33: آپﷺ بیماروں کی عیادت کرتے تھے

32: آپﷺ معاف کر دیا کرتے تھے

رسول اللہﷺ کی صفات حمیدہ میں سے ایک نمایاں صفت صبر کرنا اور معاف کر دینا بھی ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ “آنحضرتﷺ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں بدلہ نہیں لیا۔”

قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مار ڈالنے کی دھمکی دی، راستہ میں کانٹے بچھائے، جسم مبارک پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر دم گھونٹنے کی کوشش کی، آپﷺ کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کیں، توبہ توبہ ! آپﷺ کو پاگل، جادوگر اور شاعر کہا مگر آپﷺ نے کبھی اُن کی اِن حرکتوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ معاف فرما دیا۔

اور تو اور طائف والوں نے آپﷺ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ آپﷺ لہو لہان ہو گئے، آپﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ اگر تم چاہو تو طائف والوں کو اِن حرکتوں کے بدلہ میں پیس کر رکھ دوں۔
تو یاد ہے آپﷺ نے کیا جواب دیا تھا، آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے اور فرمایا تھا “اے اللہ ان کو معاف فرما دے، یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ اِن کی اولاد اِسلام قبول کر لے۔”
٭٭٭

33: آپﷺ بیماروں کی عیادت کرتے تھے

رسولﷺ جب بھی کسی کی بیماری کی خبر سنتے تو اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے، بڑے چھوٹے اور امیر و غریب میں کوئی فرق نہ کرتے۔

آپﷺ مریض کے پاس تشریف لے جاتے، اس کے سرہانے بیٹھتے، سر اور نبض پر ہاتھ رکھتے، حال دریافت فرماتے، اُسے تسلی دیتے اور پھر صحت کے لئے 7 بار یہ دعا فرماتے:

اسأل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک

“میں بڑائی والے اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے، سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔”

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شور و غل نہ کرنا سنت ہے۔”

نبی کریمﷺ نے فرمایا “قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا اور تو نے میری عالدت نہیں کی؟ بندہ عرض کرےگا” پروردگار! آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟”۔ اللہ تعالی فرمائے گا:
“میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔” (یعنیٰ تجھے میری خوشنودی اور رحمت حاصل ہوتی)۔۔ (مسلم)
٭٭٭