طوفانِ مغرب نے مسلمان کردیا

طوفانِ مغرب نے مسلمان کردیا

ایک صدی سے بھی کم عرصے میں اسی ملک برطانیہ کے نشریاتی اداروں پر ایک ایسی درخواست اور اپیل نشر ہوئی جس کا تصور بھی شاید آج سے 20 سال قبل کسی نے نہیں کیا ہوگا۔ یہ تو وہ ملک ہے جس نے ملت اسلامیہ کو ٹکڑوں میں بانٹنے، رنگ، نسل، زبان اور علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک بھرپور سازش کا آغاز کیا تھا۔ اسی دھرتی نے لارنس آف عربیہ کو جنم دیا جس کو مختلف خفہب ایجنسیوں نے کئی سال اس مقصد کے لیے ہزار گُر سکھائے۔ اسلامی تعلیمات اور عربی زبان و بیان کا ماہر بنایا اور اسے یہ کام سونپا گیا کہ مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت، خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ خلافتِ عثمانیہ کسی جنگ سے ختم نہ ہوئی، بلکہ اُمتِ مسلمہ میں زبان، رنگ، نسل اور علاقے کی عصبیت کا بیچ بوکر اسے ممکن بنایا گیا۔
اس کے بعد کی کہانی ایک مسلم اُمہ کے درجنوں ٹکڑوں کی کہانی ہے۔ ان ٹکڑوں کو موجودہ ’’تہذیب یافتہ‘‘ دور میں قومی ریاستیں کہا جاتا ہے۔ ان ریاستوں کے باشندوں کو ادب، تاریخ، سیاسیات اور نصابِ تعلیم کے ماہرین گزشتہ 100 سال سے دن رات یہ سکھانے میں مصروف ہیں کہ تقریباً 5 درجن کے قریب مسلمانوں کی قومیں ریاستیں دراصل صدیوں سے علیحدہ علیحدہ شناخت رکھتی تھیں۔ مصر والے فرعونوں کے وارث ہیں۔ عراق والے دجلہ و فرات کی عظیم تہذیبی تاریخ کے امین ہیں۔ ایران والے سائرس اعظم اور پاکستان والے وادیٔ سندھ کے فرزند ہیں۔ غرض! علم کی ایک

شاخ وضع کی گئی جس کے ذریعے ہر خطے کو اس کے ہزاروں، بلکہ لاکھوں سالہ ماضی کے ساتھ جوڑ کر اس کے باسیوں میں عقیدہ راسخ کردیا گیا کہ ان ملکوں میں رہنے والے لوگ بس اچانک کسی ایک دور میں مسلمان ہوگئے تھے، اس لیے ان کی آیندہ نسلیں بھی مسلمان ہی چلی آرہی ہیں۔ ان کا کسی دوسرے ملک یا علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے۔ ان کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہے اور اپنا رہن سہن۔ ان کا کلچر، ثقافت، آثارِ قدیمہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ صرف یہ بات لوگوں کے ذہن میں بٹھانے کے لیے زبردست محنت کی گئی کہ انڈونیشیا میں بسنے والے مسلمان کا ہندوستان کے مسلمان سے کوئی تعلق نہیں۔ عراق میں آباد مسلمان کی مصر کے مسلمان سے ایک الگ تہذیب اور ثقافت ہے۔
قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے ایک عالمی منافقت کے دور کا آغاز ہوا۔ انہیں یہ باور کرایا گیا قوموں کے باہمی تعلقات صرف اور صرف مفادات کی بنیاد پر ہوسکتے ہیں۔ ان میں دوستی، محبت یا بے غرض تعلق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ روابط کے اس جدید نظام کو دو طرفہ تعلقات کی سفارت کاری کہا گیا۔ اس منافقت کے علم کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ڈپلومیسی کے نام پر پڑھایا گیا۔ آپ کبھی دنیا کے کسی بھی سفارت خانے کے اعلیٰ سطح کے ملازم سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو اس یک گول مول باتیں میں سے بڑی مشکل سے سچ تلاش کرنا پڑے گا۔ پوری دنیا میں سفارت کاروں کی اپنی ایک الگ زبان ہوتی ہے اور اس کے اپنے مطالب۔ سفارت کاری کی یہ پوری کی پوری تربیت قومی تعصب کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہے۔ پھر ایسے لفظ ایجاد کیے جاتے ہیں جن کے کئی مطالب ہوں۔ یہ مفادات کی دنیا اور قومی مفادات کا تعصب ہی ہے جو ریاستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دست بگریبان کرتا ہے۔ آج کے دوست کل کے دُشمن اور کل کے دوست آج کے دُشمن بن جاتے ہیں۔ جب پوری دنیا اس طرح تقسیم کردی گئی ہو تو ایسے میں اُمت مسلمہ یا بحیثیت مسلمان کاا یک قوم کا تصور تو خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ کون اس بات پر یقین کرے کہ ان کے پیغمبر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسدِ واحد کی ہے،
اگر ایک عضور کو کانٹا چبھتا ہے تو پورا بدن اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے (مفہوم)۔ اس جسدِ واحد کو 57 سے زیادہ ٹکڑوں میں تقسیم کرکے یہ لوگ مطمئن تھے کہ اب ہم نے اس تصور کو مسلمانوں کے خوابوں سے بھی نکال دیا کہ وہ ایک ملت یا ایک قوم ہوسکتے ہیں۔
لیکن کیا کریں 11 ستمبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے بقول اقبال ’’مسلماں کو مسلمان کردیا طوفانِ مغرب نے‘‘ اس اُمت میں ایسے سرفروشوں کے دل دھڑکنے لگے جو اگر یمن میں بھی تھے تو بوسنیا اور چیچنیا کے لیے بے تاب تھے اور سوڈان میں پلے بڑھے تھے، مگر افغانستان کے بھائیوں کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔ یہ تو خیر مسلمان اُمت کے ممالک کی بات ہے، لیکن وہ لوگ جو برطانیہ کی درس گاہوں میں پل بڑھ کر جوان ہوئے، جنہیں یہاں کی نرسری نظموں کی لوریاں ملیں، جنہوں نے عظمتِ برطانیہ کے ترانے اپنے نصابوں میں پڑھے، جو نسلاً گورے تھیا ور گوروں کو عظیم تر سمجھتے تھے۔ ان لوگوں نے جب اسلام کی حقانیت کو سمجھا اور کلمۂ طیبہ کو اپنے سینے میں اُتارا تو ان میں ملتِ اسلامیہ کے جسدِ واحد ہونے کا تصور ایسا راسخ ہوا کہ آج برطانیہ کے نشریاتی اداروں پر برطانوی پولیس کی جانب سے برطانوی مائوں کے لیے ایک اپیل نشر ہوئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو شام میں جاکر اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑنے سے روکیں۔ اس وقت تقریباً 22 برطانوی گورے مسلمان شام کے محاذ پر حافظ الاسد کی آمریت کے خلاف اور اس کی بربریت کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے جہاد کسی مدرسے سے نہیں سیکھا۔ آکسفورڈ، کیمبرج اور لندن اسکول آف اکنامکس سے سیکھا ہے۔ یہ ہے وہ المیہ جس نے ایک صدی پہلے کے برطانیہ کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ پوری اُمت کو نسل اور رنگ کے نام پر تقسیم کرنے والی عظیم مملکت کے اپنے لوگ اس نعرے پر یقین کرنے لگیں گے: ’’بتانِ رنگ و بود کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا۔‘‘