر جا پہنچیں تو انہیں غفلت کے تالاب میں مزید دھکا دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ خود بخود پھسلتی ذلت کی گہرائیوں میں اترنے لگتی ہیں۔ معاشی برتری کا طریقِ کار آج بھی وہی ہے۔ پہلے اندرونی خانہ جنگی سے کسی ملک کو کھوکھلا کردو، حکمرانوں کی حیثیت باجگذار اور مرعوب و ظیفہ خواروں جیسی ہو جائے تو پھر ایسے میں کبھی عوام سراٹھانے کی کوشش کریں تو امن اور تجارتی مفادات کے تحفظ کے نام پر فوجی کارروائی کردو۔ سراج الدولہ سے ٹیپو سلطان تک اور پھر آخر میں 1857ء کی مفلوک الحال اور باجگذار مغلیہ سلطنت کا خاتمہ، سارے ہتھکنڈے آج بھی ویسے ہی ہیں۔ معاشی برتری فوجی طاقت کے بل بوتے پر، لیکن اس دفعہ خواب بھارت دیکھ رہا ہے۔ اس کا جنوں اٹھارہویں صدی کے برطانیہ اور بیسویں صدی کے امریکا جیسا ہے، لیکن بھارت کے اس جنون کے راستے میں پاکستان آتا ہے۔ وہ پاکستان جس کے رہنما بھارت سے دوستی کا خواب دیکھ رہے ہیں، جس کی عسکری قیادت گذشتہ تیرہ سال سے ایک ایسی جنگ لڑرہی ہے جس کا سارا مفاد امریکا کا ہے اور جس کی زد میں آکر پورا ملک جہنم بنا ہوا ہے، اور جس کے عوام اپنے حال میں مست ہیں، کوئی غربت کے جہنم میں جل کر خاموش ہے اور کوئی بددیانتی اور لوٹ مار کی دلدل میں ہوش کھو بیٹھا ہے۔ ایسے میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟