یہ پہلا بیک گیر ہے
اسلام آباد میں فوج کی آمد آمد ہے… اﷲ کرے، یہ آمد ملک اور قوم کے لیے مبارک ثابت ہو… اور 3ماہ بعد اسی طرح فوج کی واپسی ہوجائے۔ آمین۔ ہم دراصل فوج کا انتظار کرنے کے عادی ہوچلے ہیں… اس میں شک نہیں، ہمیں اپنے ملک کی فوج سے محبت ہے، محبت ہونی بھی چاہےش کہ وہ ہمارے اپنے ملک کی فوج ہے، کسی دوسرے ملک کی نہیں۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہم نے فوج کو ملک میں آتے اور جاتے دیکھا ہے… فوج آتی بھی ہے اور چلی بھی جاتی ہے… عوام نے ہمیشہ ہی فوج کو خوش آمدید کہا ہے… خاص طو ر پر جب محترم ضیا ء الحق صاحب نے مارشل لگایا تھا، اس وقت تو عوام نے بھنگڑے ڈالے تھے، گویا بھنگڑے ڈال کر خوش آمدید کہی تھی… یہ فوج کا استقبال تھا… ایسا استقبال تو خیر پھر دیکھنے میں نہیں آیا… پورے ملک کے لوگ ہی سڑکوں پر آگئے تھے۔ انہوںنے اس قدر خوشی منائی تھی کہ بیان سے باہر ہے… مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں اور ان گنت دیگیں پکی تھیں… یہ تمام اقدامات اس بات کا مظہر تھے کہ یہ خوشی ان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی… ہے نا عجیب بات، خوشی کا یہ اظہار ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی گرفتاری کی بنیاد پر ہی تھا اور خوشی کا یہ اظہار اس بنیاد پر بھی تھا… کہ قومی اتحاد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گئی تھی… لیکن اس وقت عوام کی… یعنی بھنگڑے
ڈالنے والوں کو، مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو اور دیگیں پکانے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محترم جنرل ضیا ء الحق تین ماہ کے لیے نہیں… 11 سال کے لیے آگئے ہیں… اعلان یہی کیا گیا تھا کہ تین ماہ بعد عام انتخابات ملک میں کرا دیے جائیں گے… اور اقتدار عوامی نمایندوں کے حوالے کر دیا جائے گا… پاکستانی قوم کو تین ماہ کا یہ انتظار 11 سال دُور لے گیا… اور شاید یہ انتظار اور طول پکڑتا کہ سازشیوں نے جنرل ضیا ء الحق کے طیارے کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ محترم جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اس وقت 29 جنرل بھی جہاز میں تھے… وہ بھی جنرل صاحب کے ساتھ شہید ہوگئے۔ یہ اس قدر درد ناک سانحہ تھا اور پوری قوم اور ملک کا اتنا بڑا نقصان تھا کہ اس سے پہلے اتنا بڑا قومی نقصان نہیں ہواہوگا۔ اور پھر ہوا کیا… جنرل ضیاء الحق نے جس ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تھا… اسی کی دُختر محترم بیرق بھٹو ملک کی سربراہ بن گئیں… پھر نواز شریف صاحب کا دور آیا تو ان کے اقتدار کے دروازے سے پھر فوج داخل ہوگئی۔
ایک بار پھر لوگوں نے خوشیاں منائیں… بھنگڑے ڈالے… لیکن یہ بھنگڑے پہلے والے بھنگڑوں کے مقابلے میں بہت ہلکے اور دبلے پتلے تھے… ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے آخری ایام میں جو ملک کی صورت حال تھی… جو جلسوں کا غلغلہ تھا اور قومی اتحاد کی نو جماعتوں نے جو سماں باندھا، محتر م نواز شریف کے خلاف وہ سماں نہیں تھا… عوام ان کی حکومت سے تنگ ضرور تھے… لیکن اتنے تنگ نہیں تھے، جتنے اتحاد کی تحریک کے دنوں میں تھے… اس لیے اس مرتبہ جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ محترم نواز شریف کو قلعہ بند کیا تو لوگوں نے بس ہلکی پھلکی خوشی کا اظہار کیا… اور یہ خوشی بہت جلد غائب ہوتی چلی گئی… یوں لگا جیسے اس مرتبہ لوگ خوش ہوئے ہی نہیں تھے… اور جنہوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا… وہ اظہار مصنوعی تھا اور جنرل مشرف صاحب بھی تین ماہ کے لیے آئے تھے… لیکن ان کے یہ تین ماہ دس سال لے گئے… مشرف کے جانے پر البتہ پورے ملک نے بے تحاشہ خوشیاں منائیں… یوں لگا تھا جیسے پاکستان کا چہرہ… بجھا ہو اچہرہ… اترا ہوا چہرہ… اچانک کھل اٹھا ہے… پورے پاکستان میں خوشی کی ایسی لہر شاید پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
مشرف دور کے بعد پھر بے نظیر کا دور آیا… ان کے قتل کے بعد زرداری صاحب اقتدار کی کرسی پر براجماں ہوئے۔ 5 سال پورے کرنے میں کامیاب ہوئے… انتخابات کے نتیجے میں اب پھر محترم نواز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں… لیکن حالات ڈگ مگ، ڈگ مگ ڈول رہے ہیں… اقتدار کی کشتی صرف سوا سال بعد ہچکولے کھاتی محسوس ہو رہی ہے… میاں صاحب کو چاروں طرف سے مخالفتوں کا زور دار سا منا ہے، مخالف ہوائوں کے تھپیڑے میاں برادری کو بے سکون کیے دے رہے ہیں… ان حالات میں ا نہیں سوجھی بھی تو کیا… یہ کہ چودہ اگست کے مارچ سے بچنے کے لے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔
آج یکم اگست ہے… فوج اسلام آباد میں آنا شروع ہو گئی ہے… لیکن چونکہ اعلان ہے… فوج کی یہ آمد صرف 3 ماہ کے لیے ہے اور بس… اس کے بعد فوج اسلام آباد سے واپس چلی جائے گی… لیکن… محترم میاں نواز شریف اور محترم شہباز شریف نے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ سیاسی طاقتوں نے اگرکچھ اور مارچوں کا پروگرام ترتیب دے لیا تو ہوگا کیا… کیا پھر فوج سے کہا جائے گا کہ ابھی آپ نہ ہی جائیں… ابھی آپ ٹھہرے رہیں… کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے… پھر کل کلاں کو اگر لاہور میں کوئی ایساپروگرام سیاسی جماعتیں ترتیب دے دیتی ہیں تو کیا لاہور میں بھی اور اس کے بعد کراچی میں فوج بلوا لی جائے گی…؟ فوج جو پہلے ہی وزیر ستان میں اُلجھی ہوئی ہے… فوج جو پہلے ہی سرحدوں پر کم تعداد میں رہ گئی ہے… اس وقت کیا صورتِ حال سامنے آئے گی… کچھ نہیں کہا جا سکتا… بہتر تھا، پہلے ہی اس پر غور کر لیا جاتا اور 14 اگست کے مارچ کا کچھ اور علاج سوچ لیا جاتا… فوج کی یہ جزوی آمد ورفت الجھن کا سبب بن جائے اور ہم وہیں نہ جا کھڑے ہوں… جہاں پہلے بھی جا کھڑے ہوتے رہے ہیں… یہ جا کھڑے ہونا ہمارا معمول بنتا جا رہا ہے… اور ملک کو اسی ادھیڑ بن میں بیگ گیر ہی بیگ گیر لگتے چلے جاتے ہیں… تازہ تازہ جمہوری حکومت کا یہ پہلا بیگ گیر ہے… اﷲ اپنا رحم فرمائے، آمین۔