آتش فشاں کا دھواں
اوریا مقبول جان جمعرات 4 ستمبر 2014
ایسی ہی ایک پارلیمنٹ کا اجلاس 5 مئی1789ء کو فرانس کے شہر، پیرس میں منعقد ہوا تھا۔ یہ پارلیمنٹ عوام کے غیظ و غضب اور غصے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ وہ بھوکے ننگے عوام جو صدیوں سے غربت و افلاس کا شکار تھے اور گزشتہ کئی سالوں سے عوام کی حکمرانی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے۔ انھیں تسلی دینے کے لیے عوام کی حکمرانی کا ایک ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ پارلیمنٹ میں تین مختلف جماعتیں سامنے آئی تھیں۔ ایک جماعت طبقہ امراء کی نمایندگی کرتی تھی جس میں لافیطی، لالی، چارلس اور تونری نمایاں تھے۔
مذہبی رہنماؤں اور پادریوں کے نمایندے علیحدہ جماعت کے طور پر وہاں موجود تھے۔ عام آدمیوں کی نمایندگی کرنے والوں میں میرا بیو، راپسٹر، گیولی ٹن، سائیس اور بیلی شامل تھے جو بہت سخت رویہ رکھے ہوئے تھے۔ عام لوگوں کی نمایندگی اس پارلیمنٹ میں بہت کم تھی اور وہ بھی امراء اور پادریوں کے سامنے دبے دبے رہتے تھے۔ لیکن 5 مئی کے دن یہ نمایندے تلخ لہجے میں بولنے لگے۔ انھوں نے برطانیہ کے دارالعوام اور امریکا کی کانگریس کی مثالیں پیش کیں اور کہا کہ آیندہ ٹیکسوں کا نفاذ ان سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں مراعات یافتہ طبقہ ایسی تقریریں سننے کا عادی نہ تھا۔
بادشاہ لوئی کا غصہ عروج پہ تھا اس نے ان گستاخ اراکین کو اجلاس سے باہر نکال دیا۔ یہ سب پارلیمنٹ کے باہر ایک ٹینس کورٹ میں جمع ہو گئے اور انھوں نے وہاں ایک حلف اٹھایا کہ جب تک وہ عوام کی آرزؤں اور امنگوں کے مطابق آئین مرتب نہیں کروا لیتے، یہاں سے نہیں جائیں گے۔ اس واقعہ کو تاریخ میں ’’اوتھ آف دی ٹینس کورٹ‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ طاقت کے استعمال کا وقت آیا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان باغی ارکان کو طاقت کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے سے منتشر کردیا جائے لیکن سپاہیوں نے طاقت کے استعمال سے انکار کردیا۔ یہ انقلاب کا وہ اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے جب حکومت کے زیر انتظام پولیس اور فوج عوام کی امنگوں اور خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اپنے ہم وطن بھائیوں پر حملہ آور ہونے سے انکار کر دیتی ہے۔
پارلیمنٹ کے ارکان بحثیں کر رہے تھے اور باہر بپھرا ہوا ہجوم ایک نئی تاریخ رقم کرنے کو تھا۔ پارلیمنٹ کے ارکان نے ایک متفقہ قرار داد منظور کی کہ ان باغیوں کو کچل دو۔ یہ چند ہزار لوگ ہمیں بلیک میل کر رہے ہیں نہ فوج نے ساتھ دیا اور نہ پولیس نے، اب کیا کریں۔ بادشاہ نے غیر ملکی فوجی بلائے 13 جولائی کے دن اس ہجوم کو طاقت کے ذریعے منتشر کر دیا گیا جو پارلیمنٹ کو گھیرے ہوئے تھا۔ 13جولائی کی شام وارسائی کے محل میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ رقص و موسیقی اور ناؤ نوش میں ڈوبے بادشاہ کے قریبی ساتھی اور اراکین پارلیمنٹ اس بات پر مسکرا رہے تھے کہ ہم نے ان مٹھی بھر شرپسندوں پر فتح حاصل کر لی ہے۔سب کو پکڑ کے بیسٹائل کے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
یہ لوگ پارلیمنٹ کے باہر چھ ہفتوں سے مقیم تھے، کس قدر پرامن طریقے سے بیٹھے تھے۔ بس انھوں نے نیکر اور ڈیوک اور آورلیننر کے مجسمے اٹھا رکھے تھے۔ سپاہیوں نے پہلے مجسمہ اٹھانے والوں پر گولیاں برسائیں تا کہ مجسمے گر جائیں۔ لوگ ان گولیوں کا جواب پتھروں اور ٹوٹی ہوئی بوتلوں سے دیتے رہے۔ یہ تو بھوکے ننگے لوگ تھے جو گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر روٹی خریدتے تھے، انھوں نے ان چھ ہفتوں میں کسی عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا، کسی دکان کو نہ لوٹا، کسی عورت کی عصمت دری نہ کی۔ لیکن 13 جولائی، ان نہتے لوگوں پر ریاستی طاقت کی فتح کا دن تھا۔ مٹھی بھر لوگ پارلیمنٹ کے سامنے سے منتشر ہو گئے۔ ارکان پارلیمنٹ جشن منانے لگے۔ انھیں اندازہ تک نہ تھا کہ یہ مٹھی بھر لوگ ان کروڑوں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے جو صدیوں سے غربت و افلاس اور جبر و استبداد کی چکی میں پستے چلے آ رہے ہیں۔
اگلے دن 14 جولائی کی صبح طلوع ہوئی تو یہ پورے فرانس کے لیے حیران کن تھی۔ وہ ارکان پارلیمنٹ جو یہ سمجھتے تھے کہ ہم عوام کی نمایندگی کرتے ہیں۔ جو اصلاحات کے نام پر گیارہ جون کو ایک آئین مرتب کر چکے تھے۔ جو عوام کو مراعات کے نام پر لالی پاپ دے کر اپنا اور بادشاہ کا اقتدار قائم رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن صبح پیرس کی ہر گلی سے ہجوم صرف ایک سمت روانہ تھا۔ اور وہ تھا بیسٹائل کا قید خانہ۔ وہ قید خانہ جو فرانس کے تاج و تخت اور اشرافیہ کی نمایندہ پارلیمنٹ کے مظالم کی تصویر تھا۔ لوگوں کو معلوم تھا کہ وہاں ان کے اپنے بھائی بند قید ہیں اور جہاں وہ لوگ بھی ہیں جنھیں کل گرفتار کیا گیا۔
لوگوں کو یہ بھی علم تھا کہ اس قید خانے میں تیس ہزار بندوقوں کی صورت میں اسلحہ بھی موجود ہے۔ 13 جولائی کے ظلم پر احتجاج پر مائل پیرس کا ہر شہری اس قید خانے کے گرد جمع ہو گیا۔ پانچ گھنٹے محافظوں اور شہریوں میں جنگ جاری رہی اور بالآخر بیسٹائل فتح ہو گیا۔ ہجوم نے قیدیوں کی زنجیریں کاٹ ڈالیں، تالے توڑ دیے۔ سالوں اندھیری کو ٹھریوں میں رہنے والے باہر نکلے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ تیس ہزار بندوقیں اب پیرس کے عوام کے ہاتھ میں تھیں۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ورسائی کے محل میں جام و سبو کی کی محفل بر پا تھی۔ بادشاہ کے وفاداروں نے اسے اس سب سے بے خبر رکھا، وہ مزے سے سونے جا رہا تھا تو ایک درباری نے جا کر اسے خبر دی کہ یہ سب کچھ ہو گیا۔ اس نے کہا یہ سب فساد ہے۔
دربار ی نے کہا نہیں یہ انقلاب ہے۔ اگلے دن اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ کرائے کے غیر ملکی فوجیوں کو واپس کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں عوام کے ترجمان نیکر کو وزارت دینے کا اعلان کیا گیا۔ بادشاہ پیرس پہنچا تو اس کی حفاظت کے لیے ڈیڑھ لاکھ فوج مقرر تھی۔ سات شہزادے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس کے بعد کی تاریخ بہت طویل بھی ہے اور درد ناک بھی۔ لوگوں نے پارلیمنٹ کو مسترد کر دیا اور پیرس کی میونسپل کمیٹی کو اپنا مرکز بنایا اور اسے عوام کی نمایندہ پارلیمنٹ کا درجہ دے دیا۔ ادھر پارلیمنٹ نے بہت سی انقلابی اصلاحات کیں، لیکن اب لوگوں کا غم و غصہ کم ہونے کو ہی نہیں آتا تھا۔
21 جون1791ء کو بادشاہ اور ملکہ بھیس بدل کر فرار ہونے لگے تو لوگوں نے انھیں پکڑ کر واپس محل پہنچا دیا۔ لوگ اب ان سب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے جنہوں نے صدیوں انھیں محکوم بنا کررکھا تھا۔ پیرس اب عام آدمی کے ہاتھ میں تھا۔ عوام کی عدالتیں لگنے لگیں اور ہر اس شخص کا سر قلم کر دیتیں، جس کا ہاتھ نرم یا کالر صاف ہوتا۔ آخری عدالت 16 جنوری 1793ء کو لگی جس نے بادشاہ کی گردن زدنی کا حکم دیا۔ تیز دھار چھرے نے گردن تن سے جدا کر دی۔ ایک شخص نے بادشاہ کے خون میں انگلی ڈبو کر ہونٹوں کو لگائی اور پکارا اوہ! بادشاہ کا خون بھی نمکین ہوتا ہے۔ نہ کسی آنکھ میں آنسو آیا اور نہ کسی گھر میں ماتم۔
ہر وہ معاشرہ جہاں ناانصافی، بھوک، افلاس اور غربت نے ڈیرے جما رکھے ہوں۔ جہاں لوگوں کی قسمت سے کھیلنے والے چند سو گھرانے اپنے آپ کو قوم کا نمایندہ تصور کرتے ہوں، وہاں احتجاج اور غصہ آتش فشاں کے لاوے کی طرح اندر ہی اندر کھول رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں برسرِ اقتدار لوگوں کو یہ چند ہزار احتجاج کرنے والے لوگ ایک مختصر سا گروہ نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں، انھیں کچل دیا گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن یہ ہجوم تو آتش فشاں سے خارج ہونے والا دھواں ہوتا ہے، اس کے پیچھے کھولتا، ابلتا لاوا چلا آ رہا ہوتا ہے جو سب کچھ خس و خاشاک میں تبدیل کر دیتا ہے۔
قبضہ گروپ اور عوامی احتجاج
اوریا مقبول جان پير 1 ستمبر 2014
آئین کی کتاب کو مقدس الہامی کتاب کی طرح لہرا کر اس کے ورق ورق کے تحفظ کی کیوں قسم کھائی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ جلا دو‘ سپریم کورٹ جلا دو‘ کیبنٹ سیکریٹریٹ جلا دو‘ بس ایک فقرہ رہ گیا‘ پورے اٹھارہ کروڑ عوام کو جلا کر خاکستر کر دو، لیکن یہ چند مقدس اوراق بچا لو۔ انھیں ضرور بچانا چاہیے۔
اس لیے کہ یہ ان لوگوں نے تحریر کیے ہیں‘ یہ اس نسل کے ذہن رسا کا نتیجہ ہیں جنہوں نے انگریز کی غلامی میں آنکھ کھولی اور جن کی اکثریت خود اور ان کے آباؤ اجداد انگریز سرکار سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کے صلے میں بڑی بڑی جائیدادیں‘ اعلیٰ نوکریاں اور شاندار مراعات لینے کے بعد اس مملکت کے عام اور سادہ لوح غریب عوام پر مسلط ہو گئی تھی۔
آئین کے خالق جن لوگوں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے‘ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی اکثریت کے حسب نسب اور اچانک اپنے علاقوں میں انگریز سرکار کے طاقتور نمایندہ ہونے کی تاریخ آج بھی ڈسٹرکٹ گزیٹیرز اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں موجود فائلوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر کسی کی قیمت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور وفاداریوں کی داستان بھی۔ نہ کوئی میر بچتا ہے نہ پیر‘ نہ وڈیرا پیچھے رہتا ہے اور نہ سردار‘ نہ چوہدریوں کا دامن صاف اور نہ ہی خانوں کا۔ تاریخ کے اس حمام میں بہت سے ننگے ہیں اور جس نے اپنے کپڑے بچائے وہ آج بھی اقتدار کی راہداریوں سے کوسوں دور ہے۔
آئین کے یہ خالق خوب جانتے تھے کہ کس طرح اس قوم کو حصوں بخروں میں بانٹ کر محکوم رکھا جا سکتا ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ جب تک محکوموں کے گرد مختلف لائنیں نہ بنائی جائیں، وہ آپس میں دست و گریبان نہیں ہوتے۔ سندھی‘ پنجابی‘ پشتونوں اور بلوچ مزدوروں اور کسانوں کے پسینے کی بو اور ہاتھوں میں پڑ گَٹے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اسے جہاں‘ جس جگہ مزدوری ملے‘ وہ رزق کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔
چار اکائیاں آسمان سے نہیں اتری تھیں‘ انھیں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا تھا اور پھر ان اکائیوں پر حکمرانی کرنے کے لیے یہ ’’جمہوری‘‘ خاندان پیدا کیے تھے۔ جس طرح کسان‘ ہاری‘ مرید اور ملازم ان کی رعایا ہیں اسی طرح جمہوریت بھی ان کے گھر کی ’’لونڈی‘‘ ہے۔ ایسی لونڈی کہ جو آقا کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ مقدس چار اکائیاں اس قدر بالاتر ہیں کہ اس ملک میں ہر کوئی پاکستان کے ٹوٹے جانے کے خواب دیکھتا ہے، لیکن انگریز کے بنائے ہوئے ان چار صوبوں کو‘ ان کھینچی گئی لکیروں کا آپ تذکرہ کر کے دیکھیں‘ ہر کوئی خون کی ندیاں بہانے پر تیار ہو جاتا ہے۔
اس لیے کہ انگریز نے ان چاروں اکائیوں کا ایک ایک مرکز اقتدار بنایا تھا اور ان پر ان خاندانوں کو قابض کر دیا تھا۔ کیا کراچی‘ کوئٹہ یا پشاور جیسے شہر انگریز سے پہلے اقتدار کا مرکز تھے۔ لاہور بھی اکبر کے چند سال یا رنجیت سنگھ کی حکومت کے سوا‘ اقتدار سے بہت دور رہا، لیکن کبھی لڑائی ہوتی ہے تو انھی چاروں مراکز اقتدار پر قبضے کی لڑائی ہوتی ہے۔
قبضہ گروپ یہ قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتا اور آئین کی مقدس کتاب ہاتھ میں لہرا کر کہتا ہے اس میں لکھا ہے۔ ہم اس کے ورق ورق کی حفاظت کریں گے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو پھر دوبارہ ایسا آئین تحریر نہیں کر سکو گے۔ یقینا ایسا آئین دوبارہ تحریر نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ وہ نسل اب مملکت خداداد پاکستان میں اکثریت سے ہے جس نے انگریز کی غلامی کا طوق کبھی نہیں پہنا تھا۔
ان اقتدار کے مراکز پر قبضے کے لیے اور مخصوص لوگوں کو حکمرانی پر مسلط کرنے کے لیے انگریز نے ویسٹ منسٹر جمہوریت کا پارلیمانی نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ہر علاقے میں مخصوص نسل‘ رنگ‘ زبان اور برادری کی بنیاد پر کچھ لکیریں کھینچی گئیں۔ بار بار کے انتخابات نے اس قبضہ گروپ کو اس قدر کامیاب اور تجربہ کار بنا دیا کہ سوائے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر کہ جہاں آبادی میں تیزی سے رد و بدل ہوتا ہے‘ باقی ہر انتخابی حلقہ کو انتہائی مہارت سے تخلیق کیا گیا ہے۔
ان حلقوں کو اگر ایک بڑے نقشے پر لکیریں کھینچ کر دکھایا جائے تو ایسی آڑھی ترچھی لکیریں وجود میں آئیں گی کہ ہنسی آئے گی۔ گوادر سے گلگت تک سب ایسا ہے۔ کراچی میں لسانی گروہ بڑھے تو کس شاندار طریقے سے ہر کسی نے ٹیڑھی ترچھی حد بندیاں بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔
اس کے بعد جمہوریت کا وہ خوفناک کھیل شروع ہوتا ہے جسے اکثریت کی آمریت کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں مفکرین اور سیاسی دانشور Tyranny of Mojority سے نجات پر لکھتے آ رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک حلقے میں اگر ایک لاکھ ووٹ ہیں تو اکیاون ہزار والا اسمبلی کارکن اور 49 ہزار لوگ اس اسمبلی میں اپنی رائے سے محروم۔ پاکستان میں تو اس قبضہ گروپ کے لوگوں کو گروہ درگروہ تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ووٹوں میں سے پانچ پانچ دس دس ہزار کے چند گروہ پورے حلقے کو نسل‘ رنگ‘ زبان اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کر دیتے ہیں اور 15 ہزار ووٹ لینے والا اسمبلی کا رکن۔
یوں 85 فیصد لوگوں کی اسمبلی میں آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ یہ سب انتہائی ہوشیاری‘ چالاکی اور خوبصورتی سے کیا گیا ہے اور پھر دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا متبادل بتاؤ۔ متبادل سے پہلے ایک سوال کہ کیا پوری دنیا بھی برطانوی طرز انتخاب کی طرح کی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ ہر ملک نے اپنے حالات کے مطابق اپنا نظام وضع کیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوئٹزرلینڈ کے آئین اور انتخابی نظام کا مطالعہ کیا۔ پورا ملک چار زبانیں بولنے والوں میں تقسیم ہے۔
وہ اگر ہماری طرح حلقہ جاتی سیاست میں پڑتے تو وہاں بھی آج خونریزی کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ وہاں کے کینٹن میں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور ایک اسمبلی ممبر کئی اضلاع کے ووٹوں کی اکثریت سے اسمبلی تک پہنچتا ہے۔ ہر وہ سیاسی پارٹی جس کے چند ہزار ووٹ بھی ہوں اسمبلی میں اس کا نمایندہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں کی پاکستانی سیاست کا کمال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہ بار بار ہونے والے الیکشنوں میں سچے، کھرے اور ایماندار شخص کو ووٹ دیتے رہتے ہیں اور ان کے ووٹ تین سو سے زائد حلقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اگر پورے ملک کے ووٹ اکٹھے کر لیے جائیں، حلقہ بندیاں ختم کر دی جائیں، ہر پارٹی یا فرد کو کوئی کسی بھی جگہ سے ووٹ دے اور پھر ان ہی ووٹوں کی بنیاد پر اسمبلی کی رکنیت عطا ہو تو اسمبلی میں سو فیصد افراد کی آراء کی نمایندگی ہو سکے گی۔ ہو سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ٹی وی پر بولنے والا ایک ہارا ہوا سیاستدان پورے ملک میں اتنے مداح ضرور رکھتا ہو گا کہ ایک سیٹ کے برابر ووٹ لے سکے۔ لیکن اس کے مداح پورے ملک میں تقسیم ہیں، اس لیے وہ قبضہ گروپ کی بنائی ہوئی حد بندیوں میں الیکشن نہیں جیت سکتا۔
ایسا ہو تو پھر عوام کی وہ اکثریت کسی پارلیمنٹ میں نمایندگی سے محروم رہ جاتی ہے اور وہاں قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اور عوام کے ساٹھ سالہ غصے کا مقابلہ اور بدترین نظام سے نجات کی آوازیں ہیں۔ یہ آوازیں اس ننانوے فیصد عوام کی نمایندہ بن جایا کرتی ہیں جنھیں تھانے، پٹوار خانے، کسی سرکاری دفتر یا ادارے سے انصاف نہیں ملتا، جو اسپتالوں سے محروم اور بنیادی سہولیات سے نا آشنا رہے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا غصہ اور غم ہوتا ہے۔
انھیں اس بات کی پروا تک نہیں ہوتی کہ ہجوم کی قیادت کون کر رہا ہے۔ وہ اپنی انتقام کی آگ لیے ہوتے ہیں۔ اسی آگ کے شعلوں کو دیکھ کر قبضہ گروپ کو جب اپنا بنایا ہوا تاج محل مسمار ہوتا لگتا ہے تو انھیں آئین اور قانون کی کتابیں یاد آتی ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے۔ لیکن غصے میں بپھرے ہجوم کو یقین ہوتا ہے کہ آئین اور قانون کی کتابوں سے ہی تو انھیں ساٹھ سال انصاف اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
تحریکوں کی سیاست ا ور تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ گنتی کی سیاست نہیں ہوتی۔ 1940ء کی قرارداد پاکستان سے لے کر عدلیہ کی بحالی تک لوگوں کا ہجوم ہزاروں کی گنتی میں تھا۔ لیکن یہ ہزاروں لوگ تاریخ کا پہیہ موڑ دیتے ہیں۔ قبضہ گروپوں کی چالیں ان کے منہ پر مار دیتے ہیں۔ یہ ایک دفعہ کچلے جائیں تو کچھ عرصے بعد پھر نکل آتے ہیں اور زیادہ زور و شور سے نکلتے ہیں۔ دنیا کی کوئی جمہوریت قبضہ گروپوں سے زبردستی اقتدار چھیننے کے بغیر مستحکم نہیں ہو گی، خواہ وہ فرانس میں بادشاہ لوئی اور ساتھیوں کا خون بہا کر ہوئی ہو یا انگلینڈ میں چارلس اول کو عوامی پارلیمنٹ سے سزائے موت دے کر۔
خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
اوریا مقبول جان جمعـء 29 اگست 2014
1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر محمود خان اچکزئی کے والد خان عبدالصمد اچکزئی امیدوار تھے۔ انھیں جمعیت العلماء اسلام کے امیدوار مولانا عبدالحق نے شکست دے دی۔ صوبائی الیکشن میں ابھی تین دن باقی تھے۔ پشتونوں کے حقوق کے علمبردار اس سیاسی رہنما کے لیے یہ ایک سانحے سے کم نہ تھا۔
قوم پرست سیاست کا خاصہ یہ ہے کہ یہ نسل اور زبان سے شروع ہو کر نچلی سطح پر قبیلے اور برادری تک جا پہنچتی ہے۔ عبدالصمد اچکزئی صوبائی اسمبلی کے بھی امیدوار تھے۔ اچکزئی قبیلے کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بن گیا۔ تو اچکزئی کے حاجی بہرام خان اچکزئی نے قبیلے کے تمام مشران (بزرگوں) کو جمع کیا اور سب کو ’’گوجن‘‘ اور ’’بادن‘‘ کے نسلی تعصب کی کہانیاں سناتے ہوئے قسم، قرآن اور دستار کا واسطہ دے کر قبائلی عصبیت کی بنیاد پر ووٹ مانگے۔
پشتون معاشرے میں قسم بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عبدالصمد خان اچکزئی صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے۔ حاجی بہرام خان اچکزئی اس قصے کو بہت تفصیل سے سنایا کرتے اور پھر آخر میں مسکراتے ہوئے کہتے سب غٹ غٹ (بڑی بڑی) باتیں کرتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ قبیلے سے باہر کچھ بھی نہیں۔ خان عبدالصمد اچکزئی کے ووٹروں کی اکثریت کو شاید ہی اس بات کا علم تھا کہ ان پارٹی کے نظریات کیا ہیں، وہ کن جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں، ان کا منشور کیا کہتا ہے۔
یہ صرف خان عبدالصمد اچکزئی یا ان کے فرزند محمود خان اچکزئی کے حلقے کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ حلقوں کی یہی داستان ہے۔ ان تمام حلقوں سے جیتنے والے جب قومی اسمبلی کے ایوان میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، تو ان کی باتوں سے انسانیت، جمہوری اقدار، برابری اور آزادیٔ رائے کے پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نسل، رنگ، زبان اور عقیدے کا تعصب ان کو چھو کر بھی نہیں گزرا۔ ملکی مفاد کا ترانہ گاتے ہیں اور جمہوری نظام کے تحفظ کی قسمیں کھاتے ہیں۔
اس طرح کا جمہوری نظام انھوں نے بڑی محنت سے تخلیق کیا ہے۔ بار بار الیکشن میں جیتنے اور ہارنے کے بعد انھوں نے وسیع تجربے سے اپنے لیے محفوظ حد بندیاں بنا لی ہیں۔ علاقائی اور نسلی تعصب کی جڑوں کو گہرا کر لیا ہے۔ لوگوں کے مخصوص مفادات ان لیڈروں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں کوئی نسل کا پرچم بلند کرے یا مذہب کا، انھی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جناب محمود خان اچکزئی کے حلقے کو ہی اگر مثال کے طور پر لے لیا جائے تو ان کے علاقے گلستان سے لے کر چمن تک اکثریت کا کاروبار اسمگلنگ ہے۔
وہاں کا ڈپٹی کمشنر لوگوں کو آٹا، چاول، چینی اور دیگر اشیاء کی راہدار یاں جاری کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ڈیورنڈ لائن کے قائم ہونے سے جاری ہے۔ انھی راہداریوں کی آڑ میں یہ تمام اشیاء افغانستان جاتی ہیں اور وہاں سے دنیا بھر کا سامان اسمگل ہو کر کوئٹہ کی مارکیٹوں میں آتا ہے۔ اس سارے معاملے پر ’’نظر‘‘ رکھنے کے لیے، ایف سی، کسٹم اور لیویز کی پوسٹیں قائم ہیں۔ میں نے’’ نظر‘‘ رکھنے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ کنٹرول کا تو تصور بھی وہاں نہیں دیکھا جا سکتا۔
جب کبھی کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہوتا تو چمن کے بازار سے سیکڑوں بسیں اسمگلنگ کے سامان سے لدی ہوئی روانہ ہوتیں، اوپر پارٹی کا جھنڈا ہوتا اور چند سوار لوگ پارٹی کے نعرے لگاتے ہوئے جلسہ گاہ جاتے اور سامان کوئٹہ کی مارکیٹوں میں آرام سے پہنچ جاتا۔ پورے علاقہ میں دو طرح کے لوگ اکثر پائے جاتے ہیں۔ ایک بڑے بڑے اسمگلر جو حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر یہ کام کرتے ہیں اور دوسرے، چھوٹی سطح پر مال ادھر سے ادھر کرنے والے۔
جب کبھی ہڑتال ہوئی، جلوس نکلے تو مطالبات کی فہرست میں ایف سی چیک پوسٹوں کو ہٹانے کا مطالبہ ضرور شامل رہا۔ سیاسی جلسوں اور عمومی سیاسی گفتگو میں بھی اسمگلنگ کا جواز، غربت ، پسماندگی اور روز گار کی عدم دستیابی کو بنایا جاتا۔ قبائلی جھگڑے، مقامی نسلی عصبیتیں، سیاست کا بازار چمکاتی رہیں۔ مارچ 1980ء میں جب میں بلوچستان پہنچا تو صوبے کی ہر دیوار پر پنجابی استعمار کے خلاف نعرے درج تھے اور ہر لیڈر ان کے خلاف زہر اگلتا تھا۔
دونوں سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اپنی طاقت کا محور جہاں علاقائی قبائلی تعصب کو سمجھتیں، وہیں افغانستان سے بھی اپنی حمایت کے لیے گروہوں سے تعلق استوار رکھتیں۔ محمود خان اچکزئی کا تعلق نجیب اللہ سے تھا اور جمعیت علماء اسلام افغان مجاہدین میں طاقت ڈھونڈتی تھی۔ چمن کی سرحد کے پار افغانستان کے شہر اسپن بولدک میں عصمت اللہ مسلم اچکزئی نے اغوا برائے تاوان کا مرکز قائم کیا ہوا تھا جسے وہ ’’قرار گاہ‘‘ کہتا۔
آئے دن کوئی نہ کوئی شہری اغوا ہوتا اور پھر وہ انھی قبائلی نما سیاستدانوں کے توسط سے رہا ہوتا۔ نجیب اللہ کی حکومت گئی تو افغانستان میں اس گروہ کی طاقت کا مرکز ختم ہو گیا۔ اب پاکستان سے امیدیں وابستہ کرنے کے دن تھے۔ ایک نعرہ بلند کیا گیا۔ دہ بولان تا چترالہ۔ پشتونستان (بولان سے چترال تک پشتونستان ہے) پنجابی تو وہاں بہت دور تھے لیکن بلوچوں کو خطرہ محسوس ہوا تو اکبر بگٹی، عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری تمام رنجشیں بھلا کر اکٹھے ہو گئے۔ سریاب روڈ پر اکبر بگٹی نے للکارتے ہوئے کہا ’’چترال پہ جو مرضی دعویٰ کرو مگر بولان کی جانب دیکھنا بھی مت‘‘۔
بلوچستان کی صبحیں اور شامیں خون آلود ہونے لگیں۔ کوئٹہ میں کرفیو کا راج ہو گیا۔ اس کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو افغان قوم کے اس عالمی اتحاد کے داعی کو پاکستان کی سیاست میں گزارا کرنا پڑا۔ لیکن انھوں نے ایک گُر سیکھ لیا تھا کہ جمہوریت، عوام کی حکمرانی اور انسانیت کی سر بلندی کے نعرے اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں اگر اپنا اچکزئی قبیلہ ساتھ نہ ہو۔ اسی لیے آج ان کا قبیلہ نہیں بلکہ گھرانہ اقتدار کی نعمتوں سے سر فراز ہے۔ آج وہ اس کِرم خورہ، فرسودہ جمہوری نظام کے سب سے بڑے دعویدار ہیں کہ اس سے فوائد بھی انھیں کے خاندان کو حاصل ہیں۔
محمود خان اچکزئی کا ذکر اس لیے کیا کہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاست پاکستان کے دوسرے خطوں سے مختلف ہے۔ لوگ آج یہ تصور کر رہے ہیں کہ محمود اچکزئی صاحب اعلیٰ جمہوری اقدار کے علمبردار ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اس ملک کی سیاست پر چھائے، چوہدریوں، لغاریوں، مزاریوں، پراچوں، ٹوانوں، بجارانیوں، زرداریوں، مخدوموں، خٹکوں، یوسف زئیوں، تالپوروں اور جاموں سے مختلف نہیں ہیں۔
انھیں بھی اس ملک کا یہ جمہوری نظام بہت راس آتا ہے، جہاں اسمبلی کے ایوان، ٹی وی کے ٹاک شو اور اخبار کے انٹرویوز میں آپ کا بیان ایسے ہوتا ہے جیسے آپ اس ملک میں افلاطون کی جمہوریہ کے فلسفی بادشاہ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں لیکن جب یہ سب سیاسی رہنما الیکشن لڑنے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو لوگوں کو نسلی، قبائلی اور برادری کے نام پر تعصب کی چادر اوڑھا دیتے ہیں۔ گزشتہ بارہ انتخابات میں عوام اور ان سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ خلیج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دھاندلی کے طریقِ کار میں مہارتوں کے نئے نئے ڈھنگ وجود میں آ گئے ہیں۔ لورالائی کے طاہر لونی الیکشن جیتے تو ان کے خلاف پٹیشن ہوئی۔
اس میں ان کے قبیلے کے فوت شدہ لوگوں کے ووٹ بھی شامل تھے۔ وہ اکثر لوگوں سے مذاقاً کہتے پھرتے ’’میں اپنے قبیلے کا سردار ہوں اگر میں اپنے مردوں کو حکم دوں تو وہ اپنی قبروں سے نکل کر مجھے ووٹ دیں گے‘‘۔ پاکستان کی سیاست میں جمہوریت گزشتہ ساٹھ سال سے دھوکہ، فراڈ، تعصب اور دھونس کی بنیاد پر قائم ہے۔ سیاست دانوں نے کامیابی کے دو شاندار گُر سیکھ لیے ہیں۔
اقتدار کی اعلیٰ ترین مسندوں پر قریبی خاندان کے سوا کسی شخص پر بھروسہ نہ کرو اور اپنے خاندان کو ہی وہاں متمکن رکھو اور حلقے کی سیاست میں ووٹر کے ہر ناجائز مطالبے کو بھی جائز اور وہاں موجود بدترین تعصب کو بھی حق پر سمجھو۔ دنیا پر ہزاروں سال ظالم ترین بادشاہوں کی حکومتیں قائم رہیں لیکن وہ بھی اپنے وزیر، مشیر، گورنر اہلیت کی بنیاد پر لگایا کرتے تھے۔ خاندانی اور نسلی تعلق کی بنیاد پر نہیں۔ سعدی کا شعر ہے۔
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثرّیا می رود دیوار کج
اگر معمار پہلی اینٹ ٹیرھی رکھ دے تو دیوار بے شک ثریا ستارے تک لے جاؤ ٹیرھی رہے گی۔ جب تک یہ اینٹ سیدھی نہیں کی جاتی سو سال بھی یہ کرم خوردہ جمہوری سسٹم چلتا رہے، حقیقی قیادت سے مرحوم ہی رہے گا۔
بوسیدہ ملبوس اتارنے کے دن
اوریا مقبول جان جمعـء 22 اگست 2014
دنیا میں زندہ قومیں آئین کی غلام نہیں ہوتیں بلکہ آئین ان کی خواہشات، امنگوں اور آرزئوں کا غلام ہوتا ہے۔ ان کی امنگیں اور آرزوئیں بدلتی ہیں تو وہ اس میثاق کی کتاب کو بھی بدل دیتے ہیں۔ ایسی قوموں کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ ان کے ملک کی سیاسی قیادت مفادات کی گروی ہے اور عوام پر مخصوص طبقات کی حکمرانی ہی اس دستاویز کا مقصد ہے تو پھر وہ ایسے نمایندوں سے آئین تحریر کرنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔
یہ سب ایک خواب نہیں ہے،بلکہ دنیا کے ایک مہذب ترین ملک نے اسے حقیقت بنا کر دکھایا ہے۔یہ ملک ایسا نہیں جہاں کوئی خونی انقلاب آیا ہو۔ یہ کسی فوجی آمر کے برسرِ اقتدار آنے کی کہانی بھی نہیں، بلکہ یہ تو سودی نظامِ بینکاری میں جکڑے ہوئے ایک جمہوری ملک آئس لینڈ کی صرف پانچ سال پرانی داستان ہے۔ ایک ایسا قصہ جسے فرسودہ جمہوریت اور کارپوریٹ سودی نظام میں جکڑی انتخابی سیاست کا غلام میڈیا بیان نہیں کرتا۔
یہ تو چند سال پہلے کی بات ہے جب2008میں دنیا بھر میں سودی بینکاری نظام اپنے فراڈ اور جھوٹی کاغذی کرنسی کی وجہ سے ڈوبنے لگا تو امریکا سے لے کر یورپ کے ہر بڑے معاشی ہیڈ کوارٹر پر دھرنے اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ بینکوں نے اپنی ساکھ اور عمارت بچانے کے لیے سود کی شرح صفر کے قریب کرلی۔ لیکن آئس لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہنگامے اور دھرنے اس قدر زور پکڑے کہ منتخب حکومت کو مستعفی ہونا پڑا۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پوری قوم کو ایک عوامی پارلیمنٹ تصور کرتے ہوئے ایسے تیس (30)غیر سیاسی لوگوں کو منتخب کیا گیا جو ملک میں علم اور تجربے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ ان تیس افراد کو کہا گیا کہ تم ہمارے ملک کا ایک نیا آئین تحریر کرو جو ان تمام غلاظتوں اور جتھ بندیوں سے پاک ہو۔ایسی خرابیاں جو کارپوریٹ سرمائے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے دھرنے سے اس طرح کی تبدیلی کی یہ واحد مثال ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی خوفزدہ کارپوریٹ کلچر کی گروی جمہوریتوں نے اپنے ملکوں کے میڈیا پر اس کی خبر تک نہ آنے دی۔
وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو کارپوریٹ سرمایہ کنٹرول کرتا ہے اور کارپوریٹ سرمایہ سودی بینکاری کے فراڈ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ہنگامہ اکتوبر2008ء سے لے کر 2010ء میں آئین کے ازسر نو تحریر کرنے تک چلتا رہا لیکن سی این این جیسے عالمی چینل پر بھی اسے ایک معمولی خبر کے طور دکھایا گیا۔ پورے امریکا میں اس خبر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لیکن عوامی احتجاج کے ذریعے ایک جمہوری لیکن بددیانت حکومت کے خاتمے پر لوگ سوشل میڈیا پر متحرک رہے اور اس پورے انقلاب پر ایک ڈاکو منٹری بھی بن چکی ہے جس کا نام ہے۔(Pots Pans & other solutions)
انقلاب کی یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔18اکتوبر2008کی سرد دوپہر ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی نااہلی کے خلاف ایک شخصHordurاپنا گٹار اور مائیکروفون لے کر ایک مرکزی چوراہے پر جا کر کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو بلا بلا کر حکومت کے خلاف بولنے کے لیے بلانے لگا۔ ایک ہفتے میں وہاں ایک ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر ہفتے یہاں جمع ہوں گے اورحکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت چلی نہیں جاتی۔
20جنوری2009تک مظاہرے بڑھ گئے اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ اس دن پولیس نے ان پر کالی مرچوں کا سپرے کیا، لاٹھی چارج کیا اور پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سے 20لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ہنگامے زور پکڑے، پارلیمنٹ کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ دھواں پھیلانے والے بم پارلیمنٹ کی کھڑکیوں سے پھینکے گئے۔ وزیراعظم کی کار پر 21جنوری کو خالی ڈبوں، انڈوں اور برف کے گولوں سے حملہ کیا گیا۔ ہجوم نے تمام سرکاری عمارتوں کا گھیرائو کر لیا۔ 22جنوری کو پولیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔
آئس لینڈ کی تاریخ میں ایسا60سال بعد ہوا، پہلے آنسو گیس1949ء میں استعمال ہوئی جب لوگ نیٹو کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ ہجوم نے دھرنا جاری رکھا اور سرکاری عمارتوں پر پتھرائو شروع کردیا۔ 23جنوری کو وزیراعظم (Geir Haardelthat)نے25اپریل کو وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ لیکن عوام نے کہا کہ ہم اس آئین اور اس سسٹم کے تحت الیکشن نہیں مانتے۔ ہمیں ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔
عوام کے مطالبے پر 26جنوری کو وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہوگئیں کہ ہمیں ایک نیا آئین مرتب کرنا ہوگا۔ وہ پارٹیاں جو سب سے کم نمایندگی رکھتی تھیں ان کو ملا کر ایک نگران حکومت بنائی گئی۔ انھوں نے عوام کے مطالبے پر فیصلہ کیا کہ تمام عوام کو آئین بنانے میں شریک کیا جائے۔ پورے ملک سے1500لوگوں کو بلایا گیا جسے عوامی پارلیمنٹ کہا گیا۔ یہ لوگ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں میں سے25لوگوں کو آئین تحریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔اس انتخاب کے خلاف پرانی وضع اور فرسودہ جمہوری نظام کے دیوانے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔
سپریم کورٹ نے26اکتوبر2010میں ہونے والے یہ غیر سیاسی الیکشن غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیے۔ لیکن پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ انھوں نے کہا کہ جو عدلیہ عوام کی امنگوں،آرزو اور خواہشات کے مطابق نہ ہو،اس کے فیصلے نافذ العمل نہیں۔آئین تحریر کیا گیا۔پرانا آئین مسترد ہوا اور29جولائی2011کو اس کا ڈرافٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔اس کے بعد انھوں نے اس معاشی بدحالی کے ذمے دار وزیراعظم کو سزا دینے کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا اور اپنے وزیراعظم کو وہاں مجرم کے طور پر کھڑا کر دیا۔
اس انقلاب میں نہ کوئی خون بہا اورنہ ہی قتل وغارت ہوئی، لیکن پورے ملک کاآئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمنٹ کو گھیرا تھا ان کی تعداد تین ہزار سے پانچ ہزار تک تھی۔ لیکن کسی نے یہ سوال تک نہ کیا کہ یہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔کسی نے یہ جملہ بھی نہ بولا کہ یہ لوگ جمہوریت کو پٹری سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔اس لیے کہ سب سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا، کہ عوام کے تمام مطالبات درست ہیں۔
پوری قوم ایک ایسے آئین اور ایسے جمہوری نظام کی غلام ہو چکی ہے جو کارپوریٹ سرمائے اور سودی بینکاری کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ان بینکوں نے پوری قوم کو ایک نہ ختم ہونے والے سودی قرضے میں جکڑا اور اسی سرمائے سے سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کا تابع بنایا۔لوگوں نے اس محکوم سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا۔ کیا ہمارا سیاسی جمہوری نظام بھی چند طبقات اور چند آئینی شقوں کا غلام نہیں ہے؟
آپ آج ریفرنڈم کرائیں کہ اس نظام سے اگلے سو سال میں بھی کسی صاحبِ علم، اہل اور عام آدمی کو راستہ مل سکتا ہے تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔قومیں ارتقائی منازل سے گزرتی ہیں تو اپنے میثاق بھی بدلتی ہیں اور اپنے قانون بھی۔ بوسیدہ کپڑے اتارے نہ جائیں ان کی بدبو اور غلاظت سے بدن میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارا جمہوری اور آئینی نظام بھی وہ بوسیدہ ملبوس ہے جو چند طبقات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایک خارش زدہ جسم کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا صحت مند معاشرے کی طرح۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
اوریا مقبول جان پير 18 اگست 2014
عالمی سطح پر رائج جمہوری نظام اور عوام کی حکمرانی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا مدتوں اس دنیا پر حکمران بادشاہوں اور عوام میں ان کی پذیرائی اور قبولیت میں فرق ہوتا تھا۔ بڑے بڑے فاتحین خواہ وہ سکندر ہو یا چنگیز خان، اپنے گھروں سے بڑی بڑی افواج لے کر نہیں نکلا کرتے تھے۔ آج سے دو سو سال پہلے تک جن پانچ ممالک نے پوری دنیا کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کیا ان کا حجم اور افرادی قوت دیکھیں تو ہنسی آتی ہے کہ یہ اتنے مختصر سے ملک اتنے بڑے بڑے علاقوں پر کیسے قابض ہوگئے۔
برطانیہ‘ فرانس‘ اسپین‘ ہالینڈ اور پرتگال جن کی کل آبادی ملا کر بھی اس دور کے ہندوستان سے کم تھی، لیکن امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک ہر خطہ ان کے زیر تسلط تھا۔ ان طاقتوں نے بھی علاقے فتح کرنے کا گر قدیم فاتحین سے سیکھا تھا۔ پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کرو کہ کس علاقے کی رعایا اپنے حکمران سے ناراض اور غیرمطمئن ہے، پھر اس رعایا میں اپنے ایسے حمایتی ڈھونڈو جو اقتدار کی خواہش رکھتے ہوں لیکن حکمرانوں کی طاقت کے سامنے ان کا بس نہ چلتا ہو اور ان کے ذہن میں کسی بیرونی طاقت کی مدد سے سازش کے ذریعے اپنے علاقے پر حکمرانی کرنے کی خواہش مچل رہی ہو۔
جب یہ دونوں عوامل جمع ہو جاتے تو حملہ کرنے کا اذن مل جاتا، اور چند دنوں میں وہ علاقہ، شہر یا ریاست فتح کر لی جاتی۔ ابن علقمی اگر عباسی خلفاء کا وزیر نہ ہوتا اور اس حیثیت میں بھی خلیفہ کے خلاف سازشوں میں مصروف نہ ہوتا تو ہلاکو کسی دوسری جانب اپنی فوجوں کا رخ موڑ دیتا۔ سکندر کو راجہ امبی کی صورت میں استقبال کرنے والا نہ ملتا تو وہ شاید وہیں سے پلٹ جاتا۔ اسی طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار میسر نہ آتے تو نہ جنگ پلاسی کی جرأت ہوتی اور نہ ہی میسور کے سرنگا پٹم پر حملے کا تصور۔
ان تمام فاتحین اور عظیم بادشاہوں کا ایک طریقۂ کار تھا۔ جہاں کوئی ہمدرد یا تعاون کرنے والا مل جاتا اس سے مدد حاصل کرتے‘ وہ لڑنے کے لیے افراد بھی فراہم کرتا‘ مالی امداد بھی کرتا اور کھانے پینے کا بندوبست بھی۔ یوں فوج میں اضافہ ہوتا تو اگلا علاقہ فتح کر کے سلطنت کو وسیع کرتے جاتے۔ وہیں سے لوگوں کو اپنی فوج کے لیے بھرتی کیا جاتا اور مزید علاقے فتح کیے جاتے۔ 1848 میں جب پنجاب میں سکھوں کی حکومت کے خلاف انگریز نے لڑائی شروع کی تو اس میں برطانیہ سے آئے فوجی نہیں بلکہ بنگال اور مدراس رجمنٹ کے چھوٹے چھوٹے قد کے سپاہی ان گبھرو جوانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔
کوئی اس دور میں سکھوں کی آپس کی چپقلش کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لے کہ کیسے ایک غیر مطمئن رعایا نے اپنی ہی فوج کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اسی طرح پنجاب فتح ہونے کے صرف آٹھ سال بعد 1857 کا معرکا آزادی ہوا تو وہ پنجاب جسے ایک غیر ملکی طاقت نے فتح کیا تھا وہیں سے جوق در جوق لشکر انگریزوں کی مدد اور نصرت کے لیے گئے تھے اور لال قلعہ دہلی کو فتح کر کے واپس لوٹے تھے۔ جنگوں میں ساتھ دینے والے راجوں‘ مہاراجوں‘ سرداروں‘ وڈیروں کے لیے انعام وا کرام اور نوازشات کے بھی درجات ہوتے تھے۔
کسی کو اقتدار میں شریک کرکے اس علاقے کا حکمران‘ وزیر یا پھر مرکزی سطح پر اپنا معتمد خاص مقرر کر دیا جاتا تھا۔ کچھ کو جائیدادیں عطا کی جاتی تھیں اور بہت سوں کو شاہی دربار کی سند اور قبولیت کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ بادشادہت کرنے کے گروں میں دو گر سب سے زیادہ اہم سمجھے گئے ہیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس حکمران نے یہ دو گُر آزمائے اس کے اقتدار کو طوالت ملتی گئی۔ ایک یہ کہ رعایا خوشحال ہو اور ان کے درمیان انصاف کیا جائے۔ مطمئن اور پر سکون رعایا دنیا کے ہر حکمران کی سب سے مضبوط دفاعی لائن سمجھی جاتی تھی۔
دوسرا گر طرز حکمرانی کا شاطرانہ استعمال ہے۔ اس کی مثال اسپارٹا کے حکمران نے یوں سمجھائی جس کے پاس دیگر ریاستوں کے لوگ اپنے بچوں کو حکمرانی کے گر سکھانے بھیجتے تھے۔ وہ جاتے ہوئے ان کو ایک مکئی کے کھیت میں سے گزارتا جہاں تمام پودے تقریباً ایک سائز ہوتے، لیکن جو چند ایک سر اٹھاتے ہوتے انھیں تلوار سے کاٹ کر برابر کر دیتا۔ جس حکمران کو اپنی رعایا میں اقتدار کے خواہش مند، سر اٹھاتے لوگوں کا علم نہ ہوتا، اس کا زوال یقینی تھا۔
انسانی شعور اپنی منزلیں طے کرتا ہے تو لوگوں پر حکمرانی کی خواہش رکھنے والے بھی نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ پہلے بادشاہ لوگوں کو خوشحال اور مطمئن رکھتے تھے اور وہ ہردلعزیز حکمران کہلاتے تھے۔ ان کا عتاب صرف چند لوگوں تک محدود ہوتا، جس کی ایک پر سکون رعایا پروا بھی نہ کرتی۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہوتا جا رہا تھا۔ اقتدار میں شرکت کے خواہش مند بڑھتے جا رہے تھے۔ خواہشوں کا طوفان ہر سینے میں امڈتا تھا۔
عام سپاہی کے بادشاہ بننے یا عام سے شخص کے اپنی بصیرت کے بل بوتے پر وزیر بن جانے کی کہانیوں اور عوام کی حکمرانی کی خواب انگیز داستانوں نے حکمرانوں کے خلاف ہجوم کی صورت میں باہر نکلنے کا رواج ڈالا۔ فرانس کے ورسائی محل کی کھڑکی سے باہر نکل کر جب بادشاہ نے 1774 میں جھانکا تو حیرت میں گم ہو گیا کہ اتنی مخلوق یہاں کیسے جمع ہو گئی۔ یہ شہر تو بہت چھوٹا سا ہے۔ بادشاہوں کے سر کٹنے لگے تو وہ قوتیں جو صدیوں سے اقتدار پر قابض تھیں انھیں خطرے کا احساس ہوا۔ یہ سب اپنے اپنے علاقوں کے جاگیردار، وڈیرے، تاجر، قبائلی سردار تھے۔
ان کی طاقت اپنے علاقوں میں مستحکم تھی لیکن اگر بہت سے علاقوں کے پسے ہوئے عوام مل جاتے تو پھر ان کی طاقت کا چراغ گل ہو جاتا۔ اب ’’ہردلعزیز‘‘ حکمرانی کا ایک نسخہ ایجاد کیا گیا۔ یہ نسخہ تھا جمہوریت۔ بس چند دن کے لیے سہی مگر عوام کو حکمرانی میں شریک کیا جائے۔ وہ دن جب وہ اپنی رائے کا اظہار یا ووٹ دینے آتے ہیں۔ اسے ایک سیاسی عمل کا نام دیا گیا۔ سب سے پہلے عوام کو تقسیم کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا نظام وضع کیا گیا۔ پہلے ایک بادشاہ کو افرادی قوت اور سرمائے سے مدد فراہم کی جاتی تھی، اب پارٹی فنڈنگ کا راستہ نکالا اور افرادی قوت کی جگہ پارٹی ورکرز نے لے لی۔
پارٹیوں کو سرمائے کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے خریدنا آسان تھا، اسی لیے غیر جماعتی طریق انتخاب کو گالی بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ یک جماعتی نظام کو بھی آمریت کا روپ قرار دیا گیا۔ امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک کوئی پارٹی ایسی نہیں جسے اربوں ڈالر میسر نہ ہوں اور وہ الیکشن جیت جائے۔ اس کے بعد نسخہ وہی جو بادشاہوں کا تھا کہ عوام کو خوشحال اور مطمئن رکھا جائے تو اقتدار قائم۔ اس کے لیے اپنی لوٹ مار سے ایک تھوڑا سا حصہ عوام پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس نے دنیا میں پچاس ایسے افراد کو جنم دیا ہے جن کے پاس دنیا کی ساٹھ فیصد کے قریب دولت ہے۔
اب اہرام مصر، تاج محل اور سونے کے منقش محل نہیں بنتے بلکہ کاروباری سلطنتیں وجود میں آتی ہیں۔ انھی کاروباری سلطنتوں کی ہوس افریقہ کو پسماندہ، غلام اور قتل و غارت کا گڑھ بنائے ہوئے ہے اور اسی کا نشہ جمہوری حکمرانوں کو ویت نام، عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ کوئی حکمرانی میں ’’نام نہاد شریک عوام‘‘ سے نہیں پوچھتا کہ ہم تمہارے بچوں کو قتل گاہوں میں بھیج رہے ہیں۔
ان ہزاروں مقتولین کی یادگاریں بنائی جا رہی ہیں، انھیں وطن و قوم کا محسن قرار دیا جا رہا ہے، کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ جنگ عظیم اول سے لے کر آج تک کروڑوں لوگ اسی جمہوریت اور آزادی کے نام پر قتل کیے گئے لیکن صرف اسلحہ ساز فیکٹریوں کے منافع میں اضافہ ہوا۔ جنہوں نے مزید پارٹی فنڈنگ سے اپنے لیے سیاسی رہنما اور جمہوری حکمران خرید لیے اور پھر ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ اور کانگریس جیسے اداروں کو عوام کا نمایندہ کہہ کر ہر وہ کام کیا جس کا تعلق صرف اور صرف اس کارپوریٹ دنیا کے تحفظ کا تھا۔ لیکن یہ اپنی دولت کا مختصر سا حصہ عوام میں بانٹ کر انھیں مطمئن اور خوشحال رکھتے کہ کل کوئی جم غفیر فرانس کے شاہی محل کی طرح ان کے اس فراڈ نظام کی دھجیاں نہ بکھیر دے۔
دنیا میں بادشاہت ہو یا جمہوریت، نظام الٹنے، تہس نہس کرنے کے لیے صرف ایک ہی لازم شرط ہے۔ عوام کا غیر مطمئن، پریشان اور بدحال ہونا۔ رحم دل بادشاہ اور ظالم ترین جمہوری حکمران بھی اس شرط کو ضرور ذہن میں رکھتے اور اپنے اقتدار کو طول دیتے تھے۔
دنیا بھر کے میں بادشاہ ہوں یا جمہوری حکمران، جہاں کہیں تخت الٹے گئے یا تاج اچھا لے گئے، وہاں ایسا کام مٹھی بھر بپھرے ہوئے ہجوم نے کیا۔ لیکن ان کا یہ غصہ اور انتقام، کروڑوں غیر مطمئن، پریشان اور بدحال عوام کے دل کی آواز بن چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی آوازیں، سسٹم تباہ ہو جائے گا، ترقی کا پہیہ رک جائے گا، دوسرے حکمران ملوث ہیں ہم نے تمہارے لیے بہت کچھ کیا، سب صدا بصحرا ہو جاتی ہیں۔ لٹے پٹے، مفلوک الحال، پریشان اور غیر مطمئن لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کس کا محل مسمار ہوتا ہے اور کس کا اقتدار رخصت۔ انھیں تو اپنی بدحالی کے موسم میں کسی اور کی خوشحالی اچھی نہیں لگ رہی ہوتی۔
اس سانحے سے بچو
اوریا مقبول جان جمعـء 15 اگست 2014
ریاستی طاقت کا متعصبانہ استعمال کس قدر افسوسناک ہوتا ہے، اس کا اندازہ حکومتوں کی مسند پر بیٹھے افراد کو اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں جو جہنم پیدا ہوتا ہے اس کی آگ میں صرف اور صرف عوام جلتے ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق صدیوں پرانا ہو گا لیکن اس کی بدترین مثالیں تو ہم جیتے جاگتے اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں۔ لیکن شاید ہمیں ریاستی طاقت کا نشہ اندھا کر دیتا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ نشہ اس وقت مزید خطرناک ہو جاتا ہے جب اس میں نسل، عقیدے، مسلک، زبان، علاقے یا گروہ کا تعصب شامل ہو جاتا ہے۔
اس ریاستی طاقت کے اندھے استعمال سے ایک ایسا انتقام جنم لیتا ہے جو انتہائی خوفناک ہوتا ہے۔ جو لوگ اس انتقام کے دوزخ کا الائو روشن کرتے ہیں وہ اسے کسی اعلیٰ مقصد کا لبادہ ضرور پہناتے ہیں۔ کوئی قومی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی نسلی برتری کا۔ کوئی عقیدے کا پرچم تھامے نکلتا ہے تو کوئی ملک کی بقا کا جھنڈا۔ ریاستی طاقت کے اس بے مہابہ استعمال کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی خونخوار بھیڑیے جیسے منتقم مزاج ہو جاتے ہیں کہ جن کی زندگی امن و محبت کے گیت گاتے ہوئے گزری ہوتی ہے۔
کس کو یقین تھا کہ ایک ایسے خاندان کا فرد جس کی شہرت صوفیانہ مسلک کی وجہ سے ہو اور جسے پورے علاقے میں محبت اور امن کا سفیر سمجھا جاتا ہو۔ آل رسولؐ اور سیدنا امام حسینؓ کی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کا احترام کیا جائے اور لوگ ان کی نیکی اور صلح جوئی کی وجہ سے انھیں عزت و توقیر دیں۔ اس گھرانے کا ایک فرد جو کسی مدرسے کا نہیں بلکہ ماڈرن یونیورسٹی کا طالب علم ہو۔ جس نے بغداد یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہو، وہ ایک دن پورے علاقے میں خوف اور دہشت کی علامت بن جائے گا۔
یہ شخص ابراہیم بن عواد بن علی بن محمد جسے آج دنیا ابوبکر البغدادی، الحسینی، الرضوی، الھاشمی، القریشی کے نام سے جانتی ہے۔ حسینی سادات کے قبیلے بدرین سے تعلق رکھنے والا یہ شخص 1971 میں سمارا میں پیدا ہوا۔ اس کا داد احاجی ابراہیم ایک صوفی بزرگ تھا جب کہ اس کی دادی کی شہرت ایک انتہائی برگزیدہ خاتون کی حیثیت سے پورے بدری قبیلے میں عام تھی۔ ایسے گھرانے سے شناخت رکھنے والا ابوبکر البغدادی ان سب سے اتنا مختلف کیوں ہے۔
شام اور عراق کے وسیع علاقے میں اماراتِ اسلامی قائم کرنے والا یہ شخص ایک پروفیسر تھا۔ جس نے 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد جماعت جیش اہل سنہ والجماعہ کا ساتھ دینا شروع کیا۔ اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے اسے اس کی شریعہ کمیٹی کا رکن بنا دیا گیا۔ اس گروہ نے خود کو مجاہدین شوریٰ کونسل میں ضم کیا اور اپنا نام 2006 میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق (ISI) رکھا۔ بغدادی کو اس گروہ نے بھی شریعہ کمیٹی کا سپروائزر مقرر کیا۔
اس کا عملی طور پر جہاد اور جنگجو سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ لیکن پھر ایک دن اسے مقامی اور امریکی افواج پکڑ کر لے گئیں۔ جہاں وہ بکّہ جیل میں 2009 تک قید رہا اور اسے ایک غیر جنگجو فرد تصور کرتے ہوئے چھوڑ دیا گیا۔ بکّہ جیل کا انچارج کرنل Kem King کہتا ہے کہ جیل میں وہ ایک پر امن قیدی کے طور پر رہا لیکن وہ اکثر یہ نعرہ ضرور بولتا ’’میں اب آپ لوگوں سے نیویارک میں ملوں گا‘‘ جسے ہم ہنسی میں ٹال دیتے۔
یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ کوئی جہادی گروہ کسی ملک میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے عوام کی واضح اکثریت کی خاموش حمایت اور ہمدردی حاصل نہ ہو۔ ابو مصعب زرقاوی کی ہلاکت 2006 میں ہوئی اور ابو بکر البغدادی کا عروج 2013 میں۔ اس کے درمیان سات سال ایسے ہیں جن میں امریکی پشت پناہی سے قائم ہونے والی نوری المالکی کی حکومت نے مسلکی اقلیت کو القاعدہ کا نام دے کر خوفزدہ اور قتل کرنا شروع کیا۔ میں فسادِ خلق کے خوف سے وہ کہانیاں بیان نہیں کرنا چاہتا جو عراق سے بھاگنے والے لوگوں سے میں نے خود لبنان اور لندن میں سنیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان سات سالوں میں جو شہر اجاڑے گئے وہ سب القاعدہ کے مسکن تھے، جو قتل کیے گئے وہ دہشت گرد تھے اور جو مسجدیں اور مدرسے مسمار کیے گئے سب کے سب ٹریننگ کیمپ تھے۔ یہ تھا عالمی اور عراقی میڈیا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ سب مسلکی اقلیت کے علاقے تھے۔ اس دوران 2010 کے اپریل میں امریکا نے عراق سے نکلنے کا پروگرام بنایا تو القاعدہ کے نام سے تمام گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔
اس آپریشن کی قیادت نور المالکی کی افواج کر رہی تھیں۔ تکریت میں دو اہم رہنما مار دیے گئے۔ اس کے صرف ایک ماہ بعد جس نئی قیادت کا اعلان ہوا اس میں ابوبکر البغدادی کی حیثیت بہت اہم تھی۔ عراق کے صوبوں انبار اور نینویٰ میں جو قبائل آباد ہیں۔ ان کے نسلی اور خونی رشتے مشرقی شام کے قبائل سے ہیں۔ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے پشتون قبائل نسلی اور قومی اعتبار سے افغانستان سے منسلک ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں سرحد کی کوئی اہمیت نہیں ویسے ہی وہاں بھی سرحد کی کوئی اہمیت نہیں۔
شام میں جب دیگر عرب ممالک کی طرح ہنگامے شروع ہوئے تو بشارالاسد کی اقلیتی علوی حکومت کا خوف ریاست کی طاقت کے استعمال میں ظاہر ہوا۔ قبائل پناہ لینے کے لیے بھاگنے لگے۔ دس فیصد اقلیت کی علوی حکومت اور اسّی فیصد سے زیادہ سنی آبادی۔ دونوں جانب سے مسلکی ٹھیکیدار ممالک ایران اور سعودی عرب کود پڑے۔ عراق میں لڑنے والوں کو ایک اور محاذ مل گیا۔ یوں ISI الاسلامک اسٹیٹ آف عراق سے ISIS اسلامک اسٹیٹ عراق اینڈ شام وجود میں آگئی۔
سرحدیں بے معنی تو امریکا نے کر دی تھیں، پھر ایران اور سعودی عرب نے کر دیں۔ اب ان کے خلاف لڑنے والوں نے بھی اسے ختم کر کے رکھ دیا۔ وہ ریاستی طاقت اور سرحد جس پر فخر کیا جاتا تھا 29 جون 2014 کو ایک نئی اکائی میں تبدیل ہو گئی۔ ایک ایسا گروہ سامنے آ گیا جس کی آنکھوں میں انتقام کے شعلے تھے اور گزشتہ 9 سال سے القاعدہ کے نام پر ظلم، دہشت اور بربریت سہتی ہوئی اقلیت کی ہمدردیاں۔
ریاستیں کمزور پڑتی ہیں تو سازشی تھیوریاں اور میڈیا کا سہارا لیتی ہیں۔ کوئی مسائل کی جڑ تک نہیں پہنچنا چاہتا، اس لیے کہ ان کا طاقت کا نشہ اور اندر کا تعصب انھیں یہ نہیں کرنے دیتا۔ امریکی سازش ہے، یہودی ایجنٹ ہے، ایرانی مدد ہے، سعودی پیسہ ہے، بیرونی ہاتھ ہے، یہ سب کہنے سے زمینی صورت حال نہیں بدلتی۔ اس لیے کہ ایسی طاقتوں کی حمایت مسلکی اور نظریاتی ہوتی ہے اور پھر یہ حمایت ایک خون کا دریا عبور کر کے پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان گزشتہ آٹھ سالوں سے ویسے ہی حالات کا شکار رہا ہے۔ افغانستان پر حملے کے بعد یوں تو امریکا کا ساتھ دینے پر پوری قوم میں غم و غصہ تھا اور کوئی اختلاف موجود نہ تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ پرچم ایک مسلک کے لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ 2007 میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے آپریشن نے اس میں خودکش حملوں اور تحریک طالبان کا اضافہ کیا۔ اس مسلک کے لوگوں کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں اور ملک میں جہاں بھی آپریشن ہوا اس کار خ اسی جانب تھا۔ ایسے میں دوسرے تمام گروہ امریکی حمایت میں دیوانے سیکولرز کے محبوب تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا مشہور فتویٰ ہر جگہ حوالے کے طور پر دیا جاتا‘ سنی اتحاد کونسل طالبان پر گرجتی برستی اور مجلس وحدت المسلمین دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ان کی اتحادی بنی رہی۔ ایک ایسی صورت حال جو سالوں قائم رہی۔ امریکا نے افغانستان سے جانے کا قصد کیا تو تکریت کی طرح یہاں بھی آپریشن شروع ہو گئے۔ لیکن اب جس خوفناک منظر نامے کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں وہ ریاستی طاقت کا استعمال ہے۔ جو طاہر القادری‘ سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کے خلاف استعمال سے پیدا ہوگا۔
کوئی بھی سانحہ ان گروہوں کو عراق کی طرح چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ ابھی تو صرف گیارہ لاشیں گری ہیں‘ یہ تعداد بڑھی تو پھر لوگ رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ انتقام ان کی آنکھوں میں خون بھر دیتا ہے۔ ایک جانب پورے ملک میں طالبان اور ان کے ہم مسلک وہ لوگ ہوں گے جو آپریشن کے زخم خوردہ ہیں اور دوسری جانب دوسرے مسلک کے موجودہ صورت میں لاشیں اٹھائے گروہ۔
جب گروہ چھوٹے ہو جائیں اور پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں اور اگر ان میں مسلک کا اختلاف اور ظلم کے خلاف غصہ بھی ہو تو ان تک اسلحہ بہت آسانی سے پہنچ سکتا ہے‘ اگر پاکستانی ریاست کو اس کا علم نہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے۔ پورے ملک میں پولیس‘ رینجرز اور دیگر اداروں کے افراد کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ اس تعداد کو پورے ملک پر پھیلا دیں اور پھر سوچیں کہ ہم کس بھیانک منظر نامے کا بیج بونے جا رہے ہیں۔ کسی نے کبھی سوچا تھا کہ ایک صوفی گھرانے کا مرنجان مرنج پروفیسر ابوبکر البغدادی بھی بن سکتا ہے۔
تحریکیں زور کیسے پکڑتی ہیں
اوریا مقبول جان اتوار 10 اگست 2014
دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جس میں مختلف اوقات پر زور دار تحریکیں نہ چلی ہوں اور انھوں نے حالات کا رخ نہ بدلا ہو۔ ہر ملک کے عوام کے مزاج، ماحول اور اقتدار کی مسند پر متمکن حکمرانوں کے رویے کے ردعمل کے نتیجے میں تحریکیوں کا مزاج بھی بدلتا رہا ہے۔
لیکن آج یہ تصور بہت زور شور سے پیش کیا جاتا ہے کہ تحریکیں، انقلاب اور انارکی صرف اور صرف ڈکٹیٹر شپ میں جنم لیتی ہیں اور کسی بھی ملک میں اگر جمہوری طور پر الیکشن ہوتے رہیں، نظام کا ایک تسلسل قائم رہے تو یہ ملک کو پرامن رکھنے اور فساد سے پاک بنانے کی ضمانت ہوتا ہے۔
جمہوری حکمرانوں کا رویہ، مزاج اور طرز حکومت جیسا بھی ہو، لوگ ان کے خلاف بغاوت کے لیے آمادہ نہیں ہوتے، وہاں کوئی تحریک منظم نہیں ہوپاتی، ان ملکوں میں عوامی غیظ و غضب کسی تبدیلی یا انقلاب کا ذریعہ نہیں بنتا۔ اس تجزیے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تاریخی طور پر دنیا میں امن اسی وقت قائم ہوا، انسان نے سکون اور اطمینان کی شکل صرف اسی دور میں دیکھی جب دنیا نے حکمرانی کے لیے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔ ورنہ اس سے پہلے تو اس دنیا میں چین تھا نہ اطمینان، بس ایک غلامانہ زندگی تھی۔
یہ دنیا ہزاروں سال سے آباد ہے اور اس کی معلوم تاریخ پانچ ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن اس میں جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے تصور کی عمر صرف دو سو سال کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان دو سو سالوں میں پہلے سو سال تو جمہوریت نام کی چڑیا کے ابھی پر بھی نہیں نکلے تھے۔ جہاں تک ایک شخص ایک ووٹ کا تصور ہے اس کی تاریخ بھی اتنی پرانی نہیں ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق 1920ء کے لگ بھگ ملنا شروع ہوا اور سوئٹزر لینڈ میں تو خواتین کو ووٹ دینے کا اختیار 1973ء میں ملا۔ یعنی اس معاملے میں پاکستان ان سے تین سال آگے تھا۔
ہم 1970ء میں ایک فرد ایک ووٹ کے تصور پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کروا کر 1971ء میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے تھے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ بادشاہوں اور آمروں کے زمانے میں بھی لوگ چین کی بنسی بجاتے رہے اور جمہوری طور پر منتخب حکمرانوں کے زمانے میں بھی تحریکیں جنم لیتی رہیں، تبدیلیاں آتی رہیں، بحران کی کیفیت اور انارکی پھیلتی رہی۔
دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت برطانیہ میں ایک ایسی تحریک چلی تھی جس کے نتیجے میں لوگوں نے ایک عوامی عدالت لگائی اور 30 جنوری 1649ء میں اپنے بادشاہ چارلس اول کا سرگیلوٹین کے تیز دھار چھرے سے کاٹ دیا۔ اس وقت برطانیہ میں الیکشن بھی ہوتے تھے اور پارلیمنٹ بھی موجود تھی۔ اس کے برعکس اسی دور میں دنیا کے اکثر ممالک بادشاہتوں کے زیر اثر تھے مگر وہاں چند ایک ممالک کو چھوڑ کر کہیں کوئی بدامنی، انارکی یا تحریکی صورت حال نظر نہیں آتی۔
دنیا بھر کی لائبریریوں میں ایسی ہزاروں کتابیں اور لاکھوں تحقیقیں موجود ہیںجو کسی علاقے، ملک یا قوم میں تحریکوں کے پس منظر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ ان سب میں ایک بات پر اتفاق پایا جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو تحریکیوں کے جنم لینے کی اصل وجہ بنتا ہے۔ اس نکتے کودنیا میں کہانی کہنے، سنانے اور لکھنے والوں نے کس خوبصورتی سے چند لائنوں میں سمیٹا ہے۔
دنیا کے کسی ملک کی کہانی اٹھالیں‘ اس میں اس طرح کے فقرے مشترک ملیں گے ’’ایک تھا بادشاہ، اس کے دور میں رعایا خوشحال، شہر پر امن اور حالات پر سکون تھے، اس لیے کہ وہ اس قدر منصف مزاج تھا کہ اس کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘ جب کہ اس کے برعکس کسی ظالم بادشاہ کو اس طرح بیان کریں گے کہ ’’بادشاہ ظالم تھا اس کے دور میں انصاف نام کو بھی نہ تھا۔ اس کے اہل کار لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے تھے اور لوگوں کی زندگی عذاب تھی‘‘۔
پر سکون اور مطمئن رعایا ایک ایسا میدانی دریا ہوتی ہے جو انتہائی اطمینان کے ساتھ زمین کے سینے پر اپنا سفر جاری رکھتی ہے جب کہ ایک غیر مطمئن اور ظلم سے تنگ عوام کا حال پہاڑی ندی نالوں کی طرح ہوتا ہے جو ہر پتھر سے سر ٹکراتا، شور مچاتا بہتا چلا جاتا ہے۔ تحریکوں اور انارکی کے بڑے بڑے تجزیہ کار اور مفکر کسی ایسے معاشرے کی مثال ایک آتش فشاں کی طرح ہیں جس کے اندر لاوا جوش مار رہا ہوتا ہے لیکن اس کے دہانے پر موت کا سا سکوت ہوتا ہے۔
دوسری مثال وہ Tipping پوائنٹ کی دیتے ہیں جسے ایک گدھے سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ آپ اس پر لکڑیاں لادتے جاتے ہیں۔ وہ برداشت کرتا رہتا ہے، کئی من لکڑیوں کے باوجود بھی وہ کھڑا رہتا ہے لیکن پھر اچانک ایک لکڑی آپ رکھتے ہیں تو وہ ہربڑا کر بوجھ نیچے گرا دیتا ہے۔ ہر وہ معاشرہ جس میں لوگ مر مر کر زندگی گزار رہے ہوں، انھیں ضروریات زندگی تک میسر نہ ہوں، ان پر انصاف کے دروازے بند کردیے جائیں، چند گروہ ان کو لاٹھیوں سے ہانکتے رہیں تو اس معاشرے میں کسی بھی تحریک کا مواد اور میٹریل کثرت سے موجود ہوتا ہے۔
یہ وہ غم و غصہ ہوتا ہے جس کا اظہار لوگ گھروں، دفتروں اور نجی محفلوں میں کرتے ہیں لیکن انھیں سمجھ نہیں آتی کہ ان کا یہ غصہ اور غضب کیسے حکمرانوں تک پہنچے۔ کبھی بجلی، پانی یا گیس بند ہونے پر سڑک پر نکل آتے ہیں، کبھی اپنے بے گناہ مقتول کی لاش اٹھا کر کسی ایوان کے سامنے دھرنا دیتے ہیں اور کبھی ناانصافی کے خلاف کسی پریس کلب یا شارع عام پر پلے کارڈ لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک عادل اور منصف مزاج حکمران جسے سیاسی بصیرت بھی حاصل ہو وہ فوری طور پر اس غم و غصہ کے ازالے کی طرف توجہ دیتا ہے تاکہ اس غبارے میں ہوا نہ بھرنے پائے جب کہ سیاسی بصیرت سے عاری حکمران بہانہ بازیوں سے ٹالتا رہتا ہے‘ ان سب کو سازشی عناصر قرار دیتا ہے اور جمہوریت نے تو ان کو ایک اور لفظ سکھا دیا ہے کہ ’’یہ سسٹم کو پٹڑی سے اکھاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘۔
صدیوں سے لوگوں پر حکمران رہنے والے بادشاہ اور بدترین آمر بھی اس حقیقت کو جانتے تھے کہ ایک غیر مطمئن رعایا پر حکومت نہیں کی جاسکتی‘ وہ ہر حال میں اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے‘ کیونکہ انھیں دوسرے بادشاہ کے حملے کا خوف ہوتا تھا کہ اگر ایسے وقت میں قوم ان کے ساتھ نہ ہوئی تو شکست یقینی ہے۔ آمروں اور ڈکٹیٹروں کو بھی اس کا ارداک ہوتا ہے اور جس کو نہیں ہوتا وہ عبرت کی مثال بن جاتا ہے۔
جب انقلاب فرانس آیا تو انگلستان کی معاشی غربت فرانس سے بدتر تھی۔ لوگ غربت کا شکار تھے لیکن وہاں فرانس کی طرح کوئی یہ کہہ کر تمسخر اڑانے والا نہیں تھا کہ ‘‘ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے‘ یا پھر گھاس بہت ہے جاؤ اور کھاؤ‘‘ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے یہ کہا تھا‘ لوگوں نے پہلے اس کے منہ میں گھاس بھری اور پھر اس کی گردن تن سے جدا کر دی۔ یہی فضا ہوتی ہے جس میں کوئی بھی نعرہ‘ کوئی بھی آواز جو حکمرانوں کے خلاف بلند ہوتی ہے وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ لیتی ہے۔ کسی کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ کونسا نعرہ بلند ہو رہا ہے یا کون اس کی قیادت کر رہا ہے۔
وہ تو اپنا اپنا غصہ اور اپنی اپنی نفرت لے کر ساتھ چل پڑتے ہیں۔ کسی کو پولیس نے تنگ کیا ہوتا ہے‘ کسی کی زمین پٹواری نے ہضم کی ہوتی ہے‘ کسی کو میرٹ سے انکار پر نوکری نہیں ملی ہوتی‘ کوئی سیاسی گروہوں کے ظلم سے تنگ ہوتا ہے‘ کسی کے باپ یا بیٹے نے خود کشی کی ہوتی اورکوئی رات بھر بھوک‘ بیماری اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے لڑ کر آیا ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہر اس گروہ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں جو حکومت اور سرکار کے مقابل آکر کھڑا ہو جائے۔ انھیں نہ جمہوریت کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی شریعت کا‘ وہ نہ مزدور کے حقوق کے لیے کمیونزم چاہتے اور نہ ہی شفاف انتخابات‘ ان کا غصہ اجتماعی نفسیات بن جاتا ہے۔
قوموں کی یہ اجتماعی نفسیات آج دنیا کے ماہرین کا سب سے بڑا موضوع ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قومی غصے کی اجتماعی نفسیات حکمرانوں کے زوال کا باعث اس وقت بنتی ہے جب وہ ریاستی طاقت سے اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پہاڑی ندی نالے کی طرح شور مچاتے عوام حکومتی طاقت سے سر ٹکراتے ہیں اور پھر یوں بپھرتے ہیں کہ دامن میں آباد ہر بستی کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ دانا لوگ ان شوریدہ سر نالوں پر بند نہیں باندھتے‘ گزرنے دیتے ہیں لیکن نادان اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کو بدترین انجام تک لے جاتے ہیں۔
نوٹ: موصوف کالم نگار کے میرے ذات کے بارے میں سوالات کا میں جواب نہیں دینا چاہتا تھا لیکن انھوں نے پھر معاملہ چھیڑا ہے اور اب چونکہ معاملہ سود کا ہے اس لیے عرض کردوں کہ سود جی پی فنڈ پر ملتا ہے اور میں نے آج سے 25 سال قبل لکھ کر دے دیا تھا کہ میرے جی پی فنڈ پر سود نہ ڈالا جائے۔ اب مجھے ریٹائرمنٹ پر مبلغ آٹھ لاکھ روپے ملیں گے لیکن اگر سود لیتا تو 39 لاکھ کے قریب ملتے۔ میرا ریکارڈ اکاؤٹنٹ جنرل کے دفتر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک اس کار ساز کمپنی کا تعلق ہے وہ جاپان کی ایک غیر مسلم کمپنی ہے جسے سود کی حرمت کی کسوٹی پر رکھ کر نہیں رکھا جاتا۔
میں نے مثال یہ دی تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی نے یہ ثابت کر دیا کہ بینکاری سود کے بغیر پچاس سال سے ایک کمپنی چلائی جا سکتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے سود کے دفاع کرنے والوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ انھیں اگر اللہ کے بتائے گئے اصولوں پر کامیابی نظر آ جائے تو ان کے دل جل اٹھتے ہیں۔ وہ پیچ و تاب کھاتے ہیں کہ کہیں سے کوئی برائی نکالو تاکہ اللہ کے بتائے اس اصول کا تمسخر اڑایا جا سکے۔ اللہ انھیں خیر دیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کالم نگار کے لیے ہدایت کی دعا کے ساتھ
اوریا مقبول جان جمعـء 8 اگست 2014
پاک ہے میرا اللہ جو دلوں میں چھپی سچائیوں اور جھوٹ کو جانتا ہے، اور سچا ہے اس کا کلام جو سود کی حمایت کرنے والوں کی ذہنی حالت کو بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ انھیں شیطان نے چھو کر بائولا کر دیا ہے (البقرہ)۔ اس سچے کلام پر ایمان لانے کے بعد مجھے قطعاً حیرت نہ ہوئی جب سود کے موضوع پر ’’زیورچ‘‘ شہر پر لکھے گئے ایک کالم نگار کے کالم پر میں نے خالصتاً علمی بنیاد پر بحث کی، تو جواب میں میری ذات پر کیچڑ اچھالا گیا۔ میں اپنی ذات کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دونگا کہ میرے سامنے سیّدنا علیؓ کا وہ اسوہ ہے کہ ایک معرکے میں آپ ایک کافر کو زیر کر کے اس کی چھاتی پر چڑھ گئے۔
قریب تھا کہ اس کی گردن اڑا دیتے، مگر اس نے ان کے چہرے پر تھوک دیا۔ آپ فوراً نیچے اتر آئے۔ کافر نے پوچھا کہ آپ نے مجھے قتل کیوں نہ کیا، تو جواب دیا کہ اگر اب میں تمہیں قتل کرتا تو اس میں میرا ذاتی انتقام بھی شامل ہو جاتا اور میں اس لڑائی کو اللہ کے لیے خاص رکھنا چاہتا ہوں۔ میں بھی اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان کردہ سود کے خلاف جنگ میں ذاتی انتقام کو شامل نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اس کالم میں اٹھائے گئے چند علمی طور پر بحث طلب نکات کا جواب دینا چاہتا ہوں تا کہ خلقِ خدا گمراہی سے بچ سکے۔
موصوف نے تحریر کیا ہے کہ کالم میں انھوں نے بینکاری سود کے بارے میں جامعہ الازہر کے فتوے کا ذکر کیا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ شیطان جب کسی کو چھو جائے تو یادداشت بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ موصوف کے جس کالم ’’زیورچ‘‘ کا جواب دیا گیا وہ مورخہ13جولائی 2014ء کو چھپا تھا اور اس میں اس فتوے کا دور دور تک ذکر نہیں۔ البتہ آج سے دو سال قبل جب موصوف نے سود کی کھلم کھلا حمایت میں کالموں کا آغاز کیا تو کسی کالم میں اس فتوے کا ذکر کیا تھا۔ جس کا صراحتاً جواب میں نے دیا تھا اور ان سے فون پر بھی اس کے عربی متن کے حوالے سے گفتگو بھی کی تھی، تا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اصل منشا واضح کر سکوں۔
یہ فتویٰ ہے کیا؟ کس نے تحریر کیا؟ اس کے مقاصد کیا تھے اور اس کو دنیا بھر کے تمام علما جن میں ہر مسلک کے عالم شامل تھے انھوں نے کیسے مسترد کیا۔ ان تمام سوالوں کا جواب حاضر ہے۔ یہ جواب کسی ویب سائٹ کے لنک سے حاصل مواد سے نہیں بلکہ اصل عربی متن کے مقالہ سے دیا جا رہا ہے۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر محمد سید طنطاوی کا جاری کردہ ہے۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر صاحب نے1989ء میں تحریر کیا تھا جب ان کا الازہر سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔
انھوں نے ایم اے آنرز کی ڈگری تعلیم کے شعبہ میں حاصل کی اور پی ایچ ڈی کا مقالہ بنی اسرائیل پر تحریر کیا۔ اسی تعلیم کی بنیاد پر مصر کی حکومت نے انھیں ایک سرکاری عہدے ’’مفتی اعظم‘‘ کی نشست پر1986ء میں بٹھا دیا۔1989ء میں مصر میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی ایک زور دار تحریک شروع ہوئی اور مغربی طرزِ سودی بینکاری کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑا تو حکومت نے طنطاوی کو فتویٰ جاری کرنے کے لیے کہا۔ جس پر انھوں نے ایک گول مول سا فتویٰ جاری کیا جس میں صرف حکومت کے سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکاؤنٹ کے منافع کو جائز قرار دیا گیا مگر بینکوں کے قرضوں پر وصول کی جانے والی رقم کو سود ہی قرار دیا۔
اپنے اسی فتوے کی تشریح میں طنطاوی نے2001ء میں ایک کتاب ’’معاملات البنوک‘‘ لکھی جس کے صفحہ139 سے 142 تک انھوں نے بینک کے قرضوں اور بینکوں کے ڈیپازٹ پر بھی ہر قسم کے منافع کو حرام اور رباء (سود) قرار دیا۔ ان کے اس فتوے کو مصر میں بھی کوئی پذیرائی نہ مل سکی اس لیے کہ علامہ یوسف القرضاوی کی سربراہی میں تمام علماء نے اسے مضبوط دلائل کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ اور ان تمام علماء نے بینکوں کے ہر قسم کے منافع کو سود قرار دیا۔ مصر کی حکومت کی حالت بھی پاکستان کی طرح رہی کہ کسی جانب مت جھکو، بس خاموشی سے سودی نظامِ بینکاری کو چلنے دو۔
ڈاکٹر طنطاوی کو اپنے انھی خیالات کے انعام میں حسنی مبارک نے ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے27 مارچ1997ء کو الازہر کا سربراہ ’’الامام اکبر‘‘ مقرر کر دیا۔ اس مسند پر انھوں نے28 نومبر2002ء کو الامام اکبر کی حیثیت سے کالم نگار کا محبوب فتویٰ جاری کیا۔ فتویٰ چار صفحات پر مشتمل ہے اور صر ف سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکائونٹ سے متعلق ہے۔ فتوے میں کہا گیا ہے کہ اگر دو افراد یا دو گروہ ایک پہلے سے طے شدہ منافع کی شرح پر متفق ہو جائیں تو یہ شرعاً حلال ہے کیونکہ منافع کی شرح حالات کے مطابق گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
فتویٰ میں مصر کے حکومتی سیکیورٹی بانڈ کی مثال دی گئی جو پہلے 4 فیصد منافع دیتے تھے پھر15 فیصد دینے لگے اور اب10 فیصد دے رہے ہیں۔ اس فتوے میں کسی قسم کے نقصان میں شراکت کا ذکر تک نہیں۔ اور بینکاری کی بھی کسی اور قسم کو حلال نہیں بتایا گیا۔ عربی متن یوں ہے (وممالاشک فیہ ان تراضی الطرفین علی تحدید الربح مقدمامن الامور المقبولۃ شرعا و عقلا حتی یعرف کل طرف حقہ)۔ اس کا ترجمہ جناب کالم نگار اپنے کسی بھی سیکولر، لادین اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا مذاق اڑانے والوں سے ہی کروالیں۔
یہ سب لوگ آجکل موصوف کے کالم بڑے شوق سے حوالوں کے طور پر نیٹ پر پیش کرتے ہیں، اور انھیں سودی بینکاری کا مبلغ ثابت کرتے ہیں۔ انھیں کہیں بھی اس فتوے میں بینک کا سود حلال نہیں ملے گا۔ یہ سب الگ بات ہے کہ اس ذریعے سے جو تھوڑی سی گنجائش طنطاوی صاحب نے نکالی ہے، اللہ کے رسول نے اس کی بھی نفی کی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا‘‘ ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے وہ رباء (سود) ہے۔ (ییقہی، مسند حارث بن اسامہ) طنطاوی نے صرف حکومتی بانڈز اور سیونگ اکائونٹ پر منافع وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے۔
البتہ باقی تمام بینکاری کو وہ کلیتہ حرام تصور کرتے ہیں ان کی کتاب ’’معاملات البنوک‘اس پر واضح ہے۔ لیکن فتوے میں دی گئی رعایت کو بھی پوری امت کے علماء نے مسترد کیا ہے۔ یہ طنطاوی وہی ہیں جنہوں اسقاطِ حمل کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔ اکتوبر 2009ء میں طنطاوی قاہرہ کے نصر کے علاقے میں لڑکیوں کے ایک اسکول گئے اور نوجوان لڑکیوں کو حجاب اتارنے کا حکم دیا اور کہا کہ تمہیں زندگی بھر حجاب پہننے کی شرعاً ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دس مارچ2010ء میں ان کا انتقال ہوا تو تعزیت کرنے والوں میں بارک اوباما، پوپ اور ہلیری کلنٹن شامل تھے۔
موصوف کالم نگار نے دوسرا معاملہ کار ساز کمپنی کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرنے اور سود کی پر زور حمایت میں اٹھایا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی میں اپنے27 جنوری 2014ء کے کالم بعنوان ’’سود ایک کا، لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات‘‘ میں تفصیلاً دے چکا ہوں۔ کار ساز کمپنی کے بانی نے بینکوں سے قرضہ لے کر کاروبار کرنے سے انکار کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک کمپنی صرف دو فیصد حصے اپنے پاس رکھ کر لوگوں میں نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت کرتے ہوئے ان سے انوسٹمنٹ مانگتی ہے۔
اس خالصتاً غیر سودی کاروبار میں لوگوں نے بھی سرمایہ لگایا ہے فنانس کمپنیاں بھی لگاتی ہیں کیونکہ کمپنی کی ساکھ مضبوط ہے۔ اس کمپنی کی موجودہ مالیت 120 ارب ڈالر ہے جس میں مالک خاندان کا حصہ صرف2.2 ارب ڈالر ہے۔ اس کمپنی (Tandoku) کی بیلنس شیٹ میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں کہ انھوں نے کسی بینک سے سود پر قرضہ لیا ہو۔ البتہ کمپنی کے پاس اگر انوسٹمنٹ زیادہ آ جائے تو وہ اسے بینک میں رکھتی ہے جس پر اسے سود مل جاتا ہے۔ لیکن یہ پورے کاروبار کا ایک فیصد ہے۔ مختلف فنانس کمپنیاں کار ساز کمپنی کے حصص خریدتی ہیں اور کمپنی کے منافع میں سے حصہ لیتی ہے۔
یہ تو خالصتاً ایک غیر سودی کاروبار ہے۔ اگر کوئی اپنی سود یا کسی اور ناجائز کاروبار سے کمائی رقم یہاں لگاتا ہے تو اس سے کیا یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کار ساز کمپنی سودی کاروبار کر رہی ہے۔ مگر کیا کیا جائے سود کی وکالت کرنے والوں کے بارے میں اللہ نے قرآن میں کتنی وضاحت سے ان کی نفسیاتی حالت کی تصویر کشی کر دی ہے۔ تیسرا نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ میں لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں تو یہ سنت تو انبیاء کی ہے۔
قرآن پاک میں بار بار منکرین کا ذکر ہے جو اللہ سے ڈرانے کا تمسخر اڑاتے تھے اور اسے جھوٹ کا کاروبار کہتے تھے، جیسے موصوف کالم نگار نے مجھے کہا ہے۔ تمام پیغمبر یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کو بس ایک جواب دیتے جو قرآن پاک میں درج ہے۔ ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ بتائو کب آئے گی وہ گھڑی جس کا وعدہ ہے، ان سے کہہ دو، اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے اور میں تو بس صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں‘‘ (الملک26)۔
میں نے اپنے ہر کالم میں لکھا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے لیکن خبردار کرنا ہماری سب کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ جھوٹ کا کاروبار ہے تو مشرکین مکہ بھی اسے جھوٹ کا کاروبار ہی کہتے تھے اور وہ بھی یہی پوچھتے تھے کہ کب آئے گا وہ عذاب۔ میں ایک کم علم گناہ گار، کم مایہ اور بے وقعت شخص ہوں لیکن میرے اللہ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے سود کے خلاف اس جنگ میں حصہ بننے کی توفیق عطا کی جس کا اعلان اللہ اور اس کے رسول نے کیا ہے۔ جب کہ موصوف کالم نگار جس صف میں کھڑے ہیں ان کے لیے میں صرف ہدایت کی دعا کر سکتا ہوں۔ جو میں دل کی انتہائی گہرائیوں سے کر رہا ہوں۔
دنیا کے دو خیموں میں بٹنے کا وقت
اوریا مقبول جان اتوار 3 اگست 2014
جو لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری ایک اچانک عمل ہے اور یہ چند دنوں تک جاری رہے گا اور پھر عالمی طاقتیں بیچ بچائو کروا دیں گی۔ اس دوران غزہ کے مسلمانوں کو کافی سبق سکھایا جا چکا ہو گا۔ ایسے افراد کو ایک دفعہ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران یہودی دانشوروں‘ سیاستدانوں اور خصوصاً صیہونی لٹریچر کا مطالعہ کر لینا چاہیے جو ان سالوں میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے شایع ہوتا رہا ہے۔ جن ’’عظیم‘‘ دانشوروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اسرائیل دنیا میں موجود قومی ریاستوں کی طرح کی ایک ریاست ہے جس کی متعین حدود ہیں‘ اقتدار اعلیٰ ہے‘ جمہوری حکومت ہے تو انھیں بھی اس خوش فہمی کو دل سے نکال دینا چاہیے۔
یہودی دنیا بھر کے ممالک میں اگرچہ مطعون تھے‘ دو ہزار سال سے در بدر تھے‘ انھیں شدید نفرت کا سامنا تھا‘ اس کے باوجود وہ دنیا کے کاروبار‘ بینکاری اور میڈیا پر انیسویں صدی کے آخر تک چھا چکے تھے۔ اسپین میں ازابیلا اور فرڈنینڈ کی حکومت آنے پر یہودیوں کو خلافت عثمانیہ کے علاقوں میں امان بھی مل چکی تھی اور یورپ سے امریکا ہجرت کرنے والوں میں جہاں ہر ملک کے بدنام زمانہ لوگ شامل تھے وہیں کثیر تعداد میں یہودی تھے جنہوں نے جنگ عظیم اول سے پہلے ہی امریکی اقتدار کو اپنے شکنجے میں لے لیا تھا۔
1896ء میں جب صیہونیت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے مشہور زمانہ پروٹوکولز لکھے گئے تو وہ تاج برطانیہ جو یہودی سودی سرمائے کا مقروض تھا اس نے انھیں ایک قوم تصور کرتے ہوئے بالفور ڈیکلریشن 1916ء میں جاری کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیوں کو پوری دنیا میں کوئی جائے پناہ میسر نہ تھی۔ تمام اتحادی ممالک اور امریکا کے دروازے ان کے لیے کھلے تھے۔ پھر وہ حیفہ اور تل ابیب جیسے بے آب و گیاہ علاقے میں کیونکر آباد ہوئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تو یورپ میں بھی ان کا غلبہ ہو چکا تھا۔ ان کے خلاف گفتگو کرنا بھی قابل سزا جرم بن چکا تھا۔ پھر وہ یورپ کے ’’جنت نظیر‘‘ اور پر امن ممالک کو چھوڑ کر ایک ایسے ملک میں کیوں آباد ہو گئے جہاں انھیں چاروں جانب سے دشمنوں کا سامنا تھا۔ انھیں اپنے دفاع کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑیں، حفاظت کے لیے اونچی اونچی دیواریں بنانا پڑیں، پوری قوم کو لازمی فوجی تربیت دینا پڑے۔
قومی ریاست کے تصور کے علمبردار اور سیکولر نظریے کے داعی اس سوال کا جواب نہیں دیتے۔ اس لیے کہ اس کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ یہودی ایک آخری عالمی جنگ کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ایسی جنگ کے نتیجے میں ان کے مذہبی ربیئوں کے نزدیک فتح نصیب ہوگی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح کی عالمی حکمران حکومت قائم ہونی ہے جسے وہ Ruling state of the world کہتے ہیں۔
پوری دنیا کے یہودی اس جنگ کے لیے وسائل مہیا کرتے ہیں اور متحد ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی یہ جنگ مسلمانوں سے ہونا ہے۔ گزشتہ پندرہ سال سے یہودی مفکرین‘ مذہبی رہنما‘ یہاں تک کہ ان کے اہل تصوف بھی بار بار یہ تحریر کر رہے تھے کہ 2014ء اور 2015ء میں لگنے والے چار مکمل چاند گرہن اس وقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دنیا کا ہیڈ کوارٹر اب امریکا سے اسرائیل منتقل ہونا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں انھوں نے ایک مستقل منصوبہ بندی کے ساتھ امریکا اور اس کے حواریوں سے اپنے لیے راہ ہموار کروائی۔
عراق کی طاقت کا خاتمہ‘ عرب بہار کے نتیجے میں مسلم امہ میں انتشار جس کا نتیجہ یہ کہ مصر میں اخوان حکومتی تشدد کا شکار‘ حزب اللہ شام اور عراق میں اپنے ہی مسلمانوں کے خلاف لڑتی ہوئی‘ ایران جو آواز اٹھاتا تھا وہ سعودی عرب سے کشمکش اور داعش کے خطرے کی وجہ سے عراق میں الجھا ہوا‘ سعودی عرب اور عرب ریاستیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کی دست نگر‘ ایسے میں یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں نے اپنی پیش گوئیوں اور منصوبہ بندی کے مطابق جنگ کا آغاز کر دیا۔ اب کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ جنگ انجام سے پہلے ختم کردی جائے گی۔
لیکن کیا مسلم امہ نے کبھی غور کیا کہ یہی وقت ہے جس کی بشارت سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے دی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں۔ اس لڑائی میں مسلمان یہودیوں کو قتل کردیں گے‘ یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائیں گے تو پتھر اور درخت یوں کہے گا۔ ’’اے مسلمان اللہ کے بندے ادھر آ میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے اس کو مار ڈال۔ مگر غرقد نہیں کہے گا کیوں کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔ (مسلم)۔ اسے دنیا بھر میں JEW TREE کہا جاتا ہے اور اسرائیل میں اس کی سب سے زیادہ شجرکاری کی گئی ہے۔
دنیا بھر سے یہودی اسرائیل کی سرزمین پر پکنک منانے یا کسی معاشی فائدے کے لیے جمع نہیں ہوئے بلکہ اس جنگ کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کے بعد ان کے بقول ایک ایسی حکومت قائم ہونی ہے جو عالمی سپر پاور کی حیثیت رکھتی ہو۔ وہ اپنی کتاب ایزاخیل کی اس پیش گوئی پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’اے صہیون کی بیٹی خوشی سے چلاو‘ اے یروشلم کی بیٹی مسرت سے چیخو‘ دیکھو تمہارا بادشاہ آ رہا ہے۔ وہ عادل ہے اور گدھے پر سوار ہے۔ خچر یا گدھی کے بچے پر۔ میں یو فریم سے گاڑی کو اور یروشلم سے گھوڑے کو علیحدہ کر دونگا۔ جنگ کے پر توڑ دیے جائیں گے۔ اس کی حکمرانی سمندر اور دریا سے زمین تک ہوگی۔ (زکریا9:9-10) اسی کتاب میں لکھا ہے’’اس طرح اسرائیل کی ساری قوموں کو ساری دنیا سے جمع کرونگا‘ چاہے وہ جہاں کہیں بھی جا بسے ہوں اور انھیں ان کی اپنی سرزمین میں جمع کرونگا، میں انھیں اس سرزمین میں ایک ہی قوم کی شکل دے دونگا‘ اسرائیل کی پہاڑی پر جہاں ایک ہی بادشاہ ان پر حکومت کرے گا۔ (ایزاخیل‘ 37:21-22)
انہی بشارتوں کے مکمل ہونے کے لیے وہ اس سرزمین پر جمع ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا حال بھی ویسا ہے جیسا آج ہمارے مسلمانوں کا ہے۔ اپنی مرضی کی آیت اٹھا کر اسے مکمل سمجھ لیتے ہیں۔ اسی کتاب ایزاخیل میں اس آخری جنگ کا وہی انجام درج ہے جو سید الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ایزاخیل کے 22 ویں باب میں لکھا ہے ’’پھر ایلی کہتا ہے کہ کیونکہ تم لوگ میرے نزدیک کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہو۔ اس لیے تمہیں یروشلم میں جمع کرونگا جیسے سونا‘ چاندی‘ ٹن‘ لوہا اور کانسی کو آگ میں ڈالنے کے لیے جمع کرتے ہیں، اس طرح میں بھی تمہیں غصے اور غضب کے درمیان جمع کرونگا اور پھر تمہیں پگھلا دوں گا۔ میں تم پر اپنے غضب کی آگ بھڑکا دونگا اور تم پگھل جاؤ گے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر اپنا غضب نازل کیا ہے۔ (22:19-22)
لیکن ان کی کتاب جرمیاہ (Jeramiah) میں تو اس آخری معرکے کے اختتام کا منظر ہولناک ہے۔ ’’ان کی تباہی اور سزا کے اعلان کے بعد جس کے بعد ان کی لاشیں کھلے آسمان تلے ڈال دی جائیں گی‘ جہاں گدھ اور کیڑے مکوڑے ان کو کھالیں گے حتی کہ ان کے بادشاہوں اور لیڈروں کی ہڈیاں بھی گل جائیں گی اور زمین میں کوڑے کرکٹ کی طرح پھیل جائیں گی‘‘۔ (8:3) لیکن کیا مسلم امہ اور خصوصاً عرب دنیا کو اس کا اندازہ ہے۔
اسرائیل جس جنگ کے لیے سات دہائیاں قبل قائم کیا گیا‘ جس کی تیاری پوری یہودی قوم 1896ء سے کر رہی ہے ہمیں اس کا احساس نہیں۔ ہم خصوصاً عرب اقوام ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہیں جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک ایسا فتنہ ظاہر ہوگا جو سب عربوں کو لپیٹ میں لے لے گا۔ اس فتنے میں قتل ہونے والے جہنم میں جائیں گے۔ اس فتنے میں زبان کی کاٹ تلوار سے زیادہ ہوگی۔‘‘ (مسند احمد‘ ابی داؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ) کیا اس لمحے جب اسرائیل نے اپنی جنگ کا آغاز کردیا ہے‘ وہ سب لوگ جو مسالک کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو زبان کی کاٹ سے حکومتوں کی گدیوں پر بیٹھے یا منبروں پر براجمان امت کے گروہوں کو لڑنے پر اکسا رہے ہیں کیا ان کے سامنے سید الانبیاءﷺ کی جہنم کی وعید موجود نہیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ’’عرب کی تباہی‘‘۔ ابھی تو شامت اعمال کے دن ہیں کہ اس اندرونی فتنے سے جو بچ نکلے گا وہی ہو گا جس کے ہاتھ میں اللہ کی نصرت کا پرچم ہو گا۔ یہ بڑی جنگ جس کے آخر میں دجال کا ظہور ہو گا اس سے پہلے دنیا دو خیموں میں بٹ جائے گی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے‘ ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہو گا دوسرا منافقین کا خیمہ جن میں بالکل ایمان نہیں ہو گا۔ جب ایسا ہو تو دجال کا انتظار کرو کہ آج آئے یا کل‘‘۔ (ابوداؤد‘ مستدرک) ابتلا کا دور ہے‘ شامت اعمال ہے‘ صفائی کا موسم ہے‘ دنیا دو خیموں میں بٹنے کے نزدیک ہے۔
ہر کوئی سانحے کے انتظار میں ہے
اوریا مقبول جان اتوار 24 اگست 2014
برصغیر پاک و ہند میں انگریز نے جب اقتدار کو طول دینے کے لیے ایک نام نہاد جمہوری نظام تخلیق کیا تو اس نے مراعات‘ سرکاری عہدوں اور علاقائی اختیارات دے کر اپنے ایسے وفادار گھرانے‘ گروہ اور قبیلے پیدا کیے اور پھر ان کے ہاتھ میں تاج برطانیہ کے وفادار جمہوری نظام کی باگ ڈور دے دی گئی۔ یہ گھرانے صرف سیاسی اقتدار میں شریک نہ تھے بلکہ اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں اور مقتدر فوجی جرنیلوں تک انھی گھرانوں کے لوگوں کو نوازا گیا۔ افواج میں کمیشن سے لے کر آنریری مجسٹریٹ تک ہر جگہ انگریز سرکار سے وفادار خاندانی حسب نسب اور خون کو اہمیت دی جاتی تھی۔
انھی مراعات یافتہ طبقات کو انگریز حکمرانی کے گر سکھانے اور انگریزی طرز زندگی کے رنگ میں رنگنے کے لیے چیف کالج جیسے ادارے قائم ہوئے‘ جہاں نسل در نسل ان خاندانوں کی اولادیں تربیت حاصل کرتیں۔ کچھ سیاست کے میدان کے شہسوار بن جاتے تو کوئی اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ اور کیمبرج چلے جاتے اور واپسی پر سول سروس کے امتحان کا دروازہ انھیں بیورو کریسی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچا دیتا۔ عام آدمی کی واجبی تعلیم اسے اس دروازے پر دستک تک دینے سے بھی روکتی رہتی۔
فوجی بھرتی بھی انھی علاقوں سے کی جاتی جہاں ان وفادار گھرانوں کا اثر و رسوخ مستحکم ہوتا اور ان کے افراد اعلیٰ فوجی عہدوں پر فائز ہو چکے ہوتے۔ نسلی اور پیشہ ورانہ امتیاز کا یہ عالم تھا کہ اسکول میں داخلے تک کے فارم میں کاشت کار اور غیر کاشتکار کے خانے رکھے گئے تھے جو پاکستان میں 70ء کی دہائی تک قائم رہے تا کہ اس بات کا ادراک رہے کہ زمین کا مالک کون ہے اور جولاہے‘ موچی‘ ترکھان جیسے کمی کمین کون۔ ان سب مقتدر گھرانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
آج بھی ملکی سیاست پر نگاہ دوڑائیں تو آپ کو پنجاب کے الپیال‘ پراچے‘ ٹوانے‘ چٹھے‘ چیمے‘ جنجوعے‘ دریشک‘ دولتانے‘ روکڑی‘ ڈاہا‘ کھوسے‘ قریشی‘ گیلانی‘ گردیزی‘ لغاری‘ مزاری‘ موکل‘ کھرل‘ قصوری‘ نون‘ وٹو‘ وریو‘ سندھ کے ارباب‘ انٹر‘ بجارانی‘ بھٹو‘ تالپور‘ جام‘ جاموٹ‘ جتوئی‘ جونیجو‘ چانڈیو‘ زرداری‘ سومرو‘ قاضی‘ کھوڑو‘ گبول‘ وسان‘ مہر‘ مخدوم‘ سید‘ خیبر پختونخوا کے ترین‘ تنولی‘ جدون‘ خٹک‘ گنڈا پور‘ بلور‘ ارباب‘ ہوتی‘ یوسف زئی‘ اور بلوچستان کے بزنجو‘ بگٹی‘ مری‘ مینگل‘ اچکزئی‘ جمالی‘ جام‘ جوگیزئی‘ رئیسانی‘ زہری‘ مگسی‘ کھوسے اور کھیتران نظر آئیں گے۔
یہ چند ایک گھرانے ہیں اور اگر ان کی پوری تعداد بھی لکھی جائے تو اس کالم کے ایک چوتھائی حصے میں پوری آجائے گی۔ یہ وہ قابضین ہیں جو اس ملک میں ایک ایسا آئین تخلیق کرتے ہیں جس میں ہر طرح سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے بعد یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر اس کو چھیڑا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ لیکن جب انھوں نے ملک توڑنا تھا تو انھیں کسی آئین کو توڑنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ یہ قابضین فوج‘ بیورو کریسی اور سیاسی اشرافیہ کی صورت میں متحد ہو گئے بنگالیوں کی ایک ایسی عوامی یلغار کے سامنے جو پہلے فاطمہ جناح کو ووٹ دے کر ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور پھر 1970ء میں اس نے ان سب کو مسترد کر کے رکھ دیا۔
ان سب نے مل کر ان بنگالیوں سے نجات حاصل کر لی جو ان کی سیاسی جاگیر کے لیے خطرہ تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ایک دستوری دستاویز تیار کی اور پوری قوم کو اس خوف میں مبتلا کر دیا کہ اگر تم نے اسے ہاتھ بھی لگایا تو یہ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ یہ دستاویز چار اکائیوں نے مل کر تحریر کی ہے۔ وہ چار اکائیاں جن پر یہ قابض رہنا چاہتے ہیں۔ کیا زمینی سطح پر اور حقائق کی دنیا میں واقعی یہ چار اکائیاں وجود رکھتی ہیں۔
قابضین کے نعروں اور دعوؤں کو ایک طرف رکھ دیں تو کیا کراچی‘ حیدر آباد اور باقی سندھ ایک اکائی ہے‘ بلوچستان کے پشتون علاقے‘ مکرانی بلوچ اور بروہی ساراون اور جھالاوان ایک اکائی ہے۔ پنجاب کے سرائیکی اور پنجابی اور سرحد کے ہزارہ اور پشتون ایک ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان سب نے ایک دوسرے کی اتنی لاشیں گرائی ہیں کہ اب نفرت دلوں میں پیوست ہو چکی ہے۔ کراچی کی خون آشام زندگی اور 1988ء میں کوئٹہ میں لگنے والا پشتون بلوچ تنازعے پر ایک ماہ کا طویل کرفیو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن قابض قوتیں اپنے اپنے مرکز اقتدار‘ لاہور پشاور‘ کراچی اور کوئٹہ کا قبضہ نہیں چھوڑنا چاہتیں‘ خواہ اس کی قیمت ہزاروں جانوں کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ تیس سال کی جدوجہد کے بعد اٹھارویں ترمیم سے صوبائی خود مختاری حاصل کی۔ تعلیم صوبوں کے پاس گئی۔ لوگوں نے اپنے رویے سے ان کا تصور ان کے منہ پر دے مارا۔ گوادر سے گلگت تک تمام انگلش میڈیم اسکولوں کے ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہیں‘ ایک نصاب تعلیم اور ایک اساتذہ کی ٹریننگ‘ مکمل مرکزیت‘ ہاں وہ غریب اور مفلوک الحال لوگ باقی رہ گئے جنھیں سرکاری اسکولوں میں داخلے کے سوا اور وسائل ہی میسر نہ تھے۔
صوبائی خود مختاری کے ان دعویداروں اور دستور تحریر کرنے والوں کے بچے صوبائی خود مختاری کے منافی اس مرکزی نظام کے تحت قائم انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اس سے بڑی منافقت کیا ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف آئین بلکہ دستوری ڈھانچہ ایسا مرتب کیا ہے کہ جس کے ذریعے صرف یہی گھرانے برسراقتدار آ سکیں۔ حلقہ بندیاں ایسی ہیں‘ کہیں برادری‘ خاندان‘ قبیلے اور زبان کی بنیاد پر اور کہیں اثر و رسوخ کی بنیاد پر۔ پارلیمانی نظام کو قرآن کی مقدس آیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
پورے حلقے سے 15 فیصد ووٹ لینے والا اسمبلی کا ممبر بنتا ہے اور باقی 85 فیصد گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ اس نظام میں غیر نمایندہ۔ اس نظام کے تحت 1954ء سے الیکشن ہوتے آ رہے ہیں اور خواہ وہ آمریت کے تحت ہوں یا جمہوری حکومت کے زیر سایہ یہی لوگ اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کس قدر شاندار بندوبست ہے اور پھر سوال کرتے ہیں کہ کوئی متبادل بتائو۔ جمہوری نظام کو پٹری سے اکھاڑا تو فوج آجائے گی۔ فوج آتی ہے تو کون آتا ہے۔ یہی لوگ آتے ہیں۔ یہی اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔
دنیا میں اس کے ہزاروں متبادل ہیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں۔ وفاق ٹوٹ جائے گا‘ فوج آ جائے گی‘ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ان قابضین میں اب وہ مذہبی گروہ بھی شامل ہو چکے ہیں جنھیں اقتدار میں مسلسل حصہ ملنا شروع ہو چکا ہے۔ ان کا قبضہ گروپ مسلک کے تعصب کی خوفناکی سے بھرا ہوا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ کی نشست پر سرفراز جماعت اسلامی کے سراج الحق کو اگر مصر میں اخوان المسلمین کی جمہوری اور آئینی جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار اور پھر ہزاروں شہدا کی لاشیں نظر نہیں آتیں تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی چند افراد کی جماعت تھی لیکن جماعت اسلامی مولانا مودودی کے علمی ورثے اور اسلامی انقلاب کی داعی تھی۔ اس عظیم ورثے کو قابضین کی جھولی میں ڈال کر آپ کا قد تو شاید بلند ہو جائے لیکن وہ لوگ جو حق کو کھرا‘ سچا اور اس نظام سے علیحدہ تصور کرتے ہیں ان کی مایوسی دیدنی ہو گی۔
ایک ہنگامہ برپا ہے۔ علامہ طاہر القادری کی شخصیت اور اس کے کردار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کیا کوئی نکتہ ایسا ہے جس پر اختلاف کیا جا سکے۔ عمران خان کے لہجے اور انتقامی رویے پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ جو لوگ ہیں‘ کیا انھیں 1954ء سے نافذ قبضہ گروپ کے اس الیکشن نظام نے مایوس نہیں کیا۔ یہ مایوسی اگلے سو سال تک قائم رہے گی۔ اس نظام میں اگر کوئی بھولا بسرا عام آدمی آ بھی جائے تو چند سالوں بعد وہ اور اس کا خاندان بھی قبضہ گروپ کا حصہ بن جائے گا۔
کیا ان دونوں دھرنے والوں کے مطالبات اور نعرے یہ تمام سیاسی جماعتیں اختیار نہیں کر سکتی۔ یہ نہیں کریں گی کیونکہ یہ سب کے سب ایک انتظار میں ہیں۔ یہ انتظار سو سالہ قابضین کا انتظار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مٹھی بھر لوگ تھک ہار کر چلے جائیں گے‘ بیمار پڑ جائیں گے‘ ان میں پھوٹ پڑ جائے‘ ان کے خلاف مختلف سیاسی گروہوں کی ریلیاں نکلیں گی اور یہ آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ فتویٰ بازی کا سلسلہ شروع ہے‘ بریلوی اور شیعہ مسلک کے نمایندے انقلاب مارچ میں ہیں‘ ان کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کے سرفروش دوسرے مدرسوں سے نکلیں گے۔
انتظار یہ ہے کہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے خود بہ خود لڑ پڑیں۔ لیکن ان قابضین کو اندازہ نہیں کہ اسی دن کا انتظار تو عالمی طاقتیں بھی کر رہی ہیں جو بیج بحرین‘ سعودی عرب‘ شام اور عراق میں بویا گیا اور جس کی تلخی عراق اور شام میں قتل غارت کی صورت میں نظر آئی‘ وہی خار دار پودا یہاں بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ صرف چند لاشیں اور پورا ملک خون میں لتھڑا ہوا۔ ایسے میں عالمی برادری کو مطمئن کرنا کتنا آسان ہو گا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کسی بھی وقت کسی اور کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔
ایک انتظار ان کا بھی ہے جس کو یہ قابضین تیسری طاقت کہتے ہیں‘ لیکن ہر دفعہ یہ قوت کے آمرانہ اقتدار میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس قوت کا انتظار وقت کی سولی پر لٹکا ہوا ہے۔ ان کے سامنے ایک سوال ہے۔ لاشیں گرنے سے پہلے یا لاشیں گرنے کے بعد۔ پہلے حرکت میں آئیں تو سب لعن طعن کریں گے کہ جمہوریت کی بساط الٹ دی‘ بعد میں آئیں تو حالات سنبھالنا مشکل۔ ہر کوئی سانحے کے انتظار میں ہے‘ ہر کوئی سانحے کا منتظر ہے۔ لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ اگر سانحہ ہو گیا تو پھر شاید خون کا دریا عبور کر کے بھی امن کی منزل حاصل نہ ہو سکے۔ پتہ نہیں کتنی خون آشام راتیں اور قتل و غارت سے بھری صبحیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔
معاشی برتری اور فوجی بالادستی
اوریا مقبول جان جمعـء 11 جولائ 2014
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے معاشی برتری کا خواب اس وقت تک پورا نہیں کیا جب تک اس کے پاس ایک مضبوط فوجی قوت موجود نہ تھی جو دنیا بھر میں اس کے مفادات کا تحفظ کرتی۔ دنیا بھر کی معیشتوں کے استحصال کی کہانی عالمی سودی نظام، کاغذ کی جعلی اور فراڈ کرنسی کے ذریعے مصنوعی دولت کے بل بوتے پر فوجی طاقت میں اضافے کے گرد گھومتی ہے۔1694میں جب بینک آف انگلینڈ کا چارٹر حاصل کیا گیا تو اسی سال اس بینک نے کاغذ کے نوٹوں کا اجراء کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دنیابھر میں سونا اور چاندی سرمائے کے معیار کے طور پر بازاروں میں استعمال ہوتے تھے۔ اس سے پہلے جولائی1690ء میں برطانیہ کو Beachy head کی جنگ میں بدترین شکست ہوئی تھی اور اس کے گیارہ بحری جہاز تباہ ہوگئے تھے۔ فرانس کا رودبارِ انگلستان پر تسلط ہو گیا تھا۔ برطانیہ کا پوری دنیا پر معاشی اور فوجی برتری کا خواب چکنا چور ہو رہا تھا۔ اس زمانے میں ایک طاقتور بحری فوج ہی عالمی غنڈہ گردی کی علامت تھی۔ خزانہ خالی ہو چکا تھا۔
ایسے میں یہودی سود خوروں کے جھتے نے بینک آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی اور کاغذ کی جعلی کرنسی جاری کی، جس نے صرف بارہ دن کے اندر ایک کروڑ بیس لاکھ پونڈ اکٹھا کر کے حکومت کے حوالے کیئے تا کہ وہ ایک مضبوط بحریہ ترتیب دے سکے۔ یہاں سے8فیصد اجتماعی سود کا آغاز ہوا جو پوری قوم کوادا کرنا پڑا اور سالانہ آٹھ ہزار پونڈ سروس چارجز کے دھندے کا آغاز ہوا۔ اس طرح پوری قوم کو سود کے لالچ میں ڈال کر اس کے سرمائے کو حکومت کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ فوجی طاقت اور سود کے علاوہ ایک تیسری چیز معاشی برتری کے ضروری تھی ا ور وہ تھی آبادی۔ اس وقت آبادی کو کم کرنے کے نعرے نہیں لگائے گئے۔
یہ تو بعد میں محکوم قوموں کو مغلوب کرنے کے لیے بلند کیے گئے۔1721 تک برطانیہ کی آبادی71لاکھ سے ایک کروڑ بیالیس لاکھ ہوگئی، یعنی دگنی ہوگئی۔ عوام کے ہاتھوں میں جعلی کرنسی دے کر سود کے لالچ میں گرفتار کرتے ہوئے جو سرمایہ حاصل کیا گیا اس سے فوجی طاقت بڑھائی گئی اور صنعتوں کا جال بچھایا گیا جسے یہ لوگ صنعتی انقلاب کہتے ہیں۔ فوجی بحری جہاز افریقہ کے ساحلوں پر کھڑے ہوتے اور وہاں سے غلاموں کو جانوروں کی طرح پکڑ پکڑ کر اپنے کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے لایا جانے لگا۔
امریکا کے مشرقی ساحلوں سے لے کر بنگال بنارس اور جارجیا تک برطانوی کاروباری کمپنیاں مال کمانے لگیں۔ ان تمام کے تحفظ کے لیے برطانوی جنگی جہاز موجود ہوتے۔ پورے بحراو قیانوس اور بحرہند میں ان جنگی جہازوں کا راج تھا۔ ان کی نگرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی تجارتی کمپنیاں مقامی تجارت اور صنعت کو تباہ کر کے اپنے مال کی کھپت پیدا کرتیں۔ تیس لاکھ سے زیادہ افریقی لوگوں کو غلام بنا کر کھیتوں میں کام پر لگایا گیا۔ ان تمام کمپنیوں کو سرمایہ بینک آف انگلینڈ فراہم کرتااور یہ کمپنیاں واپس اپنا منافع وہاں جمع کرواتیں۔اس سرمائے سے حکومت کو کھل کھیلنے کا اختیار حاصل تھا۔
آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ نئی نئی طاقتیں دنیا کے نقشے پر ابھرآئیں۔ ان کا کام اس سودی نظام اور اس سے جنم لینے والے کا رپوریٹ کلچر کی برتری کا تحفظ کرنا، قوموں کو مغلوب کر کے ان میں اپنے لیے سرمایہ کاری اور منافع خوری کے منافع فراہم کرنا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں پنتالیس ہزار کارپوریٹ کمپنیاں ہیں، جن کو پانچ سو بنیادی کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں اور ان کو بیس بڑے بینک سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ لوگوں کے ہاتھ میں جعلی کاغذی نوٹ تھما کر سود کے لالچ میں گرفتار کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ جتنا فوجی قوت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اتنی ہی مغلوب اور محکوم قوموں کی زندگیاں عذاب بنتی جا رہی ہیں۔
کہیں منڈیوں پر قبضہ کرنے کے لیے زبردستی قرضوں میں جکڑا جاتا ہے تو کہیں وسائل کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے وہاں خون خرابے کرائے جاتے ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اپنی مرضی کے حکمران مسلط کیے جاتے اور آخری کار کسی ملک میں اپنی فوجیں بھی اتار دی جاتی ہیں۔ افریقہ جیسے معدنی وسائل سے مالا مال براعظم کی تباہی وبربادی اور قحط و بیماری اس مہذب دنیا کے منہ پر بدترین تھپڑ ہے۔ جنوبی امریکا سے لے کر ویت نام اور پھر افغانستان و عراق تک معاشی برتری اور بالادستی کا یہ گھن چکر فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہی چلایا جاتا ہے۔
طاقت اور معیشت کا توازن بدلتا ہے تو پرانی طاقتیں اسٹیج سے ہٹ جاتی ہیں اور نئی یہاں آکر دھماچوکڑی مچاتی ہیں۔ انگلینڈ، جرمنی اور جاپان پیچھے ہٹے تو امریکا اور روس آگئے، پھر امریکا ہی رہ گیا۔ مگر اب اس کھیل میں چین اور بھارت اپنے گھوڑوں پر زین کس رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کی نا آسودہ تمنائوں کا راستہ پاکستان سے ہو کر گذرتا ہے۔ چین تو اپنے مشرق کی سمت بھی اثر ورسوخ رکھتا ہے اور شمال کی جانب بھی، لیکن بھارت کا خواب برصغیر کی قدیم راجدھانی پر معاشی اور فوجی قبضہ مستحکم ہونے سے شروع ہوتا ہے۔
اس وقت بھارت دنیا کا اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔2010سے2015تک بھارت 80ارب ڈالر کے اسلحے کی خریداری کے معاہدات کرچکا ہے۔ اس ضمن میں زمینی فوج سے زیادہ فضائی اور بحری افواج کی طرف توجہ دی جاری ہے۔نئے طیاروں کی خریداری ساڑھے تیس ارب ڈالر سے کی گئی ہے۔ اسی طرح بحری افواج کے ذریعے سے جس طرح پورے بحرِ ہند میں اپنا اثروسوخ بڑھانے کے لیے کوشش اس سے اندازہ ہوتا ہے اس کے جہازوں اور فیلٹوں کی نظر جنوبی چین کے سمندر، بحرالکاہل اور بحیرہ احمر تک ہو جائے گی۔
دنیا کے تمام فوجی رسائل اس صورت حال کو جس تشویش سے دیکھ رہے ہیں، اس کا ایک فیصد بھی پاکستان میں نظر نہیں آتا۔ قومیں جب زوال کے آخری کنارے پر جا پہنچیں تو انھیں غفلت کے تالاب میں مزید دھکا دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ خود بخود پھسلتی ذلت کی گہرائیوں میں اترنے لگتی ہیں۔ معاشی برتری کا طریقِ کار آج بھی وہی ہے۔ پہلے اندرونی خانہ جنگی سے کسی ملک کو کھوکھلا کردو، حکمرانوں کی حیثیت باجگذار اور مرعوب و ظیفہ خواروں جیسی ہو جائے تو پھر ایسے میں کبھی عوام سراٹھانے کی کوشش کریں تو امن اور تجارتی مفادات کے تحفظ کے نام پر فوجی کارروائی کردو۔ سراج الدولہ سے ٹیپو سلطان تک اور پھر آخرمیں1857کی مفلوک الحال اور باجگذار مغلیہ سلطنت کا خاتمہ، سارے ہتھکنڈے آج بھی ویسے ہی ہیں۔
معاشی برتری فوجی طاقت کے بل بوتے پر۔ لیکن اس دفعہ خواب بھارت دیکھ رہا ہے اور اس کا جنوں اٹھارہویں صدی کے برطانیہ اور بیسویں صدی کے امریکا جیسا ہے۔ لیکن بھارت کے اس جنون کے راستے میں پاکستان آتا ہے۔ وہ پاکستان جس کے رہنما بھارت سے دوستی کا خواب دیکھ رہے ہیں، جس کی عسکری قیادت گذشتہ تیرہ سال سے ایک ایسی جنگ لڑرہی ہے جس کا سارا مفاد امریکا کا ہے اور جس کی زد میں آکر پورا ملک جہنم بنا ہوا ہے، اور جس کے عوام اپنے حال میں مست ہیں، کوئی غربت کے جہنم میں جل کر خاموش ہے اور کوئی بددیانتی اور لوٹ مار کی دلدل میں ہوش کھو بیٹھا ہے۔
ایسے میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہ تو دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگار لمبی لمبی بحثوں میں الجھ کر بھی ہی بتا سکیں لیکن صدیوں پہلے ایک درویش صفت شخص اور ولیٔ کامل، نعمت اللہ شاہ ولی نے آج کے دور کا منظر نامہ اپنے اشعار کھینچا ہے۔ یہ وہی نعمت شاہ ولی ہیں جن کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف صیح ثابت ہونے پر انگریز سرکار ان کی اشاعت پر پابندی لگادی تھی۔ ان کی تمام پیش گوئیوں میں سے پورا ہونے کے لیے اب اس آخری حصہ رہ گیا ہے اور وہ ہے غزوۂ ہندکے بارے میں ہے۔
وہ غزوہ جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھارہ احادیث منقول ہیں اور آپ نے اس میں فتح یاب ہونے والے لشکر کو جنت کی بشارت دی ہے اور اس کا وقت بھی بتایا ہے کہ جب یہ لوگ ہند کو فتح کر کے لوٹیں گے تو اپنے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پائیں گے۔ جو کچھ دنیا میںاس وقت برپا ہے، جس طرح مصر سے پاکستان تک آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ نعمت اللہ شاہ ولی کے کہے گئے شعروں کا مطلب واضح ہوتا جا رہا ہے۔ ان شعروں کا ترجمہ یوں ہے۔’’ ترکی والے ، عرب ، ایران والے دیوانہ وار آئیں گے، پہاڑوں جنگلوں سے اعراب آئیں گے، آگ کا سیلاب ہوگا۔ چترال، نانگا پربت، چین اور گلگت میدان جنگ ہوگا۔ہندوستان میں شورش برپا ہوگی اور اسلام کے غازی اعلان جہاد کر دیں گے، اہل کابل کافروں کو قتل کرنے نکلیں گے، سرحد کے غازیوں سے زمین قبر کی طرح کانپے گی۔
دریائے اٹک تین بار خون سے بھرکے بہے گا۔ پنجاب، لاہور ، کشمیر، گنگا، جمنا اور بحنور پھر مسلمانوں کے غالبانہ قبضے میں ہو ںگے‘‘ یہ سب ہوگا، یا نہیں ہوگا، کب ہوگا اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔کہ وہی عالم الغیب ہے۔ لیکن معاشی برتری اور فوجی بالادستی کے اس مرحلے پر اس ملک کے حکمرانوں کی حالت شاہ عالم ثانی اور محمد شاہ رنگیلے جیسی ہے’’ مرہٹے‘‘ قابض ہیں۔ کوئی احمد شاہ ابدالی کو پکار رہا ہے تو کوئی دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ اہل نظر کہتے کہ جنگ کا آغاز ہو چکا۔ کون لڑے گا، کس کے سر پر یہ تاج سجے گا، اللہ بہتر جانتا، لیکن فتح کی بشارت اسی کے ساتھ ہے جو اس معاشی ترقی اور فوجی بالا دستی کے سامنے کھڑا ہوگا۔
کچھ نہیں سیکھتے تماشا سے
اوریا مقبول جان پير 7 جولائ 2014
پانچ سے چھ لاکھ آبادی کے شہر بنوں میں کوئی یہ اندازہ تک نہیں لگا سکتا کہ یہاں صرف چند دنوں میں شمالی وزیرستان سے سات لاکھ لوگ آ کر آباد ہوئے ہیں۔ خانماں برباد، اپنے ہی وطن میں مہاجر اور اپنے ہی علاقے میں اجنبی۔ یہ وہ شہر ہے جہاں یہ لوگ کبھی کسی ضروری کام سے آتے اور جلد اپنی خوبصورت وادیوں میں لوٹ جاتے۔ قبائلی رسم و رواج میں گندھے ہوئے ان لوگوں نے کبھی ہجرت کا سوچا بھی نہیں ہوگا۔
ان کے آباؤ اجداد تو اپنا علاقہ اور وطن اس وقت چھوڑتے جب ان کے لیے وہاں رہنا ناممکن ہو جاتا۔ جب زمین جانوروں کو چارہ اور انسانوں کو پانی دینے سے انکار کر دیتی یا پھر کوئی مضبوط گروہ، قبیلہ یا فاتح انھیں علاقہ بدر کر دیتا۔ وہ نئے علاقوں کو اپنا مسکن اور وطن بنا لیتے اور صدیوں وہیں رہتے۔ لیکن یہ کیسی ہجرت ہے کہ جس میں واپس لوٹنے کی آس بھی موجود ہے اور دربدر ہونے کا درد بھی۔ اس درد کو بنوں شہر کے لوگوں نے جس طرح سنبھالا ہے ایسی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ یہی سات لاکھ اگر لاہور یا کراچی آ جاتے تو لوگ خوف سے دروازے بند کر لیتے۔
بڑے بڑے اسٹیڈیم، کھلے میدان اور بوسیدہ سرکاری عمارتیں ان کی پناہ گاہیں ہوتیں، تبصرے شروع ہوتے، شہر کا امن و امان خراب کرنے کی باتیں ہوتیں، ماحولیات کے ماہرین اٹھ کھڑے ہو جاتے۔ کسی کو سہولیات پر اضافی بوجھ کا قلق ہوتا اور کوئی ماحول کی خرابی کا رونا روتا۔ یہ سات لاکھ ان بڑے شہروں میں اگر عارضی پناہ گاہوں سے اپنی حیثیت کے مطابق کچی بستیوں میں منتقل ہونا شروع ہوتے، روزگار کے لیے نکلتے، شہر کے لوگوں کو بحث کا ایک اور موضوع میسر آ جاتا۔
لیکن سلام ہے بنوں شہر کے عوام کو کہ انھوں نے ان سات لاکھ لوگوں کے لیے اپنے دروازے ایسے وا کیے جیسے کوئی ان کا عزیز ترین رشتہ دار مدتوں بعد ملنے آ گیا ہو۔ اس لیے کہ ان چھ لاکھ لوگوں میں جو بنوں کے شہری ہیں، کوئی سیاسی لیڈر نہیں جو قومی یکجہتی کے نام پر ریلی تو کرتا ہے لیکن اس کے کارکنان ان ہی مہاجرین کے خون کے درپے ہوتے ہیں۔ کوئی تجزیہ نگار، دانشور نہیں جو آپریشن کی حمایت میں کئی سال شور مچاتا ہے لیکن اسے ان مہاجرین کی صورت میں دہشت گردی کے فروغ کا خطرہ نظر آتا ہے۔
جس قوم میں منافقت رچ بس گئی ہو اس کا کیا رونا۔ ان کو میرے آقا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔ غزوۂ احد کی وہ تلوار ’’عضب‘‘ بھی کفار کے خلاف اٹھی تھی لیکن عبداللہ بن ابی کی سرپرستی میں جو تین سو کلمہ گو منافقین تھے انھیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ وہ آقا جو صرف کلمہ پڑھنے پر جنت کی بشارت دے اس کی تلوار کسی بظاہر مسلمان کلمہ گو منافق پر اٹھتی۔ لیکن جب ہر طرف نظریات فروشی کا دور ہو تو کوئی بھی کسی کے نام پر دکان سجا دے۔
دکانیں ہی تو ہیں جو چاروں جانب سجی ہیں۔ مسلک کی دکان، عقیدے کا خوانچہ جہاد کا اسٹال، آزادی اور سیکولرازم کی ریڑھی، ریاست کا سپراسٹور، ہر کوئی اپنا مال بیچ رہا ہے۔ جس کو جس شخصیت کے پوسٹر سے منافع ہوتا ہے وہ اسے آویزاں کر دیتا ہے۔ ایسی منافقت میں بنوں شہر کا سچ حیران کن لگتا ہے انھوں نے جس طرح اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا وہ ایک مثال ہے لیکن اس ہجرت نے جن داستانوں کو جنم دیا ہے اس کے خوف سے دل کیا، روح تک کانپ رہی ہے۔
سیلاب یا طوفان آنے سے پہلے لوگ تاروں پر لٹکتے کپڑوں کو بھی سائے میں لے آتے ہیں، جانور باندھ دیتے ہیں، لیکن یہاں تو بس ایک ان کا وقفہ کرفیو کے درمیان اور پھر تیس تیس گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرتے بچے، عورتیں اور بوڑھے۔ چیک پوسٹ پر کم از کم چھ گھنٹے لمبی قطار میں پوچھ پڑتال کا انتظار۔ کتنوں کی وہیں پر موت۔ جانور ساتھ لے کر آنے والوں نے سبزہ دیکھا تو انھیں وہیں چھوڑ دیا کہ انھیں تو رزق مل گیا، ہمارا للہ حافظ و ناصر ہے۔ دو بچوں کو ہاتھوں پہ ڈالے ایک خاندان اندر داخل ہوا۔ ڈاکٹر کو اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ بچے زندہ یا مردہ۔
تھوڑی زندگی کی رمق محسوس ہوئی تو کمرے میں لے جانے لگا تو باپ نے کہا ڈاکٹر صاحب ہمارے نزدیک یہ بچے مر چکے تھے۔ اگر یہ زندہ بچ گئے تو آپ کے ہوئے۔ مجھے تو اپنی بیٹیوں کے لیے سر چھپانے کی جگہ کا انتظام کرنا ہے۔ ڈاکٹر یہ کہانی الخدمت کے سربراہ عبدالوحید خان کو سناتے ہچکیوں سے رونے لگا۔ کون ہے وہاں جو ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے، شدت پسندی کے نام پر گالیاں کھانے والی جماعت اسلامی کی تنظیم، فلاح انسانیت، جس کو امریکا سے لے کر پاکستان کے شام کی ترنگ میں جھولتے دانشور تک سب بھارت کے ساتھ امن تباہ کرنے پر گالیاں دیتے ہیں۔
لیکن ریلیاں نکالنے والے، چوراہوں پر موم بتیاں جلانے والے، بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر انسانوں کے دکھ میں میں رونے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ کیوں آئیں۔ یہ لوگ تو آفت و مصیبت میں ہجرت کر رہے ہیں یہ کوئی عشق کے جنون میں ماں باپ کا گھر چھوڑنے والی ’’خوش قسمت‘‘ لڑکی تو نہیں۔ کیسے ہو سکتے ہیں جس کے لیے گھروں کے دروازے بھی کھلیں اور آنکھ میں آنسو بھی آئیں۔
لیکن اس معاملے میں پوری قوم کی سرد مہری اور خاموشی سے ایک خطرناک کیفیت ضرور نظرآتی ہے۔ ایسی گفتگو کبھی بھی گزشتہ ساٹھ سالوں میں وزیرستان یا قبائلی علاقہ جات کے عوام میں نظر نہیں آئی۔ اب وہ سوال کرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر یہ بارہواں آپریشن ہے۔ ہم بارہ دفعہ گھر سے بے گھر ہوئے، کبھی سوات سے تو کبھی باجوڑ اور کبھی اورک زئی سے۔ ہمیں دربدر کر کے کیا آپ کے شہر پر سکون ہوگئے۔ کیا ازبک، تاجک، چیچن اور طالبان لاہور کراچی اور راولپنڈی میں نہیں۔ کیا وہاں وہ لوگوں کے درمیان عدالتیں نہیں لگاتے۔ اغوا برائے تاوان نہیں ہوتا۔ ایک تو پھٹ پڑا، گریبان ایسے پکڑا کہ پھاڑ دے گا۔ کہنے لگا میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب لاہور کے ماڈل ٹاؤن، کراچی کے ڈیفنس اور راولپنڈی کے راجہ بازار والوں کو صرف ایک دن کی مہلت دی جائے گی کہ نکلو ہم آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں یہ تیرہواں آپریشن ہے، ہر آپریشن کے بعد یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے امن بحال کر دیا۔ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی لیکن مجھے نہ اس آپریشن کی افادیت اور امن کے قیام پر بحث کرنا ہے کہ ایسا کرنا تو غداری کے مترادف ہے۔ مجھے ان بارہ آپریشنوں سے ہجرت زدہ خاندانوں کے المیے سے ہے۔ اس ملک کے ساتھ جو جس نے کرنا ہے کر گزرے کہ یہی مہلت کے دن ہیں بلکہ مہلت کے آخری دن ہیں۔ کیا وہ لوگ جو اپنے گھروں میں چین سے بیٹھ کر ان ہجرت کرنے والوں کی قطاروں کو ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے جنگ عظیم دوم کی فلم چل رہی ہو، وہ چین سے رہ پائیں گے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہجرت کی گنگا الٹی بہی ہے۔
1979ء سے مہاجرین افغانستان سے پاکستان آ رہے تھے۔ گزشتہ 35 سال سے، لیکن اس دفعہ افغانستان کے صوبہ خوست میں شمالی وزیرستان کے عام لوگ اپنی غیرت و حمیت کے جنازے کے ساتھ وہاں پہنچے ہیں۔ آج سے تین سال قبل شام کی سرحد پر کھڑے جب میں مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کو دیکھ رہا تھا تو میرے ساتھ میرے لبنانی دوست نے کہا تھا پتہ نہیں یہ کب واپس جائیں گے لیکن جب بھی گئے نفرت اور غصے میں بھرے ہوئے جائیں گے۔
عراق میں امریکی غلام نوری المالکی کی حکومت نے بھی جب امن کے نام پر اپنے مخالف گروہوں کو القاعدہ اور دہشت گرد کہہ کر مارنا شروع کر دیا تو یہ مظلوم عراقی، شام، اردن، لبنان، مصر حتیٰ کہ یورپ تک جا پہنچے۔ ہجرت کرنے والوں کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ نہ گھر بار، نہ مال و دولت، نہ نوکری اور نہ کاروبار۔ بس ایک جان ہوتی ہے جو ویسے ہی دکھوں کی ماری ہوئی۔ اس وقت دنیا بھر کے مہاجرین میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں اور ساٹھ فیصد کے قریب پاکستان سے لے کر مصر تک کے علاقے تک محدود ہیں۔ ان کی نفرتیں یکساں ہیں اور ن کے نزدیک دشمن بھی یکساں ہے۔
انھیں معلوم ہے کہ کس نے ان کے دشمن کا ساتھ دیا، ان کی غلامی کی اور اس کے خوف اور ذاتی ایجنڈے کے تحت امن کے نام پر انھیں دربدر کیا۔ کسی کو اندازہ ہے کہ داعش ان عراقی مہاجرین کی کوکھ سے نکلی جو شام میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ سرحدیں پامال ہو چکیں، پہلے حکومتوں نے کیں پھر ان کو حکومتوں کے خلاف لڑنے والوں نے کیا۔ لیکن اب حکومتوں کے خلاف لڑنے والوں اور مہاجرین کا جو اتحاد بنتا جا رہا ہے یہ خوفناک ہے۔
حکومتیں ایک دوسرے کو فوجی ساز و سامان اور تنخواہ دار سپاہی بھیجا کرتی ہیں لیکن مقابل میں لوگ بے سر وسامان ہوتے ہیں ان کے پاس گنوانے کو جان کے سوا کچھ نہیں بچا ہوتا ہے۔ یہی وہ خطرناک مرحلہ ہوتا ہے جب آدمی یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ ڈرون، ہوائی جہاز کے بم، توپ کے گولے یا مشین گن کی گولی سے مرنے سے بہتر ہے کہ چار لوگوں کو ساتھ لے کر مرے اور اگر ایسے لوگوں کے نزدیک سرحدیں بھی بے معنی ہو جائیں تو پھر… سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں:
ہے تعجب کہ ہم تماشائی
کچھ نہیں سیکھتے تماشا سے
سچ بولو، اسی میں نجات ہے
اوریا مقبول جان جمعرات 3 جولائ 2014
تاریخ کا یہ سبق ہے کہ وہ سچ ضرور سامنے لے آتی ہے۔ نہ واقعات چُھپتے ہیں ا ور نہ لوگوں کے کردار۔ کسی کو ضمیر کا بوجھ چین نہیں لینے دیتا اور کوئی ذاتی تعصب کی بنیاد پر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ جو لوگ یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم متفق ہے اور صرف ایک رائے رکھتی ہے انھیں فوج کے دو ریٹائرڈ جرنیلوں جنرل شاہد عزیز اور جنرل اطہر عباس کی گفتگو کے بعد ایک دفعہ پھر سوچ لینا چاہیے کہ یہ صرف چند افراد یا گروہوں کا مسئلہ نہیں بلکہ اس جنگ میں جیسے عام آدمی دو مختلف رائے رکھتے ہیں اسی تقسیم کے اثرات تمام اداروں میں کام کرنے والوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کی یہ واحد کڑی ایسی ہے جسے جب مورُخ لکھنے پر آئے گا تو اس کے سامنے تضادات کا انبار لگا ہو گا۔ ایسا تو افغان جہاد میں بھی نہیں ہوا تھا۔ جو اس میں حصہ لے رہے تھے یا پھر جو ان کی مدد کر رہے تھے ان میں ایک یکسوئی تھی۔ چند آوازیں تھیں جو اٹھتی تھیں اور ہر کوئی ان کے تعصب، نظریے اور مخالفت کی بنیادوں کو جانتا تھا۔ ہر کسی کو معلوم تھا کہ ان سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ نگاروں کا ماضی کمیونسٹ انقلاب، قوم پرستی اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی کسی بھی تحریک کی مخالفت سے وابستہ ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا دو ایسے علاقے تھے جو ہر دوسرے دن دھماکوں سے لرزتے تھے۔
یہی وہ زمانہ تھا جب روسی افواج کو خوش آمدید کہنے والے اپنے مضامین میں لکھتے تھے کہ انقلاب نے پاکستان کے دروازے پر دستک دے دی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب تاجکستان اور ازبکستان جیسے مسلمان روسی علاقوں کی طرح پاکستان سے بھی مذہب کو دیس نکالا دے دیا جائے گا۔ مخالف آوازیں تو تھیں لیکن صدابصحرا۔ ایم کیو ایم نے تو جنم ہی نہیں لیا تھا اور بلوچستان کے قوم پرست ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے مظالم سہنے کے بعد اپنے اپنے گوشۂ عافیت میں گم تھے۔ کوئی لندن تو کوئی افغانستان۔
البتہ خیبر پختونخوا سے اسی طرح کے پالیسی بیان آتے تھے جیسے اس دور میں بھارت کے تجزیہ نگار لکھا اور سیاسی رہنما بولا کرتے تھے۔ اس بظاہر یکسوئی کے باوجود بھی تاریخ وقت گزرنے کے بعد پورا سچ ضرور سامنے لائی۔ افغان جہاد کو تجزیہ نگار کتنا بھی فساد کہہ لیں، اس نے ان تمام افراد کی تمنائوں کا خون کر دیا جو یہ سوچا کرتے تھے کہ افغانستان کے بعد، پولینڈ، یوگو سلاویہ یا ایشائے کو چک کے مسلمان علاقوں کی طرح ایک دن روسی افواج پاکستان میں بھی آ دھمکیں گی اور یہ ملک بھی ایک کمیونسٹ ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔
اس خواب کے چکنا چور ہونے کے بعد اس ملک میں پورے دس سالوں کی ایک طویل خاموشی ہے۔ حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں، لیکن نہ دہشت گردی کا خوف تھا اور نہ شدت پسندی کا ڈر۔ بلوچستان جیسے صوبے میں بھی عصبیت اور پنجابی استعمار کے نعرے دفن ہو چکے تھے۔ لیکن اس کے بعد ہم نے کہاں غلطی کی؟ کس جگہ بھٹکے؟ کونسا راستہ اختیار کیا کہ آج ہم لہو لہان ہیں، یہ افتاد ہم پر کیسے ٹوٹی ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کو حل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہی سوال ہے جو پوری قوم کو منقسم کیے ہوئے ہے۔ اسی سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے جنرل شاہد عزیز ضمیر کی خلش میں یہاں تک انکشاف کر جاتے ہیں کہ سوات میں طالبان نے معاہدہ نہیں توڑا تھا۔ بلکہ حکومت نے امریکا کے دبائو پر معاہدہ ختم کر کے ایکشن شروع کر دیا تھا۔
دوسری جانب جنرل اطہر عباس ہیں جو طالبان کے بارے میں اپنا مخصوص نظریہ رکھتے ہیں اور وہ فیصلے کی کمزوری کو طالبان کی طاقت میں اضافے کی وجہ سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں نقطۂ نظر ہیں جو پوری قوم کو منقسم کیے ہوئے ہیں۔ یہی دونو ں نقطۂ نظر ہیں جو ہمیں سچ بولنے سے روکتے ہیں۔ یہی دونوں نقطۂ نظر ہیں جو تعصب کی عینک سے تجزیے کرواتے ہیں۔ گزشتہ بارہ سالوں میں اس ملک میں جس چیز کی موت واقع ہوئی ہے وہ سچ ہے۔ سچ کی لاش چوراہے میں لٹکی ہوئی ہے، اور تعصب کا کوڑا پورے معاشرے پر برس رہا ہے۔
اگر تجزیہ کرنے والی آنکھیں انصاف سے کام لیں تو انھیں صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں اس بات کی تہہ تک پہنچنے میں، کہ دہشت گردی میں امریکا کا ساتھ دینے والوں کے نظریات، بیک گرائونڈ یہاں تک کہ کسی حد تک مسلک کونسا تھا اور طالبان کے خلاف کون لوگ تھے جو مسلسل ایک ماحول بناتے رہے، اور آج اس ملک کو ایسی دلدل میں لا کر پھینکا کہ جس کا کوئی حل نہ آپریشن سے نظر آتا ہے اور نہ مذاکرات سے۔ دنیا میں کسی ایسی جنگ کا کوئی منطقی نتیجہ نہیں نکل سکتا جس نے نظریات کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔
کسی ایسی کارروائی کا بھی انجام ممکن نہیں جو کسی مسلک یا عقیدے کی مخالفت اور غصہ کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ہو۔ یہ قاعدہ اور کلیہ پوری ا نسانی تاریخ پر محیط ہے۔ اب اس کسوٹی پر رکھ کر اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حامیوں اور مخالفوں کی فہرست مرتب کر لیں تو آپ پر فرق واضح ہو جائے گا۔ اس جنگ کی حمایت میں پیش پیش آپ کو وہ سیکولر طبقات نظر آئیں گے جن کا زندگی بھر کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو ایک شدت پسند اور خون آشام رنگ میں پیش کرنا ہے اور انھیں اس میں لطف آتا ہے۔ ایسے لوگوں کی گزشتہ پچاس سالوں کی تحریریں اٹھا لیں وہ اسلامی تاریخ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مثالیں لائیں گے اور جس طرح مغرب اسلام کو بدنام کرتا رہا، ایسے وہ بھی کرتے رہے ہیں۔
دوسرے وہ مسلکی گروہ ہیں جن کی چپقلش صدیوں سے واضح ہے۔ ان کا طریق کار دوسرا ہے۔ وہ دینی تصریحات اور فتوئوں سے مخالفین کو واجب القتل قرار دیں گے۔ دوسری جانب اس شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مخالف جو گروہ ہیں ان میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو اسے عالمی استعمار کی مسلط کردہ جنگ تصور کرتے ہیں اور ہر سطح پر اس کے خلاف لڑنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔ ان میں کچھ ریاست کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس سے نکل جائے تا کہ مسئلہ بہتر ہو اور دوسرے وہ ہیں جو ایسی ریاست کے خلاف بھی جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔
یہ ہے وہ سچ جس کو اس ملک میں ذبح کی گیا ہے۔ کوئی اپنے اندر کا تعصب باہر نہیں لاتا۔ سب منافقت کرتے ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے مخالف گروہ کو ریاست اپنی طاقت سے کچل دے۔ کسقدر دیوانگی ہے کہ کسی کو اندازہ تک نہیں کہ اس سے ہم ایک آگ کو ہوا دے رہے ہیں جس میں سب کچھ جل کر خاکستر ہو جائے گا۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ امریکا اور عالمی استعمار کے ساتھ مل کر عراق کی ٹوڈی حکومت جسے نمایندہ حکومت بتایا جاتا ہے، اور اس نے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو فسادِ فی الارض کے فتوئوں سے دبانے کی کوشش کی۔
پانچ سال میڈیا اور دانشور عراقی حکومت کی ان کارروائیوں کو دہشت گردی اور القاعدہ کے خلاف جنگ قرار دے کر فلوجہ سے تکریت اور موصل تک آبادیوں کو تہہ تیغ کرنے کو قیام امن کی کوشش گردانتے رہے۔ یہ الفاظ بھی استعمال ہوئے کہ ان دنوں عراق اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کسی نے ان شہروں سے دربدر ہونے والے مہاجرین اور مرنے والے عام شہریوں کی داستان تک نہ لکھی۔ کہا کہ جب قوم حالتِ جنگ میں ہو تو ایسی باتیں قوم کو تقسیم کرتی ہیں۔
قوم نے تو تقسیم ہونا ہی تھا، لیکن عراق کی اس حکمت عملی نے پوری امت کو بھی تقسیم کر دیا۔ امن قائم کرنے کی اس کوشش نے ایک ایسے خوفناک گروہ ’’داعش‘‘ کو جنم دیا جس سے آج سب خوفزدہ ہیں۔ خوف کیوں نہ ہو۔ یہ جنگ اب اصل تعصب اور اصل چہرے بے نقاب کر رہی ہے۔ بھارت سے تین ہزار رضا کار اپنے نام لکھوا چکے۔ پاکستان کا ایک نوجوان چند دن پہلے ان کے ساتھ اپنی جان دے چکا۔ دوسری جانب داعش کے ساتھ بھی ہر ملک اور پاکستان سے بھی لوگوں کی آمد جاری ہے۔ ایک ایسا گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جس سے ایران اور سعودی عرب دونوں خائف ہیں۔
ایسا گروہ جس کی آنکھوں میں انصاف اور امن نہیں صرف اور صرف انتقام ہے۔ خونریزی اور قتل جن کا ہتھیار ہے۔ لیکن اب بھی کوئی سچ نہیں بول رہا۔ اب بھی کوئی نہیں کہتا کہ ان تمام ریاستوں کو ان نظریاتی اور مسلکی تعصب سے بھرے لوگوں نے اس جنگ بھی الجھایا۔ سچ بولو، صاف گوئی سے کام لو کہ ہم سب نے مل کر اپنے مسلک،، عقیدے، اور نظریے کی آگ میں اس ملک اور اس امت کو جھونک دیا ہے۔ یہ آگ بہت تیز ہے، اس کی کوئی سرحد نہیں۔ اس کو جھوٹ اور فریب کی ہوا تیز کر رہی ہے۔ سچ بولو، ورنہ انجام خوفناک ہے۔
اسٹیبلشمنٹ
اوریا مقبول جان پير 30 جون 2014
برصغیر پاک و ہند پر برطانوی استعمار کی جڑیں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مستحکم ہوئیں۔ یہ وہ جنگ تھی جس نے انگریز کے گزشتہ سو سالہ اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کو شکست دینے کے بعد چین سے اپنے مفتوحہ علاقوں پر حکومت کر رہا تھا۔ مغل بادشاہ کو بھی اس نے اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔ اس جنگ آزادی میں جہاں حریت کے پیکر مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کا نظارہ دکھائی دیتا ہے‘ وہیں انگریز کی فوج میں جوق در جوق بھرتی ہونے والے مسلمانوں کے مکروہ چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
1849ء میں پنجاب کی فتح کے بعد جس طرح یہاں کے چوہدریوں‘ نوابوں اور گدی نشین پیروں نے انگریز کو اپنا مائی باپ تسلیم کیا وہ ایک شرمناک باب ہے۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزدی کے حریت‘ پسند‘ مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھے تھے۔ تین جلدوں پر مشتمل غدر رپورٹ Report Mutiny جو انگریز نے مرتب کی اس میں صرف اور صرف مسلمانوں کی بغاوت کا تذکرہ ملتا ہے جو موجودہ دور کے مشہور مورخ ولیم ڈار لپل نے اپنی کتاب Last Moughal میں بھی واضح کیا کہ یہ جنگ آزادی نہیں بلکہ جہاد تھا جس کا اعلان جامع مسجد دہلی سے کیا گیا تھا اور اس میں صرف مسلمان شریک تھے۔
اس عظیم جنگ آزادی کے کرداروں پر نظر ڈالی جائے تو منبر و محراب کے امین علماء کا کردار روشن ستاروں کی طرح چمکتا نظر آتا ہے۔ جنگ آزادی سے پہلے 33 علمائے کرام نے اپنے دستخطوں سے انگریز کے خلاف جہاد کے لیے فتویٰ تحریر کیا جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شامل تھے اور ان میں سے مفتی صدر الدین آزردہ اور رحمت اللہ کیرانوی تو کمانڈر کی حیثیت سے جنگ لڑتے رہے لیکن ایک دوسرا گروہ ان علماء کا بھی تھا جن کے ساتھ سرسید احمد خان بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا ’’انگریز حاکم وقت ہے‘ مسلمان اس کی پناہ میں ہیں (مستامن ہیں)۔
پس اطاعت واجب اور غدر حرام‘‘۔ لیکن خیبر سے لے کر کلکتہ تک جہاد کے حق میں لکھے گئے فتوے کی نقول ہاتھ سے لکھ کر تقسیم ہوتی رہیں۔ یہ ایک طویل اور خونچکاں داستان ہے۔ لڑنے والوں میں دونوں جانب کلمہ گو شامل تھے۔ وہ سپاہی جس نے لال قلعے کے بند ہوتے ہوئے دروازے میں اپنی گردن دے دی تھی تا کہ دروازہ کھلا رہ جائے اور انگریز فوج اندر داخل ہو جائے اس کی رجمنٹ 2 ایف ایف مدتوں تک اپنی یونیفارم کے کالر پر اعزازی طور پر نیلی پٹی لگاتی رہی۔ اس سپاہی کو کس قدر یقین تھا کہ یہ انگریز حکومت جائز ہے اور اس کے خلاف لڑنے والے واجب القتل۔
31 مئی 1857ء کو شروع ہونے والی اس جنگ کا آخری معرکہ 14 ستمبر کو دہلی کی جامع مسجد میں لڑا گیا۔ اس دن ہزاروں مسلمان وہاں جمع تھے۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا جس نے اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے وہ شمالی دروازے کی جانب بڑھے اور جس نے جان بچانی ہے وہ جنوبی دروازے سے نکل جائے۔ کوئی ایک بھی جنوبی سمت نہیں گیا۔ وہ تمام علماء جنہوں نے فتوے پر دستخط کیے تھے‘ ان میں سے اکثر اسی لڑائی میں شہید ہو گئے۔
غدر رپورٹ بہت سے انکشافات کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انگریز فوج ہندوئوں کے گائوں میں اطمینان سے داخل ہو جاتی جب کہ مسلمانوں کے گائوں پر حملہ کر کے پہلے اسے تباہ کرتی۔ رپورٹ میں ان تمام غداران ملت‘ راجوں‘ مہاراجوں اور زمینداروں کا ذکر وائسرائے لارڈ کیننگ کے تعریفی جملوں سے ہے۔ اس معرکے میں فتح کے بعد ایسے تمام مسلمان جن کا تعلق مسجد کی چٹائیوں اور درس و تدریس سے تھا انھیں چوراہوں پر پھانسیاں دی گئیں‘ توپوں کے آگے باندھ کر اڑایا گیا اور گولیوں کی باڑ کے سامنے رکھ کر بھون دیا گیا۔
لیکن اس جنگ آزادی یا انگریز کی زبان میں غدر کے بعد ہندوستان کو تاج برطانیہ کے زیر نگیں کر دیا گیا اور انگریز نے اس خطے کو ایک بدترین تحفہ دیا جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ اس کے دو اہم ترین ادارے تھے سول انتظامیہ اور فوج۔ ان دونوں اداروں کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سیکولر قوانین ترتیب دیے گئے۔ چھ سو سال سے اس ملک پر اسلامی فقہ نافذ تھی۔ اس کی جگہ تعزیرات ہند کا قانون آیا‘ روز مرہ تنازعات کے لیے ضابطہ دیوانی اور ان سب قوانین کے نفاذ کے طریق کار کو ضابطہ فوجداری کے ذریعے منظم کیا گیا۔
جب پورے ملک کا قانون سیکولر بنیادوں پر استوار ہو گیا تو پولیس کے قوانین مرتب ہوئے اور ان قوانین کے تحت دو عہدوں کو فرعون کی سطح کے اختیارات دیے گئے‘ ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور دوسرا ایس ایچ او۔ اسی قانون کے تحفظ اور عملداری کے لیے سیکولر عدالتی نظام قائم کیا گیا جس کے طریق کار کا نہ اسلام سے کوئی واسطہ تھا اور نہ برطانوی اینگلو سیکسن قانون سے۔ یہ تمام کے تمام قوانین‘ ضابطے اور ادارے آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں اور اپنی اس سیکولر شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اسلام کے نظام عدل میں سب سے زیادہ اہمیت گواہ کے کردار پر ہوتی ہے‘ اسے ترک کر کے ایک سیکولر قانون شہادت نافذ ہوا جس کی جڑیں مغربی سیکولر عدالتی نظام سے ملتی تھیں۔ فوج کو نظریے نہیں بلکہ مادر وطن اور علاقے کی پاسداری کے لیے منظم کیا گیا۔ اسلام کی سر بلندی‘ امت مسلمہ کی سرفرازی اور امت کے مظلوم گروہوں کو ظلم سے بچانا فوج کے تصور سے خالی ہو گیا۔ یہی وہ بنیادیں تھیں جس کی وجہ سے سراج الدولہ‘ ٹیپو سلطان اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کو قتل کرنے والے ہیرو بنا دیے گئے۔
ریاست کی وفاداری دلوں میں ایسی جاگزیں ہوئی کہ کسی کو پہلی جنگ عظیم میں عراق میں اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے اور خانہ کعبہ پر گولیاں برسانے پر بھی شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔ نوے سال کی انگریز حکومت نے اس اسٹیبلشمنٹ کو سیکولر اور قومی بنیادوں پر اس طرح ترتیب دیا کہ یہ پوری قوم پر ایک خوفناک بلا کی طرح مسلط ہو گئی۔ جاسوسی کا ایک مربوط نظام بنایا گیا جسے سی آئی ڈی کہتے تھے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف ملک کے اندر اٹھنے والی آوازوں کی انتظامیہ کو خبر دینا تھا تا کہ ان کا بروقت قلع قمع کیا جا سکے۔
یہ لوگ مسجدوں میں جا کر مسلمانوں کی نماز کے بعد اجتماعی دعائیں تک سنتے اور اگر کوئی صرف یہ دعا بھی مانگتا کہ اے اللہ تو ان ظالموں سے مظلوموں کو نجات دے‘‘ تو اسے غدار قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا اور گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ ایک طویل عرصہ لوگ صرف تہجد کی نمازوں میں دعائیں کرنے لگے۔ مدرسوں کو دہشت گردی اور بغاوت کا اڈہ سمجھا گیا اور سب سے پہلے شاہ ولی اللہ کی قائم کردہ اسلامی یونیورسٹی مدرسۃ رحیمیہ کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور اس کی زمین ایک ہندو لالہ رام کشن داس کے ہاتھ فروخت کر دی گئی۔ مسجد اکبری جہاں شاہ عبدالقادر نے چالیس برس درس دیا تھا اسے گرا کر وہاں ایک کلب قائم کیا گیا جہاں سول اور فوجی افسران شراب اور رقص سے لطف اندوزہ ہوتے اور آج بھی یہ کلب قائم ہے۔
یہ سب اس اسٹیبلشمنٹ سے کروایا گیا جس میں مسلمان بھی بدرجہ اتم موجود تھے لیکن انھیں ریاستی قانون‘ امن و امان کے قیام اور وطن کے تحفظ کی ایسی لوریاں دی گئی تھیں کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہوتا کہ یہ جو کچھ وہ کرنے جا رہے ہیں اس کے لیے انھیں ایک دن آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ان کے نزدیک O.B.E,K.B.E‘ خان صاحب‘ خان بہادر اور وکٹوریہ کراس جیسے میڈل ہی زندگی کی متاع بن گئے جنھیں وہ اپنے سینوں پر سجائے فخر سے ریاست کی وفاداری میں اپنا سر بلند کرتے۔
ملک تقسیم ہوا۔ یہ ایک ایسا معجزہ تھا جس نے موجود دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا تھا۔ تین سو سال یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے اس علم کی نفی ہو گئی تھی کہ قومیں رنگ‘ زبان‘ نسل اور علاقے سے بنتی ہیں۔ ملک تقسیم تو جنگ عظیم اول کے بعد سے ہو رہے تھے۔ مسلم امہ چھوٹی چھوٹی قومی سیکولر ریاستوں میں بٹ رہی تھی لیکن پاکستان ایک حیران کن ملک تھا جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اس نے ثابت کیا کہ کروڑوں لوگ صرف اس لیے اپنی دھرتی ماتا کو چھوڑ کر ہجرت بھی کر سکتے ہیں۔
پاکستان بن گیا لیکن ورثے میں ایک سیکولر قومی اسٹیبلشمنٹ ملی جس کی رگوں میں ایک ایسا خون دوڑتا تھا‘ ذہنوں میں جو سبق موجود تھا اور دلوں میں یہ ایمان تھا کہ اس دنیا میں مسلم امہ نام کی چڑیا کا کوئی وجود نہیں۔ مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے اور برطانیہ کا دیا گیا سیاسی اور فوجی نظام ارفع و اعلیٰ۔ اس ملک کے لیے بہترین ہے‘ آزادی کے پہلے دن سے ہی اس آزاد ملک کے عوام اور اسٹیبلشمنٹ مقابل آ کر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ میں سول اور فوج کے علاوہ وہ خان‘ چوہدری‘ وڈیرے اور سردار بھی شامل تھے جو 1857ء سے انگریز کے وفادار رہے تھے۔
سرحدیں بن گئیں‘ امت تقسیم ہو گئی‘ ہر مسلمان ملک کی ایک قومی ریاستی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آ گئی۔ وہ سرحدیں جو مغرب نے بنائیں۔ سو سال پہلے قائم کیںاس کا تحفظ مقدس ہو گیا لیکن اب نصف صدی کے بعد نقشہ دوبارہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ سرحدوں کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے‘ مغربی دنیا نئی لکیریں کھینچنا چاہتی ہے‘ لیکن درویشان باِصفا کہتے ہیں اب اب لکیریں اللہ کی مرضی سے بنیں گی۔ ابھی تو ابتلا کا دور ہے‘ ابھی تو جنگ ہے‘ ابھی تو قتل و غارت ہے۔ وہ جنہوں نے اس امت کو فرقہ پرستی کے عذاب میں مبتلا کیا ان کے عمامے خون سے رنگین ہونے والے ہیں اور جنہوں نے سیکولر قومی تشخص کی جنگ لڑی ہے انھوں نے بھی اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو فرماتی ہے کہ اگر ہم ظالموں کو ظالموں سے نہ لڑائیں تو دنیا میں امن قائم نہ ہو۔
علمائے امت اور غزہ کے مسلمان
اوریا مقبول جان جمعرات 31 جولائ 2014
کسی بھی تجزیہ نگار‘ دانشور‘ سیاست دان یہاں تک کہ اس امت کے علماء تک کی گفتگو‘ تحریر یا تقریر ملاحظہ کریں جو ان دنوں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و تشدد اور بربریت کے جواب میں کی یا لکھی گئی ہو تو اس میں آپ کو ایک نکتہ مشترک ملے گا۔ ’’ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں‘‘۔ چوراہوں‘ سڑکوں‘ پریس کلبوں اور عالمی دفاتر کے سامنے پلے کارڈ اٹھائے‘ نعرے لگاتے اور موم بتیاں جلاتے لوگ نظر آئیں گے۔ یہ سب اس بات پر کسقدر مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ہم نے اپنا حصہ ڈال دیا۔
اب ہم دن بھر شاپنگ کریں‘ عیش و عشرت میں گم رہیں اور پھر رات کو مزے کی نیند سو جائیں‘ ہم مطمئن ہیں۔ یہ عالمی ضمیر ہے کیا چیز۔ کیا گزشتہ پندرہ سالوں میں ہر بڑے چھوٹے‘ بوڑھے جوان نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا؟ گیارہ ستمبر کے بعد اسی عالمی ضمیر نے نیویارک میں اکٹھے ہو کر چالیس سے زیادہ ممالک کو یہ اختیار دیا تھا کہ ایک ایسے ملک پر ٹوٹ پڑیں جو وسائل کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے کمزور ہے۔ اس کے پاس نہ رسد و رسائل کے ذرایع تھے اور نہ ٹیکنالوجی۔ لیکن اس کے باوجود بھی پہاڑوں‘ جنگلوں اور بیابانوںمیں آباد ان چرواہوں اور کسانوں کو انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیا گیا۔
دنیا کے یہ اڑتالیس غنڈے اس ملک پر چڑھ دوڑے۔ اس عالمی ضمیر کا نمایندہ پاکستانی وفد جب ملا محمد عمر کے پاس گیا تو اس نے اور بہت سی باتوں کے علاوہ ایک بات ایسی کی جو اب سچ ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ اس نے کہا تھا ’’دیکھو یہ باری کی بات ہے‘ ہماری باری پہلے آ گئی ہے‘ کل تمہاری بھی آ جائے گی۔ ہمیں خاک ہونے کا ڈر نہیں کہ ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں‘ مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جنہوں نے آسمان سے چھوتی عمارتیں تعمیر کر لی ہیں۔ آسائش کی زندگی اور تعیش کا سامان جمع کر لیا ہے۔ اللہ کا واسطہ باریاں مت لگاؤ‘‘۔ لیکن ہم سب نے اسی عالمی ضمیر کا ساتھ دیا۔
وہ سب جو آج غزہ کے ظلم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ کوئی پڑوسی ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ انھوں نے اس عالمی ضمیر کا ساتھ دینے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دی۔ میرے ملک سے امریکی طیارے ستاون ہزار دفعہ اڑے اور انھوں نے اسی طرح افغان مسلمانوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے جس طرح آج غزہ میں اسرائیل کر رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف بدترین خاموشی دکھائی بلکہ اس کے پاسداران کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امریکی حملے کے دوران ہمارے جوان شمالی اتحاد کے ساتھ شانہ بشانہ نہ لڑ رہے ہوتے تو یہ فتح ممکن نہ تھی۔
تاجکستان نے کابل کی طرف پیش قدمی کا راستہ دیا۔ عالمی ضمیر مطمئن ہوگیا۔ دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ افغانستان فتح کر لیا گیا۔ کیا اس کے بعد کسی اور کی باری نہیں آئی۔ شاید ہم بھول گئے۔ اس کے بعد عراق تھا۔ اس کے لیے تو کسی نے نیویارک میں موجود عالمی ضمیر کی علامت اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنی فوجی قوت اور میڈیا کے پراپیگنڈے کے زور پر عراق میں داخل ہوئے۔ کونسا پڑوسی تھا جس نے اس ظلم پر احتجاج کیا۔ سب نے اس عالمی ضمیر کے سامنے سر جھکائے بلکہ سجدہ ہائے تعظیمی کیے۔
شام‘ اردن‘ کویت‘ قطر‘ سعودی عرب اور ایران سب کے سب کئی سال عراق کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتے رہے۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ ان کا ضمیر اس عالمی ضمیر نے خرید لیا ہے لیکن پھر ان دونوں ملکوں میں جب ان عالمی غنڈوں نے اپنی مرضی کے آئین تحریر کیے، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے اور اپنی کاسہ لیس حکومتیں قائم کیں تو ان تمام ممالک نے ان دونوں حکومتوں کو نہ صرف جائز تسلیم کیا بلکہ ان کے ہر ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کی۔
یہ حکومتیں شہروں کے شہر اجاڑتی رہیں، لوگوں کو دہشت گرد، القاعدہ اور باغی کہہ کر قتل کرتی رہیں اور ان کے حکمرانوں کا تمام پڑوسی ملک اپنے ایوانوں میں استقبال کرتے رہے۔ وہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے، وہ ریاض، تہران، اسلام آباد اور دمشق جیسے شہروں میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرتے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے۔ اس سب کو میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی قرار دیا۔ جان پلیجر Jon Plijer کی وہ مشہور ڈاکومنٹری ”war you have not seen” (جنگ جو آپ نے دیکھی نہیں) ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس عالمی ضمیر اور عالمی پراپیگنڈے کے سامنے سربسجود تھے۔
مسلمانوں نے اپنے گزشتہ دس سالوں میں اس عالمی ضمیر کو ایک نکتہ سمجھا دیا کہ ہم بے حس ہیں، بے ضمیر ہیں اور تم جس کو بھی دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرہ تصور کر کے ان کے گھر بار، خاندان اور آبادی سب کو تباہ کر دو، ہم خاموش رہیں گے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو آج اسرائیل اور اس کے حواری بول رہے ہیں۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں، پلے کارڈ اٹھاتے ہیں، یوم القدس مناتے ہیں، دنیا بھر کے ہر فرقے کے علماء اس عالمی ضمیر سے فیصلہ کروانے سڑکوں پر نکلتے تھے۔
کیا انھوں نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی تھی ’’اے پیغمبر! کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا، لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ اپنا معاملہ فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس کا کھل کر انکار کریں‘‘ (النسا 60)۔ تجزیہ نگار، دانشور، سیاست دان یہاں تک وہ علمائے کرام جنہوں نے اس آیت کو بار بار پڑھا ہوگا، اللہ کے اس حکم کو لوگوں کو سنایا ہو گا وہ بھی اپنا معاملہ اور اپنا فیصلہ طاغوت سے کروانا چاہتے ہیں اور کس قدر بھولے ہیں کہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔
کیا یہ سب نہیں جانتے کہ یہ دور فتن ہے۔ کیا ان سب نے احادیث کی کتب میں فتن کے ابواب اور ان میں درج احادیث نہیں دیکھیں۔ لیکن کسقدر بدقسمتی ہے کہ اس امت کے حکمران اور ان کے مسلکی علماء عراق اور شام میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تلواریں نکالتے ہیں، جیش تیار کرتے ہیں، کوئی ایک حکومت کو بچانے کے لیے فتویٰ دیتا ہے تو دوسرا اس کو گرانے کے لیے۔ کسی کو اینٹوں اور سنگ مر مر کے مزارات کے تحفظ کے لیے جان دینی عزیز ہے تو دوسرے کو ان مزارات کو گرا کر اپنے جہاد کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔ لیکن کیا ان ستاون اسلامی ممالک میں کسی ایک کے علماء میں یکسوئی نہیں کہ وہ اعلان کریں کہ نہتے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر لڑنا فرض عین ہے۔
اس امت کی پچاس لاکھ سے زیادہ افواج ہیں، جو کیل کانٹے اور ایٹم بم سے لیس ہیں، کیا یہ ساری طاقت جو انھیں اللہ نے عطا کی ہے وہ قیامت کے دن ان سے حساب نہیں لے گا کہ تم نے اس امت کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات کے لیے صرف کی یا نہیں کی۔ جو جتنے بڑے منصب پر ہو گا اس کی اتنی ہی بڑی جواب دہی ہو گی۔ لیکن سب جانب خاموشی ہے، سکوت ہے، پلے کارڈ ہیں، بینرز ہیں، تبصرے ہیں، شاید یہی وہ زمانہ تھا جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان میں پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا دور نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جن کو ملے وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی مسلمان ایسا کہہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! جن پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی (السنن الواردۃ فی الفتن)
کیا ستاون اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے کہ جو اسلامی ممالک کو دعوت دے کہ آؤ اپنے فیصلے طاغوت سے نہیں خود کریں، خود اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔ کیا ہمارے تمام مسالک کے علمائے امت سب کو اس ایک نکتے پر جمع کر سکتے ہیں اس کا علاج ریلیاں نہیں جہاد ہے لیکن اس ایک لفظ جہاد کو منہ سے نکالنے پر ہمیں جس قدر شرمندگی ہوتی ہے، شاید اس سے کئی گناہ زیادہ ہمیں روز قیامت شرمندگی ہو گی۔
جرم ضعیفی کی میٹھی گولیاں
اوریا مقبول جان اتوار 13 جولائ 2014
شیئر
ٹویٹ
تبصرے
مزید شیئر
theharferaz@yahoo.com
مسلم امہ کے کسی سیاسی رہنما‘ دانشور یا مغربی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز شخص کو اگر دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد اور معصوم عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتائو تو وہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ دہرانے لگتا ہے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ کس قدر بے حس ہیں یہ لوگ۔ ان کے اپنے گھر پر اگر بم گرے‘ ان کے بچے تڑپتے ہوئے جان دیں‘ ان کی عورتوں کو سپاہی اٹھا کر لے جائیں تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ کوئی کتنا بھی کمزور ہو‘ انتقام کی آگ میں کھولنے لگتا ہے۔
ممکن ہو تو حفاظت خود اختیاری کا سہارا لے کر جو بھی اسلحہ گھر میں موجود ہو لے کر بدلہ لینے نکل پڑتا ہے۔ نہتا ہو تو گھر کا سامان بیچ کر انتقام کے لیے اسلحہ خریدتا ہے‘ کرائے کے قاتلوں سے رابطہ کرتا ہے‘ بدلہ لینے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو شور ضرور مچاتا ہے‘ واویلا ضرور کرتا ہے‘ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ سب نہ بھی کر سکے تو اتنا ضرور کرتا ہے کہ جو لوگ یہ ظلم اور بربریت کرتے ہیں‘ ان کو اور ان کے پشت پناہوں کو دشمن سمجھتا ہے‘ ان سے شدید نفرت کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اسے اقبال کا جرم ضعیفی والا شعر سنا کر چپ رہنے کو کہے تو اس کا گریبان تھام کر کہنا ہے‘ تم پر بیتی نہیں اس لیے تم یہ باتیں کر رہے ہو۔ تمہارا گھر ایسے اجڑتا تو میں تم سے پوچھتا۔
لیکن وہ امت جس کی سید الانبیاء ﷺ نے یہ علامت بتائی تھی کہ یہ ایک جسد واحد ہے۔ ایک جسم جس کے کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچے‘ باقی تمام عضو مضطرب ہو جاتے ہیں۔ اس امت میں کبھی بوسنیا‘ چیچنیا‘ افغانستان‘ عراق اور اب فلسطین میں معصوم اور نہتے لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور ہم یا تو قاتلوں کے دوست اور اتحادی ہیں یا پھر قاتلوں کے پشت پناہوں سے بھیک اور امداد مانگ کر گزارا کرنے والے ہیں۔ غیرت و ناموس بیچ کھائی ہو تو جرم ضعیفی جیسے الفاظ کس قدر تسلی بخش ہوتے ہیں۔
کاش کوئی ویت نام میں لڑنے والے نہتوں کو بھی یہ الفاظ سکھاتا۔ ہمارے ایک دانشور ہیں جنھیں مغرب کے ہر ظلم میں حسن نظر آتا ہے‘ وہ کہتے ہیں ہم اسپرین تک بنا نہیں سکتے اور امریکا سے مقابلہ کرتے ہیں۔ کاش وہ یہ بتا دیں کہ ویت نام میں کس نے اسپرین ایجاد کی تھی جو انھوں نے امریکا کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ افغانستان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جس کے غیور لوگوں نے ایک سو سال میں تین عالمی طاقتوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔
یہ سب اس امت کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ اسے یہ درس بھلا دیا گیا ہے کہ نصرت اور فتح ٹیکنالوجی سے وابستہ نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ جس رسولﷺ کے عشق کے یہ دعوے کرتے ہیں‘ اس کی سنت پر عمل کرنے کا درس دیتے ہیں‘ انھوں نے اس ہادی برحق کو بدر کے میدان میں نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ تین سو تیرہ جانثار‘ دو گھوڑے‘ چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں… یہ تھی کل کائنات اور مقابلے میں تین گنا بڑا لشکر اور تمام سامان حرب۔ کوئی ایک غزوہ بھی ایسا ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ کیا شام‘ مصر‘ ترکی اور ایران فتح کرنے والے اپنے مقابل لشکروں سے تعداد‘ اسلحہ اور سامان حرب میں زیادہ تھے۔ ہر گز نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے دور کی عالمی طاقتوں سے ٹکڑا گئے تھے۔ اس لیے کہ وہ جرم ضعیفی کی لوریوں میں نہیں پلے تھے بلکہ اللہ کی طاقت کے بھروسے پر زندگی گزارنے والے تھے۔
اللہ پر بھروسے کی طاقت کو اس امت سے چھیننے اور اسے ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز کروانے میں ایک عرصہ لگا ہے۔ اس میں جنگ عظیم اول کے بعد خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ اور موجودہ سیکولر قومی ریاستوں کے مغرب کی دہلیز پر سجدہ ریز حکمرانوں کا بھی حصہ ہے اور اس امت کے ان دانشوروں کا بھی جو روز اس امت کو کم مائیگی‘ کمزوری اور بے حوصلگی کا درس دیتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اہل مدرسہ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ’’گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا‘‘۔ اسی نوجوان کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
کون کہتا ہے کہ مکتب کا جواں زندہ ہے
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
لیکن اس تن مردہ میں جاں پیدا کرنے کی آوازیں اور تحریکیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ جرم ضعیفی پر خاموش رہنے اور غیرت و حمیت بیچ کھانے والوں کے مقابل میں نعرہ مستانہ لگانے والوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ تاریخ کا یہ بدترین باب ہے کہ وہ جنھوں نے مسلمانوں کو جرم ضعیفی کی سزا تجویز کی اور انھیں ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر بہتر مستقبل کی نوید دی وہ سب کے سب ان قومی سیکولر ریاستوں کے حکمران ہی تھے۔ گزشتہ سو سالہ تاریخ میں سوڈان سے لے کر ملائشیا تک ہر کسی نے مسلمانوں کو ان ریاستوں کے خول میں جکڑ کر بے حس اور مردہ دل بنایا اور آج یہ عالم ہے کہ کسی شہر کے ایک حصے میں اگر آفت اور مصیبت آئے تو دوسرے حصے کے لوگ اپنی روز مرہ زندگی جاری رکھتے ہیں۔
نہ کوئی ان کی مدد کو بے چین ہوتا ہے اور نہ ان کی مصیبت میں غمگین۔ یہی بے حسی آج غزہ میں مرنے والے معصوم بچوں کے لیے نظر آئی ہے۔یہ بے حسی کیسے پیدا ہوئی۔ ہم نے ایسے ہی مناظر افغانستان اور عراق میں کس قدر خاموشی سے دیکھے۔ ہمیں کہا گیا یہ دہشت گرد ہیں‘ ان سے دنیا کا امن تباہ ہو رہا ہے۔ ہم سب امن کے خواہاں بن کر ایسا ہی تماشا دیکھتے رہے۔ پھر ہم نے مسلمان ریاستوں کو بھی ظلم کرنے کا ویسا ہی اختیار دے دیا اور بے حسی سے تماشا دیکھتے رہے۔ ہم نے بشار الاسد کو ایسے ہی معصوم بچوں اور عورتوں کو دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر قتل کا لائسنس دیا۔ ہم نے نوری المالکی کو عراق میں خاندانوں کے خاندان قتل کرنے کی اجازت دی تا کہ دنیا سے شدت پسندوں کو پاک کیا جائے۔ ہم تماش بین تھے اور ہمارے سامنے موت کا تماشہ تھا۔
کیا کسی کی آنکھ سے آنسو بہے جب اس سے چند میل کے فاصلے پر ڈرون حملوں سے معصوم بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لال مسجد کا سانحہ اور معصوم بچوں کی موت کو کس قدر سکون کے ساتھ ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھا اور چین کی نیند سوئے اور سوچا کہ اب ہم نے امن کی طرف قدم اٹھا لیا۔ دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام جملے اسرائیل کے میڈیا نے چرا لیے ہیں۔ ان کے حکمران بھی وہی زبان بول رہے ہیں جو ہم دہشت گردی کے خلاف بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں فلسطین کے لوگ امن کے دشمن ہیں‘ یہ دہشت گردی کی پناہ گاہ ہیں‘ ان کی وجہ سے پوری دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔ اور پھر ان کی اس منطق کو امریکا اور مغربی دنیا اپنے میڈیا پراور سیاسی سطح پر حمایت فراہم کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے اسرائیل ان کے علاقے پر قابض ہے۔ آزادی ان کا پیدائشی حق ہے تو کیا امریکا اور اس کے حواریوں نے افغانستان اور عراق پٹے پر خریدا ہوا تھا‘ ان کی ملکیت میں شامل تھا۔ کیا پاکستان کے قبائلی علاقے امریکا کی باون نمبر کی ریاست تھی جس کے معصوم لوگوں کو وہ دہشت گرد کہہ کر ڈرون حملوں سے ہلاک کرتا تھا۔ دنیا میں دو منطقیں نہیں چلا کرتیں۔ جس ظلم نے حماس کو جنم دیا ہے اسی ظلم نے دنیا کے تمام ممالک میں جہادی سوچ کو پیدا کیا ہے۔ ریاستوں کا چہرہ ایک جیسا ہے‘ ظالم اور سفاک۔ یہی غزہ کا علاقہ پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد 24 جنوری 1949ء میں اسرائیل مصر معاہدے کے تحت ایک نیم خود مختار متنازعہ علاقہ کہلایا۔
کسی نے اسے حق آزادی نہ دیا۔ لیکن جب 26 جولائی 1956ء کو جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا اعلان کیا تو جنگ چھڑی اور اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت فلسطینی ایک علیحدہ عرب قوم تصور ہوتی تھی لیکن 1958ء میں مصر‘ شام اور فلسطین کو ایک اتحاد جمہوریہ عربیہ متحدہ کے تحت منظم کیا اور 1959ء سے 1967ء تک غزہ پر مصر کا کنٹرول ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی دفعہ غزہ کی ناکہ بندی کی گئی اور اس ظلم کا موجد جمال عبدالناصر تھا اور اس کی بھی وہی دلیل تھی کہ اگر غزہ کے رہنے والوں کو کھلا چھوڑا گیا تو امن تباہ و برباد ہو جائے گا۔
غزہ کی داستان پوری امت مسلمہ کی داستان ہے۔ یہ بے حسی اور بے ضمیری کا نوحہ ہے۔ یہ خاموشی ہم نے بڑی محنتوں سے اس قوم اور ملت کو سکھائی ہے۔ ہم نے ان کے ضمیر مردہ کیے ہیں جن قوموں کو سالوں یہ کہا گیا ہو کہ یہ جو لوگ ہم قتل کر رہے ہیں یہ تمہارے کچھ نہیں لگتے۔ یہ انسان نہیں کسی دوسرے ملک‘ علاقے‘ شہر یا محلے کے شہری ہیں۔ ان کے قتل پر چپ رہو‘ یہ امن کے دشمن ہیں‘ شدت پسند‘ دہشت گردہیں تو پھر اس بات پر حیران کیوں ہوتے ہو کہ غزہ پر موت کے سائے چھائے تو ایک آنسو بھی نکلا‘ ایک احتجاج تک نہ ہوا۔
مُٹھی بھر لوگوں سے نجات کی دعا
اوریا مقبول جان جمعـء 18 جولائ 2014
قوموں کی ذلت وپستی مُٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے جنھیں قومیں اپنا رہنما تسلیم کر لیتی ہیں۔ وہ ان کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنے لگتی ہیں۔ انھیں ان کی برائیاں، خامیاں ظلم اور زیادتیاں برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔لوگ ان کی محبت میں ایسے گرفتار ہو جاتے ہیں کہ ان کی ہر غلط بات پر ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے خلاف اٹھنے والی حق کی آوازوں کے مقابل آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اللہ نے جہاں بھی بستیوں پر اپنے عذاب کا ذکر کیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی مُٹھی بھر لوگ قرار دیے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں اس قوم کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں اور وہ قوم بلاچون و چرا ان کی ہر بات مان رہی ہوتی ہے۔ بلکہ اللہ نے ایک جگہ تو ان مُٹھی بھر لوگ کی تعداد بھی بتا دی ہے۔ یہ قوم ثمود تھی۔ جن پر حضرت صالح علیہ السلام مبعوث کیئے گئے۔ اللہ فرماتا ہے’’ اور شہر میں نو(9) شخص ایسے تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے۔ النمل48)۔ یہ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کا ذکر ہے، جب دنیا کی آبادی آج کے مقابلے میں انتہائی قلیل تھی۔
سات ارب کے قریب اس دنیا میں آج آپ کو ہر بستی میں ایسے نو افراد ضرور مل جائیں گے جن کا اس بستی پر کنٹرول ہوتا ہے۔ جو فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح سے کام نہیں لیتے۔ پانچ ہزار کی آبادی کے گائوں میں پانچ چھ ایسے زور آور لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جن کی دھونس اس گائوں پر مسلط ہوتی ہے۔ یہ خاندانی طور پر وڈیرے، جاگیردار بھی ہو سکتے ہیں، یا پھر قتل وغارت کرنے، منشیات کا اڈا چلانے والے یا جرائم پیشہ افراد بھی، جن کے خوف سے پورے کا پورا گائوں تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے۔ پوری بستی ان کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوتی ہے۔
ان پانچ ہزار لوگوں میں سے اگر کوئی ایک بھی ان مُٹھی بھر لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے اور باقی ساری کی ساری بستی خوف سے سہم جاتی ہے۔ یہ خوف آخر کاران لوگوں کے اندر ان چند لوگوں کے ساتھ وفادری کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور پھر ایک دن اس پانچ ہزار لوگوں کی بستی اور چند مُٹھی بھر لوگوں کے مفاد مشترک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب یہ لوگ ان کے ہر اچھے اور بُرے میں ساتھی بن جاتے ہیں۔ وہ مُٹھی بھر لوگ جن کا منصب اصلاح ہوتا ہے وہ فساد پیدا کرتے ہیں اور باقی سب ان کے ساتھ۔ نہ کوئی برائی سے روکتا ہے اور نہ ہی اچھائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ کا اٹل فیصلہ آجاتا ہے۔عذاب مسلط کرنے کا فیصلہ۔
عذاب کے فیصلے سے قبل اللہ اپنے مبعوث پیغمبروں کے ذریعے لوگوں کو بار بار ڈراتا ہے، وارننگ دیتا ہے تا کہ لوگ سنبھل جائیں، باز آجائیں۔ لیکن سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے،اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نبوت نہیں بلکہ مبشرات رہ جائیں گی۔ صحابہ نے سوال کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبشرات کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچے لوگوں کے سچے خواب۔ پھر فرمایا سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔
انبیاء اپنی امتوں کو ڈراتے اور وہ اکڑ جاتیںتو عذاب کی مستحق ہوتیں۔ لیکن پورے قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک قوم کا ذکر اسقدر محبت اور دوسری امتوں سے اس روّیے کی امید کے ساتھ کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اللہ کے عذاب سے بچنے کا اس سے تیر بہدف اور کوئی نسخہ ہی نہیں ہے۔ یہ قومِ یونس تھی اللہ۔’’ پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو، سوائے یونس علیہ السلام کی قوم کے اور جب وہ یقین لے آئی تو ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں ذلت رسوائی کا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے دیا تھا۔‘‘(یونس98)۔
یہ تقریباً تین ہزار سال قبل کا واقعہ ہے، اسے 860قبل مسیح سے 784قبل مسیح کے درمیان کابتایا جاتا ہے۔ موجودہ عراق کے شہر موصل کے عین سامنے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم اشوّریَ رہتی تھی جن کا مرکزنینویٰ کا مشہور شہر تھا۔ اس کے کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ اس قدر بڑی قوم تھی کہ ان کا داراسلطنت نینویٰ تقریباً60میل یا100کلومیٹر کے قطر پر محیط تھا۔ اس قوم کا حال بالکل ہماری طرح تھا جو حضرت یونس کے سامنے ایسے سوال کیا کرتی تھی،’’ کہاں ہے‘‘، ’’کدھر ہے‘‘،’’ کیسا ہے تمہارا عذاب‘‘۔ آپ ان کے تمسخرپر ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ اللہ کا عذاب مانگنے میں جلدی مت کرو۔ اور ایک دن اللہ نے عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کو اس عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ سے اجازت لیے بغیر شہر سے چلے گئے۔ اشوّریوں نے جب دیکھا کہ پیغمبر ہمارے درمیان موجود نہیں تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ اب عذاب آئے گا۔ پوری کی پوری قوم اجتماعی طور پر گڑ گڑا کر اللہ کے حضور استغفار کرنے لگی اور معافی کی طلب گار ہوئی اور اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ صرف عذاب کو ٹالا بلکہ ان کی مہلتِ عمر میں بھی اضافہ کر دیا اور انھیں ایک عرصے تک زندگی کا لطف اٹھانے دیا۔ یہ مدت تقریباً دو سوسال بنتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اس اشوّری قوم سے عذاب ٹلا تو وہ پھر مست ہوگئی۔ حضر ت یونس کے بعد ’’نا حوم‘‘ نبی آئے جو 720قبل مسیح سے698قبل مسیح کے زمانے میں آئے تھے۔
انھوں نے ڈرایا، کوئی اثر نہ ہوا، پھر640قبل مسیح میں صفنیاہ نبی آئے،وہ 612قبل مسیح تک رہے۔ یہ قوم جو یہ سمجھتی تھی اب ہمیں طویل مہلت مل چکی ہے، اپنے حال میں ہی مست رہی۔ لیکن اب آگیا عذاب کا اٹل فیصلہ۔ نینویٰ، تہذیب کا مرکز، عظیم قوم، عیش و عشرت سے رہنے والی، لیکن اللہ نے ان کے پڑوس میں رہنے والی’ میڈیا‘‘ قوم کو ان پر مسلط کر دیا۔ میڈیا والے اس قوم پر چڑھ دوڑے، اشوّری شکست کھا کر نینویٰ شہر میں محصور ہو گئے، میڈیا والوں نے محاصرہ کر لیا۔لیکن اب اللہ کی نصرت نہیں اللہ کا عذاب سامنے تھا۔ دریائے دجلہ میں ایک دن طغیانی آئی اور نینویٰ شہر کی مضبوط فیصل دھڑام سے گرگئی۔
میڈیا والے اس شہر پر چڑھ دوڑے اور انھوں نے پورے کا پورا شہر جلا کر راکھ کر دیا۔ اشّوری قوم کا بادشاہ اپنے محل میں جل کر خاکستر ہو گیا۔ اس سلطنت اور تہذیب کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا اور آج موصل کے سامنے ان کے کھنڈرات نظر آتے ہیں جو آتش زدگی کے نشان لیے ہوئے ہیں۔ وہ قوم جس کے آبائو اجداد نے اجتماعی استغفار کر کے اللہ سے مہت لے لی تھی، اس کی اگلی نسلوں نے نافرمانیوں سے اپنے آپ عذاب کا مستحق بنا لیا۔ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے۔
ہمیں بھی با ربار مہلت ملی، ہم سے بار بار مصیبتں اور پریشانی ، عذاب اور ابتلا ٹالے گے۔ دوبارہ زندگی گذارنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی مہلت بھی دی گئی۔ وہ اہل نظر جن کو سچے خوابوں سے اور مبشرات کے ذریعے اللہ نے خبر دے دی تھی کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔یہ صاحبان ِ نظر گذشتہ پانچ سالوں سے اس قوم کو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی استغفار کی استدعا کرتے رہے۔ ان کا پانچ سال تمسخر اڑایا جاتارہا۔ عذاب گہرا ہوتا چلا گیا۔ اللہ اپنے عذاب کی ایک شکل معیشت ضنکا‘‘ بھی بتاتا ہے۔ یعنی میں تمہاری گذران مشکل کردوں گا۔
’’ہماری گذران مشکل ہوچکی ہے۔ ہم اذیت ناک کیفیت میں ہیں لیکن ہم نے اللہ سے رجوع کرکے معافی طلب نہ کی۔ ان مُٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ہم پر آج جو عذاب مسلط ہوا وہ شدید تر ہوتا چلا گیا۔ لیکن قوم استغفار کرتی توشاید ٹل جاتا تھا۔اللہ کی ناراضی کی ایک اور علامت بدترین حکمرانوں کا مسلط ہونا بھی ہے۔ یہ مُٹھی بھر لوگ جن کی وجہ سے عذاب آتا ہے۔ ایسے میں اس بدنصیب قوم کے پاس دعا کے سوا ہے ہی کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق’’ ایک زمانہ ایساآئے گا کہ مومن کے پاس دعا کے سوا کوئی ہتھیار نہ ہوگا‘‘۔ یہ ہتھیار کب استعمار کرنا ہے، کیسے استعمال کرنا ہے۔
مایوس قوم کے لیے شاید او ر کوئی راستہ باقی ہی نہیں۔ ایک صاحب نظر تشریف لائے۔۔۔ کہنے لگے، کتنے سالوں سے لکھ رہے ہو اجتماعی استغفار کا، کوئی مانا، نہیں، مت لکھو، لوگوں سے کہو رمضان کی ستائیسویں شب ساڑھے بارہ بجے کے بعد اللہ سے گڑ گڑا کر ظالموں سے نجات کی دعا مانگیں۔ کہنے لگے ان سے کہووہ دعا کرو جو حضرت نوح نے کی تھی’’ اے میرے رب! ان میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑنا، اگر تو نے چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے بھی جو پیدا ہوگا وہ بدکار اور سخت کافر ہوگا(نوح26)۔
اللہ سے ان مُٹھی بھر لوگوں سے نجات کی درخواست کرو۔ اگر اس رات لوگوں نے آنسوئوں سے روتے ہوئے اتنا بھی کہہ دیا ’’ربّ اِنّیِ مَغْلُوب’‘ فَاْنتصَرِ‘‘۔(اے اللہ میںمغلوب ہوں اب تو ہی میرا بدلہ لے)، پھر دیکھنا کیسے نجات کی گھڑیاں آتی ہیں اور کیسے ظالم اور ان کی نسلیں اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔شرط یہ کہ اس مقدس رات کے اس پہر، صرف ظالموں سے نجات کی دعا، آنسوئوں سے تر آنکھوں اور دل کی خشیٔت کے ساتھ۔
کیا ہم نے قرآن کو چھوڑ نہیں دیا
اوریا مقبول جان پير 21 جولائ 2014
بخشش اور شفاعت کے طلبگار رمضان کے اس آخری عشرے میں رات دن آنسوئوں سے تر آنکھوں کے ساتھ اپنے گناہوں سے استغفار بھی کرتے ہوں گے اور نار جہنم سے آزادی کی دعائیں بھی۔ مسجدیں اعتکاف کرنے والوں سے آباد ہو چکیں ہیں۔ ایک اہتمام ہے جو ہر رمضان بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے میں لوگوں کا عبادات کے ساتھ تعلق دیکھ رہا ہوں۔ ہر سال اس میں اضافہ ہوتا ہے۔
مسجدوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی وسعت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جہاں کبھی تنکوں کی بنی ہوئی صفیں ہوتی تھیں‘ وہاں اب دبیز قالین بچھے ہوئے ہیں۔ کچے گارے اور اینٹوں سے بنی ہوئی گائوں کی مسجدوں پر بھی خوبصورت ٹائلیں‘ سنگ مرمر اور آرائشی میناکاری نظر آتی ہے۔ مسجد میں جہاں کبھی پنکھے بھی میسر نہ تھے اب وہاں نمازیوں کی سہولت کے لیے ائر کنڈیشنڈ لگے ہوئے ہیں۔ یہ حال اور یہ جذبہ شوق صرف مسجدوں تک ہی محدود نہیں‘ جس شہر میں کبھی ایک یا دو ایسے اللہ کے برگزیدہ بندے ہوا کرتے تھے جن کی قبریں مرجع خلائق ہوتی تھیں‘ ان پر عقیدت مندوں نے مزار تعمیر کیے ہوئے تھے‘ اب ان میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ آپ کو ہر دوسرے موڑ پر ایک گنبد ایسا نظر آ جائے گا اور شہر میں کسی نہ کسی عرس کے اشتہار بلکہ رکشوں پر فلیکس ضرور دکھائی دیں گے۔
آپ اگر کسی بھی شہر میں ایسی تقریبات جن میں عرس‘ محافل میلاد‘ محافل نعت کی فہرست مرتب کریں تو یہ آپ کے لیے ممکن ہی نہیں ہو گا کہ سب کی سب میں شرکت کر سکیں۔ نعت خوانوں کی قدر و منزلت اور عزت افزائی کا یہ عالم ہے کہ لوگ ان کو ثنا خواں مصطفے سمجھتے ہوئے ان پر دولت نچھاور کر رہے ہوتے ہیں۔ اہل بیت رسولؐ کے محبت کے مظاہرے بھی اب دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ ان میں شرکت کرنے والوں میں بھی اور اسے منانے کی شدت بھی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شہر بھر میں صرف دسویں محرم کا جلوس عزاداری نکلتا تھا جسے پورا شہر دو رویہ کھڑے ہو کر اور عورتیں بچے چھتوں سے دیکھا کرتے تھے۔
باقی جلوس بڑے شہروں میں ہی ہوا کرتے۔ لیکن اب تو ہر بستی اور قریے میں غم حسینؓ بھی منایا جاتا ہے اور شہادت علیؓ کے جلوس میں بھی آنکھیں آنسوئوں سے تر کی جاتی ہیں اور سینہ غم گساری میں ماتم کناں۔ یہی حال مجالس کا ہے‘ آپ ان کی فہرست مرتب کریں تو آپ کو کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی حوالے سے کوئی مجلس ضرور میسر آ جائے گی جہاں آپ اہل بیت رسولؐ سے اپنی محبت اور مئودت کا اظہار کرنے کے لیے جا سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد میں بھی ان سالوں میں کثیر اضافہ ہوا ہے جو گلیوں‘ بازاروں اور محلوں میں گھوم پھر کے لوگوں کو دین کی اصل اساس کی طرف لوٹنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ اکا دکا جماعت کبھی کبھار کسی محلے کی مسجد میں پڑائو ڈالتی اور لوگوں کو مغرب کی نماز کے بعد ایک ایسے بیان کی طرف دعوت دیتی جس میں دنیا و آخرت کا نفع اور بھلائی ہو۔ آج آپ کو یہ روز مرہ کا معمول نظر آتا ہے۔ کبھی صرف ایک مقام پر سالانہ اجتماع ہوتا تھا‘ اب ایسے کئی سالانہ اجتماع ملک کے ہر شہر میں نظر آتے ہیں۔ تحمل اور بردباری کا نمونہ یہ لوگ اب اپنی لگن میں تیز اور تعداد میں زیادہ بلکہ کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔
بلکہ پہلے تبلیغ صرف ایک مسلک تک محدود تھی اب یہ راستہ دوسرے مسالک نے بھی اختیار کر لیا ہے اور ان کے بھی اجتماع ہوتے ہیں اور وفود اور جماعتیں گلی گلی کوچہ کوچہ نکلتی ہیں۔ سنت رسولؐ پر عمل کرنے کے دلنشین منظر عماموں‘ مسواکوں‘ خوشبوں اور داڑھیوں کی تراش خراش سب کچھ اب زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں۔ لوگوں کا مذہب کے ساتھ جذبۂ شوق و عقیدت دیکھتے ہوئے دنیا بھر کی کمپنیاں اپنا مال بیچنے آ پہنچتی ہیں۔
ایک رنگا رنگی اور گہما گہمی ہے‘ عقیدتوں کے پھول نچھاور ہو رہے ہیں‘ علماء مذہبی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کر رہے ہیں‘ طرح طرح کے پکوان پک رہے ہیں‘ ایک پر کیف فضا ہے جس میں کمپنیوں کے تحائف کی بھی تقسیم ہو رہے ہیں‘ اشتہارات والے وہیں آتے ہیں جہاںکشش محسوس ہو اور پورے سال میں سب سے زیادہ مال رمضان کی نشریات پر لگایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اور بڑی اشتہاری مہم رمضان کی نشریات میں چلائی جاتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگ ان نشریات کو دیکھتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں ورنہ کون بے وقوف ہے جو اپنا سرمایہ ان نشریات پر صرف کرے۔
اس ساری رنگا رنگی اور گہما گہمی کے باوجود‘ مذہب اور دین سے لگاؤ کے ان عملی مظاہر کے باوصف‘ مساجد کی بہتات‘ تزئین‘ محافل و مجالس کی کثرت اور لوگوں کی دین کے ساتھ وابستگی میں اضافے کے باوجود اس امت پر ادبار کی کالی گھٹا چھائی ہے۔ ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہے‘ جو چاہتا ہے گزرتے گزرتے دو میزائل داغ جاتا ہے‘ چند لوگوں کو قتل کر جاتا ہے۔ ایک تماشہ گاہ ہیں ہم لوگ‘ ایک کھیل ہیں کہ ہر کسی کو ہمارے ساتھ کھیلنے میں لذت ملتی ہے۔ کچھ دن ہم نے اس پر چیخ و پکار کی لیکن اب ہماری بے حسی بھی عروج پر ہے۔ امت مسلمہ میں چودہ سو سالوں میں کبھی اتنی بے حسی نہیں تھی جتنی آج ہے۔
کیا کبھی ایسا ہوا کہ اس امت کے ایک علاقے میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں اور دوسری جانب لوگوں کے روزمرہ معمولات تو دور کی بات عیش و عشرت اور رنگا رنگی میں بھی فرق نہ آئے۔ کہا جاتا ہے امت مسلمہ کہاں ہے‘ اب تو سب کو اپنے اپنے ملک کی پرواہ کرنا چاہیے۔ کیا ہم اپنے ملک میں ہی سہی‘ کسی دوسرے انسان پر ظلم کی پرواہ کرتے ہیں۔ غزہ میں شہید ہونے والے معصوم بچے اور عورتیں تو بہت دور ہیں۔ کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور پشاور میں کسی بھی حادثے میں مرنے والوں کے سوگ میں صرف اس کے عزیز واقارب ہی اشک کناں ہوتے ہیں۔
ہر قوم‘ قبیلے اور مسلک کے لوگ اپنے مرنے والوں کا ماتم کرتے ہیں‘ اپنی مظلومیت پر نوحہ کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کا نوحہ پڑھنا تو اب دور کی بات ہے اب آپ ان ریاستوں میں جو مغرب نے سو سال پہلے تخلیق کی تھیں آپ کو وہاں قومیت کے حوالے سے دکھ کا اظہار بھی نظر نہیں آئے گا۔ کیا شام میں علوی کسی سنی یا شعیہ کی موت کو اپنا دکھ سمجھتا ہے‘ کیا عراق‘ مصر‘ لیبیا‘ سعودی عرب کسی ایک ملک میں بھی صرف قوم کے نام پر ہی سہی ہمارے درد مشترک ہیں۔ ہماری حالت عرب کے ان بدوؤں کی طرح ہے جو زمانہ جاہلیت میں قوم‘ قبیلے اور برادری میں تقسیم تھے بس ہم نے اس میں مسلک کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔
امت مسلمہ کا نوحہ پڑھنا اب صرف چند دقیانوسی اور فرسودہ نوحہ گروں کا مقدر رہ گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ جس قدر دین سے محبت کے مظاہر میں اضافہ ہوا ہے ہماری ذلت و رسوائی میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم جس کو دین سمجھ کر اپنی پوری زندگی اس سے وابستہ کر لیتے ہیں وہ دین نہیں بلکہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ پوری عمارت الحاد کی اینٹوں اور سود کی معیشت سے استوار ہو، اس کی بنیادوں میں قوم پرستی، باطل اور طاغوت سے محبت کا گارا اور سیمنٹ لگا ہو تو اس کی آرائش اور اس پر چھڑکی جانے والی خوشبو اس کے اندر کی بدبو نہیں مٹا سکتی۔ ہم ایک سڑاند زدہ بدبو دار معاشرہ بن چکے ہیں۔ ایسے معاشرے اسی طرح ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔
رات بھر کھڑے عبادتوں میں ہم مظلوم کی مدد اور ان کے حق میں جہاد کی آیتیں پڑھتے ہیں لیکن ہمارے قدم ان کی مدد کو نہیں اٹھتے۔ ہم اس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے روز شفاعت کے طلبگار ہوں گے جس کی امت کو ہم نے رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور مسلک کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ رمضان کی راتوں اور آخری عشرے کی عبادات میں ہم بخشش اور شفاعت کے طلبگار ہیں۔ لیکن قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ روز قیامت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے خلاف ایک مقدمہ تیار کر رکھا ہے۔ سورۂ فرقان میں اللہ قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے آخر میں فرماتا ہے ’’اور رسول کہیں گے! اے میرے رب یہ ہے میری قوم جو اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا کر چھوڑ بیٹھی تھی‘‘ (الفرقان 30)
کیا ہم نے قرآن کو چھوڑ نہیں دیا۔ اپنے سیاسی، معاشی، ثقافتی، خاندانی اور معاشرتی نظام پر ایک نگاہ ڈال لیں اور پھر قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے طلبگار رسول اللہ کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہیں۔ کون ہے جو سامنا کر سکتا ہو۔ سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔
خونی چاند، اسرائیل اور مسلمان
اوریا مقبول جان جمعـء 25 جولائ 2014
’’یہ صرف ایک کتاب نہیں ہے جس کے مندرجات نیو یارک ٹائمز میں چھپے ہیں تو شور شروع ہو گیا ہے۔ کار لوٹا گیل (Carlotta Gall) کی یہ کتاب جس میں اس نے ایک افسانوی انداز سے پاکستان کی حکومت خصوصاً فوج کا تعلق اسامہ بن لادن کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئٹہ کی گلیوں اور بازاروں میں جس طرح اُس نے طالبان کی ٹریننگ اور بھرتی کے افسانے تراشے ہیں، اس پر اس ملک کے شہروں اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے دانشور تو شاید یقین کر لیں لیکن بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں بسنے والے لوگ جہاں ذرا سی آمدورفت لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ رہتی ہو، جس معاشرے کے بارے میں آج بھی لوگ اعتماد سے کہتے ہیں کہ وہاں نہ قتل چھپ سکتا ہے اور نہ چوری، وہاں کے رہنے والے یہ کہانی پڑھیں یا تصویریں دیکھیں تو انھیں ہنسی آئے۔
لیکن اس کتاب کو یقین کی طرح پھیلانے والوں کی کمی نہیں، پوری دنیا کا میڈیا جن لوگوں کے کنٹرول میں ہے وہ یہ کہانی یہاںختم نہیں کریں گے۔ بلکہ یہ تو ایک آغاز ہے۔ یہ آغاز کیوں ہے۔ اس کا جواب ہر اُس شخص کو آسانی سے مل سکتا ہے۔جو گذشتہ دو یا تین سالوں سے اسرائیل اور امریکا میں موجود طاقتور ترین صہیونی لابی کے 2014 میں آنے والے دنوں کے خواب اور اس حوالے سے دنیا بھر میں پھیلائے جانے والے پراپیگنڈے کو جانتا ہو۔ اسرائیلی اور امریکی میڈیا ان آنے والے دنوں کی پیش گوئیوں سے بھرا پڑا ہے۔
ان پیش گوئیوں کا آغاز وہ یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود سے کرتے ہیں۔ تالمود کے مطابق،’’جب چاند گرہن لگتا ہے تو یہ بنی اسرائیل کے لیے یہ ایک بُراشگون ہوتا ہے لیکن اگر چاند کا چہرہ ایسے سرخ ہو جائے جیسے خون تو سمجھو دنیا پر تلوار آر ہی ہے‘‘۔ دنیا بھر کے یہودی گذشتہ دو ہزار سالوں سے ان چاند گرہنوں کا مطالعہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہودیوں میں تصوف کی ایک بہت بڑی تحریک ہزاروں سال سے ہے جسے قبالہ کہتے ہیں۔ ان کے ہاں تصوف کا علم زبانی طور پر منتقل کیا جاتا رہا لیکن پھر وہاں تصوف کے لٹریچر نے جنم لیا اور تین کتابیں’’ باہیر‘‘ سفر راذیل حمالنح اور’’ ظہر‘‘ لکھیں گئیں ا ور آج بھی یہ اس سلسلۂ تصوف ’’ قبالہ‘‘ کی رہنما تصانیف مانی جاتی ہیں۔
حروفِ ابجد اور الفاظ کے اعداد نکالنے کا سلسلہ بھی ان کے ہاں رائج ہے بلکہ ہمارے ہاں بھی حروفِ ابجد بالکل وہی ہیں جو ان کے ہاں ہیں۔ یہودی علم نجوم سے دور رہتے ہیں لیکن چاند اور سورج کے گرہنوں کے دوران ہونے والی زمین پر تبدیلیوں کا مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تاریخ میں جب کبھی چار خونی چاند گرہن ایک ترتیب میں آئے ہوں تو پھر بنی اسرائیل کے لیئے ا یک ا یسی آفت کا آغاز ہوتاہے جس میں یقینی فتح پوشیدہ ہوتی ہے، اور آخر فتح ہو ہی جاتی ہے، اور ایساتاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ اس سارے عمل کو وہ’’ ایلی‘‘ یعنی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی جانتے ہیں۔
خونی چاند گرہن، مکمل چاند گرہن کو کہا جاتا ہے جب چاند زمین کے سائے میں چھپ جانے کی وجہ سے بالکل سرخ رو ہو جاتا ہے۔ یہ چار مسلسل چاند گرہن گذشتہ پانچ سو سالوں میں صرف تین مرتبہ آئے ہیں۔ ان کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ خونی چاند کسی نہ کسی یہودی مذہبی دن کے دوران ظہور پذیر ہوتے ہیں۔گذشتہ صدیوں میں یہ دو یہودی مذہبی دنوں میں مسلسل رونما ہوتے رہے ہیں، اور اب 2014میںدو دفعہ اور 2015 میں پھر دو دفعہ مسلسل انھی دنوں میں رونما ہو ں گے۔ گذشتہ پانچ سو سالوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ 1492-93 میں ایسا ہوا اور بنی اسرائیل پر آفت آئی۔
اسپین کو ازا بیلا اور فرڈینڈ نے فتح کیا اور پھر یہودیوں پر ایک افتاد ٹوٹ پڑی۔ قتل کیے گئے ، غلام بنالیے گئے، زبردستی عیسائی مذہب اس طرح قبول کرئوایا گیا کہ سٔور کھانا لازمی قرار دیا گیا اور ہفتہ کے دن کاروبار کرنا بھی۔ لیکن اسی دوران کو لمبس نے امریکا دریافت کر لیا جسے یہودی اپنے لیئے’’ ایلی‘‘ یعنی اللہ کی طرف سے ایک فتح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہودی وہاں جا کر آباد ہوئے اور آج وہ اس کی سیاست، معیشت اور میڈیا پر قابض ہیں۔ دوسری دفعہ ایسے چار خونی چاند گرہن 1949-50 میں ظہور پذیر ہوئے۔ اسرائیل وجود میں آچکا تھا اور ڈیوڈ بن گوریان کی حکومت بن چکی تھی۔
اس حکومت کے خلاف سات عرب ممالک کی افواج متحد ہو کر حملہ آور ہو ئیں۔ اس وقت اسرائیل ایک نوزائیدہ ملک تھا اور مغرب سے یہودی ا ور قتلِ عام سے بھاگ کر یہودی یہاں آباد تھے۔اسرائیل کے پاس صرف ایک ٹینک تھا لیکن قوم پرستوں عربوں کے پاس دو سو ٹینک تھے۔ اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ ایلی‘‘ نے انھیں قوم پرست ، روس نواز عربوں پر فتح دی ۔ تیسری دفعہ یہ چار خونی چاند 1967-68 میں طلوع ہوئے۔ اس دوران مشہور عرب اسرائیل معرکہ تھا۔ ایک جانب قوم پرست اور کیمونسٹ نواز عرب تھے جنھیں روس کی پشت پناہی حاصل تھی۔
اسرائیل کی آ بادی 8لاکھ تھی اور عرب 5کروڑ۔ چار ملک مصر ، شام لبنان اور اردن نے حملہ کیا۔ روس نے دو ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں مصر کے سیکولر حکمران جمال عبدالناصر نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا۔’’ اے فرعون کے بیٹو! آج تمہارا موسیٰ کے بیٹوںسے مقابلہ ہے۔ اپنی تاریخی شکست کا بدلہ چکا لو‘‘ ان تمام نہاد مسلمان اور قوم پرست سیکولرز نے دراصل اللہ کے دشمن کا نام لے کر اللہ کی غیرت کو للکارا تھا۔ دوسری جانب امریکا اسرائیل کی مدد کو آیا اور دو ہزار سال بعد یروشلم کا مقدس شہر یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
گذشتہ دوسال سے یہودی ان آنے والے چار خونی چاند گرہنوں کا انتظار کر رہے ہیں اور پورے اسرائیل کے معبدوں میں مستقل دعائیں اور دیوار گریہ پر عبادت ہو رہی ہے۔ ان میں پہلا خونی چاند گرہن 15۔اپریل2014کو لگے گا، اس دوران یہودیوں کا مشہور تہوار’’ یدش‘‘ جسے انگریزی زبان میں(Passover) کہتے ہیں وہ ہوگا۔ یہ سات دن تک چلتا ہے۔ اس دوران یہودی مخصوص روٹی پکاتے اورمعبد کے سامنے قربانی کرتے ہیں۔ دوسرا خونی چاند گرہن8اکتوبر 2014کو لگے گا اور اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن سکوٹ ہو گا جسے انگریزی میں(Feast of Tabernacle) کہا جاتا ہے۔ اس تہوار کے آخر میں یوم کپور آتا ہے۔
یہ یہودیوں کی مصر سے صحرائے سینائی طرف روانگی اور پھر چالیس سال تک وہاں اللہ کے عذاب میں بھٹکنے کی یاد میں ہے۔ تیسرا خونی چاند 4۔اپریل2015کو طلوع ہو گا اور یہ ’’ یدش‘‘ کے دنوں میں ہوگا اور چوتھا خونی چاند28ستمبر2018کو ہوگا اور یہ سکوٹ کے دنوں میں ہوگا۔ پوری عالمی یہودی برادری یہ تصور کر رہی ہے ۔ کہ یہ اسرائیل کے لیئے کسی جنگ کا آغاز ہو گا جس کے آخر میں فتح ہوگی ۔ ان کے اخبارات ، رسائل اور میڈیا اس سارے عمل کو’’( Tragedy and then Triumph) کہتے ہیں۔ یعنی’’ غم وانددہ کے بعد کامیابی‘‘ اس سارے پس منظر میں دنیا بھر کا یہودی میڈیا بلکہ مغربی میڈیا جوان کے قبضے میں ہے، تمام عرب ممالک میں آنے والی عرب بہار کو مسلم امہ کی خوفناکی سے تعبیر کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اب عرب دنیا پورے عالم کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔
اس دوران وہ یہ بھی پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ امریکا اب دنیا میں امن قائم کرنے کے قابل نہیں رہا اور اسرائیل کو خود آگے بڑھ کر اس عالمی دہشت گردی کو روکنا ہوگا۔مسلمانوں سے جنگ کے راستے میں سب سے زیادہ کھٹکنے والی چیز پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ اس کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز بہت دیر سے شروع تھا لیکن اب آنے والے دنوں میں شدت لائی جائے گی۔ عربوں کی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر حملوں کی تیاریاں ہیں۔ کیونکہ یہودیوں کی اکثریت یہ یقین کرتی ہے کہ اب ان کی عالمی حکومت قائم ہونے کے دن آگئے۔ یہ وہی حکومت ہے جسے سیّدالابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے دجاّل کے ظہور سے تعبیر کیا ہے۔
خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ دّجال کا ظہور اس وقت ہوگا جب مساجد میں اس کا ذکر ختم ہو جائے گا‘‘ کیا ہم پھر اس خطرے کا مقابلہ فرعون کی اولاد ، قریش کی قوم، سائرس اعظم کی نسل اورموئن جودڑو کے وارثوں کی حیثیت سے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر شکست ہمارا مقدر۔ اس لیے کہ میرے اللہ کا وعدہ صرف اپنے بندوں کے ساتھ ہے رنگ نسل ، زبان اور علاقے کے بندوں کے ساتھ نہیں۔‘‘(یہ کالم 22۔مارچ2014ء کو شایع ہوا)
اس کالم کی اشاعت کے بعد کتنے ہاتھ تھے جو میرے گریبان تک آگئے۔ کسی نے تو ہم پر ستی کا طعنہ دیا اور کسی نے مذہبی تعصب کا، کوئی دقیانوس، فرسودہ اور غیر حقیقی تجزیہ نگار ہونے کا لیبل لگاتا رہا۔ لیکن یہودیوں نے اپنی مذہبی علامتوں کے مطابق جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ جنگ ہم کو لڑنا ہی پڑے گی۔ یہ اس امت کا مقدرّ ہے۔ یہ ریلیوں، پلے کارڈوں اور ٹاک شوز کی جنگ نہیں ہوگی۔ یہی وہ معرکہ ہے جو اس د نیا میں حق و باطل کا آخری فیصلہ کر دے گا۔
باؤلا
اوریا مقبول جان پير 28 جولائ 2014
’’زیورخ کی ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس جنت نما شہر کی وجہ شہرت سودی بینکاری نظام ہے۔ ہمارے مذہبی دانشوروں کی منطق کی رو سے تو اب تک اس شہر کا دیوالیہ نکل جانا چاہیے تھا مگر یہ شہر دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا ہے‘‘ یہ الفاظ ایک معروف کالم نگار کے ہیں جو اپنی زیورخ یاترا کے بعد علم کی ایک نئی دنیا سے آگاہ ہو کر آئے ہیں۔ اگر لفظ ’’سودی ‘‘استعمال نہ ہوتا تو پھر بھی میرے لیے گنجائش تھی کہ میں حسن ظن سے کام لیتا کہ شاید موصوف کو بینکاری کے خون چوسنے والے نظام سے عشق ہے۔ لیکن سود کا دفاع اور اس قدر واضح اور کھل کر… اس امت کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ایسی موجود ہو۔
موصوف کی یہ سطور پڑھ رہا تھا تو مجھے سود کی حمایت کرنے والوں کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ نے جو کیفیات بتائی ہیں‘ یاد آ رہی تھیں۔ اللہ فرماتا ہے ’’مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں‘ ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا (پاگل) کر دیا ہو‘ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’تجارت بھی تو آخر سود جیسی چیز ہے‘‘۔ کس قدر سچا ہے میرا رب جو ایسے دانشوروں کی ذہنی کیفیت اور دلوں میں چھپے اسلام کے نظام کے ساتھ بغض و عناد کو جانتا ہے۔ کتنی صادق آتی ہے یہ آیت ان سطور پر جو موصوف نے اپنے کالم میں تحریر کی ہیں۔
چلیں چھوڑیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو کہ ان میں حکمت وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جن کی آنکھیں مغرب کی روشنی سے چندھیا نہ گئی ہوں۔ ان کے آئیڈیل اور قابل تعریف سوئزر لینڈ اور زیورچ کے سودی بینکاری نظام کی اصل بنیاد کیا ہے۔ وہ کونسی لوٹ مار ہے جس پر اس کی عمارت تعمیر ہے اور آج بھی اس نے دنیا بھر کے مظلوم‘ مقہور اور مجبور انسانوں کی دولت کو لوٹنے والوںکو اپنا محسن قرار دیا ہے اور اس لوٹی ہوئی دولت سے لٹیروں اور ڈاکوئوں کا ایک شہر آباد کیا ہے۔ ایک ایسا شہر جو دنیا بھر کے ظالموں‘ چوروں‘ اچکوں‘ اٹھائی گیروں اور کرپٹ انسانوں کی دولت پر پلتا ہے۔
اس شہر کے لوگ ان بینکوں میں ان لٹیروں کی دولت کا حساب رکھتے ہیں‘ تحفظ کرتے ہیں اور بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں‘ عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ زیورچ اور سوئس بینکوں کی یہ روایت تین سو سال پرانی ہے۔ فرانس کے بادشاہوں کو اپنے عوام سے لوٹی ہوئی دولت کو چھپانے کی ضرورت تھی اس لیے 1713ء میں The Great Council of Geneva نے رازداری کا قانون ’’Code of Seerecy‘‘ متعارف کرایا جس کے تحت بینکار کھاتے کی رقم صرف کھاتے دار کو بتاتا ہے کسی دوسرے کو اس کی اطلاع نہیں دیتا۔
اس کے بعد انقلاب فرانس آیا تو وہ سب سیاستدان‘ وڈیرے‘ نواب جنھوں نے عوام کا سرمایہ لوٹا تھا بھاگ کر یہاں آ گئے اور اس لوٹی ہوئی دولت سے ان بینکوں کے کاروبار کا آغاز ہوا۔ یہ لوگ اسقدر ظالم ہیں کہ جس وقت 1930ء کا عالمی معاشی بحران آیا‘ دنیا کی حکومتیں اپنے لوٹے ہوئے پیسے کے بارے میں معلومات چاہتی تھیں تا کہ جوپیسہ عوام سے لوٹا گیا ہے ان کو واپس لوٹایا جا سکے تو سوئزر لینڈ نے 1934 Banking Actمنظور کیا اور دنیا کے غریبوں کو ان چوروں‘ لٹیروں‘ اور ڈاکوئوں کے نام اور ان کا سرمایہ بتانے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد جب جنگ عظیم دوم کا آغاز ہوا تو اس وقت تک سوئزر لینڈ ایسے تمام لوگوں کے لیے ایک ’’محفوظ جنت‘‘ سمجھی جانے لگی تھی جو اپنے ملکوں کا سرمایہ لوٹ کر وہاں لے جائیں۔ اسے اس زمانے میں ’’Repository of capital for unstable countries‘‘(غیر مستحکم ملکوں کے سرمایے کی جنت )کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہودیوں پر ظلم و ستم کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہولوکاسٹ تھا‘ ان کا قتل عام ہو رہا تھا۔ یہودیوں نے اپنی حکومتوں کے خوف سے اپنا سرمایہ اور سونا ان سوئس بینکوں میں جمع کروانا شروع کیا۔
سونا ان رقوم میں صرف چار ارب ڈالر کا تھا۔ان ظالم بینکاروں نے مرنے والے یا قید ہونے والے یہودیوں کے کاغذات کو آہستہ آہستہ جلانا شروع کر دیا۔ دوسری جانب سوئزر لینڈ وہ واحد ملک تھا جس نے نازی ظلم سے بھاگنے والے یہودیوں پر اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ جرمن یہودیوں کے پاسپورٹوں پر ’’J‘‘ کا لفظ لکھتے تھے اور اس پاسپورٹ کو دیکھ کر سوئزر لینڈ کی سرحد سے انھیں واپس دھکیل دیا جاتا تھاتاکہ یہ دولت واپس نہ مانگ لیں۔
جرمن آرکائیوز کے مطابق 1944 میں جرمن وزیر داخلہ ہیزرچ ہملرHeinrich Himler نے سونے اور زیورات سے لدی ہوئی ایک ٹرین سوئزر لینڈ کے بینکوں کو بھجوائی تاکہ ناگہانی کیفیت میں جنگ میں اسلحہ کی خریداری کے لیے کام آ سکے۔ جنگ ختم ہوئی اور 1946 میں پیرس معاہدہ Paris Agreement وجود میں آیا جس کی وجہ سے اس سونے پر ان بینکوں اور عالمی اتحادی طاقتوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ ان بینکوں کو ملا۔ یہودی اپنی طاقت اور بالادستی کے باوجود ان سود خور بینکوں سے اپنی دولت نہ لے سکے۔ بددیانتی کے اس کاروبار نے سوئزر لینڈ اور موصوف کالم نگار کی جنت زیورچ کو سرمایہ فراہم کیا۔
آج بھی سوئزر لینڈ کے بینکوں میں 80 فیصد رقوم تین ذرایع سے آتی ہیں۔ -1 دوسرے ملک سے ٹیکس چوری کا پیسہ جن میں یورپ اور امریکا جیسے ممالک بھی شامل ہیں‘-2 غیر ترقی یافتہ ممالک کے آمروں اور حکمرانوں کا کرپشن اور لوٹ مار کا سرمایہ اور -3دنیا کے بڑے بڑے مافیاز کے جرائم سے حاصل کردہ سرمایہ۔ یہ ہیں وہ تین بنیادی ذرایع جو اس ’’جنت نظیر‘‘ علاقے کی آمدن اور ترقی کی بنیاد ہیں۔ یہ ہے سوئزر لینڈ کا بزنس ماڈل۔ چند سال پہلے تک ٹیکس چوری سوئزر لینڈ میں جرم نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب جرمن محکمہ Deutsche post کے سربراہ Klaus Zumwinkle کے بارے میں جرمن حکام نے کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کیا تو سوئزر لینڈ نے کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کر دیا۔ان بینکوں کا سوئزر لینڈ کی سیاست پر اسقدر اثر ہے کہ اس ملک کے سیاست دان بینکاری کے غلیظ دھندے کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں ۔اسی لیے وہ یورپی یونین کا حصہ بننے سے انکار کرتے رہے۔ دنیا کا ہر چور‘ بددیانت‘ قاتل‘ ڈاکو‘ ظالم حکمران اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے ان بینکوں کو پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ فرانس کے سوشلسٹ وزیر خزانہ Jerome cahuzac کا بھی یہاں ایک خفیہ اکائونٹ ہے۔
فلپائن کا مارکوس‘ چلی کا آلندے‘ ایران کا رضا شاہ‘ پاکستان کا زرداری اور افریقہ کے آمروں کی لوٹی ہوئی رقوم ان بینکوں کے کاروبار کو مستحکم کرتی ہیں۔ اس سارے سرمائے کا بدترین اور انسانیت دشمن استعمال یہ ہے کہ یہ سب کے سب بینک اس وقت دنیا بھر میں خوراک کی تجارت اور ذخیرہ اندوزی پر سرمایہ لگاتے ہیں۔ ملکوں سے خوراک خریدتے ہیں اور پھر ان کا ذخیرہ کر کے مہنگے داموں پر لوگوں کو بیچتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں اس وقت دنیا میں ایک ارب مرد‘ عورتیں اور بچے قحط اور بھوک کا شکار ہیں۔
یہ قاتل اور انسانیت دشمن بینک اپنے سرمائے سے کھاتے داروں کو سود ادا کرتے ہیں اور سوئزر لینڈ کے عوام کو شاندار سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ پورا معاشرہ ڈاکوئوں‘ چوروں‘ آمروں‘ ڈکٹیٹروں اور انسانیت دشمن افراد کا ملازم ہے۔ ان کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور کیوں نہ ہو ڈاکوئوں‘ چوروں اور پیشہ ور قاتلوں کے کارندے سرمائے میں نہاتے ہیں۔
یہ ہے وہ جنت جس کی تعریف مذکورہ کالم نگار نے کی ہے۔ لیکن میرے اللہ نے ایسے افراد کی کیفیت کے بارے میں کیا خوب ارشاد فرمایا تھا جو ان شہروں میں چند دن گزار کر متاثر ہو جاتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے ’’دنیا کے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہر گز دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے (آل عمران 197)۔ کون ہے جو شہروں کی چہل پہل سے متاثر ہو کر بدترین جائے قرار کو منتخب کرلے۔
پارٹ سیکولرازم / پارٹ ٹائم اسلام
اوریا مقبول جان جمعـء 27 جون 2014
کس قدر سادہ لوح ہیں وہ لوگ جو یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اس مملکتِ خدا داد پاکستان کے حکمران، دانشور، اہلٍ سیاست، مذہبی رہنما اور میڈیا عالمی طاقتوں کے اس کھیل سے آزاد ہے جو مسلم امہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی مجبوریاں ان کے اقتدار کی طوالت سے وابستہ ہیں، دانشوروں کا علم ان کی سوچ متعین کرتا ہے اور یہ علم مغربی تجزیہ نگاروں کی رپورٹوں، مقالوں اور کتابوں سے روشنی حاصل کرتا ہے۔
اہلِ سیاست نے یہ تصور کرلیا ہے کہ انھیں اقتدار کی مسند پر بٹھانے اور ان کے مخالفین کی حکومتیں الٹنے والی طاقتیں اگر ان سے خوش ہیں تو وہ کامیاب، مذہبی رہنمائوں کے قطبِ نما کی سوئیوں کا رخ اپنے اپنے مسالک کے ملکوں کی سیاست میں الجھا ہوا ہے اور میڈیا تو چلتا ہی اس سرمائے سے ہے جو کارپوریٹ انڈسٹری مہیا کرتی ہے تا کہ پوری دنیا میں ایک جیسا طرزِ زندگی یا لائف اسٹائل متعارف ہو، جس کے نتیجے میں ان کا مال بِک سکے۔ یہ سب کے سب اس عالمی ایجنڈے کے مہرے ہیں اور انھیں کب ، کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے وہ طاقتیں خوب جانتی ہیں۔
اس کھیل میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مہروں کی واضح اکثریت کو اس کا علم تک نہیں ہوتا کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں، وہ تو انتہائی اخلاص کے ساتھ ایک سمت رواں دواں رہتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی جنگ جیتنا چاہتا ہے۔ کوئی ریاست بچانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تو کوئی اپنے مسلک کی برتری چاہتا ہے، کسی کو انقلاب کی جلدی ہے تو کوئی ترقی کے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی سیکولر، لبرل اور جمہوری اقدار کا تسلط چاہتا ہے تو کسی کو اسلام کے عادلانہ نظام کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانا اچھا لگتا ہے۔ یہ سب کے سب کیوں اس قدر مختلف ہیں اور کیا یہ ایسے ہی ایک دوسرے سے دست وِ گریبان رہیں گے۔ شاید ابھی کچھ دیر اور لیکن زیادہ دیر نہیں۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں اس کے بارے میں سیدالانبیاء ﷺکی ایک حدیث صادق آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسلام کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی تھی اور یہ ایک بار پھر اجنبی ہو جائے گا‘‘۔ یہ اجنبیت کیا ہے۔ آج اسلام بالکل ویسے ہی اجنبی ہے جیسے مکہ میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی دعوت کے آغاز میں تھا۔ ثقافت، طرز ِمعاشرت، معاشی نظام اور سیاسی زندگی کے مقابلے میں اسلام کی پیش کردہ دعوت اجنبی اور انوکھی لگتی تھی۔ آج بھی بالکل وہی کیفیت ہے جو چودہ سو سال پہلے تھی۔ اسلام موجودہ عالمی معاشی نظام، عالمی لائف اسٹائل، عالمی طرزِ سیاست اور عالمی طرزِ معاشرت میں بالکل انوکھا اور اجنبی ہو چکا ہے۔
پوری دنیا اس وقت لائف اسٹائل کی جنگ کا شکار ہے۔ ایک مدت ایک عالمی معاشی، سیاسی ، معاشرتی اور خاندانی نظام کو نصابِ تعلیم، میڈیا اور زیرِ اثر حکومتوں کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ذرا شک ہوا کہ یہ لوگ اس عالمی لائف اسٹائل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وہاں بدترین آمریتوں کے ذریعے اس سیکولر عالمی لائف اسٹائل کا نفاذ کیا گیا۔ تیونس سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش سے ملائشیاء تک ہر کسی کو کبھی ڈکٹیٹروں اور کبھی من پسند جمہوری حکمرانوں کے ذریعے ایسے عالمی لائف اسٹائل کا طابع کیا گیا، جس میں سودی بینکاری سے لے کر حقوقِ نسواں اور آزادیٔ اظہار کے نام پر فحاشی و عریانی تک سب زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔
اس لائف اسٹائل اور طرزِ زندگی کے مخالف جو بھی آواز اٹھی اسے سب سے پہلے میڈیا میں ایک مہم کے ذریعے بدنام کیا گیا اور اگر ممکن ہو سکا تو ایسے ملک جہاں اسلام کا یہ اجنبی اور انوکھا لائف اسٹائل جڑیں پکڑ رہا تھا وہاں فوجیں تک اتار دی گئیں۔ افغانستان اس کی بدترین مثال ہے اور مصر میں اسی حکومت کی برطرفی اس کا دوسرا طریقۂ اظہار۔ ایک بات کا فیصلہ کر لیا گیا کہ اس دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے، جو اس عالمی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی لائف اسٹائل سے مختلف ہو۔ لیکن ہر کسی کو ’’ پارٹ ٹائم‘‘ اسلام کی اجازت ہے، اذان کے وقت دوپٹہ سر پر لینا اور مہندی کے ڈانس کے وقت اتار دینا۔ سود کے پیسوں سے مسجدیں اور مدرسے بھی بنانا اور اس کے خلاف تحقیقی کام بھی کرنا۔
نماز، روزہ، حج، زکواۃ سب پر ایمان رکھنا لیکن جہاد سے نفرت کرنا۔ ایک ایسا اسلام تو موجود عالمی لائف اسٹائل میں اجنبی نہ لگے۔ ریاستیں تو اس ’’ پارٹ ٹائم اسلام‘‘ کی قائل ہو گئیں کہ ان کے حکمرانوں کے مفادات تھے مگر افراد نے دنیا بھر میں اس سے بغاوت کر دی۔ یہ لوگ امریکا کے ساحلوں سے آسٹریلیا کے پہاڑوں تک ہر جگہ موجود تھے۔ گیارہ ستمبر نے اس لائف اسٹائل کی جنگ کو واضح کیا تو آج 12 سال کے بعد خوف کے سائے اسلامی دنیا سے مغربی دنیا تک جا پہنچے۔ برطانیہ کا شہر برمنگھم جہاں ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، وہاں پچھلے دنوں پارک ویو اسکول میں حکومت کے تین انسپکٹر داخل ہوئے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کتنی لڑکیاں حجاب پہنتی ہیں اور کتنے مردوں نے داڑھیاں رکھی ہیں۔
یہ مسلمانوں کے علاقے کا اسکول ہے جو اپنے دس طلبہ میں سے آٹھ طلبہ کو یونیورسٹیوں میں بھیجتا ہے۔ یہ کامیابی بہت کم اسکولوں کو میسر ہے۔ لیکن یہ سب کے سب اس لائف اسٹائل سے مختلف ہوتے ہیں جو عالمی طرزِ زندگی ہے، اسی لیے انسپکٹروں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں سے پوچھا کہ تم کو حجاب پہننے پر کوئی زبردستی تو نہیں کرتا، اتنے زیادہ کپڑوں میں تمہیں گرمی تو نہیں لگتی۔ تمہیں ماہواری کے بارے میں کسی نے کبھی بتایا ہے۔ اس کے بعد برطانیہ کے اخباروں میں خبریں لگیں کہ مسلمانوں نے اپنے علاقے کے اسکولوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں ایسا طرزِ زندگی اور طریقۂ تعلیم رائج ہے جس سے بچے برطانیہ کی زندگی کے لیے ’’ اجنبی‘‘ اور ’’انوکھے‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ مرتب کی گئی کہ اگر ایسا ہوا تو شدت پسندی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اس کے بعد ’’پارٹ ٹائم‘‘ اسلام کو کچھ خوبصورت الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں یہ الفاظ گونجے ’’Reconcile Islam and Britishism‘‘ (اسلام اور برطانویت میں مفاہمت) لیکن پورا ماحول غصے اور خوف میں ہے چند دن پہلے لندن کے علاقے کول چسٹر کے ایک پارک میں ایک مسلمان عورت کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس نے مکمل حجاب پہنا تھا۔ ’’پارٹ ٹائم‘‘ اسلام میں ایسا لباس صرف نماز پڑھتے ہوئے پہننا چاہیے۔ اس پارٹ ٹائم اسلام یعنی مغرب اور اسلام کی مفاہمت کی بہترین علامت چند دن پہلے ایمسٹرڈیم میں نظر آئی ۔ ایمسٹر ڈیم کو یورپ کو جنسی ہیڈ کوارٹر Sex Capital کہا جاتا ہے۔
وہاں کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں دنیا بھر سے عورتیں لا کر بٹھائی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں وہاں ایک اشتہار بانٹا جا رہا تھا کہ ہمارے پاس’’ حلال طوائفیں‘‘ میسر ہیں۔ یعنی جو شراب نہیں پیتیں، سؤر نہیں کھاتیں، اور دیگر معاملات میں بھی پارٹ ٹائم اسلام کی قائل ہیں۔ ایک ایسا اسلام جو عالمی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی نظام کے اندر ضم ہو جائے۔ اسی طرح کے اسلام کو نافذ کرنے کے لیے ملکوں میں فوجیں اتاری جاتی ہیں، آئین تحریر کیے جاتے ہیں، اپنی مرضی سے الیکشن کروا کر کرزئی اور مالکی کو جمہوری طور پر منتخب کروایا جاتا ہے، مشرف سے لے کر سیسی تک لوگوں کو اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے۔
لیکن خوف کی خلیج واضح ہوتی جا رہی ہے۔ پارٹ ٹائم اسلام اور اس اسلام جس کے بارے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ایک بار پھر اجنبی ہو جائے گا، ان دونوں میں جنگ تیز ہو گئی ہے۔ امریکا سے لے کر آسٹریلیا اور یورپ کے 23 ممالک سے وہ لوگ جو اس عالمی لائف اسٹائل کے مخالف تھے، ہتھیار بند ہو کر شام اور عراق میں لڑ رہے ہیں، افغانستان اور یمن میں موجود ہیں۔ دوسری جانب تمام مسلم ریاستوں کا یہ عالم ہے کہ وہاں کی حکومتیں اس عالمی لائف اسٹائل کے تحفظ کے لیے متحد ہیں دوسری جانب اسلام کے اصل روپ کے پروانے بڑھتے جا رہے ہیں۔
صرف پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں حجاب اور داڑھی میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے اس نے کاروباری کمپنیوں کو حجاب کا شیمپو تک مارکیٹ میں لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن دوسری جانب خوف بہت زیادہ ہے پورا عالمی لائف اسٹائل بینکوں کے جعلی سرمائے اور سود سے چلتا ہے، یہیں سے میڈیا ہائوسز پروان چڑھتے ہیں اور پارٹی فنڈ سے جمہوریت کی گاڑی۔ یہ تو سب دھڑام سے گر جائے گا اگر اس لائف اسٹائل کے مخالف طاقت میں آ گئے۔
ایک جنگ ہے اس میں ایک جانب ریاستیں ہیں جو اس عالمی طرز زندگی کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور دوسری جانب وہ لوگ’’ پارٹ ٹائم ‘‘ قابل قبول اسلام نہیں بلکہ اس لائف اسٹائل کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں جو آج اجنبی ہو چکا ہے۔ ریاستوں کی کوئی سرحد باقی ہے اور نہ ان لوگوں کی۔ سیّدالانبیاء نے فرمایا دّجال کی آمد سے پہلے دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک طرف مکمل کفر ہو گا اور دوسری طرف مکمل ایمان۔ اب نہ پارٹ ٹائم سیکولرزم رہے گا اور نہ ہی پارٹ ٹائم اسلام۔
پارلیمنٹ اور میڈیا کی وڈیو گیمز
اوریا مقبول جان پير 23 جون 2014
موجودہ جمہوری ریاستی نظام کا کمال یہ ہے کہ سب یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ قومی اتفاق رائے کا اظہار دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ پارلیمنٹ کے منتخب ارکان اگر متفقہ طور پر ایک فیصلہ کر لیں تو اسے عوام کی امنگوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر میڈیا اپنے چند تجزیہ نگاروں کی گفتگو‘ یک طرفہ رپورٹوں اور مخصوص ایجنڈے کے تحت کسی کو مجرم‘ دہشت گرد اور امن کے لیے خطرہ قرار دے کر اس کے خلاف اس بات کا بار بار اعلان کرے کہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ ان کے وجود سے دنیا کو پاک کیا جائے تو اسے عالمی‘ یا قومی اتفاق رائے سمجھ لیا جاتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اس سارے کھیل میں ایک اور غیر انسانی عنصر شامل ہوچکا ہے جس نے میڈیا دیکھنے والوں کو بے حس اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری بنا دیا ہے۔ اس کا پہلا اظہار عراق کی پہلی جنگ تھی جسے دنیا بھر میں ڈش انٹینا کے ذریعے دکھایا گیا تھا۔ یہ جنگ نہیں‘ بلکہ دیکھنے والوں کے لیے ایک وڈیو گیم نظر آتی تھی۔ ایک ایسی وڈیو گیم جس میں ایک ہنستے بستے شہر پر فضائوں میں لہراتے‘ بل کھاتے اور تیز رفتاریاں دکھاتے جہاز آگ کے گولے برساتے تھے اور کئی منزلہ عمارتیں شعلوںکی لپیٹ میں آ جاتی تھیں۔
دیکھنے والوں کی ساری توجہ ان جہازوں کے ٹھیک ٹھیک نشانوں پر ہوتی ہے اور ان کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان عمارتوں میں سانس لیتے‘ جیتے جاگتے‘ سہمے ہوئے انسان بھی ہوں گے۔ خوف سے اپنے والدین کی گود میں سمٹے ہوئے بچے اور موت کو اپنی جانب بڑھتے مرد اور عورتیں بھی۔ جنگ کی اس وڈیو گیم کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس میں جہازوں کی گڑ گڑاہٹ‘ بمووں کا شور اور میزائلوں کی سنساہٹ اسقدر ہوتی ہے کہ نہ زخمی ہونے والوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی موت کی آغوش میں جانے والے لوگ۔ دنیا بھر کے میڈیا کی کیا عجیب اخلاقیات ہے کہ وہ حملہ آوروں کو دکھاتا ہے‘ جہاز‘ ٹینک‘ توپیں اور بندوقیں تو آگ برساتی دکھائی جاتی ہیں لیکن ان کے نتیجے میں مرنے والوں کی لاشیں نہیں دکھائی جاتی۔
ایسا کرنے کو میڈیا کی اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے یہMORBID یعنی دل دہلا دینے والے اور لوگوں کا سکون بربادکرنے والے مناظر ہیں۔ ان کا دکھایا جانا میڈیا اخلاقیات کے منافی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس ساری کارروائی کو ایک شاندار ہالی ووڈ فلم کی طرح دیکھیں اور پھر مزے کی نیند سو جائیں۔عراق کی اس پہلی جنگ کے بعد جہاں کہیں بھی ایسی کارروائی کی گئی ‘اسے اسی طرح وڈیو گیم کی طرح دکھایا گیا اور دنیا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ چند طاقتور ریاستیں چھوٹی ریاستوں کو کیسے تہہ و بالا کرتی ہیں اور چھوٹی ریاستیں کیسے عوام کے گھر‘ بستیاں اور شہر کھنڈر بنا دیتی ہیں۔
لیکن اس سارے کھیل میں سب سے مضحکہ خیز لفظ عالمی یا قومی اتفاق رائے ہے۔ عالمی اتفاق رائے یہ ہے کہ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ نیٹو یا چند اور ممالک مل کر کسی ایک ملک کو امن کے لیے خطرہ قرار دیں‘ اسے دہشتگرد کہیں اور پھر یہ کہہ کر اس پر چڑھ دوڑیں کہ اس دنیا میں بسنے والے سات ارب عوام کا عالمی ضمیر اس کی حمایت میں متفق ہے اور یہ عالمی برادری کا فیصلہ ہے۔ یہ ایسی بربریت تھی کہ جس پر ان ظالم اقوام کے اپنے لوگ بھی متفق نہیں تھے۔
جب برطانیہ چرچل کے زمانے میں جرمنی سے جنگ کر رہا تھا تو پورے ملک میں شاید ہی کوئی شہری ہو جو اس جنگ کے خلاف ہو لیکن عراق پر حملے کے خلاف تو صرف برطانیہ نہیں بلکہ پورا یورپ سڑکوں پر نکل آیا تھا ۔لیکن پھر بھی عالمی رائے عامہ‘ عالمی ضمیر اور عالمی برادری نے کہا کہ یہ پوری دنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کو دہشت گردوں اور امن کے دشمنوں سے پاک کیا جائے۔ یہ سب کے سب دنیا کو دہشت گردوں سے پاک کرنے چلے تھے اور آج پوری دنیا کی جو حالت ہے‘ اس نے خوف کے سائے اور لمبے کر دیے ہیں۔
عالمی برادری کے اتفاق رائے اور میڈیا کے بھروسے پر جنم لینے والے اس تصور کا یہ طریقہ ان تمام ریاستوں نے بھی آزمایا جو اس عالمی غنڈہ گردی کا شکار ہوئیں۔ ان عالمی غنڈوں نے سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے ظلم و بربریت سے ایک طرف تو اپنے خلاف جدوجہد کرنے والے اور لڑنے والے پیدا کیے جنہوں نے اسی طرح سرحدوں کو روند ڈالا جیسے ان عالمی غنڈوں نے کیا تھا لیکن دوسری جانب انھوں نے ریاستوں کو یہ حکم صادر کیا کہ تم ان لوگوں کا اسی طرح قلع قمع کرو جیسے ہم نے کیاتھا۔ یہ سب ریاستیں اس نام نہاد ’’عالمی ضمیر‘‘ اور ’’عالمی اتفاق رائے‘‘ کا حصہ بن گئیں۔
انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ یہ خونی پودا تو اسی بیج سے تناور درخت بنا ہے۔ وہ جنگ جسے ان طاقتوں نے ایک عالمی جنگ کہا تھا ان ریاستوں نے کسقدر خوشی سے اسے اپنے گلے کا ہار بنا لیا۔ اس کو اسی طرح ’’عوامی اتفاق‘‘ رائے اور میڈیا کے زور پر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ آگ اب ہماری ہے اور ہم نے ہی اس سے کھیلنا ہے۔ یہ ہماری ریاست میں لگی ہوئی آگ ہے اوراسے بجھانا ہے۔ لیکن ان کو اندازہ تک نہ تھا کہ ریاست کی سرحدیں توکب کی پامال ہو چکیں۔ دوسری جانب لڑنے والے بھی جانتے تھے کہ یہ جنگ کس کی ہے اور ان تمام ملکوں اور ریاستوں کا آپس میں کیا گٹھ جوڑ ہے۔
تمام تکنیکی مدد‘ سٹلائٹ کی سہولت‘ اسلحے کی ترسیل‘ جنگ لڑنے والوں کی تربیت‘ یہاں تک کہ ماہرین تک کی موجودگی کسی کی آنکھ سے چھپی ہوئی نہ تھی۔ یہ سب لوگ عراق‘ افغانستان‘ یمن‘ مصر‘ شام‘ پاکستان اور دیگر ملکوں کے خیرخواہ نہ تھے یہ تو اس جنگ میں اپنے اہداف لے کر آئے تھے۔ انھوں نے گزشتہ تیس سال چیچنیا‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ فلسطین‘ بوسنیا‘ یمن‘ صومالیہ‘ افغانستان اور عراق جیسے ممالک میں خون کی ہولی کھیلی تھی۔یہ سب ایک بات پر متفق تھے کہ دنیا میں جہاں کہیں کوئی ایسا مسلمان نظر آئے جو ان کے’’لائف اسٹائل‘‘ اور ان کی بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں سے متفق نہ ہو اسے بدنام بھی کرنا ہے اور پھر بدنام کرنے کے بعد نیست و نابود بھی کرنا۔
جب یہ سب ریاستیں اسلحہ تکنیکی و مالی مدد اور تربیت کے حوالے سے متفق ہو گئیں تو ان کے مقابل لڑنے والوں کا متفق ہونا بھی لازم تھا۔ ان کے لیے جہاں میدان جنگ میسر آیا وہ لڑنے لگے۔ ازبکستان والے پاکستان اور پاکستان والے عراق۔ افغانستان والے یمن اور یمن والے شام۔لیکن ان ریاستوں نے جب علیحدہ علیحدہ اپنے ملکوں میں جنگ کا اعلان کیا تو طریقہ کار وہی اپنایا۔ تمام سیاسی لیڈر شپ متفق ہے‘ اس لیے قومی اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ اب ہم نے اس جنگ میں کودنا ہے۔ عراق‘ افغانستان‘ شام اور پاکستان ‘سب جگہ یہی تو پیمانہ تھا۔ اس کے بعد میڈیا کی وڈیو گیمز شروع ہوئیں۔
آپ کسی بھی ملک کے ٹی وی چینل اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو سنسناتے ہوئے جہاز‘ گولے برساتے ٹینک اور عمارتوں پر گرتے ہوئے ٹینک نظر آئیں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ریاست کی طاقت کس طرح دشمنوں کو ملیامیٹ کر سکتی ہے ۔لیکن اس کے نتیجے میں مرنے والے کسی شخص کی لاش دکھانا میڈیا کے نزدیک جرم ہے کہ یہ ایک Morbid امیج ہے۔ کس قدر خوش فہم ہیں یہ سب لوگ کہ ایک عالمی سطح کی چھیڑی گئی جنگ کو ریاستوں کے باہمی اتحاد سے ختم کر سکتے ہیں۔ ایسی جنگیں 50 لوگوں کو قتل کرتی ہیں لیکن پچاس لاکھ لوگوں کو دربدر۔ یہ دربدر لوگ اپنے اندر ایک کہانی لیے پھرتے ہیں اور اس کہانی سے پچاس لوگ اور مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
چرچل جب دوسری جنگ عظیم لڑ رہا تھا تو برطانیہ کے چائے خانوں سے لے کر گھروں کی محفلوں تک ہر کوئی اسی جنگ کا تذکرہ کرتا تھا اور اسے جیتنے کی دعائیں بھی ‘لیکن جب ٹونی بلیئر عراق پر حملہ آور تھا تو برطانوی عوام نے اس کے خلاف ایک مظاہرہ کیا اور پھر جب یہ محسوس کیا کہ ان کی حکومت ان کی نہیں مان رہی تو وہ خاموش ہو گئے۔ صرف دو جگہ اس کا تذکرہ ہوتا رہا‘ پارلیمنٹ اور میڈیا۔
پاکستان جب 65ء میں جنگ لڑ رہا تھا تو اس کے لیے کسی قومی اتفاق رائے کے لیے پارلیمنٹ کی قرار داد کی یا آل پارٹی کانفرنس کی ضرورت نہ پڑی۔ گلی محلے میں ہر کوئی یہ کہتا پھرتا تھا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس لیے کہ لوگوں کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ آج کراچی سے خیبر تک کیا کسی گلی محلے‘ چائے خانے یا عام محفل میں دہشت گردی کے خلاف اس کا تذکرہ ہوتا ہے‘ نہیں۔ سب کسی اور دھن میں مگن ہیں۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ لیکن دو جگہ ایسی ہیں جہاں اسی قومی اتفاق رائے کا چرچا ہے‘ پارلیمنٹ اور میڈیا کی وڈیو گیمز۔
نواب خیر بخش مری۔ ایک باب تمام ہوا
اوریا مقبول جان اتوار 15 جون 2014
نواب خیر بخش مری کو میں نے پہلی دفعہ حکومت پاکستان کے فوجی طیارے سی 130 سے کوئٹہ ایئر پورٹ پر اترتے دیکھا۔ ضیاء الحق کی عام معافی کے اعلان بعد تمام بلوچ اور پشتون جلا وطنی ختم کر کے افغانستان سے پاکستان واپس لوٹ رہے تھے اور نواب مری نے اپنے قبیلے کو حکم دیا تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر افغانستان ہجرت کر جائیں۔ قبائلی زندگی کی بھی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں۔ سردار جہاز میں سوار ہے اور قبیلے کے لوگ پا پیادہ‘ چھپتے چھپاتے‘ غیر معروف راستوں سے ہوتے اس کے حکم کو قبائلی مجبوری کے طور پر بجا لاتے ہیں۔
مریوں کے افغانستان جانے کے کچھ ہی دیر بعد روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں اور افغان عوام نے اسی بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ خیر بخش مری نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھے لیکن اپنے آپ کو اسٹالن کا پرستار سمجھتے تھے۔ یوں انھوں نے جس سرزمین میں پناہ لی‘ اسی کے عوام کے خلاف روس کے ہمنوا بنے رہے۔ ان کا بیٹا گزین مری میرا دوست ہے۔ وہ روس میں زیر تعلیم تھا۔ اسے وہاں جس قدر خرچہ ملتا‘ وہ اس سے ایک شاہانہ زندگی گزارتا۔ بولان میڈیکل کالج کے ساتھ بنے ہوئے اس کے انتہائی شاندار گھر میں جب بھی اس سے ملنے گیا وہ روس میں گزری عیش کی داستانوں میں سے ایک قصہ ضرور سناتا۔ یہ اس زمانے میں بلوچستان کا وزیر داخلہ تھا اور اس کی گاڑیاں اور گارڈوں کی فوج ظفر موج نواب مری کے تصرف میں ہوتی۔
نواب مری کے تمام بیٹوں پر روس کی نوازشات تھیں جب کہ افغانستان جہاں وہ پناہ لیے ہوئے تھے اس پر روس کے بموں کی بارشیں۔ نواب مری نے زندگی بھر کبھی خود مسلح جدوجہد نہ کی لیکن اپنے پورے قبیلے کو گوریلا جنگ کی تربیت دی۔ ان کے قبیلے کی گوریلا جنگ کا سربراہ شیر محمد مری عرف جنرل شیروف تھا۔ وہ نواب مری کا اس قدر تابع فرمان تھا کہ سردار چاکر خان ڈومکی نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ کوئٹہ جا رہے تھے کہ راستے میں شیروف کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی‘ انھوں نے زخمی شیروف کو گاڑی میں ڈالا اور کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ کسی اسپتال لے جائیں لیکن شیروف نے کہا مجھے پہلے نواب کے پاس لے جائو‘ میں اس سے پوچھ کر اسپتال جائوں گا۔
ارباب کرم خان روڈ پر نواب کے گھر پہنچے‘ وہ اس وقت ورزش کرنے میں مصروف تھے، زخمی شیروف اور سردار چاکر خان انتظار کرنے لگے۔ دو گھنٹے کے بعد اندر سے پیغام آیا‘ جہاں جانا چاہتا ہے اسے لے جائو۔ لیکن اسی وفا دار شیروف مری کے ساتھیوں کی زابل‘ افغانستان میں نواب مری کے لوگوں سے لڑائی ہو گئی۔ مجھے شیروف کے بھائی نے بتایا کہ بھارت سے آنے والی امداد یہ لوگ خود اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔
دربدر اور خاک بسر بجارانی مریوں نے احتجاج کیا تو شدید لڑائی ہو گئی۔ جس کا بدلہ نواب مری کے لوگوں نے کوہلو میں بجارانی لیویز کے سپاہیوں کو قتل کر کے لیا۔ شیروف کا یہی بھائی اس وقت میرے ساتھ تھا جب میں سبی میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر 114 سال سے بند سبی ہرنائی روڈ تعمیر کروا رہا تھا۔ جہاں جہاں روڈ کھلتی مری قبائل کے لوگ افغانستان میں گزرے ایام پر تلخ ہو جاتے۔ یہ سڑک بجارانی مری علاقے سے گزرتی تھی۔ صرف تین کلو میٹر نواب مری کے اپنے قبیلے سے تھی۔ روڈ جب وہاں پہنچی تو نواب مری کے افراد نے روکنے کی کوشش کی لیکن بجارانیوں اور شیروف کے بھائی کی صرف تلخ کلامی سے واپس چلے گئے۔
افغانستان میں نجیب اللہ کی حکومت ختم ہوئی تو نواب مری کو وہاں اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوا۔ دوسری جانب بلوچستان میں جمالی قبیلہ نواب اکبر بگٹی سے خوفزدہ تھا۔ تاج محمد جمالی وزیراعلیٰ تھے۔ نواب اکبر بگٹی کو ایک شک تھا کہ ان کے بیٹے سلال بگٹی کے قاتلوں نے جمالیوں کے ہاں پناہ لی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ظفر اللہ جمالی گھر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ دوسری جانب نواب مری کے بیٹے افغانستان میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں دیکھ کر پاکستان آ چکے تھے اور باپ کو پاکستان لانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مریوں کی آباد کاری کے لیے ایک خطیر رقم حکومت نے دی۔
یہ رقم چونکہ چیک کے بجائے کیش میں دی گئی‘ اس لیے اس زمانے کے فنانس سیکریٹری نیازی کو نیب کا کیس بھگتنا پڑا‘ ملازمت گئی اور آج تک دربدر ہیں۔ تاج محمد جمالی نواب مری کو پاکستان لانا چاہتے تھے تا کہ وہ نواب بگٹی کے غیظ و غضب کا مقابلہ کر سکیں۔ افغان مجاہدین نواب مری کو اپنا دشمن گردانتے تھے۔ آئی ایس آئی حرکت میں آئی۔ مجاہدین کو راضی کیا گیا۔ فوج کا سی 130 طیارہ کوئٹہ سے اڑا جس میں نواب اسلم رئیسانی اس وفد کی قیادت کر رہے تھے۔
جب یہ سب معاملات چل رہے تھے تو میں نے ایک دن نواب اکبر بگٹی سے سوال کیا کہ کیا نواب خیر بخش مری واپس آ جائیں گے تو ان کا جواب تھا وہ جس قسم کی قسمیں کھا کر یہاں سے گیا ہے‘ اگر وہ بلوچ ہے تو واپس نہیں آئے گا۔ لیکن نواب مری کابل میں اپنے ساٹھ ستر مرغوں سمیت جہاز میں بیٹھ گئے۔ تاج محمد جمالی نے استقبال کرنے والوں کو ایئر پورٹ پر کھل کر کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ پولیس کو تحمل کا ثبوت دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ جیسے ہی پاکستان کا فوجی سی 130 طیارہ کوئٹہ ایئر پورٹ پر اترا چند نوجوان ایئر پورٹ کی چھت پر چڑھے اور انھوں نے پاکستان کا جھنڈا اتار کر بی ایس او کا پرچم لہرا دیا۔ نواب مری پاکستان کی سرحد پر قدم رکھتے ہی جیسے خاموش سے ہو گئے۔ گم سم بس اپنی لاٹھی گھماتے رہتے۔
خوبصورت‘ سرخ و سفید نواب مری کا بچپن انگریز ڈپٹی کمشنر سبی کی کفالت میں گزرا۔ میں نے آرتھنگٹن ڈبوں کی ان کے استادوں کے ساتھ خط و کتابت دیکھی ہے جنہوں نے لکھا تھا کہ یہ بچہ ہر مضمون شوق سے پڑھتا ہے سوائے حساب کے۔ اس کے بعد وہ ایچی سن کالج میں سرکاری خرچ پر داخل کیے گئے۔ کالج کی مسجد ان کا ٹھکانہ تھا جسے وہ اپنے ہاتھ سے جھاڑو دے کر صاف کرتے۔ ایچیسن کالج سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے نیوی میں ملازمت اختیار کر لی۔ ڈسپلن راس نہ آیا اور ایک دن منوڑہ کے قریب سمندر میں چھلانگ لگائی اور تیرتے ہوئے ایک بلوچ گائوں جا نکلے۔ وہاں سے واپس اپنے علاقے میں آ گئے۔ سبی کے ڈپٹی کمشنر کی فائلوں میں نواب مری کی فائل بہت دلچسپ ہے۔
اس میں ان دونوں کے ایک مکالمے کو ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ کیا ہے۔ اس نے لکھا‘ نواب مری میرے پاس آئے اور کہا مجھے سردار بنا دو‘جواب دیا‘ تمہاری عمر کم ہے‘ کہا اکبر بگٹی کو کیوں بنایا‘ کہا اس نے وہاں لیویز تھانہ بنانے کی اجازت دی‘ نواب مری نے کہا اچھا میری سندھ کی زمین مجھے دے دو‘ جیسے اکبر بگٹی کو ملی ہیں‘ جواب دیا وہ تو انھیں اس لیے دی گئیں کہ انھوں نے حروں کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا‘ آپ کی زمینیں بھاگ ٹیل کی نہر کے ساتھ موجود ہیں۔ نواب مری غصے میں آ گئے اور کہا تم لوگوں نے میری زمینیں ہڑپ کی ہیں اور اب کٹھن میں موجود تیل کے چشموں پر قبضہ کرنا چاہتے ہو لیکن اپنی زندگی میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔
نواب مری کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا ہے لیکن پاکستان واپسی کے بعد انھوں نے اپنے نظریات کی پسپائی کا جو حشر دیکھا وہ ایک داستان ہے۔ انھوں نے ’’حق توار‘‘ نامی تنظیم بنائی جس نے سریاب پھاٹک کے پاس بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا۔ میں نے خود جائنٹ روڈ پر پچیس تیس لوگوں کے مختصر ہجوم سے نواب مری کو انقلاب پر تقریر کرتے دیکھا۔ وہ سیلاچی قبیلہ جو نواب مری پر جان چھڑکتا تھا‘ انھوں نے مری فراری کیمپ کے سربراہ توکل اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر سبی انتظامیہ کے حوالے کیا کہ یہ لوگ کرنل علمدار کے قاتل ہیں لیکن شاید نواب مری کی جدوجہد کو عزت ملنا تھی کہ 1999ء میں پرویز مشرف جیسے شخص کو اللہ نے اقتدار دے دیا۔
وہ بلوچستان جو بھول چکا تھا کہ پنجابی استعمار بھی کوئی چیز ہے۔ جہاں تفتان سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک آدمی تنہا سفر کر سکتا تھا۔ اس بلوچستان کو پرویز مشرف نے نجانے کس کے ایجنڈے پر تباہی کے رستے پر ڈالا۔ مری جو افغانستان سے واپسی کے وقت افغانستان میں ہونے والے مظالم کی داستانیں سنا کر رو پڑتے تھے۔ انھوں نے بندوق اٹھا لی‘ جو امن سے رہنے کا گر سیکھ چکے تھے انھیں اس لیے آرمی ایکشن کی زد میں لے لیا گیا کہ مشرف کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ ہوئی تھی۔ وہی مری سوال کرتے تھے کہ جھنڈا چچی پل پر مشرف کے قافلے پر حملہ ہوا تھا۔ کیا ویسا ہی سلوک راولپنڈی میں کیا گیا۔
نواب مری کے لیے جمہوری ہو یا فوجی تمام ادوار میں ایک جیسا سلوک کیا گیا۔ بے نظیر نواب مری سے ان کے بیٹے بالاچ مری کی موت کا افسوس کرنے گئیں تو کہنے لگیں آمریتوں میں ایسا ہوتا ہے تو اس خاموش رہنے والے سردار نے کہا تمہارے باپ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔ خوش نصیب ہے نواب خیر بخش مری جسے اپنے وطن کی مٹی نصیب ہوئی ورنہ وہ باچا خان کی طرح جلال آباد میں دفن ہونے کی وصیت بھی کر سکتے تھے لیکن وہ کہاں دفن ہوتے‘ ایرانی بلوچستان میں‘ جہاں بلوچ بدترین زندگی گزار رہے ہیں‘ نہ سرکاری ملازمت‘ نہ عزت۔
قومی ریاستوں کی سرحدوں کا زوال
اوریا مقبول جان جمعـء 13 جون 2014
آج سے تقریباً سو سال قبل جب دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا تو ایک پر فریب اور جعلی تصور عام کیا گیا کہ ہر ریاست خود مختار ہو گی، اس کا ایک اقتدار اعلیٰ ہو گا اور اس کی سرحدیں عالمی طور پر قابل احترام ہوں گی۔ اس پر فریب اور جعلی اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر سب سے پہلے لیگ آف نیشنز قائم کی گئی۔ ہر قومی ریاست کو اس بحث مباحثے کے فورم (Debating Club) میں نمایندگی دے کر یہ ثابت کیا گیا کہ یہ آزاد خود مختار ریاستیں ہیں۔
جھنڈے، قومی ترانے، کرنسی، پاسپورٹ، ویزا ریگولیشن اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور مسلح افواج سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جو غیر منصفانہ تقسیم دنیا میں کی گئی ہے وہ ایک عالمی حقیقت ہے اور ہم ایک دوسرے کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس احترام کی دھجیاں صرف چند سالوں کے بعد جنگِ عظیم دوم میں ہوا میں اڑا دی گئیں۔ نہ کسی کو عالمی سرحدیں یاد رہیں اور نہ ریاستوں کا اقتدار اعلیٰ۔ انسانی خون اس بے دردی کے ساتھ بہایا گیا کہ اس کے بدنما چھینٹے آج بھی قومی ریاستوں کے منہ پر بدنما داغ کی طرح چسپاں ہیں۔ اتنا خون بہانے، شہر برباد کرنے اور بستیاں اجاڑنے کے بعد صرف چند سال سکون کے گزرے، اقوام متحدہ بنی اور ایک بار پھر ریاستوں کو یہ فریب دیا گیا کہ تم خود مختار ہو۔ لیکن اب کی بار اس عالمی دہشت گردی اور بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔
اب سرحدوں کی خلاف ورزی ایک ایسے طریقے سے کی جانے لگی کہ ان قومی ریاستوں کے اندر اپنے پالتو افراد کے ذریعے خانہ جنگی، گوریلا کارروائی، دھونس اور لالچ کے ذریعے اپنے زر خرید حکمرانوں کو مسلط کیا جانے لگا۔ ہر بڑی طاقت نے اپنی ایک خفیہ ایجنسی بنائی اور اس کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے مفادات کے لیے عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک کو خریدے، مخالف حکومتوں کے خلاف گوریلا کارروائی کے لیے مدد فراہم کرے، ملکوں کو آپس میں لڑائے، نسل، رنگ، زبان اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق پیدا کرے اور امن و امان کو تباہ کرے۔ ان خفیہ ایجنسیو ں کا ایک اور کام تھا، کہ وہ نظریاتی طور پر ہونے والی جدوجہد کی مدد کریں۔ کیمونزم اور کارپوریٹ جمہوریت دونوں کی جنگ میں سرحدوں کا احترام خاکستر ہو کر رہ گیا۔
بلکہ جو کوئی کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑا وہ ہیرو کہلانے لگا۔ چی گویرا چار سے زیادہ ملکوں میں لڑتا رہا اور آج تک اس کی تصویریں لہرائی جاتی ہیں۔ یہی حال ویت نام، انگولا، چلی، ہنڈوراس، کوریا اور نکارا گوا جیسے ممالک کا تھا جن میں دنیا بھر سے لوگ جا کر لڑتے رہے اور انھوں نے سرحدوں کا احترام خاک میں ملایا، مگر ہیرو کہلائے۔ یہی کیفیت ان عالمی طاقتوں کی تھی جو وہاں اسلحہ بھی سپلائی کرتی رہیں اور جہاں ممکن ہوا، فوجیں بھی اتارتی رہیں۔ یہ سب کچھ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ ہر ایک نے اپنے حمایت یافتہ لوگوں کے ایسے گروہ تخلیق کیے جو فنِ حرب اور خصوصاً گوریلا جنگ میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔
ہر ایسے ملک میں ایسے لوگوں کے منظم گروہ تخلیق کیے گئے جو حکومتوں کو ناکوں چنے چبوانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ کسی کو علاقائی آزادی کے نام پر اور کسی کو نظریے کی بنیاد پر منظم کیا گیا۔ اب یہ گروہ اس قدر منظم اور خود مختار ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک قومی ریاستوں کی سرحدوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے کہ جب عالمی طاقتیں ہی کسی دوسرے ملک کی سرحدوں کا احترام نہ کرتی ہوں تو یہ لوگ جو نظریاتی چھتری تانے لڑ رہے تھے وہ کیسے سرحدوں کا احترام کرتے۔ افغانستان میں روس آیا تو دنیا بھر سے لوگ وہاں جا کر لڑنے لگے۔ پاکستان کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کے بیٹے افغان جہاد میں شہید ہوئے اور ان کی میتیں یا تو وہیں دفن کر دی گئیں یا کسی خوش قسمت کو یہاں اپنے ملک کی مٹی نصیب ہوئی۔
ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو ایک اور مسلک کے لوگ وہاں ایران کی جانب سے لڑنے چلے گئے۔ ایرانی اگرچہ ایک قومی جنگ لڑ رہے تھے لیکن عقیدت لوگوں کو کہاں تک لے جاتی ہے کہ پاکستان کے ایک شخص کے دو بیٹے ایران عراق جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ اسے تہران کے قریب بہشتِ زھرا قبرستان میں دفن کرنا چاہتا تھا، لیکن اسے اجازت نہ دی گئی کہ وہ دونوں ایرانی النسل نہ تھے۔ ایسی ہی کیفیت افغانستان کے جہاد میں موجود تھی۔ قومی ریاستوں اور قومیتوں کا نشہ قائم تھا۔ باہر سے آ کر لڑنے والے محترم تو تھے لیکن زمین پر حق اور احترام زمین پر صدیوں سے بسنے والوں کا ہی مقدم رہا۔
لیکن گیارہ ستمبر نے تو دنیا ہی بدل ڈالی۔ وہ اقوام متحدہ جو عالمی سرحدوں کے تقدس کی ضمانت تھی، اس نے دنیا کے اڑتالیس غنڈوں (نیٹو) کو یہ اجازت دی کہ افغانستان کی سرحدوں کو عالمی ضمیر کے نام پر پامال کر دیا جائے۔ پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔ اب کی بار اقوام متحدہ کی اجازت کی بھی ضرورت نہ محسوس کی گئی۔ امریکا اپنے حلیف برطانیہ اور دیگر ممالک کے ہمراہ سرحدیں عبور کرتا عراق میں گھس گیا۔ یوں قومی ریاستوں کی خود مختاری، آزادی اقتدار اعلیٰ اور سرحدوں کے تقدس کا تصور ملیا میٹ ہو گیا۔ اس تصور کو ختم امریکا کے اس اعلان نے بھی کیا کہ ہم جس ملک میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں انھیں خود جا کر ختم کریں گے۔ ہمیں ریاستوں کی حکومتوں پر اعتبار نہیں۔ ڈرون حملے اسی تصور کی پیداوار تھے جن کا نشانہ سب سے زیادہ پاکستان بنا۔
جب خود ریاستوں نے ہی سرحدوں کے تقدس کا تصور پامال کر دیا تو وہ گروہ جو ان ریاستوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان ریاستوں کا ظلم اور مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں پوری دنیا میں بربریت کو ہوا دیتی ہیں۔ انھوں نے ایک اور راستہ اختیار کر لیا کہ فلسطین کا بدلہ یمن اور افغانستان میں بھی لیا جا سکتا ہے اور افغانستان کا بدلہ لندن اور نیویارک میں بھی۔ پوری دنیا کی ریاستی حکومتوں اور ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان ایک واضح تقسیم ہو گئی۔ عراق میں عرب دنیا کے لڑنے والے جا پہنچے اور شام میں ایران نے اپنے تیار کردہ افراد کو بھیج دیا۔ حالات یہاں تک آپہنچے کہ دنیا میں یورپ کے بائیس ممالک ایسے ہیں جہاں سے مسلمان شام میں لڑنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی تو نسلاً گورے ہیں۔ جس کو جس قدر زمین کا ٹکڑا ملا اس نے وہاں ایک ریاست کا اعلان کر دیا۔
اماراتِ اسلامیٔ شام و عراق اور اماراتِ اسلامی افغانستان۔ جہاں جہاں ریاستی دہشتگردی بڑھی وہاں سے لوگ ہجرت کر کے ان گرہوں میں شامل ہوتے گئے۔ چیچنیا، ازبکستان، تاجکستان، صومالیہ، یمن، افغانستان غرض دنیا کے ہر خطے سے لوگ ایک ایسے بڑے گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کسی طرح بھی عالمی سرحدوں کا احترام نہیں کرتا بالکل ویسے ہی جیسے عالمی طاقتیں کمزور ملکوں کی سرحدوں کا احترام نہیں کرتیں۔ یہ سرحدیں جو ماڈرن قومی ریاستوں کی علامت تھیں اب کی ان حیثیت صرف نقشے کی لکیروں سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اس کے باوجود بھی دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہماری سرزمین، ہمارا علاقہ اور ہماری ریاست دہشتگردی کے لیے کیوں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بیج تو قومی ریاستوں نے خود بویاہے۔
ستر سال ہم نے ریاستی سرپرستی میں دوسروں کی سرحدوں کو پامال کر کے ان کے گھروں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا اور اب ہم کس قدر معصوم خواہش رکھتے ہیں کہ یہ آگ اور خون کا کھیل ہماری سرحدوں میں نہ کھیلا جائے۔ اب تو جو فصل بوئی گئی ہے اسے کاٹنے کے دن ہیں۔ جو بھی ریاست جس کیمپ میں ہو گی اسے دوسرے کیمپ کی ریاستوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز اور یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی دخل اندازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرحدیں اور ملک و قوم کی خودداری ایک عورت کی عصمت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کو ہر کسی سے بچانا فرض ہوتا ہے۔ اگر محلے کا غنڈہ کسی عورت کی عصمت پامال کرتا رہے تو وہ عورت دوسرے محلے کے اوباش لوگوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
اوریا مقبول جان پير 9 جون 2014
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہے۔ اس بار گاہ میں جس کے سامنے پیمرا‘ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پَرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جو جس کے ساتھ کھڑا ہو گا اس کا انجام بھی اس کے ساتھ ہو گا۔ یہ مقدمہ اس مالکِ کائنات کے ایک دہائی تک تحمل اور دی جانے والی مہلت کے بعد درج ہوا ہے۔اسے کسی گواہ‘ وکیل یا بحث کی حاجت نہیں۔ وہ سب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں چھپا ہوا ہے اور جو تمہارے افعال سے ظاہر ہے۔ وہ حکم دے تو تمہارے ہاتھ‘ پائوں اور جسم کے اعضا گواہی دینے لگ جائیں۔ اس کا اپنا تعزیراتی قانون ہے۔
اس تعزیراتی قانون کے تحت کچھ جرائم کی فردِ جرم روزِ حشر کھلے گی۔ لیکن چند جرائم ایسے ہیں جن کا فیصلہ وہ اسی دنیا میں کرتا ہے۔ ان جرائم میں سے ایک جرم سورہ ’’النور‘‘ کی آیت نمبر19 میں درج ہے۔ اللہ فرماتا ہے ’’یاد رکھو جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے‘ ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے‘ اور اللہ جانتا ہے‘ اور تم نہیں جانتے‘‘۔ یہ وہ فردِ جرم ہے جواس قوم کے دروازوں پر چسپاں ہو چکی۔ ان سب دروازوں پر جو گیس کی بندش پر‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے‘ تنخواہوں میں اور مراعات کی خاطر‘ جمہوریت کی بقا اور آمریت کے خاتمے کے لیے سڑکوں پر نکلتے رہے۔
کبھی کسی رہنما یا پارٹی کے کہنے پر اور کبھی خود بخود غصے کے عالم میں جو انتقام اور انصاف کی خاطر لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج بھی کرتے رہے اور مخالفین کی لاشیں بھی گراتے رہے لیکن اللہ کے اس تعزیراتی قانون جزا و سزا پر ان کا نہ دل خوف سے کانپا اور نہ ان کی زبانوں میں جنبش ہوئی۔ بلکہ انھوں نے ایسے لوگوں کا تمسخر اڑایا جو اس گناہ کو ہاتھ سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے لوگوں نے جب فحش فلموں کو نذر آتش کیا تو آزادی اظہار کے نام پر ایک طوفان کھڑا ہوا۔
ہر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔ جب انھیں رسولﷺ کی یہ حدیث سنائی گئی کہ ’’جب کوئی برائی دیکھو تو ہاتھ سے روک دو‘ اگر استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو‘ اگر پھر بھی استطاعت نہیں رکھتے تو دل میں برا کہو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘ تو ایسے میں انھیں ریاست اور اس کی عملداری یاد آ گئی لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کے قوانین اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ آیا تو منافقت کی انتہا دیکھیں کہ ہائی کورٹ میں قتل ہونے والی فرزانہ پر وہی لکھنے والے یہی حدیث لکھ کر طعنے دیتے رہے۔ اللہ قیامت کے دن ان کی نیتوں پر فیصلے کرے گا۔ لیکن دنیا میں جن جرائم پر فیصلہ ہونا ہے وہ لوگوں کے ظاہر پر ہو گا۔ یہ فیصلہ بحیثیتِ مجموعی قوم‘ علاقے اور بستی پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے ’’اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لاحق نہ ہو گا‘‘ (الانفال 25)۔
یہ وبال قوموں کی کسی جرم پر بدترین خاموشی پر بھی آیا کرتا ہے۔ اللہ سورہ النحل کی 48 ویں آیت میں فرماتا ہے ’’اور اس شہر میں نو(9) لوگ ایسے تھے جو فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے‘‘ یہ وہ لوگ تھے جن کو پوری قوم نے اپنا رہنما تسلیم کر لیا تھا۔ وہ ان کی بداعمالیوں پر خاموش تھی اور ان کے ظلم پر آواز بلند نہیں کرتی تھی۔ یوں اللہ نے ان پر اپنا فیصلہ مسلط کر دیا اور بستی میں ہر خاص و عام کو عذاب کا مزا چکھا دیا۔ آج سے تقریباً دو سال قبل جب اس چینل پر شہزاد رائے کا یہ گانا بار بار نشر ہو رہا تھا تو خوف سے دل کانپ اٹھتا تھا۔
جو لوگ میڈیا کی باریکیوں کو جانتے ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فقرے یا گانے میں وقفہ (Pause) ایک خاص مقصد کے لیے دیا جاتا ہے تا کہ لوگ اس دوران اپنے دماغ میں جو خیال آئے سوچیں۔ گانے میں شہزاد رائے گاتا ہے ’’چند لوگوں نے… پوری قوم کی …‘‘…(اس کے بعد ایک لمبا وقفہ) پھر ’’قسمت اپنے ہاتھ میں‘‘۔ اس وقفے کے دوران ہر کوئی جانتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں کیا آئے گا۔ پنجاب حکومت کے ایک درد دل رکھنے والے افسر نے چینل کے مالک سے فون کر کے سوال کیا کہ تم سمجھتے ہو کہ اس سے لوگوں کے دماغ میں اشارہ کس فحاشی کی طرف ہوتا ہے‘ اس افسر کے بقول مالک نے ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا‘ ہاں جانتا ہوں اور یہی حقیقت ہے۔
افسر کے بقول ایک دن ایک اعلٰ سطح کی تعلیمی مہم کے دوران شہزاد رائے کو پنجاب حکومت نے بلایا۔ اس نے اسے علیحدہ کر کے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے اس گانے سے لوگ کس قدر مشتعل ہو رہے ہیں۔ میرے پاس رپورٹس ہیں کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے۔ اس کے اگلے دن گانا بند ہو گیا۔ میں اس افسر کا نام اس لیے نہیں لکھ سکتا کہ مجھے اس کی استطاعت کا علم ہے۔ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق فرض ادا کر دیا اور اللہ اسے اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ لیکن وہ جو استطاعت رکھتے تھے انھوں نے شہزاد رائے کو ہیرو بنایا۔ نہ اہل اقتدار کے پائوں میں لغزش آئی اور نہ ہی میڈیا کے کارپردازوں کے دل کانپے بلکہ 7 فروری 2013ء کو اسی گلوکار کو ایک مقبول ٹاک شو میں ایک قومی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ تو فرد جرم کی ایک چھوٹی سی گواہی ہے۔ اس ملک میں فحش کو عام کرنے کے لیے گزشتہ دس سالوں کے خبروں کے بلیٹن نکال لیے جائیں تو ثبوتوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو نیت باندھ کر صرف خبریں سننے بیٹھتے تھے ان کے سامنے اچانک ایک نیم برہنہ بھارتی اداکارہ ’’آئٹم سانگ‘‘ کرتی نظر آنے لگتی تھی۔ دنیا کا کونسا ایسا ’’ماڈرن‘‘ گھرانہ ہے جس میں ایک لڑکی باتھ روم سے ٹانگوں کے بال صاف کرتی نکلے اور گھر والوں کو دکھائے کہ اس کی ٹانگیں کتنی ملائم ہو چکیں ہیں۔ ہم نے اشتہارات کے نام پر یہ سب دیکھا۔
ایک فرد جرم اور بھی ہے۔ اس فرد جرم کا تعلق اس پاکستان کے حوالے سے اللہ کی غیرت سے وابستہ ہے۔ دنیا میں دو سو کے قریب ممالک رنگ‘ نسل اور زبان کی بنیاد پر وجود میں آئے‘ لیکن یہ واحد ملک ہے جو اللہ کے نام پر وجود میں آیا۔ اللہ اپنی نشانیوں سے ثابت کرتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا وہ کیا حشر کرتا ہے۔ کیا اندرا گاندھی کو سزا سکھوں کے گولڈن ٹمپل کی وجہ سے ملی‘ نہیں‘ آج تک اس خاندان کا کوئی فرد طبعی موت نہ مر سکا۔ کیا شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کی لاشیں ایک طویل عرصہ اس لیے پڑی رہیں کہ اس نے بنگالیوں کے خواب پورے نہیں کیے تھے۔
کیا ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے پورے خاندان کو احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سزا ملی کہ آج تک گڑھی خدا بخش ایک طبعی موت مرنے والے کے جنازے کو ترس رہا ہے۔ اللہ کا اپنا اصولِ سزا ہے۔ میرے شہر کے بزرگ ایک سچا واقعہ سناتے ہیں۔ ایک بھینس چور آہستہ آہستہ قاتل اور ڈاکو بن گیا۔ پولیس کی ملی بھگت سے بچ جاتا۔ ایک دن کسی بڑے شخص کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوا۔ پھانسی کی سزا ہوئی‘ سپریم کورٹ تک قائم رہی۔ ماں ملاقات کرنے گئی تو اس نے کہا کہ میں نے بہت قتل کیے لیکن یہ قتل نہیں کیا۔ ماں دریائے چناب کے کنارے بیٹھے ایک درویشِ خدا مست کے پاس چلی گئی۔ قصہ سنایا۔
درویش نے نظریں زمین پر گاڑھے کہا‘ کہ جائو اسے بولو بھینس معاف نہیں کرتی۔ اس نے بیٹے سے کہا تو اس نے سر جھکا لیا اور کہا اب مجھے ضرور پھانسی ہو جائے گی۔ یہ شروع شروع کا قصہ ہے‘ میں نے ایک گائوں سے بھینس چوری کی‘ اس کا بچھڑا ساتھ چلنے لگا۔ اتنے میں گائوں والوں کو پتہ چل گیا وہ میرے پیچھے دوڑ پڑے اور ان کی آوازیں مجھ تک آنے لگیں۔ بچھڑا آہستہ آہستہ چلتا تھا اور گائے رک کر اس کا انتظار کرتی۔ مجھ پر خوف سوار ہوا۔ میں نے بندوق سے فائر کر کے بچھڑے کو مار دیا۔ بھینس نے بس ایک دفعہ منہ اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا اور ہمارے ساتھ چلنے لگی۔
اس ملک کے اس آفاقی نظریے کا جس قدر مذاق‘ تضحیک اور تمسخر اڑایا گیا گزشتہ ستر سال کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان کا نہیں ان دس لاکھ شہیدوں کی روحوں کا تمسخر تھا۔ جن کی جانیں اس ملک کی تخلیق پر قربان ہوئیں۔ شہید مرتے نہیں‘ زندہ ہوتے ہیں اور وہ دس لاکھ اس ملک کی سرحدوں پر موجود یہ تماشہ دیکھتے رہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الا اللہ کے نعرے کو اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لیے ایک نئے نعرے میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہے۔ یہ مقدمہ آئی ایس آئی اور فوج کی تضحیک کا مقدمہ نہیں۔ اس مقدمے کا کوئی ایک مجرم نہیں۔ اس مقدمے کا پہلا عذاب ہم گزشتہ کئی سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ اللہ اس عذاب کے بارے میں فرماتا ہے ’’اور تمہیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھائے (الانعام 65)۔ لیکن شاید ہم نے اس عذاب کو اللہ کی نشانی نہیں سمجھا۔ فیصلہ تو صرف اللہ جانتا ہے۔ لیکن اہل نظر زمین کی جنبش کو خوفناک دیکھ رہے ہیں۔ زمین تھرتھراتی ہے تو سب کلمہ پڑھتے ہوئے بھاگ نکلتے ہیں۔ زلزلوں کا شور بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ کیا ہو گا۔ صرف اللہ جانتا ہے لیکن خوف سے زبانیں گنگ ہیں اور آنکھیں پتھرائی ہوئی۔
عطا مومن کو پھر درگاۂ حق سے ہونے والا ہے
اوریا مقبول جان جمعرات 5 جون 2014
دنیا پوری میں دو تصورات رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات دراصل ایک حیرت انگیز سائنسی کھیل ہے جس کی سب سے کامیاب اور عظیم ایجاد انسان ہے جو سوچنے ، سمجھنے، گفتگو کرنے اور کائنات کے رازوں کو ڈھونڈ کر کائنات کو تسخیر کرنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ اسی کی کوششوں سے دنیا خوبصورت بنتی ہے اور اسی کے ظلم و ناانصافی سے دنیا جہنم کی صورت ڈھل جاتی ہے۔ دنیا میں کوئی واقعہ، کام ، ایجاد، یا ترقی ایسی نہیں جس کی کوئی وجہ نہ ہو۔
علّت و معلول یعنیCause اور Effect کا تصور۔ ان تصورات کے حامل سائنسدانوں، دانشوروں، فلسفیوں اور عالموں کی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ کائنات خود بخود ایک سائنسی عمل سے وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ اس منظم اور مربوط دنیا کو کسی عظیم ہستی یعنی خالقِ کائنات نے تخلیق کیا ہے تو پھر بھی وہ اس دنیا کو معرضِ وجود میں لا کر اب بس تماشہ دیکھ رہا ہے اور یہاں پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کے اس کھیل سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس نے دنیا کو ایک سائنسی نظام کے تحت ترتیب دے دیا ہے اور اب یہ دنیا اس سائنسی نظام کی پابند اور محتاج ہے۔ دنیا میں بلاوجہ سیلاب نہیں آ سکتا، زلزلہ نہیں آتا، بیماریاں، قدرتی آفتیں، تباہیاں کسی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان جو کچھ اس دنیا میں کرتا ہے اس پر سزا و جزا کا بھی اسے یہیں پر مکمل اختیار ہے۔
وہ چاہے تو شہر کے شہر برباد کر دے اور پھر بھی عظیم فاتح کہلائے۔ لوگوں کو بھوک اور قحط کا شکار کر لے، ان سے بیگار لے، غلام بنائے لیکن اپنے اثر و رسوخ اور اقتدار کی وجہ سے اسے کوئی مجرم نہ گردانے، اس پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہ ہو۔ یہی سوچ ہے جو دنیا میں ہونے والی ہر ترقی اور ہر تباہی کا بھر پور سیاسی، سماجی، معاشرتی اور سائنسی تجزیہ کرتی ہے۔ خانہ جنگی کیوں ہوئی، کیسے قتل و غارت شروع ہوا، فصلیں کیسی برباد ہوئی، ملک کیسے تباہ ہوئے، قومیں کیسے غلام نہیں، ان سب کا شاندار تجزیہ دنیا بھر میں میسر ہے۔ لیکن دوسرا تصور رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کائنات کو اللہ نے ایک خاص مقصد، حسنِ ترتیب، عظیم منصوبہ سازی اور شاندار ہیئتِ ترکیبی سے پیدا کیا ہے۔
اس نے اس دنیا میں انسان کو سوچنے، سمجھنے، دیکھنے، سننے اور گفتگو کرنے کے ساتھ علم کی دولت اس لیے عطا کی ہے کہ وہ اس خالقِ کائنات کے فرامین کے مطابق اس دنیا کو حسین، خوبصورت اور رہنے کے قابل بنائے۔ اس کے لیے اس اللہ نے روز آخر جزا اور سزا کا ایک نظام مقرر کر رکھا ہے۔ روز حشر ہر فرد تنہا اور اکیلا اپنی فردِ عمل کے ساتھ پیش ہو گا۔ اللہ فرماتا ہے ’’اور ان میں سے ہر شخص قیامت کے دن اللہ کے حضور میں پیش ہو گا فرداً فرداً‘‘ (سورۃ مریم:95) لیکن قوموں اور ملتّوں کے بارے میں اس کائنات کا روّیہ اور تصور مختلف ہے اور وہ قرآنِ پاک میں بار بار اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک قوموں پر انعامات کی بارش اور آزمائشوں کے نزول کی وجوہات ہیں۔ وہ قوموں کو سرفراز بھی کرتا ہے اور صفحۂ ہستی سے مٹا بھی دیتا ہے۔ یہ سب وہ اس لیے کرتا ہے کہ یہ دنیا اس کا باغ ہے۔
وہ اس باغ کی ذمے داری انھیں کو سونپتا ہے جو اسے خوبصورت بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ وہ ایک عرصہ لوگوں کو مہلت دیتا ہے لیکن اگر اس ملت کے دوران وہ لوگ زمین کو فساد سے بھر دیں، اس میں رہنے والوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیں۔ دنیا کے اس باغ کو اپنی بداعمالیوں کی جھاڑیوں اور بد کرداریوں کے کانٹوں سے آباد کر دیں تو پھر اللہ خود صفائی کا حکم صادر فرماتا ہے۔ زلزلے، طوفان، سیلاب، وبائیں یہ سب اس کے حکم کی عمل داری سے آتے ہیں۔ لیکن وہ ظالموں کو ظالموں سے لڑا کر بھی دنیا میں امن قائم کرتا ہے اور گروہوں میں تقسیم کر کے، ایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر بھی عذاب کا مزا چکھاتا ہے۔
ہم اس کے صفائی کے حکم کی زد میں آ چکے ہیں ۔ جس قوم کو اہل نظر گزشتہ دس سال سے صرف ایک بات کی تلقین کر رہے تھے کہ اپنی بربادی اور عذاب سے بچنے کے لیے اللہ سے رجوع کرو۔ اس سے معافی کے طلبگار ہو جائو۔ وہ اللہ جو قرآن پاک میں کس قدر امید کے ساتھ انسانوں کی جانب دیکھتا ہے کہ کوئی قوم ایسی کیوں نہ ہو گئی جیسی قوم حضرت یونس ؑ کی تھی کہ معافی کی طلبگار ہوتی اور ہم اس سے عذاب ٹال دیتے، اور اسے ایک عرصہ دنیا سے لطف اٹھائے دیتے۔ قوم یونس ؑ جس پر عذاب کا اٹل فیصلہ ہو چکا تھا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کو مطلع بھی کر دیا تھا۔ لیکن اللہ کہ جو اپنے ہی فیصلوں پر قادر ہے، تو جب اس نے دیکھا کہ پوری قوم اس کے حضور سجدہ ریز ہو گئی، گڑ گڑا کر معافی کی طلبگار ہو چکی تو اس نے معاف فرما دیا۔
اللہ کے ان فیصلوں کے تین مدارج ہیں۔ ہم بحیثیت پاکستانی ان تینوں میں سے آخری درجے پر آ چکے ہیں۔ اللہ سورہ الرعد کی آیت نمبر10 میں قوموں کی حالتوں کے بارے میں فرماتا ہے۔ پہلی حالت: ’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگران مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد طویل عرصہ ہم اللہ کی اسی نگہبانی کے سائے میں زندگی گزارتے رہے۔ ہم خوشحال بھی تھے اور پر امن بھی۔ دوسری حالت: یقین جانو اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ چاہے‘‘ یہ مہلت بھی ہمیں ملی۔ ہم سے فرشتوں کی نگہبانی تو اٹھالی گئی لیکن ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا گیا اور ہمیں چار دہائیاں موقع دیا گیا کہ ہم اپنے حالات بدلنے کی خواہش کا اظہار ہی کر دیں۔
ہم نے چوروں، بددیانتوں، لٹیروں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا تمسخر اڑانے والوں کو اپنا رہنما چنا۔ ہم نے ہر اس چوکھٹ پر اپنا سر جھکایا اور ہر اس طاقت کی غلامی کی جو اس مالکِ کائنات کے مقابل کھڑی ہوئی۔ ہم نے جمہوری رہنما بھی ایسے منتخب کیے جنھیں تمام ا میدیں دنیا اور دنیا کے تاجداروں سے تھیں اور ہمارے فوجی ڈکٹیٹر بھی ایسے تھے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا بھری محفلوں میں مذاق اڑاتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے‘‘۔ ان کا تمسخر عجیب تھا، کہتے تھے، کہ اس سوچ کے ساتھ کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ تیسری حالت: ’’اور جب اللہ کسی قوم پر آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کا ٹالنا مکمن نہیں، پھر ایسے لوگوں کا پنے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہوتا‘‘
ہم اسی تیسری حالت میں داخل ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں ہمارا اپنے سوا کوئی رکھوالا اور مدد گار نہیں ہے۔ جس مغرب کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ اپنی زمین کو آگ اور خون میں نہلایا وہ ہماری سرزمین پر اپنا کھیل شروع کر چکا۔ ان کے نزدیک اس خطے میں پاکستان کی وہی حیثیت ہے جو جنوبی امریکا میں کولمبیا کی تھی۔ اپنی اس علاقائی اہمیت کی جو سزا کو لمبیا نے بھگتی اسی کی تیاریاں یہاں پر ہیں۔ ہر بستی، قریہ اور علاقہ میں فساد، قتل و غارت علاقائی اور فرقہ وارانہ جنگیں۔ مغرب میں پناہ حاصل کیے ہوئے سیاسی رہنما اور ان کے ساتھ کھیلنے اور ان کے ذریعے ہمارے امن دامان سے کھیلنے کا عالمی طاقتوں کا خفیہ منصوبہ۔ پڑوسیوں کے خونحوار پنجے جو ہمارے جانب بڑھ رہے ہیں۔
ایسے پڑوسی جن سے نہ خیر کی توقع اور نہ دوستی کی۔ لیکن اس سب سے زیادہ خوفناک یہ کہ ہم پر اللہ نے ایک ایسی کیفیت طاری کی دی گئی ہے کہ ہم عقل و ہوش سے عاری کر دیا گیا ہے۔ ہماری حالت سورۃ الاعراف کی179 ویں آیت کی طرح ہے: ’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں‘‘۔ یہ ہے ہماری حالت ہمارے انجام پر دونوں متفق ہیں۔ اہل خرد، اہل دنیا اور عالمی تجزیہ کار بھی اور اہل نظر بھی۔ لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔
اہل دنیا ہماری تباہی اور بربادی کا نقشہ کھینچ رہے ہیں جب کہ اہل نظر ہماری شامت اور آزمائش کے بعد اصلاح اور خیر کے موسموں کی نوید دے رہے ہیں۔ لیکن اس آزمائش کے چند مہینوں میں ہمارا کوئی رکھوالا نہیں۔ ہم نے جن قاتلوں، غنڈوں،لیٹروں، چوروں اور ظالموں کو اپنے ہاتھ سے پالا تھا، اب وہ بلائیں ہمارے ساتھ گتھم گتھا ہونے والی ہیں، ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے والی اور اللہ کے اس اصول کے مطابق کہ اگر ہم ظالوں کو ظالموں سے نہ لڑایں تو دنیا میں امن کیسے ہو۔ چند ماہ۔۔۔ اور پھر دائمی امن۔ خوشحالی
عطا مومن کو پھر درگاۂ حق سے ہونے والا ہے
شکوۂ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی
علاقائی ثقافتیں اور عورتوں کا قتل
اوریا مقبول جان اتوار 1 جون 2014
کیسے کیسے گھبرو‘ غیرت مند پنجابی اور اپنی بڑائی کی داستانیں بیان کرنے والے زندہ دلان لاہور اس دن ہائی کورٹ میں موجود تھے جب ایک بچی اینٹوں اور پتھروں کی زد میں تھی۔ وہ تڑپتی سسکتی رہی لیکن کسی جاٹ‘ راجپوت‘آرائیں‘ کشمیری‘سید‘ گجر اور دیگر پنجابی غیرت مند اقوام کے فرد میں ہمت نہ ہوئی کہ اس کی جان بچاتااور کیونکر بچاتا۔ کہ یہ رویہ تو ان کے اپنے رگ و پے میں تین ہزار سال سے ایک روایت کے طور پر دوڑ رہا ہے کہ عورت ان کی ذاتی جاگیر ہے۔
جاٹ کی لڑکی‘ راجپوت کی بیٹی یا گجر کی بہن کسی دوسرے خاندان میں اپنی مرضی سے شادی کر کے تو دکھائے۔ جو عورت ہماری ناک کٹوائے گی ہم اسے دنیا میں رہنے نہیں دیں گے۔ یہ عورتیں ہماری روایات کو نہیں جانتیں‘ ہمارے آبائو اجداد کا انھیں علم نہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جب جنگ کرنے نکلتے تو قلعوں میں عورتوں کو بند کر کے آگ لگا دیتے تھے تاکہ شکست کی صورت میں یہ دشمن کے ہاتھ نہ آ جائیں۔ ہم تو نسل در نسل ایک خون اور ایک ہی برادری میں رشتے کرتے تھے کہ کہیں ہماری رگوں میں کسی ادنیٰ خون کی آمیزش نہ ہو جائے۔
یہ سب صرف پنجاب یا پنجابیوں تک محدود نہیں۔ بلوچستان میں جب کسی عورت کو سیاہ کار کیا جاتا ہے تو پورے کا پورا قبیلہ اسے بلوچی رسم و رواج کا نام دیتا ہے۔ ہر قبیلے کا ہزاروں سال سے عورتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک اور رویہ ہے جو چلا آ رہا ہے۔مری قبائل کے لوگ اپنی عورتوں کو گوشت نہیں کھلاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو خود گوشت ہے اسے گوشت کیا کھلانا۔ سیاہ کاری میں جب لڑکی کو قتل کیا جاتا ہے تو پھر پورے قبیلے پر یہ فرض عاید ہو جاتا ہے کہ اس لڑکے کو بھی قتل کریں۔
اگر سیاہ کار عورت بھاگ کر سردار کے ہاں پناہ لے لیتی ہے تو پھر اس کی جان تو بچ جاتی ہے لیکن اس کو سندھ کے علاقے میں بیچ دیا جاتا ہے اور اس کی فروخت سے ہونے والی آمدنی میں آدھی رقم سردار کا حصہ ہوتی ہے اور آدھی گھر والوں کا۔ یہ سب بلوچ غیرت اور بلوچ رسم و رواج کے نام پر ہو رہا ہوتا ہے۔ پشتونوں میں بھی سیاہ کاری کے ویسے ہی قانون کئی ہزار سال سے نافذ العمل ہیں‘ ان کے ہاں تو صلح کی صورت میں عورتیں بدلے میں دینے کا رواج آج تک چلا آ رہا ہے۔ ’’سوارا‘‘ کی رسم اسی کا ایک روپ ہے۔
غیرت مند سندھی بھی جو کئی ہزار سال سے اجرک‘ سندھی ٹوپی‘ ملاکھڑا‘ الغوزہ اور رقص کو اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں وہ کارو کاری کو بھی ویسے ہی ثقافت کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی اگر کسی عورت کو اس جرم میں قتل کیا جا رہا ہو تو کوئی سومرو‘ گبول‘ پلیجو‘ زرداری‘ ابڑو یا بھٹو اسے بچانے کے لیے نہیں آتا۔ کسی کو ایک مظلوم کی جان بچانے کے لیے غیرت و حمیت کی داستانیں یاد نہیں آتیں۔
وہ بلوچ جو حرّیت کے گیت گاتے ہیں‘ اپنی بہادری کے قصوں پر نازاں ہوتے ہیں ان میں سے بھی کسی مری‘ بگٹی‘ مینگل‘ بادینی‘ جمالدینی‘ رئیسانی‘ پرکانی یا لہڑی کو آپ بہادری کا طعنہ دے کر دکھائیں اور انھیں اس مظلوم عورت کے پیچھے پورا قبیلہ پڑا ہوا ہے اور وہ جان بچانے کو بھاگ رہی ہے‘ دربدر ہو رہی ہے‘ تمہیں تمہاری شجاعت کا واسطہ اس کی جان بچائو تو کوئی آگے نہیں بڑھے گا بلکہ کتنے آرام سے کہہ دے گا کہ یہ ان کے قبیلے کی رسم ہے۔ عورت ان کی ہے میں کیا کروں اور پھر کہے گا کہ اگر میرے قبیلے میں بھی کوئی ایسی عورت ہوتی تو میں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے بعد آنے والی میری نسلوں کو یہ طعنہ دیں کہ تمہارا باپ یا دادا بے غیرت تھا۔ بلوچستان میں ایک بڑے سردار کی بیٹی پر یہ الزام لگا تھا، پڑھا لکھا آدمی تھا، اس نے بیوی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا ۔
آج تک اپنے قبیلے میں وہ اور اس کی اولاد واپس نہ آ سکی۔ یہی حال پشتون معاشرے کا ہے وہاں تو ایسی باتوں کا بھی عورت پر الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بے چاری بکریاں چرانے گئی‘ راستے میں سوکھی گھاس پر سستانے کو لیٹ گئی‘ کپڑوں میں گھاس کے تنکے دیکھ کر خاوند نے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ صدیوں پرانا نہیں بلکہ چند سال پہلے میری وہاں نوکری کا قصہ ہے۔ ایسے کتنے واقعات روز ہوتے ہیں لیکن کوئی یوسفزئی‘ کاکڑ‘ خلجی‘ غوری‘ اچکزئی اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے اپنے قبیلے کے لوگ لے کر ان عورتوں کی داد رسی کے لیے باہر نہیں آیا۔ سب اسے ایک ثقافتی مجبوری سمجھتے ہیں۔ بڑے سے بڑا پڑھا لکھا پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ اور پٹھان اپنی اس نسلی ثقافت کا اسیر ہے۔
لیکن میرا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ان ’’عظیم‘‘ ثقافتوں کی بھینٹ کوئی عورت چڑھتی ہے تو میرے ملک کے اکثر ’’عظیم‘‘ دانشور اس کی سزا مسلمانوں کو گالی دینے سے دیتے ہیں۔ انھیں فوراً مسلم امہ یاد آ جاتی ہے انھیں اسلام کے نام پر بنا ہوا ایک ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ستانے لگتا ہے۔ کوئی ان لوگوں کی جانب انگلی نہیں اٹھاتا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تین ہزار سال سے سندھی‘ بلوچ‘ پشتون اور پنجابی ہیں‘ چند سو سالوں سے مسلمان ہیں اور تقریباً 70 سال سے پاکستانی۔ میرے آقا سید الانبیاﷺ نے جب عرب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی تو عرب کے بدّو بھی یہی کہتے تھے کہ ہم ہزاروں سال سے عرب ہیں ‘تم یہ نئی باتیں کہاں سے لے کر آئے ہو۔
ہم اپنی ثقافت تہذیب روایات کو کیسے چھوڑ دیں۔ کوئی کالم نگار‘ تجزیہ نگار یا اینکر پرسن آج تک یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرسکا کہ تم جن ثقافتوں پر ناز کرتے ہو ان میں بھنگڑا ساگ اور ہیر کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل بھی تو اس کا حصہ ہے۔ اجرک ٹوپی اور دھمال کے ساتھ کاروکاری‘ لیوا‘ نڑسر اور بلوچی پگڑی کے ساتھ سیاہ کاری اور اتنڑ رباب اور ٹپوں کے ساتھ ’’سوارا ‘‘بھی تمہاری تین ہزار سالہ ثقافتوں میں رچی ہوئی لعنتوں میں سے ایک ہیں۔ کوئی ان قوم پرست رہنمائوں کا گریبان تھام کر سوال نہیں کرتا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم کیسے غیرت مند پنجابی‘ پٹھان‘ بلوچ اور پشتون ہو جو مجبور اور کمزور عورتوں کو قتل کرتے پھرتے ہو۔
ہر ایک کو مسلمان مولوی‘ اسلام اور نظریہ پاکستان یاد آ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان سب کے دماغوں میں صرف ایک مقصد چھپا بیٹھا ہے کہ وہ کس طرح اسلام اور رسولؐ اللہ کے فرمودات کو نشانہ بنائیں ۔لیکن ایسا کرنے کی جرات نہیں کر پاتے ۔اسی لیے جب بھی کوئی مجبور عورت جو ثقافت کے نام پر قتل کی جاتی ہے تو اس جرم کی غلاظت کو مسلمانوں‘ مولویوں اور نظریہ پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے کا ’’خوشگوار‘‘ فریضہ انجام دیتے ہیں اور پھر اس پر پھولے نہیں سماتے۔ وہ اسلام جو بے گناہ عورت کو قتل کرنے کے بارے میں قرآن کی ’’سورۃ التکویر‘‘ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے کو کس شدت سے بیان کرتا ہے۔
اس سورہ کا بہائو ایک خاص کیفیت میں اس غصے اور ناراضگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے‘ ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا‘ جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے‘ جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا‘ جب دس مہینے کی حاملہ اونٹیوں کو بھی بے کار چھوڑ دیا جائے گا‘ جب وحشی جانور اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب لوگوں کے جوڑے بنا دیے جائیں گے‘ ‘۔قیامت کی یہ کیفیت بتانے کے بعد اللہ اس منظر نامے میں یہ سوال اٹھاتا ہے۔ ’’جس بچی کو زندہ گاڑھا گیا اسے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا ‘‘یعنی اللہ اس وقت قاتل کے چہرے کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا۔
یہ وہ دن ہو گا جب نہ پنجابی غیرت کام آئے گی اور نہ پشتون حمیت۔ نہ بلوچی شجاعت اور نہ ہی سندھی تہذیب۔ اس دن صرف میرے رب کا فیصلہ ہو گا لیکن میرے ملک کے عظیم دانشور جو ساٹھ سال سے اس ملک کے لوگوں کو پنجابی‘ پشتون‘ بلوچ اور سندھی بنانے میں مصروف عمل ہیں وہ انھیں مسلمان کیسے بنا سکتے ہیں۔ انھیں اپنی ثقافتوں پر فخر اور غرور سکھائو گے تو ایسے ہی ہائی کورٹ کے دروازوں پر بچیاں قتل ہوتی رہیں گی۔
بدترین غلامی کی جانب
اوریا مقبول جان پير 26 مئ 2014
کیا کسی کو اندازہ ہے کہ ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں بڑے بڑے موٹروے‘ شاندار ایئر پورٹ‘ شہری زندگی کے چمک دمک والے منصوبے‘ عالمی فاسٹ فوڈ کی دکانیں‘ ہر طرح کے فیشن برانڈ‘ شاپنگ مال‘ عالمی معیار کے تھیٹر‘ سینما گھر اور ثقافتی مرکز کیوں کھولے جاتے ہیں۔ غربت کی ماری ان اقوام کا ایسا جزیرہ نما روشن چہرہ کس مقصد کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ یہ تمام پسماندہ ممالک سرمایہ کاری کے لیے دنیا بھر میں بدنام سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن کوئی سوال نہیں کرتا کہ فاسٹ فوڈ کے ریستورانوں‘ فیشن کی دکانوں اور دیگر مصنوعات پر آپ کی سرمایہ کاری خطرے میں کیوں نہیں پڑتی۔ جس ملک (پاکستان) میں چھ کروڑ لوگ بس کا نمبر تک نہ پڑھ سکتے ہوں وہاں شاندار ایئر کنڈیشنڈ بس چلا دی جائے۔
جہاں روزانہ لاکھوں لوگ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں وہاں ان کے کچے مکانوں‘ اور تعفن زدہ محلوں کے درمیان سے چمکتی ہوئی موٹروے گزرے‘ ایک چمکدار سڑک جس کے دونوں جانب کروڑوں مفلوک الحال رہتے ہوں جن کی بستیاں ایک ہزار سال پرانے دور کی یاد گار معلوم ہوں اور موٹروے پر سفر کرنے والے بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے وہاں پر موجود لوگ زندگی کو ایسے دیکھیں جیسے افریقہ کے سفاری پارک میں گاڑیاں گزارتے ہوئے قدرتی ماحول میں اچھلتے کودتے جانوروں کو دیکھتے ہیں۔
میرے جیسے غریب و افلاس کا شکار لیکن زمینی وسائل سے مالا مال ملک ایک عالمی تماشہ گاہ ہیں۔ جہاں کے رہنے والے کروڑوں لوگوں کی تعلیم‘ صحت‘ رہائش اور روز گار کے لیے کوئی قرضہ نہیں دیتا۔ جہاں معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے کوئی امداد مہیا نہیں کرتا‘ بلکہ صرف اور صرف بڑے بڑے انفراسٹرکچر بنانے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے دولت کی بوریاں اور بڑی بڑی سفارشات لے کر ان ملکوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ان ممالک کے سیاسی رہنما‘ دانشور اور صحافی اگر صرف دو کتابوں کا مطالعہ کر لیں تو انھیں ہر ایسے ’’شاندار‘‘ منصوبے سے نفرت ہونے لگے۔
انھیں وہ مستقبل نظر آ جائے جو ہر اس غریب ملک کا مقدر بنا ‘ جنھوں نے ان منصوبوں کے لیے اپنی قوموں کو قرض کی دلدل میں اتارا‘ ان منصوبوں کی تعریف و تصریف سے شہرت کے محل کھڑے کیے‘ لیکن ان عوام کو صحت‘ تعلیم‘ صاف پانی‘ سیوریج‘ امن و امان‘ بنیادی رہائش اور روز گار فراہم نہ کر سکے۔ ان حکمرانوں کے نام کی تختیاں ان ائرپورٹوں‘ موٹرویز‘ ثقافتی مراکز اور یاد گاروں پر لٹکتی رہیں اور عوام کی نسلیں غربت و افلاس کے باوجود ان عیاشیوں کے لیے لیا گیا قرض ادا کرتی رہیں۔ یہ دونوں کتابیں ایک ایسے معیشت دان نے لکھی ہیں جو دنیا بھر کے ممالک میں ایسے تباہ کن منصوبے لے کر جاتا رہا اور ان منصوبوں کی وجہ سے یہ تمام ملک بدترین انجام تک پہنچے۔
یہ شخص جان پرکنز John Perkins ہے اور اس کی پہلی کتاب “Confessions of an Economic Hitman” 2006ء میں آئی اور دوسری کتاب “The Secret History of American Empire” 2009 میں آئی۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ دونوں کتابوں کا اردو ترجمہ ’’ایک معاشی غارت گر کی کہانی‘‘ اور ’’امریکی مکاریوں کی تاریخ‘‘ کے نام پر سے اب ہو چکا ہے۔ یہ دونوں کتابیں کسی ناول کی طرح دلچسپ‘ حیرت ناک اور سنسنی سے بھر پور ہیں۔ اس نے پانامہ‘ کولمبیا‘ وینز ویلا‘ یو سی ڈور، انڈونیشیا‘ مصر اور افریقہ کے ممالک میں اپنی سرگرمیوں کی داستانیں بیان کی ہیں۔ اس کی کتابیں پڑھنے کے بعد آپ کو اپنے رہنمائوں کی بے ضمیری‘ وطن فروشی اور بددیانتی پر رونا آنے لگتا ہے۔
آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والا‘ سڑک پر بجری کوٹنے والا‘ مشینوں پر زندگی ختم کرنے والا‘ اور نائی‘ موچی‘ ترکھان‘ جولاہا اور کمہار ان شاندار انفراسٹرکچر پراجیکٹ اور ترقی کی علامت موٹرویز اور شہری سہولیات کا قرض اتارتے‘ اتارتے افلاس اور بیماری میں خون تھوکتے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ پرکنز اپنی کتابوں میں اس ساری سازش کے تین مدارج بتاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر کے وہ تمام امیر ممالک جن کی نظر غریب ممالک کے معدنی وسائل پر ہوتی ہے وہ میرے جیسے ’’معاشی ضرب کار‘‘ Economic Hitman پالتے ہیں۔ ان افراد کی تنخواہ اور اخراجات وہ بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں اور تیل و معدنی وسائل پر قبضہ کی خواہش مند کارپوریشن اٹھاتی ہیں۔
ان معاشی ضرب کاروں کو جس بھی ملک میں بھیجا جاتا ہے‘ یہ اس کے حوالے سے بڑی بڑی سڑکوں‘ ائیر پورٹوں اور دیگر خوشنما منصوبوں سے بھری رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس غریب ملک کو زیادہ سے زیادہ قرضے کی دلدل میں ڈبویا جا سکتا ہے۔ جہاں دو رویہ سڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کا بہانہ بنا کر چار رویہ سڑکوں پر زور دیا جاتا ہے۔ یہاں وہ اپنے ایک ہم پیشہ کی مثال دیتا ہے جس نے انڈونیشیا کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ اسکیم بنائی تو اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس کے کے بعد پرکنز کو ذمے داری سونپی گئی اور اس نے پچیس گنا لاگت کے منصوبے بنا کر پیش کیے جنھیں عالمی بینک اور قرضہ دینے والے ممالک نے خوشدلی سے قبول کرلیا۔
جب ایسے منصوبے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر یہ ’’ہٹ مین‘‘ اس ملک کی سیاسی قیادت‘ بیورو کریسی اور دیگر کار پردازوں کو انتہائی خوشنما طریقے سے بریفنگ دیتا ہے۔ اس دوران اس کی تلاش ایسے بددیانت‘ لالچی‘ بے وقوف یا شہرت کے بھوکے اہل اقتدار پر ہوتی ہے جو ان منصوبوں سے سستی شہرت بھی کمائیں اور مال بھی بٹوریں۔ یہاں ان لوگوں کا ایک جتھہ بن جاتا ہے۔ ہر کوئی میٹنگوں میں ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے۔ انھیں ملک کی بقا اور سلامتی کی علامت بتاتا ہے۔ یوں جب یہ منصوبے منظور ہو جاتے ہیں تو اس امیر ملک یا مالیاتی ادارے سے قرضے کی رقم کا بندوبست بس ایک کارروائی سی ہوتی ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ رقم اس امیر ملک سے غریب ملک میں منتقل نہیں ہوتی۔ امریکا ہو یا فرانس‘ ترکی ہو یا چین۔ یہ ممالک قرضے کی یہ رقم اپنی کنسٹرکشن کمپنیوں کو اپنے ہی ملک میں ادا کر دیتے ہیں۔
رقم اسی ملک میں رہتی ہے اور قرضہ غریب ملک کے عوام کی گردن پر۔ اس کے بعد ان ہٹ مینوں کی بنائی ہوئی جعلی اعداد و شمار کی رپورٹوں پر مبنی پراپیگنڈہ شروع ہوتا ہے۔ یہ موٹروے بنا تو تجارت اتنے گنا بڑھے گی‘ یہ بندر گاہ بنی تو ملک پورے مشرق وسطیٰ کی تجارت پر چھا جائے گا۔ یہ ٹرین یا بس چلی پڑی تو عام آدمی کے دن بدل جائیں گے۔ ان بسوں میں اور ان موٹر ویز پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں مفلس‘ نادار‘ بیمار‘ بے روز گار‘ ان پڑھ اور پسماندہ لوگ سفر کرتے ہیں جنھیں نہ تعلیم ملتی ہے‘ نہ دوا‘ نہ گھر میسر ہوتا ہے اور نہ نوکری۔ لیکن یہی لوگ ہیں جو ان موٹرویز‘ بندر گاہوں اور ایئر پورٹس کا قرض اتار رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی ملک پر ڈھیر سارا قرض چڑھ جاتا ہے تو پرکنز کے مطابق وہاں عقاب Hawks کو بھیجا جاتا ہے۔
یہ وہ کمپنیاں اور کارپوریشن ہوتی ہیں جن کی نظر اس ملک کے معدنی وسائل‘ تیل‘ لوہا‘ تانبہ‘ سونا اور دیگر دھاتوں پر ہوتی ہے۔ کچھ وہاں کی زرعی زمینوں پر کارپوریٹ فارمنگ چاہتی ہیں۔ یہ عقاب اس قرضے میں جکڑی قوم کے وسائل پر یوں ٹوٹتے ہیں جیسے بھوکے بھیڑئیے۔ افریقہ اس کی بدترین مثال ہے۔ پرکنز کہتا ہے کہ میں حیران ہوتا تھا کہ ان افریقی ممالک میں جہاں کروڑوں لوگ بھوک سے مر رہے تھے وہاں برگر‘ پیزا اور عالمی فوڈ ریستوران دھڑا دھڑ کھلتے جا رہے ہیں۔ ان کو چلانے کے لیے ایک مڈل کلاس بنائی جاتی ہے جس کو کارپوریٹ کلچر مناسب تنخواہ دیتا ہے۔ این جی اوز کو فنڈ ملتے ہیں‘ جنکے کے لیے مہنگی تعلیمی سہولیات اور مہنگے اسپتال۔
یہ لوگ ہیں جو اس انفراسٹرکچر کی ترقی کو اخباروں اور ٹیلی ویژن پر اصل ترقی بتاتے ہیں۔ ایسے غریب ملکوں میں اگر کوئی ان ’’عقابوں‘‘ کی بات نہ مانے تو لیڈروں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ چلی کا آلندے، کانگو کا لوممبا اور پانامہ کا صدر اس کی مثالیں ہیں۔ اس کے ساتھ ان ملکوں کو حقوق کی جنگ کے نام پر قتل و غارت تحفے میں دی جاتی ہے۔ صرف سوڈان‘ روانڈا اور دارفور کی لڑائیوں میں چالیس لاکھ لوگ مارے گئے۔
یوں جہاں دہشت گردوں کا راج ہو وہاں ان سے معاہدہ کر کے معدنیات حاصل کی جاتیں ہیں اور جہاں امن ہو وہاں حکومت کو بلیک میل کر کے۔ انگولا اس کی بدترین مثال ہے۔ اگر لیڈروں کو قتل کرنے سے بھی کام نہ چلے اور کوئی ملا عمر یا صدام حسین جیسا لوہے کا چنا ثابت ہو جائے تو پھر اس کے ملک میں فوجیں اتار دی جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ گھن چکر‘ اس لیے جب کوئی موٹر وے بنتا ہے‘ ماس ٹرانزٹ اسکیم آتی ہے‘ ایئر پورٹ کی توسیع ہوتی ہے تو میں کانپ اٹھتا ہوں۔ اٹھارہ کروڑ بھوکے ننگوں کے اس انجام پر جو پہلے ان عیاشیوں کا قرضہ ادا کریں گے اور پھر بدترین غلامی‘ دہشت اور خوف میں زندگی گزاریں گے۔
کسی کو اندازہ ہے!
اوریا مقبول جان بدھ 21 مئ 2014
اس سال کے آغاز میں جب میں نے اس درویشِ خدا مست کی بات لکھی تھی تو اس مملکتِ خداداد پاکستان کے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ حالات اس قدر بدل جائیں گے۔ یہ آج سے بیس سال پرانی بات ہے، جب طبیعت میں نہ اسقدر تحمل تھا اور نہ ہی مزاج میں صبر کا یارا۔ صاحبانِ نظر کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ایک ہی سوال زبان پر لرزاں رہتا۔ کب حالات بدلیں گے؟ ظلم بڑھتا جا رہا ہے، اللہ اپنا فیصلہ صادر کیوں نہیں کرتا؟ میری حالت عدیم ہاشمی کے شعر جیسی تھی۔
میں سر بسجدہ ہوں اے شمر مجھ کو قتل بھی کر
رہائی دے بھی اب اس عہد کر بلا سے مجھے
وقت کا دھارا کس تیز رفتاری سے بہتا ہے۔ حالات بدلنے تو کیا تھے دن بدن ابتر ہی ہوتے گئے۔ عالم الغیب تو اللہ کی ذات ہے۔ وہی جانتا کہ کسی شخص، ملک اور قوم کی تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ لیکن اس نے اپنے غضب اور رحمت کی نشانیاں کھول کھول کر قرآنِ حکیم میں بتا دی ہیں۔ وہ کیسی قوموں پر مہربان ہوتا ہے اور کن پر اس کا غضب نازل ہوتا ہے۔ وہ بستیوں سے ظالموں کا خاتمہ کیسے کرتا ہے اور مظلوموں کی مدد اور داد رسی کے لیے اس کا نظامِ کار کس طرح حرکت میں آتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مالکِ کائنات کے عذاب کے کوڑوں اور رحمت کی بارشوں کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں اور اللہ قرآن میں بار بار لوگوں کو ان بستیوں کی جانب اشارہ کر کے ان کے معدوم ہونے کی داستانیں سناتا ہے تا کہ لوگ عبرت پکڑیں۔
پھر جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اپنی جانب بڑھتے ہوئے طوفان کو نہ سمجھ سکیں تو اللہ فرماتا ’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ الحج46)۔ لیکن ان کے مقابلے میں وہ ہیں جن کے سینے چراغِ ہدایت سے روشن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘۔ یہی مومن صاحبِ نظر ہوتا ہے۔ اس کی بصیرت اور بصارت کی پرواز اللہ کے نور کے کرم سے ہوتی ہے۔ جس کو جتنا نور عطا ہوا، اتنی ہی اس کی پرواز میں وسعت آتی گئی۔
اسی لیے مدتوں اپنی بے بسی، مایوسی، جھنجھلاہٹ اور قوم کی حالت پر غصے سے بھرے سوالات لے کر میں ان صاحبانِ نظر سے راستہ تلاش کرتا رہا۔ ہر کوئی تسلی کے حرف بولتا اور ایک اطمینان ضرور دلاتا کہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک اور قوم کے حالات بدلیں گے۔ حالات بگڑتے گئے، زوال بڑھتا گیا۔ پھر ان لوگوں کا لہجہ بھی بدلنے لگا۔ فرماتے رہے لوگوں سے کہو اپنے آپ میں تبدیل ہونے کی امنگ اور خواہش تو پیدا کریں، اللہ حالات بدل دے گا۔ اس قوم میں امنگ اور خواہش کہاں پیدا ہونا تھی، لوگ اپنے اپنے گروہ، نظریے، مفاد اور مسلک پر ایسے سخت ہوتے گئے کہ جھوٹ سچ، ایمانداری بے ایمانی، قاتل مقتول اور غاصب مغضوب میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔
ایک گروہ کا بے ایمان، جھوٹا اور ظالم دوسرے گروہ کا ایمان دار، سچا اور معصوم بن گیا۔ ایک گروہ کا مقتول دوسرے گروہ کا جہنم رسید اور دوسرے گروہ کا مقتول پہلے گروہ کا شہید ہو گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب یہ مردانِ باصفا جو اللہ کے نور کی عطا کردہ بصیرت سے دیکھ رہے تھے پریشان ہو گئے۔ ان کی راتیں اللہ کے حضور اس قوم کی معافی کے لیے اشک آلود ہوتی گئیں۔ فرماتے رہے لوگوں سے کہو بدل جائیں ورنہ اگر اللہ نے خود حالات درست کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ وہ تو فرماتا ہے ’’اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لا حق نہیں ہو گا (الانفال25)۔ لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ لوٹنے والے اپنی دھن میں لگے رہے کہ یہی دنیا ہے، جو کمانا ہے کما لو۔ ظلم کرنے والوں کے دل پتھر کے بنتے گئے۔
منبر و محراب کے امین بھی امت کو تقسیم کرنے کا فریضہ اس خوبی سے ادا کرتے رہے کہ مسجدیں خون سے رنگین ہو گئیں۔ حکمران ایسے فرعون صفت بن گئے کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہو سکا کہ ان کے زیرنگیں لوگوں کے خون، بھوک، افلاس اور پریشانی کا روز آخر ان سے حساب لیا جائے گا۔ وہ لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی تھی، نعمتیں عطا کی تھیں وہ اسے اپنے زور بازو سے حاصل کی گئی متاع سمجھتے رہے اور ان کے دل بھوکے، ننگے، بیمار اور نادار لوگوں کے معاملے میں سخت ہوتے گئے۔ ایک خوفناک اور کربناک منظر تھا۔ اہل نظر کیوں نہ کانپ اٹھتے۔ ان کے دلوں پر اللہ کے کلام کی یہ آیات نقش تھیں۔ اللہ فرماتا ہے ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔
تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ (الاسراء16)۔ یہ سب اتنا اچانک نہیں ہوتا۔ اللہ پوری مہلت دیتا ہے کسی بستی کے کار پردازوں کو، اہل اقتدار اور اہل ثروت کو۔ جب وہ اللہ کی ہدایت اور نصیحت کو بھلا دیتے ہیں اور اس پر کان نہیں دھرتے تو اللہ ان پر مزید دولت کی بارش کر دیتا ہے، نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے’’ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کر دیے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئیں تھیں خوب خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے۔ تب ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ (الانعام44) یہ تھا گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں اہلِ اقتدار، اہل ثروت اور صاحبانِ طاقت کے ساتھ اللہ کا روّیہ۔ وہ جو اس بات پر پھولے سماتے رہے کہ ہم نے اس ملک کا اقتدار حاصل کیا ہے تو ہم دنیا بھر میں امیر ترین لوگوں میں بھی کہلائے جائیں۔
ہماری دھاک ایسی ہو کہ مخالف اور کمزور ہم سے تھر تھر کانپیں، کسی کی بیٹی، بیوی اور بہو کی عزت ہمارے لیے گھاس کے تنکے سے بھی کم ہو۔ وہ جنھیں دولت دی گئی ان کی سلطنتیں وسعت اختیار کرتی گئیں اور ان کے زیردست فاقے سے خودکشیاں کرتے رہے۔ جنھیں طاقت عطا ہوئی انھوں نے ذاتی جائیدادوں، زمینوں اور سرمائے میں اضافے کو اپنا شعار بنا لیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اللہ کے ساتھ ایک ظلم روا رکھا۔ اللہ شرک کو ظلمِ عظیم کہتا ہے۔ انھیں نعمتیں اللہ نے دی تھیں۔ ان کے دل میں خوف اور شکر گزاری تو صرف اللہ کی ہونا چاہیے تھی۔
لیکن یہ کبھی امریکا سے ڈرتے رہے اور کبھی اپنی برادری سے، کبھی سرمائے کا خوف ان کو لاحق رہا اور کبھی ووٹر کے بدل جانے کا ڈر۔ لیکن اللہ ان پر پھر مزید اپنی نعمتیں نچھاور کرتا رہا۔ اس لیے کہ اس کا دستورِ عذاب یہ ہے کہ وہ نافرمان لوگوں کو مزید نعمتیں دے کر آزماتا ہے۔ وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کے ڈرانے والے یہ صاحبانِ بصیرت فراڈ ہیں، لوگوں کو بے عمل بناتے ہیں، غیر سائنسی لوگ ہیں، ترقی کے دشمن ہیں۔ دیکھا کیا ہوا اب تک ۔ دس سال سے ڈرا رہے تھے، کچھ ہوا۔ ایک حکمران آیا، لوٹ کر عیش کر رہا ہے، دوسرا آیا، وہ بھی لوٹ کر چلا جائے گا۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ سب ڈھکو سلا ہے۔
یہی کیفیت تھی جو میرے اندر اضطرار پیدا کرتی تو میں سوال کرتا کہ کب اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ اہلِ نظر کہتے انتظار کرو۔ صفائی کا موسم تو آنا ہی ہے۔ لیکن ساری عمر قبرستان میں قبروں کے لیے سبیلیں بنا کر خلقِ خدا میں مفت بانٹنے والے ایک درویش، نے آج سے15 سال پہلے اچانک حالتِ غضب میں کہہ دیا ’’2014تک تو انتظار کرو‘‘۔ پھر جیسے وہ خود سکتے میں آ گیا کہ یہ لفظ کیسے اس کے منہ سے ادا ہو گئے۔ اس سال یعنی2014 کے آغاز میں جب اس درویشِ خدا مست کی یہ بات میں نے تحریر کی تھی تو کوئی اندازہ کر سکتا تھا کہ صرف چار ماہ میں حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ان لوگوں کو اگر اندازہ ہو جائے کہ کیا ہونے والا ہے تو ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں۔
وہ صاحبِ وقت جنھیں میں نے پچیس سال میں بہت کم ایسی گفتگو کرتے سنا ہے اور جن کے بارے میں اکثر میں اپنے کالموں میں تحریر کرتا رہا ہوں۔ چند دن پہلے تشریف لائے اور کہنے لگے گردنوں میں سریا بہت سخت ہو گیا ہے۔ سریے کی خاصیت ہے کہ اسے کاٹ کر آدھ انچ کے ٹکڑوں میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو اکڑا ہی رہتا ہے۔ وہ یہ بات کر کے خاموش ہوئے اور میں نے تھر تھراتے ہوئے سوال کیا۔ اگر بھٹی میں ڈال دیا جائے، پگھل جائے تو کیا اس میں سے کوئی خیر نکلے گی۔ بس اتنا سوال کیا تو فرمانے لگے اس کے بعد ایسی خیر ہے، ایسا سکون ہے، ایسی خوشحالی ہے کہ جس کے لیے اب تک لوگ ترس رہے ہیں۔
نسل‘ دھرتی اور مذہب کا گٹھ جوڑ
اوریا مقبول جان اتوار 18 مئ 2014
’’پوری دنیا عیسائیت‘ اسلام اور کمیونزم میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ان سب نے ہندوئوں کو ایک بہترین خوراک سمجھا ہوا ہے۔ جسے کھا کھا کر یہ موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان تینوں سے ہندوئوں اور ہندو مذہب کو بچانا ہے‘‘۔ یہ الفاظ تھے اس اعلامیہ کے جو 29 اگست 1964ء کو ویشو ہندو پریشد کے قیام کے موقع پر ممبئی میں جاری کیا گیا۔ یہ اعلامیہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی ایک تاریخ کا اظہار تھا جو 1925ء میں قائم ہونے والی راشٹریہ سیوک سنگھ کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔ اسے ناگپور میں پیدا ہونے والے کیشو ہمیگوار نے وجیہہ وشمی کے دن قائم کیا تھا۔
وجیہہ وشمی اس دن کو کہتے ہیں جب رام چندر نے راون کو شکست دی تھی۔ ناگپور کا یہ شخص کلکتہ میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی دفعہ ہندوئوں نے مذہبی تہواروں کے دوران لگنے والے میلوں پر ہتھیار بند جانے کی رسم کا آغاز کیا تھا۔ اس تنظیم میں شدت پسندی کا تصور یورپ میں کام کرنے والی دائیں بازو کی کٹر تنظیموں سے لیا گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے ہی کیشو ہٹلر اور اس کے نظریات کا واضح حامی تھا اور ان پر ہندوئوں کو عمل کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کی تنظیم بھارت دھرتی میں کسی بھی غیر قوم یا مذہب کے فرد کی آمد کو ناپاک قدم تصور کرتی تھی۔ یہ تصور ان کا ذاتی یا تنظیمی نہیں بلکہ مذہبی بنیاد رکھتا تھا۔
ہندو مذہب جہاں بھارت ماتا میں بسنے والے ہندوئوں کو چار مختلف ذاتوں‘ برہمن‘ کھشتری‘ ویش اور شودر میں تقسیم کرتا ہے۔ وہیں باہر سے آئے ہوئے دوسرے مذہب کے افراد کو ملیچھ یعنی ناپاک کہتا ہے۔ یہی تنظیم ہے جس کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا اور وہ آج تک اس کی یاد مناتے ہیں۔ تنظیم نے یوں تو فلاحی کاموں کو اپنا مقصد بنایا لیکن پورے بھارت میں جسمانی ورزش اور یوگا کے نام پر نوجوانوں کو منظم کیا۔ ان ورزشوں کو ’’شاکا‘‘ کے نام سے منعقد کرتے۔ 2004ء میں بھارت کے ساٹھ ہزار مقامات پر ایسے شاکاز قائم کیے جا چکے تھے اور اس وقت راشٹریہ سیوک سنگھ کے ممبران کی تعداد ساٹھ لاکھ تھی۔
اسی تنظیم کی کوکھ سے ویشو ہندو پریشد نے جنم لیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ افراد جو بھارتی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں راجپوت جاٹ وغیرہ شامل ہیں اگر کوئی دوسرا مذہب یعنی دھرم اختیار کر لیتے ہیں تو وہ ناپاک ہو جاتے ہیں۔ انھیں واپس ہندو دھرم میں لا کر پاک کرنا ہے۔ ان کے نزدیک وہ لوگ جو نسلاً باہر سے آئے ہیں وہ تو ناپاک ہیں ہی اور ان سے تو اس دھرتی کو پاک کرنا ہے لیکن یہاں پر آباد نسلوں میں سے جو لوگ ہیں وہ اگر مسلمان اور عیسائی ہو گئے ہیں تو وہ جب تک واپس ہندو نہیں ہو جاتے ناپاک رہیں گے اور ان کا وجود اس دھرتی کو بھی ناپاک کرتا رہے گا۔ اس کی بنیاد پر پورے بھارت میں ایک خوفناک مہم چلائی گئی۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ عیسائی آئے کیونکہ وہ ایسے تھے جو نیچ ذاتوں کے ہندو تھے وہ عیسائیت قبول کر چکے تھے۔
اس مہم کے لیے ویشو ہندو پریشد نے اپنے دو مسلح گروہ بنائے۔ ایک بجرنگ دَل جو نوجوان لڑکوں پر مشتمل ہے۔ بجرنگ ہنومان دیوتا کا نام ہے۔ یہ یکم اکتوبر 1984ء میں قائم ہوئی اور اس کے ڈھائی ہزار مسلح جھتے ہیں۔ دوسری مسلح نوجوان خواتین کی تنظیم ہے جسے درگا واہنی یعنی درگا دیوی کی فوج کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے تحت نیچ ذات کی ہندو لڑکیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور انھیں کراٹے اور یوگا کے نام پر مسلح تربیت دی جاتی ہے۔ گجرات شہر میں مسلم کُش فسادات سے پہلے اس مسلح گروہ کی تعداد صرف گجرات میں ایک ہزار تھی اور اب یہ گروہ سمجھتا ہے کہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہندو مذہبی تعصب اور دیگر مذاہب سے بھارت کو پاک کرنے کے اس ’’مذہبی‘‘ عمل پر یقین رکھنے والی تنظیموں کی تعداد بے تحاشا ہے۔
یہ بھارت میں پیدا ہونے والے مذاہب سِکھ‘ جین‘ بدھ اور ہندو کو ہی دھرتی کے مذہب مانتے ہیں اور باقیوں کو بدیشی سمجھ کر ناپاک تصور کرتے ہیں اور بھارت کو ان سے پاک کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ تمام تنظیمیں علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ان سب نے مل کر ایک بہت بڑے خاندان کی شکل اختیار کر رکھی ہے جسے وہ سنگھ پریوار کہتے ہیں۔ پریوار ہندی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اپنے لوگوں کو مختلف گروہوں میں جا کر ان میں کام کرنے کا حکم دیا اور پھر جہاں جہاں ان کے نظریات غالب آگئے ایسی تنظیموں کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں قائم ہونے والے اس سنگھ پریوار میں رکن تنظیموں کی تعداد پچاس کے قریب ہے لیکن اس سنگھ پریوار کی رکن ایک ہی سیاسی پارٹی ہے جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہے۔
سنگھ پریوار نے 1998ء میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ممبران کی جو تعداد بتائی تھی وہ کروڑوں میں ہے۔ صرف بی جے پی کے ممبران کی تعداد دو کروڑ تیس لاکھ تھی۔ بھارتیہ کسان سنگھ 80 لاکھ اور بھارتیہ مزدور سنگھ ایک کروڑ ہے۔ یہ تمام کے تمام گروہ پورے بھارت میں ایک ہندو تعصب اور بھارت دھرتی کو بدیشی مذاہب سے پاک کرنے کے ایجنڈے پر کار بند ہیں اور سیاسی طور پر متعصب‘ متشدد اور مسلح جدوجہد پر یقین کرنے والے کٹر مذہبی گروہوں کی نمایندگی بھارتیہ جنتا پارٹی کرتی ہے اور بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں متعصب شدت پسند اور کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی سیاسی پارٹی الیکشن جیتتی ہے۔
تاریخ میں ایسا دوسری دفعہ ہو رہا ہے اور پہلی دفعہ جب ایسا ہوا تھا تو اس کے نتیجے میں جو خوفناک اور ہولناک منظر اس دنیا نے دیکھا اس کی یاد ابھی تک قائم ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب جرمنی نے ورسلیز معاہدہ 1919ء میں کیا تو پورے جرمنی میں ایک شکست خوردگی کا منظر تھا۔ اس معاہدے کی ایک مشق War guilt Clause تھی جس کے تحت جرمنی نے اپنے آپ کو تمام نقصانات کا ذمے دار مان لیا تھا۔ اس زمانے میں جرمن قوم کو عزت و توقیر دلانے اور انھیں دنیا کی عظیم قوم کا رتبہ واپس دلانے کے لیے بہت سی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں کام کر رہی تھیں لیکن تعصب کی اس لہر اور شدت پسندی کے طوفان کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خوفناک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا انگ انگ تعصب اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہو۔ یہ قیادت اوڈلف ہٹلر نے فراہم کی۔ اس نے ورسلیز معاہدے کی دھجیاں بکھیرنا شروع کیں۔
اس نے 1923ء میں بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی اور گرفتار ہوا۔ رہائی پر اس کے نظریات مزید شدید تھے۔ وہ یہودیوں کے وجود کو دنیا بھر کے لیے ناپاک تصور کرتا تھا۔ اس کے نزدیک کیپٹل ازم اور کمیونزم دونوں یہودی سازشیں تھیں۔ اس نے جرمن قوم کی بالادستی اور غلبے کا نعرہ لگایا اور 1933ء میں جمہوری طور پر منتخب ہو گیا لیکن اسے مکمل اختیار اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے تھی۔ نسل پرست متعصب ہٹلر کے ساتھ مذہبی شدت پسند پارٹی کیتھولک سینٹر پارٹی مل گئی اور با اختیار ہٹلر تاریخ کا وہ خوفناک کردار بن کر ابھرا کہ پورا یورپ آج تک اس کی لگائی ہوئی آگ کی تپش محسوس کرتا ہے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کے ممبران میں اٹل بہاری باجپائی جیسے شاعر بھی تھے لیکن نریندر مودی اس متعصب تنظیم میں ویسے ہی شدت پسند خیالات کا حامل تھا جیسے ہٹلر کے خیالات ورکرز پارٹی میں تھے۔ تاریخ ایک دفعہ پھر نسل‘ دھرتی اور مذہب کے ملاپ سے ابھرنے والی ایسی قیادت کا منظر دیکھ رہی ہے جو جمہوری طور پر منتخب ہوئی ہے۔ جمہوریت جسے اکثر مفکرین اکثریت کی آمریت (Tyrny of Majority) کہتے ہیں اس کا اظہار دوسری دفعہ ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے میں انسانیت خون میں تو ڈوب جاتی ہے لیکن شکست نسل‘ دھرتی اور مذہب کے جمہوری گٹھ جوڑ کو ہوتی ہے۔
خفیہ ایجنسیاں ، میڈیا، عدالتیں
اوریا مقبول جان بدھ 7 مئ 2014
خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کا ایک طویل مدت سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔ جمہوری نظام کے علمبردار دو بڑے ملک، امریکا اور برطانیہ اپنی خفیہ ایجنسیوں ’’سی آئی اے‘‘ اور’’ ایم آئی سکس‘‘ کے وسیع خفیہ نظام اور سیاست و حکومت پر ان کے اثرات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب میڈیا چند اخبارات، رسائل چند ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز تک محدود تھا۔ اس زمانے میں سی آئی اے ابھی وجود میں نہیں آئی تھی، لیکن عوامی رائے عامہ کو امریکی مفاد کے تابع کرنے کے لیے امریکی صدر ٹرومین نے1946میں’’ Central Intelligence Group‘‘ بنایا تھا۔ لیکن اگلے سال ہی یعنی 1947میں امریکا میں(National Security Act) پاس ہوا، جس کے تحت سی آئی اے وجود میں آئی۔
اس ایکٹ کے آرٹیکل102(a)میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو وسیع اختیارات دیے گئے، جن میں رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی شامل تھا۔ وائٹ ہائوس نے1954میں سی آئی اے کو نفسیاتی آپریشن کا اختیار دیا گیا۔ یہ آپریشن کا مقصدپراپیگنڈا اور میڈیا کوقومی مفادات کے تابع کرنا تھا۔ ان میں تین اقسام کے پراپیگنڈے شامل تھے۔1) سفید (White) وہ تھا جس کی منظوری وائٹ ہائوس دیتی ا ور ہر طرح کی واضح اور خفیہ اطلاعات اس میں شامل ہوتیں۔2) گرے(Grey)۔ اس پراپیگنڈے میں ’’سی آئی اے‘‘ کو اختیار حاصل تھا کہ اطلاع کا ماخذ نہیں بتایا جائے گا مگراس کا مقصد ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو امریکی خارجہ پالیسی اور امریکی مفاد کے خلاف ہوں۔ 3)کالا(Black)۔ یہ ایسی اطلاع ہوتی ہے جو بظاہر امریکی حکومت کی پالیسی کے خلاف ہوتی ہے اور امریکی حکومت عوام کے سامنے واضح انکار کر سکتی ہے۔
ایسی اطلاعات عموماً گھڑی ہوئی ہوتی ہیں لیکن جن لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں انھیں یوں لگتا کہ یہ مصدقہ ہیں۔ اس کے لیے دنیا بھر میں اخبار نویسوں کو خریداجاتا ہے اور انھیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔1973میں’’ سی آئی اے‘‘ نے خود واشنگٹن اسٹار نیوز کو یہ اطلاع فراہم کی کہ دنیا بھر میں30امریکی صحافی ایسے ہیں جو دراصل ان کے ملازم ہیں۔ یہ سب کے سب ایک گروپ (Congress for cultural freedom) کے ممبران تھے۔ یہ تمام صحافی اپنے مضامین یا خبریں سی آئی اے کو دکھائے بغیر اخباروں میں شایع ہونے کے لیے نہیں دے سکتے تھے۔
نوے کی دہائی میں جنوبی امریکا میں ایک خاص قسم کی تفریح اور فحش اقدار کے فروغ کے لیے ’’سی آئی اے‘‘ نے ’’Chase brandan‘‘ کے نام سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت ہالی ووڈ سے اپنے مخصوص مفادات کے تحت فلموں کی تیاری تھی۔ اس کے تحت بہت سی فلمیں بنائی گئیں جن میں(The sum of all fears)(The Recruit)(Enemy of the state)اور(Bad Company) جیسی فلمیں شامل تھیں ،جنھیں خصوصی طور پر مشہور ٹی وی چینلوں پر بھی چلوایا گیا تا کہ اس پورے علاقے کو معاشرتی طور پر اپنے رنگ میں رنگا جا سکے۔
کیمونسٹوں کے خلاف مضمون لکھوائے گئے۔ خبریں لگوانے اور لوگوں کو کیمونزم سے مخرف کرنے کے لیے’’Operation Mockingbird‘‘کا1951 میں آغاز کیا گیا۔1983میں دنیا بھر میں جمہوریت کے زبردستی نفاذ کے لیے (National Endowment for Democracy) قائم کیا گیا جس کے تحت دنیا بھر کی این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو فنڈز فراہم کیے گئے۔
1963میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کا قتل ہوا۔ انگلیاں سی آئی اے کی طرف اٹھنے لگیں۔ صدر جانسن نے29نومبر1963کی چیف جسٹس ایرل وارن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔ لیکن ’’سی آئی اے‘‘ نے اس کمیشن کو کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔امریکی کانگریس کے دبائو کے باوجود بھی ’’سی آئی اے‘‘ نے اپنے دروازے نہ کھولے۔ کمیشن کی رپورٹ آئی تو سی آئی اے نے اس کے مخالف کتابوں اور مضامین کا ایک طویل سلسلہ شروع کروایا۔ پھر ان کتابوں کے دفاع کے لیے ایک بہت بڑے عملے کو ملازم رکھا۔ صحافیوں کو سرمایہ فراہم کیا جو ان کتابوں پر تبصرے تحریر کرتے تھے۔
برطانیہ کی ایم آئی سکس اور ایم آئی فائیو کی سرگرمیوں کی روداد بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ بلکہ اس کی تاریخ امریکا سے کہیں زیادہ قدیم ہے، جس میں لارنس عریبیہ جیسے کردار آتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال(Operation Rockingham) ہے۔ اس کے تحت عراق کے تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں گھڑی ہوئی معلومات فراہم کرنا تھا۔ اس کے ذریعے تمام میڈیا، حکومتی اداروں یہاں تک کہ وزیراعظم تک کو گھڑی ہوئی دستاویزت ، ویڈیو فلموں اور دیگر معلومات کے ذریعے قائل کیا گیا کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار ہیں اور وہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ پورے ملک کے میڈیا میں موجود اس خفیہ ایجنسی کے افراد نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ برطانیہ میں لاکھوں افراد بھی سڑک پر باہر نکلے لیکن پارلیمنٹ کے ارکان یہی یقین کرتے رہے کہ اگر عراق پر حملہ نہ کیا گیا توکل اس کے ہتھیار برطانیہ کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کا یہ تعلق جسے قومی مفاد کے لیے تریتب دیا جاتا ہے وہ ان دونوں ملکوں کے عدالتی نظام پر بھی اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ ان دونوں ممالک کی حکومتوں اور آزاد عدلیہ نے ان خفیہ ایجنسیوں کے لیے خفیہ عدالتیں(Secret Courts) قائم کر رکھی ہیں برطانیہ میں25اپریل2013کو جسٹس انیڈ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت ان عدالتوں کے قیام کی اجازت دی گئی۔ اس کے لیے ایک قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا جس کا نام(Closed Material Procedures) رکھا کیا۔
اس کے مطابق کسی مجرم کے خلاف خفیہ ایجنسی کچھ ایسا مواد عدالت کے سامنے رکھ سکتی ہے، جس کو صرف عدالت یا ایسے وکیل دیکھ سکتے ہیں جن کو کلیرنس مل چکی ہو۔ مجرم کو اپنے خلاف جرائم کی مکمل فہرست بھی پیش نہیں کی جاتی۔ ان عدالتوں کا حال یہ ہے کہ وہاں اب گواہ پیش نہیں ہوتے بلکہ جاسوس پیش ہوتے ہیں۔ امریکا میں تو ایسی عدالتیں 1978سے قائم ہیں جنھیں(Intelligence surveillance Courts) کہتے ہیں۔2009میں ان عدالتوں کے اختیارات میں اتنا اضافہ ہواہے کہ اب اسے متوازی سپریم کورٹ کہا جاتا ہے۔
خفیہ ایجنسیوں، میڈیا اور عدالتوں کا یہ گٹھ جوڑ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں قومی مفاد کے نام پر پایا جاتا ہے۔ کس کو الیکشن میں جتوانا ہے، کیسے جتوانا ہے، کہاں سے کارپوریٹ کا پیسہ کس سیاسی لیڈر تک تک پہنچانا ہے۔ مفادات کے تحفظ کی بات آئے تو کینڈی اور ڈیانا کو بھی عبرتناک موت سے ہمکنار کرنا ہے۔کہاں جنگ لڑنا ہے، کس سے دوستی کرنا ہے، کس سے دشمنی نبھانا ہے اس کا فیصلہ بھی کرتی ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ یہ سب جمہوری طور منتخب حکمران کر رہے ہوتے ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ ایک وسیع مہم ، میڈیا، اندورنی دبائو کے ذریعے ان جمہوری حکمرانوں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالے جاتے ہیں اور یہ ارکان پارلیمنٹ اسے قومی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہے اس پوری دنیا پر چھائے ہوئے جمہوری نظام کی حقیقت اور حیثیت۔یہ ہے اس دنیا کا مروجہ سیاسی نظام۔
لیکن اس سب کے باوجود کہ ان تمام ملکوں میں خفیہ ایجنسیاں کو قومی مفاد کے نام پر یہ سب اختیارات حاصل ہیں۔ ان کے خلاف آوازیں بھی اٹھتی ہیں۔ لیکن کہیں نہیں ہوسکتا کہ سردجنگ کے زمانے میں امریکا میں کوئی صحافی یا میڈیا گروپ یہ تصور بھی کرے کہ وہ روس کے سرمائے یا اشارے پر اخبار نکالے یا ٹیلی ویژن چینل۔ کسی ایسی پالیسی کے خلاف مہم چلائے جس کو اس ملک نے قومی مفاد کے طور پر اپنا لیا ہو۔ دنیا کا وہ آزاد میڈیا جس کا بہت بول بالا ہے سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسامہ بن لادن کی زندگی پر کوئی آزادانہ ڈاکو مینٹری ہی بنالے اور اسے مسلسل نشر بھی کرے۔
ایک پروڈیوسر نے ایسی فلم بنانے کی کوشش کی اور اس کا جوحشر ہوا وہ ایک طویل داستان ہے۔دنیا کے بڑے سے بڑے جمہوری ملکوں میں خفیہ ایجنسیاں، میڈیا اور عدلیہ آمنے سامنے نہیں آتیں۔ ایسا وقت صرف وہیں آتا ہے جہاں لوگوں کو میڈیا کی نئی نئی طاقت کا نشہ چڑھتا ہے۔ وہ اس سے اپنے آپ کو بادشاہ گر، پالیسی ساز اور حکومتیں بنانے گرانے والا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اپنے اردگرد دیکھ لینا چاہیے۔ تا ریخ پڑھ لینی چاہیے۔
فحش اخلاقیات اور قوموں کا زوال
اوریا مقبول جان جمعـء 24 اگست 2012
دنیا بھر کے فحش ادب پر نظرڈالیں، اس کے درجات کا غور سے جائزہ لیں، آپ کو سراسر فحش ترین، فحش تر اور فحش ادب ہر زبان میں مل جائے گا۔ ادب کی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ، زبان یا ثقافت ہو، تحریر جو خالصتاً فحش مقاصد کے تحت لکھی گئی آج تک ادب میں جگہ نہ بناسکی۔ البتہ کہانی کے اسلوب، نظم غزل یا شاعری کی ضرورت کے تحت اگر فحش نگاری ہوئی تو ایسے ادیب اور شاعر کا اس کی ادبی سطح اور صلاحیت کے مطابق مقام متعین کیا گیا۔ اس مقام کو متعین کرنے میں ایک بات کا ہر جگہ خیال رکھا گیا کہ اس ادیب نے معاشرتی ذمے داری کو نبھاتے ہوئے کس طرح بات خوبصورت استعاروں اور تشبیہوں میں لپیٹ کر بیان کی تا کہ بات بھی لوگوں تک پہنچ جائے اور اس کی تحریر عامیانہ اور بازاری بھی نہ کہلائے۔
اس کے باوجود ایسا ادب لکھنے والے لوگ صدیوں تک باقی تمام ادیبوں اور شاعروں سے علیحدہ ہی تصور ہوتے رہے۔ ان کا سب سے بڑا دفاع اپنے حق میں یہ ہوتا تھا کہ ہم معاشرے میں موجود غلاظت اور گندگی کو پیش کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ ہی اتنا غلیظ اور کریہہ ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ جب ان کے ناقد ان پر یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ کافی محنت اور کوشش و جستجو کے بعد معاشرے میں سے غلاظت ڈھونڈتے ہیں، اس میں افسانوی رنگ بھرتے ہیں اور پھر اپنے اندر چھپی جنسی خواہش کی بھی تسکین کرتے ہیں اور پڑھنے والے کے جذبات کو بھی جنسی آتش میں سلگتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں کسی فحش ادب کی ابتدائی تاریخ اٹھالیں آپ کو یہ جسم بیچنے والی بازاری عورتوں اور طوائفوں کے گرد گھومتا ہوا نظر آئے گا۔موپساں کے جنسی تجربات وہیں سے شروع ہوتے ہیں اور پھر دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مادام باواری کے کردار سے لے کر لیڈی چیٹرلیز کے اعلیٰ خاندانی پس منظر تک کا سفر معاشرے میں موجود ایک مختصر سی تعداد یعنی بازاری عورتوں کی دنیا سے شروع ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے وہ سب افسانے جن پر کبھی فحش نگاری کے الزام لگے ان میں طوائف یوں جلوہ گر ہے جیسے برصغیر میں یہی ایک عورت رہتی ہے اور اسی کو پیش کرنا عین حقیقت نگاری ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی فحش نگاری پر مقدمے چلے تو لوگ اپنے دفاع میں گزشتہ صدیوں میں لکھی گئی کتابوں میں موجود فحاشی کو لے کر سامنے آگئے۔ کوئی خانہ کعبہ میں اسلام سے پہلے لٹکائے گئے سات معلقات کو لے آیا تو کسی نے مولانا روم کی مثنوی کا دفتر پنجم کھول کر رکھ دیا۔ کوئی حافظ اور سعدی کے شعر پیش کرتا رہا تو کسی نے ہیر وارث شاہ سے رانجھے اور ہیر کی ملاقات کا قصہ اور میاں محمد بخش کی سیف الملوک سے پری بدیع الجمال کے سراپے کا نقشہ گنگنایا۔ مغرب میں تو بائبل کے پرانے عہد نامے میں سے پیغمبروں کے حالات میں موجود جنسی منظر کشی کو حوالے کے طور پر پیش کیا۔ ہندو مذہب کے ماننے والے کام شاستر اٹھا لائے اور کھجرا ہومندر میں مورتیوں کی صورت موجود جنسی آسنوں کی تصویریں سند کے طور پر پیش کردیں۔
سب کے سب اپنی فحش نگاری پر اپنے آبائو اجداد اور پہلی نسلوں کی تحریروں کے حوالے پیش کرتے رہے۔ اور یہ دلیل دیتے رہے کہ اگروہ یہ سب کرسکتے تھے تو ہم پر کیوں پابندی ہے۔ کوئی اس بحث کی طرف نہ گیا کہ جن معاشروں میں ایسی فحش نگاری عروج پر پہنچی اور پورا معاشرہ اس میں ڈوبا تو پھر ان کے زوال کو کتنا عرصہ لگا۔ تہذیبوں کے دو بڑے ماخذ یونان اور روم کے زوال کی داستانیں اٹھالیں عبرت کے لیے کافی ہیں۔ یونان کی تہذیب میں جب Aphrodite کی پرستش شروع ہوئی، زنا اور فحش نگاری کو ایک معاشرتی رویہ بنایا گیا، طوائفوں کو معاشرتی مرتبہ میسر ہوا تو پھر اس کے بعد تاریخ نے یونان کا نام عروج کے مقام سے کھرچ کر پھینک دیا۔
یہی حال دو سو سال قبل مسیح کے روم کا تھا جب وہاں فحش نگاری، زنا، اخلاق باختگی کا طوفان اٹھا۔ برہنہ عورتوں کی دوڑ فلورا سے لے کر سیسرو کی فحش نگاری کی وکالت تک اور رومن کھیلوں میں سرعام عورتوں کی غنڈوں کے ہاتھوں آبروریزی تک سب کچھ ہونے لگا۔ یہ وہ ماحول تھا جب اس عظیم سلطنت کا وہ زوال آیا کہ افریقہ کے بربر ان پر چڑھ دوڑے اور اسے نیست و نابود کردیا۔ ایران میں جب مزدکیت نے فحش اخلاقیات کو عام کیا تو حالت یہاں تک آگئی کہ مزدک نے بھرے دربار میں شہنشاہ سے کہا، یہ تیری ملکہ بھی تیری نہیں بلکہ اس سے ہر شہری استفادہ کرسکتا ہے، تو پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہی ایران کی ہزاروں سال بادشاہت عرب کے بادیہ نشینوں کے ہاتھ زمین بوس ہوگئی۔
فحاشی کے ہاتھوں ذلیل ہونے والی ایک اور تہذیب بابل کی ہے جہاں جسم فروشی کو مذہبی تقدس دیا گیا اور معاشرے کو فحاشی کے چلن پر آگے بڑھایا گیا تو یہ تہذیب یوں صفحہ ہستی سے مٹی کہ آج صرف اس کے کھنڈرات باقی ہیں۔ ہندوستان میں بھی جب وید کی تعلیمات اور بدھ کے افکار کے بعد مذہب میں جنسی اخلاقیات کو اہمیت ملی اور معاشرہ جنسی آسنوں اور کام شاستروں میں گم ہوا تو وسط ایشیا کے ہن اس پر چڑھ دوڑے اور پھر دو ہزار سال تک یہ ہر فاتح کے لیے ایک نرم چارے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس کے باوجود فحش نگاری کے وکیل یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ ہم کوئی نئے نہیں ہیں۔ یہ تو ہماری صدیوں سے روایت کا حصہ ہے۔ یہ سب دلیلیں آج سے پچاس سال قبل کی دنیا کی تھیں۔ لیکن آج تو شاید دنیا اس دلیل کے عالم سے نکل چکی ہے۔ 1969ء میں جب پہلی فحش فلم آئی تو پورے مغرب میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا لیکن آج سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اسی صنعت میں ہے۔ اخلاقیات کے زوال کی اس کہانی کے کتنے دکھ ہیں۔ اس پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور ہر گھر جس عذاب میں مبتلا ہے اس کے لیے کسی موپساں اور سعادت حسن منٹو کو طوائف کے کوٹھے پر جانے کی ضرورت نہیں۔ سب یاتو اپنے عیب چھپائے زندگی گزارتے ہیں یا پھر ڈھٹائی اور بے شرمی سے اس کا اقرار کرتے ہیں۔
میرے ملک میں یہ بحث اور دلیلیں ادب اور تحریر تک تھیں، لیکن اب ایک اور بحث کا دروازہ کھل چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، یہاں کیا فحش ہے اور کیا نہیں ہے۔ دلیلیں پرانی ہیں، ہم تو وہی دکھائیں گے جو معاشرے میں ہے، یہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے، لیکن ایک فرق ہے، ایک تمیز ہے جو آپ کوکرنا ہوگی، کتاب کے بارے میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ کونسی خرید کر گھر لائیں اور کونسی نہیں، اگر لائیں تو اسے کسی طرح چھپا کر رکھیں، فلم بھی سینما گھر میں لگتی تھی۔ آپ کو آزادی حاصل تھی کس قسم کی فلم دیکھیں اور کس قسم کی نہ دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسی فلمیں بننا شروع ہوئیں جو گھر میں بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہ تھیں تو اس ملک کے سینما گھر اجڑ گئے۔
لیکن ٹیلی ویژن آپ کے لائونج، بیڈ روم یا ڈرائنگ روم میں ایک جیتے جاگتے کردار کی طرح آچکا ہے۔ آپ سو جاتے ہیں، یہ جاگتا ہے۔ آپ اسے چھپا کر، تالے میں بند کرکے نہیں رکھ سکتے۔ یہ ایک زندہ جاگتا کردار ہے۔ اس میں وہی کچھ چلایا جاسکتا ہے جو باقی گھر کے کرداروں کے اخلاق کے مطابق ہو۔ ویسے ہی کپڑے جو سارے گھر میں موجود لوگوں نے پہنے ہوں۔ ویسی ہی شرم و حیا جو باپ ماں، بیٹا اور بیٹی کی موجودگی میں گھر میں نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ اگر چار کردار گھر کے وہ ہیں تو پانچواں ٹیلی ویژن ہے۔
اگر بیٹی اپنی خوبصورت ٹانگیں اور کمر کے پیچ و خم لائونج میں سب کے سامنے چھپا کر رکھتی ہے تو اسکرین بھی اس سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ ورنہ پھر تاریخ دو انجام بتاتی ہے۔ ایک یہ کہ پورا معاشرہ اس رنگ میںڈھل جاتا ہے اور اپنے زوال پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے یا پھر لٹھ مار مذہبی لوگ عروج پکڑتے ہیں جیسے انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ دوم کے زمانے میں اور روم میں عیسائیت کے عروج سے ہوا۔ یہ لوگ ان چار ماں بہن بھائی اور باپ کی اخلاقیات کے مطابق سب سیدھا کردیتے ہیں۔
ہم حالت عذاب میں ہیں
اوریا مقبول جان جمعـء 17 اگست 2012
کیا کبھی اس مملکت خدا داد پاکستان کے شہریوں نے اس بات پر ایک لمحے کے لیے بھی سوچا ہے کہ ہماری آنکھیں صرف اپنے گھر میں آنے والی میت پر نمناک ہوتی ہیں۔ ہم صرف اپنوں کا سوگ مناتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنے مرنے والے ہی بے گناہ نظر آتے ہیں۔ روز صبح ہوتے ہی انسانوں کے لاشے گرنے شروع ہوتے ہیں اور شام تک بے حس اٹھارہ کروڑ لوگ ٹیلی ویژن اسکرینوں پر یہ مناظر ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہالی وڈ کی کوئی دہشت زدہ کرنے والی فلم دیکھ رہے ہوں جس کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ سب اداکار ہیں جو صرف فلم میں مرتے ہیں، ہم ان کی موت کے مناظر دیکھتے ہیں، فلم کی بھول بھلیوں میں گم ہوتے ہیں اور پھر ان اداکاروں کو عام زندگی میں چلتے پھرتے دیکھتے ہیں۔
ان سے آٹو گراف بھی لیتے ہیں۔ ہمارا رویہ روز مرنے والے انسانوں کے بارے میں ایسا ہی ہو چکا ہے۔ البتہ جن کے احباب موت کی آغوش میں جاتے ہیں، وہی قیامت کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے لیے احتجاج بھی وہی لوگ کرتے ہیں جو ان کے عقیدے، نسل، زبان یا سیاسی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ بابوسر میں 25 انسان اپنے ساتھیوں سے علیحدہ کیے گئے اور لائن میں کھڑے کر کے گولیوں سے بھون دیے گئے۔ باقی بچ جانے والے اسی طرح یہ منظر دیکھنے پر مجبور تھے جیسے مرغیوں کے ڈربے سے قصاب ایک مرغی ذبح کرنے کے لیے نکالتا ہے تو باقی مرغیاں اس بات پر شکر ادا کرتی ہیں کہ ان کی جان بچ گئی۔
سڑکوں پر احتجاج کرنے والے وہی لوگ تھے جو ان کے عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ باقی اٹھارہ کروڑ لوگوں کے لیے یہ ہالی ووڈ کی فلم کا ایک منظر تھا جو کچھ دیر کے لیے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر چلا اور تھوڑی دیر تک داد وصول کر کے غائب ہو گیا کہ اس کی جگہ لینے کے لیے اب دوسرے مناظر آ گئے تھے۔ نہ کوئی آنکھ آنسوئوں سے تر ہوئی اور نہ کسی کی نیند حرام۔ ایسا نہ پہلی بار ہوا اور نہ بحیثیت قوم ہمارے رویے کی یہ پہلی جھلک ہے۔ روز موت ہمارے شہروں میں رقص کرتی ہے اور روز ہمارے غصے اور نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے یہ یزیدی ٹولہ ہے، دوسرا کہتا ہے یہ دہشت گرد ہیں، تیسرا کہتا ہے یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، چوتھا کہتا ہے امریکا، بھارت اور افغانستان مل کر سب کروا رہے ہیں۔
ہر گروہ کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ ان کو سختی سے کچل دو، ان کی نسل تک ختم کر دو، ان کے خلاف پوری طاقت استعمال کرو۔ ہر ایک کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر دوسرے گروہ کو نہ کچلا گیا تو یہ ملک تباہ ہو جائے گا۔ یہ نفرت کا عالم صرف مذہبی گروہوں تک محدود نہیں، نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر جتنے لوگ اس ملک میں ہر روز مارے جاتے ہیں ان کا بھی حساب نہیں۔ انسانوں کے درمیان میں سے چن کر، شناختی کارڈ دیکھ کر، علیحدہ لائن میں کھڑا کر کے مارنے کا پہلا واقعہ بلوچستان کی وادیٔ بولان کے تفریحی مقام پیر غائب میں ہوا جہاں پکنک منانے کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں سے شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو علیحدہ کیا گیا اور پھر انھیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
پھر اس سے چند میل دور، چند ماہ بعد بس روکی گئی، شناختی کارڈ دیکھے گئے اور پنجابیوں کو مارا گیا۔ میرے ملک کے ’’عظیم دانشور‘‘ اسے فوج کی کاروائیوں کا ردعمل گردانتے رہے اور اس مسئلے کا سراغ بلوچستان کی محرومیوں میں ڈھونڈتے رہے۔ انسانوں کی اس اذیت ناک موت پر ایسے بے حس تبصرے شاید ہی کسی اورملک میں ہوئے ہوں۔ اس کے بعد یہ فیشن چل نکلا۔ نہتے مسافروں کی بس کو روکو، اپنی مرضی کے مطابق انسانوں کی چھانٹی کرو اور مار دو۔ کوئٹہ سے ایران جانے والے مسافر ہوں، اسلام آباد سے گلگت جانے والے یا کراچی شہر کی بسوں میں سفر کرنے والے۔ یہ سب لوگ مرتے رہے اور ہم بے حسی کے ساتھ یہ مناظر دیکھ کر ویسی ہی میٹھی نیند سوتے رہے جیسے سینما ہال میں قتل و غارت والی فلم دیکھنے کے بعد گھر آ کر سوتے ہیں۔
کبھی کسی نے غور کیا کہ ایسی بے حسی کا آغاز کب ہوا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کی لہر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پھیلی۔ افغانوں کے جسموں کے پرخچے اڑتے رہے، ہماری سرزمین سے جہاز اڑتے اور معصوم افغان شہریوں پر بم برسا کر فاتحانہ انداز سے لوٹتے۔ پہلے چار سالوں میں ستاون ہزار دفعہ امریکی جہازوں نے اس ملک کے ہوائی اڈوں سے پرواز کی۔ ہم جو مسلمان کے خون کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے بہتر سمجھتے تھے، کہ ہمارے پیارے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی درس دیا تھا۔
لیکن ہم نے سمجھ لیا کہ مسلمان تو صرف وہ ہیں جو پاکستان کی حدود میں رہتے ہیں۔ باقی تو زمین پربسنے والی غلاظتیں جن سے اس زمین کو پاک کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود ہم دہشت گردی سے محفوظ تھے کہ ہمارا اﷲ ہمیں مہلت دے رہا تھا۔ نہ کوئی خودکش حملہ تھا اور نہ بس سے اتار کر بیہمانہ طریقے سے قتل کی وارداتیں۔ لیکن جولائی 2007ء میں ہم نے کئی راتوں تک ایک دلدوز اور ظالمانہ منظر اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک ہالی ووڈ کی فلم کی طرح دیکھا اور اپنے بچوں کو بستروں میں چھپائے چین کی نیند سوتے رہے۔ یہ تھا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا منظر۔ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں گھرے بچے اور معصوم لڑکیاں۔ ہمیں صرف گولیوں کی گھن گھرج سنائی دیتی رہی لیکن ان کی چیخیں ہمارے کانوں تک نہ پہنچ پائیں۔
ان کی بھوک اور پیاس کے عالم میں ظالمانہ موت پر ہمارے تبصرے عجیب تھے۔ یہ دیکھو اسلام آباد کے بیچوں بیچ ایک تماشہ بنایا تھا ان لوگوں نے، ان میں تو صرف 73 لوگ مرے ہیں، یہ خارجی ہیں، واجب القتل ہیں، یہ پوری دنیا میں ہمارا امیج خراب کر رہے تھے۔ خس کم جہاں پاک، وہ دن اور آج کا دن، اس ملک کو چین نصیب نہیں ہو سکا۔ اس دن سے اﷲ نے ہمارے دلوں میں نفرت اور تعصب کو گہرا کر دیا۔ اس لیے کہ ہم نے دوسروں کی موت پر خوش ہونا سیکھ لیا تھا۔
پھر 12 مئی کو کراچی میں لوگ بھونے جائیں ہم اسلام آباد میں جشن مناتے تھے، کوئٹہ میں ہزارہ منگول قبائل کے لوگ چن چن کر مارے جائیں، ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا تھا، قرآن کا درس دینے والا کوئی نہتہ عالم دین گولیوں کا نشانہ بنے، ہم گھروں میں خاموش اسے ایک عام سی خبر سمجھتے تھے، ہماری نفرت، تعصب اور خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے مخالف کا جنازہ پڑھنے نہیں جاتے۔ ہمارے کسی بھی عقیدے، رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کی محفل میں چلے جائو مخالف کی موت پر ان کے ہاں ظاہر نہ بھی ہو پھر بھی ایک دبی ہوئی خوشی ضرور ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی موت پر رونا بھول چکے ہیں۔ ہم صرف اپنوں کا ماتم کرتے ہیں۔
جو لوگ بحرین میں قتل عام کی مذمت کرتے تھے، انھیں شام میں انسانوں کے قتل پر ماتم بھول جاتا ہے، اور جو لوگ شام کے مقتولین پر نوحہ کناں ہیں انھیں بحرین کا فوجی ایکشن جائز لگتا ہے۔ جو لیبیا میں امریکی اور یورپی مدد سے قذافی کی موت کو جائز خیال کرتے تھے انھیں شام میں امریکی اور یورپی مدد ملت اسلامیہ کے خلاف سازش لگتی ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ ہر کوئی میڈیا کو گالی دیتا ہے، ہر کوئی حکومت مخالفین کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ سب قرآن پڑھتے ہیں لیکن اﷲ کے عذاب کی نشانیاں نہیں دیکھتے۔ سورہ الانعام کی 65 ویں آیت میں اﷲ فرماتے ہیں۔ اﷲ تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور یوں ایک دوسرے کی طاقت اور عذاب کا مزا چکھا دے۔ ہم تعصبات کے اندھے غار میں گم ہیں اور ہماری حالت سورہ یٰسین میں بیان کیے گئے اﷲ کے اس عذاب میں گرفتار والی ہے ’’اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں ملیامیٹ کر دیں، پھر یہ راستے کی تلاش میں بھاگے پھریں، لیکن انھیں کہاں کچھ سمجھائی دے گا۔ اور عذاب سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اجتماعی استغفار۔
اس خواب کی تکمیل کی راہ پر
اوریا مقبول جان جمعـء 10 اگست 2012
دنیا کی کوئی تبدیلی‘ انقلاب‘ ترقی اور بہتری ایسی نہیں جس کی بنیاد میں عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے دانشوروں‘ عالموں‘ رہنمائوں اور شاعروں کے خواب موجود نہ ہوں۔ گزشتہ چھ ماہ سے العلم ٹرسٹ کے ذریعے میں ایک خواب کے تانے بانے بُن رہا ہوں۔ یوں تو یہ خواب گزشتہ پانچ صدیوں سے مسلم امہ کا ہر ذی شعور اس لمحے سے دیکھ رہا ہے جب سے ہم پر زوال اور ادبار کے بادل چھائے ہیں۔ ان پانچ صدیوں میں نہ ہمارے خواب کم ہوئے اور نہ ہمارا جوش ٹھنڈا۔ مغرب کے جدید ترین تحقیقی اداروں نے جو سروے مسلمان ملکوں میں کیے‘ انھیں دیکھ کر یہ حیرت ہوئی کہ مغرب کی چکا چوند ترقی کے باوجود اور جمہوریت کے دلفریب اور پر کشش ماحول کی موجودگی میں اس امت کی اکثریت آج بھی خلافت راشدہ کے دور کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہے۔
ایسی امت کو پھر کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے۔ سالوں اس پر غور کیا تو ایک بات اس محدود عقل اور تجربے کے حامل ذہن میں آئی کہ ہم تبدیلی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن گزشتہ پانچ سو سالوں میں میرے جیسے دانشوروں اور بہت اہم قابل احترام عالموں‘ محققوں اور رہنمائوں نے اس نظام کے خاکے پر بہت کم کام کیا ہے۔ جو تھوڑا بہت کام بھی ہوا ہے وہ ملکوں ملکوں بکھرا ہوا ہے۔ ہم نے گزشتہ پانچ سو سالوں میں جو بھی لکھا وہ اول تو ہمارے سنہری دور کا ماتم تھا یا پھر اس دور کو ویسے ہی نافذ کرنے کی خواہش کا اظہار۔ اسلامی معیشت اور سود کے خلاف کام کرتے ہوئے ہم لوگوں نے سود کی حرمت میں بار بار وہ دلیلیں نئی کتابوں میں خوبصورت مجلد ایڈیشنوں میں تحریر تو کر دیں لیکن اس بات سے بہت کم لوگ آگاہ رہے کہ اس سنہری دور میں سود تو انفرادی عمل تھا اور آج سود ایک عفریت‘ ایک بلا اور آکٹوپس کی صورت دنیا کا سب سے منظم ادارہ بن چکا ہے جس میں کاغذ کے نوٹوں سے لے کر بینکنگ‘ عالمی قرضوں سے افراط زر کے گورکھ دھندے اور معیشت کو سانپ کی طرح کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈے تک شامل ہو گئے۔
کچھ اصلاح کرنے نکلے تو انھوں نے اسی بینکنگ نظام کی غلیظ عمارت میں ایک چھوٹی سی جگہ کو صاف کر کے اسلامی بینکنگ کی مسجد بنانے کی کوشش کی اور یہ بھول گئے کہ اس مکروہ عمارت کی چھت سے سود کی غلاظت اس مسجد میں مسلسل ٹپک کر اسے ناپاک کر رہی ہے۔ اس کا حل تو ایک تھا کہ اس پورے نظام کے مقابل ایک اتنا ہی موثر نظام مرتب کیا جاتا۔ شراب خانے کے مقابلے میں مسجد بنائی جاتی لیکن یہاں تو اس کے اندر ایک کونہ مخصوص کر دیا گیا۔ یہی حال بحیثیت امت ہمارے اس ماتم کے ساتھ ہوا جو ہم نظام تعلیم کے بارے میں کرتے ہیں۔ ہم اپنی نسل کی تباہی ان کتابوں میں تلاش کرتے ہیں جو انھیں وہ ساری اخلاقیات سکھاتی ہیں جو مغرب کے معاشرے کا خاصہ ہیں اور پھر وہ ایک دن بڑا ہو کر یہ تصور پختہ کر لیتا ہے کہ اسلام بس اسی دور کی ایک کوشش تھی جو اپنا جلوہ دکھا کر چلی گئی۔
ایسا تو سب تہذیبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے دانشوروں اور عالموں نے ان بچوں کے لیے کوئی ایسا نصاب تعلیم‘ ایسی کتابیں‘ کہانیاں‘ کارٹون فلمیں اور جدید دور کے مسائل کو حل کرتی تعلیمات پر مبنی اسلامی فکر پر لکھی گئی تحریریں مرتب نہ کیں۔ جلوس نکالے‘ نعرے لگائے‘ لاٹھیاں کھائیں جانیں قربان کیں جو ذرا کام کو نکلے انھوں نے اسی مغربی تعلیم میں چند اسلامی مضامین شامل کر کے سمجھا مسئلہ حل ہو گیا۔ ہمارا دامن اس معاملے میں بھی خالی رہا۔ امور مملکت میں بھی ہمیں ایک مختلف بیورو کریسی‘ پولیس اور الف سے لے کر یے تک تمام قوانین ایسے بنانے چاہئیں تھے جو ایک صالح معاشرے کا منظر پیش کرتے۔ ہم نے چند قوانین بنائے اور انھی ججوں اور پولیس والوں کے حوالے کر دیے جن پر خود حد قائم ہوتی تھی۔
ہم نے عورت اور خاندانی نظام کی اسلامی اقدار پر بحثیں کیں لیکن پوری مسلم امہ میں ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو عورت کو اس گھر جس کی وہ نگہبان ہے‘ اسے چلانے کے لیے مخصوص علم سے مالا مال کرے جس میں بچوں کی تربیت سے لے کر ان کے نفسیاتی‘ جذباتی اور اخلاقی مسائل کے حل‘ معاشیات‘ بوڑھوں کی نگہداشت‘ تزئین و آرائش اور صحت کے اصول پڑھائے جائیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں العلم ٹرسٹ نے دو کام کیے۔ ایک تو اس سارے کام کو اکٹھا کرنا شروع کیا جو اس معاملے میں آج تک ہوا۔ دوسرا ان اداروں کا ایک خاکہ مرتب کرنے کی کوشش جن سے تبدیلی کا آغازہو سکتا ہے۔ تیسرا کام جو ذرا عوامی سطح کا تھا وہ کاغذ کے نوٹوں کے مقابلے میں سونے اور چاندی کے درہم و دینار کی بابت پیشقدمی کی۔ عمر ابراہیم وڈیلوکی‘ رمضان کے بعد دوبارہ آمد پر ایک بہت بڑی کمپنی کا خاکہ ذہن میں ہے جو قائم کی جائے گی۔
اس دوران ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ اگر ان سب تبدیلی کے خاکوں کو عملی شکل نہ دی گئی تو یہ پھر کتابوں کی زینت بن کر الماریوں میں دیمک کی نظر ہو جائیں گے۔ ہمارا یہ خواب کوئی نیا نہیں۔ دنیا میں ہر تبدیلی کے پیچھے ایسے ہی خواب تھے جن کو لوگوں نے آہستہ آہستہ پورا کیا۔ اس وقت دنیا میں آپ کو سو سے زیادہ ایسے شہر ملیں گے جو ان تبدیلی کے مراکز کے گرد ترتیب پائے گئے۔ آکسفورڈ 1096ء میں چند کمروں میں مشتمل عمارت میں قائم ہوئی‘ 1167ء میں ہنری دوئم نے بیرون ملک پڑھنے پر پابندی لگائی اور 1209ء میں یہ ایک عظیم یونیورسٹی بن چکی تھی جس کے گرد ایک شہر آباد تھا۔
ایسی ہی تاریخ کیمبرج کی ہے۔ دسویں صدی عیسوی میں جب یورپ مسلمانوں کے علم سے متاثر ہوا تو انھوں نے پیرس‘ نیپلز‘ نیبورن‘ بولگنا اور ٹولیڈو میں طالب علموں کو عربی پڑھانی شروع کی تاکہ وہ ہمارے علم تک رسائی حاصل کر سکیں اور پھر یہاں تک کہ ہر علاقائی زبان میں ان علوم کو ترجمہ کیا۔ اس طرح امریکا اور یورپ میں مسیا چوسٹ‘ جورجیا‘ ٹیکساس‘ کیلی فورنیا‘ نوسیروڈو‘ ییل‘ ورجینیا‘ سالمنیکا اور کئی یونیورسٹیوں کے گرد شہر آباد ہیں جنھیں یونیورسٹی ٹائون کہتے ہیں۔ اکیلے بوسٹن شہر میں دو لاکھ پچاس ہزار طالب علم موجود ہوتے ہیں۔ ان شہروں کی فضا ان علوم سے بہرہ مند ہوتی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہزاروں گھروں پر مشتمل پوش سوسائٹیاں وغیرہ کنکریٹ کی عمارتیں اور کول تارکی سڑکیں بنائیں لیکن وہ کسی ایسے مرکز کے گرد نہیں گھومتی تھیں جہاں سے علم کی روشنی پھوٹے۔ ہمارا ایک خواب ہے ایک ایسا شہر آباد کرنے کا جس کا آغاز اسی طرح دارلترجمہ سے ہو جیسے مسلمانوں نے بغداد میں اور یورپ نے اپنے متعدد شہروں سے کیا‘ جس میں ایک جامع تعلیمی نظام پر مرتب پرائمری سے لے کر یونیورسٹی اور تحقیقی اداروں تک سب تعلیمی ادارے موجود ہوں۔ جس کے ارد گرد لوگ اپنے ذوق اور شوق کے حوالے سے گھر بنائیں۔ جس کی کمیونٹی ایک ایسا بینکنگ سسٹم بنائے جو چھوٹا ہو لیکن سود سے پاک ہو۔
یہ بہت بڑا خواب ہے۔ اس العلم ٹرسٹ کا خواب جو آج بھی ایک کمرے کی عمارت میں قائم ہے اور جس نے آج تک کسی سے مالی اعانت کی اپیل نہیں کی لیکن دنیا کا کوئی یونیورسٹی ٹائون بھی ایسا نہیں جو چند کمروں کی عمارت سے نہ شروع ہوا ہو۔ یہ خواب ممکنات میں ہے۔ چند ہزار گھرانوں اور کئی سو اداروں پر مشتمل ایک شہر جو ہماری پہچان بنے‘ جیسے بغداد اور قرطبہ اور الازہر تھے۔ اگر معمولی سرمایہ کاری سے بحریہ ٹائون شروع ہو سکتا ہے۔ ڈیفنس بن سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔ اس سارے خواب کے تفصیلی خاکے کو مرتب کرنے کے لیے اب العلم ٹرسٹ کو وسعت دینے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں ان ہمہ وقت ماہرین کی ضرورت ہے جو ہمارے لیے ایک تفصیلی معاشی‘ سماجی اور تعلیمی اداروں کے قابل عمل خاکے مرتب کریں۔
دنیا کے ہر بڑے ادارے کے پیچھے ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے۔ یہ اس شہر کا تھنک ٹینک ہو گا‘ ایک ایسا مثالی شہر جس کی نقل کرنے میں لوگ فخر محسوس کریں۔ اب مجھے اور میری ٹیم کو صاحبان ثروت کی اعانت کی ضرورت ہے۔ موجودہ تحریکی شکل سے پہلے العلم ٹرسٹ چونکہ گزشتہ بیس سال سے صرف رفاہی کام کر رہا تھا جس میں سیالکوٹ میں ایک کالج اور اسپتال شامل ہے اس لیے اس کا بنیادی اکاونٹ بھی وہیں پر ہے۔ جلد لاہور میں بھی اکاونٹ کھل جائے گا۔ اگر آپ اس خواب میں ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہیے ہیں تو اس اکائونٹ میں تعاون کر سکتے ہیں۔ ’’العلم ٹرسٹ‘ اکائونٹ نمبر3737-1‘ یونائیٹڈ بینک اگوکی سیالکوٹ: یاد رہے کہ زکوٰۃ اور صدقات ارسال نہ کیجیے۔ دیگر صورت میں تعاون کے لیے MIFE@ALILMTRUST.COM.PK پر رابطہ کرلیں۔
اکثریت نہیں عدل بالاتر ہوتا ہے
اوریا مقبول جان بدھ 8 اگست 2012
اٹھارہ کروڑ لوگ مل کر اگر یہ قانون سازی کریں کہ ہر بیوہ کے نام جو جائیداد ہے وہ بحق سرکار ضبط ہو جائے گی یا اسے منتخب ارکان پارلیمنٹ میں بانٹ دیا جائے گا تو سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ خواہ وہ ایک بیوہ ہی کیوں نہ‘ اس قانون سے متاثر ہو، اسے انصاف کیسے ملے گا۔
اسی طرح کسی بھی قوم کی منتخب پارلیمنٹ اس فخر میں مبتلا ہو کر کہ اسے عوام نے ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار دیا ہے یہ فیصلہ کرتی ہے اور اکثریت رائے سے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتی ہے کہ اس مقدس ایوان کے ممبران، چوری کریں، لوٹ مار میں غرق ہوں، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کریں، دوران مدت پارلیمنٹ کسی کو قتل کر دیں تو ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنے گا، انھیں کسی عدالت میں نہیں گھسیٹا جائے گا، ان کا استحقاق انصاف کے تمام اصولوں سے بالاتر ہے تو پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ان کی نا انصافیوں کا شکار خواہ چند ہزار لوگ ہی کیوں نہ ہوں، انھیں انصاف کون دلائے گا۔
یہ سوال انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوال ہے۔ یہ انسانی تاریخ جسے ضبط تحریر میں لانے کا عرصہ کم و بیش پانچ ہزار سالوں پر پھیلا ہوا ہے اس میں جمہوریت، عوام کی بادشاہت، پارلیمنٹ کی بالادستی کی عمر دو سو سال سے کچھ زیادہ نہیں، اس عوام کی بادشاہت سے پہلے بھی اس دھرتی پر انسان رہتے تھے، خوش حال بھی تھے اور بد حال بھی، روزمرہ کاروبار بھی کرتے تھے۔ بیوائوں، یتیموں، معذوروں کا خیال بھی رکھتے تھے۔ شہروں، محلوں اور دیہاتوں میں اجتماعی زندگی بھی گزارتے تھے۔
ایک دوسرے کی عزت و حمیت، غیرت، جان و مال اور آبرو کا احترام بھی کرتے تھے۔ ہزارہا سال تک انسانی ضروریات اور روزمرہ مسائل لوگ خود حل کر لیا کرتے تھے۔ اسپتال، ڈاکٹر وغیرہ سرکار کے مرہون منت نہیں ہوتے تھے بلکہ حکیم، طبیب یا کوئی اور سیانا ہر معاشرے میں موجود ہوتا جس نے یہ علم حاصل کیا ہوتا کہ وہ لوگوں کا علاج کرے۔
کوئی انسان دوست حکمران چاہتا تو سرکاری اسپتال بنا کر لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا جس کی مثال بغداد میں عباسی دور میں قائم بارہ ہزار بستروں پر مشتمل ایک بہت بڑے سرکاری اسپتال سے دی جا سکتی ہے جو انسانی تاریخ کا پہلا صحت کا سرکاری ادارہ تھا۔ اس کے باوجود بھی انسان نے کبھی اس کی اشد ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ معاشروں میں موجود طبیب سرکاری سر پرستی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔
اسی طرح تعلیم کے ادارے خواہ مسلمانوں کے مدارس ہوں، بدھوں کی ٹیکسلا یونیورسٹی ہو یا آکسفورڈ اور کیمرج سب کے سب اپنی فلاح اور تعلیم کے لیے لوگوں نے خود قائم کیے۔ کسی پارلیمنٹ نے ان کا بجٹ منظور نہیں کیا اور کہیں بھی عوام کے منتخب نمایندوں کے پاس یہ اختیار نہ تھا کہ کیسی تعلیم ہو اور کیسا نصاب تعلیم، البتہ بادشاہ یا حکمران عالموں کی سرپرستی ضرور کرتے اور اپنے راج دربار میں عزت کا اضافہ کرتے۔ سڑکوں، پلوں، آبپاشی کے نظام وغیرہ کی ذمے داری بھی لوگ خود ہی اٹھا لیتے۔
بلوچستان کے کاریزوں کا نظام اس قدر مشکل اور محنت طلب ہے کہ کئی کئی میل تک پچاس ساٹھ فٹ گہری سرنگوں کے ذریعے پہاڑ کے چشموں سے پانی کھیتوں تک لایا جاتا کہ راستے میں سورج کی تپش سے اُڑ نہ جائے۔ یہ سب لوگوں نے خود کھودیں اور ہر سال خود ہی ان کی صفائی بھی کرتے۔ کوئی نیک نام شیر شاہ سوری کی طرح آ نکلتا تو پشاور سے کلکتہ تک سڑک بنواتا جس میں ہر کوس پر ایک کنواں اور سرائے ہوتی تو تاریخ میں اپنا نام زندہ کرجاتا۔ لیکن اگر کوئی ایسا نہ بھی کرتا تو لوگ اپنی اس ضرورت کا بھی خود خیال کرتے۔
دنیا کے تمام معاشروں میں انسان عام شہری کے طور پر خوش و خرم زندگی گزارتے۔ لیکن ان لوگوں کے خوش و خرم ہونے کا دارومدار صرف اور صرف ایک اہم ترین اطمینان کی بنیاد پر ہوتا کہ ان کے درمیان کوئی ایک ادارہ ایسا موجود ہے جو ان کے جھگڑوں کا فیصلہ انصاف سے کرتا ہے۔ ان کے کمزوروں کو حق دلاتا ہے اور ان کے ظالموں کو سزا دیتا ہے۔ اپنی زندگیوں کو پر سکون اور پر امن رکھنے کے لیے وہ اس ادارے کا دل و جان سے احترام کرتے۔
خواہ یہ کوئی پنچایت ہوتی، جرگہ ہوتا اور کوئی ایسی محترم شخصیت جسے وہ عدل کرنے کے لیے منتخب کرتے۔ دنیا کے تمام مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی تاریخ میں کسی حکومت، حکمران یا ریاستی ادارے کی بنیادی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی طاقتور غریب کا حق مارے یا بستی کی اکثریت مل کر کسی کا گھر اجاڑ دیں۔ دنیا میں لکھے جانے والے قدیم ترین ادب میں کہانیاں ہمیشہ ایسے شروع ہوتی ہیں کہ ایک تھا بادشاہ، وہ اتنا منصف مزاج تھا کہ اس کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
پنچایت، جرگہ یا عدالت کا معیار بھی عدل تھا جس میں قبیلے کا سربراہ، پنچایت کا سرپنچ یا عدالت کا جج یہ نہیں دیکھتا تھا کہ لوگوں کی اکثریت ظالم کے ساتھ ہے یا مظلوم کے ساتھ بلکہ فیصلہ بلا خوف مظلوم کے حق میں کرتا۔ یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس کے لیے ریاست اور حکومت جیسے ادارے وجود میں آئے۔
اس کے بعد جو دوسرا اہم ترین کام لوگوں نے ریاست یا حکومت کے سپرد کیا وہ جان و مال کا تحفظ تھا۔ کسی حملہ آور فوج سے شہریوں کو بچانا، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے خلاف طاقت استعمال کرنا، شاہراہوں کو محفوظ بنانا، ہزاروں سال تک لوگ ایسے بادشاہوں اور حکمرانوں کے دور میں سکھ کا سانس لیتے رہے جو یہ دونوں کام بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔ عادل وہ کہلاتا تھا جو یہ نہ دیکھے کہ اکثریت کیا کہہ رہی ہے یا طاقتور افراد کیا زبان بول رہے ہیں۔
اسے تو عدل کرنا تھا۔ حکومتیں اور ریاستیں آج کے ’’مہذب ترین‘‘ دور میں بھی داخل ہوئیں تو ہر کامیاب حکومت کا تمغہ امتیاز یہی رہا کہ وہاں ایسا قانون نافذ ہے جو عدل پر قائم ہو نہ کہ اکثریت کی رائے پر۔ دنیا میں کسی پارلیمنٹ، کسی بادشاہ یا کسی رعایا کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ انصاف سے بالاتر ہو جائے۔ لیکن تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جہاں عوام کی اکثریت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو ہم کہیں وہ قانون ہے کہ عوام کی رائے اعلیٰ ہے تو آج ایسی قوموں کے کھنڈرات اﷲکے عذاب کی گواہی دیتے ہیں۔
حضرت شعیب علیہ اسلام کی قوم نے جمہوری طور پر اکثریت کے بل بوتے پر فیصلہ کیا تھا کہ کم تولنا یہاں کا قانون ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے جمہوری روایات کے امین ہوکر فیصلہ دیا تھا کہ غیر فطری فعل قانونی طور پر جائز ہے۔ بستیاں اﷲ کے غضب کا ایسا شکار ہوئیں کہ نام و نشان صرف عبرت کے طور پر زندہ رہ گیا۔
اٹھارہ کروڑ لوگ یا ان کے منتخب نمایندے اگر کوئی بھی قانون ایسا منظور کر لیں جس سے صرف ایک آدمی کے حق کو ہی غضب کیا جا رہا ہو، اﷲ کے غیظ و غضب کو آواز دینے کے لیے کافی ہے۔ عدل کے مقابلے میں اکثریت نہ پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ میں بالا تر رہی ہے اور نہ ہی اﷲ کے ہاں بلکہ اﷲ کے ہاں تو عذاب کی مستحق۔
شام… سیدنا مہدی کا ہیڈکواٹر
اوریا مقبول جان منگل 14 اگست 2012
گزشتہ سال بیروت کی گلیوں میں گھومتے ہوئے کہیں نہ کہیں کسی شام سے ہجرت کر کے آنے والے شخص سے ملاقات ہوتی تو ذرا سی گفتگو پر اس شخص کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے ظلم و جبر سے اپنا اقتدار برقرار رکھے ہوئے سیکولر آمروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ تیونس سے مراکش اور مصر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر تھے۔ اس دوران مجھے بیروت میں قائم کارنیگی انسیٹیوٹ کے سربراہان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔
دنیا کے ان مشرق وسطیٰ کے ماہرین کا تجزیہ میرے ملک کے تلخ کافی کے گھونٹ حلق میں اتار کر خواہشوں کو تجزیے کا رنگ دینے والے دانشوروں سے مختلف نہ تھا۔ آدھا گھنٹہ میں اس بات پر الجھتا رہا کہ یہ سارا غصہ اور احتجاج ان بدترین سیکولر ڈکٹیٹروں کے اسلام کے خلاف ظلم و جبر کے خلاف ہے۔ عرب قوم پرستی کے یہ علمبردار مصر میں ناصر‘ شام میں حافظ الاسد‘ لیبیا میں قذافی‘ عراق میں صدام‘ مراکش میں زین العابدین علی 1970 کی دہائی سے مسلط رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر ایسے شخص کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی بات کرتا تھا۔
ان سب کی سیکولر ا خلاقیات کا یہ عالم تھا کہ عورتوں کی بے حرمتی‘ بچوں کا بہیمانہ قتل‘ مردوں کو اذیت دے کر مارنا اور تشدد و بربریت کے بدترین ہتھکنڈوں کا استعمال ان کا معمول تھا‘ شہروں‘ قصبوں‘ دیہاتوں اور گلیوں بازاروں میں ان کی داستانیں بکھری ہوئی تھیں اور ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ یہ ظلم صرف اور صرف انھی لوگوں پر روا رکھا گیا جو اسلام کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ حقائق لوگوں نے مرتب کرنے شروع کیے اور کتابوں یا کتابچوں کی صورت میں لوگوں کے ہاتھ میں آ گئے۔
تین سال قبل مصر کے شہر قاہرہ میں گھومتے ہوئے کافی خانوں اور خان خلیلی کے بازاروں میں نوجوان اس بات کا عام تذکرہ کرتے تھے کہ حسنی مبارک دراصل ہم سے اسلام کی شناخت چھین کر ہمیں ایک ایسے معاشرے کی جانب دھکیل رہا ہے جس میں شرم و حیا اور غیرت وحمیت کا نام و نشان تک ختم ہو جائے۔ ایسی ہی گفتگو میرے ساتھ بیروت کی گلیوں اور بکہ وادی میں مقیم شام سے ہجرت کرنے والے افراد نے کی۔
وہ بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کی بعث پارٹی کے دور سے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے آ رہے تھے۔ وہ اس پارٹی کے ان نعروں کا ذکر کرتے جس سے اللہ سے بغاوت کا اعلان ہوتا‘ انھیں اس بات کا مکمل احساس تھا کہ ان پر یہ ظلم اس لیے روا رکھا جا رہا ہے کہ ان کی شناخت صرف اور صرف اسلامی اصولوں پر ظاہری طور پر عمل کرنے کی وجہ سے ہے۔ یہ ساری باتیں جب میں نے کارنیگی انسیٹیوٹ کے عالمی دانشوروں کے سامنے رکھیں تو انھوں نے صاف انکار کر تے ہوئے وہی تجزیاتی فقرے دہرائے جو پاکستانی تجزیہ نگار ادا کر رہے تھے۔
یعنی یہ تو انسانی حقوق کی جدوجہد ہے۔ یہ تو ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جمہوریت کی خواہش کا اعلان ہے‘ انھی تبصرہ نگاروں کی رپورٹیں تھیں جنہوں نے پوری دنیا کے میڈیا پر التحریر چوک سے لے کر دیگر ملکوں میں کھولتے ہوئے ہجوم کو ایک سیکولر جمہوریت نواز اور انسانی حقوق کی تحریک بنا کر پیش کیا۔ دنیا کے ہر ٹیلی ویژن اور اخبار نے البرادی جیسے لوگوں کو ہیرو بنانے کی کوشش کی تاکہ کہیں بھی تحریک کا اسلامی تشخص بحال نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے مصر سے لے کر تیونس‘ مراکش اور لیبیا میں ان تحریکوں کی حمایت کر دی۔
ہلیری کلنٹن اپنے ہی دوستوں اور ساری زندگی امریکی غلامی میں گزارنے والے سیکولر ڈکٹیٹروں کے خلاف بیان داغنے لگی۔ وہ جنہوں نے امریکا ا ور مغرب کو خوش کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے لوگوں کا خون بہایا لیکن جب عوام کا سیلاب امڈا‘ ڈکٹیٹر رخصت ہوئے تو سارے تجزیہ نگاروں کے تبصرے ان کی ناکام خواہش ثابت ہوئیں۔ عوام نے ان قوتوں کو اقتدار پر لا بٹھایا جو گزشتہ چالیس سالوں سے اسلامی تحریکوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے پھانسیوں‘ قتل و غارت اور ظلم و تشدد کا شکار ہوئیں۔ اخوان المسلمون جس کا نام لینا پورے مصر میں حکومتی تشدد کو دعوت دینا تھا آج اس ملک کے اقتدار پر قابض ہے۔
اخوان اور اسلامی بنیاد پرست ان تمام ممالک میں تحریکوں کے دوران واضح طور پر کھل کر نہ آئے۔ انھیں علم تھا کہ اگر ایسا ہوا تو کچل دیے جائیں گے۔ اسی لیے تمام نعرے ڈکٹیٹر شپ کے خلاف تھے۔ شخصیت کے ظلم کے خلاف احتجاج تھا۔
لیکن شام کا معاملہ ان سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ باقی ملکوں میں کسی ملک کی فوج نے اس قدر ظلم وستم کا مظاہرہ نہیں کیا‘ شام کے شہروں میں فوج کی کارروائی ایسے لگتی ہے جیسے امریکی فوج فلوجہ اور بصرہ کے شہروں میں گھس آئی اور نہ کسی کی جان محفوظ ہو اور نہ ہی عزت‘ ایسی داستانیں ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شاید بوسنیا کے بعد کسی اور ملک میں قدر مسلم نسل کشی کی گئی ہو۔ یہ اعزاز بھی شام کی سکیولر اور لا دین بشارالاسد کی حکومت اور اس کی لبرل بعث پارٹی کو حاصل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے نعرے کسی اور ملک کے عوام نے لگائے اور نہ ہی ایسی مزاحمت کسی اور ملک میں نظر آئی۔
لاکھوں کا مجمعہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے بڑھتا ہے ان کے منہ پر نہ جمہوریت ہے نہ انسانی حقوق‘ نہ آمریت ہے اور عوام کی رائے۔ بس خلافت کا نعرہ ہے۔ کسی بھی میڈیا کی سائٹ پر چلے جائیں آپ کو ہجوم میں لوگوں کے سروں پر کلمہ طیبہ کی پٹیاں نظر آئیں گی۔ جذبہ شہادت سے سرشار یہ لوگ اس مقام پر تحریک کو لے آئے ہیں کہ ستر فیصد علاقہ شامی حکومت اختیار سے نکل چکا ہے۔ سیکیورٹی ہیڈ کوارٹر پر حملہ جسے خود کش حملہ قرار دے کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں اہم ترین شامی فوجی قیادت ہلاک ہوئی لیکن تحریک کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی موساد کا نمایندہ اور امریکی سی آئی اے کا نمایندہ جن کی موت کا کسی دوسرے جگہ پر دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی یہیں ہلاک ہوئے۔ شام میں نصرت کس کی ہو گی۔
سید الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما تین جگہ جنگ شروع ہو گی‘ عراق‘ یمن اور شام۔ صحابہ نے پوچھا ہم لوگ کہاں جائیں فرمایا شام کیوں کہ اللہ کے فرشتے وہاں نصرت کے لیے نازل ہوں گے۔ شام جو تمام احادیث کے مطابق امام مہدی کا ہیڈکوارٹر بنے گا۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا۔ وہاں اگر آج خلافت اور لبیک اللھم لبیک کے نعرے سنائی دے رہے ہیں تو یہ بشارتوں کے پورا ہونے کی علامت ہے۔
نوٹ:۔ العلم ٹرسٹ کے اکائونٹ نمبر کے بارے میں بیرون ملک احباب نے کہا کہ معلومات نامکمل ہیں۔ معذرت قبول فرمائیں مکمل اکائونٹ تفصیلات یہ ہیں۔ اکائونٹ نمبر 100-3737-1 برانچ کوڈ 1278 ‘ سوئفٹ کوڈ UNILPKKA یونائیٹڈ بنک‘ اگوکی‘ العلم ٹرسٹ‘ ایک اور وضاحت ضروری خیال کرتا ہوں العلم ٹرسٹ آج سے بیس سال قبل میرے انتہائی پیارے دوست سعید انور حیات صاحب نے اپنی تمام جائیداد وقف کر کے رفاحی کاموں کے لیے بنایا۔
ان کی کمال مہربانی ہے کہ میری سود کے خلاف‘ اور اسلامی نظام کے تدوین کے لیے تڑپ دیکھ مجھے اس ٹرسٹ کی مکمل ذمے داری دے جو میرے لیے بہر صورت اس دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہت بڑی جواب دہی ہے۔ یہ ٹرسٹ سیالکوٹ میں اسپتال اور اسکول جیسے ادارے انتہائی خاموشی سے چلا رہا ہے۔ جیسے سعید صاحب خود دیکھتے ہیں۔ ان اداروں میں زکوۃ و صدقات کی صورت اگر آپ حصہ ڈالنا چاہیں تو اسی بینک کا اکائونٹ نمبر100-3738-1 بالکل علیحدہ ہے جہاں زکوٰۃ وہ صدقات کے مصارف کے مطابق اخراجات کیے جاتے ہیں۔
ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں
اوریا مقبول جان جمعرات 29 مئ 2014
’’ایک چھوٹا سا بیج بویا گیا اور اس کے پھل سے ہم آج فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ عدالتی زبان کی تبدیلی تھی۔ فارسی کی جگہ انگریزی رائج کر دی گئی۔ ہندوستان کی تعلیم کو مغربیت کا رنگ دینے کے لیے یہ لازمی امر تھا۔ بظاہر یہ تبدیلی معمولی معلوم ہوتی تھی اور اس کے نتائج بھی معمولی نظر آتے تھے، لیکن مسلمانوں نے اس تبدیلی پر سخت احتجاج کیا اور فی الواقع یہ ان کے لیے سخت تباہ کن تبدیلی تھی‘‘۔ یہ الفاظ کتھرین میو (Katherine Mayo) کی کتاب ’’مدر انڈیا‘‘ سے ہیں۔
یوں تو یہ خاتون 27 جنوری1867 کو امریکی ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہوئی لیکن وہ ایک ایسی سیاسی مورٔخ تھی جو دنیا بھر پر سفید فام اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ لوگوں کے اقتدار کی خواہشمند تھی۔ اس کے نزدیک برطانوی گورے اینگلو سیکسن پروٹسنٹ عیسائی ہیں اور ان کا اقتدار دنیا پر قائم رہنا چاہیے۔ وہ امریکا میں غیر سفید افراد کے داخلے کے خلاف تھی۔ اس نے امریکا سے فلپائن کی آزادی کی شدید مخالفت کی۔ وہ صرف اپنی تحریروں تک ہی نسل پرست نہ تھی بلکہ اس نے نیو یارک کے گرد و نواح میں مضافاتی پولیس کے قیام میں سرگرم حصہ لیا۔
اس پولیس کا مقصد امریکا میں مزید لوگوں کی آمد پر کنٹرول کرنا تھا اور مزدوروں میں جو حقوق کے جنگ کی تحریک چل رہی تھی اس پر قابو پانا شامل تھا۔ کتھرین میو اپنے اندر کے تعصب کو بالکل نہیں چھپاتی تھی اور وہ یہ سمجھتی تھی کہ دنیا میں کالے اور دیگر غیر گوری اقوام کے لوگ کسی بھی قسم کی تحریک چلائیں یا بغاوت پر آمادہ ہوں تو یہ پیدائشی طور پر حق حکمرانی رکھنے والے برطانوی گوروں کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ اس کی کتاب ’’مدر انڈیا‘‘ اس تصور کی بنیاد پر لکھی گئی تھی کہ ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں میں حکومت کرنے، ترقی کے لیے آگے بڑھنے اور دنیا پر چھا جانے کی کوئی اہلیت نہیں۔ ان کے اندر اختلافات اسقدر ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔ اس لیے انھیں آزاد نہیں کرنا چاہیے۔
اس کتاب پر بہت ہنگامے ہوئے، اس کو لوگوں نے جلایا بھی اور ساتھ میں کیھترین کا پتلا بھی نذر آتش کیا۔ یہ کتاب 1927ء میں شایع ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت عثمانیہ کو توڑ کر مسلم امہ کو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا چکا تھا اور ہندوستان ہی وہ واحد خطہ تھا جہاں سے مسلمانوں کی مرکزیت یعنی خلافت کے لیے ایک جاندار تحریک اٹھ چکی تھی۔ یہ برصغیر میں انگریزوں کے اقتدار کے بعد پہلی سیاسی تحریک تھی۔
اس ہنگامے میں یہ کتاب آئی اور اس کے خلاف پچاس سے زیادہ کتابیں یا کتابچے تحریر کیے گئے۔ گاندھی جیسے شخص نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا کام معاشرے کے گٹروں کے ڈھکن کھول کر دنیا کو بتاتا تھا کہ اندر کتنی بدبو ہے۔ کتھرین میو دنیا پر گورے لوگوں کی حکومت کا اپنا یہ خواب سلامت لے کر 9اکتوبر 1940ء کو اس دنیا سے چلی گئی۔ اس کی زندگی میں برصغیر پاک و ہند پر برطانیہ کا پرچم ہی لہراتا رہا۔
کتھرین میو کے تعصب اور نسل پرستی پر تنقید کرنے والے آپ کو ہزاروں مل جائیں گے لیکن اس کے بدترین مخالفین نے بھی اس پر تاریخی بددیانتی کرنے یا حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا الزام نہیں لگایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ’’مدر انڈیا‘‘ میں ایک متعصب گورے کے اندر کا سچ کھول کر بتا دیا اور اس کے نزدیک کسی قوم کو غلام بنانے، اس کی صلاحیتوں کو ختم کرنے اور اس کو اپنے گھر اور ماحول سے بیگانہ کرنے کا سب سے آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ ان کو تعلیم اس زبان میں دینا شروع کر دو جو گورے کی زبان ہے۔ آپ اپنی زبان میں کسی دوسرے ملک کی تہذیب و معاشرت کی کہانیاں کتنی تفصیل سے کیو ں نہ پڑھیں، آپ ان سے مرعوب نہیں ہو سکتے، آپ ان کے رنگ میں نہیں رنگ سکتے۔
لیکن جیسے ہی آپ اسکول میں داخل ہوتے ہی، تمام علوم کسی غیر کی زبان میں حاصل کرنے لگیں تو آپ کے دماغ کے تصوراتی ماحول میں جو نقشہ ایک فلم کی طرح تیار ہوتا ہے وہ آپ کا زندگی بھر کا خواب بن جاتا ہے۔ یہاں دو بچوں کی مثال لے لیتے ہیں۔ ایک وہ ہے جو اپنی زبان میں سرسوں کے کھیت، حقے کی گڑ گڑ، چکی کی گھرِ گھرِ، بیلوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی آواز، مؤذن کی اذان، قطار میں کھڑے چاول کی پنیری لگاتے لوگ اور بانسری، ڈھول اور سارنگی جسے سُروں کی کہانیاں اپنی کتابوں اور اپنی زبان میں پڑھتا ہے۔
ان کہانیوں میں اسے اپنی خاک سے جنم لینے والے ہیرو بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب کتھرین میو کے خوابوں کی دنیا والا بچہ ہے جو اسی کی مطلوبہ زبان انگریزی میں اسکول میں گڈ مارنگ سے دن شروع ہوتا ہے اور کہانیوں میں ایک ایسے ماحول کی تضاد پر اپنے ذہن پر فلم کی طرح نقش کرنے لگتا ہے جو اس کے لیے خواب کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ انگوروں کی فصل پکنے اور شراب کشید کرنے کے رقص پڑھتا ہے، اس ماحول میں چیری کے پھول ہیں۔ بڑے بڑے کرسمس والے درخت ہیں۔ سانتا کلاز ہے۔ برفانی مجسمے ہیں۔ سنڈر یلا ہے جو ماں سے جھوٹ بول کر گھر سے نکلتی ہے۔
سات بونے اور سنووائٹ ہے۔ ان سب کرداروں کا ایک لباس، ماحول اور معاشرہ ہے۔ دو مختلف معاشرے دو مختلف ذہنوں میں فلم کی طرح نقش ہو رہے ہیں۔ سرسوں کے کھیت کا معاشرہ اور چیری کے پھولوں کا معاشرہ۔ ایک خواب ہے جسے اس بچے نے کبھی چھو کر نہیں دیکھا ہوتا لیکن وہ تمام عمر اس خواب کو سینے سے سجائے رکھتا ہے۔ لیکن دوسرا معاشرہ ایک حقیت ہے، اس کے اردگرد کا ماحول ہے۔ یہ ماحول اسے اپنے اردگرد نظر آتا ہے لیکن یہ کسی نرسری کی نظم میں نہیں، کسی کردار کے بچوں کی کتابوں کے قصے میں نہیں، کسی آفاقی اور زمینی ہیروز کے تصور میں نہیں۔
دنیا کے کسی مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں یہ دو معاشرے اور دو گروہ نہیں ہوتے بلکہ کسی غیر کی زبان میں علم حاصل کرنے والا گروہ تو سرے سے ہی وجود نہیں رکھتا۔ دنیا کے کسی ملک نے آج تک کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کر کے ترقی نہیں کی۔ لیکن جن پسماندہ اور محکوم قوموں نے ایسا کیا ان کے افراد آپ کو ان غیر ملکوں میں اپنی صلاحیتوں کو بیچتے نظر آئیں گے۔ فرانس میں افریقی ممالک کے لوگ اور انگلینڈ میں اس کی زیر تسلط علاقوں کے لوگ۔ یہ لوگ کتھرین میو کے غیر ملکی زبان تعلیم میں دیکھے گئے بچپن کے خوابوں میں زندہ رہتے ہیں اور اس ماحول کے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں۔
اسی لیے انھیں اپنے گاؤں، اپنی مٹی، اپنے کھیت اجنبی لگتے ہیں۔ دھوتی والا جاہل اور داڑھی والا شدت پسند محسوس ہوتا ہے۔ برقعے والی فرسودہ اور اسکرٹ والی ترقی یافتہ نظر آتی ہے۔ یہ اوّل تو اپنے خوابوں کی دنیا کے ماحول کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں اور وہاں جا کر آباد ہو جاتے ہیں۔ نہ ہو سکیں تو اپنے گھر، ماحول اور طرزِ زندگی کو ویسا ہی بنانے کی کوشش ضرور کرتے رہتے ہیں۔ گاؤ تکیے سے صوفے، رنگین پلنگ سے ڈبل بیڈ، قتلمے سے پیزا، اور شلوار سے جینز تک کے سفر میں انھیں ایک لمحے کے لیے شرمندگی نہیں ہوتی۔
ایک غیر زبان کی کہانیوں میں ابتدائی دس سالہ زندگی گزارنے کے بعد ان لوگوں کی زبان پر ایک ہی فقرہ ہوتا ہے ہم ’’انگریزی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے‘‘ اور پھر آہستہ آہستہ ان کی زندگیوں سے اپنا سارا ماضی ایسے محو ہو جاتا ہے کہ انھیں کچھ احساس تک نہیں ہوتا۔ جس قوم سے اس کا ماضی چھین لیا جائے وہ ایک بے زمین اور بے علاقہ قوم بن جاتی ہے۔ اس کے ذہین ترین افراد ان پرندوں کی طرح ہوتے ہیں جنھیں کوئی بھی خرید کر اپنے علاقوں کی زینت بنا لیتا ہے۔ بچپن میں پڑھا ہوا خوابوں کا جزیرہ ان کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے۔
وہ واشنگٹن ہو یا لندن، پیرس ہو یا برلن کسی بھی جگہ جائیں تو انھیں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں ہم عین اس خواب کے ماحول میں آ گئے جو ہم نے بچپن میں اسکول میں پڑھا تھا اور وہ ماحول کبھی ہمیں ہمارے اردگرد نظر نہیں آتا تھا۔ یہ ہے ان قوموں کا مستقبل جو ماضی سے ٹوٹ جاتی ہیں اور حال ان کا یہ کہ ٹوکریوں میں ایسے بچے سجائے بیٹھی ہوتی ہیں جنھیں دوسروں کی زبان میں علم، تربیت اور تہذیب سکھائی جاتی ہے اور مستقبل تو تاریک ہوتا ہی ہے۔ دنیا خریدار ہے اور ہم اپنی ذہین اولادیں بیچنے والے۔ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔
تیسری عالمی جنگ کس کے درمیان ہوگی
اوریا مقبول جان جمعـء 20 جون 2014
تین ماہ قبل عراق میں لڑنے والے عسکریت پسند گروہ انصارالاسلام نے اپنے نئے تربیتی کیمپ کی ایک ویڈیو جاری کی جس کا نام تھا ’’معسکر شیخ رشید غازی‘‘۔ ویڈیو کے آغاز میں مختلف کیمپوں میں جنگی مشقیں کرتے ہوئے جنگجوئوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ حصے اس مہارت سے ایڈٹ کیے گئے ہیں کہ کسی شخص کا چہرہ واضح نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد لال مسجد کے عبدالرشید غازی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور پھر ان کی جانب سے ایک پیغام ’’امت کے مردوں کے نام‘‘ پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔
یہاں پس پردہ کمنٹری دو زبانوں میں ہو رہی ہوتی ہے، ایک عربی اور دوسری کُردش۔ تمام کے تمام عسکریت پسندوں نے کُردوں والی شلوار زیب ِ تن کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے بعد لال مسجد کے اردگرد فوجیوں کی صف بندیاں دکھائی گئی ہیں اور پھر آپریشن کے بعد لال مسجد کے مختلف حصے نظر آتے ہیں اس کے ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے بیان کا ایک اقتباس اسکرین پر آتا ہے جس میں عبدالرشید غازی کو ایک ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ سب سے اہم ترین حصہ آخر میں ایک جہادی ترانہ ہے جو اُردو میں ہے جس کا ترجمہ عربی اور کردش زبانوں میں سب ٹائٹل کی صورت میں دکھایا جاتا ہے۔
یوں تو انصار الا سلام جولائی2001ء میں عراق کے کرد علاقے کے دو گروہوں جند الاسلام اور اسلامک موومنٹ آف کردستان کے ادغام سے بنی اور اس نے اپنی تنظیم کو مضبوط بھی بنایا لیکن جب عراق پر امریکی حملے سے قبل سی آئی اے اپنے (Special Activities Division) اور پینٹاگون نے دسویں اسپیشل فورسز گروپ کی ٹیموں کو کردستان بھیجا اور وہاں کی قوم پرست تنظیم ’’ پش مرجا‘‘ کو ساتھ ملا کر انصار الا سلام کے خلاف خفیہ حملے شروع کیے تو ان کے ساتھیوں کو خاصہ نقصان اٹھانا پڑا۔
جارج بش نے جب امریکی سینیٹ کے سامنے عراق پر حملے کا جواز پیش کیا تو ایک الزام یہ لگایا کہ صدام حسین کو انصار الاسلام کی خبر ہے اور وہ اس کے ذریعے القاعدہ سے روابط میں ہے۔ فروری2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے اسی تنظیم کا ذکر کیا صدام حسین کو اس کا سرپرست قرار دیا جب کہ انصار الا سلام کا سربراہ صدام حسین کو ایک قوم پرست کی حیثیت سے اپنا بدترین دشمن قرار دیتا تھا۔
اس کے بعد کی کہانی طویل بھی ہے اور دلگداز بھی۔ امریکا کا عراق پر حملہ، لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام، جمہوری نظام کا طاقت کے زور پر نفاذ، آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومت اور سب سے بڑھ کر امریکا کی تربیت یافتہ ایک نئی فوج کی تخلیق۔ دنیا کو بتا دیا گیا کہ ہم نے ایک ملک میں آمریت کا خاتمہ کر کے جمہوریت نافذ کر دی ہے۔ عالمی سرحدوں کی پامالی اور ذلت کا موجودہ تاریخ میں افغانستان کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ اس کے بعد یہ دونوں ملک ایک گزر گاہ بن گئے۔ وہ عالمی برادری جس نے اقوام متحدہ بناتے وقت ایک دوسرے کی سرحدوں کے احترام کا عہد کیا تھا، جب اس نے ہی انھیں پائوں تلے روند ڈالا تو پھر وہ لوگ جو ان کے خلاف لڑ رہے تھے۔
ان کے لیے بھی سرحدیں بے معنی ہو کر رہ گئیں۔ شام کا معرکہ شروع ہوا تو جہاں عراق کی سر زمین سے ہوتے ہوئے ایران کے پاسداران، اور لبنان سے حزب اللہ کے دستوں نے شام کا رخ کیا تو وہ لوگ اور گروہ جو عراق میں امریکی افواج اور پھر اس کی قائم کردہ جمہوری حکومت سے لڑ رہے تھے انھوں نے بھی شام کا رخ کر لیا۔ شام جو اس وقت مسلم امہ کی دو استعماری قوتوں ایران اور سعودی عرب کی خطے پر بالا دستی کی جنگ میں آگ اور خون کے دریا سے گزر رہا ہے۔ ان دنوں طاقتوں کی پشت پر عالمی بالا دستی کی خواہش میں پاگل عالمی طاقتیں خونیں پنجے لہرائے کھڑی ہیں۔
ایک جانب امریکا اور مغرب ہے تو دوسری جانب روس اور چین۔ دونوں جانب کے ممالک کسی سرحد پر روایتی فوجی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ شام کی سرحد کی عصمت چاروں جانب سے تار تار کر دی گئی۔ یہ اس نظام کا حال ہے جسے عالمی قومی ریاستوں کی حرمت اور اقتدار اعلیٰ سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے وہ لوگ جو اس ساری تقسیم اور عالمی ریاستی دہشت گردی کے زخموں سے چور تھے انھوں نے بھی زمین کے نقشے پر ڈالی ہوئی ان لکیروں کو تار تار کر کے رکھ دیا۔
اس کی تازہ ترین مثال ’’دولت لااسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ ہے جسے اس وقت پوری مغربی دنیا ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور ان کی تازہ ترین کامیابیوں سے پورا مغربی میڈیا خوفزدہ نظر آ رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ فوج جسے امریکی افواج نے تربیت دی اور جسے وہ ایلیٹElite فورس کہتے تھے اور جس کے بارے میں پورا مغربی میڈیا یہ تاثر دیتا رہا کہ اب عراق میں امریکی فوج کا نعم البدل میسر آ گیا ہے۔ یہ ایلیٹ فوج عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے ایسے بھاگی کہ اپنے ہیلی کاپٹر، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور اسلحہ تک چھوڑ آئی۔ افواج کسی نظریے کی بنیاد پر قربانی دیا کرتی ہیں، خواہ وہ مادرِ وطن ہو یا مذہب، نسلی برتری کا تصور ہو یا علاقائی غلبے کی آرزو۔
؎مراعات سے بہترین ٹریننگ اور شاندار نوکری تو کی جا سکتی ہے لیکن مرنے کا جذبہ مفقود ہوتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کی قوم کُرد جسے مغربی دنیا نے چار ملکوں شام، ترکی، عراق اور ایران میں تقسیم کیا تھا۔ اس آئی ایس آئی ایس میں ان کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ یہ ان مصنوعی سرحدوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔ لیکن اس جنگ کے جیتنے اور وسیع علاقے پر قبضے کے بعد ایک خطرہ اور ہے جو پوری مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اب اس جنگ میں نظریہ شامل ہو چکا ہے۔ آئی ایس آئی ایس خود کو ایک سنی تنظیم کہلاتی ہے اور اس نے شام اور عراق کے سنی علاقوں کے وسیع حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو القاعدہ سے علیحدہ بھی کر لیا ہے اور اس کے نظریات بہت شدت پسند ہیں۔
اب ان کے سامنے لڑائی کے لیے شیعہ اکثریت کے علاقے ہیں۔ اس جنگ میں اب ریاستیں خود سرحدوں کی حرمت کو پامال کرنا چاہتی ہیں۔ ایران سے پاسداران کا ایک قافلہ وہاں پہنچ چکا۔ دنیا کے ہر ملک میں اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کے نام پر تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے ساتھ مغربی ممالک انگلینڈ، فرانس اور بقیہ یورپی ممالک کے رضاکاروں ساتھ ساتھ امریکی شہری بھری لڑ رہے ہیں۔ یہ وہ کشت و خون ہے جس کا خواب مغرب مدتوں سے دیکھ رہا ہے اور اب اسے یہ پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کہ پوری امتِ مسلمہ میں اتحاد کی آواز بلند کرنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا۔
ہر عالم دین کی اپنی فقہ اور اپنے مسلک کے مطابق شہید اور جہنم رسید ہیں۔ ایک کے مقدس مقامات دوسرے کے لیے مسمار کرنے کے لائق ہیں دوسرے کی مقدس شخصیات پہلے کے لیے دشنام اور لعنت و ملامت کی علامت۔ ہر کوئی اپنے مسلک کے لوگوں کا تحفظ چاہتا ہے خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہوں اور خواہ ان کو بچانے کے لیے کتنی ہی سرحدیں کیوں نہ عبور کرنا پڑیں۔ جو گروہ ریاست کے ساتھ ہے وہ ان کے لیے امن کا علمبردار اور حق پر ہے جب کہ جو گروہ حکومت کے خلاف ہے وہ ان کے لیے دہشت گرد اور باغی ہے۔
جمہوری، قومی اور سیکولر ریاستوں کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی گروہ کو دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، بے رحمانہ معصوم لوگوں کا قتل اور بھتہ خوری کا مصدقہ لائسنس لینے کے لیے دو کڑی شرائط سے گزرنا ہوتا ہے، ایک یہ کہ وہ ریاست کے آئین کو مانتا ہو اور دوسرا اس کی پارلیمنٹ میں عدوی نمایندگی موجود ہو۔ اس کے بعد آپ قوم پر ست بن کے حکومت کی رٹ کا مذاق اڑایں یا مسلک کے نام پر دوسرے مسلک کی اقلیت پر زندگی تنگ کر دیں۔ آپ حق پر بھی ہیں اور جائز بھی کیونکہ آپ نے اس عالمی ریاستی نظام کو قبول کر لیا ہے۔ جسے اس دور میں قومی ریاست کہتے ہیں۔؎
مسلم امہّ میں اس وقت پچاس سے زیادہ قومی ریاستیں ہیں۔ ان میں سے افغانستان، عراق اور لیبیا کی سرحدوں کی بے حرمتی بڑی ریاستوں نے براہِ راست فوج کشی سے کی اور باقی کئی ریاستوں میں ایران اور سعودی عرب نے اسلحہ، سرمایہ اور افرادی قوت سے ان کی سرحدوں اور اقتدار اعلیٰ کو خاک میں ملایا۔ ان تمام شورش زدہ علاقوں میں ریاستیں دہشت گردوں کے خلاف اس لیے آپریشن کر رہی ہیں کہ ان کی حکومتی بقا کا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب ان ریاستوں کے خلاف لڑنے والے بھی ان تمام سرحدوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہر اس ریاست سے لڑ رہے ہیں جو ان کے مسلک یا نظریے کے خلاف ہے۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم ریاستوں کی آپس میں جنگ تھی لیکن شاید تیسری جنگ عظیم ریاستوں اور ان کے مد مقابل گروہوں کی جنگ ہو گی۔ یہ جنگ کون جیتتا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن جو تصور اور نظریہ جنگ کے آغاز میں ہی ہار چکا ہے وہ سرحدوں کے تقدس کا ہے۔ سب بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ ان کی عزت اور حرمت نہ حکومتیں کرتی ہیں اور نہ حکومت کے خلاف لڑنے والے افراد اور گروہ۔
رونقِ شہر
اوریا مقبول جان بدھ 14 مئ 2014
جب کبھی دنیا کے کسی ایسے شہر میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں چکا چوند روشنیوں سے رات بھی دن کا سماں کیے ہوتی ہے، دن بھر کے کام کاج کے بعد رقص و سرور میں گم بہت سے لوگ تھیٹروں، سینما گھروں، نائٹ کلبوں اور شراب خانوں کی چہل پہل۔ کئی شہر تو ایسے ہیں جہاں رات ہوتی ہی نہیں۔ ایسے لگتا ہے سورج غروب ہونے کے بعد ایک دوسرا دن نکل آیا ہو۔ ان شہروں کا دن بھی گہما گہمی اور چہل پہل سے بھر پور ہوتا ہے۔ صبح سویرے ہر قسم کے ذرایع آمد و رفت انسانوں سے کچھا کھچ بھر جاتے ہیں۔ زیر زمین ٹرینوں اور بسوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔
ٹوکیو کی ٹرینوں کا تو یہ عالم ہے کہ انسانوں کو باقاعدہ باہر سے ٹھونس کر آٹو میٹک دروازے بند کیے جائیں تو ٹرین اگلی منزل کی جانب روانہ ہو پاتی ہے۔ پیرس، لندن، نیویارک اور ایسے دیگر شہروں کی ٹرینوں کا بھی اسی قسم کا حال ہوتا ہے۔ بسیں، ٹیکسیاں، کاریں، سائیکل سب رزق کی تلاش میں نکلے لوگوں کو تیز رفتاری سے منزل کی جانب پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی میرے جیسا شخص چند دنوں کے لیے ایسے شہرو ں میں آ نکلے جہاں اسے نہ صبح نوکری یا مزدوری پر جانا ہو اور نہ ہی واپس آ کر گھر کے بکھیڑوں میں الجھنا ہو تو اس کے لیے پورے کا پورا شہر ایک دلچسپ اور خوبصورت فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومتا نظر آتا ہے۔
بڑی بڑی بلند و بالا عمارتیں جن میں لگے ہوئے برقی زینے یا تیز رفتار لفٹیں، پلازہ اور شاپنگ مال جن میں دنیا بھر کا سامان تعیش، کافی ہائوس کے باہر رکھی بید کی کرسیاں اور ان پر بیٹھے گفتگو کرتے لوگ، ریسٹورنٹ اور فاسٹ فوڈ کے پر رونق اور دل موہ لینے والے مقامات۔ اگر وہ شہر کے بیچوں بیچ کسی بڑے سے پارک میں چلا جائے تو اسے ہر طرح کے لوگ مل جائیں گے، ایسے بوڑھے بھی جن کی اولاد اپنی دنیا میں مصروف ہیں اور اپنی تنہائی دور کرنے یہاں آتے ہیں، اور ایسے جوڑے بھی جنھیں دنیا بھر کی مصروفیت کی کوئی پرواہ نہیں بس وہ اپنی محبت کا ایک گوشہ آباد کیے ہوتے ہیں۔ ذرایع آمد و رفت کے بہائو کے لیے سڑکوں کا جال اور تیز رفتاری کے لیے کئی کئی منزلہ پل۔ سیاحوں کے لیے مخصوص مقامات تو رونق اور رنگ کی ایک دنیا لیے ہوتے ہیں۔
پیرس کا ایفل ٹاور ہو یا لندن کا بگ بین، نیویارک کا بیٹری پارک ہو یا واشنگٹن کا وہ مقام جہاں ابراہیم لنکن کا مجسمہ اور آزادی کا مینار ہے۔ سب جگہ دنیا کی ہر قوم کا فرد آپ کو مل جائے گا اور ہر کوئی اس چہل پہل، رونق اور ہنستی مسکراتی زندگی سے متاثر نظر آ رہا ہو گا۔ مغرب میں لاس اینجلس سے لے کر مشرق میں ٹوکیو تک جب کبھی بھی کسی شہر کی رونقوں اور چہل پہل کی نیرنگیوں میں کھوتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں قرآن پاک کی یہ آیت کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔
’’دنیاکے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھر نا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے‘‘۔ یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے (آل عمران۔197) دنیا کے ان خوبصورت، دلکش اور دلفریب شہروں کو سیاح کی نظر سے دیکھنے والے میرے جیسے عام لوگ ایک ایسا خوش کن تاثر لے کر جب وطن لوٹتے ہیں تو انھیں اپنے شہر، گائوں، بستی اور ماحول سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔
ایک ایسا احساس محرومی جس کی کوکھ سے صرف اور صرف ایک ہی تصور جنم لیتا ہے کہ، دنیا کی ترقی اور رونق صرف اور صرف معاشی خوشحالی کے ساتھ وابستہ ہے، اور انسان کو سکون اور اطمینان کی دولت بھی سرمائے کی دولت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یوں تو سرمائے پر مکمل بھروسے کے اس فلسفے کی ریت بہت قدیم ہے۔ اتنی ہی قدیم جتنی انسانی تہذیب۔ لیکن شاید قرآن پاک کی یہ آیت آج کے اس سرمایہ دارانہ دور میں آباد ہونے والے خوشنما بڑے بڑے شہروں پر کسقدر صادق آتی ہے کہ یہ دکھاوا صرف میرے جیسے سیاح صفت لوگوں کے لیے ہے کوئی ان میں رہنے کی اذیت تو برداشت کرے۔
یہ بڑے بڑے شہر بھی تو انسان نے اب بنائے اور ان بڑے بڑے شہروں کی آفتیں اور مصیبتیں بھی اپنے سر لے لیں۔ چہل پہل اور رونق سے بھرے ان شہروں کی آفتوں پر دنیا بھر میں مخصوص علم وجود میں آئے ہیں۔ جرائم کی ایک دنیا ہے جو ان بڑے شہروں سے وابستہ ہے۔ سوشیالوجی اور جُرمیات (Criminology) کا ایک بہت بڑا حصہ ایسے بڑے شہروں کی روز افزوں بڑھوتری (Urbanization) سے متعلق ہے۔ جرائم کا ایک انوکھا سلسلہ ہے جو ان شہروں کے رنگ و رونق سے جڑا ہوا ہے۔ بڑے بڑے مافیاز ہیں جو یہاں پلتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور اپنے غیر قانونی کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔ ان غیر قانونی کاروباروں کا سلسلہ دنیا بھر کے شہروں تک پھیلا ہوتا ہے۔
منشیات ایک ملک سے دوسرے تک ایسے قافلوں میں لے جائی جاتی ہے جن کے تحفظ کے لیے جہاز پر فائر کرنے والی مشین گنیں لگی ہوتی ہیں۔ جہاں کہیں غربت ، جنگ یا خانہ جنگی ہو وہاں سے معصوم کمسن بچیوں کو کبھی لالچ، کبھی دھونس اور کبھی اغوا کے ذریعے ان بڑے شہروں کی چکا چوند میں لایا جاتا ہے اور پھر ان سے شہریوں کے تعیش اور سیاحوں کے لیے نائٹ لائف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کے بارے میں چھپنے والے سیاحوں کے کتا بچے اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان میں ایک حصہ ’’نائٹ لائف‘‘ کے لیے مختص ملے گا۔ جواء اور پھر اس سے وابستہ دیگر سرگرمیاں تو ایسی ہیں جو کہیں سر عام ہوتی ہیں اور کہیں مافیا کی زیر زمین پناہ گاہوں میں۔
یہ سب اتنی آسانی سے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تربیت یافتہ گروہ بنائے جاتے ہیں جو قتل، اغوا تشدد اور لوٹ مار میں طاق ہوتے ہیں۔ یہ قتل و غارت وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سا تھ بھی۔ اس کاروبار کے راستے میں اگر ایک عام شہری بھی آ جائے وہ بھی موت کا سزاوار ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ چھوٹی بستیوں اور چھوٹے شہروں میں اس لیے نہیں ہو سکتا کہ وہاں آبادی ایک کپڑے میں لگی تاروں کی بُنت کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اجنبی بھی پہچانا جاتا ہے اور جرم کرنے والا بھی۔ اسے معاشرتی زبان میں ’’سوشل کنٹرول‘‘ کہتے ہیں۔
جرم و مافیاز کی داستان تو ہر بڑے شہر کا حصہ ہے لیکن کیا وہ لوگ جو ان شہروں کی روشنیوں کے اسیر ہو کر یہاں آباد ہو جاتے ہیں ان کی زندگیاں بھی ایسی ہی روشن ہوتی ہیں، کونسا ایسا بڑا شہر ہے جہاں خاندان ٹوٹ کر، بکھر کر تباہ و برباد نہیں ہو چکا۔ خاندانی زندگی خواب ہو چکی۔ میں یہاں اعداد و شمار سے تحریر کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن ان چکا چوند شہروں کے انسانی زندگی کو دیے گئے چند تحفوں میں سے بے تحاشہ طلاق، کنواری کم عمر مائوں کی کثرت، سیریل کلر زکا نہ رُکنے والا ایک سلسلہ، اولاد کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے بوڑھے والدین کے لیے اولڈ ایج ہوم، جسم فروشی اور نشہ آور ادویات کے استعمال کی کثرت، خاندانی زندگی سے نفرت کے بعد جنسی بے راہ روی اور اس طرح کے ایسے ہزاروں المیے ہیں جن پر ان شہروں کی چکا چوند اور روشنی نظر ہی نہیں پڑنے دیتی۔
لیکن اس المیے کا نتیجہ معیارِ زندگی کی دوڑ میں صبح سے شام تک دوڑتے بھاگتے مرو اور عورتیں۔ ضروریات زندگی اور شہر کے معیار زندگی کے عذاب کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ نوکریاں کرتے ہوئے، مشین بنے ہوئے انسان۔ دن بھر کے تھکے ہارے کسی شراب خانے میں تھکن اتارتے ہوئے یا ہفتے بھر کے کام سے پژ مردہ کسی ’’نائٹ لائف‘‘ کے پرکشش ٹھکانے پر سکون حاصل کرتے ہوئے۔ یہ ہے وہ چہل پہل جس کے بارے میں میرے اللہ نے کیسا سچ سچ فرمایا۔ ’’دنیاکے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے‘‘۔
امت مسلمہ میں سرد جنگ اور پاکستان
اوریا مقبول جان پير 12 مئ 2014
جو لوگ یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کے حالات کی ابتری‘ بدحالی اور سیاسی عدم استحکام ایک داخلی مسئلہ ہے‘ انھیں دنیا کی گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی تاریخ اور اس میں بدلتی‘ ٹوٹتی حکومتوں کے قصے‘ ہنگامہ آرائیاں‘ قتل و غارت اور معاشی زوال کی داستانوں کا ضرور مطالعہ کر لینا چاہیے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد جب دنیا کے افق پر امریکا اور روس دو عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرے تو سرد جنگ کا آغاز ہوا‘ جس نے دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کو وسعت دی۔ جنگیں اب سرحدوں پر نہیں بلکہ ملکوں کے اندر لڑی جانے لگیں۔
دونوں ملک اپنے ٹوڈی اور پروردہ حکمرانوں کو مسلط کرنے کے لیے کبھی فوج میں سرمایہ کاری کرتے اور کبھی حکومت کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہوں کی پشت پناہی۔ دونوں صورتوں میں زمین پر آگ برستی‘ انسانوں کا خون بہتا اور ملک معاشی زوال کے دلدل میں پھنس جاتے۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد یہ کردار اب صرف اور صرف امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ گزشتہ چند سالوں سے روس نے ایک بار پھر انگڑائی لی ہے لیکن اس کی انگڑائی کی وسعت اتنی ہی ہے اور وہ اپنے بازو اتنی دور تک پھیلاتا ہے جہاں تک امریکا یا مغرب کا مفاد ان کے زد میں نہیں آتا۔
مسلم امہ کے ممالک کو ابتری‘ بدحالی‘ خونریزی‘ خلفشار اور سیاسی خانہ جنگی میں مسلسل مبتلا رکھنے کا خواب ان دونوں کا مشترک مفاد ہے۔ جن ممالک میں حکمران امریکا مفادات کے ساتھ ہیں وہاں خانہ جنگی کرنے والوں کی مدد روس اور اس کے حواریوں کے ذمے اور جہاں حکمران روس کے حاشیہ نشین ہیں وہاں باغیوں کی مدد امریکا اور اس کے دوست ممالک کی ترجیح بنتی جا رہی ہے۔ یہی صورت حال روس کے ٹوٹنے سے پہلے سرد جنگ کے دوران بھی تھی۔ یہ سرد جنگ ایک بار پھر ہلکے ہلکے سلگ رہی ہے لیکن گزشتہ تین دہائیوں کے دوران امت مسلمہ کے درمیان بھی ایک سرد جنگ شروع ہے جسے آہستہ آہستہ مغرب نے آگ دکھا کر ایک بہت بڑے معرکے میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس جنگ کے دونوں سرخیل سعودی عرب اور ایران بھی امریکا اور روس کی طرح بظاہر کسی بھی جنگی محاذ پر برسرپیکار نہیں ہیں‘ نہ ہی دونوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں‘ لیکن امت مسلمہ کے ممالک پر غلبے اور اثر و رسوخ کے ہیجان نے ان دونوں ممالک کی مدد سے کتنے ملکوں میں خانہ جنگی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ الجزائر سے لے کر پاکستان تک کوئی خطہ اس عفریت سے محفوظ نہیں۔ اس جنگ کو، جو دونوں ملکوں کے ذاتی غلبے کی جنگ تھی‘ مغرب نے اپنی مخصوص چالبازی اور مدد سے شیعہ سنی تنازعہ کی شکل دے دی ہے اور اس خانہ جنگی سے صرف وہی ملک محفوظ ہیں جن میں ایک ہی فقہہ کے ماننے والے واضح اکثریت میں رہتے ہیں۔ جیسے بنگلہ دیش‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور شمالی افریقہ کے کچھ ممالک۔ باقی سب جگہ دونوں گروہ اللہ‘ رسولﷺ‘ صحابہ رسولؐ اور خانوادہ رسول کے نام پر مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جو امریکا‘ روس اور مغرب کے ممالک کے لیے آئیڈیل ہے۔
انھی اختلافات میں سے اس استعمار نے اپنا راستہ نکالنا ہے‘ کہیں نام نہاد جمہوری جدوجہد اور حقوق کی تحریکیں‘ تو کہیں شدت پسند اور دہشت گرد گروہ اور پھر کہیں اس ملک کی مسلح افواج… جو بھی ان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے اسے اقتدار پر بٹھانے اور مخالف کو مسند اقتدار سے اتارنے کی کوشش کرنا اور اپنے مفادات کا اس ملک میں تحفظ کرنا ان کی ترجیح ہے۔ ان سب کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ لیکن چند ایک کامیاب اور ناکام کوششیں تحریر کر رہا ہوں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ یہ طاقتیں کیسے ملکوں کے اندر حکومتیں بدلتی اور خانہ جنگی پیدا کر کے اپنے مفاد کا تحفظ کرتی ہیں۔ ان کا طریقہ کار کیا ہے اور کیسا ہوتا ہے۔
شام میں شکری الکواتلی کی حکومت تھی امریکا اور یورپ تیل کی سپلائی کے لیے پائپ لائن بچھانا چاہتے تھے۔ حکومت نے انکار کیا توسی آئی اے نے سوشل نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک شروع کروائی‘ یہاں تک کہ اپنے دو ایجنٹوں مائلز کوپلینڈ (Miles Copeland) اور اسٹیفن می ایڈ Stephen Meade کو حالات خراب کرنے کی نگرانی کے لیے بھیجا۔ جب حالات بگڑے تو آرمی چیف حسنی الزیم کے ذریعہ 29 مارچ کو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ 1953ء کو ایرانی وزیر اعظم مصدق کے خلاف جنرل فضل اللہ ہادی کی سربراہی میں فوجی بغاوت کرائی گئی۔ اس سے پہلے ایران میں عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے جلوس اور ہنگامے برپا کیے گئے۔
سی آئی اے کی وہ دستاویزات جو امریکی سفارتخانے سے ملی تھیں ان کے مطابق 25 ہزار ڈالر بسوں اور ٹرکوں کے کرایے کے طور پر ادا کیا گیا‘ جن میں مظاہرین کو بھر کر تہران لایا گیا تھا۔ مصدق کی حکومت الٹنے کی وجہ آبادان آئل ریفانری تھی جس کو مصدق نے قومیانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ گوئٹے مالا میں امریکا کی مدد سے ایک آمر جارج اوبیکو برسراقتدار تھا۔ لیکن 1950ء کے الیکشن میں ایک شخص جیکب آر بیز Jecobo Arbez بے تحاشا اکثریت سے الیکشن جیت گیا۔ اس نے عام کسانوں کو ملکیتی حقوق دینے کا آغاز کیا۔ زمینوں پر امریکی کمپنیاں قابض تھیں۔
ایک امریکی کمپنی یو ایف سی او (UFCO) نے کانگریس کے ارکان کو گوئٹے مالا کی حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے مجبور کیا۔ امریکی کانگریس کے جمہوری حکمران انھی کمپنیوں کے پیسے سے الیکشن جیتتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان جمہوری حکمرانوں نے سی آئی اے کی مدد سے گوئٹے مالا میں 1954ء میں فوجی بغاوت کر وا دی۔ تبت میں 16 مارچ 1959ء کو مسلح جدوجہد کا آغاز کروا یا گیا۔ دلائی لامہ کو عالمی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا سی آئی اے کے کیمپ ’’ہالی‘‘ میں 259 گوریلے تیار کر کے تبت بھیجے گئے جو وہاں لوگوں کو تربیت دیں۔ 1962ء تک یہ جنگ جاری رہی۔ چین کی افواج نے قابو پایا تو گوریلوں کو شمالی نیپال میں اکٹھا کیا گیا لیکن 1974ء میں چین سے تعلقات بہتر ہوئے تو اسے سی آئی اے نے ختم کروا دیا۔
جنوبی ویت نام میں جہاں امریکا کے اپنے پٹھو ڈونک وان منہ کی حکومت تھی اسے صرف اس جرم کی سزا دی گئی کہ وہ امریکا کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے والے بدھ بھکشوئوں پر نرمی برتتا تھا۔ یہ بدھ بھکشو لوگوں کے درمیان خود کو آگ لگا کر خود کشی کرتے تھے۔ وہاں پر موجود کیتھولک عیسائیوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا جنہوں نے بدھووں کے مذہبی مراکز اور دیہات پر حملے کیے اور قتل و غارت کیا۔ ملک میں بدامنی پھیلی تو ڈونک وان منہ کو گرفتار کر کے اگلے روز اس کے بھائی کے ہمراہ پھانسی دے دی گئی۔ برازیل کے صدر جووا گولارٹ Joao Goulart نے امریکی کمپنیوں کے منافع میں سے عوام کو فائدہ پہنچانے والی اسکیمیں شروع کیں تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ’’برادر سام‘‘ نامی آپریشن سے کروایا گیا۔ نیو جرسی سے 110 ٹن اسلحہ برازیل بھیجا گیا۔
بدامنی پھیلی تو یکم اپریل 1964ء کو اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ چلی تو لاپتہ افراد اور امریکی سی آئی اے کے تیار کردہ افراد کے ہاتھوں مارے جانے والے لاکھوں انسانوں کا ملک ہے۔ 11 ستمبر 1973ء میں بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جنرل پنوشے کو امریکی آشیر باد اور فوج کے ذریعے برسر اقتدار لایا گیا اس کے بعد کی کہانی بہت خونچکاں ہے۔ ارجنٹائن میں ازابیل پیرون صدر منتخب ہوئیں۔ وہاں موجود کیمونسٹ گوریلوں کو بہانہ بنایا گیا اور انھیں علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر 26 مارچ 1976ء کو جنرل رافیل کے ذریعے ازابیل کا تختہ الٹ دیا گیا۔
امریکی موقف یہ تھا کہ سیاسی حکومت ان گوریلوں کے ساتھ امن مذاکرات میں لگی ہوئی ہے۔ ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے ذریعے تشدد پسندوں کو ختم کرنے کے بہانے قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ 1979ء میں نکارا گوا میں کونٹرا گوریلوں کی خفیہ مدد کی گئی۔ اس دفعہ تشدد پسند گوریلے امریکا کے منظور نظر تھے۔ یہی کونٹرا گوریلے تھے جن کا اسلحہ خفیہ طور پر ایران کو فراہم کیا گیا۔ کونٹرا سکینڈل دنیا کا مشہور ترین سکینڈل ہے۔ وینزویلا کے ہیگو شاویز کے خلاف ناکام عوامی تحریک تو پرائیویٹ میڈیا چینلز اور سرمائے کے بل بوتے پر مظاہرین کے ذریعے برپا کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہیوگوشاویز کی مقبولیت کی وجہ سے دم توڑ گئی۔
یہ ہیں تاریخ کی چند مثالیں۔ یہ اس زمانے کی ہیں جب کیمونزم کو خطرہ بنا کر دنیا کو ڈرایا جا رہا تھا اور ملکوں کے اندر اپنے مفاد کے لیے کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ ایسے تمام ممالک جہاں کیمونزم کا خطرہ تھا انھیں بدامن، ابتر، بدحال اور خانہ جنگی کا شکار رکھا جاتا تھا۔ اب دنیا کو باور کرانا ہے کہ خطرہ مسلمانوں اور اسلام سے ہے۔ جب تک مسلم امہ کے تمام ممالک بدامنی‘ بدحالی‘ ابتری اور خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوتے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ مسلمان دنیا بھر کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ عرب بہار سے مصر‘ مراکش‘ تیونس‘ شام اور یمن میں بے چینی کی لہر کو پہلے جمہوری جدوجہد اور جمہوریت کی فتح قرار دیا گیا اور پھر ان ملکوں کو دوبارہ خانہ جنگی میں الجھایا گیا۔
لیبیا میں قذافی کے خلاف ایسے دہشت گردوں کی مدد کی گئی جنھیں خود امریکا دہشت گرد کہتا تھا۔ شام اور عراق میں شیعہ سنی تنازع میں لاکھوں انسانوں کو قتل کرنے کے لیے سعودی عرب اور ایران کی سرد جنگ کو اسلحہ فراہم کر کے تیز کیا گیا۔ اس سارے ماحول میں پاکستان کیسے نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا تھا۔ دنیا بھر کے کارپوریٹ سیکٹر کے پیسے خصوصاً بھارتی کارپوریٹ کے سرمائے کو بھارت میں نریندر مودی کو جتوانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دوسری جانب افغانستان میں حامد کرزئی کی نرم پالیسی کی وجہ سے پاکستان مخالف حکمران منتخب کروانے کی کوشش ہوئی‘ ایران کو سعودی اثر و نفوذ کی وجہ سے مخالف بنایا گیا۔
ایسے میں جب کوئی پڑوسی ساتھ نہ ہو تو پھر مسلم امہ کی سرد جنگ کے علم بردار دونوں ممالک اس مملکت خداداد پاکستان میں اپنے جتھے مضبوط کرنے لگے۔ شمال میں طالبان جنوب میں قوم پرست اور فرقہ پرست‘ ملک تشدد اور خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا لیکن ایک عوامی تحریک کی ضررت ہوتی ہے تا کہ حکومت کا تختہ کسی جواز کی بنیاد پر الٹا جائے۔ جنگ کی بساط بچھ چکی ہے۔ مسلم امہ کی خفیہ سرد جنگ اورامریکا اور یورپ کی منصوبہ بندی کا آغاز ہو چکا ہے۔ کب کس وقت اور کیسے شہ مات ہوتی ہے۔ وقت کا انتظار کرو۔
بساط الٹ چکی ہے
اوریا مقبول جان بدھ 25 جولائ 2012
اورنگ زیب عالمگیر سے شکست کھانے کے بعد جب اس کے بھائی شجاع کو ہندوستان میں کوئی جائے پناہ نہ ملی تو وہ بھاگ کر برما کے سرحدی صوبے ارکان میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جا کر آباد ہوگیا۔ یہ ایک مسلمان اکثریتی علاقہ تھا جہاں مسلمان تاجر نویں صدی عیسوی یعنی ہجرت کے ڈھائی سو سال بعد ہی آ کر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس وقت نہ برما نام کی کوئی چیز تھی اور نہ ہی اس کا بادشاہ۔
برمی سلطنت 1055 عیسوی میں انادرتھ نامی بادشاہ کے زمانے میں قائم ہوئی۔ چین کے یونان صوبے اور ایران سے بھی مسلمان یہاں آ کر آباد ہونے شروع ہوئے۔ ان مسلمانوں کو علاقائی زبان میں پاتھی کہتے تھے۔ تھائی لینڈ کے قریبی علاقوں میں بھی ان مسلمانوں کی آبادیاں وہاں کی بدھ قوم کے مقابلے میں زیادہ تھیں۔ جب شجاع وہاں پہنچا تو ارکان کے علاقے پر سندا تھو دام کی حکومت تھی۔ اس نے بادشاہ سے ایک بحری جہاز خریدنے کے لیے کہا تا کہ وہ بقیہ زندگی مکہ اور مدینہ میں گزارے۔ لیکن بادشاہ سندا تھو دام کی نظر شجاع کے اس سونے اور چاندی کے زیورات پر تھی جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔
شجاع نے اس کو جہاز کے بدلے کافی زیورات دینے کا کہا اور اس نے جہاز مہیا کرنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن اس نے شجاع کی بیٹی شہزادی گل رخ بانو کے ساتھ زبردستی کی جس کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔ مغل شاہزادوں اور وہاں کے کچھ مسلمانوں نے بدلہ لینے کی کوشش کی لیکن قتل کر دیے گئے۔ شجاع کو پرتگالی قزاقوں نے وہاں سے فرار کروایا۔ دستمبر 1660 کی اس غیرت و حمیت کی جنگ میں ہر وہ مسلمان جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی قتل کر دیا گیا اور عورتوں کو جیل میں پھینک دیا گیا جہاں وہ بھوک سے مرگئیں۔ یہ ظلم ان مسلمانوں پر کیا گیا جو ہندوستان سے آ کر وہاں آباد ہوئے تھے۔
یہی وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کو گائے، بکری، مرغی کھانے کی اجازت تو تھی لیکن مردہ۔ اسے حلال نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ انھیں عیدالاضحیٰ پر بھی قربانی کی اجازت نہ تھی۔ 1782 میں بود و داپیا بادشاہ بنا تو اس نے برما کے تمام مسلمان علماء کو اکٹھا کیا اور انھیں سؤر کھانے کے لیے کہا۔ انھوں نے انکار کیا تو سب کو قتل کر دیا گیا۔ برما کے مسلمان آج بھی اس بات کو سناتے ہیں کہ اس دن کے بعد سات دن تک سورج نہیں نکلا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جو وائٹ پیپر انگریز حکومت نے شایع کیا جو سائمن کمیشن کا ایک حصہ ہے اس میں ایک بہت بڑے قتل عام کا ذکر ہے جو وہاں کے ایک انگریز جج موریس کولس کی چشم دید شہادت کا حصہ ہے۔ 1938میں ایک بار پھر مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ یہ بڑا بھیانک طریقہ تھا۔ برما کے بدھ آزادی کے لیے لڑتے تھے تو برطانوی فوج کی گولیوں کے سامنے مسلمان قیدیوں کو ریت کی بوریوں کی طرح باندھ کر کھڑا کرتے۔
برما کی آزادی کے بعد 16 مارچ 1997 کو دوپہر ساڑھے تین بجے امن کے پجاری بدھ بھکشو مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی آبادیوں میں داخل ہوئے، مسجدوں پر حملہ کیا، قرآن پاک اور مذہبی کتابوں کو آگ لگائی، دکانوں کو لوٹا اورگھروں کو مسمار کیا۔ یہ سب مندالے میں ہوا جہاں سے مسلمان ہجرت کر کے دوسرے شہروں میں چلے گئے۔ اگلا فساد 2001 میں تانگو میں ہوا۔ مسلمانوں کے قتل عام کے علاوہ ریلوے اسٹیشن تانگو کی مسجد کو بھی بلڈوزر سے شہید کر دیا گیا۔
موجودہ فساد تین جون 2012 کو اس وقت شروع ہوا جب برما کی فوج اور بدھ بھگشوئوں نے گیارہ مسلمانوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا۔ یہ روہینگا مسلمان تھے اور ارکان کے علاقے کے تھے جہاں شجاع کے خاندان کے ساتھ بربریت اور مسلمانوں کے قتل عام کا آغاز ہوا۔ موجودہ قتل عام کا تذکرہ چین اور بنگلہ دیش کے اخبارات میں مختصر طور پر ہوا۔
آج پورے پچاس دن ہو چکے ہیں۔ ان پچاس دنوں میں وہ لوگ جو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں ان کے سامنے ایسے ایسے ہولناک مناظر کی تصویریں ہیں کہ ایک تصویر دیکھنے کے بعد دوسری دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جلے ہوئے جسم، معصوم بچوں کے مثلے ہوئے لاشے، جلتے ہوئے گھر، ایک ساتھ باندھ کر ڈرل کے ذریعے سوراخ کر کے موت تک پہنچانے کے مناظر۔ ان پچاس دنوں میں یہ کوئی عالمی خبر تھی اور نہ ہی کسی مسلمان ملک کا المیہ، یہ کسی انسانی حقوق کے علمبردار کا مسئلہ تھا اور نہ ہی کسی آزاد حریت پسند صحافی کا پسندیدہ موضوع۔ میں نے پورے پچاس دن انتظار کیا۔ صرف اس لیے کہ شاید کوئی ’’بااصول‘‘ صحافی آواز بلند کرے کہ میں تو ایک ’’متعصب، شدت پسند‘‘ مسلمان ہوں۔ مجھے تو موقع چاہیے مسلمانوں کی مظلومیت کا فائدہ اٹھا کر دنیا کا امن خراب کرنے کا۔ لیکن پچاس دن ساری زبانیں گنگ رہیں۔ مسلمان کی اذیت ناک موت کسی کا مسئلہ ہی نہیں تھی۔
لیکن وہ جو کل تک خود کو ابلاغ کا خدا سمجھتے تھے، انھیں اندازہ نہیں کہ اب ایک چھوٹے سے کمرے میں بوسیدہ سے کمپیوٹر پر بیٹھا نوجوان آپ کی کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی میڈیا ایمپائزکا مقابلہ کر رہا ہے۔ بلکہ اب تو جیت اس کا مقدر ہونے لگی ہے۔ یہی وہ نوجوان ہے جس نے مجبور کر دیا کہ ٹی وی چینلوں اور اخباروں والے دبائے ہوئے سچ کو ظاہر کریں۔ اس سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ جن کو ہے ان کے منہ سے روز جھاگ نکلتی ہے اور وہ غصے سے کھولتے پھر رہے ہیں۔ گزشتہ سال میں بیروت کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ میں تھا۔ تیونس اور مصر میں ہنگاموں کا آغاز تھا۔
سارا میڈیا چیخ رہا تھا کہ سب لبرل، سیکولر اور حقوق انسانی کے لیے لڑنے والے ہیں۔ پورے عالمی میڈیا نے مصر میں البرادی کو ہیرو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن سوشل میڈیا کی طاقت نے اس اخوان المسلمون کو اقتدار پر لا بٹھایا جس کو یہ لوگ پچاس سال سے گالیاں دیتے رہے تھے۔ یہی تیونس میں ہوا۔ وہ جنھیں اس بات کا زعم تھا کہ ہم ہوائوں کا رخ بدل سکتے ہیں، ان کے ہاتھ پائوں پھول رہے ہیں۔ اس لیے کہ اب سوات کے کوڑوں والی کیسٹ چلا کر بدنام کرنے والوں کے مقابلے میں اینکروں والی کیسٹ بھی چلتی ہے اور پھر کسی کو ہمت نہیں ہوتی اپنے حق میں میڈیا استعمال کرنے کی۔
یہ مسئلہ عالمی میڈیا کا ہی نہیں ہم سب کا ہے۔ گزشتہ دس سال تک میڈیا کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے والوں کی حالت دیکھنے والی ہے۔ کیسے چیختے پھرتے ہیں ’’ہمیں بھارت اور امریکا کا ایجنٹ کہا جاتا ہے‘‘ تم نے ساٹھ سال لوگوں کو ایجنٹ کہنے اور الزام لگانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا۔ جس کو چاہا جو مرضی بنا دیا۔ اب تیر واپس آیا ہے تو چیخیں نکل گئیں۔ مدتوں تم نے لوگوں کے عیب اچھالے، تصویریں چھاپیں، اب اپنی تصویروں پر سیخ پا کیوں ہوتے ہو۔ کسے معلوم ہے یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس قلم تھا۔ زبان تھی ہم نے اس سے انصاف نہیں کیا۔ انصاف سے نہ رکھا اور نہ بولے ہمارے ذاتی تعصب ہمارے انصاف کو کھا گئے۔ ہم نے لوگوں کو غدار کہنے کی فیکٹریاں لگائیں۔ لوگوں کو ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ دیے۔ جیسی کالک چاہے کسی کے چہرے پر مل دی۔ ہمارا کنٹرول تھا، لیکن اب کنٹرول ہر اس شخص کے پاس ہے جو چھوٹے سے کمرے میں بوسیدہ سے کمپیوٹر پر بیٹھا ہے اور جو بساط الٹ سکتا ہے اور اس نے بساط الٹ کر دکھا دی ہے۔
تحریک ختمِ نبوت اور تاریخِ اہلِ حدیث کے عظیم مصنف
ڈاکٹر محمد بہاء الدین اور ان کی خدمات
تحریر محمد رمضان یوسف
بشکریہ مجلہ اسوہ حسنہ کراچی
ڈاکٹر محمد بہاء الدین حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کے اس گروہ با صفا سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنہوں نے تصنیف وتالیف کے ذریعہ اپنی وجماعتی خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ان کا شمار عصر رواں کے نامور قلم کاروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے قلم وقرطاس کے ذریعہ تاریخ کے سینے پر ان مٹ نقوش ثبت کئے ہیں ، اب ان کا شمار برصغیر پاک وہند اور برطانیہ کی جماعت اہلحدیث کے چوٹی کے مصنفین میں ہونے لگاہے اور لوگ انہیں تحریک ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث کے محقق ومؤرخ کے طور پر جاننے لگے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب برصغیر پاک وہند کی مذہبی وسیاسی تحریکوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں اور ان سے متعلق موضوعات پر انہیں کامل دستگاہ حاصل ہے ۔ ان کا مطالعہ وسعت پذیر اور ذہن اخاذ ہے ۔
اللہ رب العزت نے ان کو علم وتحقیق کے جوہر سے خوب بہرہ مند فرمایا ہے ۔ مسلک اہل حدیث سے انہیں بے پناہ شیفتگی ہے اور آپ بابائے تبلیغ مولانا محمد عبد اللہ گورداسپوری حفظہ اللہ کے صاحبزادہ گرامی قدر ہیں ۔ اپنے عالی قدر باپ کی طرح علم وفضل میں صاحب کمال ہیں ۔ تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل دھاریوال ضلع گرداسپور(ہند) میں پیدا ہوئے ان دنوں ان کے والد محترم ، و ولن ملز دھاریوال میں مسجد اہل حدیث کے خطیب وامام تھے انہوں نے اپنے عظیم المرتبت استاد مولانا عطاء اللہ (شہید) کے صاحبزادے حافظ محمد سلیمان (وفات ۲۹ اگست ۲۰۰۸ء) کی علمی استعداد اور ذہانت اور فطانت سے متاثر ہوکر اپنے بیٹے کا نام محمد سلیمان رکھا جس نے آگے چل کر محمد بہاء الدین کے قلمی نام سے شہرت دوام حاصل کی۔
تقسیم ہند کے بعد مولانا عبد اللہ افراد خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے اور رائے ونڈ ضلع لا ہور میں مقیم ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ۱۹۴۹ء میں بورے والا ضلع ملتان (حال ضلع وہاڑ ی) میں سکونت اختیار کر کے وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث میں فریضہ امامت وخطابت انجام دینے لگے ۔ محمد بہاء الدین نے بوریوالا ہی میں شعور کی آ۔نکھ کھولی اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کیا ۔ قرآن پاک ، قاری خدا بخش مرحوم سہارنپوری سے مدرسہ محمدیہ میں پڑ ھا۔ ترجمۃ القرآن ، صرف ونحواور حدیث شریف کی ابتدائی کتابیں اپنے والد گرامی سے پڑ ھیں ۔ عربی کی تعلیم مقامی ہائی ا سکول میں مولانا محمد افضل فرید کوٹی سے حاصل کی جو مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے ۔
ڈاکٹر صاحب نے دینی تعلیم کے ساتھ ا سکول وکالج میں عصری تعلیم بھی حاصل کی۔ بورے والا ڈگری کالج میں ۱۹۶۸ء میں اول آنے پر گولڈ میڈل سے نوازے گئے ۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لا ہور میں دو سال زیر تعلیم رہ کر علوم اسلامیہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پورے پنجاب کے طلباء میں امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر یونیورسٹی گولڈ میڈل سے نوازے گئے ۔ (یادرہے کہ اس وقت پاکستان پنجاب میں ایک ہی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی) اس کے بعد اسی یونیورسٹی میں ایک سال مزید زیر تعلیم رہ کر عربی میں ایم اے کیا۔
ایم اے عربی کی تعلیم کے دوران ہی انہیں جامعہ سلفیہ لائل پور(حال فیصل آباد) میں انگریزی زبان کے استاد کی حیثیت سے متعین کر دیا گیا اور یوں وہ لا ہور اور فیصل آباد کے درمیان تقسیم ہوگئے ۔ جامعہ سلفیہ میں بی اے کرنے کے خواہشمند طلباء کو انگریزی پڑ ھانے کے علاوہ جامعہ کی لائبریری کا انچارج بھی انہیں بنا دیا گیا اور ان کی کوشش سے یہ لائبریری مدارس اسلامیہ کی بڑ ی اور منظم لائبریریوں میں شمار ہونے لگی۔
کچھ عرصہ بعد انہوں نے سرکار کے محکمہ تعلیم سے منسلک ہوکر سیالکوٹ کے ایک کالج میں تدریسی فرائض انجام دئیے ۔ بعد ازاں لا ہور کے ایک مشہور کالج میں پڑ ھایا کچھ عرصہ بہاولپور یونیورسٹی میں تاریخ اسلام اور تقابل ادیان کے مضامین پڑ ھاتے رہے ۔ برطانیہ کی اڈنبرایونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر ڈاکٹریٹ کی بعد میں چند سال اسی یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلو کی حیثیت سے تحقیقی کاموں میں منہمک رہے ۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے لیسٹر یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر سوشل ورک میں ایم اے کیا اس کے بعد بحالی مجرمین کے ایک محکمے میں کچھ عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد خرابی صحت کی بنا پر ریٹائر ہوگئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے زمانہ طالب علمی میں ہی قلم وقرطاس اور تحریر وتقریر سے ناطہ جوڑ لیا تھا ہائی ا سکول میں تعلیم کے دوران انہیں بہترین مقرر Best Orator کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا گیا۔ بورے والا ڈگری کالج کے میگزین الفرید کے اڈیٹر رہے بہاولپور یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے مجلہ بصائر کے انچارج رہے ۔ علامہ احسان الہی ظہیر کے ترجمان الحدیث لا ہور کی مجلس ادارت میں کچھ عرصہ شامل رہے ۔
ڈاکٹر صاحب بہت اچھے مضمون نگار اور صاحب علم و محقق ہیں ان کے علمی وتحقیقی مضامین معروف رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ ان معروف رسائل میں ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ہفت روزہ الاعتصام لا ہور۔ ماہنامہ معارف ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور ، ماہنامہ محدث لا ہور، ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور، ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک، ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم ، ماہنامہ سٹریٹ پاتھ برمنگھم ، دو ماہی اشاعۃ السنہ دہلی ، ماہنامہ محدث بنارس اور ماہنامہ البلاغ ممبئی ، جریدہ ترجمان دہلی شامل ہیں ۔
رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صاحب کے چند تحقیقی مضامین کے عنوان یہ ہیں :
شریف مکہ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۷ جنوری ۱۹۷۱ء) سرگذشت یہود (کئی اقساط پر مشتمل سلسلہ مضامین) ، یہود کا مذہبی لٹریچر (کئی اقساط پر مشتمل سلسلہ مضامین۹، کنعان کنعانیوں کا ہے (کئی اقساط پر مشتمل مضمون ، ماہنامہ محدث لا ہور جلد ۸، ۱۳۹۸ھ)، تحریک ختم نبوت میں مولانا محمد حسین بٹالوی کی خدمات۔(ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کے آئینے میں (ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام تاریخ کے آئینے میں ( ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) (عہد رسالت ﷺ کے ) قریش کی حربی صلاحیت(ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) عبد المطلب اور بنو خزاعہ کا باہمی معاہدہ اور عہد رسالت میں اس کے اثرات (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) تحریک آزادی کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) ، شاہ احمد رضا خان (الحق اکوڑ ہ خٹک میں تحریک آزادی پرشائع ہونے والے ان کے ایک طویل مضمون کو مولانا عطاء اللہ حنیف نے مختصر کتابچے کی صورت میں شائع کروایا ) ، خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق ، کتب شیعہ کی روشنی میں (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) انیسویں صدی کی واحد سیاسی جماعت ، پیغمبر ﷺ کا وصی کون ( کتب شیعہ کی روشنی میں ۔ ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک ستمبر ۱۹۷۶ء) ، سیدہ ام کلثوم بنت محمد ﷺ ( ماہنامہ محدث لا ہور ) ، امام دار الجہرۃ(ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ( حضرت خضر علیہ السلام ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ۶۔ اپریل ۱۹۷۳ء) ، ذکر محبت ( ہفت روزہ اہلحدیث لا ہور ) ، برطانوی ہند میں جہاد کی بحث ( دو ماہی اشاعۃ السنہ دہلی ، ماہنامہ البلاغ ممبئی) ، اہل الرائے اور اہل الحدیث ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور۱۲ مارچ، ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء) ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی(ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۲۳ ، ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء) قبل بدر مہمات کے شرکاء اور مقاصد ، سید احمد شہید کا سرکہاں دفن ہے ؟ (ہفت روزہ اہل حدیث لا ا ہور ) ، تحریک ختم نبوت کے ابتدائی دو سال ، تحریک ختم نبوت کے گمشدہ اوراق ( ماہنامہ ترجما ن الحدیث لا ہور) ۱۹۷۸ء کئی اقساط) ، تحریک ختم نبوت کا میرکارواں کون ۔ مہر علی گولڑ وی یا محمد حسین بٹالوی ؟ ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۱۷اگست ۲۰۰۱ء) ، (تحریک ختم نبوت میں ) قصہ ایک کرسی کا ( ہفت روزہ الاعتصام لا ہور) ، (تحریک ختم نبوت کے دوران) جلسہ لا ہور ۱۹۰۰ء (ہفت روزہ الاعتصام لا ہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء) ، مباحثہ دیوبند ۱۸۸۵ء ( ہفت روزہ الاعتصام لا ہور) مدرسہ رحیمیہ دہلی ( ماہنامہ محدث لا ہور) کیا حضرت عمر رضی اللہ نے سزائے قطع ید منسوخ کر دی تھی؟ تحریک ختم نبوت کے بانی(ہفت روزہ الاعتصام لا ہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء) ، کوفیوں کے خطوط بنام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کہاں گئے ؟ (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) جامع اموی دمشق (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) ، اصحاب ثلاثہ (حافظ محمد لکھوی، سید عبد اللہ غزنوی ، مولانا غلام رسول قلعوی ) کا سفر دہلی ( ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم ) الطاف حسین حالی کی ، حیات جاوید ، سے ایک اقتباس ( ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) ، آیا تھا جب مزاج ترا امتحان پر ، شیخ الکل کا سفر حج اور مقلدین کا متحدہ محاذ ( ماہنامہ ترجما ن الحدیث لا ہور ) بالاکوٹ سے چمرقند ، آمادہ بقتل من آں شوخ ستم گارے ، شیخ الکل کی سیاسی زندگی ، فضل حق خیر آبادی (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) وغیرہ۔تحریک ختم نبوت پر ان کا لکھا جانے والا ساٹھ اقساط پر مشتمل مضمون کئی سال تک ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم میں شائع ہوتا رہا اور ہند وپاک کے چند جماعتی جرائد میں بھی اس کی جستہ جستہ اقساط شائع ہوتی رہیں ، ارو اس کے بعض حصوں کو ہند ی اورعربی میں ترجمہ کر کے بھی شائع کیا گیا۔ تقسیم ہند سے قبل اکمل البیان فی تائید تقویۃ الإیمان از مولانا عزیز الدین مراد آبادی کے بعد اہل حدیث کے صحافی تاریخ کا شائد یہ طویل ترین مضمون ہے ۔
ان عنوانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع کس قدر اہمیت کے حامی ہیں اور محترم ڈاکٹر صاحب نے ان مضامین میں خوب داد تحقیق دی ہے اور اپنی وسعت معلومات سے تاریخی حقائق کھول کر بیان کئے ہیں ۔ کسی صاحب ذوق کو چاہیے کہ ان مقالات کو رسائل سے نکال کر ترتیب دے کر شائع کر دے ۔ یہ بہت بڑ ی دینی وعلمی خدمت ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صاحب کے مضامین ہفت روزہ الاعتصام شیش محل روڈ لا ہور کی لائبریری سے مل سکتے ہیں کہ وہاں بہت سے رسائل وجرائد کی فائلیں موجود ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے دوست جناب ضیاء اللہ کھوکھر، مدیر عبد المجید کھوکھر لائبریری ۸۳ بی ماڈل ٹاؤن گوجرنوالہ سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے پاس بھی رسائل وجرائد کا وسیع ذخیرہ موجودہے ۔
ڈاکٹر بہاء الدین تصنیف وتالیف کا بڑ ا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں ۔ ان کی کتابوں میں عقیدے کی پختگی ، فکر کی بلندی ، تاریخی حالات و واقعات کی صحت وثقاہت ، توحید وسنت کا احیاء اور مسلک اہل حدیث کی حقانیت کے پہلو نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ قلم کی زبان نہایت شستہ وسلیس اور ندرت کا پہلو لئے ہوئے ہے ان کی تحریر میں علمی شان اور مؤرخانہ بصیرت واضح دکھائی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے رواں اور پربہارقلم سے جو علمی تاریخی اور تحقیقی کتب معرض وجود میں آئی ہیں اس کی تفصیل یہ ہے-
٭ تحریک ختم نبوت۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ نہایت بلند پایہ تاریخی کتاب ہے اس میں انہوں نے علماء اہل حدیث کی فتنہ مرزائیت کے خلاف خدمات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ ۱۸۹۱ء سے ۱۹۱۲ء تک کے دور کی تاریخ پر مشتمل اس کتاب کی چارہزار صفحات پر مشتمل ۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ دو جلدیں مزید تیار ہیں اور آگے یہ سلسلہ برابر جاری ہے ۔
یہ قاموسی انداز کا تاریخی نوعیت کاکام ہے جس میں تحریک ختم نبوت کے ابتدائی دور کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اس ضمن میں انہوں نے مرزا قادیانی اور اس کے قریبی لوگوں کی کتابوں سے اس کے افکار ونظریات عقائد باطلہ ، ہفوات وکذبات اور اس کی پیش گوئیوں کو نقل کر کے اس کی سخت گرفت اور نکیر کی ہے اور زیر نظر دور میں ان موضوعات پر پیدا ہونے والے لٹریچر کے احیاء کی کوشش کی ہے ۔ اپنے موقف کی تائید میں سینکڑ وں حوالے دیئے ہیں اور اس کے علاوہ بعض جلدوں میں شخصیات کاعنوان دے کر اس دور کے مجاہدین ختم نبوت کے مساعی کا دل آویزتذکرہ کیا ہے اس کتاب میں علمائے اہل حدیث کی ردّ قادیانیت پر نادر ونایاب تحریریں بھی شامل کر دی گئی ہیں جوکہ مورد زمانہ کے سبب ناپید ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف جاری ہونے والے پہلے متفقہ فتوی تکفیر کو اس میں شامل کر دیا گیا ہے اور اس فتوی کے مرتب کرنے والے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کے ماہنامہ اشاعۃ السنہ کا ایک تہائی حصہ جو کہ ردّ قادیانیت پر تھا، ایڈٹ کر کے تلخیص واختصار کے ساتھ اس کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے ۔(چند سو صفحات کا موادتاحال میسر نہیں ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایات کے نتیجے میں وہ مواد میسر آ گیا تو اسے بھی کسی آئندہ جلد میں شامل کرنے کا ارادہ ہے ) اسی طرح شحنہ ہند میرٹھ کے ضمیمہ سے رد قادیانیت پر قیمتی مواد ، اور قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تائید الاسلام اور غایۃ المرام ، مولانا محمد اسماعیل علی گڈھی کی اعلاء الحق الصریح اور مولانا محمد بشیر سہسوانی کی الحق الصریح فی حیائۃ المسیح اور مولانا عبد المجید دہلوی کی بیان للناس ، مولانا عبد اللہ شاہجہاں پوری کی شفاء للناس، مولانا محمد حعفر تھانیسری کی تائید آسمانی ، شیخ غلام حیدر کی عشرہ کاملہ ، مولانا ثناء اللہ کی شاہ انگلستان اور مرزا، اور ان کی تفسیر ثنائی رد قادیانیت کے مضامین ، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی الخبر الصحیح، اور شہادۃ القرآن ملخصاً ، اس کتاب میں شامل کر دی گئی ہیں ۔
شیخ الاسلام مولانا امر تسری رحمہ اللہ کے اخبار اہل حدیث سے بیسیوں واقعات اور حوالے جو مرزائیوں کے خلاف تھے اس کتاب میں دئیے گئے ہیں ۔ اس کتاب کو پڑ ھ کر قاری کو صحیح حقائق اور قادیانیت کے خلاف علمائے اہل حدیث کی مساعی سے کامل آگاہی ملتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لائق مصنف نے تاریخی حقائق بیان کرنے میں مسلکی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ وسعت ظرفی سے کام لیتے ہوئے اس دور میں بعض دوسرے مسالک کے بزرگوں کی خدمات کو بھی بیان کیا ہے جن میں مولانا غلام دستگیر قصوری ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا محمد لدھیانوی، مولانا عبد العزیز لدھیانوی، مولانا محمود حسن دیوبندی ، مولانا خلیل احمد سہارن پوری ، مولانا کرم الدین بھیں ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا احمد رضا خان بریلوی وغیرہ شامل ہیں ۔
کہاں تک در بدر پھرتے رہیں گے
اوریا مقبول جان ہفتہ 4 اگست 2012
میں نے ان کا نام پہلی دفعہ ستر کی دہائی کے بالکل آغاز میں سنا۔ میٹرک کرنے کے بعد جب میں نے زمیندار ڈگری کالج گجرات میں قدم رکھا تو جہاں گجرات سانحہ مشرقی پاکستان کے المناک انجام کے بعد جنرل یحییٰ خان کے حوالے سے ایک مشہور کردار جنرل رانی کی وجہ سے آگ بگولہ ہوا اور شہر بھر میں نفرت میں کھولتے ہوئے جلوس نکل رہے تھے۔
وہیں ایک شخص شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے نوکری چھوڑ چھاڑ کر واپس اپنے آبائی شہر آ بسا۔ اس کے نزدیک اس شہر کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے حلقہ ارباب ذوق قائم کرنا تھا۔ یہ شخص آزاد نظم لکھتا تھا اور میرا جی کو اپنا امام تصور کرتا تھا۔ لیکن اسی دوران اسے ایک اور جنون نے گھیر لیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ غزل اور نظم وغیرہ جو ایک خاص وزن اور موسیقی میں ترتیب دی جاتی ہیں‘ سب رجعت پسندانہ اور دقیانوسی چیزیں ہیں۔ آدمی وزن برابر کرنے کے چکر میں پورا سچ نہیں بول سکتا۔
اس لیے نثری نظم لکھنی چاہیے۔ میں ان دنوں غزل اور نظم لکھتا تھا لیکن اس نثری نظم کے تجربے نے مجھے بھی کسی حد تک متاثر کیا اور میں نے بھی چند نثری نظمیں تحریر کر ڈالیں اور اس جنون میں ڈوبے شخص مبارک احمد کے ساتھ ہو لیا۔ ادب سے اس کی محبت کا عالم والہانہ تھا‘ اور نثری نظم سے وابستگی عاشقانہ۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کا سیکریٹری جنرل بن کر پورے ملک میں نثری نظم کو ایک تحریک بنانا چاہتا تھا۔ میں نے ان کا نام پہلی دفعہ مبارک احمد کی زبانی سنا۔ وہ اکثر کہتا یہ جو ایک رجعت پسند‘ غزل گو شاعر شہزاد احمد حلقہ ارباب ذوق کا جنرل سیکریٹری بنا بیٹھا ہے اس نے اس ادب کو آگے نہیں پڑھنے دینا۔
میر تقی میر کے زمانے میں گھسیٹ کر واپس لے جانا ہے۔ مجھے اس شخص کو دیکھنے اور ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ سولہ سال کی عمر میں نفرت اور محبت بڑی خام قسم کی ہوتی ہے۔ اسی عمر میں جب میں نے لاہور کے حلقہ ارباب ذوق میں اپنا افسانہ ’’ایلی ایلی لماشبقتنی‘‘ پڑھا تو اشفاق احمد کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں دو لوگوں نے کھل کر تعریف کی۔ ایک مرحوم سراج منیر اور دوسرے شہزاد احمد کہ جن کے نام کے ساتھ مجھے آج کتنے دکھ سے مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے۔ افسانہ استعاراتی تھا اور ان دنوں یہ سکہ رائج الوقت تھا۔ میری حیرت یہ تھی کہ یہ قدیم غزل گو روایت والا رجعت پسند موجودہ افسانے کو کیا جانے۔
کم علمی کے سارے عیب آدمی لا یعنی خود اعتمادی میں چھپاتا ہے۔ شاید اس زمانے میں میرا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ نثری نظم کا وقتی طوفان کافی کی تلخ اور چائے کی گرم پیالیوں سے زیادہ نہ اٹھ سکا کہ اس خطے میں رچی بسی موسیقی نے شاعری کا دامن اس قدر مضبوطی سے پکڑا ہے کہ اب تو ایک روح اور جسم لگتے ہیں۔ میں غزل کی جانب لوٹا تو کتنے شاعروں کے دیوانوں سے ہوتے ایک جگہ آ کر رک سا گیا۔ یہ تھا یاس یگانہ۔ ایسی شاعری تو روح میں اترتی ہے۔
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لُکنت زبان میں آئی
یگانہ کی شاعری میں گم ہو کر باہر نکلو تو نظریں بس شہزاد احمد پر آ کر ہی رکتی ہیں۔ ایسی شاعری صرف واردات کی نہیں بلکہ علم کے سمندر سے غوطہ لیتی ہوئی واردات کی شاعری ہوتی ہے۔
اس آنکھ سے آنسو نہ بہے ہیں نہ بہیں گے
یہ جھیل کا پانی ہے کناروں میں رہے گا
یوں مبارک احمد کی نثری نظم سے حلقہ ارباب ذوق کی سیکریٹری جنرل شب شہزاد احمد سے چھیننے کی خواہش سے ہوتی ہوئی‘ یاس یگانہ کی رُت میں لکھی گئی شہزاد احمد کی شاعری نے مجھے اس کا دیوانہ سا بنا دیا۔ میں لاہور آیا تو وہ روٹی پلانٹ میں ملازم تھا اور کبھی کبھار یونیورسٹی میں شعیب بن عزیز سے ملنے آتے۔ میں ہاسٹل میں تھا۔ شہزاد احمد پر نظر ڈالتے آپ کو ایک ایسے شخص کا احساس ہونے لگتا تھا کہ علم کی روشنی ان کے چہرے سے پھوٹ رہی ہے۔ عینک کے پیچھے سے جھانکتی ذہین آنکھوں سے زندگی جاگتی نظر آتی تھی۔ شہزاد احمد کی شاعری کے ساتھ ساتھ جب میں نے ان کی فلسفہ‘ تاریخ اور نفسیات پر کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو ایک حیرت کا جہاں مجھ پر کھل گیا۔
اس کے بعد مدتوں مشاعروں میں اکٹھے ہوتے رہے۔ شعروں کی داد‘ کسی کتاب پر گفتگو یا چٹکلوں اور لطیفوں سے بات آگے نہ جا سکی۔ یوں تو شہزاد احمد دوست بنانے اور دوستی کرنے کا فن جانتے تھے لیکن شاید میری افتاد طبع نے مجھے ان کے قریب نہ جانے دیا۔ لیکن ان سے متاثر ہونے کا عمل جاری رہا۔ ایک خالص رومانی شاعر اور اس قدر وسیع المطالعہ کہ مجھے جب کبھی یونانی اور مصری اساتیر میں الجھن پڑتی۔ فلسفہ اور نفسیات میں کسی مقام پر اٹکتا میں شہزاد احمد کو فون کر لیتا۔ اس دوران شہزاد پر ایک عجیب لمحہ‘ ہست و بود کا تجربہ وارد ہوا۔
وہ دل کے عارضے میں اس مقام پر جا پہنچے کہ کافی دیر تک اس جہان سے دور ہو گئے لیکن زندگی کے کچھ سال باقی تھے تو واپس آ گئے۔ مگر عالم بالا کی ایک جھلک دیکھ کر۔ اس تجربے نے تو اس عالم‘ فلسفی اور شاعر کو یقین کی وہ منزل عطا کی کہ بڑے بڑے سالوں کی ریاضتوں میں وہاں پہنچتے ہیں۔ ادھر ان کا یہ عالم حیرت کا جہان ان پر وارد ہوا اور ادھر میں سیکریٹری اطلاعات پنجاب تعینات ہوا۔ اس وقت تک میرا ان سے مستقل سا تعلق بن چکا تھا۔ میں محکمہ آثار قدیمہ میں ڈائریکٹر جنرل تھا اور وہ مجلس ترقی ادب کے چیئرمین لگے تھے۔ ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے میں کوئی نہ کوئی بحث کا موضوع لے کر وہاں چلا جاتا۔
مجلس ترقی ادب کو اگر کسی شخص نے نئی زندگی دی تو وہ شہزاد احمد تھے۔ وہ ہر مہینے کتابوں کا ایک ذخیرہ اٹھا کر میرے پاس لے آتے کہ یہ کلاسیک ادب ہم نے دوبارہ چھاپ دیا۔ جس عمارت میں مدتوں کتابیں ایک گودام کی صورت پڑی تھیں انھیں شہزاد احمد صاحب نے دنوں گرد آلود کمروں میں کھڑے ہو کر ترتیب دیا۔ تمام پرانے رسالوں اور قلمی نسخوں کو اکٹھا کیا۔ جو پرانے ٹائپ شدہ رسم الخط میں چھپیں تھیں انھیں نستعلیق میں دوبارہ چھپوایا۔ میں اس 75 سالہ شخص کی توانائیاں دیکھ کر حیرت میں گم ہو جاتا لیکن جس قوت و خوبی نے مجھے شہزاد کا گرویدہ بنایا وہ صرف ایک مومن کی میراث ہے۔
حق گوئی و بے باکی۔ مجلس ترقی ادب کی زمین ہی وہ متنازعہ جگہ تھی جس پر نظریہ پاکستان کے حوالے سے قبضہ مطلوب تھا۔ میں اس جنگ میں مصروف تھا کہ ایک دن شہزاد میرے پاس آئے۔ ان دنوں مجھ پر سخت پریشر تھا کہ میں انھیں اس عہدے سے ہٹانے کی سمری بھیجوں۔ آئے اور کہنے لگے۔ آپ کیوں یہ پریشانی سر پر لیتے ہیں۔ میں نے تیس سال قلم کی کمائی سے بچوں کا رزق کمایا ہے۔ واپس قلم ہاتھ میں پکڑ لوں گا۔ یہ لمحہ میرے لیے فیصلے کا تھا۔ شہزاد صاحب کے اس ایک فقرے نے میرے اندر کے انسان کو اور مضبوط کر دیا تھا۔ اس محاذ پر وہ میرے ساتھ تھا‘ کشتیاں جلائے۔ جنگ شروع ہوئی‘ میں افسر بکار خاص لگا دیا گیا۔
لیکن اس جنگ میں دو چیزیں بچ گئیں ایک مجلس ترقی ادب کی زمین اور دوسری شہزاد احمد کی وہاں تعیناتی۔ شہزاد بچ گئے اور یہ مجلس ترقی ادب کی خوش نصیبی تھی۔ لیکن میرے وہاں سے چلے جانے سے ہمارا ایک خواب ٹوٹ گیا۔ شہزاد احمد کا ایک خواب ایک بہت بڑے دار الترجمہ کا خواب۔ میں اور شہزاد اس خواب کو لے کر سرکار کی راہداریوں میں بہت گھومے بجٹ منظور کروایا۔ پھر اس زمین پر لوگوں کی نظر ہوئی۔ جھگڑے میں کون کدھر ہو گیا۔ شہزاد ہر دوسرے ہفتے میرے پاس آتے۔کتابوں کا بنڈل لاتے جو انھوں نے چھاپا ہوتا پھر دارالترجمہ کا وہ نقشہ کھولنے کو کہتے۔ میں وہ پوری فائل نکالتا۔ پھر ہم ایک طویل ماتم کرتے‘ اور پھر خواب دیکھتے ہوئے اٹھتے۔ شاید یہ سب بدل جائے۔
شاید کوئی تو اس مزاج کا آئے جسے فوڈاسٹریٹ سے زیادہ بک اسٹریٹ سے اور پُلوں سے زیادہ کتاب سے محبت ہو۔ شہزاد احمد کی زندگی بھر کی دربدری ختم ہو گئی۔ وہ اپنے خواب ساتھ لے گیا اور آدھے خواب کی راہداری پر مجھے بھاگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ انھی کے شعر پر بات ختم کروں گا
کہاں تک در بدر پھرتے رہیں گے
تمہارے دل میں گھر کرنا پڑے گا
کیا عریانی ستر ہو سکتی ہے
اوریا مقبول جان بدھ 1 اگست 2012
پاکستان کے آزاد اور خود مختار میڈیا پر گزشتہ چند مہینوں سے میرے ایک عظیم دانشور دوست کے فقرے کی گونج بار بار سنائی دے رہی ہے۔ ’’یورپ میں عریانی ستر ہے۔‘‘ مجھے اپنے اس دوست پر ایک گمان ہے کہ یہ فقرہ اس نے خالص جذباتی اور فقرہ بندی کے عالم میں کہہ دیا اور پھر اسے اس کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔
ورنہ ایک معمولی سی لغت یا ڈکشنری رکھنے والا شخص بھی اگر عریانی اور ستر کے معنی نکال کر دیکھ لے تو وہ شاید ہی ایسا فقرہ زبان سے نکال سکے۔ماہرین زبان جنھیں Philologist کہا جاتا ہے وہ ہر لفظ کی تخلیق کے پیچھے صدیوں کے انسانی تجربے کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ انسان ایسے ماحول‘ حادثات‘ تجربات اور ترغیبات سے گزرا تب جا کر لفظ عریانی‘ حیاء‘ شرم محبت‘ نفرت‘ غصہ وغیرہ ہر زبان میں تخلیق ہوئے۔ دنیا میں پھیلی ہزاروں زبانوں میں صدیوں سے عریانی کا ایک ہی مفہوم ہے اور ستر کا دوسرا مفہوم ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں آدم اور حوا کا قصہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ موجود ہے۔
اس میں جنت میں دونوں لباس میں موجود تھے اور جب ان سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو ان کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے ستر ڈھانپنے لگے۔ گویا حیاء وہ پہلا عمل تھا جو انسانوں کی جبلت میں شامل ہوا۔ مارگریٹ میڈ وہ مشہور محقق ہے جس نے ایمیزن کے جنگلات میں رہنے والے تہذیب سے دور قبائل کا مطالعہ کیا۔ اس کے نزدیک بھی مکمل عریانی کسی قبیلے میں بھی موجود نہ تھی بلکہ ستر کا ایک معیار ضرور موجود تھا خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔
ستر‘ حیا اور پردہ انسانی تہذیب کی وہ اعلیٰ ترین اوصاف ہیں جو انسان کو جانور سے ممیز کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغرب میں کوئی عریانی پر نظر بھی نہیں ڈالتا۔ اس سے بڑا جھوٹ تو شاید ہی بولا جائے کیوں کہ مغرب کے جرائم کی اعداد و شمار میں سب سے زیادہ جرائم وہ ہیں جو عریانیت کی وجہ سے وہاں عام ہیں۔ دنیا میں دو سو کے قریب ممالک میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی شرح نکال کر دیکھ لیں۔ صرف ایک سرچ انجن پر بٹن دبانے سے مل جائے گی۔
آپ کو سب سے زیادہ عورتیں ان معاشروں میں جنسی زیادتی کا شکار ملیں گی جہاں لباس کی حد کو کم سے کم کیا گیا ہو اور سب سے کم ان ممالک میں جہاں ستر اور حجاب آج بھی انسانوں کا زیور سمجھا جاتا ہے۔ عریانیت اور جرم کا تعلق دنیا کے ہر معاشرے میں مسلم حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کے محکمہ انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دبائیں۔ 2005 میں ایک لاکھ اکیانوے ہزار چھ سو ستر خواتین نے جنسی زیادتی کی رپورٹ پولیس میں درج کروائی جب کہ یہ اصل تعداد کا ایک تہائی ہے۔ یعنی اصل میں چھ لاکھ کے قریب عورتیں اس اذیت سے گزریں جب کہ اکثر خاموش رہیں۔
اب ذرا غور کیجیے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ انھیں نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے جو عورتیں مختصر لباس میں ہوتی ہیں۔ زیادتی کرنے والوں میں 38 فیصد ان کے قریبی دوست تھے جن کے سامنے وہ روز اس لباس میں آتی تھیں۔ 7 فیصد رشتے دار‘ اور26 فیصد پرانے بوائے فرینڈ وغیرہ۔ یہ سارا اختلاط ہی تھا جو ان چھ لاکھ عورتوں کی زندگیوں میں زہر بھر گیا۔ پوری دنیا کے ممالک کے جرائم کے اعداد و شمار اٹھا لیں‘ ایک لفظ سیریل کلر ملے گا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو نیم برہنہ لباس میں ملبوس عورتوں کو اٹھا کر جنسی جنون میں قتل کرتے ہیں۔ ان کا آغاز دو سو سال قبل جیک دی ریپر سے ہوتا ہے جب یورپ میں عریانیت کا آغاز ہوا تھا۔ آپ کو اس پوری لسٹ میں مسلمان ممالک میں دس سے زیادہ سیریل کلر نہیں ملیں گے جب کہ اکیلے امریکا میں ان کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جنہوں نے لاکھوں عورتوں کو اٹھا کر اذیتیں دے کر قتل کیا۔ ان میں کوئی مذہبی جنونی نہ تھا۔ اکثریت وہ تھی جو ان کے مختصر لباس سے اشتعال میں آتے اور پھر تاک میں بیٹھ کر ان کو اٹھا کر قتل کر دیتے۔ ان میں ایسی عورتیں بھی شامل تھیں جو ان کے خون سے غسل کرتیں۔
ارجنٹائن سے لے کر آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ یونان‘ ڈنمارک‘ سویڈن اور دیگر ممالک میں ایسے قاتلوں کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں بنتی ہے جنہوں نے خواتین کو ایسے ملبوس میں دیکھا اور ان پر جنون طاری ہوا اور پھر یہ ان کی ایک عادت بن گئی کہ ایسی عورتوں کو اٹھا کر قتل کر دیا جائے۔ اگر ان کے رنگین ’’کارناموں‘‘ کی تفصیل مرتب کی جائے تو دنیا کے کسی انسائیکلو پیڈیا سے کم نہیں ہو سکتی۔ جسے پوری طرح پڑھنے کے لیے میرے معزز دوست دانشور کو پوری زندگی درکار ہو گی۔
ایسے جنسی جنونیوں اور قاتلوں کی تعداد مسلمان معاشروں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی ان معاشروں میں شرم‘ حیاء‘ غیرت‘ حجاب اور ستر جیسی اقدار زندہ ہیں۔ 1970 کی دہائی میں مغرب کے معاشروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس جنسی ہیجان کو کم کرنے کے لیے عریاں فلموں کی بہتات معاشروں میں پھیلائی جائے۔ تاکہ لوگ اس کی طرف مائل ہو کر اپنا جنون اور ہیجان کم کر دیں۔
صرف دو یا تین سال جرائم کم ہوئے لیکن پھر ایسے بڑھے کہ معاشرے چیخ اٹھے۔ عریانیت کے اس طوفان سے ایک خوفناک صورت حال مقدس رشتوں سے زیادتی اور بچوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ صرف امریکا سے ہر سال 25 لاکھ بچیاں اس مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ چین‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ‘ مشرقی یورپ اور روس کی آزاد کردہ ریاستوں سے بچیاں جہازوں میں بھر کر یورپ کی منڈیوں میں لائی جاتی ہیں۔
جرمنی کے فٹ بال کپ کی تقریب کے لیے دنیا بھر سے پنتالیس ہزار لڑکیاں ایک عارضی بازار نما جگہ میں لا کر بٹھائی گئیں۔ دنیا میں اغوا شدہ‘ غریب بچیوں کی محرومی سے فائدہ اٹھانے والی سب سے بڑی منڈی یورپ ہے۔ ایمسٹرڈیم کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کے ہزاروں کمروں میں آپ کو ہر ملک کی عورت نیم برہنہ حالت میں کھڑی ملے گی جنھیں دیکھنے والوں اور داد عیش دینے والوں میں اکثریت انھی کی ہوتی ہے جن کے بارے میں یہ دعویٰ ہے کہ وہ دیکھتے تک نہیں۔
فلپائن‘ بنکاک‘ برازیل اور گوا کے بازاروں میں آپ کو یورپ اور امریکا کے سیاح ملیں گے جو ان عورتوں کی تلاش میں وہاں آتے ہیں جن کے بارے میں آپ کا دعویٰ ہے کہ وہاں عریانی ستر بن چکی ہے۔ مجھے انتہائی دکھ اس وقت ہوا جب کہا گیا کہ پردہ اصل میں عرب کی روایت تھی جسے اسلام نے قائم رکھا۔ مجھے دنیائے عرب کی کوئی بھی تاریخ نکال کر دکھا دیں کہ عرب کے قبائلی معاشرے میں عورتیں اسلام سے پہلے پردہ کرتی تھیں۔
یہ میرے آقا سرورِدو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایک بہتان ہے۔ آپ نے اس بے راہ رو معاشرے کو جس میں کعبے میں لٹکے ہوئے قصیدے صرف فحش نگاری کے سوا کچھ نہ تھے حیاء‘ شرم‘ عصمت اور حجاب کا درس دیا۔ انسانی معاشرے میں ستر اس کی پہچان ہے‘ انسان عریانیت پر چونکتا ہے۔ البتہ کتوں کے غول نے کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ سڑک کے کنارے کونسا کتا کیا کر رہا ہے۔ خنزیروں کے ٹولے گھومتے ہیں اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کہ ہم میں عریانیت ہے یا ہم میں سے کون ہے جو سرعام غیر اخلاقی حرکات کر رہا ہے۔
اور کب تک
اوریا مقبول جان ہفتہ 28 جولائ 2012
یہ دو لاکھ لوگ جن کے گھروں کو آگ لگا دی گئی، سازو سامان لوٹ لیا گیا، جو سامنے ملا اسے تشدد کر کے مار دیا، بھاگنے پر مجبور کیا، خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ یہ سب کے سب رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تمام تعریفوں کے مطابق ایک قوم ہیں، ان کے ہم زبان، ہم نسل اور ہم قوم لوگوں نے اسی بنیاد پر بنگلہ دیش بنایا تھا کہ دو قومی نظریہ نام کی چیز کی اہمیت نہیں اور ملت اسلامیہ نام کا تصور ایک خواب ہے۔
لیکن زمینی حقائق کی تلخی اس قدر کڑوا سچ ہے کہ کوئی آزاد خیال، سیکولر دانشور اسے قبول نہیں کرتا۔ سچ یہ ہے ایک زبان، رنگ اور نسل کا ہونے کے باوجود کوئی اپنا بھائی نہیں سمجھتا، اس لیے کہ یہ کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ آسام کے مسلمان ہیں۔ آسام کبھی بھی ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں یا ہندو موریہ اور گپتا حکومتوں کا حصہ نہیں رہا۔ تھوڑے عرصے کے لیے اسے اورنگ زیب عالمگیر نے فتح کر کے اپنے اختیار میں رکھا لیکن قبضہ زیادہ دیر قائم نہ رکھ سکا۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت آسام میں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے جو تین کروڑ کے اس صوبے کا 33 فیصد ہیں۔
یہاں تین فیصد عیسائی بھی آباد ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے زیر اثر نہ ہونے کے باوجود آسام میں اس قدر مسلمانوں کی تعداد ایک صوفی درویش آجن فقیر جنھیں شاہ میراں اور غیاث الدین اولیاء کہا جاتا ہے ان کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ ان کی تعمیر کی گئی مسجد کو پائو مکہ یعنی مکہ کا چوتھا حصہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد میں مکہ سے لائی گئی خاک شامل ہے۔ اس کے علاوہ پنج پیر درگاہ میں آسودۂ خاک پانچ درویشوں کو بھی یہاں اسلام پھیلانے کی وجہ سے مسلمان عزت و تکریم سے دیکھتے ہیں۔ یہاں آسامی اور بنگالی زبان بولی جاتی ہے کہ اکثر لوگ دونوں زبانیں جانتے ہیں۔
اس لیے جب صوبے کی حکومت نے آسامی کو سرکاری زبان قرار دیا تو سخت احتجاج کے بعد فیصلہ واپس لینا پڑا۔ آسام 1826ء میں پہلی دفعہ ہندوستان کا حصہ برطانوی دور میں بنا۔ انگریزوں نے اسے چائے کے باغات کی وجہ سے فتح کیا تھا۔ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا تو یہاں کے مسلمانوں نے اپنے اکثریتی اضلاع کی پاکستان میں شمولیت کے لیے تحریک بھی چلائی تھی لیکن انگریز یہاں مستقل فساد کا شاخسانہ چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔
آسام کے مسلمانوں پر اس وقت قیامت کا دسواں دن ہے۔ دو لاکھ سے زیادہ لوگ عارضی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ہچکیوں سے اپنے پیاروں کے قتل اور گھروں کو جلائے جانے کی داستانیں سناتے ہیں۔ جب گائوں کے گائوں جلائے جا رہے تھے تو انسان تو بھاگ گئے لیکن مویشی تو وہیں بندھے رہ گئے۔ ان میں مقدس گائو ماتا بھی تھیں جنھیں مسملانوں کو ذبح کرنے کی اجازت نہیں لیکن انھیں مسلمانوں کی گائے سمجھ کر زندہ جلا دیا گیا۔
یہ قتل عام پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ 18 فروری 1983ء کو صبح نو بجے مسلح ہجوم نیلی اور اردگرد کے دیہات پر ٹوٹ پڑا۔ چھ گھنٹے بعد پولیس اور نیم فوجی دستے وہاں پہنچے لیکن اس وقت تک پانچ ہزار افراد ذبح کیے جا چکے تھے۔ اس تشدد کی یاد اس ماہ جولائی میں تازہ ہوئی جب کھوکھر جھار کے علاقے میں سو کے قریب گائوں جلا کر راکھ بنا دیے گئے۔ مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں کو جلانا روز کا معمول ہے۔ 1993ء میں سو کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 1994ء میں دو سو ہلاک ہوئے اور 1996ء میں تین سو مسلمان قتل ہوئے اور دو لاکھ افراد گھروں سے بے گھر کر دیے گئے۔
تجزیہ نگار، دانشور اور سیاسی رہنما اس سارے قتل عام کے بہت کمال کے محرکات بتاتے ہیں۔ آج کل ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کا قتل عام ہو، اس کی وجوہات میں معیشت، اقتدار کی رسہ کشی اور باہر سے آئے ہوئے قابضین کی کوئی نہ کوئی منطق ڈھونڈ کر سارا کھیل اس کے نام کر دیا جائے۔ برما میں قتل عام ہوا، سب کے سب مسلمان تھے، کہا یہ گیا کہ یہ اصل میں باہر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے لوگ تھے، نو صدیاں قبل آنے والے۔
آسام کی تجزیہ نگاری میں بھی کڑوی کافی اور مشروبات کی تلخ گھونٹ حلق میں اتار کر کہتے ہیں کہ یہ تو بنگالی ہیں جو وہاں سے باہر سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہاں کوئی تین لاکھ کے قریب سکھ بھی تو آباد ہیں، دور سے پہچانے جاتے ہیں، زبان بھی علیحدہ بولتے ہیں، کوئی یہ سننا ہی نہیں چاہتا کہ چند الفاظ جنھیں کلمۂ طیبہ کہتے ہیں، انھیں ادا کرنے کے بعد کوئی فرد ایک ہی زبان بولتے ہوئے، ایک ہی جیسا کھانا کھانے، رقص کرنے، کپڑے پہننے کے باوجود اتنا واجب نفرت ہو جاتا کہ اس کے وجود سے زمین کو پاک کر دینا عین عبادت تصور کیا جانے لگے۔
یہ صرف ایک آسام کا قصہ نہیں ہے۔ بریلی اس وقت کرفیو کی زد میں ہے، کشمیر کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ اس کے ذکر سے اس ملک کے ہزاروں انسانی حقوق کے رہنمائوں کو ابکائی آتی ہے۔ انھیں یہاں دراندازیوں کی کہانیاں سنانے میں لطف آتا ہے۔ لیکن شاید آسام کے بارے میں کوئی زمینی راستہ نہیں ملتا ورنہ وہ کب سے اس کا ملبہ مسلمان شدت پسندوں پر ڈال چکے ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، قتل و غارت ہے اور تم دوسروں کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔
اس سے زیادہ انسانیت سے گرا ہوا نظریہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ جب چی گیویرا اپنے مظلوم ملک کو چھوڑ کر دوسرے مظلوموں کے لیے لڑنے نکلا تھا تو اس کے پوسٹر ان عظیم دانشوروں کے گھروں کی دیواروں پر تھے۔ جب ایک ملک کے مظلوم مزدور کیمونسٹ گوریلے دوسرے ملک میں جاکر لڑے تو پابلو نروادا سے لے کر فیض احمد فیض تک سب نظمیں تحریر کرتے۔ پاکستان کے آرمی ڈکٹیٹروں کی موجودگی میں انگولا اور ویت نام کے مظالم پر اشک بہاتے۔
لیکن شاید کلمۂ طیبہ وہ واحد رشتہ ہے کہ جس کا درد کسی کو محسوس نہیںکرنا چاہیے۔ لیکن کیا کریں، میرے نبی آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کلمۂ طیبہ پڑھ کر مسلمان کہلانے والے کی ایک ہی پہچان بتائی ہے۔ فرمایا مسلمان ایک جسد واحد یعنی ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں۔ یعنی اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم درد میں تڑپتا ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ پوری دنیا مجھے ایک جسم سمجھتی ہے، وہ پوری مسلم امت کو ایک جسم سمجھتے ہوئے اس کے ہر عضو پر حملہ آور ہوتی ہے۔ افغانستان، عراق، کشمیر، فلسطینی، چیچنیا۔ انھوں نے کبھی اس جسم سے باہر وار نہیں کیا۔
لیکن ہم کس قدر بے حس ہیں کہ ہم کسی بھی حصے پر ہونے والے وار پر ذرا سا چونکتے بھی نہیں۔ ہماری نیند تک نہیں ٹوٹتی۔ لیکن شاید وہ دن دور نہ ہو کہ جب پورے کے پورے جسم پر، پوری کی پوری امت مسلمہ کے جسد واحد پر چاروں جانب سے حملہ ہو۔ ایسے میں ٹی وی پر بیٹھ کر، اخبار میں قلم سیاہ کرنے اور قومی اسمبلی کے ایوانوں میں کس طرح کہہ سکو گے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں، ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہیے۔
آخری فیصلے کا انتظار کرو
اوریا مقبول جان ہفتہ 21 جولائ 2012
بستیوں کی اکثریت جب یہ فیصلہ کر دے کہ جو ہم کہیں گے وہی حق ہے، جسے ہم پسند کرتے ہیں وہی بہتر ہے، خواہ وہ بددیانت ہو، جھوٹ بولے، عہد شکنی کرے، دھوکا دہی سے اپنی قسمت بہتر بنائے تو پھر تاریخ کے اوراق ان بستیوں کے عبرت ناک انجام سے بھرے واقعات کی خون آلود سیاہی سے بھرے پڑے ہیں اور تباہی و بربادی، عذاب اور دہشت کے آثار آج بھی دنیا کے ہر خطے میں کھنڈرات کی صورت میں محفوظ ہیں۔ جس کائنات کو تخلیق کرنے والا واحد، یکتا اور لاشریک رب کتنے طمطراق کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ صرف وہی ہے جو طاقت کا سرچشمہ ہے۔
انسان کو جو طاقت، ہمت، قوت اور صلاحیت میسر ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ اسی کی سدا رہنے والی بادشاہی کے مقابلے میں جب لوگوں کی اکثریت ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اپنا قد بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ ہم جسے چاہیں تخت پر بٹھا دیں اور جس سے چاہیں تخت چھین لیں۔ جسے چاہیں عزت دیں اور جسے چاہیں ذلت‘ تو مخلوق اس تاج کو پہننے کی جسارت کرتی ہے جو صرف میرے اﷲ کو زیبا ہے۔
ایک ایسے دعوے کا اعلان کرتی ہے جو اﷲ بار بار کرتا ہے۔ وہ کلمہ جسے ہم شیطان سے نجات کے لیے بولتے ہیں ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ اس میں کہیں شیطان کا ذکر نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی لعنت اور پھٹکار کی گئی ہے کہ وہ ڈر کر بھاگ جائے بلکہ اسے پڑھنے والا ایک واضح اعلان کرتا ہے کہ ’’کوئی طاقت اور قوت نہیں سوائے اﷲ کے۔‘‘ یہاں وہ زمین پر بسنے والے ہر ذی روح کی طاقت اور قوت کی نفی کرتا ہے۔ لیکن انسان بھی کس بلا کا نام ہے کہ جس دعوے کی جرأت ازل سے لے کر آج تک شیطان جیسا مردود نہ کر سکا کہ وہ طاقت کا سرچشمہ ہے،
یہ دعویٰ حضرت انسان بار بارکرتا ہے، ڈھول کی تھاپ پر کرتا ہے اور رقص کے عالم میں کرتا ہے۔ یہ ہے جمہوریت کا ’’حسن‘‘ اور اس کا ’’کمال‘‘۔ اسی لیے اس خالق حقیقی نے جس نے انسان کو تخلیق کیا۔ جو اس انسان کی سرشت سے واقف ہے اس نے اس پورے جمہوری نظام کی جڑ کاٹتے ہوئے سورہ الانعام کی آیت نمبر 116 میں واضح اعلان فرمایا ’’اگر تم زمین پر بسنے والوں کی اکثریت کی پیروی کروگے تو وہ تمہیں اﷲ کے راستے سے بھٹکا کر چھوڑیں گے۔‘‘ یہ ہے وہ ازلی ابدی اعلان جو اﷲ نے فرمایا۔
آیئے ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں، کیا کبھی سچ، حق، انصاف اور واضح اخلاقی اصولوں کا اکثریت نے ساتھ دیا۔ تاریخ اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ اس طاقت کے سرچشمہ عوام کی اکثریت نے ہمیشہ حق، سچ اور انصاف کے خلاف پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔ سقراط کا مقدمہ ایک ایسی عدالت اور جیوری کے سامنے پیش ہوا تھا جس کا ہر شہری ممبر تھا۔ پورے کے پورے شہر کی اکثریت بلکہ متفقہ اکثریت نے اپنا ’’جمہوری‘‘ حق استعمال کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ سقراط کا سچ ہمیں قبول نہیں۔ پورے شہر نے انصاف اور سچ پر فتح حاصل کرلی تھی۔ اور کتنے فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی عدالت عوام کی ہوتی ہے۔
لیکن وہ مالک کائنات جس نے اپنی نازل کردہ سچائیوں کو زندہ رکھنا ہوتا ہے، اس نے آج تک ایتھنز کے عوام کو ہیرو نہیں بننے دیا، بلکہ تین ہزار سالہ تاریخ کی گالیاں ان کا مقدر بنیں اور آج بھی بن رہی ہیں۔ کیا حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بارہ حواریوں کے سوا کوئی اور تھا جوان کے ساتھ گلیلی کے بازاروں میں گھسیٹا گیا ہو، جب وہ صلیب اٹھا کر چل رہے تھے‘ لیکن کوئی ہے جو آج سر اونچا کر کے کہے کہ گلیلی کی اکثریت اور طاقت کا سرچشمہ عوام نے جو صلیب پر لٹکانے کا فیصلہ کیا تھا وہ عین درست تھا‘ کیونکہ آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔
کوفہ کے گلی کوچوں نے تو یہ تماشا کئی بار دیکھا۔ مسلم بن عقیل کے پیچھے صفیں باندھے نمازی نماز مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک فیصلہ کرتے ہیں، اکثریت کا فیصلہ، طاقت کے چشمہ کا فیصلہ اور نماز بیچ میں چھوڑنے کے ساتھ مسلم بن عقیل کو بھی تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ کیا کربلا کی تپتی ریت پر جگر گوشۂ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حق کی آواز کے ساتھ وہاں کی اکثریت نے ان کا ساتھ دیا۔ اکثریت تو ویسا ہی کر رہی تھی جو میرا اﷲ فرماتا ہے کہ اگر تم ان کی پیروی کروگے تو یہ تمہیں اﷲ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔
لیکن لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں کے مقابلے میں آج بھی سیدنا امام حسینؓ اور ان کے بہتر ساتھیوں کے نام ستاروں کی طرح روشن ہیں اور آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے، کہنے والے چودہ سو سال سے پھٹکار کے مستحق۔ کوفہ میں یہ منظر نامہ رکتا نہیں۔ ایک اور شخص آل رسول کا حق پرست ستارہ حضرت زین العابدین کا فرزند زید بن علی حق و انصاف کی آواز بلند کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت تو ایک جانب، اپنے ماننے والوں، ولایت علی کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس جاتا ہے کہ میرا ساتھ دو۔ ان کی اکثریت بھی اس کا ساتھ دینے سے انکار کرتی اور ساتھ نکلنے والوں میں صرف تین و تیرہ نفوس ہوتے ہیں۔
یہ عوام کی اکثریت اور طاقت کے سرچشمے کے فیصلے بھی غضب کے ہوتے ہیں۔ بل کلنٹن کو ووٹ دینے والی خواتین میں سے 75 فیصد نے کہا کہ ہم نے اس شخص کو اس لیے ووٹ دیے کہ یہ راتوں کو میرے خوابوں میں آتا تھا۔ رچرڈنکس جب اپنے زمانے کے خوبصورت ہیرو نما شخص جان ایف کینڈی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہا تھا تو وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ میں اس قدر احساس کمتری میں مبتلا تھا کہ میں نے کتنے ہی ماہرین جلد اور فیشن سے رابطہ کیا، طرح طرح کی کریمیں اور لوشن راتوں کو لگائے، چہرے کو خوبصورت بنانے کے لیے میک اپ کروائے لیکن پھر بھی ہار گیا۔ کینیڈا کے ٹروڈو سے لے کر ارجنٹائن کی خوبصورت اور جاذب نظر صدر تک ہزاروں مثالیں ایسی ہیں جن میں اکثریت کے اس ’’عظیم‘‘ فیصلے کی جھلک نظر آتی ہے۔
لیکن ان سب رویوں سے، اور ایسے بے وقوفانہ فیصلوں سے نہ اﷲ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور نہ معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ لیکن جب کسی قوم کی اکثریت اس بات پر فیصلہ کرے، ووٹ دے کہ ہم دیانت کے بجائے بددیانتی، انصاف کی جگہ ظلم، سچ کی جگہ جھوٹ اور حق کی جگہ باطل کا ساتھ دیتے ہیں تو پھر اﷲ قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا کرتا ہے۔ دنیا میں آج تک پوری جمہوری تاریخ میں کسی قوم نے اس بات پر اکثریتی فیصلہ نہیں دیا کہ ہم انصاف کے مقابلے میں عدالت کی نفی کرتے ہیں اور ہمارا فیصلہ عدل اور عدلیہ سے زیادہ افضل ہے۔ کیا کبھی کسی ملک میں کرپشن، بددیانتی، جھوٹ، بدعہدی اور دھوکا دہی کے حق میں ریفرنڈم ہوا۔ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوا۔
یہ اعزاز صرف ہمیں حاصل ہے۔ یہ اعزاز حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو بھی حاصل ہوا تھا۔ جنہوں نے کہا تھا کہ ہماری اکثریت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کم تولنا جائز ہے۔ حضرت شعیب کے ساتھ صرف تیرہ سو کے قریب لوگ تھے۔ لوگوں نے کہا آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ لیکن اس واحد و جبار و قہار نے کہا۔ آخری فیصلہ میرا ہوتا ہے اور آج وہ قوم عبرت سرائے دہر ہے، ان کے کھنڈر ہیں اور بے بسی کی تحریریں۔ آخری فیصلہ میرے اﷲ کا ہوتا ہے۔ اس کا انتظار کرو۔ آپ کی عدالت نے تو فیصلہ دے دیا۔
کیا ہم روز حشر پر ایمان رکھتے ہیں
اوریا مقبول جان بدھ 18 جولائ 2012
میں یہ گفتگو سن رہا تھا اور خوف سے میرا بدن کانپ رہا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس مملکت خداداد پاکستان کی اسمبلی کا ایک رکن جس کی میں اس کے مذہبی خیالات، سیاسی جدوجہد اور عام آدمی کی سطح سے محنت کر کے یہاں تک پہنچنے کی وجہ سے بہت عزت کرتا ہوں۔ یہ شخص جمہوریت کے دفاع میں اس قدر مبہوت ہوجائے گا۔
یوں تو اس کا تعلق ایک ایسی جماعت سے رہا ہے جو اس ملک میں گزشتہ ستر سال سے اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ لیکن میرے اﷲ کی مصلحت تھی کہ جمہوریت کے اس نڈر سپوت کو ایک دوسری جماعت میں پناہ لینا پڑی۔ اگر یہ گفتگو کسی نجی محفل میں ہوئی ہوتی تو میں فون کر کے یا خود اس کے دروازے پر حاضری دے کر سمجھاتا کہ آپ نے بہت غلط بات کہی ہے۔ لیکن چونکہ ایک ٹاک شو میں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اسے سن رہے تھے اس لیے اگر میں قلم نہ اٹھاتا تو شاید اﷲکے حضور اپنی خاموشی کا کوئی جواز پیش نہ کر سکتا۔ اس رکن اسمبلی کے ساتھ جب جمہوریت پر گرم جوشی سے بحث جاری تھی تو ایک صاحب نے کہا کہ جس آئین کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ اس میں اﷲ اور اس کے رسول کی سنت اور احکام کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اسی ملک میں سود کا نظام نافذ ہے۔ جسے اﷲ اپنے اور اپنے رسول کے خلاف اعلان جنگ کہتا ہے۔
بجائے شرمندگی، کوتاہی اور ندامت سے سرجھکا کر یہ تسلیم کرتے کہ ہاں ہم نادم ہیں، یہ ہمارا قصور ہے، اس ممبر اسمبلی نے وہی لہجہ اختیار کیا جو آجکل ہمارے سیاسی رہنما اپنے قائدین کے خلاف الزامات لگائے جانے پر اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں جائو جاکر عدالت میں ثابت کرو، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائو۔ اسی عالم طیش میں ان ممبر اسمبلی نے کہا اگر اس ملک میں سود کا نظام جاری ہے تو سپریم کورٹ میں کیوں نہیں جاتے۔ کاش یہ ممبر اسمبلی حشر کے میدان میں جب کوئی سایہ نہ ہوگا، جب چاروں جانب سناٹے میں میرے اﷲ کی آواز گونجے گی۔ ’’کون ہے آج کے دن کا مالک۔‘‘ تین دفعہ پکارا جائے گا۔ بڑے سے بڑا مقرر، جلسے لوٹنے والا، ٹاک شو میں لوگوں کا ناک میں دم کرنے والا، پارلیمنٹ میں اپنی للکار سے ہیبت پیدا کرنے والا سب کے سب خاموش ہوں گے اور پھر صدا گونجے گی۔
صرف اﷲ جو قہاّر ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو چند لاکھ ووٹ لے کر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اﷲ کے سامنے جوابدہ ہیں اور پھر ان چند لاکھ ووٹروں کے سامنے، یہی جمہوریت کا ’’حسن‘‘ ہے۔ لیکن میرے اس دوست اور ممبر اسمبلی کو یاد نہیں کہ اس سود کے نظام کے خلاف جنگ اﷲ اور اس کے رسول نے شروع کی ہے اور یہ صرف سپریم کورٹ کے جج یا معاشیات کے ماہرین کی ذمے داری نہیں میری اور آپ سب کی ذمے داری ہے۔ سپریم کورٹ تو بعد کی بات ہے کیا گزشتہ نو سال جو آپ اسمبلی میں رہے بلکہ آپ کے ساتھ جو ایک ہزار سے زیادہ ممبران اسمبلی روز جمہوریت، انسانی حقوق، سسٹم، قانون کی بالادستی کی آواز بلند کرتے رہے، کیا ایک سیکنڈ کے لیے بھی انھوں نے اس جنگ میں اﷲ اور اس کے رسول کا ساتھ دینے کے لیے منہ کھولا، کوئی نکتۂ اعتراض کوئی تحریک استحقاق، کوئی بل، کوئی قرارداد۔ کیا آپ نے کبھی کہا کہ جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو ہر چوک، چوراہے اور گلی کوچے میں اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی دکانیں کھلی ہیں، اشتہار آویزاں ہیں، میں برداشت نہیں کر سکتا۔
یاد رکھو پورا قرآن اٹھا کر دیکھ لو، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اٹھالیں، اﷲ اور اس کے رسول نے زنا کے خلاف، جھوٹ کے خلاف، کرپشن اور بددیانتی کے خلاف، قتل و غارت اور فتنے کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ سود کے خلاف کیاہے۔ اور اس آیت میں لفظ ’’حرب‘‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کوئی بھی ڈکشنری اٹھا کر حرب کا لفظ ڈھونڈیں اس کے معنی پڑھیں آپ کو کسی مولوی کے پاس جانے یا اسے غلط معنی بتانے پر لعن طعن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ آپ کو خود اپنی وہ صف نظر آجائے گی جس میں آپ اﷲ اور اس کے رسول کے مقابل کھڑے ہیں۔
اگر آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ تو پھر آپ بس یہ کہئے کہ جرات نہ ہوتی۔ ’’تو پھر جائو نہ سپریم کورٹ کے پاس‘‘ آپ کس مرض کی بلا ہیں۔ ہم آپ کا دامن کیوں نہ پکڑیں جنہوں نے قانون بنانا ہے، غلط قانون پر آواز بلند کرنا ہے۔ جناب والا! میں آپ کی یاد دہانی کے لیے قرآن پاک کی سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 278-79 تحریر کیے دیتا ہوں۔ ’’اے ایمان والوں اﷲ سے ڈرو اور چھوڑو جو سود باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ میں آپ کو شافع محشر سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات بھی پیش کردیتا ہوں۔
آپ نے فرمایا سود کے سترگناہ ہیں۔ ان میں ادنیٰ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کی بے حرمتی کرے (سنن ابن ماجہ 165)۔ پھر فرمایا۔’’سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ شدید جرم ہے۔ بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہے (مسند احمد 225-5) ایک اور حدیث کے مطابق ’’ایک درہم جس کو کوئی شخص سود سے حاصل کرے اﷲ کے نزدیک تینتیس زانیوں کے حالت اسلام میں زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔‘‘
آپ اس ملک میں سسٹم کا تحفظ کیجیے، جمہوریت کی بقا کے لیے قربانیاں دیجیے، لیکن روز محشر یہی فقرہ دہرانے کے لیے بھی تیار ہو جائیے کہ ہم نے کہہ دیا تھا۔ ’’جائو سپریم کورٹ کے پاس۔‘‘ آپ بہت حوصلے والے جوانمرد ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میں نے رات کے پچھلے پہر اﷲ سے آپ کے لیے مغفرت اور ہدایت کی دعا کی۔ شاید اس لیے کہ کہیں یہ فقرہ آپ سے انجانے میں نہ نکل گیا ہو۔ میں آج بھی آپ سے نیک گمان رکھتا ہوں۔ لیکن آپ نے اﷲ کے حضور اپنے خلاف اٹھارہ کروڑ گواہ بنالیے ہیں۔
اﷲ آپ کو ہدایت دے، آپ سپریم کورٹ جانے کا مشورہ دینے کے بجائے اسمبلی کے ایوان میں سود کے خلاف آواز اٹھانے والے مجاہد بن جائیں۔ یاد رکھیں اﷲ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جمہوریت رہتی ہے یا ڈکٹیٹر شپ، سسٹم رہتا ہے یا انارکی، اس کی ترجیحات اور ہیں اور اپنی ترجیحات پر حساب لے گا۔ لیکن شاید یہ ترجیحات میرے ملک کے رہنمائوں کی نہیں ہیں۔ وہ کس قدر مگن ہیں۔ الیکشن کمشنر آ گیا ہے، معاہدے ہو رہے ہیں، الیکشن کی تیاری ہے، گٹھ جوڑ ہو رہے ہیں۔
جلسوں کے جلسے اور منشوروں کی تیاریاں۔ سب کچھ کتنا دلچسپ ہے۔ اس ساری گہما گہمی میں روز قتل بھی ہوتے ہیں، فاقے بھی چل رہے، خودکشیاں بھی ہو رہی ہیں، بے بس اور خاموش عوام کا غصہ اندر ہی اندر ابل رہا ہے، لیکن شاید میرا اﷲ اس غصے کے ابلنے کا بھی انتظار نہ کرے، صاحبان نظر آسمان کی جانب دیکھتے ہیں تو کانپ اٹھتے ہیں یوں لگتا ہے ایک سمندر انتظار کر رہا ہو حکم کا۔ کہ یوں لگے کہ جیسے آسمان پھٹ پڑا ہے۔ ایسے میں کسی کو کچھ یاد نہ رہے گا نہ جمہوریت، نہ آمریت، نہ سسٹم اور نہ آئین، نہ ٹاک شو اور نہ تقریریں۔ جب زمین سمندر بن جائے تو پھر اپنے اﷲ کے حضور معافی کے لیے گڑگڑائو گے۔
کیا ہمیں واضح علامتوں کا انتظار ہے
اوریا مقبول جان ہفتہ 14 جولائ 2012
ڈھلوان پر پھسلتی ہوئی گاڑی بے قابو ہو جائے‘ ڈرائیور پر لوگوں کو پہلے ہی سے شک ہو کہ اسے گاڑی کی الف بے تک کا نہیں پتہ‘ بریک فیل ہو جائیں تو گاڑی میں بیٹھی سواریاں دو تین کام فوری اور غیر ارادی طور پر کرتی ہیں‘ سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اﷲکو یاد کرنے لگتی ہیں‘ چیخوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں اور اگر سواریوں میں سے کچھ لوگوں کو گاڑی سنبھالنا یا چلانا آتی ہو، وہ آگے بڑھ کر ڈرائیور کو سیٹ سے اتار کر گاڑی کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس ملک میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں، اس کا سفر ڈھلوان کی سمت تیزی سے رواں دواں ہے۔
ڈرائیور کی مہارت پر انھیں بالکل بھروسہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ بس کھائی کی جانب اسی کی غلطیوں سے لڑھکی ہے لیکن کمال کی بات ہے کہ کسی کے منہ پر نہ کلمہ طیبہ کا ورد ہے‘ نہ گناہوں سے معافی اور استغفار سے بھری التجائیں ہیں‘ اگر چیخ و پکار بھی ہے تو وہ اول تو محدود ہے یا پھر اپنے اپنے دکھ کی بات کرتے ہیں جو گاڑی کو ڈھلوان پر پھسلنے سے روک سکتے ہیں‘ وہ یا تو مصلحت کی وجہ سے چپ ہیں یا پھر انھیں اس ملک سے زیادہ اپنی عزت و توقیر بچانے کی فکر لاحق ہے۔ ساری علامتیں‘ ساری نشانیاں نظر آ رہی ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ اس ملک کی اکثریت خود غرض ہو گئی ہے۔ جو زندگی گزار رہا ہے اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ آج کتنے لوگ جان کی بازی ہار گئے۔
جو گھر میں مزے سے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا ہے اس کو کوئی غم نہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو اغوا ہوئے یا لاپتہ کر دیے گئے۔ جسے رات کو کھانا میسر ہے اسے اس بات کی خبر تک نہیں کہ اس کے شہر‘ قصبے‘ گلی یا محلے میں کتنے لوگوں نے بھوکے پیٹ رات گزاری۔ سب اس بات سے بے خبر ہیں کہ جو دوسروں پر بیت رہی ہے وہ ان پر بھی گزرنے والی ہے۔ اس لیے کہ پوری کی پوری بس کا رخ ڈھلوان کی سمت ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا ادراک تک نہیں ہوتا اکثر یہ ہے کہ جب ادراک ہونے لگتا ہے تو لوگ کھڑکیاں دروازے توڑ کر چھلانگیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں ،کچھ دھکم پیل میں مارے جاتے ہیں اور جو کودنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کے سر باہر موجود نوکیلی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ حادثے کے بعد بس کا مالک کسی کرین کی مدد سے بس کو کھائی سے نکالتا ہے‘ اسے بہترین کاریگروں کے حوالے کرتا ہے جو ناکارہ ہو جاتا ہے اس حصے کی جگہ نئے حصے کو لگا کر بس کو از سر نو رواں دواں کر دیا جاتا ہے۔ نئے لوگ نیا ڈرائیور‘ نئی سواریاں۔
بندگان خدا کو علم تک نہیں کہ یہ زمین میرے اﷲ کی ہے اور وہ اسے جب تک چاہے گا قائم رکھے گا۔ اس زمین پر ہم سب مسافرہیں اور اسے آباد‘ سرسبزوشاداب اور رہنے کے قابل بنانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اتنا ہی ذمے دار ہے جتنا بس کا ڈرائیور۔ تیز رفتار کرتے ہوئے‘ غلط موڑ کاٹتے ہوئے‘ اشارے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم کیسے اچھل اچھل کر ڈرائیور کو لعن طعن کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہماری جان خطرے میں ہے لیکن اس ملک کو کوئی جیسے‘ جس طرح‘ جس خرابی کے ساتھ چلائے ہم دم سادھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بس کے مالک کو غصہ دلانے اور اس کے غیظ و غضب کو آواز دینے کے لیے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑھ چڑھ کر غلط ڈرائیونگ کی حمایت کرتے ہیں۔
کتنے ہیں جو بولنے والوں کو یہ کہہ کر چپ کراتے ہیں کہ خاموش بیٹھو،ڈرائیور کو پانچ سال کے لیے نوکری پر رکھا ہے اس سے پہلے اسے کوئی نہیں نکالے گا خواہ وہ بس کو تباہ و برباد کیوں نہ کر دے۔ ہم کس قدر بے حس ہیں۔ اگر ہماری ذاتی بس‘ کار‘ یا رکشا ہی کیوں نہ ہوتا‘ ہم نے کسی ڈرائیور کو ایک ماہ کے لیے ہی کیوں نہ رکھا ہوتا‘ ہم اسے پہلی ہی غلطی پر کان پکڑ کر نوکری سے نکال دیتے لیکن آفرین ہے اٹھارہ کروڑ عوام پر جنھیں اس بات کا احساس تک نہیں۔
جب ایسا عالم طاری ہو جاتا ہے تو پھر مالک کائنات‘ میرا رب اور اس دنیا کا تنہا فرمانروا ایک فیصلہ کرتا ہے۔ ان سب کو احساس دلاتا ہے کہ تم سب تباہی کی طرف جا رہے ہو۔ وہ سورہ السجدہ کی آیت نمبر21 میں فرماتا ہے ’’اور ہم انھیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا‘ بڑے عذاب سے قبل‘ شاید وہ رجوع کر لیں‘‘۔ اس کے آغاز کا اندازہ سید الانبیاء کی اس حدیث سے کیجیے۔ فرمایا ’’جس بستی میں کسی نے ایک رات بھوکے پیٹ گزاری‘ اﷲ اس بستی سے اپنی حفاظت کا ذمے اٹھا لیتا ہے۔ اﷲ نے قرآن پاک میں اپنے غیظ و غضب کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ ان تینوں میں سے رسول اکرم نے سب سے کم ترین یہ بتائی کہ تمہیں آپس میں لڑا کر‘ ایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر عذاب کا مزا چکھایا جائے۔
یہ عذاب ہم پر برسوں سے مسلط ہے لیکن ہم وہ بے حس قوم ہیں جو اﷲ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنوں کی لاشیں گنتے پھرتے ہیں‘ اتنے پٹھان‘ اتنے سندھی‘ اتنے اردو بولنے والے‘ اتنے پنجابی‘ اتنے بلوچ مارے گئے۔ جن کے دن رات اﷲ کا کلام پڑھنے پڑھانے پر صرف ہوتے ہیں، وہ بھی اسی گنتی میں لگے ہوئے ہیں‘ اتنے شیعہ اور اتنے سنی مارے گئے۔ دوسری علامت آسمانوں سے عذاب نازل کرنے کی ہے۔ سیلاب آئے ہم نے سوچا تک نہیں کہ کیوں آئے۔ تیسری علامت پائوں کے نیچے سے عذاب۔ جب زمین تھرتھراتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب لوگ ڈھلوان میں گرتی بس کی طرح کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر بھاگتے ہیں۔ جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ کیا ہمیں سنبھلنے کے لیے اس علامت کا انتظار ہے۔
جیت ہمارا مقدر ہے
اوریا مقبول جان بدھ 11 جولائ 2012
شدید گرمی، لوڈشیڈنگ جس کے باعث ہال کا ایئرکنڈیشنر کام کرنا چھوڑ چکا تھا، لیکن لوگ تھے کہ چار بجے سے پسینے میں شرابور ایک ایسے شخص کا انتظار کررہے تھے کہ جسے امریکی کانگریس کے ارکان اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک شخص قرار دیتے ہیں۔ لاہور کا ایوان اقبال کبھی اس قدر کھچا کھچ نہیں بھرا۔ گلگت سے لے کر رحیم یار خان، کوئٹہ سے کراچی اور لکی مروت سے ملتان تک نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ خود کرایہ خرچ کرکے درہم و دینار کی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ان کے ہونٹوں پر صرف ایک ہی فقرہ تھا۔ اگر سود کے خلاف اﷲ اور اس کے رسول کی جنگ ہے تو پھر ہم اس میں اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ ہیں۔ اس بلا کی گرمی اور ہال کے حبس میں ان کا اطمینان دیکھنے والا تھا۔
ایک ایسے شخص کا انتظار جو اس شہر میں پیدا ہوا جہاں سے پوری مسیحی دنیا نے مل کر مسلمانوں کو دربدر کیا۔ جو یورپ میں تہذیب کا گہوارہ تھا اور جہاں تہذیب و ترقی کی کرنوں نے پورے یورپ کو متاثر کیا۔ قرطبہ۔ حیرت اور حسن اتفاق کہ وہ اس ایوان اقبال میں علامہ اقبال کی تصویر کے سامنے کھڑا ہوکر لاہور میں مخاطب تھا جہاں وہ اقبال آسودہ خاک ہے جس نے مسجد قرطبہ میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے لیے چھپ کر خود کو مسجد میں قید کرلیا تھا۔ عمر ابراہیم وڈیلو جو ایک کٹر مسیحی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور جس نے پادری بننے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ قرطبہ شہر کا پہلا یورپی مسلمان بنا۔ جب وہ مسلمان ہوا تو وہاں ایک مسجد نہ تھی اور آج وہاں چار مساجد ہیں۔ جنگ کے بعد اﷲ کے ہراول دستے کا سپہ سالار جس نے پوری دنیا میں سود کی اصل بنیاد کاغذ کے نوٹوں کے مقابلے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے سکے سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کو بناکر دنیا میں عام کرنے کا آغاز کیا۔ ان کا وزن اور سائز وہی رکھا گیا جسے حضرت عمر نے ایک اسٹینڈرڈ کے طور پر امت مسلمہ میں جاری کیا تھا۔ اس ہمہ تن گوش اور جوشیلے ہجوم سے عمر وڈیلو مخاطب تھے۔
اﷲ کی حمد و ثنا کے بعد انھوں نے کہا ’’پوری مغربی دنیا پر یہ راز اب پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام مکمل طور پر زمین بوس ہوچکا ہے، بس اس کے اعلان کی دیر ہے۔ اس وقت امریکا اور یورپ میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو کاغذ کے نوٹوں، ڈالر، یورو اور پونڈ کو ایک فراڈ سمجھتی ہے۔کس قدر ظلم ہے کہ جتنی تعداد مغرب میں ان کاغذ کے نوٹوں کے خلاف ہے اس کا ایک فیصد بھی مسلم دنیا میں ایسا نہیں سمجھتے۔ مغربی دنیا جس نے کئی صدیوں تک دنیا کو غلام بنائے رکھا۔ جب جنگ عظیم دوم کے بعد وہ آپس میں لڑتے لڑتے لہولہان ہوکر تھک ہار گئی تو اس نے اپنے زیرنگیں ملکوں کو آزادی دینا شروع کی۔ لیکن ان پر تین شرطوں کی پابندی لازمی کردی گئی۔
سب سے پہلی یہ کہ یہ تمام ملک اپنا ایک آئین بنائیں گے۔ آج ان تمام ملکوں کے آئین تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک دوسرے کی نقل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان تمام آئینوں میں ایک بات ضروری ہونی چاہیے کہ وہاں ایک سنٹرل بینک ہو جو پانی کرنسی یعنی کاغذات کے نوٹ شایع کرے۔ آج بھی دنیا میں آزادی کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا اپنا ایک نوٹ ہے، اس کا ایک نام ہے اور اس پر ہمارے قائد کی تصویر ہے۔ تیسری اہم پابندی یہ تھی ہر ملک کا ایک قومی قرضہ (National Dest) ہوگا۔ یہ وہ قرض ہے جس کا شہریوں کو علم تک نہیں ہوتا اور وہ مقروض ہوتے ہیں۔ قرض کا اصول ہے کہ آدمی اپنی خواہش سے لیتا ہے لیکن یہاں کسی مرضی کے خلاف اس پر قرض مسلط ہوتا ہے اور دن بدن بڑھتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ اپنے کندھوں پر یہ قرض لے کر پیدا ہوتا ہے۔
اس دنیا میں صرف امریکا پر پندرہ سو کھرب ڈالر کا قرض ہے جو وہ اگلی چار صدیوں میں بھی نہیں اتار سکتا جب کہ دنیا کی کل تجارت کا حجم صرف چار کھرب ڈالر ہے۔ یہ سب قرضہ کاغذ کے نوٹوں سے پیدا کیا گیا۔ یہ وہ ردی کے ٹکڑے ہیں جنھیں آپ جیب میں رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ آپ اتنی دولت کے مالک ہیں لیکن آپ کی جیب میں رکھے ہوئے اس خزانے پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہوتا ہے۔ ساتھ والی عمارت میں دھڑا دھڑ کاغذ کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں آپ کا سو روپیہ جیب میں پڑے پڑے پچاس کا ہوجاتا ہے جب کہ اگر دینار آپ کی جیب میں ہو تو کوئی اسے نہ چراسکتا ہے اور نہ اس کی قیمت کم کرسکتا ہے۔ نہ نئے نوٹ چھاپ کر اسے ناکارہ بناسکتا ہے۔ مسلمانوں کے چودہ سو سالوں میں جب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت پر عمل ہوا نہ افراط زر ہوا اور نہ بیروزگاری۔ مرغی آپ کے زمانے میں ایک درہم کی تھی اور آج بھی ایک درہم کی ہے۔ اسلام میں مارکیٹ ایک آزاد اور محترم ادارہ ہے۔
اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی سپر اسٹور یا اسٹاک ایکسچینج نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی زبردستی یہ نہیں کہتا کہ اتنے کاغذ کے نوٹ دو تو یہ چیز دوں گا۔ آپ کوئی بھی نعم البدل اختیار کرسکتے ہیں۔ اسلام میں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ درہم و دینار بنائے لیکن وہ زبردستی لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتی کہ اس میں تجارت کرو یا اس میں لوگوں کا معاوضہ ادا کرو۔ یہ وہ آزادی ہے جس کی بنیاد پر تجارت پروان چڑھتی ہے اور بے روزگاری ختم ہوتی ہے۔
وہاں کوئی ایک سپر اسٹور یا شاپنگ مال دس ہزار دکانوں کا رزق ہضم نہیں کرسکتا۔ وہاں یہ نہیں ہوتا کہ افراط زر تخلیق کیا جائے اور پھر قابو پانے کے وعدے کیے جائیں، اس افراط زر کی بنیاد پر بے روزگاری ہو اور قابو پانے کے وعدے ہو اور قابو پانے کے وعدے ہوں۔ اسپین میرا ملک ہے، پاکستان سے کئی گنا امیر ہے لیکن وہاں بھی 20 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔ ایسا مسلمانوں کی خلافت کے تیرہ سو سالوں میں کبھی نہ ہوا۔ مسلم امہ مغرب کی مجبوری ہے اگر ہم ردی کے ٹکڑے ڈالر کے عوض اپنا تیل فروخت نہ کریں اور سونے کے دینار مانگیں تو ان کی ترقی دھڑام سے نیچے گرجائے۔ یہ کام حکومت کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ کوئی نہیں کرنے دے گا۔ میں ترکی کے وزیراعظم نجم الدین اربکان سے ملا، وہ راضی ہوگیا، اس کی حکومت ختم کرادی گئی۔ قذافی نے اس کام کو آگے بڑھایا اسے عبرتناک موت دی گئی۔
یہ آپ کرسکتے ہیں۔ ہم درہم و دینار بنائیں گے۔ آپ اپنی بچت اس میں شروع کریں۔ بینکوں کے سودی ٹھکانوں سے سرمایہ نکالیں۔ یہ درہم و دینار ہم ہر دکان کے کائونٹر پر رکھیں گے جیسے موبائل فون کارڈ بکتے ہیں۔ ایسا ہم نے ملائشیا کے صوبے کلینٹن میں کیا۔ آج وہاں روزانہ ایک کروڑ ڈالر کے دینار بک رہے ہیں۔ ہم دکانوں کو قائل کریں کہ جس طرح وہ دکان پر رکھ کر لگاتے ہیں کہ ہم کریڈٹ کارڈ پر سودا بیچتے ہیں (We Accept Cradit Cart) ویسے ہی وہ رکھیں ہم درہم و دینار میں سودا بیچتے ہیں۔ پلاسٹک کی دولت سے اصل سونے اور چاندی کی دولت پر آئیں۔ شہر لاہور اور پاکستان میری اس لیے بھی امید کی جگہ ہے کہ مجھے میرے مرشد اور بہت سے روحانی مسلمانوں نے اس طرح اشارہ کیا ہے۔ یاد رکھیں اﷲ نے زانی سے شرابی سے، جھوٹے سے چور اور ڈکیت سے جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ لیکن سود خور کے خلاف اﷲ اور اس کے رسول نے جنگ کا اعلان کیا ہے۔ جس جنگ کا اعلان اﷲ کرے اس کی جیت ہمارا مقدر ہے۔ کوئی اور نہیں جیت سکتا۔
مسئلہ فکر کا ہے فقہ کا نہیں
اوریا مقبول جان جمعـء 6 جولائ 2012
کبھی کسی نے سوچا ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال سے اُمت مُسلمہ جو آہستہ آہستہ زوال کی جانب سفر کرتے ہوئے ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں جاگری ہے، اس کی وجہ کیا ہے۔ ہم نے یوں لگتا ہے پہاڑ کی ڈھلوان پر پھسلنا شروع کیا اور پھر ہاتھ پائوں چھوڑ دیئے اور خود کو ڈھلوان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کہ جہاں چاہے لے جائے۔ یہ سوال بہت سے لوگ ایک دوسرے سے بھی کرتے ہیں اور علم کی جستجو میں غرق افراد اپنے آپ سے بھی کرتے ہیں۔ آخر ایسا بھی کیا زوال کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اس کا جواب تلاش کرتا ہے۔
بہت سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دنیا کی دیگر اقوام وقت کی ترقی کے ساتھ قدم ملانے لگیں، جو نئے علوم آئے تھے انھیں حاصل کیا، اپنی زندگیوں پر وہ تمام اصول لاگو کیے جو ان علوم نے بتائے تھے اور آج دیکھ لو ان کے شہر آباد، گھر پُر رونق اور زندگی پُر تعیش ہے۔ کچھ کہتے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارا مسئلہ، ہماری عبادات میں جھول، ہمارا اﷲ سے عدم تعلق، ہمارا دین کو اپنی زندگیوں سے دور کرنا، روزمرہ کے معمولات میں اسلامی اصولوں سے بیگانگی، یہ سب ہماری بیماری کی جڑ ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں اپنے دین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے تھا۔ ان کے نزدیک اجتہاد قرآن و سنت سے بھی بالاتر چیز ہے۔ کسی کے ہاں ترک دنیا اہم ہے تو کسی کے ہاں تبلیغ، کوئی تصوف کے اصولوں سے معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتا ہے تو کوئی بزور طاقت حکومت حاصل کر کے اﷲکے قوانین کا نفاذ چاہتا ہے۔
کسی کو ووٹ، اسمبلی اور منتخب ارکان کے ذریعے اﷲ کو منوانا اچھا لگتا ہے تو کوئی صاحبانِ وقت بزرگوں کی دعائوں کے اثر سے حالات بدلنا چاہتا ہے۔ یہ سب کے سب اس بیمار قوم کے ڈاکٹر، حکیم اور طبیب ہیں۔ ان سب کے نسخوں کی آوازوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اپنے تو اپنے غیروں نے بھی ہمارے زوال کے اسباب پر ہزاروں کتابیں لکھیں اور لاکھوں نسخے تجویز کیے۔ ہم نے ان کے نسخے آزمائے بھی لیکن پھر بھی ہماری ذلت دور نہ ہو سکی۔ ہم میں سے کتنے ایسے تھے جو مغرب میں لکھی جانے والی زوال کی ان کہانیوں اور اسباب پر آج بھی یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا حل اس معاشرے کے اصول و قواعد اپنانے اور ان کی طرح زندگی گزارنے میں چھپا ہوا ہے۔
ان سب لوگوں سے کوئی گلا نہیں اس لیے کہ انھوں نے جو علم حاصل کیا اور جس سانچے میں ان کی تربیت ہوئی، اس میں تبدیلی اور ترقی کا ایک ہی معیار ہے خوبصورت، عیش آرام سے پُر اور مادی سہولیات سے مزین زندگی چاہے اس کے بدلے میں ذاتی سکون، نفسیاتی ہم آہنگی، خاندانی زندگی اور اخلاقی حالت تباہ و برباد ہو جائے۔ لیکن کامیابی شہر کی رونقوں میں چھلکتی ہوئی نظر تو آتی ہے۔
معاملہ تو ان کا ہے جنہوں نے مدتوں چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن و سنت کا علم حاصل کیا۔ اپنی تمام زندگی اس کے لیے وقف کردی۔ یہ ان لوگوں کے وارث تھے کہ جب ان پر اردگرد کی تہذیبوں اور علوم نے حملہ کیا تو پہلے ان لوگوں نے حملہ آوروں کی تہذیب اور علم کا ادراک حاصل کیا اور پھر اس کا منہ توڑ جواب دیا۔ امام غزالی کی تہافتہ الفلاسفہ وہ کتاب ہے کہ جس نے یونانی فلسفہ میں الٰہیات کا ایک ایسا مضمون شامل کیا کہ آج کا مسلمان ان تمام فلسفیوں کی گتھیوں سے بچ نکلا، ورنہ انھیں میں الجھا رہتا۔ لیکن گزشتہ پانچ سو سال سے بقول اقبال ’’فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی‘‘ والا معاملہ ہمارے ساتھ ایسا پیش آیا کہ نہ ہمیں غیر کی سازشوں کا علم ہوتا ہے اور نہ تہذیبوں کے حملہ آور ہونے کا، ہم بس اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ سوالات پوچھتے ہیں، جواب چاہتے ہیں، چھوٹے چھوٹے ذاتی سوال، ان سوالوں کا جواب فقہ کو جنم دیتا ہے اور فقیہہ ان کے جواب دیتے ہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ ہم کمرے میں بیٹھے ہوں اور مچھر ہمیں لڑ جائے تو اس کا کیا کریں۔ لیکن مچھر جہاں سے پیدا ہو رہا ہے نہ ہمیں اس کا ادراک ہے اور نہ ہم اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے سوالات عجیب ہوتے ہیں۔
میںبینک میں کرنٹ اکائونٹ پر سود نہ لوں تو کیا ٹھیک ہے۔ جی پی فنڈ پر اگر حکومت زبردستی سود دے رہی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں بیوہ ہوں، میرا گزارا ہی بینک میں پیسے جمع کروا کر ہوتا ہے، مجبوری میں تو حرام کھانا بھی جائز ہے، میں کیا کروں، بینک کی ملازمت چھوڑ دوں یا نہیں۔ ایسے کتنے سوال ہیں جو لوگ مفتیان کرام سے پوچھتے ہیں اور مفتی اپنی بساط اور اپنے علم کے مطابق ان کا جواب دیتا ہے۔ اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی مرضی کا کوئی جواب کسی مفتی سے مل جائے۔ یہی معاملہ ہمارا نکاح، طلاق، عبادات اور دیگر ظاہری عوامل سے ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پوری کی پوری امت نے ان حالات پر سمجھوتہ سا کرلیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے تیسے ہوا اپنا دین بچالو اور اس میں بھی کوئی راستہ ایسے نکلنے کی امید رکھو کہ دنیا کے تمام ناجائز کاروبار بھی ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے جب میں اﷲ کی وعید اور ناراضی کا عالم دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ سود جیسے ایک چھوٹے سے معاملے کو اﷲ نے اپنے اور اپنے رسول کے خلاف جنگ کیوں قرار دیا ہے، یہ جواب مجھے فقہ کی موٹی موٹی کتابوں سے نہیں ملتا لیکن جب میں دنیا بھر میں پھیلے اس سودی نظام، اس کی خون چوسنے والی حقیقت، اس کے گرد گھومتا کارپوریٹ کلچر اور اس کارپوریٹ کلچر سے جنم لیتی ہوئی جمہوریت دیکھتا تو بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ میرے اﷲ نے صحیح فرمایا تھا کہ یہ ایک سودی بینکاری ایسی چیز ہے جس نے پوری دنیا کے چھ ارب انسانوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جس کو چاہو تباہ کر دو، جس معیشت کو چاہو اجاڑ دو، جس ملک کو چاہو دیوالیہ کر دو، جس پارٹی کو چاہے دولت کے انبار دے کر پارلیمنٹ اور حکومت میں لا کر بٹھا دو۔
افریقہ کو بھوک اور قحط کے تحفے دو۔ ایشیا کو جنگ اور موت اور لاطینی امریکا کو بے یقینی اور غربت و افلاس۔ اﷲ فرماتے ہیں، حدیث قدسی ہے کہ ’’پوری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اور جو نظام اﷲ کے کنبے کے لوگوں کو تباہ کر رہا ہو، اﷲ اس سے جنگ کا اعلان کیوں نہ کرے‘‘ یہ معاملہ فقہ کا نہیں فکر کا ہے۔ گھر میں رہ کر ایمان بچانے کا نہیں گھر سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا ہے۔
نوٹ: انشاء اﷲ اسلامی معاشی نظام اور درہم و دینار پر کانفرنس، کل 8 جولائی 2012ء ساڑھے چار بجے ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہوگی۔ درہم و دینار، تحریک کے بانی عمر ابراہیم وڈیلو انشاء اﷲ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے پاکستا ن میں ہوں گے۔ ہم دونوں آپ کا ایوان اقبال میں انتظار کریں گے۔