ایک زہر جو تیزی سے پھیل رہا ہے
آج آپ کی ملاقات ایک زہر سے کرواتے ہیں… زہر جو نئی نسل کے رگ وپے میں اترتا چلا جا رہا ہے… آپ اس زہر کو نہایت آسانی سے خرید سکتے ہیں، کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں… یعنی نہ زہر تیار کرنے والوں پر پابندی ہے، نہ فروخت کرنے والوں پر اور نہ خرید اروں پر… گو یا سب لوگ بے خوف خطر یہ سب کام کر سکتے ہیں… کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی پوچھے بھی کیسے؟ پوچھنے والے ایک دوسرے کو جو پوچھتے رہتے ہیں… انہیں آپس کی لڑائیوں سے فرصت ملے، تب بھی وہ اس زہر کی طرف شاید ہی توجہ دیں، ان حـالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پر صحیح معنوں میں پابندی لگانے میں حکومت کا کیا نقصان ہے اور کیا نئی نسل سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے، کوئی ہمدردی نہیں ہے… نسل تباہ ہوتی ہے توہو جائے… انہیں کیا… آنے والی، اور جانے والی کوئی حکومت بھی کیوں اس طرف دھیان نہیں دیتی… حیرت ہے…
یہ زہر بہت سی چیزوں کو ملا کر بنایا جاتا ہے… ان چیزوں کے بارے میں جان کر آپ حیران ہو ں گے، لیکن کھانے والوں کو نہ حیران ہونے کی فرصت ہے نہ پریشان ہونے کی، بس کھائے چلے جار ہے ہیں… اس میں کیڑا لگی ہوئی چھالیہ، بیٹر ی کا استعمال شدہ پانی، چونے کا پساہوا پتھر، تمباکو
، پسہ ہوا کانچ، رنگ ملا کتھّہ، افیون، اسغول، خوشبو والے ذائقے دار فلیور، مختلف کیمیکلز اور خون شامل کیا جاتا ہے… ان تمام چیزوں کے ملنے سے جو چیز تیار ہوتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے پیکٹوں کی صورت میں پان کی دکانوں پر عام ملتی ہے… اور گُٹکا کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے… کراچی کے ایک ڈاکٹر جنا ح ہسپتال میں معالج ہیں… ان کا کہنا ہے روزانہ تقریباً 150مریض منہ، زبان، گلے اور گردن کے کینسر کے علاج کی غرض سے آتے ہیں… اور ہرسال تقریباً بیس ہزار کینسر میں مبتلا لوگ علاج کے لیے آتے ہیں… ان کے علاوہ اب گٹکے سے اور بھی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں… ان میں ہارٹ اٹیک، معدے میں تیزابیت، بلڈ پریشر اور نفسیاتی بیماریاں شامل ہیں… ڈاکٹر صاحبان کہتے ہیں کہ کینسر کی بیماری اگر پہلے سٹیج پر ہی معلوم ہو جائے تو احتیاط کر کے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے… مگر یہ بیماری جان لے کر ہی چھوڑی ہے…
٭ حکومت نے گٹکے کی خرید وفروخت پر پابندی تو لگا دی، لیکن وہ پابندی ہے کہاں… عملی صور ت میں اس پابندی کا کہیں نام ونشان تک نظر نہیں آتا… ٭ ہمارے معاشرے سے اگر گٹکے کی لعنت ختم نہ کی گئی تو جو نوجوان طبقہ ابھی تک اس لعنت سے محفوظ ہے… وہ بھی اس کی زد میں آجائے گا… اور ایک دن یہ سب سے بڑا جان لیوا مرض بن جائے گا… ٭
چند ہفتے پہلے یہ وحشت ناک خبر سننے میں آئی ہے کہ ایک علاقے مں خون ملا گٹکا تیار کیا جا رہاہے… ان کا مقصد یہ گٹکا عام سے عام انسان تک پہنچانا ہے… ظاہر ہے یہ کاروبار پولیس کے زیر ِ سایہ ہی ہو رہاہے… جب قوم کی حفاظت کرنے والے ہی قوم کے دشمن بن جائیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے… ایک ماہر سرجن قیصر سجاد کہتے ہیں : ’’مختلف قسم کی چھالیہ کھانے سے گٹکا کھانے کی عادت لگ جاتی ہے… گٹکے میں جو چھالیہ استعمال کی جاتی ہے، ا س سے کینسر ہو جاتا ہے۔ ‘‘
حکومت نے گٹکے کی خرید وفروخت پر پابندی تو لگا دی، لیکن وہ پابندی ہے کہاں… عملی صور ت میں اس پابندی کا کہیں نام ونشان تک نظر نہیں آتا… کیا آپ نے کبھی یہ خبر کسی اخبار میں پڑھی ہے کہ فلاں فلاں دکان دار گٹکے فروخت کرتاہوا گرفتار… یا فلاں فیکٹری گٹکے بناتی ہوئی پکڑ ی گئی اور اسے سیل کر دیا گیا ہے… میں نے تو آج تک ایسی ایک خبر بھی نہیں پڑھی… نہ سنی… ہے نا حیرت ہے اور دکھ کی بات… ایسی پابندی لگانے کا کیا فائدہ… جس پر سرے سے عمل ہو ہی نہ… صرف کراچی شہر میں 4500 کلو گرام گٹکا فروخت ہو رہا ہے… اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسے استعمال کرنے والے 13 سے 18 سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ہیں… گویا حکومت نے اس عمر کی نسل کو خراب کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے… اب تو یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ گٹکے میں ہیروئن بھی شامل کی جانے لگی ہے… ڈاکٹر حضرات کا یہ بھی کہناہے کہ گٹکا استعمال کرنے والے نوجوان ذہنی اور جسمانی لحاظ سے ختم ہو رہے ہیں اور ایسا بھلا کون سی قوتیں چاہیں گی… ظاہر ہے، اسلام دشمن قوتیں… تاکہ یہ قوم کبھی بھی ان کے سامنے سر نہ اٹھا سکے…
سنا ہے، اب تو گھروں میں بھی گٹکا تیار ہونے لگا ہے… گویا اب یہ گھریلو صنعت بنتی جا رہی ہے… اور گھریلو صنعت کے تباہ کن اثرات ظاہر ہورہے ہیں… تحقیقات کرنے والے چند لوگ پانوں کی مختلف دکانوں پر گئے… انہوں نے دکان دار وں سے پوچھا : ’’ آپ گٹکے کا کاروبار کرکے کیوں لوگوں کو تباہی کے راستے پر لگارہے ہیں۔ ‘‘
جواب ملا : ’’ آج کل لوگ گٹکا پہلے مانگتے ہیں، پان بعد میں… گٹکے کی مانگ پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی ہے، اگر ہم گٹکا دکان پر نہ رکھیں تو ہمارے پان نہیں بکتے… ہم اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں۔ ‘‘ ایک نوجوان سے ان لوگوں نے پوچھا : ’’بھائی !گٹکا کھا کر کیوں اپنی زندگی دائو پر لگاتے ہو ؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ عادت ایسی پڑ گئی ہے کہ اسے کھائے بغیر گزارہ نہیں… نہ کھائیں تو رہا نہیں جاتا، چکر آتے ہیں، پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ اس سے پوچھا گیا : ’’ روزآنہ کتنے روپے کے گٹکے خرید تے ہو۔ ‘‘ کہنے لگا ـ: ’’چالیس پچا س روپے کے خریدتاہوں۔ ‘‘ چند اور گٹکے کھانے والوں سے پوچھا گیا تو تقریباً ایسے ہی جواب ملے… ایک نے تو یہ عجیب جواب دیا : ’’ مجھے بے شک کھانا نہ ملے، بس گٹکا مل جائے تو پورا دن گزارلوں گا۔ ‘‘
آپ سوچ سکتے ہیں… یہ کیسے نوجوان ہیں جنہیں نہ اپنی پروا ہے، نہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی… ان پر کیا گزرتی ہو گی… کچھ نوجوان ایسے بھی ملے جو روزآنہ 70، 80 روپے کماتے ہیں، لیکن ان میں سے 30، 40 روپے کے گٹکے کھا جاتے ہیں… گٹکے کھانے والوں میں ان پڑھ اور آوارہ لڑکے ہی شامل نہیں، پڑھے لکھے اچھے گھرانوں کے لڑکے بھی شامل ہیں… وہ اپنے والدین سے چھپ کر گٹکا کھاتے ہیں… ایک ڈاکٹر نے بتایا : ’’ میں نے اس سلسلے میں تحقیقات کی تو معلوم ہوا، میرے اپنے علاقے میں 100 میں سے 95 لوگ گٹکا کھانے والے ہیں، مں نے دکان داروں سے پوچھا تو پتا چلا کہ یہ دکان دار 2000 سے 2500 تک گٹکے روزآنہ فروخت کرتاہے… اس میں انہیں 1000 روپے تک کا نفع ہو جاتا ہے… ہائے افسوس…! وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس کے رہنے والے ہی اس ملک کو بہتر بنانا نہ چاہتے ہوں…؟ اپنی ناجائزکمائی کی خاطر لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے والے بھی برباد ہوں گے… یہ نہ بھولیں…
ڈاکٹر ی رپورٹ کے مطابق کچھ نوجوان اپنی آواز گٹکے کھانے کی وجہ سے کھو چکے ہیں… ہمارے معاشرے سے اگر گٹکے کی لعنت ختم نہ کی گئی تو جو نوجوان طبقہ ابھی تک اس لعنت سے محفوظ ہے… وہ بھی اس کی زد میں آجائے گا… اور ایک دن یہ سب سے بڑا جان لیوا مرض بن جائے گا… حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس کاروبار کا قلع قمع کر دے… تاکہ نئی نسل بربادی سے بچ جائے… اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بری صحبت میں پڑکر بچے گٹکے کے عادی ہو جاتے ہیں… لہٰذا ماں باپ کو بھی اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرور ت ہے، ورنہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے…