آزادی کی نیلم پری

آزادی کی نیلم پری

اس فقرے کی گونج موجودہ تاریخ میں بار بار سنائی دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ اقبال نے بغیر کسی تجربے یا چوٹ کھائے ہوئے اپنے وجدان اور قرآنی علم کی روشنی میں اس دور کی جمہوریت کے کریہہ چہرے سے نقاب الٹا۔ اس آزادی کی نیلم پری کو دیو استبداد کہا جب کہ دنیا نئی نئی اس کے سحر میں گرفتار ہوئی تھی۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال کی عظیم اور معرکۃ الٓاراء نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ابلیس اور اس کے مشیروں کی گفتگو میں اس نظام کے غلیظ چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ وہ مغربی جمہوریت ہے جسے انسانی حقوق آزادی اظہار اور عوام کی حکمرانی جیسے خوبصورت تصورات کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اقبال کی ایک اور نظم ابلیس کی عرضداشت میں ابلیس، اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ اب دنیا میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے میری ضرورت باقی نہیں رہی اس لیے کہ
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
گمراہی کا جو پرچم ازل سے ابلیس نے اٹھا رکھا تھا اقبال کے نزدیک اب اس کے پرچم بردار جمہوری نظام کے سیاست دان ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال اپنی طنزیہ شاعری میں بھی جمہوری نظام کا تمسخر اس طرح اڑاتا ہے۔ اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں v نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ممبری کونسل صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
لیکن جس شعر نے اس مغربی طرز جمہوری کی اساس پر کاری ضرب لگائی اور اقبال کی روحانی پارلیمنٹ کا تصور دیا وہ دنیا کی کسی بھی جمہوری پارلیمنٹ پر صادق آتا ہے۔
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آئی
اس کا ترجمہ یوں ہے کہ طرز جمہوری سے پناہ مانگ اور کسی پختہ کار یعنی صاحب علم و کمال و تجربہ کا غلام بن جا۔ اس لیے کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر برآمد نہیں ہو سکتی۔ یہ اس فرد کے خیالات ہیں جسے مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ جس کے خوابوں کی تعبیر یہ مملکت ہے جسے اس وعدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اس مالک کائنات کا فرمان نافذ ہو گا۔ ورنہ جمہوری طور پر تو ایک ہندوستان میں بھی زندہ رہا جا سکتا تھا۔ مسلم لیگ کی 50، 60 سیٹیں بھی ہوتیں پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی بھی چند نشستوں پر کھڑے ہو کر حق گوئی کا فریضہ ادا کرتی پیپلز پارٹی اور دیگر سیکولر جماعتیں بھی سیکولر کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنا کر برسراقتدار آجاتیں۔ جمہوریت بھی مستحکم ہوتی اور اس کے ادارے بھی۔ ایک تسلسل بھی قائم رہتا۔ یہ ملک اسی لیے جمہوریت کے عالمی اصولوں کے منافی بنایا گیا تھا کہ ہمیں جمہوریت وارا نہیں کھاتی تھی۔
ہمارے لیے یہ جمہوریت اکثریت کی آمریت Tyran ملتا ہے اور انہیں غلام بنا لیتا ہے۔ انہی سرمایہ داروں نے 30 ہزار ارب ڈالر امریکی ٹیکس حکام سے چوری کرنے کے لیے کیمن جزیرے میں رکھاہے، لیکن کانگریس میں ایک آواز نہیں اٹھتی۔ کیوں؟ جمہوری تسلسل کے لیے پارٹی فنڈ ضروری ہیں سرمائے سے چلنے والے میڈیا کی مدد چاہیے۔ یہ دونوں جو کوئی فراہم کرے گا، جمہوری ارباب سیاست پتلیوں کی طرح اس کے اشاروں پر ناچیں گے۔
50 کروڑ مسلمان اگر اس سیکولر بھارتی جمہوریت میں ہوتے تو دنیا ان کی پسماندگی اور افلاس کی مثالیں دیتی۔ سیلاب میں ڈوبے بنگالی ہندو مہاجن کے قرض میں جکڑے پنجابی اور سندھی پسماندہ بلوچ جن کی ریاست قلات میں چند میل پکی سڑک تھی اور کوئٹہ سے کراچی تک صرف دو جگہ پانی میسر تھا۔ انہیں اس اکثریت کی آمریت میں صرف ایک ہی بات یاد آتی۔ ہم پر اس لیے ظلم کیا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں جس طرح آج کے بھارت کے مسلمان نہ خود کو پنجابی کہتے نہ گجراتی اور نہ بنگالی اس لیے کہ سب پر جمہوریت کی اکثریت کا ان پر بحیثیت مسلمان ظلم یکساں ہے۔
اس فقرے کی گونج 1970ء کے الیکشن میں بدترین شکست کے بعد مولانا مودودی کے منہ سے سنائی دی تھی۔ میں اس عصر کی محفل میں موجود تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جمہوریت کے علاوہ اور بھی بہت راستے ہیں اور پھر انہوں نے راستے گنوانا شروع کر دیے۔ آج 44 سال بعد عوامی جرگے کے ناکام و نامراد لوٹنے کے بعد سراج الحق صاحب نے فرمایا۔ اس طرز جمہوریت کو ایک نیں تین طلاقیں۔ وجہ بتائی کہ سیاستدان کروڑوں لگا کر اربوں کماتے ہیں۔
رضائے الٰہی کا حصول ہو یا اسلامی شریعت کا نفاذ مغربی جمہوری نظام کا راستہ ہی اس سے مختلف ہے۔ کیا سید الانبیاء کی دعوت یہ تھی کہ اسلام قبول کر لو تمہیں تعلیم صحت روز گار اور بہتر زندگی کی سہولیات ملیں گی۔ سیکولر اور مذہبی جماعتوں کے منشور اٹھائیں اوپر کے ورق پھاڑیں سب کے اہداف ایک جیسے ہیں صرف دینی جماعتوں نے ان میں قرآن کی آیات تحریر کر رکھی ہیں۔ یہ سب اس سرمایہ دارانہ سودی نظام کے تحفظ کے راستے پر گامزن ہیں۔ جہاں یہ تصور کر لیا جائے کہ اللہ کی حاکمیت اسی وقت اس ملک پر قائم رہ سکے گی اگر اسے آئین کے چند صفحات تحفظ دیں تو اس سے بڑا شرک اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر اس شرک کے تسلسل کو پاکستان کے مستقبل سے وابستہ کیا جاتا ہے۔
یاد رکھو! اگر اللہ چاہے گا تو یہ ملک سلامت رہے گا خواہ آئین اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں کیوں نہ پھینک دیا جائے۔ اگر اللہ نے ہمارے اعمال کی سزا کے طور پر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا تو سارے کا سارا دستور اسلامی بنا دو اور اس کی ایک شق پر بھی عمل نہ کرو تو یہ پاکستان نہیں بچ سکے گا، لیکن اس پاکستان نے رہنا ہے۔
ایک فرعون کا اقتدار چار سو فرعون میں تقسیم کر کے اسے جمہوری تسلسل کا نام دینا چاہتے ہیں۔ سراج الحق صاحب تین طلاق دے دیں کہ جسے آپ آزادی کی نیلم پری سمجھ کر بچانا چاہتے ہیں وہ دیو استبداد ہے۔ اس اللہ سے امید استوار کریں جو نہ کسی تسلسل کا محتاج ہے اور نہ کسی نظام کا تابع۔ گھٹا چھانے والی ہے سیلاب کی آمد ہے جو بڑے بڑے پُر غرور سروں کو ڈوبتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے میں موسیٰ اور ہارون کے ربّ پر ایمان لایا۔