منبر و محراب کے سرکاری کنٹرول کا خواب
اوریا مقبول جان پير 13 مارچ 2017
دہشتگردی کو ختم کرنے کا تیسرا مجرب اور آسان نسخہ ’’موصوف‘‘ جدید عالم دین نے یہ دیا تھا کہ مساجد کے منبر دراصل ریاست کی ملکیت ہیں اور انھیں علمائے کرام سے واپس لے کر ریاست کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔ یہ ریاست نام کی چڑیا جسے جدید دور کے علم سیاسیات کے مفکرین نے ایجاد کیا اور اس کے چار اجزائے ترکیبی بتائے۔ (1 اقتدار اعلیٰ، (2 حکومت، (3 علاقہ اور (4 عوام۔
یہ ایک ایسا سیکولر تصور تھا جس کے تحت پوری انسانیت کو رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر تقسیم کرکے ان پر علاقائی حکومت قائم کرنا تھا اور اس حکومت کو ’’بااختیار‘‘ کہہ کر یہ عندیہ دینا تھا کہ اب اقتدار اعلیٰ یعنی سب سے بڑا اختیار عوام کے پاس ہے اور اب یہ ریاست نام کی چڑیا مکمل ہوگئی ہے، کیونکہ یہ اپنے قوانین بنانے، اپنے فیصلے کرنے اور اپنی خود مختاری کا تحفظ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ چونکہ یہ ریاست نام کی چڑیا کہیں نظر تو نہیں آتی تھی اس لیے کہا گیا کہ حکومت ہی ریاست کی اصل ترجمان ہے۔ یعنی حکومت کو Organ of State کے لقب سے پکارا گیا۔
یہ حکومت جسے اقتدار اعلیٰ کے تخت پر بٹھا کر دراصل اس بات کا اعلان کرنا مقصود تھا کہ اس کائنات میں انسانوں سے اوپر اور کائنات سے بالا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے جسے قوانین بنانے کا اختیار ہو۔ ایسی ریاست کو ’’موصوف‘‘ مساجد کے منبروں کا کنٹرول دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے 22 جنوری 2015ء کو شایع ہونے والے مضمون ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ میں ریاست کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر کیا تھا:
’’یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرار داد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔‘‘
اسی مضمون میں ایک جگہ اور تحریر فرماتے ہیں:
’’نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے‘‘
موصوف کے اس مضمون کا اس عاجز اور کم علم نے حتی المقدور جواب انھی دنوں اپنے کالموں میں دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ منبر و محراب اسی ریاست کی ملکیت رہے ہیں جب خلافت علی منہاج النبوہ قائم تھی اور جسے تمام امت مسلمہ چودہ سو سال سے خلافت راشدہ کہتی آئی ہے اور جس کی بنیاد سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جمعہ کے خطبوں میں دہراتی جاتی رہی ہے ’’تم پر واجب ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت‘‘۔ اس امت کے فقہا، علماء اور صاحبان علم چودہ سو سال سے ان احادیث کو احسن اور صحیح مانتے چلے آئے ہے۔
خلافت اگر ایک دینی اصطلاح نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ سورہ ’’ص‘‘ کی چھبیسویں آیت میں یہ نہ فرماتے کہ ’’اے داؤد بے شک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنا دیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلے فرمائیں‘‘ یہ طویل بحث ان مضامین میں آچکی ہے لیکن آج مجھے انتہائی حیرت ہوئی جب موصوف نے خلافت راشدہ کے اس بنیادی اصول کو دہشتگردی سے نجات کا راستہ بتایا کہ مساجد کے منبر دراصل ریاست کی ملکیت ہیں اور انھیں علماء سے لے کر واپس ریاست کو لوٹا دینا چاہیے۔
’’حضرت‘‘ یہ لکڑی کے بنے ہوئے خوبصورت منبر نہیں‘ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کو منبر رسول کہا جاتا ہے اور اس تصور پر امت میں موجود تمام مسالک متفق ہیں کہ یہ صرف اور صرف عابد وزاہد، نیک و متقی حکمرانوں کا مقام ہے بلکہ فقہ جعفریہ کے نزدیک یہ معصوم اماموں اور زہد و تقویٰ اور علم دین کے وارث ’’مراجع‘‘ کا حق ہے۔ اس منبر رسول کا اسقدر احترام کیا جاتا رہا ہے کہ جب سیدنا ابو بکرؓ منصب خلافت پر سرفراز ہوئے تو آپؓ اس نشست پر نہیں بیٹھے جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا کرتے تھے۔ اس کے بعد سیدنا عمرؓ ایک اور نشست نیچے بیٹھا کرتے تھے۔
اس منبر پر اپنے اپنے علاقوں کے امیر، والی اور گورنر جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔ یہ منصب اس وقت تک ان حاکموں کے پاس بغیر کسی اختلاف کے رہا‘ جب تک وہ قرآن و سنت میں بتائے گئے اصولوں، قوانین اور شرائط کو خود پر نافذ کرتے تھے۔ اسی لیے اس امت نے بالاتفاق صرف اور صرف پانچ شخصیات کو خلافت راشدہ اور منبر رسول کا مستحق قراردیا۔ یعنی حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ اور پھر بنو امیہ جیسی ملوکیت کو ترک کرکے خلافت راشدہ کی سنت قائم کرنے والے حضرت عمر بن عبدالعزیز اس عظیم مسند کے وارث ٹھہرے۔ لیکن جوں ہی مسند خلافت پر متمکن افراد میں وارثان منبر رسولؐ کی طرح کی خصوصیات ختم ہو گئیں تو اس امت نے ان سے یہ منبر چھین لیے۔
یہ کسی سرکاری حکم نامے سے نہیں ہوا بلکہ امت کا تاریخی اور اجتماعی فیصلہ تھا کہ اب حکمران اس مسند کے اہل نہیں رہے‘ اس لیے ہم ان کو منبر رسول کی مسند پر نہیں رہنے دیں گے۔ اس کے بعد ہدایت کے پیکر اور سنت رسول پر عمل پیرا متقی، عابد، زاہد اور علماء اس منبر کا حق ادا کرتے رہے اور حکمرانوں کی غلطیوں، دین سے مختلف راستہ اختیار کرنے اور ظلم و جور پر آواز بھی بلند کرتے رہے۔ گزشتہ پانچ چھ سو سال سے یہ منبر علماء کے پاس اس لیے ہیں کہ اس امت نے یہ اجتماعی فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اس منبر پر بیٹھنے کے قابل حکمران نہیں آتے ہم ان کو یہ منبر نہیں دیں گے۔
میں یہاں اس منبر پر بیٹھے آج کے دور کے علماء کے زوال کی کہانی بیان نہیں کرنا چاہتا۔ ایک الگ باب ہے۔ لیکن ’’موصوف‘‘ کے گوش گزار اس امت کی تمام فقہوں کا متفقہ مؤقف عرض کردوں کہ یہ منبران رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان حکمرانوں کا حق ہے جو قرآن و سنت پر عمل کریں اور اسے نافذ کریں۔ جب ایسی حکومت آتی ہے تو یہ منبر خود بخود انھیں منتقل ہوجاتا ہے، اس کے لیے کسی انتظامی حکم نامے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
منبر اسلام میں کوئی علیحدہ منصب نہیں، یہ صالح حکمرانوں کا حق ہے۔ لیکن ’’موصوف‘‘ یہ نہیں کہتے کہ اس ملک میں نفاذ اسلام اور قرآن و سنت پر مبنی قانون کے تحت قرآن و سنت پر عمل پیرا حکمران ہونے چاہئیں بلکہ وہ ایسی کوشش کا قرارداد مقاصد کے حوالے سے مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن یہ تجویز دیتے ہیں کہ منبر ریاست کو واپس کردیے جائیں، یعنی ایسا کرنے کے بعد اسلام آباد کی فیصل مسجد میں آصف زرداری، ممنون حسین، نواز شریف یا یوسف رضا گیلانی خطبہ دیں گے، کراچی میں قائم علی شاہ، کوئٹہ میں اسلم رئیسانی یا ثناء اللہ زہری اور پنجاب کے شہر لاہور میں شہباز شریف بادشاہی مسجد میں امامت کروائیں گے۔
ہر شہر میں چونکہ ڈپٹی کمشنر ریاست کا نمایندہ ہوتا ہے اس لیے منبر پر اسے بیٹھنا ہے، اب خواہ وہ کرپٹ ہو، تمام شرعی عیب رکھتا ہو، جمعہ کا خطبہ تو اسے ہی دینا ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ جو ہو سکتا ہے ’’موصوف‘‘ کے ذہن میں ہو کہ ہر مسجد میں ایک ’’سرکاری خطیب‘‘ مقرر کردیا جائے جو ’’الموارد‘‘ سے خطبہ لکھوا کر آئے اور پڑھ کر سنادے۔ ویسے ہی جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں میں آجکل ہوتا آیا ہے۔
پاکستان میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے اوقاف کی بنیاد رکھ کر ایسے سرکاری خطیبوں کی ایک کھیپ تیار کی تھی اور ان کو مساجد کے منبروں پر بٹھایا تھا۔ ہر صوبے کے سیکریٹری اوقاف کا ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، بے نظیر، نواز شریف اور مشرف کے ادوار میں یہی کردار تھا کہ ایسے مولویوں کی بسیں بھر کر علماء اور مشائخ کنونشن کروانا اور حکومت کی پالیسیوں کا دینی جواز پیدا کرنا۔ کیا ایسا کرنے سے لوگوں نے ان علماء کو اپنا دینی رہنما مان لیا تھا۔ تاریخ اس کے بالکل برعکس گواہی دیتی ہے۔ منبر کو سرکاری تحویل میں لینے کا خواب دیکھنے والے ایوب خان کے زمانے میں عید کے چاند پر اختلاف ہوگیا۔
حکومت نے جس دن عید کا اعلان کیا، اس دن کی ان ’’سرکاری مولویوں‘‘ کے پیچھے سرکاری ملازم بھی نماز پڑھنے نہ گئے اور اگلے دن کی عید میں لوگوں نے شرکت کر کے یہ ثابت کیا کہ منبر سرکاری تحویل میں لینے سے عقیدے سرکاری تحویل میں نہیں جاتے۔ اس امت نے چودہ سو سال یہ روش اپنائی اور اپنے دین کا تحفظ کیا۔ اب یہ کسی کے مشوروں سے تبدیل نہیں ہو گی۔ البتہ ایسے مشورے ان سیکولر حضرات کو یہ خواب ضرور دکھاتے ہیں کہ ایک دن ہم مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرلیں گے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔