بلا لو اپنے اللہ کو
اوریا مقبول جان پير 22 فروری 2016
جمعہ خان صوفی کی کتاب ’’فریبِ نا تمام‘‘ ہاتھ میں آئی تو ستر اور اسّی کی دہائیاں آنکھوں میں گھوم گئیں۔ اس مملکت خداداد پاکستان کے روشن خیال، ترقی پسند اور قوم پرست رہنماؤں، دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں میں کمیونسٹ انقلاب کا غلغلہ تھا۔ امریکا، برطانیہ، یورپ اور ان کی جمہوریت فیض احمد فیض کے نزدیک بھی گالی تھی اور شاہی قلعے میں جان دینے والے حسن ناصر کے نزدیک بھی۔ کچھ روس کی جانب نگاہیں جمائے کھڑے تھے اور اکثر چین کے مداحین میں شامل تھے۔
چینی سفارت خانے سے مفت لٹریچر، رسالے اور ساتھ میں سرخ رنگ والا بیج ملتا تھا جس پر سنہری پانی سے ماؤزے تنگ کا چہرہ ابھرا ہوا ہوتا تھا۔ کوئی سیاسی جلسہ، جلوس، ریلی یا کانفرنس ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں امریکا کو گالی نہ دی جاتی ہو۔ بورژوا یعنی سرمایہ دار اور پرولتاریہ یعنی مزدور، دو ایسے الفاظ تھے جو زبان زد عام تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں ایسے کتنے تھے جو یہ خواب لے کر شامل ہوئے کہ اس شخص کی کرشماتی شخصیت کے ذریعے ہم اس ملک میں کمیونسٹ انقلاب لے آئیں گے۔ لیکن جیسے ہی مرحوم نے چوہدریوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو شامل کرنا شروع کیا تو پہلے سخت قسم کے انقلابی چھوڑ گئے اور اقتدار میں آنے کے بعد جے رحیم اور معراج محمد خان کا حشر دیکھتے ہوئے باقی بھی قوم پرست سیاست میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔
یہ قوم پرستی بلوچ اور پختون علاقوں میں ایک عرصے سے ایک مستحکم تحریک کی حیثیت رکھتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی انا پرستی اور آمرانہ سوچ نے جب بلوچستان کی جمہوری حکومت توڑی اور وہاں فوجی ایکشن شروع کیا تو خیبر پختونخوا جو اس وقت سرحد کہلاتا تھا، وہاں کی حکومت مستعفی ہو گئی، غداری کے مقدمے شروع ہوئے اور بلوچ، پختون افغانستان میں پناہ گزین ہو گئے۔ دراصل، پاکستان بننے کے ساتھ ہی بھارت اور افغانستان کی مدد سے پختونستان کی علیحدگی کی تحریک کی آبیاری کی جا رہی تھی۔ اس تحریک کو روس کی کمیونسٹ حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔
1920 میں سوویت یونین کے قیام کے صرف تین سال بعد آذر بائیجان میں علاقائی قومیتوں کی کانفرنس ہوئی تھی جس میں بلوچ اور پشتون وفد شامل تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ قوم پرستی کے ذریعے کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کی جائے گی۔ جمعہ خان ان قوم پرست انقلابیوں میں سے تھا جس نے پاکستان سے افغانستان ہجرت کی اور ان تمام تخریب کاریوں اور دہشت گردیوں کا حصہ رہا جو روس، بھارت اور افغانستان کے سرمایہ اور مدد سے پاکستان میں کی جاتی تھیں۔ اس نے ان رازوں سے اس کتاب میں پردہ اٹھایا ہے۔ وہ دیباچے میں لکھتا ہے ’’اس جلاوطنی کے دوران میں بھارت، سوویت یونین، افغانستان سے داؤد خان، حفیظ اللہ امین، ترہ کئی، کارمل اور ڈاکٹر نجیب تک سب کے ساتھ براہ راست رابطہ میں رہا۔
اس دوران پاکستان میں ولی خان اور بلوچستان کی آزادی کے داعیوں کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رہا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے سیاسی مقصد کے نام پر بڑے بڑے لوگ اور خاندان پیسے کماتے اور نام بناتے ہیں‘‘۔ جمعہ خان انگریزی لٹریچر میں 1970 میں لیکچرار مقرر ہوا لیکن ساتھ ساتھ وہ 1971 میں صوبہ سرحد میں کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل میں بھی شامل تھا۔ اس نے اجمل خٹک کے ذریعے ماسکو کا خفیہ دورہ کیا اور وہاں ٹرینگ حاصل کی۔ 23 مارچ 1973 کو جب بھٹو حکومت نے لیاقت باغ میں حزب اختلاف کے جلسے میں موجود نہتے عوام پر گولیا ں برسائیں تو نیپ نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگوں کو افغانستان بھیجا جائے تا کہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کا آغاز ہو۔ ان لوگوں میں جمعہ خان بھی شامل تھا۔
ولی خان آنکھوں کے علاج کے بہانے 1973 کے آخر میں لندن جانے کے بجائے کابل گیا ، اور وہاں تمام حالات کا خود جائزہ لیا اور پھر فوراً بعد بلوچ نوجوان ٹریینگ کے لیے افغانستان آنا شروع ہو گئے۔ یہاں جمعہ خان نے ان تمام معاملات کا ذکر کیا ہے کہ کن راستوں سے بلوچوں اور پشتونوں کو اسلحہ وغیرہ دے کر پاکستان بھیجا جاتا تھا ۔ ’’کو کران‘‘ اور ’’زابل‘‘ میں دو کیمپ تھے جن میں سات ہزار لوگوں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔ انھی لوگوں نے 8 فروری 1975 کو بم دھماکے سے حیات محمد خان شیر پاؤ کا قتل کیا اور وہ مہمند ایجنسی کے راستے افغانستان پہنچ گئے۔
جمعہ خان نے اس کتاب میں ان تمام پشتون اور بلوچ رہنماؤں کا کھل کر تذکرہ کیا ہے جو روس اور بھارت سے سرمایہ حاصل کر کے پاکستان میں دہشت پھیلانے کے لیے کارروائیاں کراتے تھے۔ جمعہ خان ایک جگہ لکھتا ہے۔ ’’ہم جو ہندوستان کے دوست تھے، اپنے مشترکہ دشمن پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور مشترکہ دوست افغانستان میں بیٹھے سرگرم تھے۔،، اس نے ہندوستانی سفیر سے ملاقاتوں، بھارتی سرمائے اور ٹریننگ کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے ، اس میں ولی خاں اور دیگر بلوچ لیڈروں کا کھل کر تذکرہ کیا ہے۔
پاکستان کے وہ ’’عظیم‘‘ مورخ اور ’’دانشور‘‘ جو اس قوم کو گمراہ کرتے ہیں کہ ہم نے افغانستان کے معاملات میں مداخلت شروع کی اسی لیے ہم بدامنی کا شکار ہیں ان کے منہ پر جمعہ خان صوفی کی یہ کتاب ا یک طمانچے سے کم نہیں۔ اسی کتاب میں اس نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکمت یار، ربانی، احمد شاہ مسعود، یونس خالص، محمد نبی اور قاضی امین قادر، جون 1974میں پاکستان آئے اور بھٹو نے نصیر اللہ بابر کو انھیں جوابی کارروائی کے طور پر ٹریننگ دینے کے لیے مامور کیا۔ جن لوگوں کی تاریخ ضیاء الحق سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے ان کے لیے اس کتاب کی حقیقت کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔
لیکن اس ساری جنگ و جدل میں مجھے آج بھی وہ ایام یاد آتے ہیں جب نور محمد ترکئی نے افغانستان میں حکومت سنبھالی تو پاکستان میں کمیونسٹ دانشور اور سیاسی کارکن یہ نوید دے رہے تھے کہ سرخ سویرا اب ہماری سرحدوں پر دستک دے رہا ہے۔ 30 اپریل 1978کو آنے والے اس انقلاب کو ثور انقلاب کہا جاتا تھا۔ ادھر انھی دنوں میں ایران کی کمیونسٹ ’’تودہ‘‘ پارٹی اور مجاہدین خلق نے شاہ کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا اور 1979 میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن وہاں قیادت مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ کمیونسٹ مایوس نہ ہوئے، لیکن ظاہر ہے انقلاب کی خونریزی کمال کی ہوتی ہے۔
مجاہدین خلق کو منافقین اور امریکی ایجنٹ کہہ کر مولویوں نے قتل کر دیا اور انھیں جیلوں میں پھانسی دے دی گئی۔ وہ جو پاکستان کی دونوں سرحدوں سے سرخ سویرے کی آمد کے خواب دیکھتے تھے اب صرف افغانستان سے ان کی امیدیں وابستہ رہ گئیں اور جیسے ہی دسمبر 1979 میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، پاکستان کے کمیونسٹ انقلابیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دور کے تبصرے، مضامین، یہاں تک کہ شاعری نکال کر دیکھ لیں، سرحدوں سے سرخ سویرے کی خوشبوؤں کی آمد کے تذکرے تھے۔ وہ جو بھٹو کی پیپلزپارٹی سے مایوس ہوچکے تھے زور زور سے مذہبی قوتوں کو للکارتے کہ دیکھو بس چند دن کی بات ہے، تمہارا حشر بھی تاجکستان اور ازبکستان کے مولویوں کی طرح ہونے والا ہے۔
کتنے دن اور اپنی مسجدوں کو بچاؤ گے، کتنے دن اور اپنی داڑھیاں رکھ لو گے۔ ہمارا مرحوم دوست آفتات مفتی تازیانہ اخبار کا ایڈیٹر تھا، عالمی تبصرہ نگاری کرتے ہوئے کہا کرتا تھا اب دنیا پر کمیونزم کا راج آنے والا ہے، اگر چاہتے ہو تو بلا لو اپنے اللہ کو کہ وہ اسے روک لے۔ بلوچستان اور سرحد میں حالات گھمبیر نہ تھے۔ ہمیں حیرت ہوتی تھی۔ لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہاں کے انقلابیوں نے جمعہ خان صوفی کی طرح ان وطن فروش لیڈروں کا چہرہ افغانستان میں دیکھ لیا تھا۔
دوسری بات ضیاء الحق کا عام معافی کا اعلان تھا جس نے پورے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اگلے دس نہیں بلکہ بیس سال امن کے نام لکھ دیے۔ ایسے میں پہلے دو سال افغان مجاہدین نے پاکستان کی بقا، سلامتی اور اس کی سرحدوں کی جنگ افغانستان کی سرزمین پر اپنے خون سے لکھی۔ ضیاء الحق آج تک اس لیے گالی ہے کہ اس نے ان تمام دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے خواب چکنا چور کر دیے جو اس سرزمین پاکستان پر واپسی روسی ٹینکوں اور روسی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔
دو سال بعد امریکا اور مغربی دنیا کو اندازہ ہوا کہ افغانوں کے ذریعے روس کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ہر مغربی ملک اس جہاد میں کودا اور یوں اس جہاد نے پاکستان کی سرحد سے روسی افواج کو اس قدر دور دھکیل دیا کہ خود روس کا کمیونزم ذلت آمیز موت کا شکار ہو گیا۔ لینن گراڈ میں لینن کا مجسمہ گرا دیا گیا۔ وہ جو کہتے تھے بلاؤ اپنے اللہ کو کہ روک لے روس کی افواج کو، ایسے خاموش ہوئے کہ میرا دوست آفتاب مفتی مجسمہ گرتے دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا۔ جو سخت جان تھے وہ جس امریکا اور مغرب کو روز گالیاں دیتے تھے انھی کے سفارت خانوں میں اپنی این جی اوز کے لیے گرانٹ کی درخواستیں لے کر لائن میں کھڑے نظر آئے۔
کمیونسٹ روس کے ختم ہوتے ہی چند ماہ بھی صبر نہ کر سکے اور امریکا کے دروازے سامنے بھکاریوں کی طرح جا کھڑے ہوئے۔ آج ان کے منہ سے افغان جہاد، امریکا اور ضیاء الحق کی مخالفت سنتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ لیکن کیا کریں میرا اللہ بھی بہت غیرت و حمیت والا ہے۔ جو اس کے دروازے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے وہ اسے دربدر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
نوے فیصد
جاوید چوہدری اتوار 21 فروری 2016
’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی اور آواز نے مجھے چونکا دیا، میں نے اس کی طرف دیکھا، وہ آنکھیں بند کر کے تسبیح کر رہی تھی، اس کے چہرے پر سفید دودھیا جھریوں کا جال بچھا تھا، میں نے اس سے پہلے کسی چہرے پر اتنی جھریاں نہیں دیکھی تھیں، شکنیں ہی شکنیں، جھریاں ہی جھریاں لیکن ان جھریوں، ان شکنوں میں بھی ایک تقدس تھا، اس کے چہرے پر نور بھی تھا اور کشش بھی اور یہ کشش اور یہ نور دیکھنے والے کی نظروں کو جکڑ لیتا تھا، میں بھی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔
ٹرین چل رہی تھی، کھڑکیوں کے منظر بدل رہے تھے، پہاڑ جھیلوں میں گر رہے تھے، جھیلیں جنگلوں میں بدل رہی تھیں، جنگل دریاؤں میں تبدیل ہو رہے تھے، دریا آبشار بن رہے تھے، آبشاریں کھیتوں میں ڈھل رہی تھیں، کھیت دیہات اور گاؤں بن رہے تھے اور گاؤں شہروں کی شکل میں تبدیل ہو رہے تھے اور یہ سب مل کر نیلے آسمان میں جذب ہو رہے تھے، ہم جرمنی سے سوئٹزرلینڈ میں داخل ہو رہے تھے، ٹرین کی کھڑکیاں عظیم فوٹوگراف بن چکی تھیں، اپریل کا مہینہ تھا، سورج کی کرنوں میں تندی آ چکی تھی، ریلوے لائین کے دونوں طرف پھول ہی پھول اور سبزہ ہی سبزہ تھا، ہمارا ڈبہ نوجوان سیاحوں سے بھرا تھا، یہ لوگ جرمنی کے کسی غیر معروف شہر سے ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔
یہ مہینوں کے جگراتے کا شکار تھے چنانچہ یہ ٹرین میں سوار ہوتے ہی آڑھے ترچھے ہو کر لیٹ گئے، ان کے رک سیک پورے ڈبے میں بکھرے پڑے تھے اور ہم دونوں ان بکھرے رک سیک اور سوئے نوجوانوں میں بے وقوفوں کی طرح باہر دیکھ رہے تھے، وہ میرے سامنے کی نشست پر بیٹھی تھی، وہ ننوں کے سیاہ لباس میں ملبوس تھی، سر پر اسکارف تھا، چہرے پر بزرگی کی جھریاں تھیں اور ہاتھ میں پتھر کی موٹی تسبیح۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ،تسبیح ہم دونوں میں ’’کامن‘‘ تھی، میرے ہاتھ میں بھی تسبیح تھی، میں بھی اس کی طرح ورد کر رہا تھا مگر میرے ورد اور اس کے ورد میں فرق تھا۔
وہ عبرانی زبان میں بدبدا رہی تھی اور میں عربی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا تھا، یہ تسبیح مجھے پروفیسر احمد رفیق صاحب نے 1993ء میں دی تھی، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے، یہ تسبیحات اس وقت سے میرے شب و روز کا حصہ ہیں، اللہ نے رحم فرمایا اور میں پچھلے 22 برسوں سے بلاناغہ یہ تسبیحات کر رہا ہوں، میں دنیا کے جس کونے میں بھی رہا اور جس حالت میں بھی رہا میری تسبیح جاری رہی، میں اللہ سے رابطے میں رہا، مجھے کبھی اس کی نعمتوں کے شکر اور اپنی کوتاہیوں، خامیوں اور گناہوں پر توبہ کے بغیر نیند نہ آئی، میں ڈسپلن میں رہنے والا جانور ہوں اور اس ڈسپلنڈ جانور کو اپنی تسبیح کے ڈسپلن پر سب سے زیادہ ناز ہے، پروفیسر احمد رفیق میرے پیر یا استاد نہیں ہیں، یہ میرے محسن ہیں، یہ ان کا احسان تھا انھوں نے عین جوانی میں میرے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی اور میں اللہ کے ذکر کی کشتی میں بیٹھ کر زندگی کے مشکل اور بپھرے دریاؤں سے گزرتا چلا گیا، میں آج بھی دن میں درجنوں مرتبہ پروفیسر صاحب کے لیے دعا کرتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں ٹرین کی طرف واپس آتا ہوں، ہم دونوں میں تسبیح کامن تھی، اس بزرگ نن کی انگلیاں بھی تسبیح پر چل رہی تھیں اور میں بھی تسبیح رول رہا تھا، وہ بھی غیر شعوری انداز سے میری تسبیح کی طرف دیکھ رہی تھی اور میری نظریں بھی باہر کے مناظر سے پھسلتی ہوئیں اس کی تسبیح پر آ کر رک جاتی تھیں، ہم دو مختلف تہذیبوں، مذاہب اور عمر کے لوگ تھے لیکن تسبیح نے ہم میں ایک تعلق سا پیدا کر دیا، ہم اجنبی ہونے کے باوجود اجنبی نہیں رہے۔
اس نے اچانک اوپر دیکھا، تھینک یو گاڈ کا نعرہ لگایا اور دوبارہ تسبیح رولنے لگی، میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور سرگوشی کی ’’آج موسم کتنا اچھا ہے‘‘ اس نے ہاں میں گردن ہلائی اور جواب دیا ’’ہم جنت میں رہ رہے ہیں اور جنت کے سارے موسم شاندار ہوتے ہیں‘‘ میرے ہاتھ میں گفتگو کا سرا آ گیا، میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ جنت پر یقین رکھتی ہیں‘‘ اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ میں اضافہ ہو گیا، اس نے سینے پر پھونک ماری، دائیں ہاتھ سے ماتھے اور بالائی جسم پر کراس کا نشان بنایا اور آہستہ آواز میں بولی ’’انسان جب کھلی آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھ لے تو پھر انکار کی گنجائش نہیں رہتی‘‘ مجھے یہ فقرہ سمجھنے میں تھوڑی دیر لگ گئی، مجھے محسوس ہوا، وہ شاید یہ بتانا چاہتی ہے۔
اس نے جنت اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے لہٰذا اسے جنت کے وجود پر پورا یقین ہے، میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ نے جنت دیکھی ہے‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’دیکھی کیا مطلب، میں جنت روز دیکھتی ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ اس نے تسبیح اکٹھی کی، بیگ کھولا، تسبیح باہر کی جیب میں رکھی اور ہنس کر بولی ’’میں اس دنیا کو جنت اور اپنے اس جنم کو جنتی سمجھتی ہوں‘‘ مجھے اس کا تصور عجیب لگا، میں نے اس سے وضاحت چاہی، اس نے جواب دیا ’’میں عیسائیوں کے ایک ایسے گروپ سے تعلق رکھتی ہوں جو اس دنیا کو جنت سمجھتا ہے، ہمارا خیال ہے۔
ہم اللہ کے نیک لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری نیکیاں اور ہماری اچھائیاں دیکھ کر ہمیں اپنی تخلیق کردہ خوبصورت ترین جگہ پر بھجوا دیا، ہم اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ لوگ ہیں اور یہ زمین اللہ کی چنی ہوئی جگہ ہے اور ہم منتخب کردہ لوگ اللہ کی چنی ہوئی جگہ کو انجوائے کر رہے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئی، یہ میرے لیے ایک نئی بات، ایک نیا زاویہ تھا، میں نے زندگی کو اس سے پہلے کبھی اس زاویئے سے نہیں دیکھا تھا لہٰذا میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا، وہ میری پریشانی بھانپ گئی، وہ مسکرائی اور پھر بولی ’’ہم لوگوں کا خیال ہے، ہم جب مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو اللہ ہم سے پوچھے گا۔
میں نے تمہیں اپنی جنت میں بھجوایا تھا، تم ستر سال میری جنت میں رہے، اب بتاؤ تم نے وہاں کیا کیا اور اس کے ساتھ ہی ہمارا امتحان شروع ہو جائے گا‘‘ وہ دوبارہ رک گئی، میں نے لمبا سانس لیا اور عرض کیا ’’لیکن آسمانی مذاہب کا تصور مختلف ہے، یہ سمجھتے ہیں، یہ دنیا ایک عارضی امتحان گاہ ہے، انسان پرچہ حل کر کے واپس اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا اور اللہ تعالیٰ پرچہ دیکھ کر مارکنگ کرے گا، پاس ہونے والے جنت میں چلے جائیں گے اور فیل شدہ دوزخ کا رزق بن جائیں گے۔
بات ختم‘‘ وہ مسکرائی اور بولی ’’ہم بھی اسی تصور پر ایمان رکھتے ہیں بس ہماری تشریح ذرا سی مختلف ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً‘‘ وہ بولی ’’مثلاً کیا جنت میں ظلم ہوگا؟‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا، وہ بولی ’’کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین پر ظلم سے پرہیز کا درس نہیں دیا، کیا یہ ہمیں اپنی اس جنت میں ظلم سے باز رہنے کا حکم نہیں دیتا‘‘ میں خاموش رہا، وہ بولی ’’آپ دنیا کا کوئی مذہب کھول کر دیکھیں، آپ کو خدا اس مذہب کے ذریعے جھوٹ، مکر، فریب، ظلم، زیادتی، منافقت، بے ایمانی، ناانصافی، اقرباء پروری اور لالچ سے روکتا نظر آئے گا، کیوں؟ کیونکہ خدا اپنی جنت میں یہ بدبودار کانٹے پسند نہیں کرتا، وہ اس جنت میں حلیمی، سادگی، انکسار، ایثار، محبت، شائستگی، رواداری، فیاضی، مہمان نوازی اور احترام کے پھول دیکھنا چاہتا ہے چنانچہ جو بھی انسان اس کی جنت سے یہ پھول توڑ کر اس میں کانٹے بونے کا گناہ کرتا ہے، خدا اس سے ناراض ہو جاتا ہے، وہ اسے واپس بلاتا ہے اور بدترین جگہ یعنی دوزخ میں پھینک دیتا ہے‘‘۔
وہ ابھی مزید بولنا چاہتی تھی لیکن میں نے اس کی بات درمیان سے اچک لی ’’لیکن جو لوگ اس کے امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولی ’’مجھے یقین تھا، آپ یہ ضرور پوچھیں گے کیونکہ یہ سوال جنت کے اسلامی تصور کا حصہ ہے‘‘ وہ سانس لینے کے لیے رکی اور بولی ’’ہمارا فرقہ یہ سمجھتا ہے، خدا اپنی جنت کے اصولوں کا احترام کرنے والوں کو اس جنت کے اعلیٰ ترین درجوں میں بھجوا دیتا ہے، یہ دوبارہ اسی زمین پر پہلے سے بہتر مقام پر بھجوا دیے جاتے ہیں، جسم اور خطہ بدل جاتا ہے لیکن زندگی یہیں رہتی ہے‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور عرض کیا ’’مگر یہ تو آواگون ہے۔
ایک کے بعد دوسرا جنم اور دوسرے کے بعد تیسرا اور آپ اس کے بعد کائنات کی آخری سانس تک مختلف شکلوں میں پیدا ہوتے رہیں‘‘ اس نے سنجیدگی سے میری طرف دیکھا اور بولی ’’ہم آواگون پر یقین نہیں رکھتے، ہم بس یہ سمجھتے ہیں، یہ دنیا ہی دراصل جنت ہے، آپ کوئی مذہبی کتاب کھول کر دیکھ لیں، آپ کو اس میں جنت کا وہی نقشہ ملے گا جو ہم اس وقت ٹرین کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے ہیں، یہ جنت اگر جنت نہیں تو پھر خدا ہمیں کیوں یہ حکم دیتا ہے، آپ میری بنائی دنیا کو گھوم پھر کر دیکھو، وہ ہمیں ان تمام حرکتوں سے کیوں روکتا ہے جس سے اس کی جنت کی خوبصورتی اور نظام بگڑ سکتا ہے۔
وہ ہمیں اپنی اس جنت (زمین) پر فساد پھیلانے سے کیوں باز رکھتا ہے اور یہ زمین اگر جنت نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر اپنے مقدس ترین گھر خانہ کعبہ، ویٹی کن سٹی، دیوار گریہ اور بیت اللحم کیوں بنائے ہیں، وہ ہر وقت ہماری شہ رگ کے قریب کیوں رہتا ہے اور وہ ہر وقت ہمارے ساتھ کیوں چلتا ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گئی، میں نے پوچھا ’’کیا آپ لوگ عبادت کرتے ہیں‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ہاں ہم سارا دن، ساری رات عبادت کرتے ہیں، ہم جب بھی اللہ تعالیٰ کی اس جنت کو دیکھتے ہیں، ہم زور سے نعرہ لگاتے ہیں، تھینک یو گاڈ اور اس کے بعد دل ہی دل میں دہراتے ہیں یا پروردگار آپ کا بہت شکریہ، آپ نے ہمیں اپنی جنت دیکھنے اور اس میں چند برس گزارنے کا موقع دیا، یہ ہماری عبادت ہے‘‘ وہ رکی اور اس کے بعد میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ’’اور ہاں ہمارے فرقے کے لوگ اللہ کی اس جنت میں سفر کرتے رہتے ہیں۔
ہم اسے دیکھتے رہتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے، اللہ ہم سے یہ بھی ضرور پوچھے گا، تم نے میری جنت کا کتنا حصہ دیکھا تھا اور ہم سمجھتے ہیں، اللہ جب ہم سے ہمارا یہ وائیوا لے تو ہمیں نوے فیصد سے زیادہ نمبر لینے چاہئیں‘‘ وہ رکی، بیگ کھولا، تسبیح نکالی، آنکھیں بند کیں اور تسبیح کرنے لگی، میں پریشانی میں کبھی کھڑکی سے باہر بکھری جنت کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھی نن کو جس کے چہرے کی جھریاں لٹھے کے شکن آلود رومال کی یاد دلاتی تھیں۔
روشن خیال فتویٰ بازیاں
اوریا مقبول جان جمعـء 19 فروری 2016
پاکستان کی انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ نے جب مقننہ کے ارکان کے سامنے دہشت گردی پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے پاکستان میں خرابیوں کی بنیاد جنرل ضیاء الحق کو قرار دیا تو مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، بلکہ ہو سکتا ہے اس پاکستان کے سو فیصد لوگوں کو بھی یہ چیز یا گفتگو عجیب نہ لگی ہو۔
اس لیے کہ ضیاء الحق ہمارے روشن خیال اور سیکولر نما دانشوروں، ادیبوں، مؤرخوں اور جدید دور کے میڈیائی تجزیہ نگاروں کے نزدیک تاریخ کے ان معتوب افراد کی فہرست میں شامل ہے جن کی کردار کشی کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو کیسے معتوب اور بدنام کیا جائے۔
یہ لوگ پوری کی پوری تاریخ کو ایک طنزیہ، مزاحیہ یا ناقدانہ جملے میں سموتے ہیں اور پھر بغیر کسی وجہ کے بات ختم کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے ہی جملے کی تصدیق کے لیے نہ تاریخی حقائق ہوتے ہیں اور نہ عقلی دلیل۔ لیکن یہ تمام روشن خیال سکیولر نما دانشور ایسے فتوے مسلسل جاری کرتے چلے آ رہے ہیں اور عوام الناس ان فتوؤں کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ روشن خیال افراد کی ان فتویٰ ساز فیکٹریوں کو شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور میڈیا کے اداروں میں بھی پذیرائی ملتی ہے کہ وہاں اکثریت اسی مزاج کے لوگ بھی ہیں اور ویسے بھی جدید میڈیا کا ایجنڈا اسلام، اس کی تاریخ اور اس کی شخصیات کو متنازعہ بنانا اور معتوب کرنا ہے۔
مثلاً ایک فقرہ بغداد پر ہلاکو کے حملے سے متعلق ہے کہ ’’جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا تو علماء اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام‘‘ یعنی ثابت یہ کرنا ہے کہ روشن خیال عباسی خلیفہ کا کوئی قصور نہیں، افواج کا بھی کوئی دوش نہیں اور نہ ہی وزیر ابن علقمی کی غداری اور ہلاکو کو بلانے کی سازش شکست کا باعث تھی۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی مسلسل یہ کہنے لگے کہ ہم 1971ء کی جنگ جب ہارے تو اس وقت فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ ’’طوطا‘‘ ط سے لکھا جاتا ہے یا ’’ت‘‘ سے۔ اسی طرح کوئی یہ کہے کہ ہٹلر کی افواج نے فرانس پر اس لیے قبضہ کر لیا تھا کیونکہ پیرس کے پہاڑی علاقے پیگال کی خوبصورت فضاؤں میں ژاں پال سارتر، آندرے میلاراکس اور البرٹ کامس بیٹھے ’’وجودیاتی فلسفے‘‘ پر بحث کرتے ہوئے اس بات پر لڑ رہے تھے کہ کیا ہمارے گھر جو پیرس میں موجود ہیں وہ ابھی تک سلامت ہیں یا نہیں؟ ہو سکتا ہے انھیں آگ لگ چکی ہو، اس لیے اب تو وہ ہمارے نہیں رہے۔‘‘
جرمنی کی شکست کو فوج نہیں بلکہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی اس بحث سے نتھی کیا جا سکتا ہے کہ مقدس راہبائیں واقعی مقدس ہیں یا نہیں۔ روشن خیال اور سیکولر فتویٰ باز فیکٹریوں سے برصغیر سے متعلق بھی فتوے جاری ہوتے ہیں۔ اس فتویٰ بازوں کے نزدیک ایسی وہ تمام شخصیات معتوب اور قابل نفرت ہیں جو اسلام کا ارادی یا غیر ارادی طور پر ہی ذکر کر لیں اور وہ پسندیدہ ہیں جو اس ذکر سے اجتناب کریں۔ مثلاً اکبر محبوب ہے اور اورنگ زیب معتوب، ضیاء الحق معتوب ہے اور پرویز مشرف محبوب‘‘ اب اورنگ زیب کے بارے میں فقرہ ملاحظہ ہو، ’’اس نے کوئی نماز قضا نہیں کی اور کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑا‘‘ بنیادی مقصد نماز کی توہین ہے ورنہ بھائیوں کو زندہ چھوڑنے کی روایت تو ہر مغل بادشاہ نے نبھائی ہے۔
کوئی یہ نہیں کہتا کہ اشوک نے کبھی مندر کی پوجا ترک نہیں کی اور اپنے سو بھائیوں کو زندہ نہیں چھوڑا۔ یا پھر دس لاکھ لوگ کلنگہ جنگ میں مار کر امن کا پجاری بن بیٹھا تھا۔ چونکہ اورنگ زیب عالمگیر کے طرز حکمرانی میں کوئی عیب تاریخ میں نظر نہیں آتا اس لیے ایسے مضحکہ خیز فقرے اور فتوے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس نے تخت نشینی کے فوراً بعد ایسے 80 ٹیکس ختم کیے تھے جو غریبوں سے لیے جاتے تھے۔
وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے ہندو وقف قائم کیا تھا اور بڑے بڑے ہندو مندروں کو جائیدادیں الاٹ کی تھیں۔ مسلمان اتالیق اور ہندو اتالیق کی تنخواہوں میں آدھے کا فرق تھا اس نے دونوں کی تنخواہوں کو برابر کیا تھا۔
وہ برصغیر کا پہلا حکمران تھا جس نے سرکاری خزانے کو امانت خیال کیا تھا اور اپنی روزی کے لیے قرآن لکھنے اور ٹوپیاں سینے کا ذریعہ اختیار کیا تھا۔ اکبر کو بڑا سیکولر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس کے ہاں پنج ہزاری یا دس ہزاری منصب داروں میں سے ہندوؤں کی تعداد 64 تھی جب کہ اورنگ زیب کے ہندو منصب داروں کی تعداد 180 تھی۔ سکھوں سے لڑائی ’’اکبراعظم‘‘ نے شروع کی اور گرو ارجن کو قتل کیا۔ یہ لڑائی اورنگزیب کو ورثے میں ملی۔ اورنگزیب کی اس بغاوت پر فوج کشی کے خلاف بولنے والے اندرا گاندھی کو گولڈن ٹمپل کے حملے میں معاف کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں فتویٰ باز سیکولر فیکٹریوں کے فتوے کمال ہیں۔ ان کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ مولویوں کے خوف سے قرارداد مقاصد آئین کا حصہ بنی اور یہی خرابیوں کی جڑ ہے۔‘‘ کمال ہے جو مسلم لیگ مولویوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے سے نہ ڈری اور جیت کر حکمران بنی وہ حکمران بن کر ڈر گئی۔ ان کو ہضم نہیں ہوتا کہ جمہوری طور پر منتخب لوگ اللہ کی حاکمیت کا اعلان کر دیں۔ جسٹس منیر جیسے جھوٹے شخص کی رپورٹ سے فتویٰ نکالتے ہیں کہ مولوی مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں تھے۔
جھوٹا اس لیے کہا کہ اس نے اپنی رپورٹ میں قائداعظم کے رائٹرز کے انٹرویو میں اپنی طرف سے جھوٹ شامل کیا تھا۔ لیکن یہ سیکولر فتویٰ باز ان بائیس نکات کا ذکر نہیں کرتے جو شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث تمام علماء نے لکھ کر دیے تھے کہ ہم آئین سازی کے لیے ان پر متفق ہیں۔ لیکن سیکولر فتوؤں کے نزدیک سب سے بڑا ظالم ضیاء الحق تھا۔
ان کے نزدیک پاکستان میں ظلم، دہشت، خوف اور ادب دشمنی کی تاریخ ضیاء الحق سے شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی غصے میں منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے کہے گا ضیاء الحق کا دور نکال دیا جائے تو پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، انور مسعود، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، نورالہدی شاہ، عبدالقادر، مستنصر حسین تارڑ، جونیجو، اصغر ندیم سید اور ایسے کئی نام ہیں جو اس دور میں ادب کے آسمان پر چمکے۔ شاعری‘ ادب میں فیض احمد فیض سے لے کر احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی تک کونسا شخص تھا ۔
جس پر پابندی لگی‘ حبیب جالب اپنی تمام جرات کے ساتھ شعر کہتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں شعر کہتا تھا تو اس نے اس پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے حیدر آباد جیل میں پھینک دیا تھا۔ فیض احمد فیض پر بھی بغاوت کا مقدمہ ایک جمہوری دور میں بنا تھا۔ نور جہاں سے لے کر مہدی حسن اور فیض بلوچ سے لے کر الن فقیر تک کون ہے جو زبان بندی کا شکار تھا۔ بلوچستان کی ساری تاریخ میں ضیاء الحق کے دس سال امن کے گہوارے کے طور یاد رکھے جاتے ہیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی فوج کشی وہ بدترین یاد ہے جسے آج بھی بلوچ نہیں بھولے۔ دوسری بلوچ مزاحمت سیکولر فتویٰ بازوں کے ہیرو پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئی اور بلوچستان آج بھی لہو لہان ہے۔
انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے جو فقرہ بولا ہے وہ بھی انھی سیکولر فتویٰ بازوں کا تخلیق کردہ ہے کہ پاکستان کے بحران کی بنیاد ضیاء الحق کی افغان پالیسی‘ افغان جہاد اور پڑوس میں مداخلت ہے۔ تاریخ سے نابلد ان فتویٰ بازوں کو جمعہ خان صوفی کے انکشافات پر مبنی کتاب ’’فریب نا تمام‘‘ ضرور پڑھ لینی چاہیے۔ جمعہ خان ان قوم پرستوں میں شامل تھا جو بھٹو دور میں 1974ء میں بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے اور پھر وہاں بیٹھ کر روس‘ بھارت اور افغانستان کی مدد سے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے تھے۔ اس وقت ضیاء الحق شاید آرمی کے کسی چھوٹے سے رینک پر ہو۔ یہی زمانہ تھا جب بھٹو نے حکمت یار‘ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی کو پاکستان میں لا کر افغان جہاد کی بنیاد رکھی تھی۔
ضیاء الحق کا افغان جہاد تو اسی کی زندگی میں فتح سے ہمکنار ہو گیا تھا۔ اس نے مرنے کے بعد تیرہ سالوں میں کوئی ایک دہشت گردی اور تخریب کاری کا واقعہ پاکستان میں نہیں ملتا۔ یہ لوگ اس دوران پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے کیوں نہ اٹھے۔ تخریب کاری اور دہشت گردی تو مشرف کا تحفہ ہے جسے یہ قوم بھگت رہی ہے۔ جہاں تک ان فتویٰ باز سیکولر حضرات کا یہ دعویٰ کہ ضیاء الحق نے فرقہ واریت کو ہوا دی۔ انھیں تاریخ ایک بار پھر پڑھ لینی چاہیے۔
تمام فرقہ وارانہ تنظیمیں 1986میں بنیں جو ضیاء الحق کا آخر آخر تھا اور فرقہ وارانہ قتل و غارت جمہوری دور میں شروع ہوئی اور آج بھی جاری ہے۔ خود کش حملے جامعہ حفصہ کے ایکشن سے پہلے نظر نہیں آتے جو مشرف کا تحفہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ وہی کہتا ہے جو روشن خیال دانشور ضیاء الحق کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں۔ اس لیے کہ ان سیکولر فتویٰ باز فیکٹریوں کا مال میڈیا پر بکتا ہے اور ان فتووں کی پذیرائی ہوتی ہے۔
ایک ایماندار جج کے چھ سوالات
اوریا مقبول جان جمعـء 28 اگست 2015
آج ایک ایسے شخص کی وکالت میں مجھے قلم اٹھانا ہے‘ ایسے فرد کے کردار کی گواہی دینا ہے کہ جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو روز حشر مجھ سے ضرور سوال کیا جائے گا۔
مجھے سید الانبیاء ﷺ کی حدیث میں درج اس انجام کا بھی خوف ہے جو ہادی برحقؐ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’اگر کسی نے اپنے مومن بھائی کی اس وقت مدد نہ کی جب اس کو بے آبرو کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دے گا جب اسے بے آبرو کیا جا رہا ہو اور وہ مدد کے لیے لوگوں کی جانب دیکھ رہا ہو‘‘۔
مجھے پاکستان کی عدلیہ کے ایک ایسے باکردار‘ منصف مزاج‘ ایماندار اور صالح شخص کے حق میں ایسے وقت میں گواہی دینے کا شرف حاصل ہو رہا ہے جب جمہوری اقدار کے پروانے اور آزادی اظہار کے دیوان اس کی کردار کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اللہ مجھے اس ذمے داری کا حق ادا کرنے کی توفیق دے کہ مجھ سے دہرا سوال ہو گا۔ مجھے اللہ نے قلم کی طاقت عطا فرمائی اور پھر اسی اللہ نے اس طاقت کو پذیرائی بخشی۔ اللہ میری خطاؤں کو معاف فرمائے اور اس دوران میں جو لکھوں اس پر فیصلہ کرتے ہوئے میرے حسن ظن اور نیک نیتی کو سامنے رکھے۔
آج سے تقریباً دو دہائیاں قبل گوجرانوالہ میں ایک سیشن جج کے خلاف وہاں کے وکلاء نے ہڑتال کر دی اور اس کے تبادلے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ پنجاب ہائی کورٹ کی سربراہی اس وقت جسٹس فلک شیر کے پاس تھی۔ وکلا تنظیموں کا بڑا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور انصاف تو بنچ اور بار کا یرغمال ہے۔ کس کو کب‘ کیسا‘ کتنا مہنگا اور کتنی دیر میں انصاف ملے گا اس کا فیصلہ بنچ اور بار مل کر کریں گے۔
اس جج نے اس روایت کو توڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ بحیثیت سیشن جج میری ذمے داری سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہے۔ پنجاب کے موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس اس وقت گوجرانوالہ میں ڈی آئی جی تھے۔ تمام تھانوں کے سربراہوں کو بلایا گیا اور جج صاحب نے ان سے کہا کہ آپ بلاوجہ تعمیل میں دیر نہیں کریں گے اور گواہوں کو غیر ضروری طور پر پیشی سے نہیں بھگائیں گے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی وکیل کو بلاوجہ تاریخ نہیں دوں گا۔
اس کے بعد کیسوں کے فیصلے ہونا شروع ہوئے۔ گوجرانوالہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایک قتل کے کیس کا فیصلہ کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار دن میں کیا جانے لگا۔ صرف چند مہینوں کے اندر تمام وکلا اپنے چیمبرز میں ہاتھ پہ ہاتھ ڈالے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہڑتال شروع ہوئی۔ جسٹس فلک شیر تک اس ہڑتال کی گونج پہنچی۔ پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ وکیلوں کی زبان میں کہا‘ یہ سیشن جج ہمیں ’’ریلیف‘‘ نہیں دیتا۔ ’’ریلیف‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو پاکستان کے عدالتی نظام میں سکہ رائج الوقت ہے۔
وکیل عدالت سے پیشیاں اور تاریخیں لینے جب تک اپنے موکل کو ہلکا نہ کر لیں‘ ان کو مقروض نہ بنا لیں‘ ان کی جائیداد بکوا لیں نہ ان کی وکالت کا رعب پڑتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگی خوشحال ہوتی ہے۔ فلک شیر بھی خوش قسمتی سے ایسے چیف جسٹسوں میں سے تھا جن پر بار کا ناجائز رعب نہیں چلتا تھا۔ کاظم علی ملک نے کہا میں نے گزشتہ پندرہ سال سے التواء کا شکار مقدمے ختم کر دیے۔ لوگوں ایک جانب ہو گئے۔
جو مطمئن تھے وہ چین سے سو گئے اور جو غیر مطمئن تھے وہ اپیل میں چلے گئے۔ فلک شیر کا اگلا سوال وکلا سے تھا‘ اب صاف صاف بتاؤ‘ کچھ صاف گو وکلا نے کہا ہم چیمبر بند کر کے چابیاں آپ کو دے دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کاظم علی ملک نے کہا کہ جتنے لیڈر میرے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں وہ مجھے پہچانتے تک نہیں۔ وہ آج تک میری عدالت میں پیش تک نہیں ہوئے۔ یہ میرا اس انسان سے ایک غائبانہ تعارف تھا۔ ان دنوں میں خود ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت پر فائز تھا۔ یوں لگا جیسے کسی نے میرے راستے کے آگے آگے مشعل رکھ دی ہو اور اس مشعل کو کاظم علی ملک نے تھاما ہوا تھا۔ میں اس شخص کی ٹوہ میں لگ گیا۔ اسے جاننے کی کوشش کرنے لگا۔
ضلع خوشاب کے قصبے نور پور تھل میں یکم اکتوبر 1949ء کو پیدا ہونے والے کاظم علی ملک نے جوہر آباد ڈگری کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ یہ زمانہ طلبہ یونینوں کا زمانہ تھا۔ وہ 1968ء میں کالج یونین کا صدر بھی منتخب ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے جوہر آباد اور سرگودھا میں وکالت شروع کر دی۔
1987ء میں اسے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیا گیا۔ یہاں سے ماتحت عدلیہ میں ایک قابل فخر سپوت کی آمد ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس کا مقدمات کو فیصلے کرنے کا انداز وہی تھا جو گوجرانوالہ میں تھا۔ پنجاب میں بھلوال ان تحصیلوں میں سے ہے جہاں جرائم کی کثرت ہے۔ تین ماہ بعد بھلوال کے تمام زیر التوا مقدمات کے فیصلے ہو چکے تھے۔ انھیں کہا گیا آپ سرگودھا کا بھی چارج ساتھ ہی رکھ لیں۔ یہ اور ایسی کہانیاں میانوالی اور لیہ میں بھی عوام آپ کو سنائیں گے۔
2008ء میں وہ منزلیں طے کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ عدلیہ کی آزادی کا غلغلہ تھا۔ مشرف اور پھر زرداری کے بنائے ہوئے ڈوگر عدالت کے جج ایک ہی فیصلے سے ختم کر دیے گئے۔ کاظم علی ملک کا یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا یہ اس کے بس میں تھا کہ وہ اس سال اپنی پرموشن کی سطح پر پہنچتا کہ جب ڈوگر چیف جسٹس تھا۔ واپس سیشن جج بنے‘ ریٹائر ہوئے اور پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن لگا دیے گئے۔ یہاں بیوروکریسی سے ان کی ٹھن گئی۔
کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا عہدہ جسے بیوروکریسی نے اس لیے تخلیق کیا ہو کہ ان کی مرضی کی کارروائیاں ہوں‘ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے کہ ہم کرپشن کے خلاف بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ایک ایسا چیف سیکریٹری ان کے خلاف ہوا جو ہمیشہ سیاست دانوں کی آنکھ کا تارا رہا ہے اور جس کے ہاں اطاعت گزاری ہر اصول پر فوقیت رکھتی تھی۔
صرف ایک فقرہ کافی تھا کہ اگر کاظم علی ملک اینٹی کرپشن کے محکمے میں رہا تو جس طرح بیورو کریسی پر وہ ہاتھ ڈال رہا ہے‘ آیندہ الیکشنوں میں آپ اپنا انجام سوچ لیں۔ یہ فقرہ کسی بھی وزیراعلیٰ کے پاؤں تلے سے زمین نکالنے کے لیے کافی تھا۔ ہٹا دیے گئے کہ اس تباہ حال سسٹم میں ایماندار اور با اصول شخص کا یہی انجام ہوتا ہے۔
میں ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام متبادل کے نام سے کرتا ہوں۔ جس میں موجودہ نظام کی ناکامی پر بحث کے بعد ایک متبادل دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے کاظم علی ملک میرے مہمان تھے۔ ان کا ایک ایک فقرہ عدلیہ کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ کہا اگر واقعی ہمارے جج ایمانداری سے کام کریں اور وکیلوں کے رزق میں اضافہ کرنے کے لیے تاریخیں نہ دیں تو عدالتوں پر اتنا کم بوجھ ہے کہ آدھے جج فارغ کرنا پڑیں گے۔
آدھے سے زیادہ سول کیس صرف ایک پیشی پر ختم کیے جا سکتے ہیں اور قتل جیسا مقدمہ بھی تین دن لگاتار شنوائی کے بعد فیصلے تک جا پہنچتا ہے۔ کہا‘ دیکھو لوگوں کو عدالتوں میں بلاؤ فیصلوں کے لیے‘ اپنے برآمدوں کی رونق بڑھانے کے لیے نہیں۔ اللہ جس کو عدل کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کی توفیق دے‘ اس کا اپنے کردار پر اعتماد دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
میں نے آج سے چھ ماہ قبل اسی پروگرام میں این اے 122 کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے اتنا کہا کہ میرے ماں باپ کی تربیت‘ اور میرے اللہ کا کرم یہ ہے کہ اللہ نے مجھ سے غلط کام کرنے کی توفیق ہی چھین لی ہے۔ فیصلے پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ لیکن فیصلہ آنے کے بعد مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ فیصلہ کیا آیا۔ مجھے اس فیصلے کے آغاز میں جسٹس کاظم علی ملک نے جو چھ سوال خود سے کہے ہیں وہ اس قوم کے سامنے رکھنا ہیں۔
ان سوالات میں ایک درد بھی چھپا ہے اور آپ اس دباؤ کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں جو اس صاحب ایمان جج پر تھا۔ کاظم علی ملک لکھتے ہیں۔ فیصلے سے پہلے میں نے اپنے ضمیر سے چھ سوال کیے۔ -1 کیا میں صرف خور و نوش کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ -2 کیا میں کھونٹے پر بندھے اس جانور کی طرح ہوں جسے اپنے چارے کی فکر ہوتی ہے۔-3 کیا میں ایک بے لگام درندہ ہوں جسے کھانے کے سوا اور کسی چیز سے سروکار نہیں ہوتا۔-4 کیا مجھ میں دین‘ ضمیر یا اللہ کا خوف نہیں ہے۔-5 کیا مجھے اس کائنات میں بلا روک ٹوک ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔
-6 کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں صراط مستقیم کو چھوڑ کر باطل قوتوں کی راہوں میں بھٹکتا رہوں۔ یہ چھ سوال پاکستان کے ہر اس فرد کو اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہئیں جو اس مکروہ اور گلے سڑے نظام میں اس بات پر جھک جاتا ہے‘ حق کی راہ میں ہٹ جاتا ہے کہ اقتدار پر قابض افراد اس کی اور اس کے خاندان کی جانوں کے دشمن ہو جائیں‘ انھیں کی زندگیاں مشکل کر دیں گے‘ انھیں بے موت مار دیں گے۔
اگر ان کا ضمیر ان کا جواب نفی میں دے تو سمجھو وہ اس دنیا میں بھی سرخرو اور آخرت میں بھی۔ جسٹس کاظم علی ملک نے لکھا میرے ضمیر نے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیا تو میں نے نظریہ ضرورت کو پس پشت ڈال کر تلخ سچ بول دیا۔ سچ کی تلخی وہ کڑوی دوا ہے جو اس قوم کی تمام امراض کا علاج ہے۔
کتاب اللہ ہی آئین
اوریا مقبول جان جمعرات 20 اگست 2015
جب کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم کو مملکت خداداد پاکستان کا اساسی آئین مان لیا جائے اور یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ اس دنیا کے نقشے پر ایک ملک اسرائیل ہے جس نے اپنی الہامی کتابوں کو اساسی آئین کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ آج تک امور مملکت بحسن و خوبی چلا رہا ہے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت اور سیکولر طرز زندگی کے دلدادہ طرح طرح کی دلیلیں لے کر سامنے آتے ہیں۔
سب سے پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرآن حکیم کی تعبیر اور تشریح پر سو طرح کے اختلافات ہیں تو پھر کون سی تعبیر نافذ العمل ہو گی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو اس آئین پر یقین رکھتے ہیں جس کی تشریح اور تعبیر میں بہتر فرقوں سے بھی زیادہ اختلاف موجود ہے۔ مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ قرآن کو نہیں مانتا یا پھر یہ کہے کہ قرآن ہمارے مسائل کا حل نہیں جب کہ آئین پاکستان کو نہ ماننے والے یا اس کے بارے میں یہ دعویٰ کرنے والے کہ یہ ہمارے مسائل کا حل نہیں پیش کرتا‘ بے شمار ہیں‘ اور کئی ایک تو وزارت اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
اس آئین پاکستان کی سو طرح کی تعبیریں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں پارلیمنٹ ججوں کی بحالی کی ایک طرح تعبیر کرتی اور سپریم کورٹ کی بحالی والے وکلا کوئی اور۔ جماعت اسلامی کی تشریح ایم کیو ایم سے مختلف ہے اور اے این پی کی پی ٹی آئی سے۔ یہاں تک کہ آئین پاکستان کی تشریح کا واحد آئینی ادارہ سپریم کورٹ ہے۔ یہ سپریم کورٹ چند سال پہلے یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے اور اس کے مخالف کوئی ترمیم پارلیمنٹ نہیں کر سکتی‘ لیکن موجودہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے برعکس یہ تشریح اور تعبیر کی کہ قرار داد مقاصد سمیت اس آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ جب جو چاہے کر سکتی ہے۔
ایک سپریم کورٹ اسے اسلامی قرار دیتی ہے اور دوسری اسے بالکل سیکولر جمہوریت کی طرز کا حق دے دیتی ہے۔ لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود‘ ان ہزارہا لا یعنی تشریحات کے باوصف یہ آئین گزشتہ 42 سال سے نافذ ہے اور کوئی دانشور یہ اعتراض نہیں کرتا کہ کونسی تشریح نافذ کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کو اساسی آئین کا درجہ دے کر ماڈرن ریاست کیسے چلائی جا سکتی ہے۔ دنیا کی موجودہ ماڈرن قومی ریاستوں میں دو طرح کے قوانین ہیں۔
ایک اساسی آئین جو رہنما اصول مرتب کرتا ہے اور دوسری اس کی تابع (Sabordinate) قانون سازی۔ اساسی آئین ہمیشہ مختصر اور ملک کے اساسی نظریے کی تشریح کرتے ہیں جیسے جمہوریت‘ سیکولرزم‘ انسانی حقوق‘ آزادی‘ مساوات وغیرہ۔ جب کہ تابع قانون سازی ان اصولوں کے نفاذ کے طریق کار کو وضع کرتی ہے۔ اسرائیل نے یہی کیا ہے۔ انھوں نے اساسی آئین کی حیثیت تورات اور تالمود کو دی اور پھر کاروبار مملکت چلانے کے لیے تابع قانون سازی کر لی۔
ان قوانین میں پارلیمنٹ‘ انتخابات‘ صدارت‘ معاشی معاملات‘ سزا وجزا وغیرہ سب شامل ہیں‘ حتیٰ کہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہنا بھی ایک تابع قانون ہے‘ بنیادی آئین نہیں ہے۔ برطانیہ میں یہی حیثیت اقدار و روایات کو حاصل ہے۔ اسی لیے انھوں نے کوئی تحریری آئین مرتب نہیں کیا۔ قرآن پاک کو ملک کا اساسی آئین ماننے کے بعد آپ کو صرف ایک آئینی عدالت بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہرفقہہ اور ہر تعبیر کے علما جنھیں آپ موجودہ زبان میں مسلم جیورسٹ کہتے ہیں‘ وہ ممبران ہوں اور وہ ہر تابع قانون کو جانچ پرکھ کر بنا سکیں کہ یہ کس حد تک بنیادی اساسی آئین یعنی قرآن حکیم سے مختلف ہے اور دوسرا یہ کہ قرآن حکیم کی فلاں آیت کا کیا مفہوم ہے جس پر قانون بنایا جائے۔
یہاں برطانیہ کے نظام میں اقدار و روایات کی طریق کار بھی تعبیر و تشریح کے لیے اپنائی جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کی تعبیر و تشریح صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے اور قرآن ہی اطاعت رسول کو واجب قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جو اقدار و روایات کا ایک تسلسل ہے وہ احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے بعد اس کی مزید آنے والے حالات کے مطابق تشریح ہے۔
اسلام کے اس نظام حکومت کی ترتیب خودرسول اکرمؐ نے اس وقت بیان فرمائی جب حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا۔ ’’آپؐ نے پوچھا ’’اگر کوئی قضیہ پیش ہوا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ انھوں نے کہا ’’قرآن مجید میں پائے جانے والے احکام کے ذریعے۔ آپ نے دریافت فرمایا ’’اگر قرآن میں نہ پاؤ‘‘ معاذ نے کہا ان فرمودات کے ذریعے جو رسول ﷺ کی سنت میں ہوں‘ آپؐ نے دریافت فرمایا اگر رسول کے فیصلوں میں ایسا کوئی حکم نہ ملا تو؟ معاذؓ نے کہا ’’میں اپنی سوچ اور رائے کام میں لاؤں گا اور کوتاہی ہرگز نہ کروں گا‘‘۔ آپؐ نے ان کا سینہ تھپک کر فرمایا ’’شکر ہے اللہ کا جس نے رسول اللہؐ کے رسول کو اس بات کی توفیق دی جو رسول اللہؐ کو پسند ہے۔ (ابو داؤد‘ ترمذی)۔ یہ ہے اسلام کا اساسی دستور اور آئین جو صرف قرآن و سنت ہے۔
اس کے ساتھ کسی دوسری تحریرکو نتھی کر کے یا اسے کسی آئینی دستاویز میں تحفظ دینا مقصود نہیں بلکہ اسے مکمل طور پر ایک اساسی آئین تسلیم کرنا ہے۔ اس کے بعد باقی تمام تابع قوانین اس کی تشریحات کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں۔ یار لوگوں نے میثاق مدینہ کو موجودہ مغربی سیکولر جمہوری قومی ریاستوں کے تحریری آئین کا ماخذ قرار دیا ہے حالانکہ اس کی حیثیت ایک آئین نہیں بلکہ ایک تابع حکم نامے کی ہے۔
اس کی پہلی شق ہی اس کی تشریح کرتی ہے۔ ’’یہ ایک حکم نامہ ہے نبی اور اللہ کے رسولﷺ کا قریش اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جنگ کریں‘‘۔ یہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو تابع کہا گیا اور پھر دوسری شق میں یہ اعلان کیا گیا ’’تمام دنیا کے لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (امت) ہو گی‘‘۔ یعنی امت کا تصور میں ایک ایسی سیاسی وحدت ہے جس میں مسلمان حکمران ہوں اور دیگر مذاہب کے لوگ تابع ہوں۔ اس حکم نامے کی پہلی 23 شقیں مسلمانوں کے متعلق ہیں جنھیں ’’فی کتابہ للمھا جر بن و انصار‘‘ کہا گیا اور 24 سے 47 شقیں یہودیوں سے متعلق ہیں جنھیں ’’ووقع می کتاب رسول اللہ صلعم لیھود‘‘۔ یہاں واضح کیا گیا کہ یہ یہود کے نام رسولﷺ کا حکم نامہ ہے۔
اس حکم نامے کے تحت تمام عدالتی‘ تشریحی‘ فوجی اور دیگر انتظامی اختیارات رسول ﷺ کی ذات میں مرکوز تھے جو وحی الٰہی سے فیصلہ کرتے تھے۔ اس حکم نامے کو صرف وحی الٰہی منسوخ کر سکتی تھی۔ کسی پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہ تھا۔ اسی لیے جب یہ حکم آیا کہ حرم کی حدود سے تمام غیر مسلموں کو نکال دو تو کیا آج کسی میں جرات ہے کہ میثاق مدینہ کو دلیل بنا کر دوبارہ ان کو مکہ اور مدینہ میں آباد کرے اور ویسا ہی طرز حکومت اختیار کرے۔
اس کا مطلب ہے کہ مسلم امہ کے لیے اساسی آئین قرآن ہے جس کی تشریح و تعبیر سنت رسول اللہ ہے۔ مثالیں دی جاتی ہیں کہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کے کہنے پر کتاب الخراج لکھی اور محاصل کا نظام وضع کیا۔ کیا ایسی کسی بھی قسم کی کوشش کو آئین کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ کیا دنیا کے کسی بھی آئین میں اس کے ٹیکس کے قوانین درج کیے جاتے ہیں۔
موجودہ ریاستوں کا آئین یہ طے کرتا ہے کہ ہمارا معاشی نظام سودی معیشت اور آزادانہ منڈیوں کی تجارت پر مبنی ہے اور اس کے زیر سایہ قوانین بنتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے ہمارا نظام معیشت غیر سودی ہے اوراس تجارت آزادانہ نہیں اسلامی اخلاقیات کی پابند ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن وہ تمام اصول اور پالیسی گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے جو آج کے موجودہ آئین کی ضرورت ہے تو پھر اس کو آئین کیوں نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہی وہ مقام اختلاف ہے۔
اس لیے کہ مروجہ آئین کی مقدس کتاب کی خلاف ورزی کی سزا موت بھی رکھ دیں پھر بھی اسے توڑا‘ بدلا اور معطل کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا آئین اور یہ طرز زندگی خود مرتب کریں۔ لیکن اگر ایک دفعہ قرآن کو اساسی دستور مان لیا گیا تو اسے صرف وحی الٰہی ہی تبدیل کرسکتی ہے اور وحی کا دروازہ خاتم النبینؐ کی رسالت کے ساتھ بند ہو چکا۔ یہ اللہ کی بادشاہت اور حاکمیت کے ساتھ عوام کی بادشاہت اور حاکمیت کی جنگ ہے۔
میرا ان تمام فقہیان ملت اور علمائے امت سے سوال ہے جو خلافت علیٰ منہاج البنوہ پر یقین رکھتے ہیں یا پھر رسول اللہ کی بشارت کے مطابق حضرت مہدی کی خلاف یا پھر غیبت کیبریٰ کے بعد صاحب الزمان امام مہدی کی آمد پر یقین رکھتے ہیں اور تمام سنی اور شیعہ فقہیان اس پر متفق ہیں۔ کیا امام مہدی کی حکومت موجودہ مغربی استعمار کی بنائی گئی اقوام متحدہ کی ممبر ہو گی‘ کیا وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سودی نظام کی محتاج ہو گی۔
کیا وہ عالمی قوانین حقوق نسواں اور مذہبی آزدی کی تابع ہو گی‘ کیا اس کا عدالتی نظام رومن لاء کی پیوند کاری ہو گی۔ تمام علماء و فقہا اس کا جواب یقیناً نفی میں دیں گے۔ اس لیے کہ رسول ﷺ کی دعوت کا ایک مقصد ایسے آئین کی بادشاہی ہے جو صرف اور صرف قرآن اور سنت رسول اللہ ہے۔
’’گل صاحب‘‘
اوریا مقبول جان پير 17 اگست 2015
ان سے آخری گفتگو چند دن قبل ہوئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بہت ہی پریشان تھے۔ وہ جنھیں اللہ نے بصیرت عطا کی ہے وہ اس فیصلے کے دوررس اثرات سے آگاہ ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ جسٹس منیر کی 1954 کی رپورٹ کے بعد یہ دوسری دفعہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی قربانی سے جنم لینے والی اس مملکت کے بنیادی تصورکو ایک آئینی ترمیم کی ٹھوکر پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی سے لے کر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی تک سیکڑوں علماء جو یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ آئین پاکستان کی مقدس کتاب میں قرار داد مقاصد تحریر کرنے سے یہ ملک مستقل طور پر اللہ کی بادشاہت قبول کرلے گا۔ ان کی زندگیوں میں ہی اس جمہوری نظام نے اپنی شعبدہ بازیاں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ حیرت ہے جس نظام کا تصورہی عوام کی بادشاہی پر رکھا گیا ہو، وہ اللہ کی بادشاہی سے ٹکرائے گا نہیں۔ عوام کی بادشاہی تو ایک ایسا فریب ہے جس میں دنیا کے ہر جمہوری ملک کے عوام کو مبتلا رکھا گیا ہے۔
کارپوریٹ سرمائے سے جنم لینے والی سیاسی پارٹیاں اور اسی سرمائے سے پیدا ہونے والی میڈیا کی چکا چوند کے درمیان پندرہ بیس روز میلے میں ڈالے جانے ووٹوں کی حد تک عوام کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ ان کی رائے سے یہ عوام کی بادشاہت قائم ہوتی ہے۔ اس کے بعد عوام کی یہ بادشاہت چار پانچ سو کے ایوان میں جمہوری طور پر وہی فیصلے کرتی ہے جو ان کے وہ آقا کہتے ہیں جنہوں نے ان کی سیاست میں سرمایہ لگایا ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کو جو اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ جمہوری نظام کی یہ پٹڑی اس لیے بچھائی گئی ہے کہ اس پر چڑھ کر ایک دن اسلامی نظام کی ٹرین منزل مقصود پر پہنچ سکتی ہے تو ایسی غلط فہمی دماغ سے نکال دینی چاہیے۔
جنہوں نے یہ عوام کی بادشاہت کے فریب کے نام پر یہ جمہوری پٹڑی بچھائی ہے وہ یہ ساری پٹڑی تباہ کر دیتے ہیں لیکن اس پر سوار ہو کر ایسی حکومت کبھی قائم نہیں ہونے دیتے جو اللہ کی حاکمیت کو نافذ کرے۔ الجزائر اور مصر اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہ گفتگو کا لب لباب تھا۔ وہ رات اس موضوع پر کسی ٹیلی ویژن چینل پر طویل انٹرویو دے چکے تھے اور میں ایک کالم تحریر کر چکا تھا۔ گفتگو نے طول پکڑا تو کہنے لگے مری جا رہا ہوں‘ وہاں میرے پاس ایک گھر ہے‘ وہیں چلے آؤ‘ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔کوئی لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ وہ مری چلے گئے اور میں لاہور آ گیا اور پھر یہیں پر یہ خبر ملی کہ وہ انتقال کر گئے۔
نسیم انور بیگ صاحب کی پر رونق اور ایمان افروز میز پر ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔کچھ عرصہ پہلے وہ فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ پورا ملک گزشتہ پندرہ سالوں سے افغان جہاد کا گواہ تھا اور اب روس کے جانے کے بعد وہاں پر عالمی طاقتوں کی رسہ کشی دیکھ رہا تھا۔ آئی جے آئی بن چکی تھی اور نواز شریف برسراقتدار آ چکے تھے۔ جنرل حمید گل جن کا نام اس وقت تک ایک افسانوی کردار کی چاشنی لیے ہوئے زبان زدعام تھا۔ وہ خواب دکھاتا ہے۔ قرون اولیٰ کی باتیں کرتا ہے۔ ایک سوچ رکھتا ہے‘ قیادت فراہم کر سکتا ہے۔ ایسا سوچنے والے بھی بہت تھے اور یہ کہہ کر انھیں مسترد کرنے والے بھی کافی کہ وہ ایک جہادی ہے‘ جرنیل ہے‘ فوج ہی کا دوسرا چہرہ ہے۔ ایسے کردار اپنے اندر بلا کی کشش رکھتے ہیں۔ ایسے کرداروں کے مداح ان پر جان چھڑکنے والے ہوتے ہیں اور ان کے مخالف ان کی موت کے آرزو مند۔ چرچل جب اپنی مقبولیت کے عروج پر تھا تو جنگ عظیم دوم کی فتح کے بعد ایک دفعہ پیرس کے بازار میں گھوم رہا تھا۔
ایک خاتون نے اس کا گریبان تھاما اور کہا ’’اگر تم میرے خاوند ہوتے تو میں تمہاری کافی میں زہر ملا دیتی‘‘۔ چرچل مسکرایا اور اس نے کہا ’’اگر تم میری بیوی ہوتی تو میں وہ کافی بخوشی پی لیتا‘‘۔ ایسی ہی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی جنرل حمید گل کا بھی خاصہ تھی اور شاید یہ ہر ایسے کردار کا خاصہ ہوتی ہے جسے محبت کے پھول اور نفرت کے پتھر بیک وقت ملے ہوں۔ یوسف زئی پختون قبیلے کا فرد جس کے آباؤ اجداد سرگودھا میں آ کر آباد ہو گئے۔ تمتماتا ہوا چہرہ اور آنکھوں میں حیاء اور شرم کی خیرہ کر دینے والی چمک۔شخصیت کا رعب ایسا کہ محفل میں کسی کو لغو یا فضول بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ وہ آتے تو نسیم انور بیگ صاحب ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ یوں تو میز پر موجود ہر کوئی انھیں اس لیے سننا چاہتا تھا کہ ان کے پاس تازہ خبر ہو گی لیکن وہ تو خود نسیم انور بیگ کے پاس آتے کہ خبر تو وہ ہے جس کا فیصلہ قضا و قدر کے کارپردازان کرتے ہیں۔ وہ خواب ایسے دیکھتے جس کی تعبیر کی تکمیل کا راستہ موجود ہو۔ وہ اس راستے کا تعین بھی کرتے اور ایک جرنیل کی طرح اس پر چلنے‘ دشمن سے ہوشیار رہنے اور وقت پر وار کرنے کی پوری حکمت عملی وضع کرتے۔
دنیا میں تاریخ سے زیادہ متعصب اور گمراہ کن مضمون کوئی نہیں۔ تعصب کے ضمیر میں گندھا ہوا اس کا آٹا بدبودار اور متعفن زدہ ہے۔ دو یا تین ہزار سال تو دور کی بات ہے آج ہم کسی شخصت یا واقعہ کی تاریخ لکھنا چاہیں تو ہمارے تعصبات ہمیں سچ نہیں لکھنے دیتے۔ کیا ہم آج ضیاء الحق کے بارے میں سچ لکھ اور بول سکتے ہیں۔ وہ جنھیں اس نے اقتدار کی مسند بٹھایا اور وہ آج بھی بیٹھے ہوئے ہیں‘ ان کی بھی زبانیں گنگ ہیں۔ کیا اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر جیسے کرداروں کے بارے میں کبھی سچ بولا جائے گا۔ شاید نہیں اور خصوصاً اس کارپوریٹ سرمائے سے قائم میڈیا اور جمہوری نظام میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل حمید گل کی شخصیت بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہے کہ جس پر بات کرنے والے سیکولر عینک کے تعصب اور جمہوری فریب زدگی کے قلم سے مسلح ہیں لیکن اس مملکت خداداد پاکستان سے محبت اور اس کے مستقبل سے امید گل صاحب کی شخصیت کا ہی خاصہ تھی۔
ان پر تنقید کرنے والے سیاست دان یا ان کے پروردہ وہ ہیں جن پر اس ملک میں اقتدار کے دروازے بند ہوں تو کوئی بھارت کے ٹینکوں پر چڑھ کر آنے کی خواہش رکھتا ہے تو کوئی امریکا اور سعودی عرب کے اثرورسوخ کی چھتری تلے اس ملک پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ حمید گل صاحب کا ضمیر ہی اس وطن سے محبت میں گندھا ہوا تھا۔ 92ء ہجری میں امام نفس زکیہ کے صاحبزادے عبداللہ شاہ غازی جس جہاد ہند کی بشارتیں اپنے نانا سید الانبیاء ﷺ کے حوالے سے سنتے آئے تھے اور اس کی امید پر کراچی کے ساحلوں پر آ کر آباد ہو گئے تھے‘ جنرل حمید گل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ افغان جہاد کا کونسا ایسا سپاہی ہے جو ان کا نام احترام سے نہ لیتا ہو‘ افغان جہاد کے بارے میں ان کا ایک موقف تاریخ کی اتنی بڑی سچائی ہے کہ اگر کبھی کسی نے پاکستان کی تاریخ تعصب کی عینک اتارکر لکھی تو وہ حمید گل صاحب کے اس موقف پر مہر تصدیق ثبت کرے گا کہ ’’افغانوں نے چودہ سال قربانی دے کر پاکستان کے بقا اور تحفظ کی جنگ لڑی‘‘۔ جن عظیم دانش وروں اور کافی کے تلخ گھونٹ اور مشروب مغرب کے اثر میں لکھنے والوں کو اس بات کا اندازہ نہیں وہ صرف ایک بار تاجکستان‘ ازبکستان‘ کرغستان‘ کازاکستان‘ ترکمانستان اور آذربائیجان کی مسلمان ریاستوں میں جا کر دیکھ لیں جن پر سوویت یونین نے قبضہ کیا تھا۔
ظلم و بربریت کی کہانیاں تو آپ کو ہر بوڑھا سنائے گا کہ 1917ء کوئی زیادہ دور کی بات نہیں لیکن غربت و افلاس اور بھوک اور بیماری یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سوویت یونین کے قبضے نے وہاں کیا کچھ کیا۔ دوشنبے جیسے شہر میں صرف دو سڑکیں شہری سہولیات رکھتی‘ باقی شہر میں عورتیں آج بھی ربڑ کے مشکیزے اٹھائے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ بڑے بڑے ثقافتی مرکز اور غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے شہر اور دیہات۔ ان لوگوں کی نسل کشی جنھیں دین کا تھوڑا سا بھی علم حاصل تھا۔ پچھتر سال تک مسجدوں پر تالے‘ کئی ایک کو گوداموں میں بدل دیا گیا۔ لوگ تہہ خانوں میں چھپ کر قرآن کی تعلیم بچوں کو دیتے۔ دسمبر 1979ء میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو پاکستان کے تمام ترقی پسند جو آج امریکا کی جھولی میں بیٹھے ہیں‘ اس وقت روس کے خوشہ چین تھے۔ مسکراتے ہوئے طنز کرتے تھے کہ وہ دیکھو تمہارے دروازے تک آ گیا‘ اب ڈیورنڈ لائن عبور کرے گا اور تم لوگ داڑھیاں منڈوا کر اپنی شناخت چھپاتے پھرو گے۔ کوئی عبدالرحمن سے رحمانوف بن جائے گا اور کوئی نذیر سے نذیروف۔ سرخ سویرا طلوع ہونے والا ہے۔
بیس لاکھ افغان اپنی جانوں کی قربانی نہ دیتے۔ افغانستان کو سوویت یونین کا قبرستان نہ بناتے تو نہ حمید گل کی آئی ایس آئی ہوتی اور نہ ہی نواز شریف کی مسلم لیگ‘ نہ الطاف بھائی کی گونج ہوتی اور نہ مولانا فضل الرحمن کاجبہ و دستار۔ جس کو حمید گل کی اس سچائی پر یقین نہیں‘ وہ ایک دفعہ وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کا دورہ کرکے دیکھ لے۔ ایسا سچ بولنے والا ٓج ہم میں نہیں رہا‘ لیکن میرا ایمان ہے کہ جس راستے کے وہ راہی تھے‘ ان کا استقبال اس راستے پر گامزن ارواح نے کیا ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کی امین تھیں۔ ’’دو لشکروں پر جہنم کی آگ حرام‘ ایک وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا اور دوسرا وہ جو جہاد ہند میں حصہ لے گا‘‘۔
مردِ درویش، مردِ قلندر (آخری قسط)
اوریا مقبول جان جمعـء 7 اگست 2015
یہ ایک پُرامن افغانستان تھا۔ ایسا افغانستان جس کا تصور تک بھی ایک پشتون سربراہِ مملکت کی حیثیت سے کسی نے کیا نہ ہو گا۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی پشتون کو اقتدار میسر آیا اس نے اپنے بھائی سے پرانے بدلے چکانے کی ریت ڈالی۔ ” تربور ــ” پشتو زبان میں ایک ایسے رشتے کے بھائی کو کہتے ہیں جس سے اندر ہی اندر عداوت چل رہی ہوتی ہے۔ اس عداوت کو ” تربور گردی” کہا جاتا ہے۔ لیکن ملا محمد عمر کی ذات تو اس سے بالاتر تھی۔
گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں یہ دور امن و آشتی اور عدل و انصاف کا ایسا دور تھا جس کی خوشبو اردگرد کے علاقوں میں جا نکلی تھی۔ افغان معاشرہ میں اسلحہ مرد کا زیور سمجھا جا تا ہے۔ ہر کوئی ہتھیار کندھے پر لٹکا کر چلنے کو مردانگی خیال کرتا ہے۔ گزشتہ سولہ سالہ افغان جنگ نے افغانوں کو اسقدر اسلحہ دیا تھا کہ شہر کے شہر اسلحہ کے گودام بن گئے تھے۔ ریاست کی کامیابی کا دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ لوگوں کو یہ اطمینان ہو جائے کہ اب ان کی حفاظت کرنے کو ریاست موجود ہے تو وہ بے فکری کی نیند سونے لگتے ہیں۔
ملا محمد عمر نے اعلان کیا کہ اماراتِ اسلامی اللہ کی دی گئی ذمے داری کے تحت آپ لوگوں کی جان و مال کی ذمے دار ہے، آپ لوگ اپنا اسلحہ جمع کروا دیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ صرف بیس دن کے اندر تمام لوگوں نے اپنا اسلحہ اپنے علاقے کے طالبان کے نامزد کردہ گورنروں اور ” اولس والوں” (ضلعی سربراہوں) کو جمع کروا دیا۔ پاکستان میں معین الدین حیدر صاحب نے فوج اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے یہ کرنے کی کوشش کی تھی، نتیجہ ہر کسی کو معلوم ہے۔ دنیا میں درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں منشیات کی کاشت اور کاروبار ہوتا ہے لیکن افغانستان ان میں سب سے زیادہ افیون کاشت کرنے والا ملک تھا۔ افیون جس سے ہیروئن تیار ہوتی ہے اور یہ ہیروئن افغانستان کی سرحد پر قائم فیکٹریوں میں تیار ہوتی۔ دنیا کے ہر ملک نے جہاں منشیات کی کاشت اور دھندا ہوتا تھا، انھوں نے جنگی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے ذریعے اس دھندے اور کاشت کو ختم کرنے کی کوشش کی، کولمبیا سے لے کر تھائی لینڈ تک، سب جگہ آرمی ایکشن ہوا، نتیجہ دس سے پندرہ فیصد کمی۔ لیکن افغانستان جہاں سے نوے فیصد افیون عالمی مارکیٹ میں جاتی تھی، ملا عمر کا ایک حکم نامہ نکلنے کی دیر تھی، کھیتوں میں کھڑی کروڑوں کی فصل کو لوگوں نے خود ہی آگ لگا دی اور وہاں پوست کی کاشت صفر ہو گئی۔
1997ء میں میرے پاس چاغی کے ڈپٹی کمشنر کی ذمے داری تھی۔ افغانستان کے علاقے شوراوک سے ایک نالہ آتا ہے جو نوشکی کے اردگرد مینگل، بادینی اور جمالدینی قبائل کی زمینوں کو سیراب کرتا۔ ایک دن ان تینوں قبیلوں کے سردار آئے کہ افغانستان کے علاقے میں اکبر بڑیچ نامی شخص نے بند باندھ کر پانی روک لیا ہے۔
میں نے سرحد پار ہلمند کے گورنر سے رابطہ کیا جو لشکر گاہ میں بیٹھتا تھا۔ اس نے کہا میں ابھی آپ کے دفتر آ رہا ہوں، اس لیے کہ میں یہیں قریب ہی سرحد پار موجود ہوں۔ وہ ایک موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے ہوئے تشریف لائے۔ ایک سادہ سا مولوی جسے آج لوگ طالبان رہنما کے طور پر جانتے ہیں۔ کہنے لگا موقع پر چلتے ہیں، آپ اپنے دو مولوی لے آئیں، میں اپنے دو مولوی لے آتا ہوں۔ انگریزی نظام میں پلے بڑھے قبائلی ایک دم تمسخرانہ انداز میں بولے، مولوی کا کیا کام۔ اس نے کہا ہماری جانب مولوی کا ہی کام ہے۔ خیر ہم نے مولوی بھی لیے اور ساتھ تحصیلدار، گرداور، پٹواری اور ریکارڈ بھی اٹھا لیا۔
موقع پر پہنچے، بلڈوزر سے ایک بہت بڑا بند بنا ہوا تھا اور سارا پانی روک کر اپنے کھیتوں کی جانب اس کا رخ موڑ دیا گیا تھا۔ طالبان کے گورنر نے چاروں مولویوں سے پوچھا، بہتے ہوئے پانی کے بارے میں فقہہ کا کیا حکم ہے۔ چاروں نے بیک زبان کہا “اپنی ضرورت کا لے سکتے ہیں لیکن نیچے والوں کا پانی نہیں روک سکتے۔‘‘ طالبان کے اس گورنر نے جس کے ساتھ نہ تو کوئی سپاہی تھا اور نہ ہی مسلح دستے، بس اتنا کہا “یہ بند تم توڑو گے یا ہم” اور پھر صبح ہونے تک وہ ہفتوں میں بنا ہوا بند ٹوٹ چکا تھا۔
یہی زمانہ تھا جب 1947ء کے بعد پہلی دفعہ سروے آف پاکستان کی ٹیم نے ڈیورنڈ لائن یعنی پاک افغان سرحد پر برجیاں نصب کیں اور زمینی سروے مکمل کیا ورنہ ظاہر شاہ کے دور سے لے کر مجاہدین کے انتشار تک کسی حکومت کے دوران اس سرحد پر جانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ وہ افغانستان جو کبھی پاکستان سے چوری کی گئی گاڑیوں اور تاوان کے لیے لے جائے جانے والے مغویوں کا مسکن تھا۔ طالبان کے شروع کے زمانے میں وہ مغوی اور گاڑیاں پکڑ کر واپس کی جاتیں اور اس کی گواہی بارڈر کا ہر ڈپٹی کمشنر دے گا اور ایک سال بعد تو کسی کی جرأت نہ کہ چوری یا اغوا کر کے ادھر کا رخ کرے۔
پاکستان کے کسی مخالف قوم پرست کو افغانستان میں پر مارنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ وہ جو انگریز کے زمانے سے بھاگ بھاگ کر وہاں پناہ لیتے تھے بھیگی بلی بنے پاکستان میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک رپورٹ دے کر ایک وفد کو ملا عمر کے پاس بھیجا کہ آپ کے ہاں راس کوہ میں لشکر جھنگوی کا کیمپ ہے جہاں وہ قتل کر کے پناہ لیتے ہیں۔
وہ جرنیل صاحب شکایت جمع کروا کر واپس آ گئے، لیکن اس کے بعد چاغی کے پاس جا کر جب طالبان نے معلومات کیں تو یہ کیمپ راس کوہ میں دالبندین سے آگے پاکستان کے بارڈر پر تھا اور اس کی سرپرستی کر نے والوں کا نام لیتے ہوئے بھی پر جلتے ہیں۔
وہ افغانستان جو ہر جہادی تنظیم کے لیے ایک کھلا میدان تھا، جو کوئی جس ملک سے اٹھتا بغیر سوچے سمجھے وہاں آ کر آباد ہو جاتا۔ ملا محمد عمر نے کہا کہ پہلے اسلام کے اصولوں کے مطابق بیعت کرو، ریاست کا حصہ بنو اور پھر ہمارے ساتھ مل کر جو چاہے کرو۔ اسامہ بِن لادن اور القاعدہ نے بیعت کی۔ بیعت ان کے نزدیک شہریت کا نام تھا۔ اس بیعت کی اسقدر لاج اور شرم رکھی گئی کہ اس شخص یعنی اُسامہ بن لادن کے لیے وہ دنیا کی 48 طاقتوں سے ٹکرا گئے۔
کیا زمانہ تھا۔ پاکستان کا سہما سہما وفد، امریکیوں کے ہمراہ اس مٹی کے گھر میں سادہ سی چٹائی پر بیٹھا تھا اور سمجھا رہا تھا کہ تم اُسامہ بِن لادن کو حوالے کر دو ورنہ تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ ملا محمد عمر نے کہا اس کے خلاف ثبوت فراہم کرو۔ امریکی تمام ثبوت لے کر آ گئے۔ سوال صرف ایک تھا، کیا ان ثبوتوں کی بنیاد پر امریکا کی عدالت اُسامہ کو سزا سنا سکتی ہے، امریکی بولے ناممکن، ملا محمد عمر بولے پھر ہم سے یہ توقع کیوں۔ اب ڈرانے کے باری تھی۔
کہا مان جاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔ انھوں نے کہا تباہ ہونے سے نہ ڈراؤ، ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، اور ایک دن ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ صرف یہ بتاؤ ہماری وجہ سے پاکستان کو تو کوئی مسئلہ نہ ہو گا کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو۔ پاکستانی وفد نے کہا ہمیں کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ بات ختم ہو گئی۔ اور پھر وہ جنہوں نے غیرت و حمیت کا درس تاریخ کو دینا تھا اور حق کی گواہی پر کھڑے ہونا تھا وہ ڈٹ گئے اور آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں ہم نے تو سید الانبیاء کے اس ارشاد کی بھی لاج نہ رکھی کہ “وہ مسلمان نہیں جس کی ایذا سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں” ۔
پڑوسی کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط نہیں۔ لیکن ہماری سرزمین سے 57 ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑے اور انھوں نے ان سرفروشوں کو اپنے اللہ کے حضور سرخرو کرنے کے لیے شہادت سے سرفراز کیا۔ مؤرخ آج بھی تاریخ لکھ رہا ہے اور ویسی ہی لکھ رہا ہے جیسی اس کا تعصب اسے مجبور کرتا ہے۔ ملا محمد عمر کے خلاف تین قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو شروع شروع میں ان کے داڑھی اور حجاب کے حکم کے خلاف تھے۔
افغانستان کے ننانوے فیصد لوگ داڑھی اور حجاب والے تھے اور ایک فیصد ملا عمر کو ظالم کہنے والے۔ دوسرے وہ جن کا رِزق منشیات کے دھندے سے وابستہ تھا اور تیسرے مسلک کے تعصب میں اندھے کہ جنھیں کسی دوسرے مسلک کا سچ بھی جھوٹ لگتا ہے۔ لیکن قدرت کا عجیب انتقام ہے کہ وہ سب لوگ جو کل تک طالبان اور ملا محمد عمر کے خلاف بولتے نہیں تھکتے تھے اب ان کے تبصرے اور تحریریں بتاتی ہیں کہ امن کی کُنجی تو طالبان کے پاس ہے۔ ہر کسی کو علم ہے کہ خوف داعش کا ہے اور ڈر کس نوعیت کا ہے۔
لیکن طالبان کے افغان دور کے پانچ سالوں کی خوشبو کی ایک مہک ہے جو اس زمانے میں پاکستان کے سرحدی اضلاع کے ہر فرد نے محسوس کی تھی۔ یہ خوشبو کیوں نہ پھیلتی، جس تحریک کا آغاز ملا محمد عمر نے رسولِ اکرم ﷺ کے جبہ مبارک پر بیعت لے کر کیا تھا، اس خوشبو نے تو پھیلنا ہی تھا۔
بت گری پیشہ کیا، بت شکنی کو چھوڑا
اوریا مقبول جان پير 24 اگست 2015
شاید یہ خبر اس قدر عام نہ ہوتی اگر کامیابی کے نشے میں چور، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے ٹوئٹر پر اس کا اعلان نہ کرتا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ایک ہندو مندر بنانے کے لیے دبئی میں زمین فراہم کر دی ہے۔ یہ خبر دنیا والوں کے لیے حیران کن ہو گی کہ وہ جزیرہ نمائے عرب جہاں آج سے چودہ سو سال قبل سید الانبیاءﷺ نے شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کر دیا تھا، اس کے ایک حصے میں انھیں کے ماننے والے مورتیوں کے گھر کی تعمیر کے لیے زمین عطا کریں گے۔
لیکن وہ جو سرکار دو عالمؐ کی پیش گوئیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کے یقین و ایمان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اس ہادی برحقؐ نے کس طرح کھول کھول کر وہ سب کچھ بتایا اور ان سب علامات قیامت کی خبر دی جو انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی۔ صحیح بخاری میں درج سرور عالمؐ کی یہ پیش گوئی ’’قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتیں ذوالخصلہ کے بت خانہ میں چکر نہ لگائیں‘‘۔(بخاری)۔ عرب میں جاہلیت کے زمانے میں جگہ جگہ بہت سے بت خانے قائم تھے اور لوگ پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔
ان میں عرب کے جنوب مغرب میں دوس قبیلہ رہتا تھا جن کا بت خانہ ذوالخصلہ کے مقام پر تھا۔ دین حق پھیلا تو اس کا نام و نشان تک ختم ہو گیا۔ یوں تو دبئی ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو دنیا میں موجود تقریباً ہر بڑے مذہب کی عبادت گاہیں مل جائیں گی جن میں ہندو مندر بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ دبئی کی معیشت تو مدتوں سے ایک ایسے ماحول سے وابستہ ہو چکی ہے جس میں خطے کی پیداوار کچھ ہو نہ ہو، وہ خطہ خوشحال ضرور ہوتا ہے۔ یہ کاروبار یا معیشت کی زبان میں ’’آزادانہ تجارتی منڈی،، کا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں صرف تجارت ہی نہیں بلکہ اخلاقیات و اقدار تک سب آزاد ہو جاتے ہیں۔
دبئی سے پہلے اس طرح کا ماحول ان شہروں میں پیدا کیا گیا جنھیں یا تو امریکا یا دیگر عالمی طاقتوں نے فتح کیا تھا یا پھر وہ امریکا کی کسی جنگ میں اس کے حلیف تھے اور ان ملکوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جنگی مراکز قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ فلپائن کا شہر منیلا اس ’’ماحول‘‘ کی اولین تجربہ گاہوں میں سے ایک تھا۔ 1901ء کے ’’شکاگو ٹرابیون‘‘ میں ایک صحافی نے منیلا شہر کی روداد بیان کی ہے، جہاں امریکی فوجی فلپائن کے عوام کو اسپین کے ظالم کیتھولک عیسائی حکمرانوں سے آزادی دلوانے پہنچے تھے۔
فلپائن کی آزادی کی جنگ کے ہیرو ’’رزال‘‘ نے اس ظلم و جبر کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح یہاں کی مقامی آبادی کو عیسائی بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن امریکی وہاں پہنچے، ان کی آزادی کی جنگ میں مدد کی، اپنی چھاؤنیاں بنائیں، اور پھر انھیں ایک اور بدترین غلامی کا شکار کر گئے۔ صحافی اپنی روداد میں لکھتا ہے کہ ایک پوری امریکی فوجی یونٹ کے ذمے ’’آرمی ویلفیئر‘‘ کے نام پر ایک ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض سے غریب گھرانوں کی تیرہ سے سولہ سترہ سال کی بچیوں کو بہلا پھسلا کر منیلا کے بازاروں میں لا بٹھائے تا کہ امریکی فوجیوں کی تفتن طبع کا انتظام ہو سکے۔ دنیا بھر میں ایسے ماحول کو ’’نائٹ لائف‘‘ یعنی رات کی زندگی کہا جاتا ہے۔ آپ آج دنیا کے کسی بھی بڑے شہر کا سیاحتی معلوماتی کتابچہ نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ’’نائٹ لائف‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ باب اس میں نظر آئے گا۔
منیلا جیسے کئی شہر اس دنیا کے نقشے پر آباد کیے گئے۔ ان میں سے کئی بڑے بڑے تجارتی مراکز کے طور پر آج بھی موجود ہیں اور کئی صرف اورصرف اپنی خوبصورتی یا تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحتی مرکز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں جنگ عظیم اول کے بعد بیروت کو خاص طور پر ان مقاصد کے لیے سجایا اور سنوارا گیا۔ عالمی طاقتوں نے وہاں کی مخلوط آبادی عیسائی، شیعہ اور سنی کو اس طرح آئینی طور پر تقسیم کیا کہ ’’میرو نائٹ عیسائیوں‘‘ کو اقتدار میں بالا دستی رہے۔
صدیوں سے روم کے زیر نگیں رہنے والے اس شہر کے مخصوص تاریخی پس منظر اور پڑوس میں یہودی ریاست کے قیام کی وجہ سے اس کا اسلامی تشخص مٹانے کے لیے اس کو اس طرح کے ’’آزادانہ ماحول‘‘ کا تحفہ دیا گیا۔ ایسے ماحول کو کاروبار کے لیے ساز گار ماحول کہا جاتا ہے۔ یہ کاروبار بھی عجیب ہوتا ہے۔ نہ وہاں کوئی کھیت ہوتے ہیں اور نہ کار خانے۔ معدنیات بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ملکی معیشت کا پیٹ پال سکیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے تاجروں، سٹے بازوں، جواریوں، عیاشیوں، اوباشوں اور نام نہاد سیاحوں کو اس شہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
دبئی بھی انھی شہروں میں سے ایک ہے جس کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، یہاں تک کہ وہ تیل کی دولت سے بھی محروم ہے۔ تیل کی پیداوار اس کی پوری معیشت کا 2 فیصد ہے۔ لیکن 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اس نے سونے کی آزادانہ تجارت کا آغاز کیا اور نوے کی دہائی میں یہ بھارت کو سونا اسمگل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اسمگلنگ کی اس دولت سے دبئی کو ایک سیاحتی مرکز میں بدلنے کے لیے وہاں تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا اور پام جمیرہ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا انسانوں کا بنایا ہوا جزیرہ سمندر کے بیچوں بیچ تعمیر کیا گیا۔ ہیروں کے کاروبار کا آغاز ہوا اور اس وقت یہ تجارت 35 ارب ڈالر تک ہے۔
سیاحتی مرکز کو ایک شاندار ایئر لائن اور ایئر پورٹ کی ضرورت تھی۔وہ ضروریات بھی پوری کیں اور دبئی ائر پورٹ شاید وہ واحد ایئر پورٹ ہے جو کسی مسلم ملک میں واقع ہے اور وہاں آپ کھانے کی دیگر ڈشوں کے درمیان عربی میں ایک چٹ نظر آئے گی جس پر لکھا ہو گا ’’لحم الخنزیر‘‘ اور انگریزی میں “Pork”۔ مسلم امہ میں صدیوں سے اسٹور کے گوشت سے ایک کراہت موجود تھی۔ غالبؔ پکڑا گیا تو انگریز نے پوچھا تم مسلمان ہو؟ کہا آدھا، کہا کیسے؟ کہنے لگا شراب پیتا ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتا‘‘۔ سیاحت کے عالمی مرکز نے اس مسلمان شہر کا یہ تشخص بھی ختم کر دیا۔ سیاحت وہاں کونسی ہے نہ آبشار ہیں نہ پہاڑ اور نہ ہی تاریخی مقامات، البتہ ’’نائٹ لائف‘‘ کے نام آپ کو سیاحتی کتابچے ضرور میسر آ جائیں گے۔
روس کے سائبریریا سے لے کر جاپان کے اوساکا اور بمبئی، کراچی، تہران، پیرس، بغداد، نیو یارک، لندن، بنکاک، غرض ہر شہر سے آنے والی فلائٹوں میں آپ کو مخصوص خواتین نظر آئیں گی جو ایک ماہ کے سیاحتی ویزے پر آتی ہیں اور اس ایک ماہ کے بعد وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں تو خوشحالی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس ’’نائٹ لائف‘‘ کی داستانیں ملیں گی۔ یورپ کے اخبارات اس شہر کو مشرق کا ایمسٹرڈیم کہتے ہیں۔ اس سارے کاروبار اور رنگا رنگی کو چلانے اور ’’ماحول‘‘ بنانے کے لیے افرادی قوت چاہیے اور دنیا بھر سے لوگ وہاں اس کاروباری ماحول کا ایندھن بنتے ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی ہے جو 26 لاکھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مودی امارات کی بڑی مسجد دیکھنے گیا تو وہ جگہ جہاں صرف اللہ کے نام کو سر بلند ہونا چاہیے تھا، وہاں مودی مودی کے نعرے لگائے گئے کہ وہاں ایک کثیر تعداد بھارتیوں کی جمع تھی۔
ذوالخصلہ کے بت خانے کا چکر تو میرے آقا ﷺ نے ایک علامت کے طور بیان کیا ہے۔ اس باب کی احادیث پڑھیں تو ایسا لگتا ہے ہم اس دور میں زندہ ہیں جو قیامت کے قریب معرکوں کا دور ہے۔ غزوہ ہند کی پیش گوئیوں کے بارے میں پڑھتا تھا کہ کیا بھارت دنیا میں اس قدر اہمیت اختیار کر جائے گا کہ اس سے جہاد امت مسلمہ کی بقا اور شرک کے خاتمے کے لیے ضروری ہو جائے گا۔ آپؐ کی بتائی گئی نشانیوں کی جانب غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معرکہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔
معرکوں کے میدان صرف دو ہیں۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ شام سیدنا امام مہدی کا ہیڈکوارٹر اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا مقام۔ دونوں لشکروں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن جہاد ہند کے بارے میں تو رسول اکرمؐ نے صحابہ سے حصہ لینے کا وعدہ لیا (مسند احمد) اس غزوہ کے وقت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ’’ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے (الفتنن)۔ معرکہ قریب ہو تو صف بندیاں ہو جاتی ہیں۔ صف بندیاں شروع ہیں دفاعی، تجارتی اور سیاحتی معاہدے جاری ہیں۔ ایران ہو یا دبئی، امریکا ہو یا اسرائیل، مودی کے لیے چشم براہ۔ لیکن نصرت الٰہی کا اندازہ تو اسی وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کمزور ہوں، تعداد میں کم ہوں اور وہ آپ کو فتح و کامیابی عطا کرے۔
معرکہ قریب آن پہنچا
اوریا مقبول جان جمعـء 31 جولائ 2015
امرتسر کی مسجد خیرالدین کے احاطے میں موجود اپنے دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد جب میں بازار کی جانب روانہ ہوا تو موبائل کی سم خریدنے کے لیے دکان پر رکا۔ اس نے مجھ سے شناخت مانگی۔ میں نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پاسپورٹ دیکھا، مجھ سے پنجابی میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا، چائے پینے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے سِم دے دو تا کہ میں اپنے گھر رابطہ کر سکوں۔
میرے اس سوال پر اس کا چہرہ اتر گیا، انتہائی معذرت کے ساتھ بولا کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر سِم جاری نہیں کر سکتا۔ میں نے پوچھا کو ئی پابندی ہے، کہنے لگا یہاں ہر کمپنی نے منع کیا ہوا ہے۔ میں واپس گاڑی میں آ گیا، میرا ڈرائیور روہت ہما چل پردیش کا ہندو تھا، جو امرتسر میں آ کر مستقل رہائش پذیر ہو گیا تھا۔ اس نے مجھے مایوس لوٹتے ہو ئے دیکھا تو کہا، پورے بھارت میں کوئی آپ کو سِم نہیں دے گا۔ میں نے ایک دفعہ اپنے ایک پاکستانی مسافر کو کچھ دیر کے لیے اپنی سِم ادھار دے دی۔
اس نے اس سے پاکستان دو یا تین دفعہ کالیں کیں۔ وہ تو واپس چلا گیا لیکن چند دن بعد پولیس والے مجھ سے تفتیش کرنے پہنچ گئے۔ گولڈن ٹمپل میں ایک جانب بیٹھے سکھ سے جب میں نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے بارے میں سوال کیا تو وہ خاصا محتاط تھا، بس اتنا ہی بول سکا، کسی کو یقین تک نہ تھا کہ ہمارے اس مقدس مقام میں بھی فوج آپریشن کے لیے گھس سکتی ہے۔
گولڈن ٹمپل کے دروازے سے لے کر دیگر جگہوں تک آپ کو سنگِ مرمر کی بڑی بڑی تختیوں پر فوجی سکھ رجمنٹوں کے نام کھدے ہوئے ملیں گے۔ یہ تختیاں خاص طور پر بھارتی فوج کی رجمنٹوں نے لگائی ہیں۔ میں نے دنیا کے کسی مذہب کے مقدس ترین مقام پر اس طرح آرمی یونٹوں کی جانب سے تختیاں آویزاں نہیں دیکھیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، بھارت شروع ہی سے سکھوں کی میدانِ جنگ میں کام آنے والی صلاحیتوں پر بے حد انحصار کرتا رہا ہے۔ پورے بھارت میں آج بھی کسی دوسری ریاست میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے سکھ رجمنٹ پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔
وہ سکھ فوجی جرنیل جس نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی بنوائی اور بھارت کو اس سازش کے ذریعے فتح دلوائی، آخری وقت میں بھارت کے چہرے سے اس قدر متنفر ہو گیا تھا کہ خالصتان تحریک میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ آپریشن میں مارا گیا اور اس کی لاش تک حوالے نہ کی گئی بلکہ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو جنرل ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے ساتھ کیا۔ ہمایوں کے مقبرے سے جب بہادر شاہ ظفر کو حراست میں لیا گیا تو اس کے دو بیٹوں کے سر کاٹ کر طشتری میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کیے گئے اور باقی بیٹوں کی لاشیں ان بیل گاڑیوں میں ڈالی گئیں جو شہر سے غلاظت اور کوڑا کرکٹ اٹھاتی تھیں اور انھیں پورے شہر میں گھمایا گیا۔
یہی حال گولڈن ٹمپل میں مارے جانے والے ان سکھ باغیوں کا کیا گیا۔ لیکن سکھوں کے ہاں انتقام کی ایک تاریخ ہے۔ جلیانوالہ باغ کی راہداریوں میں گھوم رہا تھا تو اس چھوٹے سے باغ کے چاروں جانب مکانات ہیں، باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے جہاں بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے بندوق بردار سپاہی کھڑے کر کے فائر کا حکم دے دیا تھا۔ آج بھی دیواروں پر گولیوں کے وہ نشان موجود ہیں، وہ کنواں بھی ہے جس میں لوگوں کی لاشوں کو پھینکا گیا تھا سکھ انتقام کی علامت اودھم سنگھ کی تصویر بھی وہاں آویزاں ہے۔ اودھم سنگھ 1899ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ریلوے پھاٹک کا چوکیدار تھا۔
اس کی والدہ 1901ء میں انتقال کر گئیں اور والد بھی 1907ء میں چل بسے، اودھم سنگھ اور اس کا بڑا بھائی مکتا سنگھ دونوں امرتسر کے خالصہ یتیم خانے ’پتلی گھر‘ میں رہنے لگے۔ اودھم سنگھ نے 1918ء میں میٹرک کیا اور یتیم خانہ چھوڑ گیا۔ 1919ء میں پنجاب میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے خلاف سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا۔ انگریز پہلی جنگِ عظیم کی فتح سے سرشار بھی تھا اور معاشی طور پر بدحال بھی۔ اور ادھر تیسری افغان جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ خوفزدہ انگریز فوجیوں کو ایک اور 1857ء جیسی بغاوت کا خطرہ تھا۔
اسے لیے اس تحریک کے اہم رہنماؤں سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کو گرفتار کر کے خفیہ مقام پر لے جایا گیا، جس کے خلاف 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ میں تقریباً بیس ہزار افراد احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ بریگیڈیئر جنرل ڈائر جو مری کے نزدیک گھوڑا گلی میں پیدا ہوا تھا جہاں اس کا باپ مشہور کارخانہ مری بروری چلاتا تھا۔ شملہ میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انگلینڈ گیا اور سینڈھرسٹ میں ٹریننگ کے بعد برٹش آرمی کا حصہ بن گیا جہاں 1886ء میں اس کی پہلی ڈیوٹی بلفاسٹ میں آئر لینڈ کے باغیوں کو کچلنے پر لگائی گئی۔
اسے وزیرستان میں محسود قبائل کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا گیا، پھر وہ لنڈی کوتل میں قبائل کے خلاف لڑا، پہلی جنگِ عظیم کے دوران وہ چاغی کے بارڈر پر سیستان فورٹ میں رہا جہاں اس کی خدمات کو سراہا گیا اور اسے کرنل سے عارضی طور پر بریگیڈیئر جنرل بنا دیا گیا۔ 13 اپریل1919ء کو اسے بغاوت کی اس اُٹھتی ہوئی لہر کو روکنے کی ذمے داری سونپی گئی اور اس نے گولڈن ٹمپل سے چند سو گز کے فاصلے پر واقع جلیانوالہ باغ میں نہتے عوام پر فائر کھول دیا۔ اس نے ایک سپاہی کی حیثیت سے سر مائیکل ڈائر گورنر پنجاب کے حکم کی تعمیل کی اور اس کا اقرار کیا۔
اودھم سنگھ ایک بچہ تھا اور وہ جلیانوالہ باغ میں اسوقت لوگوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی پر مامور تھا۔ اس نے یہ تمام قتل و غارت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور پھر اس نے گورنر پنجاب کا وہ اعلان بھی سنا تھا جس میں اس نے اس قتل و غارت کو درست قرار دیا تھا۔ اس نے اپنے دل میں انتقام کی آگ کو اکیس سال تک سنبھالے رکھا۔ داڑھی منڈوائی، سوٹ، ہیٹ پہنا اور 3 مارچ 1940ء کو لندن کے کیکسٹن ہال تک پہنچنے کی رسائی حاصل کی جہاں مائیکل ڈائر نے تقریر کرنا تھی۔ اس نے اپنا ریوالور ایک کتاب میں چھپایا ہوا تھا۔ جیسے ہی ڈائر تقریر کرنے اسٹیج کی طرف بڑھا اس نے فائر کھول دیے۔
وہ اسے قتل کرنے کے بعد اطمینان سے کھڑا رہا۔ گرفتار ہوا ۔ مقدمہ چلا۔ اس کا بیان ایک تاریخی حقیقت اور آزادی و حرّیت کے جذبوں سے نچڑا ہوا ہے۔ اسے 31 جولائی 1940ء کو پنٹو نوائل کے جیل خانے میں پھانسی دے دی گئی اور وہیں دفن کر دیا گیا۔ 1974ء میں اس کی باقیات کو وہاں سے نکال کر بھارت لایا گیا، اس کے گاؤں میں انھیں چِتا کے سپرد کیا گیا اور راکھ ستلج دریا پر بکھیر دی گئی۔
آج سے آٹھ سال قبل 2007ء میں جب میں دہلی شہر میں گھوم رہا تھا تو دلی میں آباد لاکھوں سکھوں کے دلوں میں اودھم سنگھ ابھی تک زندہ تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دو اور کرداروں کا بھی ذکر کرتے تھے، ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ، جنھوں نے 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کو اسوقت قتل کیا جب وہ آئرش ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو دینے کے لیے اپنے گھر کے باغ سے ہوتی ہوئی دفتر جا رہی تھی۔ غصہ اسقدر شدید تھا کہ بے انت سنگھ نے تین گولیاں چلائیں لیکن ستونت سنگھ نے پوری تیس گولیاں اندرا گاندھی کے جسم میں اتار دیں۔
قتل کے بعد دونوں اطمینان سے کھڑے رہے۔ بس اتنا بولے ہم نے جون 1984ء میں گولڈن ٹمپل کی توہین کا بدلہ لے لیا، اب آپ جو کرنا چاہتے ہو کر لو۔ اس کے بعد دلی شہر میں جو سکھوں پر بیتی وہ ایک ہولناک داستان ہے2007ء میں اس ہولناک واقعہ کو 23 سال بیت چکے تھے لیکن، کسی بھی ٹیکسی ڈرائیور، کرول باغ کا دکاندار یا راہ چلتے ملنے والے سکھ سے میں کبھی اس کا ذکر چھیڑ دیتا تو وہ ایک دم اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتا۔ ہر کوئی ظلم کی ایک انوکھی داستان سناتا۔ ایک عام ظلم بتایا جاتا کہ سکھ نوجوانوں کو ہجوم پکڑ لیتا، پھر ان کے گلے میں ٹائر ڈال کر انھیں آگ لگا دی جاتی۔
راجیو گاندھی کو قتل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہو ا تھا۔ ہر سکھ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ یہ لوگ اب اپنے بودیوں والے ہندؤں کے گلے میں ٹائر ڈال کر آگ کیوں نہیں لگاتے۔ آٹھ سال گزرنے کے بعد دوبارہ دلی کے بازاروں میں گھومنے کا موقع ملا۔ سوچتا تھا وقت زخم بھر چکا ہو گا۔ لیکن میں نے دلی شہر کبھی اتنا پریشان حال نہیں دیکھا، یوں لگتا تھا ہر کوئی کسی آنے والے لمحے کے خوف میں مبتلا ہے۔ سفارتی تعلقات کا یہ عالم تھا کہ سفارت کاروں کو ائیر پورٹ پر مہمانوں کے لیے جو کارڈ جاری کیے جاتے وہ ایک سال کے لیے ہوتے ہیں لیکن اب پاکستانی سفارت خانے کے عملے کو ہر دفعہ نئی اجازت لے کر ائر پورٹ جا نا پڑتا ہے۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤں کے ساتھ عید ملن پارٹی پر ملاقات ہوئی تو ان کے خوف مختلف تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ انھیں خصوصی نشانہ بنا کر مودی سرکار بھارتی ہندؤں کو ایک بار پھر اپنی سیاست پر اکٹھا کرنا چاہتی ہے جس سے پورے کشمیر میں ایک انجانے خوف کی فضا ہے۔ دلی کے بازاروں میں سکھ ایک بار پھر 1984ء کے زخم یاد کرتے نظر آئے وہ اپنے خلاف مخصوص ہندو نفرت ان سیاسی رہنماؤں کی آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں۔ دلی میں گزارا ہوا ایک دن مجھے بالکل ایسے لگ رہا تھا جیسے میں جرمنی کا کوئی شہری ہوں جو عین جنگ کے دوران غلطی سے فرانس کے کسی شہر میں آ نکلا ہوں۔ یہ تپش آپ کو دلی میں ہر جگہ نظر آئے گی۔
دو سو سے زائد چینلوں والے میڈیا پر جو نام بھگوان کے نام کے بعد سب سے زیادہ لیا جا رہا تھا وہ “آئی ایس آئی” تھا۔ آٹھ سال پہلے میں نے بھارت کے اٹھارہ شہر گھومے، ہر کسی کو آئی ایس آئی کا علم تھا لیکن کوئی پوچھنے پر بتاتا تھا۔ آج آٹھ سال بعد یہ نام ہر بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے زیادہ عقل اور سوچ کی ضرورت نہیں۔
مرد درویش، مرد قلندر
اوریا مقبول جان پير 3 اگست 2015
جو لوگ تاریخ کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر شخصیات کا تعین اور خصوصاً عقیدے کی بنیاد رکھتے ہیں ان کے لیے کیا صرف ایک یہی گواہی کافی نہیں کہ اس ملک میں سنی سنائی کہانیوں پر مبنی کتنے افسانے ملا محمد عمر کی زندگی اور طالبان کے دور حکومت کے بارے میں عام مل جاتے ہیں۔ یہ بنی امیہ، بنی عباس اور بنی فاطمی ملوکیت کا دور نہیں کہ ظلم اور جبر کے تحت تاریخ لکھوائی جاتی ہو۔ یہ جمہوریت، آزادی اظہار اور قلم کی حرمت و تقدس کا دور ہے۔ لیکن اس دور میں بھی آپ کو ملا محمد عمر کے بارے میں گفتگو کرنے، لکھنے والے اور تبصرے کرنے والے اکثریت میں ایسے ملیں گے جن کی ان سے زندگی بھر کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی۔ جب کہ طالبان کے افغانستان میں چھ سالہ سنہری دور پر لکھنے والوں کی بھی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے کبھی بھی تورخم یا اسپن بلدک کے دوسری جانب قدم نہیں رکھا، جنھیں افغانستان میں بولنے والی ایک زبان بھی نہیں آتی، جن کے تجزیات عالمی اخبارات کے تراشوں، تعصب کی ملاوٹ سے بھرپور تحریروں اور من گھڑت خفیہ رپورٹوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
آج اگر کوئی مورخ پاکستان میں ملا محمد عمر اور افغانستان میں طالبان کے دور حکومت کے بارے میں کتاب لکھنا چاہے تو اسے جو عمومی تصور یہاں ملے گا وہ نوے فیصد سے زیادہ بے بنیاد اور گروہی و فرقہ وارانہ تعصب کی عینک لیے ہوئے ہو گا۔ یہ صرف پندرہ سال پہلے کی تاریخ ہے، اس دور کے لوگ ابھی زندہ ہیں لیکن سچ اس قدر دھندلا دیا گیا ہے کہ کسی کو بولنے کا یارا نہیں۔ تاریخ کی سچائی کا اندازہ اس طرح کی ہزاروں موجودہ دور کی مثالوں سے دیا جا سکتا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں تحریروں پر اعلیٰ ترین سول ایوارڈ لینے والے آج ان کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔ پاکستان کے گزشتہ تیس سالوں کی آمریتوں کے اپنے اپنے مورخ اور مداحین ہیں اور وہ اعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی ہیں، اپنے زمانے کے طبری، واقدی اور بلاذری۔ ان تین مورخوں نے افسانے تو تین سو سال بعد تحریر کیے، لیکن ان دانشوروں نے تو اپنی زندگی میں ہی افسانوں کو حقیقت بنا دیا۔
ملا محمد عمر۔ قندھار کے ایک کچے گھر کے چھوٹے سے کمرے سے چھ سال تک افغانستان کو ایک پرامن اور خوشحال ملک میں بدلنے اور پندرہ سال دنیا کی چالیس کے قریب عالمی طاقتوں سے تن تنہا لڑنے والا مرد مجاہد۔ کیا آج ایسا تصور اس کے بارے میں پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ کیا ہمارا میڈیا اور اس پر جلوہ گر ہونے والے تجزیہ نگار اور مورخین سچ بولتے ہیں۔ تعصب اور نفرت نے جھوٹ ان کی زبانوں پر جاری کر رکھا ہے۔ لیکن کوئی تو سچ بولے، کوئی تو یہ بتائے کہ 1995ء سے 2000ء تک اس کا اگر چمن، پشین، لورالائی، ژہوپ، پشاور، مردان، سوات یا پاکستان کے کسی بارڈر کے قریبی شہر جانے کا اتفاق ہوا تھا اس نے سرحد کے اس پار سے ملا محمد عمر اور طالبان کے حکومتی انصاف کی خوشبو ضرور محسوس کی ہو گی۔ اس نے عام آدمی کی زبان پر یہ دعا ضرور دیکھی ہو گی کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا حکمران کیوں نہیں آ جاتا۔ ایسی خواہش لوگوں کے دلوں میں دو دفعہ جاگی۔ ایک جب ایران میں آیت اللہ خمینی نے اقتدار سنبھالا اور دوسری دفعہ ملا محمد عمر کے زمانہ حکومت کے دوران۔ سرحدی شہروں کے کتنے لوگ تھے جو اپنے مقدمات فیصلوں کے لیے طالبان کے پاس لے جاتے تھے۔
1997ء میں جان محمد دشتی ڈپٹی کمشنر کوئٹہ تھا۔ میں چاغی سے اسے ملنے گیا۔ اس کے دفتر میں چند پشتون بیٹھے تھے۔ دشتی بلوچ آدمی تھا، اس کی پشتو کمزور تھی، مجھے ترجمے کے لیے بٹھا لیا۔ کہانی یہ تھی کہ چار لوگوں نے ان افراد کے کئی کروڑ افغانی اور ایک موٹر سائیکل فراڈ سے ہتھیا لیے تھے۔ چاروں پکڑے گئے۔ دو کو ایس ایچ او نے مقدمے سے فارغ کر دیا اور دو کو سیشن جج نے بری کر دیا۔ دو لوگ بھاگ کر قندھار چلے گئے۔ وہ اپنا مقدمہ لے کر قندھار گئے، گواہ پیش ہوئے۔ آدھے پیسے اور موٹر سائیکل طالبان نے واپس کروا دیے، باقی آدھے ان دونوں کے پاس تھے جو پاکستان میں تھے۔ وہ لوگ ڈپٹی کمشنر سے درخواست کر رہے تھے کہ ان دونوں کو ہمارے حوالے کریں، ہم قندھار لے جا کر طالبان سے انصاف کروائیں گے۔
روس افغانستان سے رخصت ہوا تو تباہ حال افغانستان بدامنی، لوٹ مار اور قتل و غارت کا گڑھ بن گیا۔ افغان مجاہدین کے گروہ آپس میں اس طرح دست و گریبان ہوئے کہ چاروں جانب اسلحہ و بارود کی بو پھیل گئی۔ چمن سے قندھار تک صرف ستر میل کا فاصلہ ہے لیکن اس تھوڑے سے فاصلے میں جگہ جگہ مختلف افغان مجاہدین گروہوں نے اپنی چیک پوسٹیں لگا رکھی تھیں جو ہر گزرنے والی گاڑی سے جبری ٹیکس وصول کرتی تھیں۔ امن و امان کا یہ عالم کہ نہ کسی کی جان محفوظ اور نہ مال۔ کابل شہر کے دونوں اطراف توپیں نصب تھیں اور شہر کھنڈر بن چکا تھا۔ نجیب اللہ ایک بے طاقت اور مجبور محض حکمران کی صورت موجود تھا۔ ملا محمد عمر سے میری ملاقات اسی دور آشوب میں ہوئی جب روس ابھی رخصت ہوا تھا۔ ایک درد دل رکھنے والا مسلمان جو مسلمانوں کی اس باہمی لڑائی پر ہر وقت کڑھتا رہتا۔ اس کے لیے یہ تمام لوگ اجنبی نہ تھے، اس نے ان کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لیا تھا لیکن طاقت اور غلبے کی ہوس نے انھیں کیا بنا دیا تھا۔ چمن شہر سے قندھار تک وہ ہر ذی روح کے دکھ سے واقف تھا۔ یہ لوگ تو واقعی قریہ ظالم کے شہری تھے کہ جو سورہ نساء کی آیت کے مطابق پکار پکار کر کہتے تھے کہ اللہ ہمارے لیے کوئی مدد گار بھیج دے۔
تجزیہ نگار جو چاہے کہہ لیں، طاقت کے پجاری بے شک اسے ایک جھوٹی، لغو اور بے بنیاد کہانی کے ذریعے امریکا اور آئی ایس کی تخلیق کہہ لیں لیکن بلوچستان کے اس خطے کے رہنے والے ہزاروں لوگوں کو وہ وقت اب بھی یاد ہے کہ ایک صبح ملا محمد عمر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں نے خواب میں سید الانبیاءﷺ کو دیکھا ہے جو مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اٹھو جہاد شروع کرو اور امن قائم کرو، اللہ تمہیں نصرت دے گا۔ اس کے بعد اس خطے کے میرے جیسے لاکھوں لوگ جانتے ہیں کہ کیسے ملا محمد عمر نے قندھار میں موجود سید الانبیاء ﷺ کے جبہ مبارک کو نکالا اور پھر کس طرح لوگوں نے جوق در جوق اس جبہ مبارک کو سامنے رکھتے ہوئے ملا محمد عمر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد رسول اکرم ؐ کی دی گئی بشارت کا وقت آیا۔ ایک گولی چلائے بغیر قندھار کی تمام فوج نے ملا محمد عمر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کی نصرتوں کا ایک سلسلہ ہے۔
یہ چند ہزار لوگ جس جانب بڑھے فتح و نصرت ان کے قدم چومتی رہی، ا تنی کم مزاحمت کہ صرف چند مہینوں میں نوے فیصد افغانستان ملا محمد عمر کے زیر نگیں تھا۔ میں اس وقت ایک ایسے ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا جس کا کئی سو میل بارڈر افغانستان سے ملتا تھا۔ تمام صوبائی انتظامیہ سے لے کر بڑی سے بڑی خفیہ ایجنسیوں کے فرشتوں تک کو بھی خبر نہ تھی کہ سب کیسے ہو رہا ہے۔ ایک ایسا افغانستان وجود میں آ چکا تھا جہاں گزشتہ سو سال کی تاریخ میں سب سے زیادہ امن تھا۔ اس دوران ہونے والے انتظامیہ کے بڑے بڑے اجلاسوں میں شرکت کے دوران یہ احساس ہوتا تھا کہ ہر کوئی حیران ہے۔ ان سب کے نزدیک طالبان کا از خود ایک قوت کے طور پر ابھرنا حیرت انگیز تو تھا ہی لیکن اصل حیرت انھیں اس بات پر ہوتی تھی کہ ان کے مقابل میں قوتیں خود بخود پسپا ہو رہی ہیں۔
یہ تو افغانوں کی گزشتہ کئی سو سالہ تاریخ کے خلاف تھا۔ جب طالبان افغانستان میں قوت کے طور پر مستحکم ہو گئے۔ ملا محمد عمر امیر المومنین کی حیثیت سے مانے جانے لگے تو اس دوران حکومت پاکستان کو بھی خیال آٓیا کہ اب انھیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ ایک ایسی حکومت اس پسماندہ ملک میں قائم ہوئی جو سیاسیات کے کامیاب ترین اصول ’’کامیاب ریاست وہ ہے جہاں ریاست کا وجود نظر نہ آئے اور لوگ کاروبار زندگی جاری رکھیں‘‘۔ ہر بڑے شہر میں دس اور چھوٹے شہر میں سات طالبان سپاہی ہوتے تھے اورا سپن بلدک جیسی منڈی جہاں اربوں کا کاروبار تھا وہاں لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے جاتے تھے۔
(جاری ہے)
قصور کا رونا، قصور کس کا
اوریا مقبول جان جمعـء 14 اگست 2015
اس علّت، مرض، وبا یا بدترین اخلاقی برائی کو پھیلانے، پرچار کرنے اور اسے ادبی لطافت سے مزین کرنے والے تو صدیوں سے ہمارے سیکولر دانشوروں، نقادوں، ادیبوں اور شاعروں کے ہیرو رہے ہیں اور آج بھی وہ ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ میر تقی میرؔ سے لے کر فراقؔ گھورکھپوری تک سب کے ادبی محاسن اور لونڈوں سے محبت کے انداز کو جس خوبصورتی کے ساتھ نقادوں نے سراہا اور جس طرح انھیں معاشرے میں عزت و تکریم کے مقام پر فائز کیا، اس سے ہماری پستی اور زوال کی تصویر نمایاں ہوتی ہے۔
الطاف حسین حالی نے جب مسدس لکھی تو انھی شعرا ء کے بارے میں کہا تھا “جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے” ۔ گزشتہ تین سو سال کی ادبی تاریخ میں اگر کوئی اقبال کو ان تمام شعراء سے مختلف تصور کرتے ہوئے اس کی شاعری کی عظمت پر گفتگو کرنے لگے تو ان دانشوروں کے ماتھے پر ناگواری کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، قصور میں معصوم بچوں کے دلخراش واقعہ کے ساتھ چشمِ زدن میں آنکھوں کے سامنے اس معاشرے کی وہ کریہہ تصویر گھوم گئی جسے مذہب سے بیگانہ اور بے راہ روی اور بداخلاقی کو فن کا درجہ دینے والے ان معاشرتی ٹھیکیداروں نے تخلیق کیا ہے۔ کیا حیرت انگیز دعویٰ ہے استاذ الشعراء میر تقی میرؔ کا۔
ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا ہم نے کہے
رفتہ رفتہ ہندوستان سے شعر مرا ایران گیا
ادب کے اس عظیم سپوت نے چھ دیوانوں میں 13,590 اشعار تحریر کیے جن میں 86 فیصد شعروں میں معشوق کی جنس مرد ہے، لونڈا، طفل یا نونہال۔ یہ اشعار فحش گوئی اور امرد پرستی کے نمونے ہیں۔ نمونے بھی ایسے کہ انھیں نقل کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ لڑکے یا لونڈے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔ چہرے پر ہلکے ہلکے روئیں آنے کو خط آنا کہتے ہیں۔ اس کو بھی ان شاعرانِ عظیم نے سو طرح کے مضمون سے باندھا ہے۔
وہ جو عالم اس کے اوپر تھا وہ خط نے کھو دیا
مبتلا ہے اِس بلا میں میرؔ اک عالم ہنوز
اور اب اسیرؔ اسی خط کے آنے کو ایک اور طریقے سے بیان کرتا ہے
خط نمودار ہوا، وصل کی راتیں آئیں
جن کا اندیشہ تھا منہ پر وہی باتیں آئیں
یوں تو یہ وبا برصغیر پاک و ہند میں ایران سے آئی، بلکہ نقاد جنہوں نے عربی ادب کا مطالعہ کیا، وہ بھی کہتے ہیں کہ ایران ہی سے لونڈوں سے عشق کے مضامین عرب شاعری میں داخل ہوئے۔ حافظ کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے
اگر آں ترکِ شیرازی، بدست آرد دلِ مارا
بخالِ ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را
(اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کی گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں)۔ یوں لگتا ہے شاعری میں لطف و کمال اور ذوقِ جمال اسی ایک شوق کے گرد گھومتا تھا۔ ان شعراء کی ذاتی زندگی کے قصوں میں بھی اس شوق کی جھلک نظر آتی ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی نے کس فخر کے ساتھ لڑکوں سے اپنے معاشقوں کا ذکر کیا۔ ان شعراء کی محفل میں ایک نوجوان شاعر ساغر نظامی آ نکلا، خوبصورت تھا، کیا کیا قصے اس کے ساتھ مشہور نہیں ہوئے۔ سیماب اکبر آبادی کا یہ مصرعہ تو ادبی تاریخ کے منہ پر غلیظ طمانچہ ہے “ساغر کی تہہ میں قطرۂ سیماب رہ گیا”۔ فراقؔ گھورکھپوری کہ جس کی انھی حرکتوں کی وجہ سے اس کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔ ہوس زدگی کا وہی عالم جو میر تقی میرؔ میں تھا کہ
وے نہیں تو انھوں کا بھائی اور
عشق کرنے کی کیا مناہی ہے
” ہندو لڑکے سے کیا معیشت ہو” سے لے کر ” یہ نرم شانہ لڑکے ہیں مخمل دوخابہ ـــ” اور پھر ” اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں” جیسے نسبتاً کم فحش مصرعوں کو ہی اگر اردو شاعری میں چھانٹا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد ایک ایسا ماحول آباد تھا اور ہے جو اسقدر بیمار ہے جس میں ہیرو وہ ہے جو اپنے ساتھ ایک لڑکا معشوق لیے پھرتا ہے یا جس نے اپنی مردانگی کے زیرِاثر شہر کے خوبرو لڑکوں کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ وہ ان سے دھونس اور زبردستی سے بھی اپنی ہوس پوری کرتا ہے اور ان کے ناز نخرے اور خرچہ اٹھا کر بھی۔ ایسا کردار سعادت حسن منٹو کے دودا پہلوان میں بھی آ کر اجاگر ہوتا ہے اور وہ اسے کیسے ایک سچے عاشق کے طور پر پیش کرتا ہے۔
کیا قصور ایک انوکھا قصبہ ہے، کیا وہاں جو کچھ ہوا وہ ایک اچنبھے کی بات تھی۔ ہم نے اپنے بچوں کے لیے ایک خوفزدہ کر دینے والا معاشرہ صدیوں سے تخلیق کر رکھا ہے۔ ہمارے شہروں میں بچوں سے فعلِ بد کرنے والے کرداروں کو ہر کوئی جانتا اور پہچانتا ہے۔ بلکہ ہر گلی اور محلّے میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں ایسے استادوں کی بہتات ہے جن کا ہر کلاس میں کوئی نہ کوئی منظورِ نظر لڑکا ضرور ہوتا ہے، جس سے خصوصی التفات کی وجہ کو پوری کلاس پہچانتی ہے۔ گیم ٹیچر یا پی ٹی ماسٹروں کی اکثریت کے بارے میں کہانیاں تو میں گزشتہ پچاس سال سے سنتا چلا آ رہا ہوں۔ اسکولوں میں ہماری اخلاقیات کا تصور بھی انتہائی کریہہ ہے۔ وہ بچہ جو اپنے کلاس فیلوز یا بڑی کلاس کے لڑکوں یا لڑکے کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے اس مردانہ طور پر فاتحانہ حرکت کو جگہ جگہ سناتے پھرتے ہیں اور وہ مظلوم بچہ پوری کلاس یا اسکول کے سامنے ایک قابلِ نفرت کردار بنا دیا جاتا ہے۔
اسکول کی دیواروں یا بلیک بورڈوں پر ایسے بچوں کے بارے میں ان کے اسکول کے لڑکے اس طرح کے فقرے تحریر کرتے ہیں کہ جیسے یہ بچے اب معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ جن غلیظ کرداروں سے نفرت کرنی چاہیے انھیں میرؔ کے عشاق یا منٹو کے دودا پہلوان کی طرح مردانگی کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے اور مظلوم بچوں کے حصے میں ذلت آتی ہے۔ کیا ہماری بسوں میں سفر کرتے ہوئے، کسی جگہ لائن میں کھڑے ہوئے، رش میں پھنسے ہوئے بچوں کے ساتھ ہم فحش حرکتیں نہیں کرتے۔ ذرا سا قبول صورت لڑکا گلی، محلے، اسکول اور شہر میں ایک خوف کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ محلے کے اوباشوں سے بچ نکلے تو سفر کرتے ہوئے اجنبی اسے چھیڑتے ہیں، سمٹے سمٹائے ہوئے اسکول میں آ نکلے تو ساتھی کلاس فیلوز کا شکار ہو جاتا ہے اور استادوں کے لیے تو وہ تر نوالہ ہے ہی۔ یہ کھیل ہمارے شہروں میں مدتوں سے ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک مرد لڑکا ایک لڑکی کی نسبت زیادہ خطرات کا شکار رہتا ہے کہ اس نے تو روز انھی جگہوں پر جانا ہے، انھی لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے جو اسے ہوس ناک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ خبر عورت سے زیادتی کی بنتی ہے، این جی اوز کو فنڈنگ اسی بنیاد پر ہوتی ہے اور میڈیا کا کاروبار بھی اسی سے چلتا ہے، اس لیے آج تک کسی نے لڑکوں سے اس مکروہ فعل کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھا ہی نہیں کیئے۔ ہم اس قدر بد بخت ہیں کہ کسی شخص کی کردار کشی کرنی ہو تو اس کے بارے میں یہ خبر پھیلا دی جاتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ بچپن میں زیادتی ہوئی تھی۔ مجھے اپنے بچپن میں گجرات میں ایک سیاسی لیڈر کا جلسہ بھی یاد ہے جس میں وہ اپنے مخالف پر یہی الزام لگا رہا تھا اور جلسے میں بیٹھے ہوئے اس شخص کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ بتاؤ تم نے اس لیڈر کے ساتھ زیادتی کی تھی، دیکھو اب یہ اکڑ اکڑ کر میرے مخالف کھڑا ہوتا ہے۔
جیسے ہی ہمیں مغرب کے میڈیا اور انسانی حقوق کی ہوا لگی وہاں ہم نے ہم جنس پرستی کو بنیادی انسانی حقوق اور طرزِ زندگی میں شامل کر لیا۔ دنیا پوری میں مرد عورت کا روپ دھارتے ہیں، آپریشن کروا کر ویسے ہی بن جاتے ہیں، لیکن ہم وہ واحد ملک ہیں جہاں ایسا ایک کردار ملک کا مقبول ترین اینکر پرسن بن جاتا ہے۔ ایسا تو مغربی معاشرے میں بھی ممکن نہ ہو سکا۔ اس مکروہ فعل کو معاشرے میں قبولیت کی سند ہی تھی کہ پختون معاشرے میں لختئی اور دیگر معاشروں میں خواجہ سراؤں کا وجود پیدا ہوا۔ خواجہ سراؤں میں اکثریت ایسے لڑکوں کی ہوتی ہے جنھیں ہمارا معاشرہ چھیڑ چھیڑ کر لڑکیوں کی طرح رنگ ڈھنگ سکھا دیتا ہے اور پھر ان خواجہ سراؤں کے خفیہ ڈاکٹر آپریشن کے ذریعے انھیں مردانہ صفات سے محروم کرتے ہیں۔ یہ ایک گھناؤنا کاروبار ہے جو مستقل جاری ہے۔ لیکن ہمیں تو فخر کرنا ہے کہ اللہ کے رسول نے ایسے مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں کا روپ اختیار کریں اور ہم ان کو حقوق دے کر عالمی برادری میں سر بلند ہو گئے ہیں۔
یہ چند اوباش صرف قصور میں نہیں، ہر بستی اور ہر قصبے میں پائے جاتے ہیں۔ سب اپنے اس فعل کی وجہ سے مختلف ناموں خصوصاً بچے باز کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔ یہ وہ سب کام کرتے ہیں جو قصور میں ہوئے لیکن کیا ہم بحثیت ایک قوم ایک معاشرہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ کاش یہ لوگ ایسے معاشرے میں ہوتے جہاں علیؓ ابنِ ابی طالب کا حکم جاری ہوتا کہ ان کو پہاڑ کی بلندی سے گرا دو۔ آج آپ ہم جنس پرستی کے خلاف اسلام کے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کریںتو سب کو انسانی حقوق یاد آ جائیں گے۔ جو انسانی حقوق کی بات نہیں کریں گے وہ میر تقی میرؔ، دردؔ، سوداؔ، رندؔ، اسیرؔ، وزیرؔ اور فراقؔ کے شعر گنگناتے پھریں گے کہ سیکولر اخلاقیات میں ایسے ہی لوگ ہیرو ہوتے ہیں۔
صف بندیاں ہو رہی ہیں
اوریا مقبول جان جمعـء 26 جون 2015
یوں لگتا ہے پورے عالم اسلام میں صف بندی ہو رہی ہے۔ دوستیاں اور دشمنیاں واضح ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ عالمی صورت حال، دو طرفہ تعلقات اور باہمی امن کے نام پر جو منافقت ہو رہی تھی اس کا خاتمہ ہو رہا ہے جو جس کے خلاف سازش یا پس پردہ دشمنی کر رہا تھا اب اس کا کردار واضح ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ تیس سال سے پاک بھارت دوستی کی منافقت زور و شور سے چل رہی تھی۔
دو طرفہ تعلقات اور علاقائی امن کے نام پر کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی تھیں، وفود کا تبادلہ بھی ہوتا تھا اور مسائل کے حل کے لیے سربراہان مملکت بھی آپس میں ملتے تھے۔ ان سب کے علاوہ ایک اور ہجوم تھا۔ این جی اوز، سول سوسائٹی اور امن کے پرچم بردار گیندے کے پھولوں کے ہار لے کر ایک دوسرے کا واہگہ بارڈر پر استقبال کرنے والے، بارڈر پر شمعیں جلا کر امن کے پیامبر بننے والے۔ یہ عجیب لوگ اپنی مخصوص منطق کے ساتھ ٹیلی ویژن پروگراموں، سیمیناروں اور جلسوں میں تشریف لاتے۔
ان سے کوئی سوال کرتا کہ بھارت میں کشمیر پر ظلم ہو رہا ہے وہاں مسلمان اقلیت بدترین معاشی اور معاشرتی حالات میں زندگی گزار رہی ہے تو ایک دم بھڑک اٹھتے اور کہتے کہ ہم بھی تو اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے، ہم نے بھی تو ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے پاکستان میں وہ بھارت کے وکیل ہیں۔ ان سب لوگوں کی بھارت یاترا لگی رہتی اور وہاں سے آنے والوں کی پاکستان یاترا۔ ان سب کا نشانہ کسی نہ کسی طور پر پاکستان کی افواج ہوتیں۔
بنگلہ دیش ان کا محبوب ترین موضوع ہوتا۔ یہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو صرف اور صرف افواج پاکستان کی زیادتیوں سے تعبیر کرتے۔ ان کی زبان پر نہ کبھی مکتی باہنی کے مظالم آئے اور نہ ہی انھیں یہ یاد رہتا کہ بھارت نے وہاں افواج اتار کر اس حصے کو علیحدہ کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ان کے ہاں فوج سے نفرت کی علامت تھی۔ اسی لیے وہ اس کے تمام گناہ صاف کر دیتے۔ بلوچستان میں سیاسی حکومت کا دھڑن تختہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا اور وہاں آرمی ایکشن بھی اسی کے حکم سے شروع ہوا لیکن یہ اس کا نام تک نہ لیتے بلکہ صرف اور صرف فوجی کارروائی یا آپریشن کہتے۔ حبیب جالبؔ کی برسیاں مناتے لیکن ذکر تک نہ کرتے کہ حبیب جالبؔ پر غداری کا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔
عالمی امن، حقوق نسواں، علاقائی امن اور حقوق انسانیت ان کے خوبصورت چہرے تھے لیکن کسی مسلمان پر اگر بھارت میں تشدد ہوتا، کوئی شہر جیسے احمد آباد بدترین قتل و غارت کا شکار ہوتا۔ کشمیر میں مظالم ڈھائے جاتے لیکن ان کی زبان سے احتجاج نام کا لفظ تک نہ نکلتا۔ نہ شمعیں جلائی جاتیں اور نہ ہی پلے کارڈ لے کر بازاروں میں نکلا جاتا لیکن اگر پاکستان میں کسی اقلیت پر تھوڑا سا بھی تشدد ہوتا تو یہ اس کی دہائی عالمی سطح پر لے جاتے۔
یہ دہائی اس قدر شدت سے مچائی جاتی کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ان اقلیتوں کو سیاسی پناہ دینے لگے اور پاکستان ان ممالک میں شمار ہونے لگا جہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ کشمیر میں ایک لاکھ شہدا کی قبروں کے باوجود بھارت ایک عظیم جمہوری ملک ہے اور وہاں اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے جب کہ پاکستان کو ان آستین کے سانپوں نے دنیا بھر میں بدنام کیے رکھا۔
گیارہ ستمبر کے بعد تو ان کی لاٹری نکل آئی۔ پوری دنیا کے نزدیک مسائل کی جڑ اور فتنے و فساد کا موجد صرف اور صرف مسلمان تھے۔ ان میں سے بھی وہ مسلمان جو پاکستان اور افغانستان میں یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں بستے تھے۔
بم برسائے گئے، شہری آبادیاں مسمار کی گئیں، بچوں، عورتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کے دشت لیلیٰ کا وہ واقعہ کہ جس میں تین ہزار افغانوں کو کنٹینروں میں بند کر کے دھوپ میں کنٹینر رکھ دیے گئے تھے اور وہ افراد ان کنٹینروں میں تڑپتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے نقشے اور ریکارڈ میں اس واقعے کی کوئی حیثیت تک نظر نہیں آتی۔ آپ کو کہیں بھی یہ دلدوز واقعہ تاریخ کے سیاہ ترین واقعات میں نظر نہیں آئے گا۔
امریکا اس کے حواری نیٹو ممالک اور پاکستان یہ سب وہ ممالک تھے جن میں ان تمام انسانی حقوق، عالمی امن اور انسانی بھائی چارے کے نام پر بننے والی تنظیموں کو پذیرائی حاصل رہی۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں، سیاسی رہنما جن کا رجحان سیکولرزم اور بھارت پرستی کی طرف تھا ان کے لیے اقتدار کے راستے کھل گئے۔ بھارت شاندار ہمسایہ اور گنگا جمنی تہذیب کے نعرے نے دونوں جانب ایک ایسی منافقت کو رواج دیا جس میں پاکستان کے ہر اس طبقے میں بھارت کو گھسنے کا موقع ملا جو ریاست پاکستان کی سالمیت کے درپے تھا۔
یہ سب جانتے تھے کہ کون، کب اور کہاں بھارت کی ایجنسیوں سے رابطے میں ہوتا ہے، کون کہاں سے سرمایہ حاصل کرتا ہے، کون کس کی زبان بولتا ہے لیکن کہیں اس کا تذکرہ تک نہ ہوتا۔ میڈیا سے لے کر اقتدار پر بیٹھے سیاسی رہنما ہوں یا فوجی جرنیل سب اسے ’’پڑوسی ملک‘‘ کہتے۔ کوئی بھارت کا نام نہ لیتا۔
ہم کس قدر ظالم ہیں کہ ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا نام تک لینا چھوڑ دیا۔ یہی بدقسمتی تھی کہ کسی کو اس بات پر شرم تک محسوس نہ ہوئی کہ بنگلہ دیش جسے بھارت نے فوجی حملہ کر کے ہم سے الگ کیا تھا، اس کی تحریک آزادی کا ایوارڈ وصول کرنے جاتے۔ دنیا کی تاریخ میں ہم شاید واحد ایسے لوگ تھے۔ کیا کسی امریکی نے ویت نام میں، کسی روسی نے یوگوسلاویہ میں یا کسی انگریزنے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریز قوم سے غداری پر ایوارڈ وصول کیا تھا۔ ہم نے یہ تاریخ بھی رقم کر دی۔
لیکن اب وقت بدل رہا ہے۔ یہ وقت ہم نے خود نہیں بدلا، اس لیے کہ شاید ہم یہ جرات خود نہ کر پاتے۔ جتنے سال ہم نے مفاہمت اور ’’ایک پڑوسی ملک‘‘ کہہ کر گزارے، بھارت نے ٹھیک اتنے سال ہمیں عالمی دہشت گردی کا حصہ ثابت کرنے میں لگائے۔ ممبئی حملہ سے لے کر آج تک حالات نے پلٹا کھایا اور نریندر مودی مسند اقتدار پر آ گیا۔
پہلوان للکار کر اکھاڑے میں اترا تو ہماری جانب بھی منافقت کا لبادہ اتارنا پڑا۔ اب صرف سچ سامنے ہے۔ ہم ایک دوسرے سے کتنی نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے سے کس قدر الگ ہیں۔ دونوں قوموں پر واضع ہوتا جا رہا ہے۔
یہ صف بندی ہے۔ یہ صف بندی صرف پاک و ہند میں نہیں عالم اسلام میں بھی ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے مطابق وہ وقت قریب آن پہنچا ہے کہ جب مسلمان دو محاذوں پر آخری بڑی جنگ لڑ رہے ہوں گے ایک بھارت کے ساتھ اور دوسری شام کے محاذ میں دجال کے ساتھ۔ آپؐ نے فرمایا ’’جب تم ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائو گے تو حضرت عیسیؑ کو اپنے درمیان پائو گے (کتاب الفتن)۔ یہ ٹائم لائن قریب نظر آ رہی ہے۔ صف بندیاں ہو رہی ہیں، منافقت ختم ہو رہی ہے دشمن آمنے سامنے آ رہے ہیں۔