اخلاص کی اہمیت :

قرآن میں سات موقعوں پر یہ آیت ہے :
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ
’’ اطاعت گزاری کو خدا کیلئے خالص کر کے ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ہر عبادت اور عمل کا پہلا رکن یہ ہے کہ وہ وہ خالص خدا کیلئے ہو ، یعنی اس میں کسی ظاہری و باطنی بت پرستی اور خواہش نفسانی کا دخل نہ ہو اور اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی ہ یعنی خدائے برتر کی ذات کی خوشنودی کے سوا کوئی اور غرض نہ ہو ۔
قرآن کریم میں بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بندہ اﷲ جل شانہ‘ کا قرب بغیر اخلاص کے حاصل نہیں کر سکتا اور اخلاص پیدا کرنا نہایت ضروری ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُو اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵ حُنَفَآئَ وَیُقِِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ہ
’’ اور ان کویہ حکم ہوا کہ اﷲ کی بندگی کریں اس کیلئے بندگی خالص کر کے ابراہیم کی راہ پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور یہ مضبوط لوگوں کی راہ ہے ۔ ‘‘
اور فرمایا :
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا 0
’’ سو پھر جس کو اپنے رب سے ملنے کی امید ہو وہ کچھ نیک کام کریں اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں ۔ ‘‘
نیز فرمایا :
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ ہ اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط
’’ بے شک ہم نے آپ کی طرف (اس ) کتاب کو ٹھیک ٹھیک نازل کیا ہے سو آپ خالص اعتقاد کر کے اﷲ ہی کی عبادت کرتے رہیں ، یاد رکھو عباد ت خالص اﷲ ہی کیلئے ہے ۔ ‘‘
ہر کام میں نیت اور اخلاص واجب ہے ، اس لئے وضو ، غسل ، تیمم ، نماز ، زکوٰۃ ، روزہ ، اعتکاف اور حج اور ان کے علاوہ عبادات کی تقریباً ساٹھ انواع و اقسام میں نیت فرض کر دی گئی ۔
اسی لئے اخلاص کے بغیر اسلام میں نہ تو عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ اخلاق و معاملات عبادات کا درجہ پاتے ہیں ۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہر کام کے شروع کرتے وقت ہم اپنی نیت کو ہر غیر مخلصانہ غرض و غایت سے اور ہر دنیاوی اجرت سے پاک رکھیں ۔ تورات اور قرآن میں ھابیل اور قابیل آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ ہے ، دونوں نے خدا کے حضور میں اپنی اپنی پیداوار کی قربانیاں پیش کیں ، خدا عزو جل نے ان میں سے صرف ایک کی قربانی قبول کی اور اسی کی زبان سے اپنا یہ ابدی اصول بھی ظاہر فرمادیا :
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اﷲ ُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ 0
’’ خدا تو متقیوں کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ ‘‘
متقی بھی وہی ہوتے ہیں جو دل کے اخلاص کے ساتھ رب کی خوشنودی کیلئے کام کرتے ہیں ۔ انہیں کا کام قبول کرتا ہے اور ان کو دین و دنیا میں فوز و فلاح بخشتا جاتا ہے ان کو خدا کے ہاں محبوبیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور دنیا میں ان کو ہر دلعزیزی ملتی ہے ۔
رسول اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو ایک صاحب مدینہ منورہ آئے ، اس نے ظاہر یہ کیا کہ وہ اس اجر و ثواب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے ان فقرائِ مہاجرین کیلئے تیار کر رکھا ہے جو اپنے گھر بار اور مال و دولت سے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اور فضل کے حاصل کرنے کیلئے نکالے گئے ہیں اور وہ اﷲ اور اس کے رسول صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی مدد کرتے ہیں ۔ یہی لوگ سچے ہیں وہ صاحب ظاہر تو یہ کر رہے تھے لیکن ان کی اصل خواہش ام قیس نامی عورت سے شادی تھی جو ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئی تھیں ۔ ان صاحب نے ان کو پیغام نکاح بھیجا تھا تو انہوں نے یہی کہا کہ جب تک ہجرت نہ کرو گے میں تم سے شادی نہ کروں گی ۔
اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ نے یہ حقیقت اور راز اپنے نبی صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر کھول دیا اور ان کی دلی خواہش آپ پر ظاہر فرمادی تو آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ان کی سرزنش کی خاطر یہ حدیث بیان فرمائی اور تمام امت پر واضح فرمادیا کہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ صرف اسی عمل کو قبول کرتے ہیں جو صرف اﷲ جل شانہ‘ کی رضاو و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا جائے ۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :میں نے رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ :
تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جو وہ نیت کرے گا ۔ پس جس کی ہجرت اﷲ اور اس کے رسول صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی طرف ہو تو واقعی اس کی ہجرت اﷲ اور اس کے رسول صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو تو اس کی ہجرت اسی کیلئے ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے ۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ :
اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ تمہاری صورتوں اور مال و دولت کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں ۔
نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی شخص کسی ایسی ٹھوس چٹان میں بھی عمل کرے گا جس میں نہ کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی ، تب بھی اس کا عمل ظاہر ہو کر رہے گا چاہے وہ عمل کیسا ہی کیوں نہ ہو ، اور نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو نہایت بے جگری سے لڑتا ہو اور اس شخص کے بارے میں جو حمیت و غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے اور اس کے بارے میں بھی جو ریاکاری کیلئے لڑتا ہو ان میںسے اﷲ کیلئے جنگ کرنے والا کون شمار ہوگا ! تو نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس لئے جنگ کرے تاکہ اﷲ کا کلمہ سربلند ہو وہی اﷲ کیلئے لڑنے والا شمار ہوگا ۔
علم انسان کی زینت ہے ، اور علم کا ثمرہ عمل ہے اور کوئی بھی عمل اخلاص کے بغیر اور صرف اﷲ جل شانہ‘ کی رضا کے حصول کی نیت کے اﷲ کے یہاں قبول نہیں ہوتا اور نہ اس کے کرنے والے کو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فریضہ ادا ہوتا ہے اور کامیابی کا اصل راز اور اس منزل مقصود تک پہونچنے کا راستہ ہی اخلاص ہے جس تک پہونچنے کی ہر نبی اور عالم اور سربراہ وغیرہ کوشش کرتا ہے اور جو کام بھی اﷲ کیلئے ہوگا وہ کامل و مکمل ہوگا اور جو کام غیر اﷲ کیلئے ہوگا اس کا انجام سوائے ناکامی ، نامرادی اور خسران کے اور کچھ نہ ہوگا ۔
آپ جو کام بھی کریں خواہ وہ اچھا ہو یا برا اور اس میں آپ حق پر ہوں یا غلطی پر اور وہ کام خواہ دین کیلئے ہو یا قوم و ملک کیلئے ، وطن کی طرف سے مدافعت کی غرض سے ہو یا اس کی سربلندی کیلئے اور غرض خواہ اچھی ہو یا بری بہرحال ہر کام کیلئے اس اخلاص کی شدید ضرورت ہے جو آپ کو اس کی خاطر اپنے مال و جان کی قربانی پر آمادہ کرے اور کوئی شخص جنگ میں قتل نہیں ہوتا اور اپنا مال خرچ نہیں کرتا اور دن کو روزہ اور رات کو عبادت نہیں کرتا اور اپنی تمام مصالح کی قربانی نہیں دیتا اور ہر طرح مشقت و تکلیف برداشت نہیں کرتا ۔ مگر وہ شخص جو اپنے اس دین و عقیدہ کیلئے مخلص ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور اس مذہب کیلئے مخلص ہوتا ہے جس پر وہ دین و سیاست کے اعتبار سے عمل پیرا ہے ، اس لئے ہر شخص کو اپنے عمل پر نظر رکھنا چاہئے اور جب تک نیت خالص اور عمل میں اخلاص نہ پیدا ہوجائے اس وقت تک اپنے آپ کو کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کیلئے تعب و مشقت میں نہیں ڈالنا چاہئے ۔ ورنہ وہ اپنی کوشش میںناکام اور عمل میں نامراد ہوگا اور ان کا انجام یہ ہوگا کہ اس کی کوشش رائیگاں جائے گی ۔
بعض اہل بصیرت کا قول ہے کہ اگر ایک ساعت بھی اخلاص حاصل ہوجائے تو نجات مل جائے ۔ حضرت سلیمان درانی فرماتے ہیں مبارک ہو اس کو جس کا ایک قدم بھی ایسا اٹھا جس سے مقصود خدا کی ذات ہو ۔
شاہ اسحٰق محدث بڑے بزرگوں میں سے ہیں جنہوںنے قرآن و حدیث کی بڑی خدمت کی ہے آپ کو بواسیر کا مرض تھا ۔ ایک شخص نے ان سے عرض کیا کہ آپ نماز تو پڑھتے ہیں ہیں اگر آپ وتر کی تین رکعات میں سورہ اِذَا جَآئَ سے سورہ اخلاص تک علی الترتیب تینوں رکعات میں پڑھ لیا کریں تو انشاء اﷲ بواسیر کی شکایت نہ ہوگی ۔ آپ سن کر مسکرا دیئے کچھ عرصہ بعد وہی شخص پھر شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپ نے اس نسخہ پر عمل کیا یا نہیں ۔ شاہ صاحب نے ٹھنڈی سانس لی اور فرمایا بھائی ہم اﷲ کی اور تو کوئی عبادت کرنے کے قابل نہیں لے دے کہ چند رکعات نماز کی ہیں اس کو بھی ہم حب دنیا کے لالچ میں پڑھیں تو کیا رہ جائے گا ۔ یہ ان بزرگوں کی باتیں ہیں جنہوںنے اپنی زندگیاں اﷲ جل شانہ‘ کی راہ میں صرف کر دیں اور عمر بھر بیماری کا ساتھ رہنا گوارا کیا لیکن دنیا کا لالچ نماز کی ترتیب میں لانا گوارا نہ کیا۔ حالانکہ اس طرح سورتیں پڑھنا ناجائز نہیں ہے لیکن آپ نے غور کیا ہے کہ کتنا اخلاص تھا ان کی نیتوں میں۔