یہی وقت کی آواز ہے

یہی وقت کی آواز ہے
اخبارات اور چینلز پر ان دنوں حضرت شیخ الا سلام کاتوتی بول رہا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی کو سنائی نہیں دے رہی، ہر شخص اپنی اپنی راگنی سنارہا ہے… بھانت بھانت کی بولیاں ہیں جو اخبارات کی زینت بن رہی ہیں… حضرت شیخ الاسلام کو تقریباً سبھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں… ڈیڑھ سال پہلے بھی کچھ ایسے ہی مناظر پاکستان کے سارں لوگوں نے دیکھے تھے۔ اس وقت علامہ صاحب کا نعرہ تھا : ’’ ریاست بچائو۔‘‘ یعنی میں ریاست بچانے کے لیے آرہا ہوں۔
آج یہ نعرہ سنائی نہیں دے رہاتو کیا اس مرتبہ ان کا کوئی ایجنڈ نہیں ہے…؟ اس بار حضرت ریاست بچانے کے لیے تشریف لائے ہیں یا ان کی آمد میں کوئی اور غر ض پنہاں ہے…؟ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی… حضرت صاحب کوئی تو اعلان فرما دیتے کہ میں اس مرتبہ اس غر ض سے آیا ہوں اور پاکستان کے لوگ یہ بات کم از کم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ غرض مند دیوانہ ہوتا ہے… محاورۃً نہیں، حقیقتاً۔ ویسے اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں… بلاوجہ آسمان اور زمین ایک کیے جا رہے ہیں، صرف اور صرف پس منظر میں جھانک لیا جائے تو بہتوں کا بھلا ہوگا اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے… سکھ کے وہ سانس جو ہر پاکستانی سے چھنتے جا رہے ہیں اور چھنتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ چھننے کا یہ عمل اس قدر مسلسل ہے اس عمل کو بھی سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا… پے در پے واقعات آندھی اور طوفان کی طرح پاکستان کی جھولی میں گرتے ہی چلے جاتے ہیں… اس جھولی میں جس میں پہلے ہی سو چھید ہو چکے ہیں… انشا جی ٹھیک ہی کہا کرتے تھے : ’’ جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا بے چارے لوگ ایک واقعے سے سنبھل نہیں پاتے کہ دوسرا انہیں آلیتا ہے

… یوں لگتا ہے جیسے سارے جہاں کا درد بے چارے پاکستانیوں کے جگر میں آسمایا ہے… اور کچھ ایسا آسمایا ہے کہ نکالے نہیں نکل رہا۔
خیر چھوڑیں! بات تو ہو رہی تھی حضرت کی… اس وقت حضرت جی کو پُراسرار ترین شخصیت کے طور پر تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں… ان کی شخصیت کے گرد اسرار ہی اسرار ہیں… گویا انہیں اس وقت کا پُراسرار ترین شخص ہونے کا اعزاز حاصل ہے… اور جب تک ہم ان کے ماضی میں نہیں جھانکیں گے، یہ معمہ حل ہونے سے انکاری ہی رہے گا۔ نئی پود کے لیے ان کے ماضی میں جھانکنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن پاکستان میں ان گنت لوگ ایسے ہیں جن کے لیے ایسا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں، یعنی : دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
مطلب یہ کہ پاکستان میں اب بھی ان گنت لوگوں کو اس زمانے نابغۂ روز گار علامہ صاحب اچھی طرح یاد ہیں… اور ان کی باتیں از بر ہیں… تو آیئے! میرے ساتھ… آپ بھی ان کے ماضی میں جھانک لیجیے… یہی وقت کی آواز ہے، یہی درویش کی صدا ہے، وقت کی آواز پر لبیک کہے بنا چارہ نہیں، اس لیے کہ عوام کو یارا نہیں… بے یارو مدد گار ہیں بے چارے… صحرا میں گھوم رہے ہیں کہ یہ آخر ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ ہم نے ایسا کون سا جرم کر ڈالا ہے… ہمیں یہ سزا ئیں مل رہی ہیں… ہر پل کوئی نہ کوئی ہّوا کھڑے ہونے کے لیے تیار ملتا ہے… جیسے ان ہوّوں کو اور کوئی کام ہی نہ ہو۔ بات پھر ادھر سے ادھر ہو ئی جاتی ہے… میں اس جرم کا ذکر کالم کے آخر میں کروں گا۔
میرے سامنے اس وقت 8 جولائی 1993ء کے اخبار کا تراشہ ہے۔ اسے میں نے شاید آج کے دن کے لیے تراش لیا تھا۔ ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس اختر حسینلیہ کا بھارت میں علاج کرایا۔ ادارے کے لیے 180 کنال کا پلاٹ دیا، سیمنٹ کی ایجنسی بھی دی۔‘‘ ’’ انہیں سیاست میں آنے کا بہت شوق تھا، مذہب سے محبت محض ڈھونگ ہے، جس انداز سے انہوںنے پیسہ اکٹھا کیا، ایسے عالم دین سے اس کی توقع نہیں۔‘‘
’’میاں شریف کی مدد سے انہوںنے گھر خریدا۔ بیٹوں کے لیے سیمنٹ کی ایجنسی لی اور پیسے لیے۔ ان کی گاڑیاں استعمال کیں۔ پھر ان کے احسانات کی کوئی پروا نہیں کی۔‘‘
’’ان کے رویے میں احسان شناسی اور شکر گزاری کا کوئی عنصر نہیں، میاں شریف نے بے پناہ وسائل دیے تو وہ قناعت نہ کرکے اور محسن کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔‘‘
’’ پیپلز پارٹی سے بڑی رقم وصول کی، ان کے طرز ِ عمل سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار آدمی ہیں… وہ دشمن فوبیا کا شکار ہو گئے ہیں۔‘‘
’’اپنے خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، اپنی شخصیت کو خاص رنگ دیتے ہیں، اس ذہنی ساخت کی شخصیت سے کچھ بھی ممکن۔‘‘
’’ یہ تمام سرخیاں اس فیصلے سے لی گئی ہیں… ورنہ فیصلہ بہت طویل ہے… اور عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ شیخ الاسلام نے اپنی رہائش پر فائرنگ خود کرائی تھی، یعنی فائرنگ کا ڈرامہ رچایا تھا… دیکھا جائے تو ڈراموں اور قادری صاحب کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ ساتھ ساتھ ساتھ چلا ہی آرہا ہے… انہوں نے ڈراموں کا پیچھا نہیں چھڑا یا پھر ڈراموں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا… البتہ ہم ان سے اس فیصلے کی روشنی میں درخواست کر سکتے ہیں یہ پاکستان کا پیچھا ضرور چھوڑ دیں… ملک پہلے ہی ان گنت مسائل میں الجھا ہوا ہے… اور پھر یہ اپنا کوئی عجوبہ ایجنڈا لے کر آجاتے ہیں… اور جاتے ہوئے بتا کر بھی نہیں جاتے کہ میں کیوں آیا تھا…؟ ایک آدھ ماہ بعد پھر یہی ہونا ہے… آپ دیکھ لیجیے گا۔ویسے لگے ہاتھوں ایک بات اور…اُس فائرنگ میں اور اس فائرنگ میںمماثلت دکھائی دیتی ہے۔
اب رہ گئی یہ بات کہ آخر اس قسم کے واقعات اس قدر تسلسل سے پاکستان کا مقدر کیوں بن گے ہیں؟ ہم نے ایسا کیا جرم کر ڈالا ہے…؟ تو جواب اس کا یہی بنتا ہے… ہم نے پاکستان یہ اعلان کرکے حاصل کیا تھا… ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔‘‘ اور ہم نے اس مقصد کو پس پشت ڈال دیا ہے… یہ ہے ہمارا اصل جرم۔

دہلیز
ملک کی صورت ِحال عجیب و غریب کب نہیں تھی کہ یہ بات ایک بار پھر کہی جائے، کہنے کا فائدہ بھی کیا…؟ الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے گئے تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ عوام کو ان کے حقو ق ان کی دہلیز پر پہنچائیں گے… عوام اس انتظار میں ہیں ان کے حق ان کی دہلیز پر کب پہنچیں گے…؟ عوام پُرامید ہیں اور حکمران ان سے زیادہ پُراُمید کہ ان شا ء اللہ ایسا ہو گا… وہ دن ضرور آئے گا… جب ہر شخص کو اس کے حقوق گھر بیٹھے ملا کریں گے… اور لوگ حکومت کے گن گایا کریں گے… ’’دہلیز‘‘… یہ لفظ اپنے اندر ایک ایک خاص قسم کی اپنائیت لیے ہوئے ہے… اس کا عام ترجمہ ہے ڈیوڑھی… ہم اس لفظ کو اپنی کہانیوں میں، اپنے مضامین اور اپنے کالموں میں خوب استعمال کرتے ہیں…انسان یوں بھی اپنی دہلیز میں خود کومحفوظ خیال کرتا ہے… اسے اطمینان ہوتاہے میں اپنی دہلیز میں ہوں…
ہمارے حکمران عوام کے حقوق ان کی دہلیز تک پہنچاتے ہیں یا نہیں…؟ یا کب تک پہنچاتے ہیں؟ اور کس حد تک پہنچاتے ہیں؟ اس سے قطع نظر… ’’دہلیز‘‘ بار بار میرے سامنے آجاتی ہے… پتا نہیں، اس میں کیا بات ہے… جب سے کسی کالم میں یہ بات پڑھی ہے کہ حکمرانوں نے الشنلا سے پہلے بلند بانگ دعوے کیے تھے ’’عوام کو ان کے حقوق ان کی دہلیز پر ملیں گے…‘‘ اسی وقت سے نہ جانے کیوں لفظ ’’دہلیز‘‘ دماغ میں ہل چل مچائے جا رہا ہے

… میرے دماغ میں ایک کھچڑی سی پک رہی ہے۔ یہ کھچڑی اورنگ زیب عالم گیرؒ کی کھچڑی کی یاد تازہ کر رہی ہے… جی ہاں! انہوں نے بھی تو ایک بار کھچڑی پکوائی تھی… صرف اپنے با ورچی کی خاطر… چلیے! یہ تو زیادہ دور کی بات نہیں… اس با ورچی کو بھی اپنی ’’دہلیز‘‘ پر سب کچھ مل گیا تھا…
ہوا یوں تھا اورنگ زیب عالم گیرؒ کے لیے ایک نیا باورچی رکھا گیا… پرانا باورچی بوڑھا ہو گیا ہوگا… شاید اس لیے… باورچی بہت خو ش تھا کہ وہ بادشاہِ ِ ہند کا باورچی بن گیا ہے… بس اس کے وارے نیارے ہیں… لیکن وہ ان واروں نیاروں کو ترس گیا… اورنگ زیبؒ تو طرح طرح کے کھانے کھاتے ہی نہیں تھے… وہ تو کھچڑی کھالیتے تھے… اس بے چارے کو انعام و اکرام کیا ملتا… تنگ آکر اس نے اورنگ عالم گیرؒ کے سامنے ہاتھ جو ڑ دیے۔ کہنے لگا : ’’حضور! میں تو بھر پایا… ایسی ملازمت سے… مجھے تو آپ فارغ کردیجیے۔‘‘ بادشاہ نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو اس نے کہا: ’’میرا خیال تھا… شاہِ ہند کا باورچی بن گاھ ہوں… روز روز طرح طرح کے کھانے پکانے ہوا کریںگے… اور ان کے ذائقوں پر انعام پر انعام ملا کریں گے… لیکن آپ تو دال، دلیا اور ساگ پات کے سواکچھ کھاتے ہی نہیں… مجھے انعام کسے ملے…؟‘‘
اورنگ زیب عالمگیرؒ اس کی بات سمجھ گئے… مسکرائے اور کہنے لگے : ’’اچھا! آج تم ایسا کرو کہ آدھ پائو دال کی کھچڑی پکائو۔‘‘ باورچی کا منہ بن گیا کہ لو… یہ انعام دینے کی تیاری ہو رہی ہے… لیکن مرتا کیا نہ کرتا، کھچڑی تو پکانی پڑی… وہی کھچڑی جو میرے دماغ میں یہ کالم لکھتے وقت پک رہی ہے… شاہی باورچی کھچڑی تیار کر کے لے آیا۔ اورنگ زیب عالمگیرؒکے سامنے رکھ دی… بادشاہ نے اپنے وزرا اور امرا کے حساب سے اس کھچڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں ایک تھال میں لگا دیں۔
پھر اس سے بولے : ’’میر ے تمام وزرا اور امرا کے پا س جائو… ان سب کو ایک ایک ڈھیری دینا اور ان سے کہنا، بادشاہ کی طرف سے یہ آ پ کو تحفہ بھیجا گیا ہے۔‘‘
یہ سن کر با ورچی کا منہ بن گیا کہ اس سے کیا ہوگا…؟ یعنی کھچڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں سے میرا کیا بھلا ہو گا…؟ ظاہرہے، اس وقت اس باورچی کے دما غ میں بھی کھچڑی پک رہی ہو گی… جیسی آج کل عوام کے دماغوں میں پک رہی ہے… لیکن وہ با ورچی تھا اورنگ زیب عالمگیرؒ کا… اور ہم عوام ہیں اپنے حکمرانوں کے… ہماری دہلیزیں تو لوڈ شیڈنگ سے مالا مال ہیں۔ ہاں! یہ ضرور کہا جا سکتا ہے… حکمرانوں کا وعدہ تھا… عوام کے حقوق ان کی ’’دہلیز‘‘ پر پہنچا ئے جائیں گے… ہم دیکھ رہے ہیں… لوڈ شیڈنگ ہر دہلیز پر موجود ہے… حکمرانوں نے یہ وعدہ تو پورا کر دیاہے… ابھی 4 سال باقی ہیں… باقی وعدے بھی اسی طرح ’’دہلیز‘‘ پر پہنچیں گے۔
اورنگ زیبؒ کے باورچی کی بات درمیان میں رہ گئی… وہ بے چارہ بھی کیا سوچے گا… کھچڑی کی ڈھیریوں والا تھال سرپر رکھے جب وہ پہلے وزیر کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ بادشاہ نے آپ کو تحفہ بھیجا ہے تو وہ اُچھل پڑا… نہایت ادب اور احترام سے بادشاہ کا تحفہ وصول کاہ… اور با ورچی کو انعام واکرام سے لا د دیا… باورچی بے چارے کے تو وہم وگما ن میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو گا… اب تو اس کی باچھیں کھل گئیں… کیونکہ ابھی تو اس نے صرف ایک ڈھیری ’’سرو‘‘ کی تھی… اس کے پاس تو انعام و اکرام سے لدنے کے لیے بہت سی ڈھیریاں موجود تھیں… وہ باری باری سب کے پاس آیا… او ر سب نے اسے انعام واکرام سے لاد دیا… گویا دیکھتے ہی دیکھتے… ہر چیز اس کی دہلیز پر پہنچ گئی… وہ میری یا آپ کی دہلیز نہیں تھی… مغل بادشاہ کے باورچی کی دہلیز تھی… یہ بات مجھے اس لیے بھی یاد آگئی ہمارے موجود ہ حکمرانوں کوبھی مغلیہ حکمرانوں سے ایک نسبت ہے… انہیں چاہیے اس نسبت کا ہی کچھ خیال کریں۔ لوگوں کی دہلیز پر ان کے حقوق پہنچا ئیں… یہ ان کا وعدہ بھی تو ہے نا!… ان کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق ان کی دہلیز تک پہنچا نے کا مطلب کیا ہے…؟ مطلب یہ کہ اب میں مطلب کی بات پر آتاہوں… مہربانی فرما کر آپ مجھے مطلبی نہ سمجھیں…
حضرت عمرؓ یعنی مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ رات کے وقت رعایا کے حالات جاننے کے لیے گشت کر رہے تھے… ایک بد و اپنے خیمے سے باہر بیٹھا نظر آیا… آپ جاکر اس کے پاس بیٹھ گئے۔ اس سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں… ایسے میں خیمے میں تکلیف میں مبتلا خاتون کی آواز یں آنے لگیں… حضرت عمرؓ نے پوچھا : ’’یہ کون رو رہا ہے؟‘‘ ا س نے بتایا: ’’میری بیوی درد ِ زہ میں مبتلا ہے… اور اس کی مدد کے لیے کوئی خاتون یہاں ہے نہیں۔‘‘ یہ سن کر آپ فوراً اُٹھے، گھر آئے… اپنی زوجہ محترمہ حضرت اُمِ کلثومؓ سے فرمایا : ’’اٹھیں! آپ کو میرے ساتھ چلنا ہے… ایک خاتون کو آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ آپ نے انہیں صورت ِحال بتائی تو انہوں نے ضرورت کی چیزیں ساتھ لے لیں۔ آپ انہیں ساتھ لے کر خیمے پر آئے… بدو کو بتایا : ’’یہ میری بیوی ہیں… کیا انہیں اندر جانے کی اجازت ہے؟‘‘ بد و نے حیرت کے عالم میں سر ہلا دیا… حضرت اُمِ کلثومؓ خیمے میں داخل ہوگئیں… وہ اندر اپنے کام میں مصروف ہوگئیں… آپ خیمے سے باہر بد و سے باتیں کرنے لگے… ایسے میں بچے کے رونے کے آواز آئی… ساتھ ہی حضرت اُمِ کلثومؓ نے اندر سے کہا: ’’امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو مبارک باد دیجیے ! اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا عطا فرمایا ہے۔‘‘
بدو نے امیرالمؤمینن کا لفظ سنا تو اُچھل پڑا… اب اسے پتا چلا جو شخص اپنے گھر سے اپنی بیوی کو رات کے وقت اس کی بیوی کی مدد کے لیے لایا ہے… وہ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمرؓ ہیں… وہ دھک سے رہ گیا۔ آپ کے سامنے با ادب ہو گیا، ورنہ اس سے پہلے تو وہ ان سے ایک عام آدمی کی طرح باتیں کرتا رہا تھا… امیرالمؤ منین حضرت عمرؓ نے اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھے تو فرمایا : ’’کچھ خیال نہ کرو… ( یعنی گھبرانے کی ضرورت نہیں ) کل میرے پاس آنا، میں بچے کا وظیفہ مقرر کر دوں گا۔‘‘ آپ نے دیکھا… حقوق ’’دہلیز‘‘ پر پہنچے یا نہیں…؟ اسے کہتے ہیں دہلیز پر حقوق پہنچنا… اگرچہ اس بے چارے بدو کی کوئی دہلیز نہیں تھی… لیکن دہلیز کے نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے… اصل بات تو حقوق کے پہنچانے کی ہے… اور ملاحظہ فرمائیں :
ایک رات حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ عنہ کے دروازے پر پہنچ گئے… حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ باہر آئے تو آپ کو دیکھ کر عرض کیا : ’’آپ نے کیوں تکلیف کی…؟ مجھے بلا لیا ہوتا۔‘‘ آپؓ نے فرمایا : ’’مجھے ابھی ابھی معلوم ہو اہے شہر سے باہر ایک قافلہ آیاہے… وہ لوگ تھکے ماندے ہوں گے… آئو چل کر ان کا پہرہ دیں۔‘‘ چنانچہ دونوں صاحبان گئے۔ رات بھر پہر ہ دیتے رہے… ایک روز آپ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے… ایک شخص کو دیکھا، وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا… آپؓ نے اس کے پاس جا کر کہا: ’’دائیں ہاتھ سے کھائو۔‘‘ اس نے کہا: ’’جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جاتا رہا۔‘‘ حضرت عمرؓ یہ سن کر اس کے پاس بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ ساتھ میں کہنے لگے : ’’افسوس ! تمہیں وضو کون کراتا ہو گا…؟ سرکون دھوتا ہوگا؟‘‘ پھر آپؓ نے اس کے لیے ایک خادم مقرر کر دیا… اس کے بعد تمام ضرور ی چیزیں مہیا کر دیں… یعنی اس کی دہلیز پر پہنچا دیں… یہ مضمون دہلیز سے شروع ہواتھا… دہلیز پر ختم ہو رہا ہے… اللہ سے دعا ہے… ہمارے حکمران اس ’’دہلیز‘‘ کا کچھ خیال کر لیں… اور درویش کی صدا کیا ہے…

غربت کی لکیر کے فقیر
آج کل ہمارے ملک میں چینلوں پر اور اخبارات میں غربت کی لکیر کا ذکر بہت سننے میں آرہا ہے… غربت کی لکیرکا مؤد بانہ یا مہذبانہ نام ’’خطِ غربت‘‘ ہے… میں اس کے کلیے سے واقف نہیں… نہ جانے غربت کی یہ لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے… ؟ یعنی اس لکیر کی زد میں کون آتا ہے، کون نہیں آتا؟ یا پاکستان کے کتنے فیصد لوگ خط ِ غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اور کتنے فیصد لوگ خط ِ غربت کے اوپر…؟ اب ظاہر ہے کچھ فیصد ایسے بھی ہوں گے جو اس لکیر پر بھی زندگی بسر کررہے ہیں اور شاید ہم اس طبقے کو متو سط طبقہ کہتے ہیں… اب کوئی کب اس خط کے نیچے چلاجاتا اور کب کوئی اوپر آجاتا ہے… اس بارے میں بھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ ہمارے پاکستان میں حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے… حالات بھی شاید خطِ غربت کے حسا ب سے ہی اپنی گزر بسر کر تے ہیں… ایک بات البتہ یقین سے کہی جا سکتی ہے… ہمارے ملک کے حکمران اور سیاست دانوں کا تعلق خطِ غربت سے دور کا بھی نہیں ہے… انہیں تو معلوم ہی نہیں، خطِ غربت ہو تا کیا ہے… یا یہ بھی کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں معلوم ہونا ضرور ی ہے… جی نہیں! ان کا کبھی خطِ غربت سے واسطہ نہیں پڑا… اور جب تک وہ حکومت میں ہیں یا جب تک سیاست میں ہیں، واسطہ پڑنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے، بلکہ وہ واسطہ پڑنے سے بالکل بے نیاز ہیں… جی ہاں! ان کی شان ِ بے نیازی کا طرئہ امتیا ز یہی ہے انہیں معلوم ہی نہیں، خط غربت کہتے کسے ہیں

… ’’خط امارت‘‘ سے ضرور یہ لوگ واقف ہیں، لیکن مقابلے کی حدتک… یعنی کون کتنا خط ِامارت سے اوپر ہے اور کون کتنا خط ِ امارت سے نیچے ہے… خیر! خط امارت کایہاں کیا ذکر…کہ با ت صرف خط ِ غربت کی ہو رہی ہے…
ویسے سچ بات یہ ہے کہ میر ا جی چاہتا ہے… پورے ملک کے اوپر ایک خط کھینچ دیا جائے… اس خط کا نام ہو خط غربت… اور پاکستان کے تمام لوگ اس خط کے نیچے زندگی بسر کریں۔ کوئی اس خط سے اوپر دیکھنے کی بھی جرأت نہ کرے… جہاں کوئی ذرا سا سر اُبھارنے کی کوشش کرے… غربت کی یہ لکیر وہیں اس کاسر دبا دے… خط ِغربت کے اوپر ایک شخص بھی نظر نہ آئے… آپ سوچ بھی نہیں سکتے… اس وقت پاکستان کا کیا حال ہوگا؟ اس صورت میں پاکستان کیا چیز ہوگا؟ پوری دنیا میں پاکستان کی واہ واہ ہو جائے گی… دنیا بھر کے لوگ پاکستان کی مثالیں دیتے نہیں تھکیں گے دیکھو… ! یہ ہے وہ پاکستان… جس میں کبھی خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو پوچھا تک نہیں جاتا تھا… یہ کیسا انقلاب آگیا… کہ خطِ غربت کے اوپر کوئی رہا ہی نہیں… سب کے سب نیچے آگئے… اس وقت آپ دیکھیے گا… پاکستان میں سب کے سب لوگ خوش حال ہوں گے، خو ش ہوں گے، مطمئن ہوں گے اور آپس کی جنگیں پر لگا کر اڑ جائیں گی گے… دہشت گردی اپنی جڑیں خود چھوڑ دے گی اور بے ننگ ونام ہو کر رہ جائے گی… اور یہ شعر الاپتی سنائی دے گی… لو وہ بھی کہہ رہے ہیں، بے ننگ ونام ہے یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
ویسے کوئی زیادہ دور کی بات نہیں… بس صرف 1400 سال پہلے کی ہے… ہم ذرا سا سر ابھار کر جھانکیں تو آپ کو تمام مسلمان خط ِغربت کے نیچے زندگی گزارتے صاف نظر آئیں گے… اور اتنے خوش باش نظرآئیں گے کہ کیا کبھی کوئی قوم نظر آئی ہوگی… جی ہاں! دیکھ لیں… ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھاجو خط غربت کے اوپر رہ رہا ہو… یوں لگتا ہے…
یہ لو گ جانتے ہی نہیں… زندگی گزارنے کے لیے کسی خ�ہے… اغراض کی دنیا کا… اغراض کے بندوں کا… اغراض کی جمہوریت کا… اغراض کے حکمرانوں کا… غربت کی لکیر کا ذکر کرکے یہ لوگ ہمارے احسا سات پر ڈاکے ڈالتے ہیں… یہ کہتے ہیں… یہ ہے وہ تحفہ جو ہم نے تمہیں دے دیا ہے… ا ب رہیے اس کے نیچے دب کر…
آپ خود دیکھ لیں، ا س بات کو… اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا… ہم سب کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے لوگ غربت کی لکیر کو جانتے تک نہیں… انہیں معلوم ہی نہیں کہ ہم جن کے ووٹوں سے یہاں تک پہنچے ہیں… وہ کس حال میں ہیں…؟ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں… یا لکیر کے اوپر… انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں۔ وہ تو بس یہ کہتے اور بغلیں بجاتے نظر آتے ہیں… : ’’جہاں رہو… خوش رہو… ہمیں ووٹ دیتے رہو اور ووٹ لینے کے بعد کون کسی کا۔‘‘
اخبار ات کی اطلاعات کے مطابق، یعنی تحقیقا ت کی روشنی میں ملک کے 50 فیصد لوگ خط ِغربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں… ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا کام چلتا ہی ان سے ہے… یعنی ان کے خط غربت کے نیچے رہنے سے ہی ان کے ایوان اقتدار قائم ہیں… خط ِ غربت کو پھلانگ کر جس روز یہ 50 فیصد لوگ اوپر آگئے… اوپر والوں کو آٹے دال کا بھائو بالکل معلوم ہو جائے گا… آٹے دال کے بھائو سے یہ لوگ اس طرح ناآشنا ہیں جس طرح خط ِغربت کے نیچے بسرکرنے والے ان کی اصل زندگیوں سے ناآشنا ہیں… یہ وصف تو صرف اسلامی نظام میں ہے… اسلامی نظام ایسے کسی خط ِغربت کونہیں مانتا… اس میں کوئی ایسا خط نہیں ہے… نہ خطِ امارت کو مانتا ہے… کیونکہ… ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز … نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز …!!

چاغی سے واہگہ تک / کیا ہونے والا ہے؟
پہلے چند خبریں سنیے : ’’ افغانستان میں ہماری موجودگی سے پا ک فوج مطمئن ہے۔‘‘امریکا۔ ’’نوا ز شریف سے حکومت میں آنے کے بعد تعلقات بہتر ہو ئے۔‘‘امریکا۔ ’’نریندر مودی کے بر سر ِاقتدار آنے پر انڈیا کے مسلمان سہم گئے ہیں۔‘‘ قومی اخبارات۔ ’’پاک فوج ہر حال میں قبائلی بھائیوں سے تعاون جاری رکھے گی۔‘‘ ’’دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے، ان کی تعداد کم ہو رہی ہے۔‘‘ آرمی چیف۔ ’’ طالبان سے مذاکرات کے مثبت نتائج نکلے، جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘وزیر ِداخلہ۔ ’’دھماکوں کی گونج میں بات نہیں ہو سکتی، پاکستانی وزیرا عظم کو بتادیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضرروی ہے۔‘‘ ’’شمالی وزیر ستان میں پھر کرفیو نافذ… ڈرون کی نیچی پروازیں… جاسوس طیارے گھومتے رہے۔ ’’ کہا تھا: مذاکرات کامیاب نہیں ہونے والے۔‘‘ مولانا فضل الرحمن۔ ’’طالبان سے مذاکرات یا آپریشن… دو ہفتوں میں فیصلہ متوقع۔ یہ تمام خبریں فوری تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں… نریندر مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد ملک کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔
آنے والے دو ہفتوں میں جو فیصلہ ہونے والا ہے۔ وہ فیصلہ بھی دراصل اس نئے تناظر میں ہونے والا ہے اور ظاہر ہے، وہ آپریشن کا ہی ہو گا… آٹھ دس ماہ سے جاری مذاکرات کی بازگشت آخر دم توڑنے لگی ہے… اور یوں سمجھ لیں… آخری سانسیں لے رہی ہے..

. چلیے! ایک بات تو کنارے لگی… دیکھنا تو اب یہ ہے… حکومت جو فیصلہ کرنے چلی ہے… وہ ہمارے حق میں کہاں تک مفید ہو گا…؟ کہیں ایسا تو نہیں اس کے نتیجے میں پورا ملک آگ کی لپیٹ میں آجائے گا، اللہ نہ کرے… ایسا وقت آئے… لیکن اگر آپریشن کا فیصلہ کر لا. گیا تو پھر امکانات یہی ہیں کہ ہمیں آگ او ر خون میں زندگی بسر کرنی ہوگی… اسی آگ اور خون کے کھیل میں مدد دینے کے لیے امریکی انخلا بھی کھٹائی میں جا پڑا ہے… وہ اس آگ کو بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا اور اس معاملے میںبھارت کی نئی حکومت ا س کے شانہ بشانہ ہوگی… کیونکہ امریکا کا یہ بیان اسی طرف اشارہ کر رہا ہے افغانستان میں ہماری موجودگی سے پاک فوج مطمئن ہے… اور یہ کہ نواز شریف کے حکومت میں آنے سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں…
ان حالات میں ہم نے 28مئی کے یومِ تکبیر سے بھی کوئی کام نہیں لیا… حکومت ا س دن سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی تھی… بس اتنا ہوا ہے کہ حسبِ معمول اخبارات نے کالم شائع کر دیے۔ چینلز نے یومِ تکبیر کا ذکر کر دیا اور بس… کوئی عملی کام نہیں کیا گیا… میں آپ کو یاد دلاتا چلوں… 65 ء کی جنگ کے بعد ہر سال 6ستمبر کو شہدا کی قبروں پر جانے کا ایک معمول اختیار کیا گیا تھا…
بڑے بڑے فوجی افسران، سول افسران اور صحافی حضرات اور ادیب حضرات جمع ہو کر ایک جلوس کی شکل میں شہدا کی قبروں پر جاتے تھے اور انہیں نذرانہ عقیدت پیش کرتے تھے… پھر یہ خبریںفوراً اخبارات کی زنیت بنتی تھیں، اس سے قوم میں ایک جذبہ ابھرتا تھا، لیکن ہم نے تو یہ معمول بھی ترک کر دیا ہے… یہ بات میں نے اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر لکھی ہے… کیونکہ اب اخبارات میں 6ستمبر کو یہ ذکر پڑھنے میں نہیں آتا… اسی طرح یومِ تکبیر کے ذریعے قوم کے جذبات کو ولولہ عطا کیا جا سکتا تھا… حکومت 28مئی کے دن عملی پروگرام ترتیب دیتی… بہت سے وزرا، اُمرا، صحافی، اخبار نویسی اور ادیب حضرات چاغی جایا کرتے… وہاں قوم کے ساتھ مل کر یومِ تکبیر کے نعرے لگوائے جاتے… ان نعروں کی گونج ا س قدر بلند ہوتی چاغی سے واہگہ تک
سنائی دیتی… بلکہ نعرہ لگتا چاغی میں اور جواب دیا جاتا واہگہ بارڈر سے… اس نعرے کی گونج سے انڈیا میں مسلمانو ں کے چہروں پر ضرور رونق آجاتی… لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا… تاہم ابھی کچھ نہیں بگڑا… 6ستمبر آیاچاہتا ہے… اس تاریخ کو دہرانے کا معمول اب بھی اپنا یا جاسکتاہے… قوم کو بتایا جا سکتا ہے… ہم کیا ہیں… ہمارے پاس کیا کچھ ہے… ہم کون ہیں، ہمیں ایک مسلمان کی زبان میں بات کرنی چاہیے… ہمیں ہر آن یہ بات یاد رہنی چاہیے… ہم ایٹمی قوت ہیں… ہمارے بچے بچے میں یہ احسا س موجزن ہونا چاہیے… ہم ایٹمی طاقت ہیں… چاغی کے پہاڑ اس بات کے گواہ ہیں اور ہم زندہ قوم ہیں… 6ستمبر کے شہدا کی قبریں اس بات کی گواہ ہیں…

ذائقوں کی تلاش میں
بہت دنوں سے ذائقوں کی تلاش میں سر گرداں ہوں… آپ کو معلوم ہی ہے… لوگ ذائقوں کے کتنے شوقین ہیں… یہ تمام ہوٹل اور ریسٹورنٹس انہی کے دم سے تو جگ مگ کر تے ہیں… ذائقوں کے متوالے لوگ نہ ہوں تو ہوٹلوں کے کار وبار ماند، بلکہ سر د پڑ جائیں… ان حالات میں میرا ذائقوں کی تلاش پر ڈٹ جانا کچھ عجیب بھی نہیں… آج کل فاسٹ فوڈ والوں کے وار ے نیارے ہیں… ان کی چاندی ہی نہیں ، سونا بھی انہی کا ہے… بلکہ بچھونا بھی… آپ آگے چل کر کہہ سکتے ہیں… سارا اوڑھنا بچھونا ہی ان کا ہے ۔ فاسٹ فوڈ نے نئی نسل کے لوگوں کو ذائقوں سے کچھ اس طرح متعارف کر ایا ہے کہ وہ بس انہی چیزوں کے دیوانے ہو گئے ہیں… ایک روز ایک اعلیٰ پولیس افسر سے ملاقات ہو گئی… کہنے لگے… دوپہر کاکھانا میرے ساتھ کھائیں… مجھ پر گھبراہٹ طار ی ہو گئی… ایسے موقعوں پر طاری ہونے کے لیے گھبراہٹ صاحبہ بہت تیز ہیں… موقعے کی تا ڑ میں رہتی ہیں… میں نے پہلو بچانا چاہا تو انہوں نے فوراً کہا: ’’آج تو آپ کو ہمارے ساتھ کھانا کھانا ہی پڑے گا۔‘‘ اب وہی ضرب المثل یاد آگئی… ’’مرتا کیا نہ کرتا…‘‘ معلوم نہیں یہ ضرب المثل ہے یا خالی محاورہ ہے… مجھے آج تک ضرب المثل اور محاورے میں فرق کرنا نہیں آیا… شاید یہ دونوں قسمیں خود بھی فرق کرنے کے قابل نہیں… اس لیے کہ باہم شیر و شکر ہیں… ایک دوسرے سے خوب گھل مل کر رہتے ہیں… ایسا بے مثال ساتھ آج کے دور میں انسانوں کو کہاں نصیب ! ہاں تو مرتا کیا نہ کرتا ،

ان کی دعوت قبول کر لی… اب جب کھانا سامنے آیا تو میں حیرت زدہ رہ گیا… ایک بڑی ٹرے میں ہر مہمان کے حساب سے ایک ایک پلیٹ موجود تھی… ہر پلیٹ میں ایک ایک بر گر تھا… ساتھ میں ٹماٹو کیچپ، سلاد اور بس… ساتھ ہی میزبان کہنے لگے : ’’مجھے تو یہ کھانا اتنا پسند ہے… کہ کیا بتائوں۔‘‘ میں فاسٹ فوڈ سے بہت گھبراتاہوں… نہ جانے کیوں؟ یہ میرے حلق میں پھنس جاتے ہیں… لیکن ا ن کے ساتھ زہر مار کرنا پڑے… بہت مشکل سے کھانے میں کامیاب ہو سکا… مطلب یہ مشکل سے پاس مارکس حاصل کر سکا… ادھر آفیسر صاحب برابر ان برگر وں کی تعریف کر رہے تھے… یہ ذائقوں کی ایک مثال تھی… ضروری نہیں کہ جو چیز ایک شخص کے لیے ذائقے دار ہو ، وہ دوسروں کے لیے بھی اتنی ہی ذائقے دار ہو…
ذکر ذائقوں کا کر رہا تھا… اب میں اصل بات کی… میرا مطلب اصل ذائقوں کی طرف آتا ہوں… میرے گھر میں ایک زمانے سے ’’نوائے وقت‘‘ آتا ر ہا ہے… روزنامہ ’’اسلام‘‘ شرو ع ہواتو میرا پسندیدہ اخبار بن گیا… میں نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ بند کردیا… اور صرف روزنا مہ ’’اسلام‘‘ کا ہو کر رہ گیا… کیونکہ یہ اس وقت شروع ہو اتھا جب افغانستان میں طالبان کے دور کا آغاز تھا… ’’ضرب ِمومن‘‘ اس سے پہلے شروع ہو چکاتاتھا…وہ بھی لگوایا تھا… لیکن اس وقت بات روزناموں کی ہو رہی ہے، اس لیے ’’ضرب ِمومن‘‘ کا ذکر ا س کالم مںن شامل نہیں کیا جا سکتا… یہ اور بات ہے کہ یہ کالم ضرب ِ مومن کے لیے لکھ رہا ہوں… روزنامہ ’’اسلام‘‘ ایسا دل و دماغ پر چھایا کہ باقی تمام اخبارات کو بھول ہی گیا… باقی تمام اخبارات اس وقت یاد آئے جب میں نے زندگی کا پہلا کالم امید لکھا اور وہ ’’ضرب ِ مومن‘‘ میں شائع ہو ا… تب انتظامیہ نے روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے لیے کالم لکھنے کے لیے کہا۔
جب کالم لکھنے پڑے تو ضرورت محسوس ہوئی… گھر میں روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے علاوہ بھی کوئی اخبار آنا چاہیے… اب چونکہ پہلے ہی ’’نوائے وقت‘‘ پڑھتا رہا تھا ، اس لیے وہی پھر سے لگو ایا… ا س طرح روزانہ دو اخبارا ت کے ذائقے چکھنے لگا اور اپناکالم والا کام نکالنے لگا… کیونکہ اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں کا مطالعہ کیے بغیر سیاسی کالم نہیں لکھے جا سکتے… ہاں اور ہر قسم کے کالم ضرور لکھے جا سکتے ہیں… یہ معمول تقریباً ایک سال تک جاری رہا… ایک دن خیال آیا روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ پڑھتے کافی مدت گزر گئی… اس کے بجائے کسی اور اخبار کو بھی دیکھنا چاہیے… پتا تو چلے کہ اس کے کالم کیسے ہوتے ہیں… لہٰذا روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ بند کر کے ’’ایکسپریس‘‘ لگوایا… اب روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے ساتھ ’’ایکسپریس‘‘ پڑھنے لگا… جلدہی میں نے صاف طور پر محسوس کرلیا ’’نوائے وقت‘‘ کا اور ’’ایکسپریس‘‘ کاذائقہ بالکل مختلف ہے… ان پر الگ الگ ذائقوں کی چھاپ ہے… کچھ مدت بعد خیال آیا اب ’’ایکسپریس‘‘ کے بجائے ’’جنگ‘‘ کا ذائقہ چکھنا چاہیے… اس طرح روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے ساتھ ’’جنگ‘‘ بھی پڑھنے لگا… فوراً ہی محسوس کر لیا اس کا ذائقہ اور ہی ہے… جو ’’ایکسپریس‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ سے لگّا نہیں کھاتا… کچھ عرصہ تک ’’جنگ‘‘ زیر ِمطالعہ رہا… تو اسے بھی تبدیل کرنے کی سوجھی… اسے آپ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی نہ سمجھ لیجیے گا… کیونکہ مجھے تو اخبار کے ذائقوں کی سوجھی تھی… اس کے کچھ مدت بعد روزنامہ ’’خبریں‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کی باری بھی آئی… اس طرح ایک ایک کر کے تین تین چار چار ماہ تک ملک میں شائع ہونے والے تمام اخبارات کے ذائقے چکھ کر دیکھ لیے… کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں… کہ میں نے تمام اخبارات ہی کیوں نہیں لگوائے ہوئے ہیں… آخر ہر ہفتے کالم لکھنا پڑتا ہے… اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ تمام اخبارا ت کے کالم پڑھ سکوں… ان دو اخبارا ت کے کالم بھی میںتو سرسری پڑھ پاتاہوں… دوسرے یہ کہ اتنا خرچ کون کرے…
خیر چھوڑیں… با ت ہو رہی تھی… ذائقوں کی… اس طرح میں نے تمام اخبارات کے ذائقے بہت غو ر سے چکھے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ سب کے ذائقے بالکل الگ الگ ہیں… کسی کا ذائقہ ، کسی دوسرے اخبار سے میل نہیں کھاتا… نہ لگاّ کھاتا ہے… پتانہیں یہ لگاّ کھانا کیا ہوتا ہے… شاید برگر کھانے جیسا ہی ہوتا ہو گا… میں صرف اسی ایک نتیجے پر ہی نہیں پہنچا… ایک دوسرے نتیجے پر بھی پہنچ گیا… اور بیٹھے بٹھائے نہیں پہنچ گیا… بہت پاپڑ بیل کر پہنچا ہوں… آپ بھی وہ نتیجہ سن لیں۔ آخر بچپن میں بھی تو نتیجے سنتے رہے ہیں… جی ہاں! اور کاا… وہ نتیجہ یہ ہے پاکستان بھر میں اسلامی معاشرت کی بھر پور عکاسی کرنے والا بس ایک ہی اخبار ہے… آپ کو اچھا لگے یا بُرا… بات ہے یہی… کہ وہ اخبار ہے ’’روزنامہ اسلام‘‘… اللہ حافظ ۔

جڑ سے اکھاڑے بغیر حل ممکن نہیں

ایک جملہ تقریباً ہر روز ہی سننے میں آتا ہے… ہر قسم کا میڈیا (میڈیا کی قسمیں ان گنت ہیں نا) یہ راگ ضرور الاپتا رہتا ہے… اور وہ راگ ہے: ’’جمہوریت کو بے شمار خطرات لاحق ہیں۔‘‘ جب پوچھا جاتا ہے جمہوریت کو خطرات کیوں لاحق ہیں؟ جواب دیا جاتا ہے، ملک ان دنوں ان گنت بحرانوں کا شکار ہے، ان بحرانوں کی وجہ سے جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ہے… لیکن ہمارے خیال میں یہ بات بالکل اُلٹ انداز میں کہی جا رہی ہے، یہ بات درست، بلکہ درست ترین اندازمیں یوں کہی جانی چاہیے… ’’جمہوریت نے ان گنت بحرانوں کو جنم دیا ہے، خود جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، اس نے سب کو خطرات سے دو چار کیا ہے۔‘‘ لہٰذا خطرات جمہوریت کو نہیں… اس جمہوریت سے ہم سب خطرات میں گہرے ہوئے ہیں… اور خدشات میں بھی… جب یہ جمہوریت نہیں تھی نا، تو بحران بھی نہیں تھے۔ ہاں! قدرتی آفات ضرور آتی تھیں، لیکن ان کا علاج نہایت آسانی سے کر لیا جاتا تھا، کیونکہ جمہوریت کی رکاوٹیں رکاوٹ نہیں بنتی تھیں… شاید بات اس طرح سمجھ میں نہ آسکے… لہٰذا ہم اسے آسان ترین الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کیوں نہ کر لیں… لیکن پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ آج ہم کن کن بحرانوں کا شکار ہیں؟
زبردست ترین بحران تو بجلی کا بحران ہی ہے جو پہلے 6 ماہ میں ختم ہونے والا تھا… پھر 2 سال میں پھر اڑھائی سال میں… لیکن اب کہا جا رہا ہے

اس میں ساڑھے 3 سال لگیں گے… اس حکومت کا ایک سال تو ماشا ء اللہ پو را ہوگیا ہے… اس میں جب ہم ساڑھے 3 سال شامل کریں گے تو و ہ بے چارے ساڑھے 4 سال بن جاتے ہیں… بن ا س لیے جاتے ہیں کہ ان کو بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ویسے حکمرانوں کے بس میں ہوتاتو و ہ اسے کبھی بھی نہ بننے دیتے… اور معاملہ پہلے روز والا ہی چلتا رہتا… یہی کہا جاتا ابھی ہمیں حکومت میں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں… لیکن نظامِ قدرت کا مقابلہ فی الحال ان کے بس کی بات نہیں۔ ماہ و سال ان کے روکے نہیں رک سکتے، اس لیے یہی کہنا پڑے گا… کہ ساڑھے 4 سال تک یہی حالات رہیں گے۔ بجلی کا بحران غریب یونہی جاری و ساری رہے گا… بلکہ بے چارہ ہونے کے با وجود یونہی دندناتا رہے گا… ادھر ساڑھے چار سال پورے ہوں گے… ادھر نئے لو گ آنے کے لیے لنگوٹے کس لیں گے… اگرچہ وہ یہ لنگوٹے ایک سال پہلے ہی کس چکے ہیں… ان کے انتظار کے بھی ساڑھے 3 سال باقی ہیں… خیر کوئی بات نہیں… ساڑھے 3 سال کی کیا بات ہے… یہ تو پلک جھپکتے گزر جائیں گے، کیونکہ ان کے گھروں میں کون سا لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے… اب دیکھیں! یہ کب پلک جھپکتے ہیں… ؟
لوڈ شیڈنگ ہمارے ملک کا کوئی تنہا بحران نہیں، اس کے ساتھ کئی اور بحران دے رہے ہیں۔ یہ ساتھ خوب نبھا رہے ہیں… ساتھ نبھانے کے اعتبار سے یہ بہت وفا ہیں… مطلب یہ کہ ساتھ نبھانے کی وفا داری تو کوئی ان سے سیکھے… ہاں تو جناب! لوڈ شیڈنگ کے بالکل پڑوس میں واقع ہے گندم کا بحران… گندم کا بحران بھی منہ کھولے ہمیں شکار کرنے کی تاڑ میں رہتا ہے… اور رہے کیوں نہ؟ بے چارے کا شت کاروں کی یہاں کون سنتا ہے… ا ن کے لیے حکمرانوں کے پاس ہمدردی کے دو بول بھی نہیں ہیں…
اب جب کاشتکاروں کے مسائل ہی حل نہیں ہوں گے تو گندم کے بحران سے نجات کیسے مل سکے گی…؟ دیکھاجائے تو یہ بحران بھی جمہوریت کی پیداوار ہے… جو گندم کو پیدا ہونے ہی نہیں دیتا… بحرانوں کو پیدا ہونے کے لیے کھلی چھٹی دیتا رہتا ہے۔
اس کے بالکل متصل پانی کا بحران تشریف فرما ہے… گرمی شروع ہو گئی ہے… ہمارا پڑوسی ملک پہلے ہی تاک میں رہتا ہے… لہٰذا گرمی کا پورا موسم ہم پڑوسی ملک کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے… دیکھا جائے تو اس میں قصور پڑوسی ملک کا نہیں… ہماری جمہوریت ہے… آپ اس جمہوریت سے نجات حاصل کر لیں… پھر دیکھیے گا ملک میں کتنا پانی نظر آئے گا… کوئی قلت نہیں رہ جائے گی۔
ہمارے ملک میں ایک بحران صاحب اور بھی موجود ہیں… لگے ہاتھوں ان کا بھی ذکرِ خیر ہوجائے… اسے ہم گیس کا بحران کہتے ہیں… یوں تو آج کل تقریباً ہرانسان گیس کا شکار ہے… لیکن یہاں ذکر ہے چولہوں پر جلنے والی گیس کا… یہ اور بات ہے کہ اب گاڑیاں بھی اس گیس کے چکر ہیں رہتی ہیں اور چکراتی ہی نظر آتی ہیں… یہ گیس صاحبہ سردی کے موسم میں تو خاص طورپر ہم پر نظریں جمائے رہتی ہیں۔ کسی صورت رحم کرنے پر تیار نہیں ہوتیں… گرمی کے موسم میں البتہ ان کے تیور کچھ نرم پڑ جاتے ہیں… آپ اگر غور کر یں تو اس بحران کے ڈانڈے بھی جمہوریت سے جا ملیں گے… لگتاہے… یہ سب جمہوریت کا شجرہ نسب ہے۔
ایک خوفناک بحران رہ گیا… اس بحران نے تو بچے بچے کو پریشان کر رکھا ہے… کیونکہ ان کا بھی جیب خرچ حدد رجے متاثر ہوا ہے… آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے ہم مہنگائی کے بحرا ن کا ذکر کر رہے ہیں… کہا جا سکتا ہے… یہ مسئلہ وہ مسئلہ ہے… جو سر چڑھ کر بول رہاہے، یہ وہ جنّ ہے جو اب بالکل بے قابو ہو گیا ہے… سب کے سب اس کی کرامات کے قائل ہو چکے ہیں… لیکن افسوس! ہم غور نہیں کرتے، غورکریں تو اس بحران کی تہہ میں یہی محترمہ جمہوریت دبکی نظر آئیں گی…
آئیے ذرا دیکھیں! ہمارے اپنے یعنی، اصلی اپنے حکمران کس طرح بحرانوں سے نبٹتے تھے… اصل بات تو یہی ہے کہ اس زمانے میں محترمہ جمہوریت کا دور دورہ تھا ہی نہیں… اس کا وجود بھی نہیں تھا، اس کے بارے میں کسی کومعلوم ہی نہیں تھا کہ یہ بھی کوئی طرز ِحکومت ہے… دور کیوں جائیں اس کا وجود تو اب بھی امریکا میں موجود ہے… خیر چھوڑیں…! اس وقت بات اسلامی حکومت کی ہو رہی ہے… اسلامی حکومت اس نام سے نا آشنا تھی… اس طرزِ حکومت سے نا بلا تھی… گویا اسلامی حکومت جمہوریت سے پاک تھی… اسی لیے ان تمام آفات سے بھی پاک تھی… لہٰذا ان کے لیے بحرانوں سے نبٹنا بالکل آسان تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفۂ رسول مقرر ہوئے… اس وقت جتنے خطرات اس وقت آپ کو درپیش تھے، شاید اسلامی حکومت کو کبھی پیش نہیں آئے ہوں گے… یعنی چاروں طرف سے اسلامی حکومت کو خطرات نے گھیر لیا تھا… خطرات منہ کھولے تیار تھے… آپ بس اتنا کریں کہ ان خطرات کو بحران کہہ لیں… حضرت ابو بکر صدیقؓ وہ شخص ہیں… جو کمزور جسم والے ہونے کے با وجود… ان تمام بحرانوں سے ذرا بھی نہیں ڈرے… آپ ان بحرانوں کو خاطر ہی میں نہیں لائے… اسلامی لشکر کے 11 حصّے مقرر فرمائے، یعنی 11 لشکر ترتیب دیے۔ ایک ایک بحران کی طر ف ایک ایک لشکر روانہ فرمادیا… مدینہ منورہ میں خود رہ گئے… کوئی لشکر آپ کی مدد کے لیے نہیں تھا… دشمنوں نے خیال کیا، موقع اچھا ہے… مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے… لہٰذا مدینہ منورہ پر حملے کرنے کی تیاری کرنے لگے… حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کی۔ اپنے ساتھیوں کو لے کر خود ان پر جا پڑے…یعنی اس سے پہلے کہ وہ حملہ آور ہوتے، آپ نے ان پر حملہ کر دیا… دشمن اس حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا… ایسا بد حواس ہوا کہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا… خلیفۂ رسول نے اسے چھوڑا نہیں، تعاقب کیا اور انہیں خوب نقصان پہنچایا… لشکر کا میاب مدینہ منورہ میں آیا تو خوشی کی لہر دوڑ گئی… اس کے بعد تو گویا مدینہ منورہ کی دھاک بیٹھ گئی… 11 لشکروں نے بالکل معمولی تعداد میں ہوتے ہوئے (جیسا کہ آج افغانستان کے مجاہدین 42 ملکوں کے مقابلے میں بالکل کم تعدا د میں ہیں ) بھی دشمنوں کے وہ پر خچے اڑائے کہ وہ آج تک زخم چاٹ رہا ہے۔
آپ نے ملا حظہ فرما یا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بحرانوں کا سامنا کس طرح کیا…؟ بات اصل میں یہ ہے اس وقت جمہوریت نہیںتھی… جمہوریت کے نہ ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان ایک جسم کی مانند تھے… ایک دوسرے کے مخالف نہیں تھے، صرف اسلام دشمنوں کے مخالف تھے… جب کہ آج ہم ایک جسم تو کیا ہوں گے… ہزار جسم مںن تقسیم ہیں… ہمیں جمہوریت ہی نے تو تقسیم کیا ہے… اس وقت مسلمانوں کی بے مثال کامیابیوں کے بارے میں یورپ کا مفکّر پر وفیسر فلغلی لکھتاہے: ’’ایک نئے مذہب اسلام نے عربوں میں باہمی اتحاد، جذبۂ قیادت اور فتوحات کے لے زبردست تحریک پیدا کر دی تھی، جبکہ رومی سلطنت اور ایرانی سلطنتیں آپس کی جنگوں سے کمزور ہوچکی تھیں… رومی سلطنت ہی مذہبی اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے تھے‘‘ ( جو آج ہمارے اندر ایسے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ان کا بیٹھنا ممکن ہی نظر نہیں آرہا)۔‘‘
دورِ حاضر کا مشہور مصنف ایچ جی ویلز لکھتا ہے: اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اسلام کاسیلاب ایرانی، رومی، یونانی یا مصری تہذیب کو بہاکر لے گیا تو اس غلط خیال کونکال دو… اسلام کو جو غلبہ حاصل ہواتو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس زمانے کا ایک بہترین معاشرتی اور سیاسی نظام تھا۔ اسلام جہاں کہیں پہنچا… اسے ایسے لوگ نظر آئے جو سیاسی اعتبار سے اپنی اپنی حکومتوں سے نفرت کرتے تھے ( آج ہمارا یہ حال ہے) لوگ لٹے پٹے تھے… مظلوم اور پامال تھے… غیرتعلیم یافتہ اور غیر منظم تھے… جن کی خود غرض اور فاسد حکومتیں ( جیسی آج ہماری ہیں) ان کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتی تھیں۔ اسلا م نے اس وقت پوری دنیا کو ایسا بہتر نظام دیا جو آج تک کسی نے نہیں دیا… رومی شہنشاہیت کا سرمایہ وارانہ نظام اسلام سے شکست کھا کر پارہ پارہ ہو گیا… ۔‘‘ آپ نے ملاحظہ فرمایا… یہ سب باتیں جمہوریت کی نفی د ر نفی کر رہی ہیں… پروفیسر کلپ کے ہٹی لکھتا ہے: ’’اسلام نے ان قبائل میں ایسا اتحاد پید ا کر دیا تھا کہ اس سے پہلے وہ کبھی متحد نہیں ہوئے تھے۔‘‘ یہ سب دراصل اس لیے تھا کہ مسلمان اس وقت جو کچھ کرتے تھے۔ صرف اور صر ف اللہ کے لیے کرتے تھے… اغراض و مقاصد کے بندے نہیں تھے… آج کی جمہوریت نے ہمیں صرف اور صرف اغراض و مقاصد کے بندے بنا کر رکھ دیا ہے… جمہوریت کے پھل کی کڑواہٹ روز بروز زیادہ ہوتی جارہی ہے… اس کڑواہٹ میں کمی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں… اس پودے کو جڑ سے اکھاڑے بنا چارہ نہیں… لیکن حکمرانوں کو یہ بات کون سمجھائے… جمہوریت کو کوئی خطرات لاحق نہیں، اس سے ہمیں خطرات لا حق ہیں۔