اللہ کے مبارک نام

اللہ کے مبارک نام

ماخوذ از مظاہر حق جدید

مرتب عبداللہ جاوید

یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں یعنی سماع اور اذن شارع پر موقوف ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو نام شرع سے منقول ہے وہی کہنا چاہئے اپنی طرف سے از راہ عقل کوئی نام نہ لینا چاہیے، چاہے وہ نام معنی کے اعتبار سے شرع کے نام منقول کے مطابق ہی کیوں نہ ہو مثلاً اللہ تعالیٰ کو عالم کہنا چاہئے عاقل نہ کہا جائے، جواد کہنا چاہئے سخی نہ کہا جائے اور شافی کہنا چاہئے طبیب نہ کہا جائے۔

 بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنی ذات میں پیدا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے چنانچہ آگے صفحات میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کی وضاحت کے موقع پر یا دوسری عبادتوں کی تشریح میں باری تعالیٰ کی صفات کے حصول کی جو تلقین کی گئی ہے اس پر پوری طرح عمل کرنا چاہئے تاکہ ان صفات کے حصول کے بعد اپنی ذات انوار الٰہیہ کا پر تو اور اپنی زندگی اسلامی اخلاق تعلیم کا پیکر بنے۔ اللہم وفقنا ویسر لنا حصولہا۔

 ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس جب کوئی شخص بیعت کے لئے آتا تو وہ پہلے اس کو حکم دیتے کہ وضو کر کے آؤ جب وہ وضو کر کے آتا تو وہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کے اسماء پوری عظمت و جلال کے ساتھ بآواز بلند پڑھتے پھر اس شخص میں جس اسم مبارک کی تاثیر دیکھتے وہی اسے تعلیم کرتے اس خیال سے کہ اسے کثود (حصول مقصد) جلد ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوتا تھا۔

اسماء باری تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے بشارت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو جس شخص نے ان ناموں کو یاد کیا وہ ابتدا ہی میں بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہو گا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح

 اس حدیث میں جو کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں تو اس سے حصر اور تحدید مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بس اتنے ہی نام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت نام ہیں چنانچہ آگے صفحات میں ننانوے اسماء مبارک کے بعد کچھ اور نام بھی ذکر کئے جائیں گے انشاء اللہ بلکہ یہاں ننانوے کا عدد ذکر کرنے سے مراد اور مقصود یہ ہے کہ حدیث میں اسماء باری تعالیٰ کی جو خاصیت بیان کی گئی ہے کہ جو شخص انہیں یاد کرے وہ جنت میں داخل ہو گا، وہ انہیں ننانوے ناموں کے ساتھ مخصوص ہے۔

 لفظ احصاھا کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں بخاری وغیرہ نے اس کے معنی وہی لکھے ہیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں۔ یعنی ان ناموں کو یاد کیا اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ چنانچہ بعض روایتوں میں احصاھا کی بجائے حفظہا ہی منقول ہے بعض علماء لکھتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں ان کو پڑھایا ایمان لایا۔ یا ان کے معانی جانے اور ان کے معانی پر عمل کیا۔

 ہو وتر یحب الوتر۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ طاق اعمال و اذکار کو پسند کرتا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اعمال میں اس عمل کو پسند کرتا ہے جس کی بنیاد اخلاص پر ہو جو محض اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اختیار کیا گیا ہو۔

اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور ان کی تفصیل و وضاحت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص ان ناموں کو یاد کرے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اسم ذات اللہ کے علاوہ ننانوے نام یہ ہیں۔

 (١) الرحمن(٢) الرحیم(٣) الملک(٤) القدوس(٥) السلام(٦) المومن(٧) المہیمن(٨) العزیز(٩) الجبار (١٠) المتکبر (١١) الخالق (١٢) الباری (١٣) المصور (١٤) الغفار (١٥) القہار (١٦) الوہاب (١٧) الرزاق(١٨) الفتاح (١٩) العلیم(٢٠) القابض (٢١) الباسط(٢٢) الخافض (٢٣) الرافع(٢٤) المعز(٢٥) المذل (٢٦) السمیع(٢٧) البصیر (٢٨) الحکم(٢٩) العدل (٣٠) اللطیف(٣١) الخبیر (٣٢) الحلیم(٣٣) العظیم(٣٤) الغفور (٣٥) الشکور (٣٦) العلی (٣٧) الکبیر (٣٨) الحفیظ(٣٩) المقیت (٤٠) الحسیب (٤١) الجلیل (٤٢) الکریم(٤٣) الرقیب (٤٤) المجیب (٤٥) الواسع(٤٦) الحکیم (٤٧) الودود (٤٨) المجید (٤٩) الباعث (٥٠) الشہید (٥١) الحق(٥٢) الوکیل(٥٣) القوی (٥٤) المتین(٥٥) الولی (٥٦) الحمید (٥٧) المحصی (٥٨) المبدی (٥٩) المعید (٦٠) المحی (٦١) الممیت (٦٢) الحی (٦٣) القیوم(٦٤) الواجد (٦٥) الماجد (٦٦) الواحد (٦٧) الاحد (٦٨) الصمد (٦٩) القادر (٧٠) المقتدر (٧١) المقدم(٧٢) المؤخر (٧٣) الاول (٧٤) الآخر (٧٥) الظاہر (٧٦) الباطن (٧٧) الوالی (٧٨) المتعال (٧٩) البر (٨٠) التواب (٨١) المنتقم(٨٢) العفو (٨٣) الرؤف(٨٤) مالک الملک(٨٥) ذوالجلال والاکرام(٨٦) المقسط(٨٧) الجامع(٨٨) الغنی (٨٩) المغنی (٩٠) المانع(٩١) الضار (٩٢) النافع (٩٣) النور (٩٤) الہادی (٩٥) البدیع (٩٦) الباقی (٩٧) الوارث (٩٨) الرشید (٩٩) الصبور۔ اس روایت کو ترمذی نے اور بیہقی نے دعوات کبیر میں نقل کیا۔ نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح

 آیت (ھو اللہ الذی لا الہ الا ہو)۔ یہ جملہ مستانفہ ہے یعنی یہ علیحدہ جملہ ہے اور ان ننانوے ناموں کا بیان ہے جو آگے ذکر کئے گئے ہیں۔

 اس کلمہ کے کئی مراتب ہیں اول یہ کہ جب منافق اس کلمہ کو پڑھتا ہے اور اس کی تصدیق سے خالی ہوتا ہے یعنی وہ قلبی تصدیق اور اعتقاد کے بغیر محض اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے لئے اس کلمہ کو زبان سے ادا کرتا ہے تو یہ کلمہ اس کی دنیا کے لئے تو نافع بن جاتا ہے بایں طور کہ اس کی وجہ سے اس کی جان، اس کا مال اور اس کے اہل و عیال مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن آخرت کے اعتبار سے یہ کلمہ اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔

 دوم یہ کہ اس کلمہ کو زبان سے پڑھنے کے ساتھ اعتقاد قلبی بھی ہو مگر تقلید محض کے طور پر اس درجہ صحیح ہونے میں مختلف اقوال ہیں۔ صحیح قول یہ ہے کہ یہ درجہ صحیح ہے۔ سوم یہ کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے ساتھ اعتقاد قلبی بھی ہو مگر ایسا اعتقاد قلبی جو اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر حاصل کیا گیا ہو۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ بھی درجہ معتبر ہے۔

 چہارم یہ کہ زبان سے اس کلمہ کی ادائیگی کے ساتھ اعتقاد جازم بھی ہو۔ جو از راہ دلیل قطعی حاصل ہوا ہو متفقہ طور پر یہ درجہ مقبول ہے پنجم یہ کہ اس کلمہ کو ادا کرنے والا اس طرح کا ہو کہ وہ دل کی آنکھوں سے اس کلمہ کے معنی جانتا ہو۔ یعنی اسے کامل طور پر عرفان حق حاصل ہو اور یہی رتبہ عالی ہے یہ تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ اس کلمہ کو زبان سے ادا کیا جائے دوسری شکل یہ ہے کہ اس کلمہ کو صرف دل میں کہے یعنی زبان سے ادائیگی نہ ہو اس صورت میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کسی عذر مثلاً گونگے پن وغیرہ کی بنا پر اس کلمہ کو زبان سے ادا کرنے سے قاصر ہے تو یہ کلمہ دنیا و آخرت دونوں کے لئے نافع ہے یعنی وہ دنیا و آخرت دونوں کے اعتبار سے نجات یافتہ ہو گا اور اگر کسی عذر کے بغیر بھی زبان سے ادا نہ کرے تو پھر آخرت میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ نووی نے اس بات پر اہل سنت کا اجماع نقل کیا ہے۔

 اللہ 

 باری تعالیٰ کا اسم ذات ہے اس کے معنی ہیں وہ ذات عبادت کے لائق ہے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ اسماء باری تعالیٰ میں یہ نام سب سے بڑا ہے نیز کہا گیا ہے کہ عوام کو چاہئے کہ وہ اس نام کو اپنی زبان پر جاری کریں اور خشیت و تعظیم کے طور پر اس نام کے ساتھ ذکر کریں خواص کو چاہئے کہ وہ اس نام کے معنی میں غور و فکر کریں اور یہ جانیں کہ اس نام کا اطلاق صرف اسی ذات پر ہو سکتا ہے جو صفات الوہیت کی جامع ہے اور خواص الخواص کو چاہئے کہ وہ اپنا دل اللہ میں مستغرق رکھیں اور اس ذات کے علاوہ اور کسی بھی طرف التفات نہ کریں اور صرف اسی سے ڈریں کیونکہ وہی حق اور ثابت ہے اس کے علاوہ ہر چیز فانی اور باطل ہے جیسا کہ بخاری میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ شاعروں کے کلام میں سب سے صحیح کلام شاعر لبید کا یہ مصرعہ ہے کہ۔ الا کل شئی ماخلا اللہ باطل۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم ذات (اللہ) کو ہزار بار پڑھے وہ صاحب یقین ہو اور جو شخص اس کو نماز کے بعد وافر پڑھے اس کا باطن کشادہ ہو اور وہ صاحب کشف ہو۔

 الرحمن، الرحیم

 بخشنے والا ۔ ان دونوں ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے (یعنی صفات باری تعالیٰ کو اپنانے کے سلسلہ میں ان اسماء کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف کامل توجہ ہو، اسی ذات پر توکل و بھروسہ کیا جائے اپنا باطن اس کے ذکر میں مشغول رکھا جائے غیر اللہ سے بے پرواہی برتی جائے بندگان خدا پر رحم کیا جائے چنانچہ مظلوم کی حمایت و مدد کی جائے اور ظالم کو بطریق نیک ظلم سے باز رکھا جائے اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غفلت برتنے والوں کو خبردار کیا جائے گنہگار کی طرف رحمت کی نظر کی جائے نہ کہ اسے نظر حقارت سے دیکھا جائے اپنی طاقت کے بقدر شرع امور کے استیصال میں کوشش صرف کی جائے اور اپنی وسعت و ہمت کے مطابق محتاجوں اور ضرورت مندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے کی سعی کی جائے۔

خاصیت

 جو شخص ہر نماز کے بعد سو بار الرحمن الرحیم کہے حق تعالیٰ اس کے دل سے غفلت، نسیان اور قساوت دور کرے گا اور تمام مخلوق اس پر مہربان و مشفق ہو گی۔

 الملک

حقیقی بادشاہ۔ یعنی وہ زمین و آسمان اور تمام عالم کا حقیقی بادشاہ ہے دونوں جہاں اسی کے تصرف اور قبضہ میں ہیں وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج

 لہٰذا جب بندہ نے اس کی یہ حیثیت و صفت جان لی تو اس پر لازم ہے کہ اس کی بارگاہ کا بندہ و غلام اور اسی کے در کا گدا بنے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ اسی کے آستانہ عزت و جاہ کی طلب کرے۔ نیز بندہ پر لازم ہے کہ اس کی بارگاہ قدرت و تصرف سے تعلق پیدا کرے اس کے علاوہ ہر ایک سے  کلیۃً بے نیازی اختیار کرے۔ نہ کسی سے اپنی ضرورت و حاجت بیان کرے اور نہ کسی سے ڈرے نہ امید رکھے اپنے دل، اپنے نفس اور اپنے قالب کی دنیا کا حاکم بنے اور اپنے اعضاء اور اپنے قوی کو قابو میں رکھ کر اس کی اطاعت و عبادت اور شریعت کی فرمانبرداری میں لگا دے تاکہ صحیح معنی میں اپنے وجود کی دنیا کا حاکم کہلائے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم کو القدوس کے ساتھ(یعنی ملک القدوس) پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے تو اگر وہ صاحب ملک اور سلطنت ہو گا تو اس کے ملک اور سلطنت کو اللہ تعالیٰ قائم و دائم رکھے گا اور جو صاحب سلطنت نہ ہو گا تو اس کی برکت سے اس کا اپنا نفس مطیع و فرمانبردار رہے گا اور جو شخص اسے عزت و جاہ کے لئے پڑھے تو اس کا مقصود حاصل ہو گا اور اس بارے میں یہ عمل مجرب ہے۔

 حضرت شاہ عبدالرحمن نے اس کی خاصیت یہ لکھی ہے کہ جو شخص اس اسم  الملک کو روزانہ نوے بار پڑھے تو نہ صرف یہ کہ روشن اور تونگر ہو گا بلکہ حکام و سلاطین اس کے لئے مسخر ہو جائیں گے اور عزت و احترام اور جاہ کی زیادتی کے حصول کے لیے مجرب ہے۔

 القدوس

نہایت پاک۔  قشیری رحمۃ اللہ نے کہا کہ جس شخص نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نہایت پاک ہے تو اب اس کو چاہئے کہ اس بات کی آرزو کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہر حالت میں عیوب اور آفات سے دور اور گناہوں کی نجاست سے پاک رکھے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو ہر روز زوال آفتاب کے وقت پڑھے اس کا دل صاف ہو اور جو شخص نماز جمعہ کے بعد اس اسم و اسم السبوح کے ساتھ (یعنی القدس السبوح) روٹی کے ٹکڑے پر لکھ کر کھائے تو فرشتہ صفت ہو اور بھگدڑ کے وقت دشمنوں سے حفاظت کے وقت اس اسم کو جتنا پڑھا جا سکے پڑھا جائے اور مسافر اس کو برابر پڑھتا رہے اور کبھی ماندہ اور عاجز نہ ہو اور اگر اس کو تین سو انیس بار شیرنی پر پڑھ کر دشمن کو کھلا دے تو وہ مہربان ہو۔

 السلام

 بے عیب و سلامت۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ بتایا ہے کہ مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ و سلامت رہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ شفقت کا معاملہ کرے جب وہ کسی ایسے مسلمان کو دیکھے جو اس سے عمر میں بڑا ہو تو یہ کہے کہ یہ مجھ سے بہتر ہے کیونکہ اس نے میری نسبت زیادہ عبادت و اطاعت کی ہے اور ایمان و معرفت میں مجھ پر سبقت رکھتا ہے اور اگر کسی ایسے مسلمان کو دیکھے جو عمر میں اس سے چھوٹا ہو تو بھی یہی کہے یہ مجھ سے بہتر ہے کیونکہ اس نے میری بنسبت گناہ کم کئے ہیں۔ نیز اگر کسی مسلمان بھائی سے کوئی قصور ہو جائے اور وہ معذرت کرے تو اس کی معذرت قبول کر کے اس کا قصور معاف کر دیا جائے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص اس اسم مبارک کو کسی بیمار پر ایک سو گیارہ مرتبہ پڑھے تو انشاء اللہ حق تعالیٰ اسے صحت وشفا عطا فرمائے گا اور اگر کوئی شخص اس کو برابر پڑھتا رہے تو خوف سے نڈر ہو گا۔

 المؤمن

 امن دینے والا۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ مخلوق خدا کو نہ صرف اپنے شر اور اپنی برائی سے بلکہ دوسروں کی برائی اور شر سے بھی امن میں رکھے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم کو بہت پڑھتا رہے یا اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے تو حق تعالیٰ اس کو شیطان کے شر سے نڈر رکھے گا اور کوئی شخص اس پر حاوی نہیں ہو گا نیز اس کا ظاہر اور اس کا باطن حق تعالیٰ کی امان میں رہے گا اور جو شخص اس کو بہت زیادہ پڑھتا رہے گا مخلوق خدا اس کی مطیع اور فرمانبردار ہو گی۔

 المہیمن

 ہر چیز کا اچھی طرح محافظ نگہبان۔  اس اسم سے عارف کا نصیب یہ ہے کہ بری عادتوں، برے عقیدوں اور بری چیزوں مثلاً حسد اور کینہ وغیرہما سے اپنے دل کی نگہبانی کرے اپنے احوال درست کرے اور اپنے قوی اور اپنے اعضا کو ان چیزوں میں مشغول ہونے سے محفوظ رکھے جو دل کو اللہ کی طرف سے غفلت میں ڈالنے والی ہوں۔

خاصیت

 جو شخص غسل کے بعد اس اسم کو ایک سو پندرہ مرتبہ پڑھے وہ غیب اور باطن کی باتوں پر مطلع ہو اور جو شخص اس کو برابر پڑھتا رہے وہ تمام آفات سے پناہ پائے اور جنتیوں کی جماعت میں شامل ہو۔

العزیز

 غالب و بے مثل کہ کوئی اس پر غالب نہیں۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اپنے نفس، اپنی خواہشات اور شیطان پر غالب رہے علم و عمل اور عرفات میں بے مثل بنے اور مخلوق خدا کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی ذات کو عزت بخشے اور غیراللہ کے آگے دست سوال دراز کر کے اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے۔

 ابوالعباس مریسی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! عزت تو میں نے مخلوق خدا سے بلند ہمتی اختیار کرنے (یعنی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے ہی میں دیکھی ہے)۔

 بعض علماء فرماتے ہیں کہ اللہ کو عزیز و غالب و بے مثل تو اسی نے جانا جس نے اس کے احکام اور اس کی شریعت کو عزیز یعنی (اپنے اوپر غالب ) کیا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں بے مثل بنا اور جس نے ان چیزوں میں سہل پسندی اور بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا اس نے خدا کی عزت نہیں پہچانی یعنی اسے عزیز نہیں مانا۔ اور ارشاد ربانی ہے۔ آیت (واللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون)۔ اور اللہ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے عزت ہے اور لیکن منافق اسے نہیں جانتے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم کو فجر کی نماز کے بعد اکتالیس بار پڑھے وہ دنیا اور آخرت میں کسی کا محتاج نہ ہو اور بعد خواری کے عزیز ہو اس کے علاوہ بھی اس اسم مبارک کی بڑی عجیب و غریب خاصیتیں مذکور ہیں۔

 الجبار

 بگڑے کاموں کو درست کرنے والا۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں، بندوں کو اس چیز کی طرف لانے والا جس کا ارادہ کرتا ہے۔

 اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ فضائل و  کمال حاصل کر کے اپنے نفس کی خرابیوں کو درست کرے اور تقویٰ و پرہیز گاری اور طاعت پر مداومت اختیار کر کے اپنے نفس پر غالب ہو اور اس طرح درجہ کامل کو پہنچے۔

 قشیری کہتے ہیں کہ بعض کتابوں میں یہ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے! کسی چیز کا تو بھی ارادہ کرتا ہے اور میں بھی ارادہ کرتا ہوں (یعنی اس چیز کے بارے میں تیری خواہش کچھ ہوتی ہے اور میری مشیت کچھ اور ) ہوتا وہی ہے جو میں ارادہ کرتا ہوں لہٰذا تو اگر اس پر راضی ہو جائے جس کا میں ارادہ کرتا ہوں (یعنی اس چیز کے بارے میں میری طرف جو فیصلہ صادر ہو جائے تو اپنی خواہش کے علی الرغم اس کو بلا چوں و چرا مان لے اور اس پر راضی ہو جائے ) تو تو جو ارادہ کرتا ہے میں اس پر تجھ سے کفایت کروں گا۔ (یعنی اس کا نعم البدل عطا کروں گا) اور تو اگر اس پر راضی نہ ہو ہوا۔ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تو پھر میں اس میں تجھ سے کفایت نہیں کروں گا جس کا تو ارادہ کرتا ہے (یعنی تجھے نعم البدل عطا نہیں کروں گا۔ اور پھر ہو گا وہی جو میں ارادہ کرتا ہوں اور تو محروم کا محروم رہ جائے گا)۔

خاصیت

 جو شخص مسبحات عشر کے بعد اس اسم کو اکیس بار پڑھے وہ ظالموں کے شر سے امن میں رہے گا جو شخص اس اسم کو پڑھنے پر ہمیشگی اختیار کرے گا وہ غیب اور مخلوق کی بد گوئی سے نڈر اور امان میں رہے گا اور اہل دولت و سلطنت میں سے ہو گا اور اگر کوئی شخص اس اسم کو انگوٹھی پر نقش کرا کے پہنے تو لوگوں کے دل میں اس کی ہیبت اور شوکت بیٹھ جائے گی۔

 المتکبر

 نہایت بزرگ۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اسے حق تعالیٰ کی یہ بزرگی معلوم ہوئی تو اب اسے چاہئے کہ وہ خواہشات نفسانی کی طرف میلان ور لذات شہوانی کی طرف رغبت سے تکبر یعنی پرہیز کرے کیونکہ ان چیزوں کی طرف رغبت کرے گا تو جانور کا شریک ہو گا۔ بلکہ ہر اس چیز سے تکبر کرنا چاہئے جو باطن کو حق سے باز رکھے اور حق تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے علاوہ ہر چیز کو حقیر جاننا اور تواضع و تذلل کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور اپنی ذات سے تکبر کے تمام دعووں کو زائل کرنا چاہئے تاکہ نفس صاف ہو اور اس میں خدا کی محبت جاگزیں ہو اور اس طرح نہ نفس کا اختیار باقی رہے اور نہ غیر اللہ کے ساتھ قرار۔

خاصیت

 جو شخص اپنی بیوی سے مباشرت کے وقت دخول سے پہلے اس مبارک اسم کو دس مرتبہ پڑھے تو انشاء اللہ حق تعالیٰ اسے پرہیزگار فرزند خلف عطا فرمائے گا اور جو شخص اپنے ہر کام کی ابتداء میں یہ اسم مبارک بہت پڑھے تو خدا نے چاہا وہ اپنی مراد کو پہنچے گا۔

 الخالق

مشیت و حکمت کے موافق پیدا ہونے والی چیز کا اندازہ کرنے والا۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم مبارک کو برابر پڑھتا رہتا ہے حق تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ پیدا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف سے قیامت کے دن تک عبادت کرتا رہے نیز حق تعالیٰ اس اسم مبارک کی برکت سے اس شخص کا دل اور منہ، روشن ونورانی کر دیتا ہے! حضرت شاہ عبدالرحمن نے لکھا ہے کہ جو شخص رات میں یہ اسم بہت زیادہ پڑھے گا اس کا دل اور منہ روشن و منور ہو گا اور وہ تمام کاموں پر حاوی رہے گا۔

 الباری

پیدا کرنے ولا۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم کو ہفتہ میں سو بار پڑھ لیا کرے حق تعالیٰ اس کو قبر میں نہیں چھوڑے گا بلکہ ریاض قدس میں لے جائے گا اور جو حکیم و معالج اس اسم کو مستقل طور پر پڑھتا رہے وہ جو بھی علاج کرے گا کامیاب رہے گا۔

 المصور

صورت بنانے والا۔  مذکورہ بالا ان تینوں ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ جب کوئی چیز دیکھے اور جب بھی کسی چیز کا تصور کرے تو خدا کی قدرتوں اور عجائبات میں غور و فکر کرے جو اس چیز میں موجود ہیں۔

خاصیت

 اگر کوئی عورت بانجھ ہو اور اولاد کی دولت سے محروم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سات دن روزے رکھے اور ہر روز افطار کے وقت اکیس بار المصور پڑھ کر پانی پر دم کرے اور اسے پی لے انشاء اللہ حق تعالیٰ اسے فرزند نیک عطا فرمائے گا جو شخص کسی دشوار اور مشکل کام کے وقت اس اسم کو بہت پڑھے وہ کام آسان ہو جائے گا۔

 الغفار

 بندوں کے گناہوں کو بخشنے والا اور ان کے عیوب کو ڈھانکنے والا ۔   اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ گناہوں کو خدا کے علاوہ اور کوئی نہیں بخشتا نیز اسے چاہئے کہ وہ لوگوں کے عیوب کو چھپائے کسی سے کوئی قصور و خطا ہو جائے تو اس سے درگزر کرے اور اپنے اوپر ہمہ اوقات خصوصاً سحر کے وقت استغفار کو لازم کرے جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد سو بار یہ کہتا ہے۔ یا غفار اغفر لی ذنوبی۔ اے بخشنے والے! میرے گناہ بخش دے۔ تو حق تعالیٰ اسے ان لوگوں میں سے قرار دیتا ہے جن کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے۔

 القہار

غالب کہ اس کی قدرت کے سامنے سب عاجز و مغلوب ہیں۔  اس اسم مبارک سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے دشمنوں پر غالب ہو کر انہیں اپنے سامنے عاجز اور اپنا مغلوب بنا دے اور وہ بڑے دشمن نفس اور شیطان ہیں۔

خاصیت

 جو کوئی اس اسم کو بہت پڑھتا ہے حق تعالیٰ اس کے دل سے دنیا کی محبت دور کر دیتا ہے اور اس کا خاتمہ بخیر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دل میں شوق و محبت پیدا کرتا ہے اور جو شخص اس اسم کو اپنی کسی بھی مہم کے لئے سو بار پڑھے تو اس کی مہم آسان ہو جائے گی اور جو کوئی اس کو پڑھنے میں ہمیشگی اختیار کرے گا اس کے دل سے دنیا کی محبت جاتی رہے گی اور اگر کوئی شخص سنت و فرض نمازوں کے درمیان اس اسم کو سو بار یہ نیت مقہوری پڑھے تو بڑے سے بڑا دشمن مقہور و مغلوب ہو۔

 الوہاب

بغیر بدلہ کے بہت دینے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال بغیر کسی غرض اور بلا کسی عوض کے لالچ کے خرچ کرے۔

خاصیت

 جو کوئی فقر و فاقہ کی تکلیف و مصیبت جھیل رہا ہو تو اسے چاہئے کہ اس اسم پاک کو پڑھنے پر ہمیشگی اختیار کرے حق تعالیٰ اسے اس مصیبت سے اس طرح نجات دے گا کہ وہ حیران رہ جائے گا اور جو شخص اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے وہ اس کا ایسا ہی اثر پائے گا اور جو شخص نماز چاشت کے بعد سجدہ کی کوئی آیت پڑھے۔ اور پھر سجدہ میں سر رکھ کر سات بار یہ اسم پاک پڑھے تو مخلوق سے بے نیاز و بے پرواہ ہو جائے گا اور اگر کسی کو اپنی کوئی حاجت پوری کرانی ہو تو وہ آدھی رات کو اپنے مکان یا مسجد کے صحن میں تین بار سجدہ کرے اور پھر ہاتھ اٹھا کر اسم کو سو بار پڑھے انشاء اللہ اس کی حاجت ضرور پوری ہو گی۔

 مولانا شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ فراخی رزق کے لئے چاشت کے وقت چار رکعت نماز پڑھی جائے نماز سے فراغت کے بعد سجدہ میں جا کر ایک سو چار مرتبہ یا وہاب پڑھا جائے اور اگر اتنا وقت نہ ہو تو پچاس مرتبہ پڑھ لیا جائے انشاء اللہ رزق میں وسعت و فراخی ہو گی۔

 الرزاق

رزق پیدا کرنے والا اور مخلوقات کو رزق پہنچانے والا۔ رزق اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس سے فائدہ اٹھایا جائے پھر اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں ظاہری اور باطنی باطنی وہ ہے جس سے نفس کو اور دل کو فائدہ پہنچے جیسے علوم معارف وغیرہ اور ظاہری وہ ہے جس سے بدن کو فائدہ پہنچے مثلاً کھانے پینے کی چیزیں اور اسباب یعنی کپڑا وغیرہ۔

 اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اس بات پر کامل یقین و اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی بھی ذات رزق دینے کے قابل نہیں ہے لہٰذا وہ رزق کی توقع صرف اللہ تعالیٰ سے ہی رکھے اور اپنے تمام امور اسی کی طرف سونپے نیز اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے لوگوں کو جسمانی اور روحانی رزق پہنچاتا رہے یعنی جو محتاج و ضرورت مند ہوں ان پر اپنا مال خرچ کرے۔ جو کہ کم علم اور گمراہ ہوں انہیں تعلیم دے اور ان کی ہدایت کرے اور ہر مسلمان کے لئے دعائے خیر کرتا رہے وغیرہ وغیرہ کسی عارف سے پوچھا گیا کہ آپ کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہوتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب سے مجھے اپنے خالق کا عرفان حاصل ہوا میں نے کبھی بھی اپنے رزق کا فکر نہیں کیا اسی طرح ایک عارف سے پوچھا گیا کہ قوت غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا حی الذی لایموت (وہ پاک ذات یعنی اللہ ایسا زندہ ہے جس کے لئے موت نہیں ہے ) کا ذکر

خاصیت

 جو شخص صبح صادق کے طلوع کے بعد اور نماز فجر سے پہلے اپنے گھر کے چاروں کونوں میں اس اسم پاک کو دس دس مرتبہ پڑھے اس طرح کہ داہنی طرف سے پڑھنا شروع کرے اور منہ قبلہ کی طرف سے نہ پھیرے تو اس گھر میں رنج ومفلسی کا گزر نہیں ہو گا۔

 الفتاح

حکم کرنے والا۔ اور بعضوں نے کہا ہے رزق رحمت کے دروازے کھولنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان صلح و صفائی اور انصاف کے لئے فیصلہ کرنے کی سعی و کوشش کرتا رہے اور مظلوموں کی مدد کرے نیز لوگوں کی دنیاوی اخروی حاجتوں کو پورا کرنے کا ارادہ رکھے۔

 قشیری نے فرمایا کہ جس شخص نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ رزق و رحمت کے دروازے کھولنے والا۔ اسباب میسر کرنے والا اور تمام چیزوں کو درست کرنے والا ہے تو اب وہ اللہ کے علاوہ کسی اور میں اپنا دل نہیں لگائے گا۔

خاصیت

 جو شخص نماز فجر کے بعد اپنے سینہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر ستر بار اس اسم کو پڑھے تو اس کے دل کا میل جاتا رہے گا اور اسے قلب و باطن کی بہت زیاد صفائی حاصل ہو گی۔

العلیم

 ظاہر و باطن کا جاننے والا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس شخص نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ میرا حال خوب جانتا ہے تو اب اس کے لئے ضروری ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے کسی مصیبت و بلا میں مبتلا کرے تو وہ اس پر صبر کرے اور جو کچھ عطا کرے اس کا شکر ادا کرے اور اس سے اپنی خطاؤں کی بخشش و معافی کا خواستگار ہو۔

 بعض کتابوں میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ (بندوں سے) فرماتا ہے اگر تم یہ نہیں جانتے کہ ہر حالت میں تم پر میری نظر رہتی ہے اور میں تمہیں دیکھتا ہوں تو پھر تمہارے ایمان میں کمی ہے اور اگر تم یہ جانتے ہو کہ میں تمہیں ہر وقت دیکھتا رہتا ہوں تو پھر کیوں تم مجھے دیکھنے والوں میں سب سے حقیر سمجھتے ہو؟ یعنی (دوسروں سے تو تم ڈرتے ہو اور شرم کرتے ہو کہ کہیں وہ تمہیں برائی اور تمہارے کسی جرم کو دیکھ نہ لیں لیکن کسی بھی برائی اور جرم کے وقت مجھ سے نہ ڈرتے ہو اور نہ شرم کرتے ہو جب کہ تمہاری ایک ایک حرکت میری نظر رہتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ (نعوذ باللہ) میرے مقابلہ پر تم دنیا والوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہو۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم کو بہت زیادہ پڑھتا ہے حق تعالیٰ اسے اپنی معرفت بہت زیادہ عطا کرتا ہے اور جو شخص نماز کے بعد یا عالم الغیب سو مرتبہ کہے حق تعالیٰ اسے صاحب کشف بنائے گا اور اگر کوئی چاہے کہ اسے کسی پوشیدہ چیز کا علم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں یہ سو مرتبہ کہہ کر سوئے انشاء اللہ اس پر اس چیز کی حقیقت آشکارا ہو جائے گی۔

 القابض

بندوں کی روزی یا دل تنگ کرنے والا اور اس کی روح قبض کرنے والا۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص اس نام پاک کو چالیس دنوں تک روزانہ (روٹی وغیرہ) چار نوالوں پر لکھ کر کھایا کرے تو انشاء اللہ وہ بھوک اور قبر کے عذاب سے امن میں رہے گا۔

 الباسط

بندوں کی روزی میں وسعت اور فراخی پیدا کرنے والا یا ان کا دل کشادہ کرنے والا۔  ان دونوں ناموں (یعنی القابض اور الباسط) سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ نہ تو کسی بلاء  و مصیبت کے وقت ناامید ہو اور نہ اس کی بخشش عطاء کے وقت بے فکری اختیار کرے اور تنگی کو اس کے عدل کا نتیجہ جانے اور اس پر صبر کرے اور فراخی و وسعت کو اس کے فضل کا ثمرہ سمجھے اور اس پر شکر گزار ہو۔ ! قشیری کہتے ہیں کہ یہ دونوں کیفیت یعنی دل کا تنگ اور کشادہ ہونا۔ عارفوں کے دل پر طاری ہوتی ہے کہ جب خوف خدا غالب ہوتا ہے تو ان کے دل تنگ ہوتے ہیں اور جب رحمت کی امید غالب ہوتی ہے تو ان کے دل کشادہ ہوتے ہیں! چنانچہ حضرت جنید بغدادی کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا خوف میرے دل کو تنگ کر دیتا ہے امید میرے دل کو کشادہ کر دیتی ہے حق مجھے جمع کرتا ہے (یعنی حق تعالیٰ کی یاد سے مجھے خاطر جمعی حاصل ہوتی ہے) اور مخلوق مجھے منتشر کرتی ہے (یعنی مخلوق کی صحبت سے میں پراگندہ خاطر اور متوحش ہوتا ہوں) اور بندہ کی شان کا تقاضہ یہ ہے کہ تنگی اور پریشانی کی حالت میں بے قراری سے پرہیز کرے اور وسعت فراخی کے وقت بے جا خوشی اور بے ادبی سے اجتناب کرے کہ ان چیزوں سے بڑے بڑے لوگ ڈرتے رہے ہیں۔

خاصیت

 جو شخص سحر کے وقت ہاتھ اٹھا کر اس اسم پاک کو دس بار پڑھے اور پھر اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیرے تو اسے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں ہو گی کہ وہ کسی سے اپنی کوئی حاجت پوری کرنے کی درخواست کرے۔

 الخافض

کافروں کو ذلیل و خوار کر کے یا ان کو اپنی درگاہ سے دور رکھ کر پشت کرنے والا۔

خاصیت

 جو شخص تین روزے رکھے اور چوتھے روز ایک نشست میں اس اسم پاک کو ستر ہزار بار پڑھے وہ دشمنوں پر فتح پائے گا۔

 نصیب یہ ہے کہ وہ اپنی کسی بھی حالت پر اعتماد نہ کرے اور نہ اپنے علوم اعمال میں سے کسی چیز پر بھروسہ کرے اور اس چیز کو پست و مغلوب کرے جس کو اللہ نے پست کرنے کا حکم دیا ہے مثلاً نفس و خواہش، اس چیز کو بلند کرے جس کو اللہ نے بلند کرنے کا حکم دیا ہے جیسے دل اور روح۔

 منقول ہے کہ ایک شخص کو لوگوں نے ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تم اس مرتبہ پر کیونکر پہنچے؟ اس نے کہا کہ میں نے اپنی ہوا یعنی اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے فضا کی ہوا کو میرے لئے مسخر کر دیا۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو آدھی رات کے وقت یا دوپہر میں سو مرتبہ پڑھے حق تعالیٰ اسے مخلوق میں برگزیدہ اور تونگر اور بے نیاز بنائے گا۔

 المعز

عزت دینے والا۔

خاصیت

 جو  شخص اس اسم پاک کو دو شنبہ کی شب میں یا جمعہ کی شب میں ایک سو چالیس مرتبہ پڑھے گا مخلوق کی نظر میں اس کی ہیبت و شوکت پیدا ہو گی اور وہ حق تعالیٰ کے علاوہ کسی کے خوف میں مبتلا نہیں ہو گا۔

 المذل

ذلت دینے والا۔  ان دونوں ناموں (المعز اور المذل) سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو عزیز رکھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم و معرفت کی وجہ سے عزیز رکھا ہے اور ان لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کفر ضلالت کے سبب سے ذلیل و خوار قرار دیا ہے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص کسی ظالم و حاسد سے ڈرتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اس اسم پاک کو پچھتر بار پڑھے اس کے بعد سجدہ کرے اور بارگاہ حق میں یوں عرض کرے۔ اے اللہ! فلاں ظالم و حاسد کے شر سے مجھے امن دے۔ حق تعالیٰ اسے امان دے گا۔

 السمیع

سننے والا۔  البصیر دیکھنے والا۔ إ ان ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ خلاف شرع چیزوں کے کہنے سننے اور دیکھنے سے پرہیز کرے اور اللہ کو اپنے اقوال و افعال پر حاضر ناظر جانے۔

 امام غزالی فرماتے ہیں کہ جس نے غیر اللہ سے اس چیز کو چھپایا جس کو وہ اللہ سے نہیں چھپاتا اس نے گویا اللہ کی نظر کو حقیر جانا لہذا جس شخص نے یہ جانتے ہوئے کوئی گناہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا ہے تو اس نے بڑی جرات کی اور کیا ہی بڑی جرات کی؟ اور جس نے اس گمان کے ساتھ کوئی گناہ کیا کہ اسے اللہ نہیں دیکھتا ہے تو پھر اس نے بڑا کفر کیا اور کیا ہی بڑا کفر کیا؟ اس لئے بطور تعلیق بالمحال کہا جاتا ہے کہ اگر تم اپنے خدا کا کوئی جرم کرو تو ایسی جگہ کرو جہان وہ تمہیں نہ دیکھے مطلب یہ ہے کہ ایسی کون سی جگہ ہے کہ خدا کی نظر سے پوشیدہ ہو، اور جب ایسی کوئی جگہ بھی ممکن نہیں جہاں خدا گناہ کرتے نہ دیکھے تو پھر گناہ نہ کرو۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک السمیع کو پنج شنبہ کے دن نماز چاشت کے بعد پانچ سو بار ایک قول کے مطابق ہر روز نماز چاشت کے بعد ایک سو بار پڑھے اور پڑھنے کے درمیان کوئی کلام نہ کرے تو اس کے بعد جو دعا مانگے قبول ہو گی۔ اور اگر کوئی شخص فجر کی سنت و فرض نماز کے درمیان اسم پاک البصیر کو کامل اور صحیح اعتقاد کے ساتھ ایک سو ایک بار پڑھا کرے تو انشاء اللہ وہ حق تعالیٰ کی نظر عنایت کے ساتھ مختص ہو گا۔

 الحکم

 حکم کرنے والا کہ اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اس نے یہ جان لیا کہ حق تعالیٰ ایسا حاکم ہے کہ اس کے حکم اور اس کے فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا تو اب اسے چاہئے کہ وہ اس کا ہر حکم مانے اور اس کی مشیت و قضا کا تابعدار ہو، لہٰذا جو بندہ اس کی مشیت اور اس کی قضا و قدر پر قصداً راضی نہ ہو گا تو حق تعالیٰ اس پر اپنی مشیت اور اپنا فیصلہ زبردستی جاری کرے گا جو شخص برضا و رغبت اور دل کے ساتھ بخوشی اسے مان لے گا۔ حق تعالیٰ اسے اپنی رحمت اور اپنے کرم سے نوازے گا وہ خوشی اور اطمینان کی زندگی گزارے گا اور وہ غیراللہ کے سامنے اپنی فریاد لے کر جانے کا محتاج نہیں ہو گا۔

خاصیت جو شخص اس اسم مبارک کو شب جمعہ میں اور ایک قول کے مطابق آدھی رات کے وقت اتنا پڑھے کہ بے ہوش ہو جائے تو حق تعالیٰ اس کے باطن کو معدن اسرار بنا دے گا۔

 العدل

انصاف کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ اللہ انصاف کرنے والا ہے بندہ کو چاہئے کہ اس کے احکام اور اس کے فیصلوں سے اپنے اندر گھبراہٹ اور تنگی پیدا نہ کرے بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس نے میرے بارے میں جو فیصلہ فرمایا ہے وہ عین انصاف ہے لہٰذا اس پر توکل اور اعتماد کے ذریعہ راحت و اطمینان پیدا کرنے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ اسے دے اس کو اس جگہ خرچ کرنے سے دریغ نہ کرے جہاں خرچ کرنا از راہ شرع و عقل مناسب ہے اور اس کے عدل سے ڈرے اس کے فضل و کرم کا امیدوار رہے اور تمام امور میں افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرے۔

خاصیت

 یہ جو شخص اس اسم پاک کو شب جمعہ میں روٹی کے بیس لقموں پر لکھ کر کھائے حق تعالیٰ تمام مخلوق کو اس کے لئے مسخر کر دے گا۔

 اللطیف

اپنے بندوں پر نرمی کرنے والا اور باریک بیں کہ اس کے لئے دور و نزدیک یکساں ہیں۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ امور دین و دنیا میں غور و فکر کرے اور نرمی کے ساتھ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلائے۔

خاصیت

 جس شخص کو اسباب معیشت مہیا نہ ہوں اور فقر و فاقہ میں مبتلا رہتا ہو، یا غربت میں کوئی غمخوار نہ ہو یا بیمار ہو اور کوئی اس کی تیمار داری نہ کرتا ہو یا اس کے لڑکی ہو کہ اس کا رشتہ وغیرہ نہ آتا ہو تو اسے چاہئے کہ پہلے اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اس اسم پاک کو اپنے مقصد کی نیت کے ساتھ سو بار پڑھے انشاء اللہ حق تعالیٰ اس کی مشکل کو آسان کرے گا اسی طرح لڑکیوں کا نصیب کھلنے کے لئے، امراض سے صحت یابی کے لئے اور مہمات کی تکمیل کے لیے کسی خالی جگہ میں اس اسم کی دعا کی شرائط کے ساتھ سولہ ہزار تین سو اکتالیس مرتبہ پڑھا جائے انشاء اللہ مراد حاصل ہو گی۔

الخبیر

دل کی باتوں اور تمام چیزوں کی خبر رکھنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اس نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ میرے بھیدوں پر مطلع ہے اور میرے دل کی باتیں تک جانتا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ بھی اس کو یاد رکھے اور اس کی یاد کے آگے اس کے ماسوا کو بھول جائے۔ ضلالت کے راستوں سے پرہیز کرے۔ اپنی ذات پر ریاکاری کے ترک اور تقویٰ کے اختیار کو لازم کرے باطن کی اصلاح میں مشغول رہے اس سے غفلت نہ برتے اور دین و دنیا کی بہترین کھلی باتوں کی خبر رکھنے والا ہو۔

خاصیت

 جو شخص نفس امارہ کے ہاتھوں گرفتار ہو وہ اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھتا رہے خدا نے چاہ تو اس سے نجات پائے گا۔

 الحلیم

 بردبار کہ مومن کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ان کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ توبہ کر کے فلاح پائیں۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ بد طینت لوگوں کی ایذاء پر تحمل کرے، زبردستوں کو سزا دینے پر تامل کرے اور غیض و غضب اور غصہ سے دور رہے اور حلم کے اس مرتبہ کمال کو پہنچنے کی کوشش کرے کہ اگر کوئی شخص اس کے ساتھ برائی کرے گا تو وہ اس کے ساتھ نیکی کرے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو کاغذ پر لکھ کر دھوئے اور اس کا پانی کھیتی و درخت میں ڈالے نقصان سے محفوظ رہے گا، ان میں برکت ہو گی۔ اور ان سے پورا پورا ثمرہ حاصل ہو گا۔

العظیم

ذات پاک میں فہم و شعور کی رسائی سے بھی زیادہ بزرگ و برتر۔ یعنی اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے اس کی بزرگی و بڑائی اور عظمت اتنی زیادہ ہے کہ انسان کی عقل اور اس کی فہم و شعور اس کی عظمت و بڑائی کا ادراک بھی نہیں کر سکتا۔

 اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ عظمت الٰہی کے آگے کونین کو بھی حقیر جانے، دنیا کے لئے کسی کے آگے اپنا سر نہ جھکائے۔ اپنے نفس کو حقیر جانے اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو کرنے کا حکم کیا ہے ان کو اختیار کر کے اور جن چیزوں سے بچنے کا حکم کیا ہے ان سے اجتناب کرے اور جو چیزیں خدا کو محبوب ہیں ان میں مشغول رہ کر اپنے نفس کو ذلیل کرے۔ تاکہ خدا کی رضا و خوشنودی حاصل ہو۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو پڑھنے پر مداومت و ہمیشگی اختیار کرے وہ مخلوق خدا کی نظروں میں عزیز و مکرم ہو گا۔

 الغفور

 بہت بخشنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ رات و دن کے اکثر اوقات میں خصوصاً سحر کے وقت استغفار کو اپنے اوپر لازم کرے اور اس شخص کو بخشش و معافی دے جو اسے تکلیف و  ایذاء پہنچائے۔

خاصیت

 جس شخص کو کوئی بیماری ہو مثلاً بخار اور درد سر وغیرہ یا کوئی رنج و غم اس پر غالب ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس اسم پاک کو کاغذ پر لکھے اور اس کے نقش کو روٹی پر جذب کر کے اسے کھا لے حق تعالیٰ اسے شفا و نجات عطا فرمائے گا اور اگر کوئی شخص اس کو بہت پڑھتا رہے اس کے دل کی ظلمت جاتی رہے گی۔

 ایک حدیث میں منقول ہے کہ جو شخص سجدہ کرے اور سجدہ میں یا رب اغفر لی اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے۔ تین مرتبہ کہے حق تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ جس شخص کو درد سر کا عارضہ لاحق ہو یا کسی اور بیماری اور غم میں مبتلا ہو تو اسے چاہئے کہ یا غفور کے مقطعات تین مرتبہ لکھ کر کھا لے انشاء اللہ شفا پائے گا۔

 الشکور

قدر دان، اور تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب دینے والا۔ منقول ہے کہ کسی شخص کو جو مر چکا تھا خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ حق تعالیٰ نے کیسا معاملہ ؟ اس شخص نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حساب کیا تو میری نیکیوں کا پلڑا اٹھ گیا۔ اور گناہوں کا پلڑا غالب ہو گیا کہ اچانک نیکیوں کے پلڑے میں ایک تھیلی آ کر پڑی جس سے وہ پلڑا جھک گیا۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ایک مٹھی بھر مٹی ہے جو تو نے اپنے ایک مسلمان بھائی کی قبر میں ڈالی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کا فضل و کرم کتنے معمولی عمل پر بھی بندہ کو بے انتہا ثواب و رحمت سے نوازتا ہے اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے بایں طور کہ تمام نعمتوں کو اسی کی عطا جان کر اپنے ہر عضو کو اسی کام میں مشغول رکھے جس کے لئے حق تعالیٰ نے اسے پیدا کیا لے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور ان کا شکر ادا کرتا رہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ حدیث ( لایشکراللہ من لایشکرالناس )۔ وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا۔

خاصیت

 جس شخص کی معیشت تنگ ہو یا اس کی آنکھ کی روشنی اور قلب کے نور میں کمی پیدا ہو گئی ہو تو وہ اس اسم پاک کو اکتالیس بار پانی پر پڑھ کر پیئے اور آنکھوں پر ملے انشاء اللہ تونگری حاصل ہو گی اور شفا پائے گا۔

 العلی

 بلند مرتبہ۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ خدا کی ظاہری اور باطنی طاعات اور عبادات کے ذریعہ اپنے نفس کو ذلیل کرے اور اپنی تمام تر توانائی علم و عمل کے حصول میں صرف کرے یہاں تک کہ وہ انتہائی کمالات اور مراتب عالی کو پہنچے۔ حدیث شریف میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ اعلی امور کو پسند کرتا (کیونکہ اس کی وجہ سے بندہ اعلیٰ مراتب اور بلند درجات کو پہنچتا ہے ) اور ادنیٰ امور کو ناپسند کرتا ہے اسی لئے حضرت علی کرام اللہ وجہ کا یہ مقولہ ہے کہ علو ہمتی ایمان ہی سے پیدا ہوتی ہے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک پر مداومت کرے یا اس کو لکھ پر اپنے پاس رکھے تو اگر وہ کمتر اور بے قدر ہو تو بزرگ وبلند مرتبہ ہو جائے گا فقر و افلاس میں مبتلا ہو تو تونگری حاصل ہو گی اگر سفر کی صعوبتوں میں مبتلا ہو تو وطن مالوف لوٹنا نصیب ہو گا۔

 الکبیر

بڑا اور ایسا بڑا کہ اس کی بڑائی میں کوئی اس کا ہمسفر نہیں۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اس کی بڑائی کو ہمیشہ یاد رکھے یہاں تک کہ اس کے ماسوا کی بڑائی کو بالکل فراموش کر دے علم و عمل کے حصول کے ذریعہ اپنے نفس کو کامل بنانے کی کوشش کرے تاکہ اس کے کمال اور اس کے فیض سے دوسرے مستفید ہوں۔ تواضع و انکساری اختیار کرنے میں مبالغہ کرے اور خدمت مولیٰ کو اپنے اوپر لازم قرار دے کر بے اعتنائی او بے ادبی سے احتراز کرے۔

خاصیت

 اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھنے والا بزرگ مرتبہ اور عالی قدر ہوتا ہے اور اگر حکام و فرمانروا اس اسم پاک پر مداومت کریں تو لوگوں پر ان کو خوف و دبدبہ غالب ہو اور ان کے تمام امور بحسن خوبی انجان پائیں۔

 الحفیظ

 عالم کو آفات و نقصانات سے محفوظ رکھنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو گناہوں سے اور باطن کو ملاحظہ اغیار سے محفوظ رکھے اور اپنے تمام امور میں خدا کے فیصلوں اور اس کی مشیت پر اکتفا کرے اور اس کی قضا و قدر پر راضی ہو۔ ایک بزرگ کا یہ قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کے اعضاء محفوظ رکھے اس کا دل محفوظ رکھا اور جس کا دل محفوظ رکھا اس کے بھیدوں کو محفوظ کیا۔

 منقول ہے کہ ایک دن اتفاق سے ایک بزرگ و صالح کی نظر کسی ممنوع چیز پر پڑ گئی فوراً وہ بارگاہ الٰہی میں عرض رساں ہوئے الہ العالمین! مجھے اپنی بینائی کی بقاء کی صرف اسی لئے تمنا تھی تاکہ تیری عبادت میں کام آئے اب جب کہ تیرے حکم کی مخالفت کا سبب بن گئی ہے تو پروردگار! اسے مجھ سے چھین لے۔ چنانچہ ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ اندھے ہو گئے وہ رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ بینائی جانے کے بعد رات میں انہیں پریشانی ہوئی یہاں تک کہ وہ طہارت اور وضو کے لئے پانی لینے سے بھی محتاج ہو گئے اب جب پانی ان کے ہاتھ نہ لگا اور نماز و عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو پھر خدا کے حضور عرض کیا پروردگار! میں نے خود ہی کہا تھا کہ میری بینائی مجھ سے چھین لے لیکن اب رات میں تیری عبادت کے لئے مجھے اس کی ضرورت ہے اس کے بعد خدا نے ان کی بینائی واپس کر دی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔

 خاصیت

 اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو لکھ کر اپنے دائیں بازو پر باندھ لے تو وہ ڈوبنے، جلنے، آسیب اور نظر بد وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔

 المقیت

بدن و روح کے لئے قوت (غذا) پیدا کرنے والا اور انہیں قوت دینے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اس نے یہ جان لیا کہ وہی قوت پیدا کرنے والا ہے اور قوت دینے والا ہے تو اب اسے چاہئے کہ وہ اس کے ذکر (یعنی یاد الٰہی ) کے سامنے اپنے قوت کا ذکر (یعنی اپنی غذا کا فکر) بھول جائے کیونکہ حقیقی قوت تو اسی کا ذکر اور اسی کی یاد ہے جیسا کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ان سے جب قوت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ حی الذی لایموت (ایسا زندہ جو نہیں مرتا) کا ذکر ہے۔ نیز بندہ کو چاہئے کہ وہ قوت اور قوت اپنے مولیٰ کے علاوہ اور کسی سے نہ مانگے ارشاد ربانی ہے۔ آیت (وان من شئی الا عندناخزائنہ وماننزلہ الا بقدر معلوم)۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے ہمارے پاس جس کے خزانے نہ ہوں اور ہم اسے اپنے اندازہ مقرر کے مطابق ہی اتارتے ہیں۔ نیز بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر متعلق کو قوت دے جس کا وہ مستحق ہے تاکہ دوسروں کو نفع پہنچانا گمراہوں کی ہدایت کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اس کا طرہ بن جائے۔

 قشیری فرماتے ہیں کہ قوت مختلف نوع کے ہوتے ہیں ایک تو یہی ظاہری غذا اور خوراک کہ جس پر انسان کی زندگی کا مدار سمجھا جاتا ہے لیکن بعض بندے تو ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عبادات کی توفیق کو ان کے نفس کا قوت، مکاشفات کے صدور کو انکے دل کا قوت اور مداومت مشاہدات کو ان کی روح کا قوت بنا دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نیک بندہ کو اپنی طاعت و عبادات میں مشغول کرتا ہے اور طرح کہ وہ اپنی خواہشات نفس سے بالکل قطع نظر کر کے پورے حضور اور صدق و اخلاص کے ساتھ صرف اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کسی ایسے شخص کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کی خبر گیری اور خدمت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ اس کی ضروریات زندگی خود بخود پوری ہوتی رہتی ہیں لیکن جب کوئی بندہ اپنی خواہشات نفس کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کی تکمیل کو اسی کے بل بوتہ پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کے اوپر سے اپنی عنایت و مدد کا سایہ اٹھا لیتا ہے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص کسی کو غربت زدہ دیکھے یا خود غربت میں مبتلا ہو، یا کوئی بچہ اپنی بدخوئی سے باز نہ آتا ہو یا بہت روتا ہو تو کسی خالی پیالہ وغیرہ پر سات بار اس اسم پاک کو پڑھ کر دم کرے اور پھر اس پیالہ میں پانی ڈال کر پی لے یا جس کو ضرورت ہو اسے پلا دے۔ اسی طرح اگر کسی روزہ دار کو ہلاکت کا خوف ہو تو وہ اس اسم پاک کو کسی پھول پر پڑھ کر سونگھے انشاء اللہ اسے قوت و تقویت حاصل ہو گی اور روزے رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔

 الحسیب

ہر حال میں کفایت کرنے والا یا قیامت کے دن حساب لینے والا۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ محتاجوں کو کفایت کرنے والا یعنی ان کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ہو اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے۔

 قشیری نے اس موقع پر جو بات کہی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندوں کو اللہ کا کفایت کرنا یہ ہے کہ وہ اس کے ہر حال میں اور ہر کام میں مددگار ہوتا ہے اور اس کا ہر کام پورا ہوتا ہے لہٰذا جب بندہ نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے کافی اور میری ہر مراد اور میرے ہر کام کو پورا کرنے والا ہے تو اب اس کو چاہئے کہ وہ کسی بھی دنیاوی سہارے پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اگر اسے اپنے مقصد کے حصول میں کسی بھی دنیاوی سہارے سے بوقت ضرورت فائدہ نہ پہنچے جب کہ اسے اس سہارے پر اعتماد بھی رہا ہو تو اس سے بد دل اور پریشان خاطر نہ ہو بلکہ یہ یقین رکھے کہ خدا نے میرے مقدر میں جو طے فرما دیا ہے بہر صورت وہی ہو گا اگر قسمت میں حصول مقصد لکھا جا چکا ہے تو وہ ضرور حاصل ہو گا چاہے وہ دنیاوی سہارا کتنا ہی مایوس کن کیوں نہ ہو اور اگر قسمت میں مقصد کا حصول نہیں لکھا ہے تو وہ حاصل نہیں ہو گا چاہے وہ دنیاوی سہارا کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے اور پھر یہ کہ جو شخص خدا کی طرف سے پیش آنے والی چیز پر جو کہ اگرچہ اس کا مطلب نہیں ہے اکتفا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس چیز پر راضی و مطمئن کر دے گا جو اس نے اس شخص کے لئے طے فرما دی ہو گی چنانچہ اس کا اثر یہ ہو گا کہ ایسا بندہ اپنے اسی وصف (یعنی راضی برضا ہو جانے کی) بناء پر اپنے مطلوب کے عدم حصول کو اس کے حصول کے مقابلہ میں فقر کو غنا کے مقابلہ میں برضا و رغبت اختیار و قبول کرے گا اور بسبب مشاہدہ و تصرف مولیٰ حصول مقصد کے اسباب و ذرائع مہیا نہ ہونے ہی پر مطمئن ہو جائے گا۔

خاصیت

 جو شخص کسی چور یا حاسد یا ہمسایہ بد اور دشمن کے شر سے ڈرتا ہو یا چشم زخم سے پریشان ہو تو وہ ایک ہفتہ تک ہر صبح و شام ستر بار حسبی اللہ الحسیب (کفایت کرنے والا اللہ میرے لئے کافی ہے) پڑھ لیا کرے اللہ تعالیٰ اسے ان چیزوں کے شر اور پریشانی سے محفوظ رکھے گا۔

الجلیل

بزرگ قدر۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ صفات کمال کے ذریعہ اپنے نفس کو آراستہ کر کے بزرگ مرتبہ بنے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو مشک و زعفران سے لکھ کر اپنے پاس رکھے یا کھائے تو تمام لوگ اس کی تعظیم و توقیر کرنے لگیں گے۔

الکریم

بڑا سخی اور بہت دینے والا کہ اس کا دینا نہ کبھی بند ہوتا ہے نہ اس کے خزانے خالی ہوتے ہیں۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ مخلوق خدا کو بغیر وعدہ کے مال و زر دیتا رہے اور ان کی ہر طرح کی مدد کرتا رہے نیز برے اخلاق اور برے فعل سے پرہیز کرے۔

خاصیت

 جو شخص اپنے بستر پر پہنچ کر اس اسم پاک کو اتنا پڑھے کہ پڑھتے پڑھتے سو جائے تو اس کے لئے فرشتے دعا کریں اور کہیں اکرمک اللہ اللہ تجھے بزرگ مرتبہ کرے اور تو مکرم و معزز ہو۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ اس اسم کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے اسی وجہ سے انہیں کرم اللہ وجہ کہا جانے لگا۔

 الرقیب

ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بندوں کے احوال افعال جاننے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت اور ہر حال میں اللہ ہی پر نظر رکھے اس کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کرے کہ ماسوا اللہ کی طرف التفات ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جن کی نگہبانی اور دیکھ بھال پر مقرر فرمایا ہے ان کی نگہبانی اور دیکھ بھال میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔

 حدیث شریف میں آیا ہے کہ تم سب راعی یعنی نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے بارے میں محاسبہ کیا جائے گا یعنی جن کی نگہبانی اور خبر گیری پر تمہیں متعین کیا گیا ہے ان کی نگہبانی اور خبر گیری کا حال تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنا فرض کہاں تک ادا کیا؟

 قشیری کہتے ہیں کہ اس طائفہ یعنی اولیاء اللہ کی جماعت کے نزدیک مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ پر دل کے ساتھ۔ ۔ ۔ اللہ کی یاد غالب ہو اور یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ میرے حال پر مطلع ہے لہٰذا وہ ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرے اور ہر دم اس کے عذاب سے ڈرے چنانچہ صاحب مراقبہ اللہ تعالیٰ کی حیا اور اس کی ہیبت کی وجہ سے خلاف شرع باتیں اس شخص سے زیادہ چھوڑتا ہے جو عذاب خداوندی کے ڈر سے گناہ چھوڑتا ہے اور جو شخص اپنے دل کی رعایت کرتا ہے یعنی ضمیر کے صحیح تقاضے پر ہی عمل کرتا ہے تو اس کا کئی لمحہ خدا کی یاد اور اس کی اطاعت سے خالی نہیں رہتا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل کا حساب لے گا خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل ہو یا بڑے سے بڑا۔

 چنانچہ ایک ولی کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے انتقال کے بعد انہیں کسی نے خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور مجھ پر اپنا احسان فرمایا لیکن پورا حساب لیا یہاں تک مجھ سے اس عمل کا بھی مواخذہ کیا کہ ایک دن میں روزے سے تھا جب افطار کا وقت ہوا تو میں نے اپنے ایک دوست کی دکان سے گیہوں کا ایک دانہ اٹھا لیا اور پھر سے توڑا، معاً مجھے خیال آیا کہ گیہوں کا یہ دانہ میری ملکیت میں نہیں ہے یہ خیال آتے ہی میں نے اس دانے کو اس جگہ ڈال دیا چنانچہ اب جب کہ میرا حساب لیا گیا تو اس گیہوں کے توڑنے کی بقدر نیکی میری نیکیوں سے لی گئی۔

 غور کرنے کی بات ہے کہ جس شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسے ایک دن خدا کی بارگاہ میں اتنی چھوٹی سے چھوٹی سے باتوں کا بھی حساب دینا ہے تو کیا وہ گوارا کرے گا کہ اپنی عمر عزیز باطل چیزوں میں ضائع کرے۔ اور اپنے وقت کوتاہیوں اور غفلتوں کی نذر کر دے؟ حدیث شریف میں منقول ہے کہ تم اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے۔

خاصیت

 جو شخص اپنی بیوی، اپنی اولاد، اور اپنے مال پر اس اسم پاک کو سات مرتبہ پڑھ کر ان کے چاروں طرف دم کرے وہ تمام دشمنوں اور تمام آفات سے بے خوف ہو جائے گا۔

المجیب

عاجزوں کی دعا قبول کرنے والا اور پکارنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اوامر و نواہی میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے اور حاجتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو بہت پڑھے اور پھر دعا کرے تو اس کی دعا جلد قبول ہو گی اور اگر اسے لکھ کر اپنے پاس رکھے تو حق تعالیٰ کی امان میں رہے گا۔

 الواسع

 وسیع علم والا اور اپنی نعمتوں سے سب کو نوازنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اپنے علم میں اپنی سخاوت میں اور معارف واخلاق میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرے سب ہی سے چہرہ کی بشاشت اور کشادگی کے ساتھ پیش آئے اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں فکرمند نہ رہا کرے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو بہت پڑھے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرے حق تعالیٰ اسے قناعت اور برکت کی دولت سے نوازے گا۔

 الحکیم

 دانا اور استوار کار۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ کتاب اللہ میں مذکور صفات حمیدہ کو اپنائے اور کمال تعلق اس سے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے تمام امور میں استوار پیدا کرے نیز اسے چاہئے کہ وہ سفاہت یعنی بے وقوفی سے پرہیز کرے اور کوئی کام بغیر باعث حقانی اور بغیر داعیہ ربانی نہ کرے تاکہ اس کی ذات اسم حکیم کا پر تو ثابت ہو۔

 حضرت ذوالنون مصری کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا جب میں نے سنا کہ مغرب کے علاقہ میں ایک شخص اپنے علم و حکمت کی بناء پر بہت مشہور و معروف ہیں تو میں ان کی زیارت کے لئے ان کے پاس پہنچا میں چالیس دن تک ان کے دروازے پر پڑا رہا اور میں یہ دیکھتا تھا کہ وہ نماز کے وقت مسجد میں آتے اور حیران و پریشان پھرنے لگتے اور میری طرف قطعاً کوئی توجہ و التفات نہ فرماتے اس صورت حال سے میں تنگ آ گیا تو ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ جناب ! چالیس دن سے میں یہاں پڑا ہوں لیکن نہ تو آپ میری طرف التفات کرتے ہیں اور نہ مجھ سے کلام کرتے ہیں؟ آپ مجھے کوئی نصیحت کیجئے اور کچھ با حکمت باتیں بتائیے کہ اسے میں یاد رکھو۔ انہوں نے کہا کہ تم اس پر عمل کرو گے یا نہیں؟ میں نے کہا ہاں اگر خدا نے توفیق دی تو ضرور عمل کروں گا۔ پھر انہوں نے حکمت و موعظت سے بھرپور یہ بات مجھ سے کہی کہ دنیا کو دوست نہ رکھو، فقر کو غنیمت جانو، بلا کو نعمت سمجھو، منع یعنی نہ ملنے کو عطا جانو، غیراللہ کے ساتھ نہ انس اختیار کرو اور نہ ان کی صحبت میں اپنے کو مشغول رکھو، خواری کو عزت سمجھو، موت کو حقیقی حیات جانو، طاعت و عبادت کو اپنی عزت کا ذریعہ سمجھو اور توکل کو اپنی معاش قرار دو۔

از سینہ محوکن ہمہ نام ونشان غیر

الا کسے کہ می دہد از وے نشان ترا

خاصیت

 اگر کسی شخص کو اپنے کسی کام میں پریشانی ہو اور وہ پورا نہ ہو رہا ہو تو اسے چاہئے کہ اس اسم پاک پر مداومت اور ہمیشگی اختیار کرے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا کام پورا ہو جائے گا۔

 الودود

فرمانبردار بندوں کو دوست رکھنے والا یا اولیاء اللہ کے قلوب میں محبوب۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ مخلوق خدا کے لئے وہی چیز پسند کرے گا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ان پر اپنی بساط بھر احسان کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔

 بندوں کو اللہ تعالیٰ کا دوست رکھنا یہ ہے کہ کہ وہ بندوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔ ان کی تعریف کرتا ہے ان کو خیر و بھلائی پہنچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بندوں کا دوست رکھنا یہ ہے کہ وہ اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور اپنے قلوب میں اس کی ہیبت و بڑائی رکھتے ہیں۔ حدیث میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے دوستوں میں بڑا دوست وہ ہے جو غیر عطا کے لئے میری عبادت کرتا ہے یعنی وہ عطا و بخشش کی امید سے نہیں بلکہ صرف میری رضا اور خوشنودی کی خاطر ہی عبادت کرتا ہے۔

خاصیت

 اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا ہو جائے اور تعلقات انتہائی کشیدہ ہو جائیں تو اس اسم پاک کو کسی کھانے کی چیز پر ایک ہزار ایک مرتبہ پڑھ کر دونوں میں سے اس کو کھلا دیا جائے جس کی طرف سے ناچاقی پیدا ہوتی ہو انشاء اللہ ان دونوں کے درمیان اتفاق و الفت کی فضا بحال ہو جائے گی۔

 المجید

بزرگ و شریف ذات۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اسم مبارک العظیم کے بارے میں ذکر کیا جا چکا ہے۔

خاصیت

 جس شخص کو آبلہ پا، یا باد فرنگ (آتشک) یا برص اور یا جذام کا مرض لاحق ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ایام بیض میں روزے رکھے اور افطار کے وقت اس اسم پاک کو بہت پڑھے اور دم کر کے پی لے خدا نے چاہا تو یقیناً شفا پائے گا اور جس شخص کو اپنے ہم عصروں اور ہم جنسوں میں عزت و احترام کی نظر سے نہ دیکھا جاتا ہو تو وہ ہر صبح اس اسم پاک کو ننانوے مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے اسے عزت و احترام حاصل ہو گا۔

الباعث

مردوں کی قبروں سے اٹھانے والا اور زندہ کرنے والا ، غافلوں کا دل خواب غفلت سے بیدار کرنے والا۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ جاہل نفسوں کو تعلیم دے کر اور نصیحت کرے انہیں دنیا سے بے رغبتی کا احساس دلا کر اور آخرت کی نعمتوں کا راغب بنا کر جہالت و غفلت کے خواب سے انہیں بیدار کرے اور ان کے مردہ قلوب کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ اپنے نفس سے اس کی ابتدا کرے اس کے بعد دوسروں کی طرف متوجہ ہو۔

خاصیت

 اگر کوئی یہ چاہے کہ اس کے قلب کو حقیقی زندگی ملے تو سوتے وقت اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اس اسم پاک کو ایک سو ایک بار پڑھے۔ حق تعالیٰ اس کے دل کی مردنی کو دور کرے گا اور اسے حیات بخش کر انوار کا مسکن بنائے گا۔

 الشہید

حاضر اور ظاہر و باطن پر مطلع۔ قشیری کہتے ہیں کہ اہل معرفت اللہ سے اس کی ذات کے علاوہ اور کسی مونس کی خواہش نہیں کرتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ صرف اسی ذات پر خوش اور مطمئن رہتے ہیں کیونکہ صرف خدا ہی ان کے تمام احوال پر نظر رکھتا ہے اور وہی ان کے تمام امور و افعال کو جانتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ آیت (اولم یکف بربک انہ علی کل شئی شہید)۔ کیا تمہارا پروردگار تمہارے لئے اس بات میں کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر مطلع ہے۔

 اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اس بات کا دھیان رکھے کہ اس کا پروردگار اس کو کسی ایسی جگہ نہ دیکھے جو اس کے لئے پروردگار کی طرف سے ممنوع ہے یعنی برائی کی جگہ اور اس کو کسی بھی ایسی جگہ سے غیر موجود نہ دیکھے جہاں اس کو موجود رہنے کا اس نے حکم دیا ہے (یعنی بھلائی کی جگہ) اور اس یقین کی بناء پر کہ اللہ تعالیٰ میرے حال کو مجھ سے اچھی طرح جانتا ہے اور وہ میری حالت کو بخوبی دیکھتا ہے، غیراللہ کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرنے اور غیراللہ کی طرف بنظر امید رغبت و میلان رکھنے سے باز رہے نیز بندہ پر اس اسم کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ صرف سچائی کا گواہ بنے اور سچائی ہی کی رعایت کرے۔

خاصیت

 اگر کسی شخص کا لڑکا نافرمان ہو یا اس کی لڑکی غیر صالح ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ہر روز صبح کے وقت اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے اور اس کا منہ آسمان کی طرف اٹھوا کر یا شہید اکیس بار پڑھے حق تعالیٰ اسے فرمانبردار اور صالح بنائے گا۔

 الحق

شہنشاہی کے ساتھ قائم اور خدائی کے لائق۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اس نے جان لیا کہ اسی کی ذات حق ہے تو اب وہ اس کے مقابلہ میں مخلوق کی یاد اور مخلوق کی طلب بھول جائے۔ نیز اس اسم کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام اقوال و افعال اور احوال میں حق بات اور حق چیز ہی کو اپنے اوپر لازم کرے۔

خاصیت

 اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو گئی تو ایک کاغذ کے چوروں کونوں پر اس اسم پاک کو لکھے اور کاغذ کے بیچ میں اس چیز کا نام لکھے اور پھر آدھی رات کے وقت اس کاغذ کو ہتھیلی پر رکھ کر اور آسمان کی طرف نظر کر کے حق تعالیٰ سے اس اسم پاک کی برکت اور اس کے وسیلہ کے ذریعہ اس چیز کے حصول کی دعا کرے۔ انشاء اللہ یا وہ چیز جوں کی توں مل جائے گی یا اس کا کچھ حصہ حاصل ہو جائے گا اور اگر کوئی قیدی آدھی رات کے وقت ننگے سر ہو کر اس اسم پاک کو ایک سو آٹھ مرتبہ پڑھے تو حق تعالیٰ اسے رہائی نصیب کرے گا۔

 الوکیل

کارساز۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (وکفی باللہ وکیلا) (یعنی کارساز ہونے میں اللہ کفایت کرتا ہے) اور آیت (وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین) اگر تم مومن ہو تو اپنا ہر کام اللہ ہی کی طرف سونپو آیت (ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ) (جو شخص اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے) اور آیت (وتوکل علی الحی الذی لایموت) (یعنی ایسے زندہ پر بھروسہ اور اعتماد کرو جو غالب اور مہربان ہے۔

 اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ضعیف اور لاچار لوگوں کا مدد گار و معاون بنے اور ان کے کام کاج کرتا رہے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اس طور پر سعی و کوشش کرے کہ گویا وہ ان کا وکیل ہے۔

خاصیت

 اگر بجلی گرنے کا خوف ہو یا پانی اور آگ سے کسی نقصان کا خطرہ ہو تو اس اسم پاک کا ورد کیا جائے تو انشاء اللہ امان ملے گی اور اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو کسی خوف و خطر کی جگہ بہت پڑے تو وہ بے خوف و بے خطر ہو گا۔

 القوی

المتین قوت والا اور تمام امور میں استوار۔  ان سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ خواہشات نفسانی پر غالب اور قوی ہو دین کے معاملہ میں سخت و چست رہے اور شرعی احکام کو نفاذ کرنے اور پھیلانے میں کسی سستی اور کمزوری کو راہ نہ دے۔

خاصیت

 اگر کسی کا دشمن قوی ہو اور وہ اس کے دفاع میں عاجز اور لاچار ہو تو وہ تھوڑا سا آٹا گوندھے اور اس کی ایک ہزار ایک سو گولیاں بنا لے۔ پھر ایک ایک گولی اٹھاتا جائے اور یا قوی پڑھتا جائے اور اس گولی کو بہ نیت دفاع دشمن مرغ کے آگے ڈالتا رہے حق تعالیٰ اس کے دشمن کو مغلوب و مقہور کر دے گا اور اگر اس اسم پاک کو جمعہ کی شب میں بہت زیادہ پڑھا جائے تو نسیان کا مرض جاتا رہے گا اگر کسی بچہ کا دودھ چھٹایا گیا ہو اور وہ بچہ اس کی وجہ سے صبر و قرار نہ پاتا ہو تو اس اسم پاک کو لکھ کر اس بچہ کو پلا دے اسے صبر و قرار آ جائے گا، اسی طرح اگر کسی دودھ والی کے دودھ میں کمی ہو تو اس اسم پاک کو لکھ کر اس کو پلا دیا جائے اس کے دودھ میں فراوانی آ جائے گی اور اگر کوئی شخص ملک و حکومت کے کسی منصب یا کام پانے کی خواہش رکھتا ہو تو وہ اس کو اتوار کے روز اول ساعت میں اپنے مقصد کی نیت سے اس اسم المتین کو تین سو ساٹھ بار پڑھے۔ انشاء اللہ اس کو وہ منصب حاصل ہو گا۔

الولی

مددگار اور مومنوں کو دوست رکھنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ میل ملاپ اور دوستی رکھے اور دین کی تائید و حمایت میں کوشش کرے اور مخلوق خدا کی حاجتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

 قشیری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی علامات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس بندہ کو دوست رکھتا ہے اسے ہمیشہ خیر و برکت بھلائی کی توفیق دیتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بندہ اگر بتقاضائے بشریت کسی برائی کا ارادہ بھی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ارتکاب سے اسے بچاتا ہے اور اگر وہ ناگہاں اس برائی میں مبتلا ہو بھی جاتا ہے تو اسے اس میں مبتلا نہیں رہنے دیتا بلکہ جلد ہی توبہ و انابت کے ساتھ اس برائی سے نکال لیتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے کہا گیا ہے کہ۔ اذا احب اللہ عبدا لم یضرہ ذنب۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو دوست رکھتا ہے تو اس کو گناہ نقصان نہیں پہنچاتا۔

 اور اگر طاعت و عبادت میں کوتاہی و قصور کی طرف اس کا میلان ہوتا ہے تو حق تعالیٰ اسے طاعت و عبادت میں مشغول ہونے ہی کی توفیق عطا فرماتا ہے اور یہی بات بندہ کی سعادت کی علامت قرار پاتی ہے جب کہ اس کا عکس بندہ کی شقاوت و سیاہ بختی کی علامت ہے نیز اللہ تعالیٰ کی دوستی کی ایک اور علامت اور اس کا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے اولیا کے قلوب میں ایسے بندہ کی محبت جاگزیں کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اولیاء اللہ اس بندہ سے کمال تعلق اور مہربانی سے پیش آتے ہیں۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھتا ہے وہ مخلوق خدا کی دل کی باتوں پر آگاہ ہو اور اگر کسی شخص کی بیوی یا لونڈی ایسی سیرت و عادت کی حامل ہو کہ اس کے لئے باعث کوفت اور باعث اذیت ہو تو اسے چاہئے کہ جب وہ اس بیوی یا لونڈی کے سامنے جانا چاہے تو اس اسم پاک کو بہت پڑھے حق تعالیٰ اسے صلاحیت و درستی کی راہ پر لگائے گا۔

 الحمید

اپنی ذات صفات کی تعریف کرنے والا یا تعریف کیا ہوا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ ہمیشہ حق کی تعریف کرنے والا رہے۔ صفات کمالیہ کے ساتھ اپنی ذات کو آراستہ کرے یا اپنے اعمال حسنہ اور اخلاق حمیدہ کی بناء پر خدا اور خدا کی مخلوق دونوں کی نظروں میں ایسا ثابت ہو کہ اس کی تعریف کی جائے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھے اس کے افعال پسندیدہ ہوں گے اور اگر کسی شخص پر فحش گوئی اور بد زبانی غالب ہو کہ اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے پر قادر نہ ہو تو اسے چاہیے کہ اس اسم پاک کو کسی پیالہ پر لکھے یا بعض حضرات کے قول کے مطابق اس اسم پاک کو اس پیالہ پر نوے بار پڑھے ور ہمیشہ اسی پیالہ میں پانی پیتا رہے انشاء اللہ فحش گوئی اور بدزبانی سے محفوظ رہے گا۔

 المحصی

اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کے نزدیک تمام مخلوقات کی تعداد ظاہر ہے۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ خواہ حرکت کی حالت میں ہو یا سکون کی حالت میں یعنی کسی بھی لحظہ اور کسی بھی لمحہ غفلت میں مبتلا نہ وہ اور اس کا ایک ایک سانس یاد الٰہی کے ساتھ باہر آئے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ اہل جنت اس لمحہ پر حسرت و افسوس کریں گے جو یاد الٰہی کے بغیر گزرا ہو گا۔ نیز اس بات کی کوشش کرے کہ اپنے اعمال اور باطنی احوال پر مطلع رہے۔ اور اس اسم کا تقاضہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اسے جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کو شمار کرتا رہے تاکہ وہ ان کا شکر ادا کرے کے خدا کے سامنے اپنے آپ کو عاجز و محتاج سمجھے اور اپنے گناہوں کو شمار کرے۔ ان کی وجہ سے شرمندہ و شرم سار و معذرت خواہ ہو اور ان ایام اور لمحات کو یاد کر کے حسرت و افسوس کرے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس کی یاد سے خالی رہے ہوں۔

خاصیت

 جو شخص شب جمعہ میں اس اسم پاک کو ایک ہزار ایک مرتبہ پڑھ لیا کرے حق تعالیٰ اسے عذاب قبر اور عذاب قیامت سے محفوظ رکھے گا۔

 المبدی۔ المعید

پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا اور دوبارہ پیدا کرنے والا۔  ان ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ہر معاملہ اور ہر چیز میں اللہ رب العزت کی طرف اول بار بھی اور دوبارہ بھی رجوع کرے۔ نیکیاں پیدا کرنے میں سعی و کوشش کرے اور جو نیک عمل کرنے سے رہ گیا ہو یا جس عمل میں کوئی کمی اور کوتاہی ہو گئی ہو اس کا اعادہ کرے یعنی ان کو دوبارہ کرے۔

خاصیت

 جس کی بیوی کو حمل ہو اور اسقاط حمل کا خوف ہو یا ولادت میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہو تو خاوند کو چاہئے کہ وہ اس اسم پاک المبدی کو نوے بار پڑھے اور شہادت کی انگلی اسے پیٹ کے چاروں طرف پھیرے انشاء اللہ حمل ساقط ہونے کا خوف نہیں رہے گا اور ولادت سے باطمینان اور بلا کسی ضرر جلد فراغت حاصل ہو گی اور جو شخص اس اسم پاک پر مداومت کرے یعنی اس کو پڑھنے پر ہمیشگی اختیار کرے تو اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو صحیح اور باعث ثواب ہو گی۔

 اگر کسی شخص کا کوئی عزیز وغیرہ غائب ہو گیا ہو اور اس کی آمد یا خیریت کی طلب کا خواہش مند ہو تو اس وقت جب کہ اس کے گھر والے سو گئے ہوں اس اسم پاک کو گھر کے چاروں کونوں میں ستر بار پڑھے اور اس کے بعد کہے یا معید فلاں شخص کو میرے پاس واپس بلا دے یا اس کی خیریت معلوم کرا دے، سات دن بھی گزرنے نہ پائیں گے کہ یا تو غائب آ جائے گا یا اس کی خیریت معلوم ہو جائے گی۔ اور اگر کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوئی ہو تو وہ اس اسم المعید کو بہت زیادہ پڑھتا رہے انشاء اللہ اس کی وہ چیز مل جائے گی۔

 المحی۔ الممیت

زندہ کرنے والا اور مارنے والا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نور ایمان کے ذریعہ قلوب کو زندہ کرتا ہے اور جسم میں زندگی پیدا کرتا ہے نیز وہی جسم کو موت دیتا ہے اور قلوب کو غفلت و نادانی کے ذریعہ مردہ کرتا ہے۔

 ان دونوں ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ علم سے نفع پہچا کر مخلوق خدا کو اور مغفرت الٰہی کی شمع جلا کر قلب کو زندگی و  تازگی کی دولت بخشے اور نفسانی خواہشات اور شیطانی خطرات و وساوس کو موت کے گھاٹ اتارے، نیز یہ حیات کی تمنا کرے اور نہ موت کی آرزو بلکہ قضاء و قدر الٰہی کا تابعدار بنے اور یہ دعا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے پڑھتا رہے۔ دعا (اللہم احینی ماکان الحیوۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی واجعل الحیوۃ زیادۃ فی کل خیر واجعل الموت راحۃ من کل شر)۔ اے اللہ مجھے زندگی دے کہ جب تک کہ زندگی میرے لئے بہتر ہو اور مجھے موت دے جب کہ موت میرے لئے بہتر ہو اور میری زندگی کو ہر خیر و بھلائی میں زیادتی کا سبب اور موت کو ہر برائی سے راحت کا باعث بنا دے۔

خاصیت

 جو شخص کسی درد، رنج و تکلیف اور کسی عضو کے ضائع ہو جانے کے خوف میں مبتلا ہو تو وہ اس اسم پاک المحی کو سات بار پڑھے حق تعالیٰ اسے خوف سے نجات دے گا نیز درد ہفت اندام کو دور کرنے کے لئے سات روز تک یہ اسم پڑھا کرے اور ہر روز پڑھ کر دم کیا جائے اور جو شخص اس اسم پاک کے پڑھنے پر ہمیشگی اختیار کرے تو اس کے دل کو زندگی اور بدن کو قوت حاصل ہو گی جو شخص اپنے نفس پر قادر نہ ہو کہ اتباع شریعت کے معاملہ میں اس کا نفس اس پر غالب ہو یعنی اسے اتباع شریعت سے باز رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سوتے وقت سینہ پر ہاتھ رکھ کر اسم پاک المقیت اتنا زیادہ پڑھا کرے کہ پڑھتے ہوئے سو جائے تو حق تعالیٰ اس کے نفس کو مطیع و  فرمانبردار بنا دے گا۔

 الحئی

 ازل سے ابد تک زندہ رہنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد کے ذریعہ زندہ رہے اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دے۔ یعنی راہ خدا میں شہید ہو کر ابدی حیات حاصل کرے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص بیمار ہو تو اس اسما پاک کو بہت پڑھتا رہے یا کوئی دوسرا شخص اس بیمار پر اور بعض حضرات کے قول کے مطابق آنکھ سامنے کر کے اسے بہت پڑھے تو حق تعالیٰ اسے صحت عطا فرمائے گا اور جو شخص ہر روز ستر بار اس اسم کو پڑھ لیا کرے تو اس کی عمر دراز ہو گی اور اس کی قوت روحانیہ میں اضافہ ہو گا۔

 القیوم

خود بھی قائم اور مخلوقات کا قائم رکھنے والا اور خبرگیری کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ماسواا للہ سے بالکل بے پروا ہو جائے۔

قشیری فرماتے ہیں کہ جس نے یہ جانا اللہ تعالیٰ قیوم ہے تو اس نے تدبیر و اشتغال سے نجات پائی اور راحت وتفویض کے ساتھ اپنی زندگی گزاری لہٰذا اب نہ تو بخل کرے گا اور نہ دنیا کی کسی بھی بیش قیمت چیز کو کوئی اہمیت دے گا۔

خاصیت

 جو شخص بوقت سحر اس اسم کو بہت زیادہ پڑھا کرے تو لوگوں کے قلوب میں اس کا تصرف ظاہر ہو گا یعنی تمام لوگ اسے محبوب و دوست رکھیں گے اور اگر کوئی شخص اس اسم کو بہت زیادہ پڑھے تو اس کے تمام امور بحسب دلخواہ پورے ہوں گے۔

 الواجد

غنی کہ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ ضروری کمالات عالیہ حاصل کرنے میں سعی و کوشش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ماسوا اللہ سے مستغنی و بے پرواہ ہو۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص کھانا کھاتے وقت ہر نوالے کے ساتھ یہ اسم پاک پڑھے تو وہ کھانا اس کے پیٹ میں نور ہو گا اور اگر کوئی خلوت میں اس اسم کو پڑھے تو تونگر ہو گا۔

 الماجد

بزرگ نصیب۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اس سے پہلے نام کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو خلوت میں پڑھے اتنا کہ بے ہوش ہو جائے اس کے دل پر انوار الٰہی ظاہر ہوں گے اور کوئی شخص اس کو بہت پڑھتا رہے تو مخلوق خدا کی نظروں میں بزرگ مرتبہ ہو۔

 الواحد

 الاحد ذات و صفات میں یکتا و یگانہ۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ عبادت و بندگی میں یکتا و یگانہ بنے جیسا کہ اس کا معبود خدائی میں یکتا و یگانہ ہے۔ اور ایسے فضائل سے اپنی ذات کو آراستہ کرے کہ اس کا کوئی ہم جنس اس کے مثال نہ ہو۔

خاصیت

 اگر کسی کا دل خلوت سے ہراساں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس اسم پاک کو ایک ہزار ایک مرتبہ پڑھے انشاء اللہ اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا اور بارگاہ حق جل مجدہ کا مقرب ہو گا اور اگر کسی کا فرزند پیدا ہونے کی تمنا ہو تو وہ اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے اللہ تعالیٰ اسے فرزند عطا کرے گا۔

 الصمد

بے پروا کہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اپنی ہر حاجت میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرے، اپنے رزق سے بے فکر رہے، اس کی ذات پر توکل کرے دنیا کی حرام چیزوں سے بچے دنیا کی زینت کی چیزوں کی طرف رغبت نہ کرے، دنیا کی حلال چیزوں کے حصول کی بھی ہوس نہ کرے، مخلوق سے اپنے آپ کو بے پروا رکھے اور مخلوق خدا کی حاجت روائی کی سعی و کوشش کرتا رہے۔

خاصیت

 جو شخص بوقت سحر یا آدھی رات کو سجدہ کرے اور اس اسم پاک کو ایک سو پندرہ بار پڑھے اللہ تعالیٰ اسے صادق الحال بنائے گا اور کسی ظالم کے ہاتھ نہیں لگے گا۔ اور جو شخص اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھتا رہے وہ بھوکا نہیں رہے گا۔ اور اگر حال وضو میں اسے پڑھے گا تو مخلوق خدا سے بے پروا ہو۔

 القادر

 المقتدر۔ قدرت والا۔ اور قدرت ظاہر کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو خواہشات و لذات سے باز رکھنے پر قادر ہو۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص وضو میں وضو کے ہر عضو کو دھوتے وقت اسم پاک  القادر پڑھ لیا کرے تو وہ کسی ظالم کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہو گا اور کوئی دشمن اس پر فتحیاب نہ ہو گا اور اگر کوئی مشکل کام پیش آئے تو اکتالیس مرتبہ یہ اسم پڑھ لیا جائے خدا نے چاہا تو کام بحسن و خوبی انجام پذیر ہو گا۔

 اگر کوئی شخص اسم پاک  المقتدر کو پابندی کے ساتھ پڑھتا رہا تو غفلت ہوشیاری میں بدل جائے گی اور جو شخص سو کر اٹھتے وقت یہ اسم پاک بیس بار پڑھ لیا کرے تو اس کے تمام کام حق تعالیٰ کی طرف راجع ہوں۔

 المقدم۔ المؤخر

دوستوں کو اپنی درگاہ عزت کا قرب بخش کر آگے بڑھانے والا اور دشمنوں کو اپنے لطف و کرم سے دور رکھ کر پیچھے ڈالنے والا۔  ان دونوں پاک ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ نیکیوں میں پیش قدمی اختیار کر کے اپنے آپ کو آگے کرے یعنی دوسروں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو افضل بنائے اور ان لوگوں کو آگے کرے جو اللہ رب العزت کی بارگاہ عزت کے مقربین میں سے ہیں یعنی ان کو عزیز رکھے اور نفس اور شیاطین کو اور ان لوگوں کو جو بارگاہ کبریائی کے ٹھکرائے ہوئے ہیں پس پشت ڈالے، نیز اپنے تمام امور و اعمال کو ضابطہ و قاعدہ کے مطابق انجام دے۔ مثلاً پہلے وہ کام اور عمل کرے جو سب سے زیادہ ضروری ہو اور جسے خدا نے سب سے مقدم کیا ہو اور سب سے بعد میں اس عمل کو اختیار کرے جو سب سے کم ضروری ہو۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص معرکہ جنگ میں اس اسم پاک  المقدم پڑھے یا اسے لکھ کر اپنے پاس رکھے تو اسے کوئی گزند نہیں پہنچے گا اور جو شخص اس اسم پاک کو بہت پڑھتا رہے تو اس کا نفس طاعت الٰہی کے لئے فرمانبردار و مطیع ہو جائے گا۔

 جو شخص یہ اسم پاک  الموخر سو مرتبہ پڑھے اس کے دل کو غیراللہ کے ساتھ قرار نہیں ملے گا۔ اور جو شخص روزانہ اس اسم پاک کو سو بار پڑھ لیا کرے تو اس کے تمام کام انجام پذیر ہوں اور جو شخص اس کو اکتالیس مرتبہ پڑھے اس کا نفس مطیع و فرمانبردار ہو۔

الاول۔ الآخر

سب سے پہلے اور سب سے پیچھے۔  ان سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اللہ کی عبادات اور اس کے احکام بجا لانے میں جلدی کرے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جان قربان کرے تاکہ حیات ابدی حاصل ہو۔

خاصیت

 اگر کسی کی اولاد نرینہ نہ ہوتی ہو تو اس اسم پاک الاول چالیس دن تک ہر روز چالیس مرتبہ پڑھے اس کی مراد پوری ہو گی۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ فرزند، غنا یا اور کسی چیز کی حاجت و تمنا ہو تو وہ چالیس جمعوں کی راتوں میں ہر رات ایک ہزار مرتبہ یہ اسم پڑھے انشاء اللہ اس کی تمام حاجتیں پوری ہوں گی۔

 جو شخص اپنی عمر کے آخری مرحلہ میں ہو اور اس کی پوری زندگی بد عملیوں اور گناہوں میں گزری ہو تو وہ اس اسم پاک الآخر کو اپنا ورد قرار دے لے حق تعالیٰ اس کا خاتمہ بخیر کرے گا۔

 الظاہر۔ الباطن

 اپنی مصنوعات اور مخلوقات کے اعتبار سے جو اس کے کمال صفات کی دلیل ہیں، آشکار! اور اپنی ذات کی حقیقت و کنہ کے اعتبار سے وہم و خیال سے مخفی۔

خاصیت

 جو شخص نماز اشراق کے بعد اسم پاک الظاہر پانچ سو مرتبہ پڑھ لیا کرے حق تعالیٰ اس کی آنکھیں روشن و منور کرے گا اگر طوفان باد و باران وغیرہ کا خوف ہو تو یہ اسم پاک بہت زیادہ پڑھا جائے امن و عافیت حاصل ہو گی۔ اگر اس اسم پاک کو گھر کی دیواروں پر لکھ دیا جائے تو وہ دیواریں محفوظ و سلامت رہیں گی۔

 جو شخص ہر روز یا باطن تینتیس بار کہہ لیا کرے حق تعالیٰ اسے صاحب اسرار الٰہی بنائے گا۔ اور اگر کوئی شخص اس پر مداومت اختیار کرے تو اس پر جس کی بھی نظر پڑے گی اس کا دوست بن جائے گا۔

 الوالی

 کارساز و مالک۔  اس اسم پاک سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اسم پاک الوکیل کے ضمن میں نقل کیا جا چکا ہے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس کا یا اس کے علاوہ کسی اور کا گھر معمور و آباد ہو اور بارش و دیگر آفات سے محفوظ رہے تو اسے چاہئے کہ کوزہ آب نا رسیدہ پر یہ اسم پاک لکھے اور اس کوزہ میں پانی ڈال کر اس کوزہ کو گھر کی دیوار پر مارے، گھر اور در و دیوار محفوظ و سلامت رہیں گے۔

 بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اسم پاک الوالی کو تین سو مرتبہ پڑھنے سے بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور اگر کسی شخص کی تسخیر کی نیت سے یہ اسم پاک گیارہ مرتبہ پڑھا جائے تو وہ شخص اس کا مطیع و فرمانبردار ہو جائے گا۔

 المتعالیٰ

بہت بلند مرتبہ۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اس نام پاک العلی کے سلسلہ میں نقل کیا جا چکا ہے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھتا ہے تو اس کو بھی جو دشواری پیش آئے گی حل ہو جائے گی اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ جو عورت ایام حمل میں یہ اسم پاک پڑھتی رہا کرے تو وہ حمل کی تمام تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پائے گی۔

 البر

انتہائی احسان کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنے ماں باپ، استاد بزرگان دین، عزیز و اقارب اور تمام لواحقین و متعلقین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے۔

خاصیت

 طوفان باد و باراں اور کسی آفت کے وقت یہ اسم پاک پڑھنا چاہئے انشاء اللہ کوئی نقصان و گزند نہیں پہنچے گا۔ اگر اس اسم پاک کو سات مرتبہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی امان میں دے دیا جائے تو وہ بچہ بالغ ہونے تک ہر آفت و بلا اور ہر تکلیف و مصیبت سے محفوظ رہے گا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص شراب نوشی اور زنا میں مبتلا ہو تو وہ ہر روز سات مرتبہ یہ اسم پاک پڑھ لیا کرے حق تعالیٰ اس کے دل کو ان معصیتوں سے پھیر دے گا۔

 التواب

توبہ قبول کرنے والا۔ توبہ کے اصل معنی ہیں، رجوع کرنا یعنی پھرنا جب اس لفظ کی نسبت بندہ کی طرف ہوتی ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے کہ گناہ سے پھرنا، یعنی اپنے گناہ پر نادم، و شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا۔ اور جب حق تعالیٰ کی طرف نسبت ہوتی ہے تو اس لفظ کی مراد ہوتی ہے، رحمت و توفیق کے ساتھ پھرنا یعنی بندہ کی طرف نظر رحمت و توفیق متوجہ ہونا۔ اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر سمجھئے کہ جب کوئی بندہ گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو حق تعالیٰ اس کی توبہ کے اسباب میسر کرتا ہے اس کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اس کو گناہوں کے عواقب سے ڈرا کر، عذاب کا خوف دلا کر اور آخرت کی سزا کا احساس بخش کر اسے خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے اور اس کے قلب و شعور میں اپنے جرم کا احساس اور گناہ پر ندامت و شرمندگی کی توفیق عطا فرماتا ہے اس کے بعد وہ بندہ توبہ و ندامت کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور پھر حق تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی رحمت کے ساتھ اس بندہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے یعنی اسے بخش دیتا ہے، لہٰذ ا حقیقت میں حق تعالیٰ کی توبہ یعنی اس کی توجہ بندہ کی توبہ یعنی اس کے رجوع پر مقدم ہوتی ہے اگر حق تعالیٰ کی توجہ نہ ہو تو بندہ کو رجوع کی نوبت نہیں آ  سکتی۔ اس لئے فرما گیا ہے کہ آیت (تاب علیہم لیتوبوا ) اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہوا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (یعنی توبہ کریں)۔

توبہ کنم بشکنم توبہ دہی نشکنم

 اس لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے قبولیت توبہ کا یقین رکھے، ناامیدی کے دروازہ کو بند کر دے۔ بایں طور اس کی رحمت کے نزول سے ناامید نہ ہو دوسروں کی خطائیں معاف کرے معذرت خواہ کی معذرت قبول کرے چاہے کتنی بار معذرت قبول کرنی پڑے۔ اور اگر کسی سے کوئی قصور و کوتاہی ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ اس سے درگزر کرے بلکہ انعام و اکرام کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو۔ جناب باری تعالیٰ سے توبہ طلب کرے، گناہوں پر شرمندہ و نادم ہو گوش عبرت کھلے رکھے اور توبہ میں تاخیر نہ کرے تاکہ اس حکم عجلوا بالتوبۃ قبل الموت (مرنے سے پہلے توبہ میں جلدی کرو) کی بجا آوری ہو۔

 اس موقع پر ایک عبرت انگیز اور سبق آموز حکایت سن لیجئے۔ کہتے ہیں کہ کس سلطنت کا ایک وزیر تھا جس کا نام عیسیٰ بن عیسیٰ تھا ایک دن وہ سواروں کی ایک جماعت کے ہمراہ چلا جا رہا تھا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے لوگ آپس میں پوچھتے تھے کہ یہ کون ہے یہ کون ہے، راستہ میں کہیں ایک بڑھیا بھی بیٹھی ہوئی تھی اس نے جو لوگوں کو پوچھتے سنا تو کہنے لگی کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہے۔ ہوتا کون! یہ ایک بندہ ہے جو نظر حق عنایت سے گرا ہوا ہے اور اس حالت میں مبتلا ہے (یعنی دنیاوی جاہ و جلال میں اس طرح مگن اور مطمئن ہے) عیسیٰ بن عیسیٰ نے یہ بات سن لی۔ بس پھر کیا تھا فوراً اپنے مکان کو لوٹا وزارت پر لات ماری اور توبہ کی دولت سے مشرف ہوا اس طرح وہ تمام دنیاوی جاہ حشم کو پس پشت ڈال کر مکہ مکرمہ میں مقیم ہوا اور وہیں مجاور ہو گیا۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص نماز چاشت کے بعد اس اسم پاک کو تین سو ساٹھ مرتبہ پڑھے تو حق تعالیٰ اسے توبہ نصوح ایسی پختہ توبہ کہ اس کے بعد گناہ سرزد نہ ہو، کی سعادت سے نوازے گا اور اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھتا رہے تو اس کے تمام امور انجام و صلاح پذیر ہوتے رہیں گے اور نفس کو طاعت عبادت کے بغیر سکون و قرار نہیں ملے گا اور جو شخص نماز چاشت کے بعد یہ پڑھا کرے۔ آیت (اللہم اغفر لی وتب علی انک انت التواب الرحیم ) تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

 المنتقم

کافروں اور سرکشوں سے عذاب کے ذریعہ بدلہ لینے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے دشمنوں سے کہ وہ نفس اور شیطان ہیں بدلہ لیتا رہے اور سب سے بڑا دشمن نفس امارہ ہے اس کی سزا یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی گناہ میں مبتلا ہو یا عبادت میں کوتاہی کرے تو اس سے انتقام لے بایں طور کہ اسے عقوبت و سختی میں مبتلا کرے۔ چنانچہ حضرت بایزید بسطامی کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ راتوں میں اوراد و وظائف میں مشغول رہا کرتا تھا کہ ایک رات میرے نفس نے تکاسل کیا اس کی سزا میں نے اس کو یہ دی کہ ایک برس تک اپنے نفس کو پانی سے محروم رکھا۔

خاصیت

 جو شخص اپنے دشمن کے ظلم و جور پر صبر اور اس کا دفاع نہ کر سکے وہ تین جمعوں تک اس اسم پاک کو پابندی سے پڑھتا رہے اس کا دشمن دوست ہو جائے گا اور اس کے ظلم سے نجات مل جائے گی۔ نیز اگر کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے اس مقصد کی نیت کے ساتھ اس اسم پاک کو آدھی رات کے وقت پڑھا جائے تو وہ مقصد حاصل ہو گا۔

 ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک اور صحابی سے منقول ہے اس موقع پر باری تعالیٰ کا ایک اسم المنعم بھی نقل کیا گیا ہے جو اس اسم پاک المنعم پر مداومت کرے کبھی کسی کا محتاج نہ ہو گا۔

 العفو

گناہوں اور تقصیرات سے درگزر کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو الغفور کے ضمن میں نقل کیا گیا حضرت شیخ عبدالحق شرح اسماء حسنی میں لکھتے ہیں کہ العفو جس کے معنی ہیں سیئات کو محو کرنے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والا۔ اگرچہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے غفور کے قریب ہے لیکن عفو، غفور سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ غفران کے معنی ہیں ستر وکتمان، اس لئے غفار کے معنی ہوں گے گناہوں کو چھپانے والا جب کہ عفو مشعر بمحو و معدوم کر دینے کے ہے جس کا مطلب ہے گناہوں کو معاف کر کے ختم و معدوم کر دینے والا۔

 لہٰذا بندہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کی شان عفو کے پیش نظر اس کی طرف سے معافی و بخشش کا پوری طرح امیدوار ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی گنہگار کے ساتھ تحقیر و تذلیل کا برتاؤ نہ کیا جائے کیونکہ یہ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے حدود شرع اور احکام دین کی پابندی کی بنا پر بخش دے اور اس کے گناہوں کو یکسر محو کر دے۔

رد مکن بدرا، چہ دانی درازل نام و درنامہ نیکاں بود

ورود وبر جائے نیکاایں گمان بر تو روز جاز تاواں بود

 اس اسم پاک کا بندہ پر تقاضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی تقصیرات اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کر کے انہیں معاف کر دے تاکہ آیت (الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس)۔ (غصہ کو نگل جانے والوں اور لوگوں کو معاف کرنے والوں ) کے زمرہ میں داخل ہو۔

خاصیت

 جو شخص زیادہ گنہگار ہو اسے چاہئے کہ وہ اس اسم پاک کو اپنا ورد قرار دے لے انشاء اللہ اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔

 الرؤف

بہت مہربان۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اسم پاک الرحیم کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے۔

 منقول ہے کہ ایک شخص کا ہمسایہ بہت برا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو اس شخص نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی بعد میں اس کو کسی اور شخص نے خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اس شخص نے کہا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے لیکن وہ ذرا ان صاحب سے جنہوں نے نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی یہ ضرور کہہ دینا کہ آیت (لو انتم تملکون خزائن رحمۃ ربی اذا لامسکتم خشیۃ الانفاق)۔ (اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم انہیں خرچ ہو جانے کے خوف سے ضرور دبا کر بیٹھ جاتے ) یہ گویا اس نے نماز جنازہ نہ پڑھنے والے پر طعن کیا کہ میرا رب تو بہت مہربان ہے اس نے مجھے بخش دیا ہے اگر کہیں تمہارا بس چل جاتا تو نہ معلوم تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ کسی مظلوم کو ظالم کے ہاتھوں سے بچا لے تو وہ اس اسم اعظم کو دس بار پڑھے ظالم اس کی سفارش قبول کرے گا اور اپنے ظلم سے باز آ جائے گا۔ اگر کوئی شخص اس اسم پاک پر مداومت کرے تو اس کا دل نرم رہے گا۔ وہ سب کو دوست رکھے اور سب اسے دوست رکھیں گے۔

 مالک الملک

سارے جہان کا مالک۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اسم پاک الملک کے ضمن بہت گزر چکا ہے۔ شاذلی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اے شخص ایک دروازہ پر ٹھہر یعنی صرف اللہ کے دروازہ پر آ، تاکہ تیرے لئے بہت سے دروازے کھولے جائیں اور صرف ایک بادشاہ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی گردن جھکا تاکہ تیرے سامنے بہت سی گردنیں جھکیں ارشاد ربانی ہے آیت (وان من شیء الا عندنا خزائنہ)۔ (ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کے خزانے نہ ہوں ہمارے پاس)

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک پر مداومت اختیار کرے تونگر ہو اور اس کے دنیا و آخرت کے تمام امور اور تمام مقاصد نیک ثمرہ و انجام پذیر ہوں اس کے بعد ذکر کئے جانے والے اسم پاک  ذوالجلال والاکرم کی بھی یہی خاصیت ہے۔

 ذولجلال والاکرام

بزرگی اور بخشش کا مالک۔ جس نے خدا کا جلال جانا تو اس کی بارگاہ میں تذلل اختیار کرے اور جس نے اس کا اکرام دیکھا تو اس کا شکر گزر ہو پس نہ تو غیر اللہ کی اطاعت فرمانبردار کی جائے نہ خدا کے علاوہ کسی اور سے اپنی حاجت بیان کی جائے۔

 اس اسم بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے بزرگی کے حصول کی کوشش کرے اور بندگان خدا سے اچھا سلوک کرے۔

 المقسط

عدل کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اسم پاک العدل کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو سو بار پڑھے وہ شیطان کے شر اور اس کے وسوسوں سے محفوظ رہے گا اور اگر سات سو بار پڑھے تو اس کا جو بھی مقصد ہو گا حاصل ہو گا۔

 الجامع

قیامت میں لوگوں کو جمع کرنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ علم و عمل اور کمالات نفسانیہ و جسمانیہ کا جامع بنے اور خدا کی ذات میں محویت استغراق اور غور و فکر، ذکر اللہ کے ذریعہ تسکین قلب و خاطر جمع، ذات و صفات باری تعالیٰ کا عرفان جیسی صفات حمیدہ کی سعادتیں اپنے اندر جمع کرے۔

درجمعیت کوش تاہمہ ذات شوی

ترسم کہ پراگندہ شوی مات شوی

خاصیت

 جس شخص کے عزیز و اقارب اور اہل خانہ منتشر اور تتربتر ہوں وہ چاشت کے وقت غسل کرے اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اس اسم پاک کو دس مرتبہ اس طرح پڑھے کہ ہر مرتبہ ایک انگلی بند کرتا جائے اور پھر اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے انشاء اللہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ سب جمع و یکجا ہو جائیں گے۔

الغنی

ہر چیز سے بے پروا۔

خاصیت

 جو شخص حرص و طمع کی بلا میں مبتلا ہو وہ اپنے جسم کے ہر عضو پر ہاتھ رکھ کر اسم پاک الغنی پڑھے اور ہاتھ کو اس عضو کے اوپر نیچے کی طرف لائے حق تعالیٰ اسے اس بلا سے نجات دے گا۔ اور جو شخص یہ اسم پاک ہر روز ستر بار پڑھے اس کے مال میں برکت ہو گی اور وہ کبھی محتاج نہ ہو گا۔

المغنی

جس کو چاہے بے پروا کرنے والا۔  ان ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ ماسو اللہ سے مکمل استغناء اور بے پرواہی برتے اور خدا کے علاوہ کسی کو حاجت روا قرار نہ دے۔

خاصیت

 جو شخص مسلسل دس جمعہ تک اس اسم پاک کو پڑھنے میں باقاعدگی اختیار کرے بایں طور کہ ہر جمعہ کے روز ایک ہزار بار پڑھے تو مخلوق سے بے پروا ہو جائے گا۔

 المانع

اپنے بندوں کو دین و دنی ا کی ہلاکت و نقصان سے باز رکھنے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو خواہشات نفسانی سے باز رکھ کر اپنے آپ کو دینی و دنیاوی ہلاکت و نقصان سے محفوظ رکھے۔

خاصیت

 اگر شوہر بیوی کے درمیان ناچاقی ہو تو بستر پر جاتے وقت اس اسم پاک کو بیس بار پڑھ لیا جائے تاکہ حق تعالیٰ غصہ وناچاقی کی بدمزگی سے بچائے گا۔

 حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح اسماء حسنی میں اس پاک المانع سے پہلے اس پاک المعطی بھی نقل کیا ہے اور انہوں نے ان دونوں ناموں کی ترجمانی کی وضاحت یوں کی ہے کہ وہ جس کو جو کچھ چاہے دے اور جو چاہے نہ دے۔ لامانع لما اعطی ولا معطی لما منع (جان لو جس کو وہ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو نہ دے اس کو کوئی دینے والا نہیں) لہٰذا جب بندہ نے جان لیا کہ حق تعالیٰ ہی معطی دینے والا اور مانع نہ دینے والا ہے تو اس کی عطا کا امیدوار اور اس کے منع سے خائف رہے! بندہ پر اس اسم کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ خدا کے نیک بندوں اور مستحقین کو اپنے عطا سے نوازے اور فاسقوں ظالموں کو عطا کرنے سے باز رہے یا یہ کہ اپنے قلب و روح کو حضور طاعت کے انوار عطا کرے اور اپنے نفس و طبیعت کو خواہشات و ہوس سے باز رکھے! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو یہاں ذکر کی گئی ہے المعطی کا ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے پیش نظر منع کی وضاحت رد و ہلاک کی جاتی ہے۔

 اس کے بعد حضرت شیخ اس پاک المعطی کی خاصیت یہ لکھتے ہیں کہ جو شخص المعطی کو اپنا ورد بنا لے اور یا معطی السائلین بہت پڑھتا رہا کرے تو کسی سے سوال کا محتاج نہیں ہو گا۔

 الضار۔ النافع

جس کو چاہے ضرر پہنچانے والا اور جس کو چاہے نفع پہنچانے والا۔ قشیری کہتے ہیں کہ ان اسماء میں اس طرف اشارہ ہے کہ ضرر و نفع اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے لہٰذا جو شخص اس کے حکم یعنی اس کی قضا و قدر کا تابعدار ہو وہ راحت وسکون کی زندگی پائے گا اور جو شخص اس کا تابعدار نہ ہو وہ آفت و مصیبت میں پڑے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ من استسلم لقضائی وصبر علی بلائی وشکر علی نعمائی کان عبدی حقا ومن لم یستسلم لقضائی ولم یصبر علی بلائی ولم یشکر علی نعمائی فلیطلب ربا سوائی۔ جس شخص نے میری قضا و قدر کو تسلیم کیا میری بلا پر صبر کیا ور میری نعمتوں پر شکر کیا وہ میرا سچا بندہ ہے اور جس شخص نے میری قضا و قدر کو تسلیم نہ کیا۔ میری بلاء پر صبر نہ کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا تو وہ میرے علاوہ کوئی اور رب ڈھونڈ لے۔

 حضرت شیخ نے شرح اسماء حسنی میں ان دونوں اسماء الضار اور النافع کی وضاحت کے سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ خیر و شر اور نفع و ضرر کا صرف اللہ تعالیٰ مالک ہے اور گرمی سردی خشکی اور تری میں درد و تکلیف، رنج و پریشانی اور شفا کا پیدا کرنے والا وہی ہے۔ یہ قطعاً گمان نہ کیا جائے کہ دوا بذات خود فائدہ دیتی ہے زہر بذات خود ہلاک کرتا ہے کھانا بذات خود سیر کرتا ہے اور پانی بذات خود سیراب کرتا ہے بلکہ یہ تمام اسباب عادی ہیں بایں معنی ٰ کہ یہ عادت قائم کہ حق تعالیٰ نے ان کو اسباب بنا دیا ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں ان کے واسطہ سے پیدا کرتا ہے اگر وہ چاہے تو ان چیزوں کو ان واسطوں اور اسباب کے بغیر بھی پیدا کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو ان کے باوجود بھی ان چیزوں کو پیدا نہ ہونے دے۔ اسی طرح عالم علویات و سفلیات کی تمام چیزیں اور تمام اجزا محض واسطے اور اس باب کے درجہ میں ہوتی ہیں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے زیر اثر ہیں اور ان تمام کی حیثیت بہ نسبت قدرت ازلیہ وہی ہے جو لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم کی ہوتی ہے لہٰذا بندہ کو چاہئے کہ تمام نقصانات اور تمام فائدہ کو حق تعالیٰ کے فیصلے جانے، عالم اسباب کو اس قدرت کے زیر اثر سمجھے اور حکم و قضا الٰہی کا تابعدار ہو کر اپنے تمام امور اسی کے سپرد کرے تاکہ وہ ایک ایسی زندگی کا حامل بن جائے جو مخلوق سے محفوظ اور مطمئن ہو۔

 منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دانتوں کے درد سے پریشان ہو کر بارگاہ حق میں فریاد کی تو وہاں سے حکم ہوا کہ فلاں گھاس دانتوں پر ملو تاکہ آرام ہو حضرت موسیٰ نے وہ گھاس دانتوں پر ملی تو آرام ہو گیا۔ ایک مدت کے بعد پھر ایک دانت میں درد ہوا تو انہوں نے وہی گھاس استعمال کی، اس مرتبہ درد کم تو کیا ہوتا اور بڑھ گیا بارگاہ حق میں عرض رساں ہوئے۔ الٰہ العالمین! یہ تو وہی گھاس ہے جس کو استعمال کرنے کا آپ نے حکم فرمایا تھا مگر اب اس کے استعمال سے درد اور بڑھ گیا ہے! بارگاہ حق سے عتاب کے ساتھ یہ ارشاد ہوا کہ اس مرتبہ تم نے ہماری طرف توجہ کی تھی تو ہم نے شفا دی اور اس مرتبہ تم نے گھاس کی طرف توجہ کی اس لئے ہم نے درد میں اضافہ کر دیا تاکہ تم یہ جان لو کہ شفا دیتے تو ہم ہی ہیں نہ کہ گھاس۔

 بندہ پر ان اسماء کا تقاضہ یہ ہے کہا امر الٰہی اور حکم شریعت کے ذریعہ دشمنان دین کو ضرر پہنچائے اور انہیں متنبہ کرے اور بندگان خدا کو نفع پہنچائے اور ان کی مدد کرتا رہے۔

خاصیت

 اگر کسی شخص کو کوئی حال اور مقام میسر ہو تو وہ اسم پاک الضار کو جمعہ کی راتوں میں سو بار پڑھا کرے حق تعالیٰ اسے اس مقام پر استقامت عطا فرمائے گا اور وہ مرتبہ اہل قرب کو پہنچے گا۔ اگر کوئی شخص کشتی یا پانی کے جہاز میں سفر کرے تو وہ روزانہ اسم پاک النافع کو اکتالیس بار پڑھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اپنے ہر کام کی ابتداء میں النافع اکتالیس بار پڑھ لیا کرے تو اس کے تمام کام حسب خواہش انجام پذیر ہوں گے۔

 النور

آسمان کو ستاروں کے ساتھ، زمین کو انبیاء و علماء وغیرہ کے ذریعہ اور مسلمانوں کے قلوب کو نور معرفت و طاعت کے ذریعہ روشن کرنے والا۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ایمان و عرفان کے نور سے اپنی ذات کو روشن و منور کرے۔

خاصیت

 جو شخص جمعہ کی شب میں سورہ نور ساتھ مرتبہ اور یہ اسم پاک ایک ہزار ایک مرتبہ پڑھے حق تعالیٰ اس کے دل میں نورانیت پیدا فرما دے گا اور جو شخص روزانہ صبح اس اسم پاک کو پڑھنے کا التزام رکھے تو اس کا دل منور ہو گا۔

 الہادی

راہ دکھانے والا۔  اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ بندگان خدا کو خدا کی راہ دکھائے۔ اس بات کو حضرت شیخ نے شرح اسماء حسنی میں وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا ہے۔ کہ ہدایت کا مطلب ہے راہ دکھانا اور منزل مقصود تک پہنچانا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ تمام راہرووں کا رہنما ہے۔ اگر کوئی دنیا کی راہ پر ہوتا ہے تب بھی رہنما ہے اور اگر کوئی آخرت کی راہ پر چلتا ہے تو بھی راہبر اسی کی ذات ہوتی ہے۔

گر نہ چراغ لطف تو راہ نماید از کرم

قافلہائے شب روں پے نبرد بمنزلے

 حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ انواع ہدایت کی کوئی حد و شمار نہیں ہے۔ آیت (الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدا)۔ (وہ ایسی ذات ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا اور پھر اس کی راہ بتائی) چنانچہ یہ حق تعالیٰ ہی ہے جو بچہ کو پیٹ سے باہر آتے ہی ماں کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی راہ بتاتا ہے۔ چوزہ کو انڈے سے نکلتے ہی دانہ چننے کی راہ پر لگاتا ہے اور شہد کی مکھی کو کیا عجیب و غریب گھر بنانے کی راہ دکھاتا ہے، حاصل یہ ہے کہ کائنات کا ایک ایک فرد اپنے ایک ایک لمحہ اور اپنے ایک ایک فعل میں اسی کی ہدایت و رہنمائی کا مرہون منت ہوتا ہے۔

 لیکن سب سے افضل اور سب سے عظیم الشان ہدایت وہ راستہ دکھانا ہے جو بارگاہ حق جل مجدہ تک اور دیدار باری تعالیٰ کی نعمت عظمی تک پہنچاتا ہے اور خواص کے باطن میں توفیق الٰہی اور اسرار تحقیق کا وہ نور پیدا کرتا ہے جو ہدایت معرفت اور طاعت کا سبب بنتا ہے۔

 بندوں میں اس اسم پاک الہادی سے سب سے زیادہ بہرہ مند انبیاء اولیاء اور علماء ہیں جو مخلوق خدا کو صرط مستقیم کی طرف راہ دکھانے والے ہیں۔ سید انبیاء اور ختم رسل دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی اس اسم پاک کی حقیقی پر تو ہے جو اس دنیا میں پوری انسانیت اور پوری کائنات کے سب سے بڑے اور سب سے بلند مرتبہ راہنما اور راہبر ہیں۔ آیت (اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین۔ )

 حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کا عارفین کی صفات عالیہ میں شمار ہوتا ہے (١) تنگدل اور غمزدوں کو کشادگی اور فرحت کی طرف لانا۔ (٢) غافلین کو حق تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانا۔ (٣) زبان توحید سے مسلمانوں کو حق کی راہ دکھانا یعنی ان کے قلوب کی توجہ دنیا سے دین کی طرف اور معاش سے معاد کی طرف پھیرنا۔

خاصیت

 جو شخص ہاتھ اٹھا کر اور اپنا منہ آسمان کی طرف اٹھا کر اس اسم پاک الہادی کو بہت زیادہ پڑھا کرے اور پھر ہاتھوں کو آنکھوں اور منہ پر پھیر لیا کرے تو حق تعالیٰ اسے اہل معرفت کا مرتبہ بخشے گا۔

 البدیع

عالم کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو شخص قول و فعل میں اپنے نفس پر سنت کو امیر (حاکم) بناتا ہے وہ حکمت کی باتیں کرتا ہے یعنی اس کا ذہن اس کی فکر اس کی زبان حکمت و شریعت ہی کے ڈھانچے میں ڈھل جاتی ہے اور جو شخص قول و فعل میں اپنے نفس پر خواہش کو امیر بناتا ہے وہ بدعت ہی کی باتیں کرتا ہے۔ اس کا ذہن اس کی فکر اور اس کی زبان بدعت ہی کے چکر میں پڑی رہتی ہے۔

 قشیری فرماتے ہیں کہ ہمارے مسلک کے تین اصول ہیں (١) اخلاق و افعال میں اور کھانے پینے کہ وہ حلال ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرنا۔ (٢) ہمیشہ سچ بولنا۔ (٣) تمام اعمال میں نیت کو خالص کرنا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ جو شخص بدعتی کے بارے میں مداہنت کرتا ہے یعنی اس سے نرمی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال سے سنت کی حلاوت اٹھا لیتا ہے اور جو شخص بدعتی کو دیکھ کر ہنستا ہے یعنی بدعتی کے ساتھ احترام کا معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے ایمان کا نور سلب کر لیتا ہے۔

خاصیت

 جس شخص پر کوئی غم پڑے یا کوئی دشوار کام پیش آئے تو وہ یابدیع السماوات والارض ستر ہزار بار اور ایک قول کے مطابق ایک ہزار بار پڑھے انشاء اللہ وہ غم دور ہو جائے گا اور اس کا کام پورا ہو گا اور اگر کوئی شخص با وضو ہو کر قبلہ کی طرف منہ کر کے یہ اتنا پڑھے کہ سو جائے تو وہ خواب میں جس چیز کے دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو گا دیکھ لے گا۔

الباقی

ہمیشہ باقی رہنے والا ۔

خاصیت

 جو شخص اس اسم پاک کو جمعہ کی شب میں سو بار پڑھ لیا کرے اس کے تمام اعمال قبول ہوں گے اور کوئی رنج و غم اسے نہ ستائے گا۔

 الوارث موجودات کے فنا ہو جانے کے بعد باقی رہنے والا اور تمام مخلوقات کا مالک جیسا کہ بتایا گیا۔ وارث سے مراد ہے موجودات کے فنا ہو جانے کے بعد باقی تمام املاک اپنے مالکوں کے فنا ہو جانے کے بعد اس کی طرف رجوع کریں گی، لیکن یہ مطلب وارث کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ہے ورنہ تو حقیقت میں کائنات کی ایک ایک چیز کا علی الاطلاق ازل سے ابد تک ملکیت میں بغیر کسی تبدل و تغیر کے وہی مالک ہے۔ تمام ملک و ملکوت بالشرکت غیرے اسی کے لئے ہیں اور وہی سب کا حقیقی مالک ہے چنانچہ ارباب بصائر ہمیشہ یہ نداء آیت (لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار) (گوش ہوش سے سنتے ہیں)

 لہٰذا بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے مال و میراث کے فکر میں نہ رہے بلکہ یہ جانے کہ یہ سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے جانا ہے اسی لئے کہا جاتا کہ موتوا قبل ان تموتوا عارفوں کا شعار ہے

دل بریں منزل فانی چہ نہی رخت بہ بند

 بندہ پر اس اسم پاک کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ان اعمال میں اپنی زندگی صرف کرے جو باقیات صالحات میں سے ہیں جیسے تعلیم و تعلم اور صدقہ جاریہ وغیرہ۔ نیز دین کے علوم معارف کو پوری سعی و کوشش کے ساتھ زیادہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرے۔ تاکہ صحیح معنی میں انبیاء کا وارث قرار پائے۔

خاصیت

 جو شخص طلوع آفتاب کے وقت اس اسم پاک کو سو بار پڑھا کرے اس کو کوئی رنج و غم نہیں پہنچے گا اور جو شخص اس اسم کو بہت زیادہ پڑھتا رہے اس کے تمام کام بحسن و خوبی انجام پذیر ہوں گے۔

 الرشید

عالم کا رہنما  بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اپنے بندہ کو اللہ کا راہ دکھانا یہ ہے اور وہ اس کے نفس کو اپنی طاعت و عبادت کی راہ دکھاتا ہے اس کے قلب کو اپنی مغفرت کی راہ دکھاتا ہے اور اس کی روح کو اپنی محبت کی راہ دکھاتا ہے اور جس بندہ کا نفس سنوارنے کے لئے حق تعالیٰ اس کو راہ دکھاتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام امور میں توکل و تفویض الہام فرماتا ہے۔

 منقول ہے کہ ایک دن حضرت ابراہیم بن ادہم کو بھوک لگی تو انہوں نے ایک شخص کو ایک چیز دی جو ان کے پاس موجود تھی اور اس سے کہا کہ اس کو گروی رکھ کر کھانے کا انتظام کرو، جب وہ شخص وہ چیز لے کر وہاں سے نکلا تو اچانک اس کو ایک اور شخص ملا جو ایک خچر کے ساتھ چلا آ رہا تھا اس خچر پر چالیس ہزار دینار لدے ہوئے تھے اس نے اس شخص سے حضرت ابراہیم بن ادہم کے بارے میں پوچھا ور کہا کہ یہ چالیس ہزار دینار ابراہیم کی میراث ہیں جو ان تک ان کے والد کے مال سے پہنچی ہے میں ان کا غلام ہوں میراث کا یہ مال میں ان کی خدمت میں لایا ہوں۔ اس کے بعد وہ شخص حضرت ابراہیم کے پاس پہنچا اور چالیس ہزار دینار ان کے حوالہ کئے۔ حضرت ابراہیم نے کہا کہ اگر تم سچ کہتے ہو کہ تم میرے غلام ہو اور یہ مال بھی میرا ہی ہے تو میں تمہیں اللہ کی خوشنودی کے لئے آزاد کرتا ہوں اور یہ چالیس ہزار دینا بھی میں تمہیں بخشتا ہوں۔ بس اب تم میرے پاس سے چلے جاؤ جب وہ شخص وہاں سے چلا گیا تو ابراہیم نے کہا کہ پروردگار میں نے تو تیرے سامنے صرف روٹی کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تو نے مجھے انتی مقدار میں دنیا دے دی پس قسم تیری ذات کی اب اگر مجھے بھوک سے مار بھی ڈالے گا تو تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا۔

خاصیت

 اگر کوئی شخص اپنے کسی کام کے بارے میں کچھ طے نہ کر پا رہا ہو تو وہ عشاء کی نماز اور اپنے سونے کے درمیان اس اسم پاک کو ایک ہزار مرتبہ پڑھے گا اس کام کے بارے میں جو صحیح اور مفید بات ہو گی اس پر ظاہر ہو جائے گی اور جو شخص اس اسم پاک پر مداومت کرے اس کے تمام امور بغیر سعی و کوشش کے انجام پذیر ہوں گے۔

 الصبور

برد بار کہ گنہگاروں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ لغت میں صبر کے معنی ہیں شکیبائی کرنا اور صبور وہ کہ گنہگاروں کو پکڑنے اور ان کو سزا دینے میں جلدی نہ کرے۔ صبور معنی و مفہوم کے اعتبار سے حلیم کے قریب ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ صبور اس بات پر مشعر ہے کہ اگرچہ فی الوقت بردباری کی لیکن آخرت میں پکڑے گا اور عذاب دے گا جب کہ حلیم بردباری کے مفہوم میں مطلق ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ صبور کے معنی بندہ کو اس کی مصیبت و بلاء میں صبر دینے والا لہٰذا مبارک امانت کے تحمل پر صبر دینے والا، شہوات و خواہش کی مخالفت پر صبر دینے والا اور اداء عبادت میں مشقت پر صبر دینے والا وہی حق سبحانہ و تعالیٰ ہے اس لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہر مصیبت و رنج و آفت و بلاء میں خدا سے صبر چاہے اور اس کی نافرمانی سے دور رہے۔ نیز اس اسم پاک کا بندہ پر یہ تقاضہ ہے کہ وہ کسی کام میں سبکی اور جلدی نہ کرے بلکہ وقار وطمانیت اور تمکین اختیار کرے اور ہر رنج میں اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ طلب کرے۔ آیت (ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین یا ایہا الذین امنوا صبروا وصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ )

 مشائخ میں سے ایک شخص کا یہ مقولہ کتنا ہی عارفانہ ہے۔ جام صبر پیو اگر مارے جاؤ گے شہید اور اگر زندہ رہو گے تو سعید کہلاؤ گے۔

خاصیت

 جس شخص کو رنج و مشقت، درد و تکلیف اور کوئی مصیبت پیش آئے تو یہ اسم تینتیس بار پڑھے اطمینان باطن پائے گا۔ دشمنوں کی زبان بندی و پسپائی حکام کی خوشنودی اور لوگوں کے دلوں میں مقبولیت کے لئے آدھی رات کے وقت یا دوپہر میں اس اسم پاک کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھنا بڑی خاصیت اور تاثیر رکھتا ہے۔

 مشکوٰۃ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں حق تعالیٰ کے جو ننانوے نام منقول ہیں ان کی وضاحت ختم ہوئی ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث میں ان ناموں کے علاوہ کچھ اور نام بھی منقول ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں یہ نام بھی آتے ہیں۔

مزید نام

 الرب۔ الاکرم۔ الاعلیٰ۔ الحافظ۔ الخالق۔ السائر۔ الستار۔ الشاکر العادل۔ العلام۔ الغالب۔ الناظر۔ الخالق۔ القدیر۔ القریب۔ القاہر الکفیل۔ الکافی۔ المنیر۔ المحیط۔ الملک المولی۔ النصیر۔ احکم الحاکمین۔ ارحم الراحمین۔ احسن الخالقین۔ ذوالفضل۔ ذوالطول۔ ذوالقوۃ۔ ذوالمعارج۔ ذوالعرش۔ رفیع الدرجات۔ قابل التوب۔ الفعال لمایرید۔ مخرج الحی من المیت اور احادیث میں یہ نام بھی آئے ہیں۔ الحنان، المنان، المغیث نیز ان کے علاوہ دیگر آسمانی کتب مثلاً توریت وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کے کچھ اور نام نقل کئے جاتے ہیں۔

اسم اعظم

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اے الٰہی میں تجھ سے اپنا مقصود و مطلوب اس وسیلہ کے ساتھ مانگتا ہوں کہ تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ایسا یکتا اور بے نیاز ہے کہ نہ تو اس نے کسی کو جنا اور نہ اسے کسی نے جنا اور اس کو کوئی ہمسر نہیں (یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی، ایسا اسم اعظم کہ جب اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ سوال پورا کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتا ہے یعنی وہ دعا اکثر قبول ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد )

تشریح

 زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ اسم اعظم اللہ کے اسماء میں پوشیدہ ہے تعین کے ساتھ اس کا کسی کو علم نہیں ہے جیسا کہ لیلۃ القدر لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ اسم اعظم لفظ اللہ ہے اور قطب ربانی حضرت سید عبدالقادر جیلانی کے قول کے مطابق اس شرط کے ساتھ کہ زبان سے جب اللہ ادا ہو تو دل میں اللہ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو یعنی اس اسم پاک کی تاثیر اسی وقت ہو گی جب کہ اللہ کو پکارتے وقت دل ماسوااللہ سے بالکل خالی ہو۔

 اس اسم اعظم کے سلسلہ میں علماء کے اور بھی اقوال ہیں چنانچہ باب کے آخر میں وہ اسماء نقل کئے جائیں گے جن کو علماء نے اپنی اپنی رائے و تحقیق کے مطابق اسم اعظم کہا ہے۔

 علماء نے سوال اور دعا میں یہ فرق نقل کیا ہے کہ سوال کے معنی ہیں طلب کرنا جیسے کہ کہا جائے اللہم اعطنی (اے اللہ مجھے فلاں چیز عطا کر) اس اس کے جواب میں اللہ کی عطا یعنی اس کا دینا اور دعا کے معنی ہیں پکارنا جیسے کہ کہا جائے یا اللہ اور اس کے جواب میں اللہ کی طرف سے اجابت یعنی قبول کرنا ہے جیسے اللہ تعالیٰ بندہ کی پکار پر فرمائے۔ لبیک عبدی (ہاں اے میرے بندے)

٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھا تھا اور ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے (نماز کے بعد) یہ دعا مانگی۔ یا الٰہی میں تجھ سے اپنا مطلب اس وسیلہ کے ساتھ مانگتا ہوں کہ تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں کہ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو بہت مہربان بہت دینے والا اور آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے اے بزرگی و بخشش کے مالک! اے زندہ اے خبرگیری کرنے والے ! میں تجھ سے ہی سوال کرتا ہوں۔ (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ سے اس کے بڑے نام کے ساتھ دعا مانگی ایسا بڑا نام کہ جب اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعہ دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ سوال پورا کرتا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

٭٭  حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کا سب سے بڑا نام (اسم اعظم) ان دو آیتوں میں ہے۔ آیت (وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ ) 2۔ البقرۃ:163) (اور تمہارا معبود وہ ایک معبود ہے اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور وہ بخشنے والا اور مہربان ہے) اور سورہ آل عمران کی یہ ابتدائی آیت (الۗمَّ            ۝ۙ  اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ الْحَی الْقَیوْمُ            ۝ۭ ) 3۔ آل عمران:1-2) (الم۔ اللہ کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے اور خبرگیری کرنے والا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)

٭٭٭