بُری لت
قانتہ رابعہ
صبح بستر سے اٹھنے سے پہلے ہی رافع کی طبیعت سست سست تھی۔ ناشتہ بھی بددلی سے کیا اور اسکول جانے سے پہلے دس دفعہ دل چاہا کہ کاش آج اسکول نہ جانا پڑے۔
جب اس خواہش کی اظہار گھر والوں کے سامنے کیا تو سب حیرانی سے اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
“طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری!” ثمن آپا نے پوچھا۔
“ضرور ٹھنڈ لگ گئی ہوگی رات میں۔” امی نے تبصرہ کیا۔
چونکہ امتحانات بہت قریب تھے اور رافع شروع ہی سے پوزیشن حاصل کرنے والوں میں شامل رہا تھا لہذا اس فرمائش کو پورا کرنا بھی ممکن نہ تھا۔
“رافع نے سارا دن اسکول میں آج کیسے گزارا ہوگا؟”
یہ سوال گھر کے تمام افراد کے ذہن میں آیا۔ یہاں تک کہ رکشا رکنے کی آواز آئی اور رافع میاں مردہ چال چلتے گھر پہنچے۔
اسکول بیگ صوفے پر پٹخا اور جوتے ایک طرف پھینکے۔
“میں کل اسکول نہیں جاؤں گا۔”
یہ اعلان انہوں نے گزشتہ پانچ چھ سالوں میں ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا۔ یقینی طور پر اس خبر نما اعلان کے سنتے ہی تمام افراد کے کان کھڑے ہو گئے۔
“کیا ہو گیا ہے رافع؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟”
“اسکول میں آج کسی سے لڑائی جھگڑا تو نہیں ہوا؟”
رنگ برنگے تبصرے تھے۔ سنی ان سنی کرتے ہوئے رافع نے کمبل اوپر تان لیا اور کسی کو کوئی جواب نہ دیا۔ ثمن آپی آگے بڑھیں۔ وہ کیا سب گھر والے جانتے تھے کہ رافع انتہائی ذمہ دار، سنجیدہ اور صلح جو بچہ ہے، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔
ثمن آپی نے رافع کے منہ سے کمبل ہٹایا اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
“کہیں بخار تو نہیں ہے میرے بھیا کو۔”
رافع گم صم لیٹا رہا۔
“پیٹ میں یا سر میں درد تو نہیں ہے؟” امی نے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“سر میں درد ہے نہ پیٹ میں، پھر بھی طبیعت خراب ہے۔” رافع نے آہستہ سے کہا۔
“رات کیا کھایا تھا؟” ہر شخص جو سوال پوچھنا فرض عین سمجھتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے۔
“رات صرف چائے رس لیے تھے۔” رافع نے بد دلی سے بتایا۔
“کہیں گرے تو نہیں جس کی وجہ سے چوٹ لگی ہو؟” ثمن آپی نے رائے ظاہر کی۔
“نہیں، میں تو کئی روز سے کہیں کھیلنے ہی نہیں گیا۔” رافع نے جواب دیا۔
“پھر لازمی بات ہے تمہیں نظر لگ گئی ہے۔” امی نے فکر مندی سے کہا۔
اور اس کی طرف منہ کر کے آیات پڑھ کے پھونک ماری۔ قرآنی آیات کے دم سے اتنا فائدہ ہوا کہ وہ کمبل پرے پھینک کر بستر سے نیچے اتر آیا۔
امی نے کچھ تسلی سے، کچھ فاتحانہ انداز سے سب کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں: “دیکھا میرے دم کا کمال!!”
کھانا کھانے کے بعد رافع نے اسکول بیگ نکالا۔ بیس پچیس منٹ میں سر حفیظ ٹیوشن کے لیے آنے والے تھے اور اس نے ابھی تک ہوم ورک نہیں کیا تھا۔
جوں ہی اسکول بیگ کھولا، کاپی پر قلم سے لکھنا شروع کیا پھر وہی مسئلہ۔ ڈھیٹ بن کر دو چار منٹ تک تو اس نے کام کیا، مگر پھر وہی تکلیف۔
“امی۔۔۔۔۔ امی۔۔۔۔۔ ادھر آئیں؟”
“کیا ہوا رافع؟” ثمن آپی نے پوچھا۔
“میں ہوم ورک کرتا ہوں یا کچھ پڑھنے لگتا ہوں تو میری گردن کے پچھلے حصہ میں درد شروع ہو جاتا ہے۔” امی نے تشویش سے ان کی گردن پر رکھتے ہوئے پوچھا:
“یہاں۔۔۔۔۔ یہاں۔۔۔۔۔”
رافع درد سے کراہتا رہا۔ یہاں تک کہ امی کی انگلیاں دائیں بازو کے اوپر گدی تک جا پہنچیں۔
“ہاں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ یہیں۔ ہائے امی!”
وہ درد کی جگہ امی کی انگلیوں سے دبنے پر چیخا۔
امی نے زیتون کے تیل کی مالش کی۔ درد میں خاص فرق نہ پڑا تو امی نے درد دور کرنے والی دوا دی۔ گرم دودھ، انڈا ابال کر دیا اور کمبل اوڑھا کر لٹا دیا۔
سر حفیظ ٹیوشن پڑھانے کے لیے آئے اور واپس چلے گئے۔ جاتے وقت انہوں نے حیرانی سے سوچا:” پہلے تو کبھی رافع نے ایسا بہانا نہیں کیا۔”
علی الصبح رافع اٹھا۔ نماز ادا کی اور ہوم ورک مکمل کرنے بیٹھا۔ کمرے میں ہیٹر جل رہا تھا اور کمرہ قدرے گرم تھا۔
اللہ کا شکر ہے اب درد اتنا زیادہ نہیں ہے۔ امی بھی فجر کی نماز اور تلاوت کے بعد گرم دودھ لے کر اس کے پاس آ گئیں اور بآواز بلند کہنے لگیں:
“اسکول جاتے ہوئے مفلر لپیٹ لینا، گردن کے ارد گرد ٹھنڈ بھی بے دھیانی میں اپنا اثر دکھا جاتی ہے۔”
اس کا ہوم ورک بدقت پورا ہوا۔
“ہاتھ کے انگوٹھے میں بھی درد ہو رہا ہے امی! پتا نہیں کیا ہو گیا ہے؟” اسکول رکشا آنے پر بیگ اٹھاتے اٹھاتے رافع نے امی کو بتایا۔
“اللہ کرم کرے۔ ایک دو دن سے نئی سے نئی تکلیف بتاتا ہے۔ اسکول سے واپسی پر ڈاکٹر عارفہ کے پاس لے جاؤں گی۔ انشاء اللہ۔” امی نے رخصت کرتے ہوئے کہا۔
اسکول سے واپسی پر آج وہی پرانا سین دہرایا گیا۔
میری کمر میں درد ہے، انگوٹھوں میں درد ہے، لکھنے کے لیے قلم پکڑا تو لکھا ہی نہیں گیا، قلم نیچے گر پڑا، استانی نے بھی بہت ڈانٹا، سیٹ پر بیٹھ کر صحیح طریقے سے نہیں لکھا گیا اور اس طرح کی مزید شکایات رافع کی زبان پر تھیں۔
امی نے ابو کا بھی انتظار نہ کیا اور رافع کو لے کر ڈاکٹر عارفہ کے کلینک جا پہنچیں۔
“ڈاکٹر صاحبہ! ذرا رافع کو تو چیک کریں، کبھی ہاتھ کے انگوٹھے میں درد کا کہتا ہے کبھی۔۔۔۔۔”
“مریض خود اپنا مرض بتائے گا۔”
“بتاؤ رافع بیٹا! درد کب سے ہے؟” انہوں نے رافع کے سینے پر اسٹیتھو اسکوپ لگایا۔
“زبان نکالو۔”
آنکھیں پوری اوپر نیچے کر کے دیکھیں۔
ناخن کو زور سے دبایا۔
“بھوک کیسی لگتی ہے؟ درد پہلے تو کبھی نہیں ہوا؟” آخری سوال انہوں نے تھرمامیٹر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا۔
“آنٹی! دو تین دن سے محسوس ہو رہا ہے۔ پہلے تو کبھی درد نہیں ہوا تھا۔” رافع نے بتایا۔
“باجی! میری بات دھیان سے سنیں۔”
ڈاکٹر عارفہ نے اب رافع کی امی کو مخاطب کیا۔ دور پار کے رشتے سے رافع کی امی ڈاکٹر عارفہ کی باجی بھی لگتی تھیں اور بھابھی بھی۔
“رافع کو نہ تو بخار ہے نہ کوئی جگر معدہ کی تکلیف۔”
“ڈاکٹر صاحبہ! پھر کیا ہے؟” اس کی امی نے فکر مندی سے پوچھا۔
“ان کو کوئی اور بیماری ہے۔” بڑے مطمئن انداز میں انہوں نے کہا۔
رافع ہکا بکا ان کا منہ دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا۔ “اللہ کا شکر ہے کہ رافع ہر طرح سے فٹ اور صحت مند ہے، بس ان کی جو بیماری ہے وہ خود ساختہ ہے، اگر چاہیں تو ابھی پانچ منٹ میں نجات پا سکتے ہیں۔”
“وہ کیسے؟” امی بے یقینی سے بولیں۔
“وہ ایسے کہ رافع میاں کے ہاتھ اور خاص طور پر ہاتھوں کے انگوٹھے مسلسل موبائل فون پر گیم کھیلنے اور میسجنگ کرنے سے درد کر رہے ہیں اور نظروں کا مرکز چونکہ وہ اونچی اسکرین ہوتی ہے، لہذا مسلسل ایک ہی سمت دیکھنے رہنے سے اعصابی تکلیف بھی ہو گئی ہے۔ مجھے اس لیے اس کا علم ہے کہ سعد میرا بیٹا اس کا ہم جماعت اور دوست ہے۔ جب اس کے پاس جاؤ، وہ طرح طرح کے میسج سناتا ہے اور خوش ہو کر کہتا ہے: “ممی! رافع نے کیا اچھا میسج بھیجا ہے۔”
اب آپ خود سوچیں بچوں کی کیج، نا پختہ ہڈیاں جب مسلسل کئی کئی گھنٹے حرکت میں رہیں گی تو یہ اثراتِ بد تو لازماً ظاہر ہوں گے۔
قلم پکڑنے کے لیے تو ماہرین نفسیات چھ سات سال کی عمر کو بہتر سمجھتے ہیں اور اس کے لےا یہ زیادتی نہیں؟ “انہوں نے اپنے موبائل فون کی طرف اشارہ کیا۔
“اور انگوٹھے یا اعصاب ہی نہیں، اس کی خطرناک شعاعیں کانوں اور دماغ کے لیے جتنی نقصان دہ ہیں وہ لوگ ہی جانتے ہیں۔
ایک ضرورت کی چیز کو جب سامان تعیش بنا کر اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے تو پھر دس سال کی عمر میں لاٹھی پکڑ کر چلنے کی نوبت آ ہی سکتی ہے۔” “توبہ توبہ۔۔۔۔۔” خوف سے رافع نے جھر جھری لی۔ وہ آنکھوں پر موٹا چشمہ اور ہاتھ میں لاٹھی کا تصور کر کے پریشان ہو گیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر ڈاکٹر صاحبہ نے آخری ضرب لگائی:
“یہ اشیا صرف ضرورت کے لیے استعمال کرو تاکہ ذہن استعمال ہو۔ اگر بلا ناغہ کئی کئی گھنٹے استعمال کرو گے، کبھی گیم کھیلنے کے لیے، کبھی میسجنگ کے لیے تو یاد رکھو اپنی دیکھنے، سننے، پکڑنے کی صلاحیتیں ابھی سے گنوا بیٹھو گے۔ بولو منظور ہے؟”
رافع نے تیزی سے انکار میں سر ہلا دیا۔
خوش ہوکر ڈاکٹر صاحبہ نے اس کی کمر پر تھپکی دی۔
“شاباش میرا جوان! کمپیوٹر اور اس قسم کی ہر سائنسی ایجاد کے لیے یہی فارمولا یاد رکھنا تاکہ لوگ تمہاری مثال دیں اور اپنے بچوں کو یہ سمجھائیں کہ۔۔۔ یہ ہے وہ بچہ جس پر موبائل اور نیٹ کا جادو بھی اثر نہ کر سکا۔”
٭٭٭
ٹائپنگ: ذوالقرنین
پروف ریڈنگ: فہیم ، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید