معاشی انقلاب کی کہانی
دنیا میں زندہ قومیں آئین کی غلام نہیں ہوتیں، بلکہ آئین ان کی خواہشات، اُمنگوں اور آرزئوں کا غلام ہوتا ہے۔ ان کی اُمنگیں اور آرزوئیں بدلتی ہیں تو وہ اس میثاق کی کتاب کو بھی بدل دیتے ہیں۔ ایسی قوموں کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ ان کے ملک کی سیاسی قیادت مفادات کی گروی ہے۔ عوام پر مخصوص طبقات کی حکمرانی ہی اس دستاویز کا مقصد ہے تو پھر وہ ایسے نمایندوں سے آئین تحریر کرنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ یہ سب ایک خواب نہیں ہے،بلکہ دنیا کے ایک مہذب ترین ملک نے اسے حقیقت بنا کر دکھایا ہے۔یہ ملک ایسا نہیں جہاں کوئی خونی انقلاب آیا ہو۔ یہ کسی فوجی آمر کے برسرِ اقتدار آنے کی کہانی بھی نہیں، بلکہ یہ تو سودی نظامِ بینکاری میں جکڑے ہوئے ایک جمہوری ملک آئس لینڈ کی صرف پانچ سال پرانی داستان ہے۔ ایک ایسا قصہ جسے فرسودہ جمہوریت اور کارپوریٹ سودی نظام میں جکڑی انتخابی سیاست کا غلام میڈیا بیان نہیں کرتا۔
یہ تو چند سال پہلے کی بات ہے جب2008میں دنیا بھر میں سودی بینکاری نظام اپنے فراڈ اور جھوٹی کاغذی کرنسی کی وجہ سے ڈوبنے لگا تو امریکا سے لے کر یورپ کے ہر بڑے معاشی ہیڈ کوارٹر پر دھرنے اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ بینکوں نے اپنی ساکھ اور عمارت بچانے کے لیے
سود کی شرح صفر کے قریب کرلی، لیکن آئس لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہنگامے اور دھرنے اس قدر زور پکڑے کہ منتخب حکومت کو مستعفی ہونا پڑا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پوری قوم کو ایک عوامی پارلیمنٹ تصور کرتے ہوئے ایسے 30 غیرسیاسی لوگوں کو منتخب کیا گیا جو ملک میں علم اور تجربے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ ان 30 افراد کو کہا گیا کہ تم ہمارے ملک کا ایک نیا آئین تحریر کرو جو ان تمام غلاظتوں اور جتھ بندیوں سے پاک ہو۔ایسی خرابیاں جو کارپوریٹ سرمائے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے دھرنے سے اس طرح کی تبدیلی کی یہ واحد مثال ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی خوفزدہ کارپوریٹ کلچر کی گروی جمہوریتوں نے اپنے ملکوں کے میڈیا پر اس کی خبر تک نہ آنے دی۔
وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو کارپوریٹ سرمایہ کنٹرول کرتا ہے۔ کارپوریٹ سرمایہ سودی بینکاری کے فراڈ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ہنگامہ اکتوبر 2008ء سے لے کر 2010ء میں آئین کے ازسر نو تحریر کرنے تک چلتا رہا، لیکن سی این این جیسے عالمی چینل پر بھی اسے ایک معمولی خبر کے طور دکھایا گیا۔ پورے امریکا میں اس خبر کا بائیکاٹ کیا گیا، لیکن عوامی احتجاج کے ذریعے ایک جمہوری، لیکن بددیانت حکومت کے خاتمے پر لوگ سوشل میڈیا پر متحرک رہے۔ اس پورے انقلاب پر ایک ڈاکو منٹری بھی بن چکی ہے جس کا نام ہے: ’’Pots Pans & other solutions‘‘۔ انقلاب کی یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ 18 اکتوبر 2008ء کی سرد دوپہر ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی نااہلی کے خلاف ایک شخص ’’Hordur‘‘ اپنا گٹار اور مائیکروفون لے کر ایک مرکزی چوراہے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ لوگوں کو بلا بلا کر حکومت کے خلاف بولنے کے لیے بلانے لگا۔ ایک ہفتے میں وہاں ایک ہجوم جمع ہونا شروع ہوگیا۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا وہ ہر ہفتے یہاں جمع ہوں گے۔ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گے۔ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک حکومت چلی نہیں جاتی۔
٭ قومیں ارتقائی منازل سے گزرتی ہیں تو اپنے میثاق بھی بدلتی ہیں اور اپنے قانون بھی۔ بوسیدہ کپڑے اُتارے نہ جائیں، ان کی بدبو اور غلاظت سے بدن میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ٭ ہمارا جمہوری اور آئینی نظام بھی وہ بوسیدہ ملبوس ہے جو چند طبقات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایک خارش زدہ جسم کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا صحت مند معاشرے کی طرح؟ ٭
20 جنوری 2009ء تک مظاہرے بڑھ گئے اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ اس دن پولیس نے ان پر کالی مرچوں کا اسپرے کیا۔ لاٹھی چارج کیا۔ پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سے 20 لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ ہنگامے زور پکڑے، پارلیمنٹ کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ دھواں پھیلانے والے بم پارلیمنٹ کی کھڑکیوں سے پھینکے گئے۔ وزیراعظم کی کار پر 21 جنوری کو خالی ڈبوں، انڈوں اور برف کے گولوں سے حملہ کیا گیا۔ ہجوم نے تمام سرکاری عمارتوں کا گھیرائو کر
22 جنوری کو پولیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔ آئس لینڈ کی تاریخ میں ایسا 60 سال بعد ہوا۔ پہلے آنسو گیس 1949ء میں استعمال ہوئی جب لوگ نیٹو کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ ہجوم نے دھرنا جاری رکھا۔ سرکاری عمارتوں پر پتھرائو شروع کردیا۔ 23 جنوری کو وزیراعظم ’’ Geir Haardelthat‘‘ نے 25 اپریل کو وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، لیکن عوام نے کہا کہ ہم اس آئین اور اس سسٹم کے تحت الیکشن نہیں مانتے۔ ہمیں ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔ عوام کے مطالبے پر 26 جنوری کو وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہوگئیں کہ ہمیں ایک نیا آئین مرتب کرنا ہوگا۔ وہ پارٹیاں جو سب سے کم نمایندگی رکھتی تھیں، ان کو ملا کر ایک نگران حکومت بنائی گئی۔ انہوں نے عوام کے مطالبے پر فیصلہ کیا کہ تمام عوام کو آئین بنانے میں شریک کیا جائے۔ پورے ملک سے 1500 لوگوں کو بلایا گیا جسے عوامی پارلیمنٹ کہا گیا۔ یہ لوگ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں میں سے 25 لوگوں کو آئین تحریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس انتخاب کے خلاف پرانی وضع اور فرسودہ جمہوری نظام کے دیوانے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔
سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر 2010ء میں ہونے والے یہ غیرسیاسی الیکشن غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دے دیے، لیکن پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ انہوں نے کہا کہ جو عدلیہ عوام کی اُمنگوں، آرزو اور خواہشات کے مطابق نہ ہو،اس کے فیصلے نافذ العمل نہیں۔آئین تحریر کیا گیا۔ پرانا آئین مسترد ہوا۔ 29 جولائی 2011ء کو اس کا ڈرافٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔اس کے بعد انہوں نے اس معاشی بدحالی کے ذمے دار وزیراعظم کو سزا دینے کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا۔ اپنے وزیراعظم کو وہاں مجرم کے طور پر کھڑا کر دیا۔ اس انقلاب میں نہ کوئی خون بہا اور نہ ہی قتل وغارت ہوئی، لیکن پورے ملک کاآئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہوگیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمنٹ کو گھیرا تھا، ان کی تعداد 3 ہزار سے 5 ہزار تک تھی، لیکن کسی نے یہ سوال تک نہ کیا کہ یہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے؟ کسی نے یہ جملہ بھی نہ بولا کہ یہ لوگ جمہوریت کو پٹری سے اُکھاڑنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ سب سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا، کہ عوام کے تمام مطالبات درست ہیں۔
پوری قوم ایک ایسے آئین اور ایسے جمہوری نظام کی غلام ہو چکی ہے جو کارپوریٹ سرمائے اور سودی بینکاری کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ان بینکوں نے پوری قوم کو ایک نہ ختم ہونے والے سودی قرضے میں جکڑا۔ اسی سرمائے سے سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کا تابع بنایا۔ لوگوں نے اس محکوم سیاسی نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینک دیا۔ کیا ہمارا سیاسی جمہوری نظام بھی چند طبقات اور چند آئینی شقوں کا غلام نہیں ہے؟ آپ آج ریفرنڈم کرائیں کہ اس نظام سے اگلے 100 سال میں بھی کسی صاحبِ علم، اہل اور عام آدمی کو راستہ مل سکتا ہے تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ قومیں ارتقائی منازل سے گزرتی ہیں تو اپنے میثاق بھی بدلتی ہیں اور اپنے قانون بھی۔ بوسیدہ کپڑے اُتارے نہ جائیں، ان کی بدبو اور غلاظت سے بدن میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارا جمہوری اور آئینی نظام بھی وہ بوسیدہ ملبوس ہے جو چند طبقات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایک خارش زدہ جسم کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا صحت مند معاشرے کی طرح؟