تاریخ کے سازشی کردار

تاریخ کے سازشی کردار
افواہوں والے کالم میں ذکر کیا تھا کہ سا زشیں کرنے والے افواہوں سے کام لیتے ہیں، کیونکہ افواہوں کے پیر نہیں پر ہوتے ہیں۔ یہ ایسے اُڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہیں کہ کوئی تیز ترین سواری بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی… تاریخ کے ایک بد ترین کردار سے ملے ۔ نام ہے ’’عبدا للہ بن سبا‘‘… عملاً یہودی تھا… یمن کے شہر صنعا کا باشند ہ تھا۔ وہی شہر جس میں مصنوعی کعبہ بنایا گیا تھا اور طواف کر ایا گیا تھا… ہاں تو عبد اللہ بن سبا بھی یہیں کا تھا… اس شخص نے حضرت عثمان غنیؓ کے عہد میں مسلمان ہونے کا اعلان کیا… یعنی جھوٹا اعلان، اصل میں تو مسلمان کا روپ دھا کر افواہوں کے دوش پر سا زشوں کا بیج بونا چاہتا تھا۔ اسلام کی کشتی میں سوراخ ہی سوراخ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں اپنا کام جس ڈھنگ سے شروع کیا، ہم اس کی جھلک ذرا ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں… کیونکہ ہمارا دور بیا ڈرامائی دور سے اور ہم ڈراموں کے بہت رسیا ہیں… لہٰذا ڈراموں کی زبان میں بات کرتاہوں…
عبداللہ بن سبا اپنے گھر میں بہت بے چینی سے ٹہل رہا تھا کہ دو آدمی اندر داخل ہوئے… اس نے بے تابانہ انداز میں کہا: ’’بہت دیر کر دی، کیا خبر ہے؟ مسلمانوں نے کسے خلہف: چنا ہے؟‘‘ ’’عمر (رضی اللہ عنہ) نے مرنے سے پہلے 6 آدمیوں کے نام لیے تھے… کہ خلیفہ ان مںے سے ہو گا… ان 6 نے 2 آدمیوں کے بارے میں اتفاق کر لیا یعنی خلیفہ عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بنایا جائے یا علی (رضی اللہ عنہ)۔ آخر کار عثمان (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ چنا گیا ہے۔ تمام مسلمانوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے…

کسی نے اس کے خلیفہ بننے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘‘
عبدا للہ بن سبا یہ سن کر اچھلا او ر کہنے لگا: ’’اب آئے گا مزہ ! عمر میں حد درجے سختی تھی… وہ کسی سے ذرا بھی نرمی نہیں کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے بیٹے کو بھی سزاد ی، لیکن عثمان نرم آدمی ہے… اب ہمارا کام آسان ہو گیا ہے… میں ساز ش کا ایسا جال بنوں گا جو آیندہ نسلوں تک مدد گار ثابت ہو گا… میں اسلا م پر ایسا زخم لگائو ں گا جو قیامت تک نہیں بھر سکے گا… لیکن ابھی میں انتظار کروں گا… حکومت میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے دو… پھر میں حرکت کروں گا۔‘‘
عبداللہ بن سبا گھوڑ ے پر اُڑا جا رہا تھا… آخر ایک گھر کے دروازے پر وہ اترا… گھر کے مالک نے اسے حیرا ن ہو کر دیکھا۔ اس سے پوچھا : ’’کون ہو بھائی؟‘‘ ’’عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’پہلے تم اپنا نام بتائو۔‘‘ ’’میں حکیم بن عبد اللہ ہوں۔‘‘ ’’اور میرا نام عبد اللہ ہے… باپ کا نام پھر بتائوں گا، مسافر ہوں، بہت دور سے آیا ہوں… کیا بصریٰ کے لوگ مہمانوں کو بٹھاتے بھی نہیں۔‘‘ حکیم بن عبداللہ نے چونک کرکہا: ’’ایسی کوئی بات نہیں… آپ اندر آجائیں۔‘‘ مہمان کی خاطر تواضع کے بعد حکیم بن عبداللہ نے کہا: ’’ہاں ! اب بتائیے آپ کون ہیں، آپ کو مجھ سے کیا کام ہے۔‘‘ اب عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’مجھے آپ کے دوست سے کچھ کام ہے، لیکن میں خود اس کے گھر نہیں جانا چاہتا… آپ ذرا اسے بلا کر لے آئیں… میں آپ کے دوست حکیم بن جبلہ کی بات کر رہاہوں… جسے خلیفہ عثمان کے حکم سے شہر میں نظر بند کر دیا گیا ہے… یعنی وہ شہر سے باہر نہیں جا سکتا، فی الحال گھر سے باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں، وہ آپ کا بچپن کا دوست ہے، آپ کو تحفے تحائف بھی دیتا رہا ہے نا… میں بھی آپ کے لیے ایک تحفہ لایا ہوں… یہ دیکھیے… ایک چھوٹا سا ہیرا چند اشرفیاں۔‘‘ ’’اوہ شکریہ… حکیم بن جبلہ واقعی میرا دوست ہے… آپ کی معلومات پر مجھے حیرت ہو رہی ہے، خیر میں اسے بلالاتا ہوں، آپ اپنا پورا نام بتا دیں۔‘‘ ’’راز داری کی وجہ سے میں ابھی پور انام نہیں بتا سکتا، احتیا ط ضروری ہے۔‘‘ ’’اچھی بات ہے… میں اسے لے آتا ہوں۔‘‘
جلدہی حکیم بن جبلہ اندر داخل ہوا۔ عبداللہ بن سبا کو دیکھ کر اچھل پڑا… اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا، خود وہ نقاب میں چہرہ چھپاکر آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں د و دھاری خنجر تھا… اس نے سرد لہجے میں کہا:
’’تم کون ہو؟ مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘ میں کسی عبداللہ کو نہیں جانتا… خلیفہ عثمان نے میرے بارے میں بصریٰ کے گورنر کو ہدایات جاری کی ہیں کہ مجھ پر نظررکھے… ایک طرح سے میں گھر میں نظر بند ہوں… ان حالات میں اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ میں نے کسی سے ملاقا ت کی ہے تو گورنر مجھے طلب کر لے گا۔‘‘ اب عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’میںعبداللہ بن اسود ہوں… میرا دوسرا نام عبداللہ بن سبا ہے۔‘‘ یہ سن کر حکیم بن عبداللہ اچھل پڑا… پھر وہ بیٹھ گیا… اس نے دبی آواز میں کہا: ’’ہاں ! میں آپ کو جانتا ہوں، آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن سبا مسکرایا، پھر اس نے کہا: ’’حکومت کی نظروں میں آپ اچھے آدمی نہیں ہیں… سازشی ذہن کے ہیں، اسی لیے مجھے آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو حکومت کی نظروں میں اچھے نہ ہوں۔‘‘
’’ہاں ! میں اس حکومت کے خلاف ہوں، اس حکومت نے میری آزادی چھین لی ہے، حالانکہ میرا جرم اتنا سا ہے کہ میں نے اسلامی لشکر میں شامل ہو کر کچھ ذمیّوں کو لوٹ لیا تھا… اب چونکہ ذمیّوںکی حفاظت مسلمانوں کے ذمّے ہے، اس بنیاد پرمیری شکایات گورنر تک پہنچیں… اس نے تفصیلات لکھ کر خلیفہ کو بھیج دیں، اس نے مجھے نظر بند کرنے کا حکم دے دیا، لہٰذا میں بھی اب اس حکومت کے خلاف ہوں… تم مجھ سے کیا کام لینا چاہتے ہو۔‘‘ عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’میرے پاس ایک پروگرام ہے… لیکن پروگرام حد درجے خفیہ ہے… ورنہ ہماری گردنیں ماردی جائیں گی۔‘‘ جواب میں عبداللہ بن جبلہ نے کہا: ’’عبداللہ بن حکیم میرا دوست ہے، یہ بھی ہمارا ساتھی ہوگا۔‘‘ عبداللہ بن سبا نے کہا: ’’بس تو پھر، فی الحال ہمار ی یہ جماعت تین آدمیوں کی ہو گی، جو کام بھی کریں گے خفیہ کریں گے…کسی کے سامنے کھل کر نہیں آئیں گے… میں جانتا ہوں تم بھی میری طرح نام کے مسلمان ہو… تم نے ذمیّوں کو اسی لیے تو لوٹا تھا کہ مسلمان ذمیّوں میں بدنا م ہو جائیں… یہ بات مشہور ہو جائے کہ مسلمان جو وعدہ کرتے ہیں، اسے پورا نہیں کرتے… اس طرح ان کی ہوا اکھڑ ے گی، یہی تھا نا تمہارا منصوبہ؟‘‘ عبداللہ بن جبلہ نے جلدی جلدی کہا: ’’ہاں !یہی تھا۔‘‘
’’اچھا منصوبہ تھا… اب میرا منصوبہ سنو! مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے… مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دو… ہم مسلمانوں کے خلیفہ کے بارے میں افواہیں اڑائیں گے، خلہفط کو بدنام کریں گے، ان پر الزامات لگائیں گے، ان پر الزامات عاید کریںگے… میں نے اپنی یادداشت میں تم دونوں کے نام سب سے اوپر لکھ لیے ہیں… حالات دیکھ کر میں تمہیں بتائوں گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے… وقت کے ساتھ ساتھ میری ہدایات ملاکریں گی… یہ کچھ اشرفیاں رکھ لو… ان معاملات میں خرچ بھی کرنا پڑتا ہے…‘‘
اس پر حکیم بن جبلہ نے کہا: ’’تو کیا آپ اور لوگوں کو بھی اس طرح اشرفیاں دیں گے… آپ اتنی اشرفیاں کہاں سے لائیں گے؟‘‘ عبداللہ بن سبا مسکرایا۔ پھر اس نے کہا: ’’تما م یہودی ان سازشوں میں میری مدد کررہے ہیں… ہم مسلمانوں کانام ونشان دنیا سے مٹا دیںگے… لہٰذا تم اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس دولت کہاں سے آئے گی۔‘‘ پھر عبداللہ بن سبا منہ چھپائے رات کی تاریکی میں نکل گیا… اس طرح وہ منزلوں پر منزلیں مارتا رہا… پھر ایک وقت آیا، وہ ایک سرائے میں لوگوں سے یہ کہتا نظر آیا… ’’بھائیو ! کیا یہ بات درست نہیں کہ عیسؑیٰ دنیا میں دوبارہ آئیں گے… تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عیسؑیٰ تو دنیا میں دوبارہ آئیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نہ آئیں… جب کہ افضل آپ ہیں، لہٰذا میں کہتا ہوں، آپ ضرور دنیا میں دوبارہ آئیں گے… دیکھیے! ہر نبی کا ایک خلیفہ اور ایک وصی ہوتا ہے اور حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کے وصی حضرت علیؓ ہیں… جس طرح آپ آخری نبی ہیں، خاتم الانبیا ہیں، اسی طرح حضرت علیؓ خا تم الاولیا ء ہیں یعنی وہ آخری وصی ہیں… وصی کا مطلب ہے جس کے بارے میں وصیت کی گئی ہو… اب جب آپ کے وصی حضرت علیؓ ہیں اور آپ نے ان کے حق میں یہ وصیت کی ہے تو پھر ان کے ہوتے ہوئے دوسروںؒ کو خلیفہ بنانا کہاں کا انصاف ہے…؟ یہ توکھلی نا انصافی ہے… حضرت علیؓ کے ساتھ سخت نا انصافی ہوئی ہے… خلافت انہیں ملنی چاہیے تھی… یہ حق ان کا تھا جب کہ دیا گیا ابو بکر کو، پھر عمر کو اور ان کے بعد عثمان کو… خیر پہلے دو تو دنیا سے رخصت ہو چکے، لیکن عثمان تو زندہ ہیں… اصل حق دار کی موجودگی میں وہ خلیفہ بنے ہوئے ہیں… لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ حضرت عثمانؓ کو خلافت سے ہٹایا جائے اور ان کی جگہ حضرت علیؓ کو خلیفہ بنا دیا جائے۔‘‘
اس طرح یہ بحث شروع ہوئی… جلدہی وہ ایک اور شہر میں نظر آیا… وہاں اس نے لوگوں سے اسی قسم کی باتیں شروع کیں۔ ساتھ میں یہ بھی کہ لوگ حضر ت عثمانؓ کو پسند نہیں کرتے… اگر کوئی کہتا: ہم نے تو ایسی کوئی بات نہیں سنی تو کہتا، تو پھر جو لوگ ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں… ان سے خبر دار تو رہنا چاہیے… اس طرح حضرت عثمانؓ کے بارے میں باتیں ہونے لگیں… وہ دمشق کے شہر شام میں پہنچا تو وہاں بصریٰ کے لوگوں کے بارے میںکہا کہ بصریٰ کے لوگ ایسی ایسی باتیں کہہ رہے ہیں… کوفے گیا تو وہاں کے لوگوں سے کہا، دمشق کے لوگ ایسا ایسا اور ایسا کہہ رہے ہیں… اس طرح افواہوں کا بازار اس نے گرم کر کے رکھ دیا… غرض جس شہر میں جاتا، وہاں اپنے خیالا ت کے شوشے چھوڑ جاتا… مصر پہنچا تو اس نے وہاں کے لوگوں سے کہا: ’’تمہیں کچھ خبر بھی ہے… میں کوفہ، بصریٰ، شام سے ہو کر آرہا ہوں، وہاں لوگوں میں ایسی ایسی اور ایسی باتیں پھیل رہی ہیں۔‘‘ مصر کے لوگوں نے کہا: ’’ایسی باتیں یہاں تو سننے میں نہیں آئیں۔‘‘
ان باتوں کے جواب میں وہ لوگوں کو خطوط دکھاتا… جو اس کے اپنے آدمیوں نے اسے اور اس نے اپنے آدمیوں کو لکھے تھے… ان کا مضمون اس قسم کاتھا… ’’یہاں کے گورنر نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں… رعایا کی کوئی خبر گیری نہیں رکھتے… انہوں نے لوگوںکا جینا حرام کر رکھا ہے… لوگ حضرت عثمان کی خلافت پر اعتراضات کر رہے ہیں… اور بر ملا کہہ رہے ہیں… خلافت کے حق دار تو حضرت علیؓ ہیں۔‘‘
اس قسم کے خطوط شہروں میں گردش کرنے لگے… حالانکہ اس میں سچ بالکل بھی نہیں تھا…لیکن آہستہ آہستہ یہ زہر پھیلتا چلا گیا… افواہوں نے رفتار پکڑ لی۔ پھر حضر ت عثمانؓ پر اعتراضات گھڑے گئے… ان کاخوب چرچہ کیا گیا… یہاں تک کہ مصر سے ایک وفد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا… ا س میں کوفہ اور بصریٰ کے لوگ بھی شامل تھے… انہوں نے اپنے کچھ مطالبات طے کیے تھے… تحریری شکل میں لکھ کر لائے تھے… حضرت علیؓ کے سمجھانے پر یہ لوگ واپس لوٹ گئے، لیکن اس وفد کو راستے میں ایک شخص ملا… اس کے پاس ایک خط تھا… خط پر حضر ت عثمانؓ کی مہر تھی… وہ خط مصر کے گورنر کے نام تھا… گورنر کو لکھا گیا تھا کہ جب یہ وفد مصر میں واپس پہنچے تو ان سب کو قتل کر دیا جائے… یہ خط پڑھتے ہی وہ وفد واپس پھر مدینہ کی طرف لوٹ آیا… حضر ت عثمانؓ کے علم میں جب یہ خط لایا گیا تو آپ نے فوراً فرمایا: ’’یہ خط میں نے نہیں لکھا۔‘‘ یہ جعلی خط بھی دراصل عبداللہ بن سبا کی جماعت کے کسی شخص کا لکھا ہوا تھا… ان لوگوں نے حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ کی طرف سے اسی قسم کے کئی جعلی خط لکھ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجے تھے… بعد میں اسی حربے سے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ میں جنگ کر ا دی تھی… حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ میں جنگ ہو ئی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ صرف اور صرف افواہوں کو بنیاد بنا کر اس بنیاد پر افواہوں کی اینٹوں سے عمار ت کھڑی کی۔
حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا گیا… اس شہادت کے بعد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں کاسلسلہ ختم نہیں ہو سکا… آج بھی ہمارا ملک ان سازشوں اور افواہوں کا شکارہے… الیکٹرانک میڈیا نے ایسے لوگوں کا کام آسان بنا دیا ہے… افواہوں کی رفتار تو 14 سو سال پہلے ہی بہت تھی… اس دور میں تو اس کی رفتار کا احاطہ کرنا ہی ممکن نہیں رہا… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے… آمین۔

’’ضرورت ایجا د کی ماں ہے ‘‘ / افواہوں کے دن
بچپن میں جب یہ ضرب المثل پڑھی تھی تو اس کا خاک بھی مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا… مطلب سمجھ میں بے شک نہیں آیا تھا، لیکن یہ جملہ دماغ میں ایسا بیٹھا کہ آج تک نکل نہیں سکا… میں نے ساری زندگی اسی پر عمل کیا… ایک اصول کو اپنا لیا… یہ کہ دوسروں کی ضرورت بنو… انہیں اپنی ضرورت نہ بنائو…یہ سکھی رہنے کا کامیاب نسخہ ہے… اور کامیاب زندگی گزرانے کا حسین وجمیل نسخہ بھی ہے… اگر آپ دوسروں کی ضرورت ہیں تو دوسرے آ پ کی قدر کریں گے… اور مرتے دم تک کریں گے… لیکن اگر دوسرے آپ کی ضرورت ہیں تو آپ کی وہ بے قدری ہو گی جو ہمارے حکمرانوں کی امریکا کرتاہے۔

اب بات فوراً آپ کی سمجھ میں آگئی ہو گی… امریکا نے بھی دراصل اسی اصول کو اپنا لیا ہے… آپ دیکھ لیں… وہ ہمارے تمام حکمرانوں کی ضرورت بنا ہوا ہے یا نہیں… حکومت کسی بھی جماعت کی آئے، حکمراں کو ئی بھی بنے… چاہے فوجی حکومت ہی کیوں آجائے… امریکا سب کو اپنی ضرورت کی لپیٹ میں لیے رکھتا ہے اور یہ لپیٹ ایسی زبردست ہے کہ ہمارے حکمران اس سے بچ نہیں پاتے…

٭ افواہ سازی کی یہ مہم ملک کے لیے بہرحال نقصان دہ ہے… ملک کا نظام درہم برہم کرنے والوں کی ضرورت یہ افواہیں ہیں۔ ٭ طاقت تو اس وقت پوری دنیا میں بس ایک ہی ہے اور وہ ہیں افغانستان کے طالبان… وہ تو دھڑلے سے کہتے ہیں… ہمیں امریکا کی کوئی ضرورت نہیں… ٭

بات ہو رہی تھی ضرورت کی… ضرورت پربات یاد آگئی… لقمان حکیم کو کسی مزدور کی ضرورت پیش آگئی… انہوں نے خادم کو بھیجا کہ کسی مزدور کو بلا لائو… خادم ایک مزدور کی خدمت میں حاضر ہو ا… یہ حاضر ہوا، میں نے اس لیے لکھا کہ وہ ضرورت کے لفظ سے آشنا نہیں تھا… وہ ہمارے حکمرانوں جیسا نہیں تھا، اس لیے ’’حاضر ہوا‘‘ کا لفظ لکھ دیا… ویسے آپ کوئی خیال نہ فرمائیے گا… جی ہاں!… خادم نے مزدور سے کہا: ’’میاں! لقمان حکیم کو تمہاری ضرورت ہے… چلو میرے ساتھ۔‘‘ مزدور نے کمال بے نیازی سے جواب دیا… جیسے آج امریکا خالص قسم کی بے نیازی اختیار کرتا ہے… یہ اور بات ہے کہ افغانستان میں اس کی بے نیازیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لیجیے بات پھر پھسل گئی… مزدور نے خادم کی بات سن کر بُراسا منہ بنایا اور کہا: ’’مجھے فر صت نہیں۔‘‘ خادم نے حیران ہوکر کہا: ’’وہ لقمان حکیم ہںں… کبھی تمہیں بھی ان کی ضرورت پیش آسکتی ہے… ایسی صورت پر تم کیا کروگے۔‘‘ اس نے پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ بے نیازی سے سے کہا: ’’مجھے لقمان حکیم کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘

خادم نے مزدور کی اس بات کو اور بھی زیادہ حیران ہو کر سنا کہ یہ کیسا حکیم ہے… جو دھڑ لے سے یہ کہتا ہے… مجھے لقمان حکیم کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی… جیسے آج کوئی حکمران یہ کہہ دے کہ مجھے امریکا کی کوئی ضرورت نہیں… تو پورا پاکستان اس کی یہ بات سن کر حیرت زدہ رہ جائے گا یا نہیں… بلکہ دانتوں تلے انگلیاں بھی دبالے گا… کیوں کہ ایسا کہنے والی طاقت تو اس وقت پوری دنیا میں بس ایک ہی ہے اور وہ ہیں افغانستان کے طالبان… وہ تو دھڑلے سے کہتے ہیں… ہمیں امریکا کی کوئی ضرورت نہیں… خادم حیرت زدہ واپس لقمان حکیم صاحب کے پاس آیا… وہ تو پہلے ہی خادم کے منتظر تھے… اسے بغیر مزدور کے آتے دیکھ کر بولے۔ ’’یہ کیا… تم مزدور کو ساتھ نہیں لائے۔‘‘ خادم نے کہا: ’’ حضور! وہ کہتا ہے… اسے مزدوری کی ضرورت نہیں۔‘‘ اب حکیم نعمان صاحب نے کہا: ’’ تم نے اسے بتایا نہیں کہ اسے میں بلا رہا ہوں۔‘‘ خادم نے جواب دیا : ’’ جی بتایا تھا… میں نے تو اس سے یہ بھی کہا تھا کہ تمہیں بھی کبھی حکیم صاحب کی ضرورت پیش آسکتی ہے… تو جناب… جانتے ہیں، اس نے کیا جواب دیا؟‘‘ ’’ اگر جانتا ہوتا تو تم سے کیوں پوچھتا؟۔
‘‘ حکیم صاحب نے برا سا منہ بنایا۔ ’’اس نے کہا ہے… مجھے حکیم صاحب کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘ حکیم صاحب اس کی بات سن کر بہت متاثر ہوئے… انہوں نے کہا: ’’ اگر وہ مزدور بھوک رکھ کر کھاتا ہے تو اسے یقینا میری ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘ اس واقعے سے یہ ثا بت ہو گیا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ آپ غور کر لیں… ہم میں کتنے ہیں جو بھوک رکھ کر کھاتے ہیں، یا بھو ک رکھ کر وصول کرتے ہیں… یہاں تو پیٹ بھرتے ہی نہیں… پیٹ نہ بھرنے کی ایسی ایسی کہانیاں سننے میں آئی ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے… بلکہ ان کی بھوک تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے… بات ہورہی تھی ضرورت کی… نہ کہ آپ خود دوسروں کی ضرورت بن جائیں… شیر کو کبھی دوسروں کی مدد سے شکار کرتے نہیں دیکھا گیا… اس نے کبھی کسی دوسرے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی… اس لیے کہ وہ شیر ہے… گیدڑ نہیں… گیدڑکبھی نہیں کہتے، ہمیں کسی کی ضرورت نہیں بلکہ ہم تو خود دوسروں کی ضرورت ہیں۔
آپ دفتر میں ملازم ہیں… حکومت میں ہیں… کسی ادارے میں کام کرتے ہیں… دوسروں کی ضرورت بنیے… جب تک آپ دوسروں کی ضرورت بنیںرہیں گے تو دوسرے آپ کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکیں گے… تو دودھ کی مکھی نہ بنیے… دودھ پلانے والے بنیے… آج کے سیاست دانوں کی بھی ایک ضرورت ہے… اور اس ضرورت کا نام ہے… پرو پیگنڈا… افواہوں کے دوش پر اور پر وپیگنڈے کے بل پر اپنا کام نکالنے کی فکر میں رہتے ہیں… آپ کو تو پتا ہی ہے… افواہوں کی رفتار کس قدر تیز ہوتی ہے… میں نے سناہے، افواہوں کی رفتار کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے… یہ رفتار بے حد و حساب ہے… کوئی ذرا سی بات کہیں سے کیا نکلتی ہے… کہ بس اس پر افواہیں شروع… جیسا کہ ابھی چند دن پہلے کمانڈر انچیف صاحب کے ایک بیان پر تبصرے شروع ہو گئے ہیں… عجیب وغریب تبصرے ہو رہے ہیں… کہا جا رہاہے، فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات ہیں… حکومت کا دعویٰ ہے کہ کوئی اختلافات نہیں ہیں… گویا ان لوگوں کی ضرورت افواہیں ہیں… یہ افواہوں کے ذریعے اپنا کام نکالتے ہیں… افواہ سازی کی یہ مہم ملک کے لیے بہرحال نقصان دہ ہے… ملک کا نظام درہم برہم کرنے والوں کی ضرورت یہ افواہں ہیں۔
اور آپ کو بتا تا چلوں… خلافتِ راشدہ کے خلاف افواہوں سے ہی کام لیا گیا تھا… وہ افو اہیں آج تک ہماری جڑوں میں بیٹھی ہیں… آپس کی لڑائیوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ افواہوں کی بنیاد پر شروع ہواتھا… حـضرت عثمان غنیؓ کے خلاف افواہیں پھیلا ئی گئیں… اس دور کے مورخ لکھتے ہیں کہ ان افواہوں میں سرے سے کوئی حقیقت نہیں تھی… لیکن ابن سبا نے ان میں حقیقت کا رنگ بھرا… ایسا رنگ بھرا کہ وہ رنگ ہم آج تک دھو نہیں سکے…تو یہ افواہیں ابن سبا کی ایجاد تھیں… اس کی ضرورت نے ان افواہوں کو ایجاد کیا تھا… آیندہ کالم میں یہ ذکر اُدھار رہا… وہ افواہیں کیا تھیں…؟ انہوں نے امت ِمسلمہ کی جڑوںمیں بیٹھنے کا کام کیسے کیا…؟ ابن سبا سے یہ کام کیسے لیاگیا…؟ یہ باتیں جاننے کی آج بہت ضرورت ہے، کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے… صرف بھوک رکھ کر کھا کر ہی بڑے حکیم صاحب کے چنگل سے محفوظ رہ سکتے ہیں… ورنہ اسے ہماری ضرورت سے کھیلنا آتا ہے۔