ہم وقوعِ قیامت کیوں مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد
قیامت سے پہلے یہ چھوٹی چھوٹی علامتیں ظاہر ہوں گی جن پر ہم کو ایمان لانا ضروری ہے
قیامت سے پہلے یہ بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی جن پر ہم کو ایمان لانا ضروری ہے
ہم عالمِ برزخ وقبر میں جزاء و سزا کوکس طرح مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد
ہم (میدانِ محشر) حساب کے دن کوکس طرح مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد
ہم جنت اور اس کی نعمتوں کوکس طرح مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد
ہم جہنم اور اس کی سزاؤں کوکس طرح مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد
وقوعِ قیامت اور اس کی ہولناکیاں۔ جس طرح ایک انسان پیدا ہوتا ہے اور پھر مر جاتا ہے، اسی طرح یہ کائنات بھی ایک وقت تھا جب نہیں تھی اس کو اللہ نے پیدا کیا، اور پھر ایک وقت آئے گا جب اس کا وقت مکمل ہوجائے گا اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ ختم فرما دیں گے، ایک فرد کے خاتمہ کا نام موت ہے جبکہ پوری دنیا کے خاتمہ کا نام ہی قیامت ہے ۔ قیامت کو چونکہ لازماً واقع ہونا ہے اس لئے اس کو ’’قیامت‘‘ کہا گیا ہے، قیامت کے معنی ہیں کہ ایسا واقعہ جو یقیناً وقوع پذیر اور قائم ہوگا،اسی معنی میں اس کو ’’الواقعہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
قیامت اس وقت قائم ہوگی جب اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اس کی فہرست میں موجود آخری انسان اپنی زندگی مکمل کرلے گا، اور جب اس قیامت کا وقت آجائے گا تب اس کے واقع ہونے میں ایک لمحہ اور ایک آن کی بھی تاخیر نہیں ہو گی، پھر یہ وقت کا تعین خَلاّق عظیم کا مقرر کردہ ہے اس لئے وہ قیامت اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ پہلے بھی آنے والی نہیں ہے۔دلائل
بند
عقیدہ:
قیامت کے واقع ہونے کا وقت اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم، ہاں اس کی علامات بتلائی گئی ہیں ۔تشریح
قیامت کا وقت۔ قیامت کے واقع ہونے کا وقت صرف اللہ رب العزت کو ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ قیامت کاوقت کوئی نہیں جانتا، کسی شخص کا یہ دعوی کے وہ قیامت کے واقع ہونے کے وقت کو متعین طور پر جانتا ہے کفر ہے، ہاں قرآن وحدیث میں قیامت کے واقع ہونے کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں ان شرائط کو بیان کرنا قیامت کے واقع ہونے کو متعین کرنا نہیں ہے، جیسا کہ یہ نشانیاں پہلے تفصیل سے بیان ہوئی ہیں ۔
قیامت کے نام۔
قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ذہن نشین کرانے کےلئے اللہ اور اس کے رسول نے اس کی تفصیلات اور حقائق کو مختلف زاویوں سے سمجھایا ہے، ان تفصیلات اور حقائق کے معنی کے لحاظ سے قرآن مجید میں قیامت کے کئی صفاتی نام گنوائے گئے ہیں مثلاً ’’الصیحۃ، الحاقۃ، الواقعہ، الصاخۃ، الطّامّۃ الکبری، القارعۃ، الزلزال، الساعۃ، النبأ العظیم‘‘ وغیرہ ۔ قیامت کے یہ نام نفخہ اولیٰ سے جڑے ہوئے احوال کی مناسبت سے ہیں ۔ جبکہ نفخہ ثانیہ کے احوال کی مناسبت سے قیامت کے کچھ اور نام ہیں مثلا: یوم الخروج، یوم الجمع، یوم الفزع الأکبر، یوم التناد، یوم الوعید، یوم الحسرۃیوم التلاق، یوم الفصل وغیرہ۔
یہ تمام صفات قیامت کے مختلف حقائق کو بیان کرتی ہیں، اور سب حق ہیں، اور وقوع قیامت سے لے کر جنت یا جہنم میں داخلہ تک کے مکمل دورانیہ کو مجموعی طور پر یوم القیامۃ / قیامت کا دن کہا جاتا ہے، عقائد و ایمانیات سے متعلقہ ان کی تفصیل آگے ترتیب وار بیان ہوگی۔
دلائل
بند
عقیدہ:
قیامت قریب ہی واقع ہونے والی ہے۔تشریح
قیامت قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حساب دور نہیں ہے، نیک اعمال کرنے والوں کو ان کا بدلہ جلد ہی ملے گا، اور کفار و مشرکین اور برے اعمال کرنے والوں کو ان کے کئے کی سزاء بھی جلد ہی بھگتنے ہوگی، کیونکہ قیامت قریب ہی آنے والی ہے، آخرت کا انکار کرنے والے اپنی آنکھوں سے قیامت کے وقوع کو نہ دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی دور کی بات ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے مطابق تو وہ قریب ہی آنے والی ہے، تو جو کوئی آخرت کی کامیابی چاہتا ہے وہ دنیا سے گریز کرکے آخرت کی تیاری کی فکر کرے۔ وہ لوگ جو آخرت پر ایما ن نہیں رکھتے بڑی جرأت کرکے کہتے ہیں کہ اگر واقعی قیامت ہے تو جلد ہی لے آؤ، جبکہ ایمان والے اس سے ڈرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ قیامت بر حق ہے، یقیناً جو قیامت کے منکر ہیں وہی دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ دلائل
بند
عقیدہ:
قیامت کے قائم ہونے کےلئے نفخ صور بر حق ہے۔ مقررہ فرشتہ جب اللہ کے حکم سے صور پھونکے گا قیامت قائم ہو جائے گی۔
تشریح
نفخ صور پر ایمان کی تفصیل اور انکار کا حکم۔ قیامت کے واقع ہونے سے لے کر حشر اجساد تک کئی مرحلے اور کئی اہم واقعات پیش آئیں گے ان کی تفصیل نصوص قطعیہ میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، ان تفصیلات کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
صور پھونکنے والے فرشتہ کی جانب سے دو صور پھونکے جائیں گے،پہلے صور کو ’’الراجفہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اسی کو ’’الصیحۃ‘‘ بھی کہتے ہیں ، جس کے ساتھ ہی پوری دنیا پر تباہی آجائے گی۔ (القرآن)
دنیا کے خاتمہ کا آغاز صور پھونکنے سے ہوگا،جس کے وقت کا علم صرف اللہ رب العزت کو ہے، وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ اس فرشتہ کو جو صور پھونکنے پر مأمور ہے صور پھونکنے کا حکم دیں گے۔حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صور پیدا کرکے اسرافیل علیہ السلام کو دیا ، تاکہ جب انہیں قیامت کے واقع ہونے کےلئے جب صور پھونکنے کا حکم دیا جائے وہ صور پھونک دیں، اسرافیل علیہ السلام صور منہ میں لئے ہوئے اس حالت میں بیٹھے ہیں کہ ان کا ایک پاؤں کھڑا ہوا جبکہ ایک دوسرے پاؤں کا گھٹنہ ٹکا ہوا ہے اور ان کی نگاہیں عرش کی جانب لگی ہوئی ہیں ،جیسے ہی انہیں صور پھونکنے کا حکم ملے گا وہ صور پھونک دیں گے، اس دوران وہ کبھی پلک بھی نہیں جھپکاتے مبادا اسی وقت انہیں حکم ہو تو وہ صور پھونکنے میں پلک جھپکنے کی دیر کردیں۔
قیامت کے قائم ہونے اور دنیا کے خاتمہ کےلئے صور پھونکا جائے گا یقینی معاملہ ہے، جو قرآن مجید کی قطعی نصوص سے ثابت ہے اس پر ایمان فرض ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح حدیث کے حوالہ سے اوپر مذکور حضرت اسرافیل سے متعلقہ تفصیل پر ایمان بھی لازمی اور واجب ہے اور اس کا انکار سخت گناہ کی بات ہے۔دلائل
بند
عقیدہ:
قیامت کے قائم ہونے کے ساتھ ہی زمین پر سخت زلزلہ آجائے گا، پہاڑ روئی کی طرح اڑتے پھریں گے، اور سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔اس کے بعد سورج چاند کی روشنی ماند پڑ جائے گی ،وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے اور ستارے بے نور ہو کر بکھر جائیں گے۔ آسمان و زمین میں جتنی مخلوقات ہیں سب ختم ہو جائیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہے گا۔ تشریح
قیامت خیز زلزلہ اور کائنات کی تباہی / نفخہ اولیٰ سے پیدا ہونے والے احوال پر ایمان۔ پہلے صور کے ساتھ ہی قیامت خیز زلزلہ شروع ہوگا، اس زلزلہ میں زمین ہلا ماری جائے گی، وہ ایسے ہلے گی جیسے اس پر زور کی کپکپی طاری ہوگئی ہے، اور زمین پھٹ پڑے گی، اس کے نیچے کا حصہ اوپر اور اوپر کا حصہ نیچے کردیا جائےگا، اور ایسے لگے گا جیسے زمین اپنے خزانے اگل رہی ہے ۔ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں گے، اور دھنکی ہوئی روئی کی مانند اڑتے پھریں گے۔ سمندروں میں اتھل پتھل ہو کر اس میں بھونچال آجائے گا، اور سمندرجل کر بھڑک اٹھیں گے (القرآن)۔
یہ زلزلہ اتنا سخت اور شدید ہوگاکہ سب جاندار ایک جگہ جمع ہوجائیں گے، حمل کی مدت پوری کی ہوئی اونٹنی کھلی نظر انداز کر دی جائے گی، دودھ پلانے والی ماں اپنے بچہ کو چھوڑ دے گی، حاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا، اس زلزلہ کی شدت سے لوگوں پر غشی اور نشہ کی کیفیت طاری ہو جائے گی جبکہ وہ نشہ میں بھی نہ ہوں گے(القرآن)۔
اس صور کی آواز میں اس درجہ سختی ہوگی کہ اس سے آسمان و زمین میں جتنے جاندار ہیں سب مر جائیں گے (سوائے ان کے جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہے گا)، جانداروں کے ختم ہو جانے کے بعد بھی اس صور کی ہولناکی اور تباہی جاری رہے گی، آسمان سرخ ہو جائے گا اور پھر بتدریج سیاہ اور تاریک ہو جائے گا جیسے زیتون کے تیل کی تلچھٹ ہوتی ہے،اور پھر آسمان پھٹ پڑے گا، اورستارے بے نور ہو کر بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہو جائیں گے اور اپنی کشش کھو کر فضاء میں اپنے مدار سے ہٹ کر گھومتے رہ جائیں گےاور ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے، کائنات کا نظام درہم برہم ہو کر سب تباہ و برباد ہوجائے گا ، اور آسمان کو لپیٹ دیا جائے گا(القرآن)۔
صور کے پھونکے جانے کے نتیجہ میں قیامت واقع ہو کر کائنات تباہ ہو جائے گی، اور اوپر مذکور تمام واقعات پیش آئیں گے یقینی اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، ان تمام پر ایمان لانا کہ یہ ضرور پیش آئیں گے لازمی اور فرض ہے اور ان سب کا یا ان میں سے کسی ایک بات کا انکار بھی کفر ہے۔دلائل
بند
عقیدہ:
کچھ جاندار ایسے ہوں گے جن کو اللہ صور کے اثر سے محفوظ رکھے گا، لیکن وہ زمین پر قیامت کے دور میں پیدا ہونے والے انسان نہ ہوں گے۔تشریح
صور سے متأثر نہ ہونے والے۔ کچھ صاحب حیات ایسے بھی ہوں گے کہ جن کو اللہ تعالیٰ اس صور کے اثر سے محفوظ رکھے گا اور ان پر اس وقت موت طاری نہیں ہوگی۔ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام فرشتے، یا خاص فرشتے جیسے جبرائیل ، میکائیل، اسرافیل، ملک الموت اور عرش کے اٹھانے والے ، یا شہداء یا جنت کے حور وغلمان وغیرہ ہوں گے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کون ہوں گے ان کی تعیین قطعی طور پر معلوم نہیں ہے، کچھ روایات ہیں جن سے مذکورہ بالا امکانات کی تائید ہوتی ہے لیکن یہ قطعی نہیں ہیں، البتہ اتنی بات یقینی ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ضرور ہوں گی جن کو اللہ تعالیٰ اس صور کے اثر سے محفوظ کرلیں گے۔دلائل
بند
عقیدہ:
پھر صور کے اثر سے بچ جانے والوں کو بھی موت دے دی جائے گی۔ اور قیامت کے بعد ایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ کے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچے گا۔تشریح
صور سے متأثر نہ ہونے والوں کی موت کا عقیدہ۔ نفخہ اولیٰ : پہلے صور کے نتیجہ میں جن کو اللہ اس کے اثر سے محفوظ رکھے گا ان کے سوا تمام آسمان و زمین والے ختم ہوجائیں گے،اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان باقی رہنے والوں کو بھی موت دے گا، اورسوائے اللہ کے سب فرشتے، حاملین عرش، جبرائیل و میکائیل و اسرافیل سب ختم ہو جائیں گے۔ احادیث سے یہ تفصیل ثابت ہے اس پر ایمان واجب ہے اور اس کا انکار گناہ کا موجب ہے۔
سب کے خاتمے کے بعد جب ہر طرح کی زندگی اور اجتماعی ملوکیت اور انفرادی ملکیت کا خاتمہ ہو جائے گا، تب اللہ تعالیٰ آسمان لپیٹ کر اپنے داہنے ہاتھ میں لیں گے اور زمین اللہ کی مٹھی میں ہوگی تب اللہ تبارک و تعالیٰٰ ندا دیں گے میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں دنیا کی بادشاہت کے مدعی، اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوگا پھر اللہ ہی جواب دیں گے: ہر طرح کی بادشاہت صرف اللہ واحد قہار کےلئے ہے۔ قرآن سے یہ حقیقت ثابت ہے اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔
علاماتِ قیامت۔ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے قیامت کا متعین وقت تو نہیں بتلایا گیا ہے ہاں لیکن قیامت کی علامات/ اور نشانیاں بتلائی گئی ہیں اور بہت تفصیل سے بتلائی گئی ہیں، قیامت کی نشانیوں کی یہ پیش گوئیاں خود نبی ﷺ کی نبوت و رسالت کے اہم ترین دلائل میں سے ہیں، کیونکہ ان میں سے بہت سی نشانیاں ایسی ہیں جو ظاہر ہو چکی ہیں، اور ان کے ظہور سے پہلے ان کے پیش آنے کا کوئی ثبوت دنیا میں نہیں تھا، یہ پیش گوئیاں اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان کا علم آپ ﷺ کو علیم و خبیر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ہی ملا ہے۔
.بند
عقیدہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےقیامت سے پہلے مختلف مراحل کی علامات بیان کی ہیں، ان میں سے کئی ظاہر ہو چکی ہیں اور بہت سی ظاہر ہونا ہے۔ تشریح
تین طرح کی علامات۔ دنیا نے جتنی مدت پہلے گذار لی ہے اس اعتبارسے تو خود نبی ﷺ کی بعثت بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اس بات کو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔آپ ﷺ فرماتے میں قیامت سے اتنا قریب بھیجا گیا ہوں جیسے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ہے کہ پوری دنیا کی مدت کو اگر درمیانی انگلی کی مسافت سے بیان کیا جائے تو میری بعثت اس پوری مدت میں ایسے وقت ہوئی جیسے شہادت کی انگلی کا سرا ہے، اور اب اس کے بعد درمیانی انگلی کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے قیامت کے واقع ہونے میں اتنا ہی وقت ہے۔
قیامت کی علامات سے متعلق آپ ﷺ نے مختلف مرحلوں کےلئے مختلف نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔
(۱) آپ ﷺ نے چند خاص واقعات بیان فرمائے ہیں جو آپ ﷺ کے زمانہ سے لے کر قیامت تک پیش آئیں گے، اس ضمن میں آپ ﷺ نے بعض اوقات چند خاص واقعات کو ذکر کیا ہے، اور بعض موقعوں پر چند اور واقعات کو بیان کیا ہے ، اس طرح کی پیش گوئیوں میں یہ مقصود نہیں ہے کہ کوئی خاص تعداد کو بیان کیا جائے بلکہ اس میں اصل مقصود یہ بتلانا ہے کہ وقوع قیامت سے پہلے یہ واقعات ضرور پیش آئیں گے اور جب ان میں سے کوئی واقعہ پیش آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک طرح سے ایک تنبیہ ہے کہ بنی نوع انسان بتدریج قیامت کی جانب بڑھتا جا رہا ہے، ہم ان واقعات کو آگے ذکر کریں گے۔
(۲) دوسرے آپ ﷺ نے قیامت سے پہلے دنیا میں عمومی طور پر پیدا ہوجانے والے حالات ، اور انسانوں کی صفات، نوع انسانی میں پیدا ہو جانے والے مزاج، اور خود دنیا یعنی زمین و آسمان کے خاص احوال کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(۳) اور پھر قیامت سے متصل پہلے پیش آنے والی قیامت کی بڑی بڑی نشانیاں ذکر فرمائی اور ان میں سے بعض کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ ظاہر ہو جائیں گی تو پھر عمل کا سلسلہ ختم ہو جائے گا،اعمال کو محفوظ کرنے والے قلم رکھ دئیے جائیں گے، وہ فرشتے جو صبح و شام صرف اعمال کو محفوظ کرنے پر مأمور ہیں ان کی زمین کی جانب آمد کو روک دیا جائے گا، اور صحائف اعمال لپیٹ کر رکھ دئیے جائیں گے۔ ایسی نشانیوں یا نشانی کے ظاہر ہونے کے بعد توبہ کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔
بعض احادیث ایسی بھی ہیں جن میں آپ ﷺ نے تینوں قسم کی علامات کو جمع فرمایا ہے۔
.بند
عقیدہ:
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور آپؐ کی وفات علامات قیامت میں سے ہے۔تشریح
عقیدہ:
بیت المقدس کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اس سے وہ فتح مراد ہے جو حضرت عمر کے دور میں حاصل ہوئی ہے۔
عقیدہ:
مسلمانوں میں ایک طاعون پھیلے گا جس سے بکثرت اموات ہوں گی ( محدثین نے اس سے مراد طاعون عمواس کو قرار دیا ہے، جو دور صحابہ میں پھوٹا تھا)۔
عقیدہ:
مسلمانوں میں مال کثرت سے پھیل جائے گا (جیسا کہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوا کہ مسلمانوں کو بکثرت فتوحات حاصل ہوئیں اور بے انتہاء مال غنیمت حاصل ہوا)۔
عقیدہ:
ایک فتنہ اٹھے گا اور عرب کا کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جو اس میں کسی طور ملوث نہ ہو( اس سے مراد محدثین نے حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اٹھنے والے فتنہ کو قرار دیا ہے۔یعنی یہ واقعہ بھی پیش آ چکا ہے)۔تشریح
حضرت عثمان کی شہادت کے بعد کے اختلافات
نبی اکرم ﷺ نے ایک پیشین گوئی یہ بھی فرمائی تھی کہ آپ کے بعد قیامت سے پہلے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان ذبردست لڑائی ہوگی، جس میں بہت بڑی تعداد قتل ہوگی، حالانکہ دونوں مسلمان ہوں گے اور دونوں ہی حق پر ہونے کے دعوی دار ہوں گے۔اس پیشین گوئی کا مصداق محدثین نے حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان ہونے والے نزاع کو قرار دیا ہے، اور جس قتال کا پیشین گوئی میں ذکر ہے اس کا مصداق جنگ صفین کو قرار دیا ہے۔سبحان اللہ کے اللہ کے رسول کی پیشین گوئی ویسے ہی صادق آئی جیسے کہ آپ نے کی تھی۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت سے قبل حجاز سے ایک بہت بڑی آگ نکلے گی جس کا اثر شام تک پہنچے گا۔تشریح
حجاز کی آگ:یہ واقعہ پیش آ چکا ہے، ساتویں صدی ۶۵۴ہجری بروز بدھ مدینہ میں ایک بھیانک آتش فشاں پھٹ پڑا، جس کا آغاز ایک بہت بڑے زلزلہ سے ہوا، یہ آتش فشاں جمعہ کے دن دن چڑھنے تک جاری رہا اور پھر پر سکون ہوگیا، اس آتش فشاں کی تباہی کا اثر دور دور تک پہنچا، اس کے درمیان جو بھی پہاڑ آتا وہ اس کو توڑ پھوڑ کر پگھلا دیتا، ایسے محسوس ہوتا جیسے کہ آگ کی ایک سرخ ندی بہہ پڑی ہے، جس میں سخت کڑک اور گرج سنائی دیتی، اس آگ کے اثرات فضاء میں پانچ دن تک بر قرار رہے اور اس کے اثرات مکہ اور شام سے دیکھے گئے۔ مؤرخین نے اس کی تفصیل اپنی کتابوں میں بیان کی ہے، اسی طرح محقق شارحین حدیث نے بھی اس کے احوال تفصیل سے اس حوالہ کے ساتھ ذکر کئے ہیں کہ یہ وہی آگ تھی جس کی نبی ﷺ نے پیش گوئی کی تھی۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت سے پہلے تم ترکوں سے قتال کرو گے۔تشریح
ترکوں سے قتال
صحیح احادیث سے یہ پیش گوئی بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت سے پہلے تم ترکوں سے قتال کرو گے۔ آپ ﷺ نے ان کے ظاہری احوال اور جسمانی خد و خال کی بھی وضاحت فرمائی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ: ترک سخت اور بھرے ہوئے چہرے والے ہوں گے، چھوٹی آنکھوں اور پھولی ہوئی اور ناک والے ہوں گے، اور بالوں کا لباس اور بالوں کے جوتے پہنتے ہوں گے۔
یہ واقعہ بھی پیش آچکا ہے، چنانچہ جس ترک قوم کا یہاں ذکر ہے وہ تاتاری ہیں، جنہوں نے دور خلافت عباسیہ میں مسلمانوں پر حملے کئے، اور ایک لمبے عرصہ تک مسلمان ان سے قتال کرتے رہے، بالآخر انہوں نے عباسیوں کا خاتمہ کر دیا لیکن پھر اللہ رب العزت نے خود انہیں اسلام کی توفیق دی اور ان کی پوری کی پوری قوم نے اسلام قبول کیا۔
یہ پیش گوئی بھی آپ ﷺ کے دلائل نبوت میں سے ایک ہے، کہ ان کے پیش آنے کی جیسی آپ ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی یہ واقعات ویسے ہی پیش آئے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت سے قبل ایک موقع ایسا آئے گا کہ سر زمین عرب پر (جو ریگستانی علاقہ ہے) سر سبزی و شادابی پھیل جائے گی، اور نہریں جاری ہو جائیں گی، جس میں جانور جہاں چاہیں گے چریں گے۔تشریح
سر زمین عرب کی سر سبزی و شادابی :ایک صحیح حدیث میں یہ پیش گوئی وارد ہوئی ہے کہ قیامت سے قبل ایک موقع ایسا آئے گا کہ سر زمین عرب پر (جو ریگستانی علاقہ ہے) سر سبزی و شادابی پھیل جائے گی، اور نہریں جاری ہو جائیں گی، جس میں جانور جہاں چاہیں گے چریں گے۔ اس حدیث کا مصداق بلا شبہ اسی زمانہ سے شروع ہو چکا ہے، جبکہ عرب کے ریگستان کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ وہاں ہر جگہ پانی پہنچایا گیا ہے، اور وہاں کھیتی ہورہی ہے، اور سر زمین عرب دنیا کے دوسرے ملکوں کو اناج بر آمد کررہا ہے صدق رسول اللہ ﷺ و ھو الصاد ق المصدوق۔
.بند
عقیدہ:
قیامت سے پہلے ایک زمانہ ایسا آئے گاجب عورتوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور مردوں کی تعداد بہت کم ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ تناسب اس حد تک گر جائے گا کہ پچاس عورتوں کے مقابلہ میں صرف ایک مرد ہو گا۔تشریح
عورتوں کی انتہائی بڑھی ہوئی تعداد :آپ ﷺ نے ایک پیش گوئی یہ بھی فرمائی کہ قیامت سے پہلے ایک زمانہ ایسا آئے گاجب عورتوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور مردوں کی تعداد بہت کم ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ تناسب اس حد تک گر جائے گا کہ پچاس عورتوں کے مقابلہ میں صرف ایک مرد ہو گا۔
اس طرح کے واقعات جزوی طور پر تو دنیا میں پیش آئے ہیں اور اب بھی بعض ممالک میں اس طرح کی صورت حال ہے، لیکن پوری دنیا پر عمومیت سے یہ حالات ابھی نہیں طاری ہوئے ہیں، لیکن جیسے نبی ﷺ کی دوسری پیش گوئیاں سچی ہیں یہ پیش گوئی بھی سچی ہے، اس پر ایمان واجب ہے کہ قیامت سے پہلے ایسے ضرور پیش آئے گا۔ مشہور شارح حدیث ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے امام قرطبی کے حوالہ سے یہ گمان پیش کیا ہے کہ ممکن ہے یہ اس وقت پیش آئے جبکہ قرب قیامت اللہ اللہ کہنے والے ختم ہو جائیں گے اور صرف سرکش لوگ رہیں گے اور وہ شرعی احکام کو نظر انداز کرکے عورتوں تعلقات بنانے میں کسی تعداد کا لحاظ نہیں رکھیں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت سے پہلے فرات یعنی عراقی نہر میں سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہوگا، جس کو بھی وہ زمانہ یا اس تک رسائی حاصل ہو وہ اس میں سےکچھ حاصل نہ کرے۔تشریح
عراق کا سونا:ایک پیش گوئی آپ ﷺ نے یہ بھی فرمائی ہے کہ قیامت سے پہلے فرات یعنی عراقی نہر میں سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہوگا، جس کو بھی وہ زمانہ یا اس تک رسائی حاصل ہو وہ اس میں سےکچھ حاصل نہ کرے۔
اگر اس سے مراد خالص سونا ہے تو اس کا ظہور ابھی باقی ہے، اور اگر سونے سے مراد ارضی خزانہ ہے تو وہ پٹرول بھی ہو سکتا ہے، لیکن نصوص کے بارے میں یہ اصول بھی ہے کہ حتی الامکان اس کو اس کے ظاہر پر رکھا جاتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کی پیش گوئی میں خاص پہاڑ کا لفظ بھی وارد ہوا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں یہ پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ سونے کے لئے بھیانک قتال ہوگا، اور اس کو حاصل کرنے کی جدو جہد کرنے والے سو میں سے ننیانوے لوگ مارے جائیں گے، چنانچہ اس سے مراد سونا ہی ہے، اور اس پر ایمان واجب ہے کہ یہ پیش گوئی قیامت سے پہلے ضرور سچی ہوگی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت سے قبل جھوٹے نبوت کے مدعی بھی پیدا ہوں گے، ان میں سے تیس بہت بڑے دجال قسم کے جھوٹے ہوں گے۔شریح
جھوٹے مدعیان نبوت کا ظہور
اللہ کے اور اس کے رسول نے بتایا ہے کہ پیغمبر اسلام محمد ﷺ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، قیامت تک یہی امت رہے گی ، کوئی اور امت مبعوث نہیں ہوگی، اور شریعت محمدیہ ہی قیامت تک جاری رہے گی۔ ساتھ ہی اللہ کے رسول ﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی ہے کہ قیامت سے قبل جھوٹے نبوت کے مدعی بھی پیدا ہوں گے، ان میں سے تیس بہت بڑے دجال قسم کے جھوٹے ہوں گے، جو اپنی تلبیسات اور دسیسہ کاریوں اور فریب و دھوکہ سے خلق کثیر کو گمراہ کریں گے اور ان کی کافی شوکت ہو جائے گی۔
نبی ﷺ کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف صادق آتی رہتی ہے، چنانچہ عالم اسلام میں نبی ﷺ کے بعد سے ہی ایسے نبوت کے دعویدار پیدا ہوتے رہے ہیں، جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی وغیرہ ہیں، ایسے ہی کذاب اور دجالوں میں ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں کھڑا ہونے والا غلام احمد قادیانی بھی ہے، جس کے ماننے والے آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ان جھوٹوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی پیشین گوئی فرمادی ہےکہ قیامت تک ایسے دجال و کذاب پیدا ہو تے رہیں گے۔ مؤمنین پر لازم ہے کہ وہ نبی آخر الزمان خاتم النبیین ﷺ کی اس پیشین گوئی کو یاد رکھیں اور ان کذابوں اور دجالوں سے خود کو محفوظ رکھ کر اپنے دین کی حفاظت کریں۔ دلائل
بند
عقیدہ:
قیامت سے پہلے زندگی کے ہر شعبہ میں بدترین اخلاقی زوال پیدا ہو جائے گا۔تشریح
(۲)قیامت سے پہلے دنیا اور بنی نوع انسان کے عمومی احوال۔ قیامت کے قریب دنیا کے حالت بہت بری طریقہ سے بگڑ جائیں گے، ہر نیا دن نئے نئے فتنہ لائے گا، ان فتنوں میں ماحول ایسے ہو جائے گا جیسے انتہائی اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے جس میں کچھ سجھائی نہیں دیتا، ایسے ہی زندگی کی راہ ہوجائے گی جس میں کچھ سجھائی نہیں دے گا کہ کیا کرنا چاہئے۔
ان فتنوں کا اثر بہت عام ہوجائے گا، ایک شخص صبح ایمان کی حالت میں کرے گا تو شام تک وہ کفر میں متبلا ہو جائے گا، یا اگر شام ایمان کی حالت میں تھا تو ممکن ہے صبح کفر کی حالت میں کرے۔ اتنی تیزی سے عمل کی راہ بدل جائے گی۔ اور دنیا کے لئے دین کو بیچنا عام بات ہو جائے گی۔
دینداری کا کوئی خیال نہیں ہوگا، عبادات سے توجہ ہٹ جائے گی، مساجد سے رابطہ کٹ جائے گا، ہاں مساجد فخر و مباہات کا ذریعہ بن جائیں گی، عالیشان مساجد کی عمارتیں تعمیر ہوں گی لیکن ان میں نمازی برائے نام ہوں گے۔
اخلاقی اقدار ختم ہو جائیں گے، امانت و دیانت کا پاس و لحاظ مٹ جائے گا۔ رشتہ داروں سے بد سلوکی کی جائے گی، اجنبیت بڑھ جائے گی، لوگ کے تعلقات ایک دوسرے سے بہت دور ہو جائیں گے۔لوگ صرف انہیں کو سلام کریں گے جن کو پہچانتے ہوں گے۔
علم اٹھ جائے گا، اور جہالت پھیل جائے گی، شراب کثرت سے پی جائے گی، اور زنا عام ہو جائے گا۔
بے حیائی عام ہو جائے گی، فحاشی کا دور دورہ ہوگا، عورتیں کپڑے تو پہنے ہوئے ہوں گی لیکن اس کے باوجود ننگی ہوں گی۔ حدیث میں صاف وارد ہوا ہے کہ کپڑے پہنے ہوئے ہونے کے باوجود وہ ننگی ہوں گی۔ آج کی دنیا میں جبکہ فیشن کے نام پر خوبصورت لباس خود عورت کی دلسچپی کا محور ہے، اور طرح طرح کے دیزائن اور فشین کے کپڑے عام ہیں، لیکن ان تمام کپڑوں کا مقصد جسم کو چھپانا نہیں بلکہ جسم کو اور نمایاں کرنا اور اعضاء جسمانی کی خووبصورتی کی نمائش ہے۔ یقیناً نبی ﷺ کی یہ پیشین گوئی سچی ہے وھو الصادق المصدوق ،یہ پیشین گوئی خود آپ ﷺکے دلائل نبوت میں سے ایک دلیل ہے۔
علامات قیامت کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی ہے کہ قیامت سے پہلے آمدنی اور مال کے معاملہ میں حلال و حرام کی تمییز ختم ہو جائے گی، اور لوگوں میں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ کہاں سے مال کما رہے ہیں، ساتھ ہی بخالت بہت بڑھ جائے گی۔ بازار بہت بڑھ جائیں گے، تجارتیں بہت پھیل جائیں گی، لوگ مال کمانے میں بہت جٹ جائیں گے یہاں تک کہ عورتیں مال کمانے میں اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹائیں گی۔
معمولی قسم کے لوگ بہت ترقی کریں گے، اور دنیا کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں آجائے گی اور یہی بے وقوف قسم کے لوگ انسانوں کے فیصلے کریں گے۔
جھوٹ کثرت سے بولا جائے گا،جھوٹی گواہیاں عام ہو گی، انسانی جان کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور قتل کثرت سے ہوں گے، اچانک مر جانے کی شرح بہت بڑھ جائے گی۔
نبی ﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی ہے کہ قیامت سے قبل زلزلوں کی کثرت ہو جائے گی۔ آپ ﷺ نے اس بات کی بھی پیشین گوئی فرمائیں ہے کہ قیامت سے پہلے بارش ہر طرف ہوگی ، لیکن اس کے نتیجہ میں زمین کچھ بھی نہیں اُگائے گی، یہ بھی منقول ہے کہ قیامت کے قریب برائیوں کے عام ہونے کی وجہ سے بھی ہو گا۔دلائل
بند
عقیدہ:
قربِ قیامت اولاد نافرمان ہوجائے گی۔ بیٹیاں تک ماں کی نافرمانی کرنے لگیں گی، دوست کو اپنا اور باپ کو پرایا سمجھا جانے لگے گا۔دلائل
عقیدہ:
علم اٹھ جائے گا۔ اور جہالت عام ہوجائے گی، دین کا علم دنیا کمانے کے لئے حاصل کرنے لگیں گے۔دلائل
عقیدہ:
نااہل لوگ امیر اورحاکم بن جائیں گے۔ اور ہر قسم کے معاملات، عہدے اور مناصب نااہلوں کے سپرد ہوجائیں گے، جو جس کام کا اہل اور لائق نہ ہوگا وہ کام اس کے سپرد ہوجائے گا۔دلائل
عقیدہ:
لوگ ظالموں اور برے لوگوں کی تعظیم اس وجہ سے کرنے لگیں گے کہ یہ ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں۔دلائل
عقیدہ:
شراب کھلم کھلا پی جانے لگے گی۔ زنا کاری اور بدکاری عام ہوجائے گی۔دلائل
عقیدہ:
علانیہ طور پر ناچنے اور گانے والی عورتیں عام ہوجائیں گی، گانے بجانے کا سامان اور آلاتِ موسیقی بھی عام ہوجائیں گے۔دلائل
عقیدہ:
لوگ امت کے پہلے بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔دلائل
عقیدہ:
جھوٹ عام ہوجائے گی اور جھوٹ بولنا کمال سمجھا جانے لگے گا۔دلائل
عقیدہ:
امیر اور حاکم ملک کی دولت کو ذاتی ملکیت سمجھنے لگیں گے۔ امانت میں خیانت شروع ہوجائے گی۔نیک لوگوں کے بجائے رذیل اور غلط کار قسم کے لوگ اپنے علاقے اور قبیلے کے سردار بن جائیں گے۔شرم و حیاء بالکل ختم ہوجائے گی۔ظلم و ستم عام ہوجائے گا۔ ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ کی طرف چلا جائے گا جیسے سانپ سکڑ کر اپنی بل کی طرف چلا جاتا ہے۔ایسے حالات پیدا ہوجائیں گے کہ دین پر قائم رہنے والے کی وہ حالت ہوگی جو ہاتھ میں انگارہ پکڑنے والے کی ہوتی ہے۔زکوٰۃ کو لوگ تاوان سمجھنے لگیں گے، امانت کے مال کو مالِ غنیمت سمجھا جائے گا۔ماں کی نافرمانی اور بیوی کی فرمانبرداری شروع ہوجائے گی۔
علاماتِ کبریٰ:قیامت کی وہ علامتیں ہیں جو حضرت امام مہدی کے ظہور سے لے کر نفخہ اولیٰ تک ظاہر ہوں گی۔
احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے کہ حضرت مہدی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے، نام: محمد، والدماجد کا نام: عبد اللہ ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہوگی، پیشانی کھلی اور ناک بلند ہوگی، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، پہلے ان کی حکومت عرب میں ہوگی، پھر ساری دنیا میں پھیل جائے گی، سات سال تک حکومت کریں گے۔ مہدی عربی زبان میں ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں، ہر صحیح الاعتقاد اور باعمل عالمِ دین کو مہدی کہا جاسکتا ہے؛ بلکہ ہر راسخ العقیدہ نیک مسلمان کو بھی مہدی کہا جاسکتا ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی ہادی اور مہدی ہونے کی دعاء دی ہے، اس سے بھی یہی لغوی معنیٰ مراد ہیں۔
حضرت مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، آخری زمانہ میں جب مسلمان ہر طرف مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی،شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُر شوکت حکومت نہیں رہے گی، خیبر کے قریب تک عیسائی پہنچ جائیں گے اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کچھے مسلمان مدینہ منورہ پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے، لوگوں کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ حضرت مہدی کو تلاش کرنا چاہئے، ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کو امام بنالینا چاہئے، اس زمانہ کے نیک لوگ، اولیاء اللہ اور ابدال سب ہی حضرت امام مہدی کی تلاش میں ہوں گے، بعض جھوٹے مہدی بھی پیدا ہوجائیں گے، امام اس ڈر سے کہ لوگ انہیں حاکم اور امام نہ بنالیں مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آجائیں گے اور بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہوں گے، حجرِ اسود اور مقام ابراہیمؑ کے درمیان میں ہوں گے کہ پہچان لئے جائیں گے اور لوگ ان کو گھیر کر ان سے حاکم اور امام ہونے کی بیعت کرلیں گے، اسی بیعت کے دوران ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو تمام لوگ جو وہاں موجود ہوں گے سنیں گے، وہ آواز یہ ہوگی ’’یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور حاکم بنائے ہوئے امام مہدی ہیں‘‘۔
جب آپ کی بیعت کی شہرت ہوگی تو مدینہ منورہ کی فوجیں مکہ مکرمہ میں جمع ہوجائیں گی، شام، عراق اور یمن کے اہل اللہ اور ابدال سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے اور بیعت کریں گے۔
ایک فوج حضرت امام مہدی سے لڑنے کے لئے آئے گی۔ جب وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو سوائے دو آدمیوں کے سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے، حضرت امام مہدی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی زیارت کریں گے، پھر شام روانہ ہوں گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوجائیں گے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، حضرت امام مہدی ملک کا انتظام سنبھال کر قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے عازمِ سفر ہوں گے۔
حضرت امام مہدی کےشام پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد دجّال نکل پڑے گا، دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور گھومتا پھرتا دمشق کے قریب پہنچ جائے گا، عصر کی نماز کے وقت لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے ہوئے نظر آئیں گے، دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا، بالآخر ’’باب لد‘‘ پر پہنچ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا کام تمام کردیں گے، اس وقت روئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے گا، سب مسلمان ہوں گے، حضرت امام مہدی کی عمر پینتالیس، اڑتالیس یا انچاس سال ہوگی کہ آپ کا انتقال ہوجائے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے، بیت المقدس میں ان کا انتقال ہوگا اور وہیں دفن ہوں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبری میں سے خروجِ دجال ہے۔تشریح
خروجِ دجّال۔ ، احادیث مبارکہ میں دجال کا ذکر بڑی وضاحت سے آیا ہے، ہر نبی دجال کے فتنہ سے اپنی امت کو ڈراتے رہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں، دجال کا ثبوت احادیث متواترہ اور اجماعِ امت سے ہے، دجال کے لغوی معنیٰ ہیں: مکار، جھوٹا، حق اور باطل کو خلط ملط کرنے والا، اس معنیٰ کے اعتبار سے ہر اس شخص کو جس میں یہ اوصاف ہوں دجال کہا جاسکتا ہے۔
جس کا ذکر احادیث میں تواتر کے ساتھ موجود ہے، جو یہودی ہوگا، خدائی کا دعویٰ کرے گا، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’ک ف ر‘‘ یعنی کافر لکھا ہوا ہوگا، دائیں آنکھ سے کانا ہوگا، دائیں آنکھ کی جگہ انگور کی طرح کا ابھرا ہوا دانہ ہوگا، زمین پر اس کا قیام چالیس دن ہوگا، لیکن ان چالیس دنوں میں سے پہلا دن سال کےبرابر، دوسرا دن مہینہ کے برابر اور تیسرا دن ہفتہ کے برابر، باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے، بندوں کے امتحان کے لئے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے مختلف خرق عادت امور اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے، وہ لوگوں کو قتل کرکے زندہ کرے گا، وہ آسمان کو حکم کرے گا تو آسمان بارش برسائے گا، زمین کو حکم کرے گا تو زمین غلہ اُگائے گی، ایک ویرانے سے گذرے گا اور اُسے کہے گا: اپنے خرانے نکال! تو وہ اپنے خزانے باہر نکالے گی، پھر وہ خزانے شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے، آخر میں ایک شخص کو قتل کرے گا پھر زندہ کرے گا، اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا تو نہیں کرسکے گا، دجال پوری زمین کا چکر لگائے گا، کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جہاں دجال نہیں جائے گا، سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے، ان دونوں شہروں میں فرشتوں کے پہرے کی وجہ سے وہ داخل نہ ہوسکے گا، دجال کا فتنہ تاریخِ انسانیت کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔
حضرت امام مہدی جب قسطنطنیہ کو فتح کرکے شام تشریف لائیں گے ۔ اور دمشق میں مقیم ہوں گے کہ اس وقت شام اور عراق کے درمیان سے دجال نکلے گا، پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا، یہاں سے اصفہان پہنچے گا، اصفہان کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے، پھر خدائی کا دعویٰ شروع کردے گا اور اپنے لشکر کےساتھ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، بہت سے ملکوں سے ہوتا ہوا یمن تک پہنچے گا، بہت سے گمراہ لوگ اس کے ساتھ ہوجائیں گے، یہاں سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوگا، مکہ مکرمہ کے قریب آکر ٹھہرے گا، مکہ کے گرد فرشتوں کا حفاظتی پہرہ ہوگا جس کی وجہ سے وہ مکہ میں داخل نہ ہوسکے گا، پھر مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگا، یہاں بھی فرشتوں کا حفاظتی پہرہ ہوگا، دجال مدینہ منورہ میں بھی داخل نہ ہوسکے گا، اس وقت مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس سے کمزور ایمان والے گھبراکر مدینہ سے باہر نکل جائیں گے اور دجال کے فتنہ میں پھنس جائیں گے۔
مدینہ منورہ میں ایک اللہ والے دجال سے مناظرہ کریں گے۔دجال انہیں قتل کردے گا پھر زندہ کرے گا، وہ کہیں گے: اب تو تیرے دجال ہونے کا پکا یقین ہوگیا ہے، دجال انہیں دوبارہ قتل کرنا چاہے گا مگر نہیں کرسکے گا۔
دجال شام کے لئے روانہ ہوگا۔ دمشق کے قریب پہنچ جائے گا، یہاں حضرت امام مہدی پہلے سے موجود ہوں گے کہ اچانک آسمان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے، حضرت امام مہدی تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے کرنا چاہیں، وہ فرمائیں گے: منتظم آپ ہی ہیں، میرا کام دجال کو قتل کرنا ہے، اگلی صبح حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ دجال کے لشکر کی طرف پیش قدمی فرمائیں گے، آپ گھوڑے پر سوار ہوں گے، نیزہ ان کے ہاتھ میں دجال کے لشکر پر حملہ کردیں گے، بہت گھمسان کی لڑائی ہوگی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی وہیں تک سانس بھی پہنچے گی اور جس کافر کو آپ کی سانس کی ہوا لگے گی وہ اسی وقت مرجائے گا، دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگنا شروع کردے گا، آپ اس کا پیچھا کریں گے، ’’بابِ لد‘‘ پر پہنچ کر دجال کو قتل کردیں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے۔تشریح
نزولِ عیسٰیؑ۔ قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے تیسری علامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے، نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ قرآن مجید، احادیثِ متواترہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض ہے اور مسلمان ہونے کے لئے لازم و ضروری ہے، اس عقیدہ کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔
آسمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت امام مہدی مدینہ منورہ سے ہوکر دمشق پہنچ چکے ہوں گے اور دجال بھی مکہ اور مدینہ سے دھتکارا ہوا دمشق کے قریب پہنچ گیا ہوگا، حضرت امام مہدی اور یہودیوں کے درمیان جنگیں زوروں پر ہوں گی کہ ایک دن عصر کی نماز کا وقت ہوگا، اذانِ عصر ہوچکی ہوگی، لوگ نماز کی تیار میں مشغول ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمانوں سے اترتے ہوئے نظر آئیں گے، سر نیچے کریں گے تو پانی کے قطرے گریں گے، سر اونچا کریں گے تو چمکدار موتیوں کی طرح دانے گریں گے، دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی جانب کے سفید رنگ کے مینارے پر اتریں گے، وہاں سے سیڑھی کے ذریعہ نیچے اتریں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام عدل و انصاف قائم کریں گے، عائیسوں کی صلیب توڑدیں گے (مطلب یہ ہے کہ عیسائیوں کے عقیدۂ صلیب کو غلط قرار دیں گے)، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو ختم کردیں گے، یہودیوں اور دجال کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی ختم ہوجائیں گے، جس کافر کو ان کی سانس کی ہوا پہنچے گی وہ وہیں مرجائے گا، ’’باب لد‘‘ پر دجال کو قتل کردیں گے، مال کی اتنی فروانی ہوجائے گی کہ کوئی اُسے قبول نہیں کرے گا۔
حضرت امام مہدی کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سنبھالیں گے۔ آسمانوں سے اترنے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہی ہوں گے، کیونکہ نبی منصبِ نبوت سے کبھی معزول نہیں ہوتے، لیکن اس وقت امتِ محمدیہ کے تابع، مجدد اور عادل حکمران کی حیثیت میں ہوں گے۔
دجال کو قتل کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں کوہِ طور پر لے جائیں گے، چالیس یا پینتالیس سال کے بعد آپؑ کی وفات ہوجائے گی، اس دوران نکاح بھی فرمائیں اور ان کی اولاد بھی ہوگی، مدینہ منورہ میں انتقال ہوگا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک میں دفن ہوں گے، آپ کے بعد قحطان قبیلہ کے ایک شخص جہجاہ حاکم بنیں گے، ان کے بعد کئی نیک و عادل حکمران آئیں گے، پھر آہستہ آہستہ نیکی کم ہونا شروع ہوجائے گی اور برائی بڑھنے لگے گی۔
مجموعی طور پر خروج دجال اور نزول عیسی پر ایمان لازم ہے ، اور اس بات پر ایمان بھی لاز م ہے کہ دجال کا فتنہ اور ابتلاء بڑا سخت ہوگا اس سے مؤمنین کو چھٹکارہ صرف حضرت عیسی کے نزول کے بعد ملے گا اور حضرت عیسی اس کو قتل کردیں گے، ان باتوں پر قطعی نصوص ثابت ہے ، جو اس درجہ کے ہیں کہ ان کا انکار کفر ہے۔ باقی اس سے متعلقہ دیگر جزئیات کی تفصیلات جو اوپر مذکور ہیں وہ بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ان پر ایمان بھی واجب ہے۔
وعند أحمد من حديث جابر في قصة الدجال ونزول عيسى “وإذا هم بعيسى، فيقال تقدم يا روح الله، فيقول ليتقدم إمامكم فليصل بكم” ولابن ماجه في حديث أبي أمامة الطويل في الدجال قال: “وكلهم أي المسلمون ببيت المقدس وإمامهم رجل صالح قد تقدم ليصلي بهم، إذ نزل عيسى فرجع الإمام ينكص ليتقدم عيسى، فيقف عيسى بين كتفيه ثم يقول: تقدم فإنها لك أقيمت”(فتح الباری:۶/۴۹۳)
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَاللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلاَ يَقْبَلُهُ أَحَدٌ ». (صحیح مسلم) دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔تشریح
یاجوج ماجوج: حضرت امام مہدی کے انتقال کے بعد تمام انتظامات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوں گے اور نہایت سکون و آرام سے زندگی بسر ہو رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائیں گے کہ میں ایک ایسی قوم نکالنے والا ہوں جس کے ساتھ کسی کو مقابلہ کی طاقت نہیں ہے، آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیں، اس قوم سے یاجوج ماجوج کی قوم مراد ہے۔
یاجوج وماجوج کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے: یہ قوم یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہے، شمال کی طرف بحرِ منجمد سے آگے یہ قوم آباد ہے، ان کی طرف جانے والا راستہ پہاڑوں کے درمیان ہے، جس کو حضرت ذوالقرنینؑ نے تانبا پگھلا کر لوہے کے تختے جوڑ کر بند کردیا تھا، بڑی طاقتور قوم ہے، دو پہاڑوں کے درمیان نہایت مستحکم آہنی دیوار کے پیچھے بند ہے، قیامت کے قریب و دیوار ٹوٹ کر گر پرے گی اور یہ قوم باہر نکل آئے گی اور ہر طرف پھیل جائی اور فساد برپا کرے گی۔
یاجوج ماجوج آہنی دیوار ٹوٹنے کے بعد ہر بلندی سے دوڑے ہوئے نظر آئیں گے: جب ان کی پہلی جماعت بحیرۂ طبریہ سے گذرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائی گی، جب دوسری جماعت گذرے گی تو وہ کہے گی: ’’یہاں کبھی پانی تھا؟‘‘ یاجوج ماجوج کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسلمان بڑی تکلیف میں ہوں گے، کھانے کی قلت کا یہ عالم ہوگا کہ بیل کا سر سو دینار سے بھی قیمتی اور بہتر سمجھا جائے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام یاجوج ماجوج کے لئے بد دعاء کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک بیماری پیدا کردیں گے جس سے سارے کے سارے مرجائیں گے اور زمین بدبو اور تعفُّن سے بھر جائے گی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعاء سے اللہ تعالیٰ بڑی گردنوں والے پرندے بھیجیں گے جو ان کو اٹھاکر جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے لے جاکر پھینک دیں گے، پھر موسلا دھار بارش ہوگی جو ہر جگہ ہوگی، کوئی مکان یا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہوگا جہاں یہ بارش نہ پہنچے، وہ بارش پوری زمین دھوکر صاف و شفاف کردے گی، اس زمانہ میں زمین اپنی برکتیں ظاہر کرے گی، ایک انار ایک جماعت کے لئے کافی ہوگا، اس کے چھلکے کے سایہ میں پوری جماعت بیٹھ سکے گی، ایک اونٹنی کا دودھ بڑی جماعت کے لئے، ایک گائے کا دودھ ایک قبیلہ کے لئے اور ایک بکری کا دودھ ایک چھوٹے قبیلہ کے لئے کافی ہوگا۔
مجموعی طور پر یاجوج ماجوج کا ثبوت قرآن سے قطعی طور پر ہے، اور یہ بھی قطعی طور پر ثابت ہے کہ قیامت کے قریب دجال کے بعد ان کا ایسا ظہور ہوگا جو پوری انسانیت کےلئے خطرناک ثابت ہوگا، اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ باقی یاجوج ماجوج سے متعلقہ دیگر جزئیات جو اوپر تفصیل سے بیان ہوئی ہیں وہ بھی صحیح اخبار احاد سے ثابت ہیں ان پر بھی ایمان واجب ہے او ر ان کا انکار سخت گناہ کا موجب ہے۔
.دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے دھویں کاظاہرہونا ہے۔تشریح
دھویں کاظاہرہونا: قیامت کی بڑی علامات میں سے ایک علامت دھویں کا ظاہر ہونا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کئی حکمرانوں تک نیکی غالب رہے گی، پھر آہستہ آہستہ شر غالب ہونا شروع ہوجائے گا، تو ان دنوں آسمان سے ایک بہت بڑا دھواں ظاہر ہوگا، جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔جب یہ دھواں نکلے گا تو ہر جگہ چھا جائے گا، جس سے مسلمانوں کو زُکام ہوجائے گا اور کافروں پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی، چالیس دن تک مسلسل یہ دھواں چھایا رہے گا، چالیس دنوں کے بعد آسمان صاف ہوجائے گا۔
دخان: جس کا ذکر صحیح احادیث میں ہے اور اس پر ایمان واجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے زمین کا دھنس جانا ہے۔تشریح
زمین کا دھنس جانا۔ قیامت سے قبل اسی زمانہ میں تین جگہوں سے زمین دھنس جائے گی، ایک جگہ مشرق میں، ایک جگہ مغرب میں اور ایک جگہ جزیرۃ العرب میں۔
قیامت سے قبل ان تین خسوفات کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ہے جن پر ایمان لازمی ہے ، اور ان کاانکار ناجائز اور سخت گناہ کا موجب ہے۔
دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔تشریح
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا:قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے ایک بڑی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اس کا ذکر موجود ہے، دھواں ظاہر ہونے اور زمین دھنس جانے کے واقعہ کے بعد ذوالحجہ کے مہینہ میں دسویں ذی الحجہ کے بعد اچانک ایک رات بہت لمبی ہوگی کہ مسافروں کے دل گھبرا کر بے قرار ہوجائیں گے، بچے سو سو کر اُکتا جائیں گے، جانور باہر کھیتوں میں جانے کے لئے پکارنے لگیں گے، تمام لوگ ڈر اور گھبراہٹ سے بیقرار ہوجائیں گے، جب تین راتوں کے برابر وہ رات ہوچکی ہوگی تو سورج ہلکی سی روشنی کے ساتھ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اور سورج کی حالت ایسی ہوگی جیسے اس کو گہن لگا ہوتا ہے، اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، نہ کسی کا ایمان معتبر ہوگا نہ گناہوں سے توبہ قبول ہوگی، سورج آہستہ آہستہ اونچا ہوتا جائے گا، جب اتنا اونچا ہوجائے گا جتنا دوپہر سے کچھ پہلے ہوتا ہے تو واپس مغرب کی طرف غروب ہونا شروع ہوجائے گا اور معمول کے مطابق غروب ہوجائے گا، پھر حسب معمول طلوع و غروب ہوتا رہے گا، مغرب سے سورج طلوع ہونے والے واقعہ کے ایک سو بیس سال بعد قیامت کے لئے صور پھونکا جائے گا۔
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جس کے راوی صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابو موسی اشعری، حضرت ابو ہریرہ، حضرت صفوان بن عسال مرادی، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت معاویہ بن ابی سفیان، اورحضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان پر ایمان واجب ہے او ر ان کا انکار سخت گناہ کا موجب بلکہ کفر ہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے صفا پہاڑی سے جانور کا نکلناہے۔تشریح
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے ٹھنڈی ہوا کا چلنا اور تمام مسلمانوں کا وفات پاجاناہے۔تشریح
ٹھنڈی ہوا کا چلنا اور تمام مسلمانوں کا وفات پاجانا: جانور والے واقعہ کے کچھ ہی روز بعد جنوب کی طرف سے ایک ٹھنڈی اور نہایت فرحت بخش ہوا چلے گی جس سے تمام مسلمانوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا، جس سے وہ سب مرجائیں گے، حتی کہ اگر کوئی مسلمان کسی غار میں چھپا ہوا ہوگا اس کو بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ وہیں مرجائے گا، اب روئے زمین پر کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا، سب کافر ہوں گے اور اشرار الناس یعنی بُرے لوگ رہ جائیں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے حبشیوں کی حکومت اور بیت اللہ کا شہید ہوناہے۔تشریح
حبشیوں کی حکومت اور بیت اللہ کا شہید ہونا: جب سارے مسلمان مرجائیں گے اور روئے زمین پر صر کافر رہ جائیں گے اس وقت ساری دنیا میں حبشیوں کا غلبہ ہوجائے گا اور انہیں کی حکومت ہوگی، قرآن مجید دلوں اور کاغذوں سے اٹھالیا جائے گا، حج بند ہوجائے گا، دلوں سے خوفِ خدا اور شرم و حیاء بالکل اٹھ جائے گی، لوگ بر سرِ عام بے حیائی کریں گے، بیت اللہ شریف کو شہید کردیا جائے گا، حبشہ کا رہنے والا چھوٹی پنڈیوں والا ایک شخص بیت اللہ شریف کو گرائے گا۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت بدترین لوگوں پر واقع ہوگی، اس وقت مؤمنین اور نیکوکار موجود نہیں ہوں گے۔تشریح
کن لوگوں پر قیامت واقع ہوگی: قیامت کی بڑی نشانیاں ایک کے بعد ایک تیزی سے ظاہر ہوں گی، احادیث سے ثابت ہے کہ جیسے موتیوں کی مالا ٹوٹ جانے پر موتی تیزی کے ساتھ بکھر جاتے ہیں، قیامت کی بڑی نشانیاں ایسے ہی ظاہر ہوں گی، اور یہ سب کچھ چھ آٹھ مہینوں میں ایک کے بعد دوسری پیش آ جائیں گی، اسی دوران اللہ تعالیٰ ایک ٹھنڈی ہوا بھیجیں گے جس کے اثر سے تمام مؤمنین مر جائیں گے، اور صرف بدترین لوگ دنیا میں باقی رہ جائیں گے، جن میں شرک اور بت پرستی بہت عام ہوگی، ان میں معروف و منکر کا کوئی احساس نہیں ہوگا، شیطان ان کے درمیان ہوگا اور ان کو بت پرستی اور برائی کی دعوت دے گا انہیں بد بختوں پر قیامت واقع ہوگی اور صور پھونک دیا جائے گا۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے آخری علامت آگ کا نکلنا ہے۔تشریح
آگ کا لوگوں کو ملکِ شام کی طرف ہانکنا: قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے آخری علامت آگ کا نکلنا ہے، قیامت کا صور پھونکے جانے سے پہلے زمین پر بت پرستی اور کفر پھیل جائےگا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے شام میں جمع ہونے کے اسباب پیدا ہوں گے، شام میں حالات اچھے ہوں گے، لوگ وہاں کا رخ کریں گے، پھر یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ارض محشر یعنی شام کی طرف ہانکے گی، جب سب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہوجائے گی۔
اس کے بعد عیش و آرام کا زمانہ آئے گا، لوگ مزے سے زندگی بسر کر رہے ہوں گے، کچھ عرصہ اسی حالت میں گذرے گا کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے گی۔
قیامت کی یہ آخری نشانی بالکل برحق ہے، احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس پر ایمان واجب ہے، اور ان کا انکار نا جائز اور سخت گناہ کا باعث ہے۔
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، کوئی نہیں ہے جو اس سے بچ سکے، کوئی موت سے بچنے اور اس سے فرار کی خواہ کتنی ہی خواہش رکھے اور خواہ کہیں جا کر پناہ لے لیکن اس کو موت ضرور آنی ہے، اور جیسے ہی کوئی شخص مرتا ہے اس کےلئے اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے، کیونکہ موت زندگی کا ہمیشہ کےلئے خاتمہ کا نام نہیں ہے بلکہ وہ آخرت کی زندگی کاآغاز ہے۔
جس طرح زندگی دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی طرح موت دینا بھی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جس طرح ہر کسی کی زندگی کے آغاز کےلئے ایک وقت مقرر ہے اسی طرح ہر ایک کی موت کا وقت بھی مقرر ہے، مقررہ وقت سے پہلے کسی کو موت نہیں آتی خواہ کوئی اپنے بستر پر مرے یا کسی حادثہ کا شکار ہو۔
اور کسی کی موت کا وقت اور کسی کے مرنے کی جگہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا،کسی شخص کا اس بات کا دعوی کرنا کہ وہ کسی کی موت کا وقت یا جگہ جانتا ہے کفر ہے، اور اللہ کے علاوہ کسی کے ایسے دعوی علم کی تصدیق کرنا بھی کفر ہے۔
جب بھی کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی روح سلب کرلیتے ہیں ، اور اسی طرح کوئی شخص جب سو جاتا ہے تو زندگی سے اس کا تعلق اللہ کے حکم کا محتاج ہوتا ہے، اگر اس کی زندگی کا وقت مکمل ہوجاتا ہے تو حالت نیند ہی میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے ، اور جس کی زندگی ابھی باقی ہے اس کی روح کو بیدار ہوکر اپنی زندگی پورا کرنے کےلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کو چلانے کےلئے فرشتوں کو اپنے ہرکاروں کی صورت میں پھیلا رکھا ہے،وہ اللہ تعالیٰ کا لشکر ہیں ، وہ اپنی مرضی سے کوئی عمل نہیں کرتے ہیں بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں اللہ رب العزت سے حکم ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےروحوں کے قبض کرنے کےلئے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے،یہ فرشتے اللہ کے حکم پر جس کی اللہ چاہتا ہے روح قبض کرتے ہیں۔
جب کسی انسان کی موت کا وقت قریب ہوتا ہے تو عام طور پر اس کے قریبی لوگ اور رشتہ دار اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن ان سے زیادہ قریب اس کا خالق ہوتا ہے، جس نے اس کو پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ہر مرحلہ کی نگرانی خود کرتا ہے ۔
اگر کوئی مرنے والا صاحب ایمان اور نیکوکار ہوتا ہے تو اللہ کے فرشتے اس کے پاس اچھی شکل میں آکر اس کا استقبال کرتے ہیں ، اور اس کو خوشخبری سناتے ہیں کہ اس کےلئے ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ جنت کی خوشخبری ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا، دنیا کی زندگی میں بھی اللہ اور اس کے مقربین اس کے ولی تھے اور آخرت کی زندگی میں بھی وہ تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے اولیاء موجود ہیں۔جس سے اس کی روح دنیا چھوڑتے ہوئی غمگین نہیں ہوتی بلکہ اپنے پروردگار سے ملاقات کی خوشی اس پر غالب ہوتی ہے اور وہ بخوشی اپنی روح کو ان کے حوالہ کردیتا ہے۔
اور اگر مرنے والا کافر ہو تو فرشتے بڑی سخت شکل میں اس کی روح قبض کرنے آتے ہیں، اور اس پر آخرت کی سختیوں کا آغاز موت کے وقت سے ہی شروع ہوجاتا ہے، اور وہ موت کی شدید سختیوں کو جھیل کر زندگی سے دور ہوتا ہے۔ فرشتے اس کی جانب ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوتے ہیں کہ چلو آؤ اس زندگی سے نکلو ،یہ وہ زندگی ہے جس کے بارے میں تمہیں خبردار کیا گیا تھا، آج ذلیل کرنے والا عذاب تمہارے لئے مقدر ہے، جب عالم غیب اس پر ظاہر ہوگا اس وقت وہ ہوش میں آئے گا، اور اپنے مشرک ہونے اور آخرت کے انکار پر خود گواہ ہوگا، وہ اس وقت کہے گا کہ میں توبہ کرتا ہوں لیکن تب تک توبہ کا وقت ختم ہو چکا ہوگا، وہ کہے گا کہ مجھے صرف ایک موقع دو میں واپس جا کر نیک عمل کروں گالیکن وہ صرف صدائے بازگشت ہوگی، اس کو کوئی سننے والا نہیں ہوگا، وہاں سے اس کی دوسری زندگی شروع ہو چکی ہوگی اور وہ برزخ کی زندگی میں داخل ہو چکا ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مرنے کے بعد آخرت کی زندگی کا سب سے پہلا مرحلہ برزخی زندگی ہے۔تشریح
برزخ و عذاب قبر:
برزخ کے لغوی معنیٰ ہیں: پردہ، عالم برزخ سے مراد وہ جہاں ہے جہاں انسان کو موت کے بعد سے لے کر قیامت قائم ہونے تک رہنا ہے، چونکہ یہ جہاں اس جہاں سے پردے میں ہے، اس لے اس کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے۔
خواہ کسی شخص کو قبر میں دفن کیا جائے، یا اس کو جلا دیا جائے، یا وہ پانی میں غرق ہو جائے ، یا درندے اس کو کھا جائیں سب کےلئے یہ عرصہ برزخ کا دور ہے، اسی کو عرف عام میں ’’قبر کی زندگی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
قبر کا اصلی اور حقیقی معنیٰ یہی مٹی کا گڑھا ہے جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے، تاہم قبر مٹی کے گڑھے کے ساتھ خاص نہیں؛ بلکہ جہاں میت یا اس کے اجزاء ہوں گے وہی اس کی قبر ہے، خواہ وہ جگہ مٹی کا گڑھا ہو، سمندر کا پانی ہو یا جانوروں کا پیٹ ہو، تاہم دوسرے معنوں میں مجازاً قبر ہوگی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قبر میں ہر آدمی سے فرشتے سوال و جواب کریں گےپھر جزاء و سزاء کا سلسلہ بھی جاری ہوگا۔مرنے کے بعدمردوں کی روحیں بھٹکتی نہیں پھریں گی۔تشریح
منکر و نکیر کے سوالات: ہر شخص کی برزخی زندگی کے شروع ہوتے ہی دو فرشتے اس کے پاس سوال و جواب کےلئے آتے ہیں جن کے نام مُنکَر نَکِیر ہیں۔ مُنکَر نَکِیر ہر شخص سے اس کے رب اس کے دین او ر اس کےرسول کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔
مؤمنین متقین درست جواب دے کر راحت و آرام حاصل کریں گے، اور کافر و منافقین درست جواب نہ دے سکیں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
صاحب ایمان وعمل کے لئے کم ترین راحت کی نوعیت یہ ہوگی کہ اس کو بعث اور حشر تک آرام سے سو جانے کا حکم ہوگا، جبکہ بعضوں کو صبح و شام جنت میں اس کا جو مقام ہوگا دکھایا جائے گا ، اور یہ سلسلہ بعث تک جاری رہے گا، اور کافر پر سختی کی شدید ترین نوعیت یہ ہوگی کہ صبح شام اس کو آگ کا عذاب دیا جائے گا، جیسے یہ فرعون کے ساتھ ہوگا۔
برزخی زندگی میں اچھے اعمال کرنے والوں کو راحت دیا جانا اور برے اعمال کے مرتکبین کو عذاب دیا جانا بر حق ہے۔یہ عقیدہ یعنی قبر میں اعمال کی نوعیت کے لحاظ سے راحت و نعمت دی جائے گی،یا پھر قبر کے عذاب سے دو چار ہونا ہوگا قرآن سے قطعی اور واضح طور پر ثابت ہے، اسی طرح متواتر احادیث سے اس کا ثبوت موجود ہےاس لئے اس عقیدہ پر ایمان واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
یہ خیال کہ مردوں کی روحیں خاص کر جن کی موت حادثاتی ہو جائے ان کی روح بھٹکتی رہتی ہے بالکل لچر اور لغو خیال ہے اور کفریہ عقیدہ ہے، اس باطل عقیدہ سے گریز لازمی ہے یہ ایمان کے خلاف ہے۔ کیونکہ نیک روحوں کا مسکن علیین ہے اور کفار کی روحوں کا مسکن سجین ہے، اور کفار ہر حال میں بعث تک قید اور عذاب میں رہیں گے انہیں بھٹکنے کی آزادی نہیں ملے گی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عالمِ برزخ میں رونما ہونے والے ثواب و عذاب کے یہ احوال روح اور جسم دونوں پر واقع ہوتے ہیں۔تشریح
میت کو جب قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کی روح سوال و جواب کے لئے جسم میں لوٹادی جاتی ہے، پھر روح کا جسم کے ساتھ اتنا تعلق ضرور باقی رکھا جاتا ہے جس سے وہ ثواب و عذاب کو محسوس کرسکے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انسان اور جنات کے علاوہ باقی مخلوق میت پر عذاب کی حالت میں اس کی چیخ و پکار کو سنتی ہے۔دلائل
عقیدہ:
انسان اور جنات سے برزخ کے تمام احوال پردے میں رکھے گئے ہیں، تاکہ ایمان بالغیب باقی رہے۔تشریح
برزخ کے احوال اس واسطے بھی پردے میں ہیں کہ دنیا کا جہاں اور ہے اور برزخ کا جہاں اور، اُس جہاں کے تمام احوال انسان کو محسوس نہیں ہوتے اور نطر نہیں آتے، اگر دوسرے جہاں کے احوال محسوس نہ ہوں اور نظر نہ آئیں تو اس میں کیا استبعاد ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قبر کا عذاب دائمی بھی ہوتا ہے اور عارضی بھی ہوتا ہے۔تشریح
دائمی کے معنیٰ یہ ہے کہ قیامت تک ہوتا رہتا ہے، یہ کفار اور بڑے بڑے گنہگاروں کو ہوگا، عارضی کے معنیٰ یہ ہے کہ ایک مدت تک عذابِ قبر ہوگا پھر ختم ہوجائے گا، حتم ہونے کی ایک وجہ یہ ہوگی کہ جرم اور گناہ معمولی نوعیت کا ہوگا، کچھ عذاب دے پھر عذاب ہٹا لیا جائے گا یا اقرباء کی دعاء، صدقہ، استغفار اور ایصالِ ثواب سے بھی عذاب ختم کردیا جائے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نفخۂ اولی اور نفخۂ ثانیہ کی درمیانی مدت میں روح کی موت و حیات کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔تشریح
روح پر موت طاری نہیں ہوتی، روح کی موت یہی ہے کہ اُسے وقتِ مقررہ پر جسم سے جدا کردیا جاتا ہے، پیدائش کے بعد روح ہمیشہ رہے گی، البتہ اس کے ٹھکانے بدلتے رہیں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
عالم برزخ میں روح کا اپنے جسم کے ساتھ تعلق مختلف ہوتا ہے۔تشریح
عام اموات کے ساتھ روح کا تعلق کم درجہ کا ہوتا ہے، شہداء کے ساتھ ارواح کا یہ تعلق اس سے قوی ہوتا ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے ساتھ یہ روحانی تعلق قوی تر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شہداء اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام مبارکہ اپنی قبروں میں محفوظ رہتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں پر پڑھا جانے والا درود و سلام سنتے ہیں۔
میدانِ حشر: قیامت قائم ہونے کے چالیس سال بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا، پہلے صور پھونکنے سے تمام مخلوق تباہ و برباد ہوجائے گی، تمام فرشتے مرجائیں گے حتی کہ اسرافیل علیہ السلام پر بھی موت طاری ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرکے دوبارہ صور پھونکنے کا حکم فرمائیں گے، اس دوسرے صور کی آواز سے تمام مخلوق دوبارہ زندہ ہوجائے گی، یہ زمین کسی دوسری زمین سے تبدیل کردی جائے گی، مردے قبروں سے نکل نکل کر میدانِ محشر میں جمع ہونا شروع ہوجائیں گے، بعض عمدہ قسم کی سواریوں پر سوار ہوکر میدانِ محشر میں پہنچیں گے، بعض دوڑتے بھاگتے پہنچ جائیں گے اور بعض چہروں کے بل میدانِ محشر میں جمع ہوں گے، تمام لوگ برہنہ حالت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے، ہر شخص تنہاء اور اکیلا ہوگا، اولین و آخریں تمام کو جمع کیا جائے گا اور کوئی اس دن کی حاضری سے مستثنیٰ نہیں ہوگا اور سب اللہ کے حضور صفوں میں کھڑے ہوں گے، قیامت کا وہ ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا، اس دن سورج سروں کے بہت قریب ہوگا، جس کی تپش اور گرمی سے لوگوں کے دماغ کھولنے لگیں گے، ہر گنہگار اپنے گناہوں کے بقدر پسینہ میں شرابور ہوگا، لوگ اس میدان میں بھوکے پیاسے کھڑے ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں تمام زندہ ہونے والوں پر ایک ہانکنے والا مسلط ہوگا، اور وہ سب ایک ندا دینے والے کی ندا پر حشر کے میدان کی جانب چلے جارہے ہوں گے۔تشریح
دوبارہ زندہ کئے گئے تمام مکلفین ایک جانب ہانکے جائیں گے، ہر فرد پر ایک ہانکنے والا مسلط ہوگا ، اور ایک ندا دینے والا انہیں پکار پکار کر میدان حشر میں جمع کررہا ہوگا، اور وہ سب اس کی جانب دوڑے چلے جا رہے ہوں گے، کسی کی جرأت نہیں ہوگی کہ اس سے انحراف کریں یا کسی اور جانب متوجہ ہوں ، سب کی آواز گم ہو چکی ہو گی، اور نگاہیں پتھرائی ہوئی ہوں گی (القرآن)۔ یہ تمام احوال قرآن سے قطعی طور پر ثابت ہیں، یہ یقیناً پیش آئیں گے ان پر ایمان فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حشر کے زمین و آسمان دنیا کے زمین و آسمان سے جدا ہوں گے، اللہ تعالیٰ انہیں نئی صفات کے ساتھ پیدا کرے گا۔حشر کے اس میدان میں تمام مکلفین گن گن کر جمع کئے جائیں گے، کوئی فرد مکلف اس سے بچ کر نہیں نکل سکے گا۔تشریح
قیامت واقع ہونے کے بعد جبکہ زمین و آسمان سب تباہ ہو چکے ہوں گے، ایک دوسری زمین اور دوسرے آسمان پیدا کئے جائیں گے، اس زمین کی صفت یہ ہوگی کہ اس کو کوٹ کوٹ کر برابر کردیا گیا ہوگا، جو چٹیل میدا ن کی مانند ہوگی، یہی میدان حشر ہوگا، جہاں از اول تا آخر تمام مکلفین کو جمع کیا جائے گا۔ (القرآن)
حدیث کے مطابق اس زمین پر نہ کہیں کوئی پہاڑ ہوگا، نہ ان پر کہیں گھاس یا پودے اُگے ہوں گے، نہ ان پر کوئی تعمیر ہوں گی، اور نہ ہی کوئی آڑ ہو گی جس کے پیچھے چھپا جا سکے بس چٹیل میدان ہوں گے۔
ہر ہر فرد مکلف اٹھایا جائے گا، کوئی ایسا نہیں ہوگا جو چھوٹ جائے، ایک ایک فرد گنتی کے ساتھ جمع کیا جائے گا، اور سب انفرادی حیثیت سے جمع کئے جائیں گے جن کی گروہ بندی پھر اللہ کے حکم سے ہوگی(القرآن)۔
قرآن کے حوالہ سے اوپر مذکور امور قطعی اور یقینی ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ اور اسی طرح احادیث صحیحہ سے ثابت اضافی مذکور امور پر بھی ایمان لازم ہے اور ان کا انکار سخت گناہ کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مؤمنین نیکوکاروں کا فرشتے استقبال کریں گے، جبکہ کافر بدکاروں کا سخت حال ہوگا بہت سے کفار اندھے اٹھائے جائیں گے ۔تشریح
حدیث پاک کے مطابق پہلے صور کے بعد جب سب مرچکے ہوں گے، اللہ تعالیٰ ماء حیات نازل فرمائیں گے، اور اس سے وہ تمام جاندار جو مر چکے ہیں ایسے اُگیں گے جیسے پودا پانی سے اُگ آتا ہے، چنانچہ حدیث کے بیان کے مطابق جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا پورا جسم گل سڑ جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے سرے کے جو ایک طرح سے انسان کی دوبارہ تخلیق کے لئے بیج کا کام دے گا، پہلے صور کے ذریعہ جو تباہی ہوگی اس کے بعد جب ماء حیات نازل کیا جائے گا اسی بیج سے وہ دوبارہ درختوں کی طرح اُگ جائیں گے، لیکن ابھی ان میں روح نہیں ہوگی، نفخ صور کے بعد ان میں روح داخل ہو جائے گی۔
اور جب دوسرا صور پھونکا جائے گاان میں انسانی حیات بیک لمحہ پید ہو جائے گی، اور وہ سب حساب کتاب کےلئے کھڑے کر دئیے جائیں گے(القرآن)۔
ان کی ابتدائی کیفیت ایسی ہوگی جیسے سوتے سے اٹھا دئیے گئے ہوں، وہ کہتے ہوں گے کہ ہماری آرام گاہوں سے ہمیں کس نے جگا دیا ہے۔ لیکن سب کوفوراًمعلوم ہوجائے گا کہ یہ تو بدلہ کا دن ہے، اور وہ زبان سے اقرار بھی کریں گے، اور ان سے کہا جائے گا ہاں یہ بدلہ کا دن ہی ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔یہ لوگ قبروں سے نکل کر ایک طرف دوڑے چلے جا رہے ہوں گے جیسے ان سب کو کسی ایک مقررہ مقام تک پہنچنا ہو(القرآن)۔
حدیث کے بیان کے مطابق یہ زندہ ہونے والے اپنی اصل حالت میں ہوں گے، نہ ان کے جسم پر لباس ہوگا اور نہ ہی پیروں میں کوئی پہننے کی چیز، سب ننگے بدن اور ننگے پاؤں ہوں گے، اور سب کی حالت ایسی دگرگوں ہوگی کہ انہیں اپنے بدن اور ننگے ہونے کا کوئی احساس ہی نہیں ہوگا، سب کے ہوش اتنے بگڑے ہوئے ہوں گے کہ کسی کو اپنے یا دوسرے کے ستر کی جانب نگاہ کرنے کی توجہ ہی نہیں ہوگی۔
متقین (بعث یعنی روز قیامت ) زندہ کئے جانے کے بعد بڑے پر وقار انداز میں وفد کی شکل میں اللہ کےدربار میں حاضر ہوں گے، جن کا فرشتے احترام سے استقبال کریں گے، جبکہ کفار مجرموں کی طرح ہانکے جائیں گے اور ان میں کے بعض وہ جو اللہ کی یاد ہی سے اعراض کئے ہوئے تھے ایسے بھی ہوں گے جو اندھے اٹھائے جائیں گے، وہ کہہ رہے ہوں گے کہ مجھے اندھا کیوں اٹھایا گیا میں تو آنکھوں والا تھا ان کو جواب ملے گا کہ ہمارا پیغام تم تک آیا تھا لیکن تم نے اس کو بھلا دیا آج تم بھی بھلا دئیے گئے ہو، مسرفین کا یہی انجام ہونا تھا بلکہ ان کےلئے آخرت کا مزید شدید عذاب بھی ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا(القرآن)۔
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کی یہ کیفیات یہاں بیان ہوئی ہیں یقینی طور پر پیش آنے والی ہے، اوپر مذکور امور جو قرآن سے قطعی طور پر ثابت ہیں ان پر ایمان فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے، اور احادیث سے ثابت اضافی تفصیلات پر بھی ایمان واجب ہے ان میں سے کسی چیز کا انکار سخت گناہ کا موجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حشر کا دن بہت طویل ہوگا۔تشریح
حشر کے دن کی طوالت: حشر کا دن جہاں تمام مکلفین جن و انس کا حساب و کتاب ہونا ہے بہت طویل (لمبا)ہوگا، اس کی طوالت (لمبائی) دنیا کے دنو ں کے لحاظ سے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔
لیکن جب حساب کتاب شروع ہوگا مؤمنین نیکوکاروں کا حساب جلد ہو جائے گا، انہیں ایسے محسوس ہوگا ایک نماز کا وقت گذرا ہے۔ کافر و بدکار حشر کے دن کی تمام سختیوں کو اول سے آخر تک جھیلیں گے۔
حشر کا دن بہت طویل ہوگا، اتنا طویل جتنا کہ زمین کے دن کے لحاظ سے پچاس ہزار سال ہو سکتے ہیں(القرآن)۔
البتہ حدیث کے مطابق یہ طوالت کافروں کے حساب و کتاب کےلئے ہوگی، اور اس کا حساب اس پورے وقت کو محیط ہوگا اور وہ اس پوری مدت کی سختیوں کو جھیلے گا، بعض کفار کےلئے ان کے اعمال کے لحاظ سے اس دن کی طوالت ایک ہزار برس کی ہوگی (القرآن)۔
یہ حقیقت ہے کہ اہل محشر میدان حشر میں اپنے اپنے اعمال کے حساب کتاب کے لحاظ سے ٹھیریں گے اور جن کا حساب ہو جائے گا وہ یا تو جنت کی جانب یا جہنم کی جانب بھیجے جائیں گے، چنانچہ مؤمن کو میدان حشر میں ایسے محسوس ہوگا کہ اس کا حساب اتنے وقت میں ہوگیا جیسے ایک نماز کا وقت گذرتا ہے، اور وہ اپنے حساب سے فارغ ہو جائے گا۔
حشر کے میدان کے حالات بہت سخت ہوں گے، اور وہاں سب کی حالت نازک ہوگی۔ میدان حشر کا سورج ان کے قریب ہوگا،غم اور کرب کی ایسی حالت ہوگی کہ لوگ اس کا تحمل نہ کر پا رہے ہوں گے۔ لوگ اپنے ہی پسینہ سے شرابور ہوں گے، بعضوں کا پسینہ ان کے پیروں تک ہوگا اور بعضوں کا پسینہ ان کے گلوں تک پہنچ رہا ہوگا۔وہاں کسی کو رشتہ داری کا خیال نہیں ہوگا، کوئی کسی کا دوست نہیں ہوگا، نفسی نفسی کا عالم ہوگا۔ حشر کے میدان میں جمع ہو کر سب حساب و کتاب کے آغاز کے انتظار میں رہیں گے، لیکن حساب و کتاب شروع نہیں ہوگا اور اسی انتظار میں ایک نا قابل بیان لمبا عرصہ گذر جائے گا۔
میدان حشر میں جمع ہونے والے سبھوں کی حالت نازک ہوگی، جبکہ کافر بہت بری حالت میں ہوں گے، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، چہرے تاریک ہوں گے، ہول اور ہیبت سے خلا میں گھورے جا رہے ہوں گے، دلوں پر ویرانی چھائی ہوگی، کلیجہ منہ کو آرہا ہوگا اور وہ گُھٹے ہوئے ہوں گے، وہ مخلوقات جو اس دنیا میں نگاہوں سے اوجھل ہیں وہاں وہ ظاہر ہو جائیں گی، اور جن اور فرشتے سر کی آنکھوں سے دکھائی دیں گے، جن کو دیکھ کر ان کی نگاہیں پتھرا جائیں گی (القرآن)۔
وہاں ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا، وہاں کوئی نسب و رشتہ داری یاد نہیں رہے گی، نہ ہی کوئی دوستی یا درہے گی، بلکہ انسان اپنے ماں باپ، بھائی بہن ، بیوی بچے سبھی سے پیچھا چھڑا کر بھاگ رہا ہوگا، کسی کو دوسرے کے کام آنے کا خیال تو اس وقت آئے گا جبکہ خود اس کو اپنے بارے میں اطمینان ہو حالانکہ اس جگہ اللہ کے سب سے مقرب بندے انبیاء تک نفسی نفسی کا شکار ہوں گے، اور وہ شخص جس نے ادنی درجہ کا بھی خود پر یا دوسروں پر ظلم کیا ہوا ہوگا اس کی حالت بری ہوگی(القرآن)۔
یہ احوال قرآن سے قطعی طور پر ثابت ہیں جن پر ایمان فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔
احادیث میں وارد ہوا ہے کہ میدان حشر میں اولین و آخرین سب ایک جگہ جمع ہوں گے، اور میدان حشر کا سورج ان کے قریب کردیا جائے گا، غم اور کرب کی ایسی حالت ہوگی کہ لوگ اس کا تحمل نہ کر پا رہے ہوں گے۔ احادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ لوگ اپنے ہی پسینہ سے شرابور ہوں گے، بعضوں کا پسینہ ان کے پیروں تک ہوگا اور بعضوں کا پسینہ ان کے گلوں تک پہنچ رہا ہوگا۔
احادیث مبارکہ میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ حشر کے میدان میں سب کو جمع ہو کر اتنا لمبا عرصہ گذر جائے گا گویا محسوس ہوگا کہ سالہا سال انتظار میں گذر گئے ہیں، سب کے حواس گم ہوں گے، یہ لمبا عرصہ اس انتظار میں گذر جائے گا کہ کم از کم حساب و کتاب شروع ہو، لیکن اس کا کوئی سلسلہ شروع نہیں ہوگا۔
احادیث سے ثابت میدان حشر کے ان احوال پر ایمان واجب ہے اور ان کا انکار سخت گناہ کا موجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشرمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد ہی حساب وکتاب کا آغاز ہوگا، اسی کو شفاعت کبری کہاجاتا ہے۔تشریح
شفاعتِ کبری پر ایمان:میدان حشر میں انتظار میں ایک بہت لمبا عرصہ گذرنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوگا کہ اللہ کی برگزیدہ ہستیوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اللہ کے دربار میں حساب و کتاب شروع کرنے کی درخواست کریں، بعض لوگ مشورہ دیں گے کہ اپنے جد امجد حضرت آدم سے درخواست کی جائے، چنانچہ لوگ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام سے رجوع کریں گے کہ وہ تمام انسانیت کے باپ ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے، اور اپنی روح آپ میں پھونکی ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں، آپ اپنے پروردگار سے ہماری شفاعت فرمائیے، آپ ہماری حالت دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں، اللہ کے دربار میں حساب و کتاب شروع کرنے کی درخواست کریں، لیکن حضرت آدم اس سے معذرت کرلیں گے، وہ فرمائیں گے :اللہ تعالیٰ آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے قبل کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے، اور اس کے بعد بھی کبھی ایسے غصہ میں نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے خود مجھے جنت میں اس درخت سے دو رہنے کا حکم دیا تھا جبکہ میں اس سے اس معاملہ میں کوتاہی ہو گئی، مجھے تو خود اپنی پڑی ہے، تم دوسروں کے یہاں چلے جاؤ، بہتر ہے تم اس شفاعت کےلئے نوح کے پاس جاؤ۔
لوگ حضرت نوح کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے:ائے نوح! آپ روئے زمین پر اللہ رب العزت کے سب سے پہلے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’عبد شکور‘‘ کے لقب سے نوازا ہے، آپ اپنے پروردگار کے دربار میں ہمارے لئے شفاعت فرمائیے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں، ہماری کیا حالت ہو گئی ہے، حضرت نوح فرمائیں گے: اللہ تعالیٰ آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے قبل کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے، اور اس کے بعد بھی کبھی ایسے غصہ میں نہیں ہوں گے، مجھے ایک دعا کا حق تھا ، وہ اپنی قوم کے خلاف بد دعا کی صورت میں کر چکا ہوں، آج تو مجھے خود اپنی جان کی پڑی ہے، بہتر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ، تمہیں اس درخواست کو لے کر ابراہیم کے یہاں جانا چاہئے۔
لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہاں آئیں گے، اور ان سے کہیں گے کہ ائے ابراہیم !آپ اللہ کے نبی اور روئے ارضی پر اللہ کے خلیل ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہم پر کیا مصیبت آ پڑی ہے، حضرت ابراہیم بھی وہی جواب دیں کہ اللہ تعالیٰ آج ایسے غصہ میں ہیں اس سے قبل کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے، اور اس کے بعد بھی کبھی ایسے غصہ میں نہیں ہوں گے، اور اپنے جھوٹ کا ذکر کریں گے، اور کہیں گے مجھے خود اپنی جان کی پڑی ہے، بہتر ہے تم موسی کے یہاں جاؤ۔
لوگ حضرت موسی کے یہاں آئیں گے، اور ان سے کہیں گے: ائے موسی ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت اور ہم کلامی کے شرف سے نوازا ہے، آپ اپنے پروردگار کے یہاں ہماری شفاعت فرمایئے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہم پر کیا بپتا پڑی ہے، حضرت موسی بھی لوگوں کو وہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے قبل کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے، اور اس کے بعد بھی کبھی ایسے غصہ میں نہیں ہوں گے، میں نے ایک انسان کو قتل کردیا تھا جبکہ مجھے اس کا حکم نہیں تھا، مجھے تو خود اپنی پڑی ہے، تم کسی اور کے یہاں جاؤ، بہتر ہے عیسی کے یہاں جاؤ۔
لوگ حضرت عیسی کے یہاں آئیں گے، اور کہیں گے : ائے عیسی! آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، اور اللہ کے کلمہ ہیں جس کو اللہ نے حضرت مریم کی جانب القاء فرمایا ، آپ اللہ کی جانب سے پھونکی ہوئی روح ہیں، آپ کو اللہ نے گود ہی میں بات کرنے کی صلاحیت بخشی تھی، آپ اپنے پروردگار کے یہاں ہماری سفارش فرمائیے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہے اور ہم پر کیا مصیبت آئی ہوئی ہے، حضرت عیسی بھی وہی جواب دیں گے وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے قبل کبھی ایسے غصہ میں نہیں تھے، اور اس کے بعد بھی کبھی ایسے غصہ میں نہیں ہوں گے، وہ اپنی کسی تقصیر کا ذکر نہیں کریں گے البتہ کہیں گے بہتر ہے تم محمد ﷺ کے یہاں جاؤ۔
بالآخر لوگ آپ ﷺ کے یہاں آئیں گے، ائے محمد ﷺ آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اللہ نے آپ کو فرمایا ہے کہ آپ کے اگلے پچھلے سب معاف ہیں، آپ ہماری اپنے پروردگار کے دربار میں شفاعت فرمائیے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا کیا حال اور ہم پر کیا مصیبت آئی ہوئی ہے۔ تب میں کھڑا ہوں گا، اور کہوں گا کہ ہاں میں اس کام کو انجام دوں گا، یہ میرا مقام ہے، اور عرش کے نیچے اس مقام پر آؤں گا جس کو ’’فَحْصْ‘‘ کہا جاتا ہے، اور اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہوں جاؤں گا، اس وقت اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے محامد اورخوبیوں کے ایسے ایسے پہلو کھولے گا اور الہام فرمائے گا کہ اس سے پہلے کسی پر وہ پہلو نہیں کھلے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی جانب سےاجازت ملے گی کہ : ائے محمد!اپنے سر کو اٹھائیے، مانگئے عطا کیا جائے گا، شفاعت کی کیجئے شفاعت قبول کی جائے گی، اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا معاملہ ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ مراد کو اچھی طرح جانتے ہوں گے، آپ ﷺفرمائیں گے : ائے اللہ آپ نے مجھ سے شفاعت کے حق کا وعدہ کیا ہے، آج اپنی تمام مخلوق کے حق میں شفاعت کو قبول فرمائیے، اور ان کا فیصلہ شروع کرنے کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: آپ کی شفاعت قبول ہوئی، میں آؤں گا، اور ان کے فیصلے کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : پھر میں واپس اپنی جگہ آ جاؤں گا، اور لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا۔
حشر کے میدان میں تمام اہل محشر کے حساب کتاب کے آغاز کےلئے عموماً اور اولین و آخرین کے نہ صرف عام مؤمنین بلکہ خواص اور انبیاء کے لئے اس انتظار اور میدان حشر کی سختیوں سے چھٹکارے کےلئے آپ ﷺکی یہ شفاعت بر حق ہے، جبکہ دوسرے انبیاء اس سے گریز کررہے ہوں گے، اس میں تمام انبیاء پر آپ ﷺ کی ایک خاص فضیلت ظاہر ہوتی ہے ، یہ شفاعت ’’شفاعت کبری‘‘ کہلاتی ہے، اس کے بعد بھی آپ ﷺمتعدد امور میں شفاعت فرمائیں گے ان کا ذکر آگے آرہا ہے، یہاں اوپر مذکور شفاعت متواتر اور قطعی نصوص سے ثابت ہے ، اس لئے اس پر ایمان فرض ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قوموں کو ان کے انبیاء کے ساتھ بلایا جائے گا، اور ہر قوم کا حساب و کتاب ان کے نبی کی موجودگی میں ہوگا۔قومیں انبیاء کو جھٹلائیں گی لیکن امت محمدیہ اور خاتم النبیین محمد الامین ﷺ کی گواہی سے انبیاء کی حقانیت کا فیصلہ ہوگااور پھر قوموں کا حساب و کتاب شروع ہوگا۔ تشریح
حشر کے میدان میں انبیاء اور قوموں کو بلاوا: میدان حشر کا حساب و کتاب ایک باقاعدہ عمل ہوگا، جس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو ان کی قوموں کے ساتھ بلائیں گے(القرآن)۔
حدیث میں آیا ہے کہ مجھ پر انبیاء اور ان کی قوموں کو پیش کیا گیا ، چنانچہ کسی نبی کے ساتھ ایک بڑی جماعت ہوگی، کسی نبی کے ساتھ محض ایک قافلہ ہوگا، کسی نبی کے ساتھ صرف دس صاحب ایمان ہوں گے، اور کسی کے ساتھ صرف پانچ صاحب ایمان ہوں گے، جبکہ کسی کے ساتھ صرف ایمان صاحب ایمان ہوگکسی کےساتھ ایک چھوٹی سی جماعت ہوگی، حضرت موسی کے ساتھ ایک بہت بڑی جماعت ہوگی، جبکہ ، ایک طرف ایک بہت بڑی جمعیت ہوگی ، میں پوچھوں گا کہ کیا یہ میری امت ہے، جواب ملے گا نہیں ، یہ حضرت موسی کے اصحاب ہوں گے، پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر افق کی جانب دیکھئے وہاں میں دیکھوں گا تو ہاں ایک نہایت بڑی جمعیت ہوگی جبکہ ان میں ایک طرف صرف ستر ہزار تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے والے ہوں گے، ۔ ایک حدیث کے مطابق جنت کی ایک تہائی بلکہ نصف تعداد امت محمدیہ کی ہوگی۔
جب انبیاء علیہ السلام اپنی قوموں کے ساتھ آجائیں گے تو حساب کتاب شروع ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء سے ضابطہ کے سوالات کریں گے کہ کیا انہوں نے اپنی قوموں کو اللہ کے پیغامات پہنچا دیئے تھے؟انبیاء علیہم السلام سے اس لئے کیوں کہ وہی اس بات کے ذمہ دار تھے کہ اپنی قوموں اور امتوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچائیں، چنانچہ کسی بھی قوم اور اس کے افراد سے باز پرس شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ خود ان کے نبیوں سے سوال کریں گے کہ کیا انہوں نے اللہ کے پیغام کو ان کی قوم تک پہنچادیا تھا یا نہیں ؟ کیونکہ خود اللہ نے اس بات کو ذکر کیا ہے کہ رسولوں کے ذریعہ ہی بندوں پر اتمام حجت کیا گیا ہے، اس لئے فطری طور پر سب سے پہلا سوال انہیں سے کیا جائے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ بخوبی یہ جانتے ہوں گے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر نبھایا تھا پھر بھی یہ سوال ضرور ہوگا کیونکہ قوموں اور ان کے افراد سے باز پرس اور ان کے حساب کےلئے ضابطہ کی کاروائی کی یہی سب سے پہلی کڑی ہوگی(القرآن)۔
انبیاء علیہم السلام سے یہ بھی سوال ہوگا کہ ان کی امتوں نے ان کو کیا جواب دیا؟ میدان حشر کی ہولناکی کا اس وقت یہ حال ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام اس علم کو اللہ کی جانب منسوب کردیں گے، کہ ہم نہیں جانتے آپ غیب کو جاننے والے ہیں آپ کے علم میں ہے کہ قوموں نے کیا جواب دیا (القرآن)۔
دوسری طرف خود قوموں کا حال یہ ہوگا کہ جب ان سے سوال ہوگا کہ ان تک نبی نے بات پہنچائی تھی یا نہیں وہ اس بات سے ہی انکار کردیں گے کہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا بھی آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو اس اعزاز سے نوازا ہے کہ روز قیامت امت محمدیہ انبیاء علیہم السلام کے حق میں اور ان کی قوموں کے خلاف گواہی دیں گی ، چنانچہ انبیاء علیہم السلام امت محمدیہ کو بطور گواہ کے پیش کریں گے کہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو نبیوں تک پہنچایا تھا، اور جب امت محمدیہ سے گواہی طلب کی جائے گی تو وہ کہیں گے کہ: ہاں ہمارے پیغمبر خاتم النبیین ﷺ نے یہ بات بتلائی ہے کہ انبیاء نے اپنی قوموں تک اپنے رب کے رسالات پہنچا دئیے تھے، اور خود خاتم النبیین محمد الامین ﷺامت محمدیہ کی گواہی کی تصدیق کریں گے۔
یہ امت محمدیہ کا ایک اہم امتیاز ہوگا، جو در حقیقت خود ان کے پیغمبر کا امتیاز ہوگا کہ حساب کتاب کا سلسلہ بھی آپ کی سفارش سے شروع ہوا تھا، اور قوموں کے اعمال کا حساب کی بنیاد بھی آپ ﷺ کی گواہی بنے گی کہ انبیاء نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا تھا اور اس لحاظ سے قوموں کے اعمال کی ذمہ داری انبیاء پر نہیں بلکہ براہ راست خود قوموں پر پڑتی ہے کہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچ چکا تھا اس لئے اب وہ اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔
حشر کے میدان میں انبیاء علیہم السلام کی آمد اور ان سے ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال بر حق ہے، اور قوموں کا ان کو جھٹلانا اور اور اس نزاع کے حل کےلئے امت محمدیہ کو گواہ بنانا، اور ان کی گواہی کی تائید کےلئے نبی ﷺ کی گواہی سب بر حق امور ہیں جو لازماً پیش آئیں گے، یہ معاملات نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں ان پر ایمان فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں حق تعالی کی تجلی کا ظہور ہوگا۔تشریح
حساب و کتاب شروع ہونے سے پہلے آسمان سے بڑی تعداد میں فرشتے اتریں گے اور لوگوں کو چاروں سے گھیر لیں گے، پھر اللہ تعالیٰ کا عرش اتارا جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کی تجلی ہوگی جس سے تمام مخلوق بے ہوش ہوجائے گی، سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئیں گے، آپ دیکھیں گے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے پائے کو پکڑے ہوئے کھڑے ہیں، یہ معلوم نہیں ہوگا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوش آگیا ہوگا یا طور کی بے ہوشی کے بدلہ میں انہیں میدانِ محشر کی بے ہوشی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہوگا، پھر ساری مخلوق ہوش میں آجائے گی اور حساب و کتاب شروع ہوجائے گا۔
فیصلوں کےلئے اللہ کی آمد اور بندوں کی حضور پیشی۔ میدان حشر میں فیصلوں کےلئے اللہ کی آمد بر حق ہے۔آمد کی کیفیت کیا ہوگی یہ اللہ کی صفاتِ متشابہات میں سے ہے ، اس پر ایمان اس طرح لانا ہے کہ یہ آمد بر حق ہے اس آمد کی کیفیت اللہ ہی جانتے ہیں۔
آسمان میدان حشر پھٹ پڑیں گے، خاص فرشتے بادلوں سے ظاہر ہوں گے، اور پھر اللہ رب العزت فیصلوں کےلئے تشریف لائیں گے ، اور پوری ارض محشر اللہ کے نور سے روشن ہو جائے گی، فرشتے صف در صف ہو کر اللہ کی تسبیح بیان کررہے ہوں گے۔
حشر میں جمع ہونے والے سبھوں کو ایک صف میں اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرما کر کہیں گے: تم ایسے ہی ہمارے سامنے حاضر کردئیے گئے ہو جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلے پید کیا تھا، تم (میں سے بعض ) یہ سوچتے تھے کہ اس دن کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لیکن یہ ایسا دن ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔
روز قیامت زمین اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو خطاب کرکے فرمائیں گے میں ہوں بادشاہ اور حاکم، کہاں زمین کے بادشاہ؟۔ (القرآن)
کون ہوگا وہاں جو اس کا جواب دے سکے۔ اس سخت گھڑی میں تمام اہل محشر کو حکم ہوگا کہ رب العلمین کو سجدہ کریں ، لیکن وہاں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے میں وہی کامیاب ہوں گے جو دنیا میں اللہ کے حکم پر سجدہ کرتے تھے اور نمازوں کی پابندی کیا کرتے تھے، اور وہ لوگ جو دنیا میں باوجود اس کے کہ صحتمند و تندرست تھے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے سے گریز کرتے تھے وہاں وہ اس کی حکم کی تعمیل نہیں کر پائیں گے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گے اور چہروں پر تاریکی چھائی ہوئی ہوگی (القرآن)۔
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جب سے میں نے تمہیں پیدا کیا تھا میں تمہاری باتیں سن رہا تھا اور تمہارے اعمال دیکھ رہا تھا اور خود خاموش تھا، آج تم خاموش ہو گے اور یہ تمہارے اعمال اور اعمال نامے ہیں جو تم پر پڑھیں جائیں گے، جو اپنے نامہ اعمال میں خیر پائے وہ اللہ کی حمد بیان کرے، کیونکہ یہ بھی در حقیقت اللہ کی توفیق سے ممکن ہوا ہے، اور جس کے نامہ اعمال میں خیر نہ ہو وہ اپنے علاوہ دوسروں کو ملامت نہ کرے کیونکہ یہ خود اس کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔
فیصلوں کےلئے اللہ کی آمد یقینی اور قطعی امر ہے، اس پر ایمان فرض ہے، لیکن یہ آمد ’’تحول اور انتقال مکان ‘‘کی نوعیت کی نہیں ہوگی جیسا کہ حادث مخلوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے ہیں، اس آمد کی کیفیت کیا ہوگی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں،مؤمنین پر لازم ہے کہ وہ اس حقیقیت پر بغیر کیفیت کے ایمان لائیں۔ بغیر کیفیت کے ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی آمد ہوگی اس پر ایمان لائیں، لیکن یہ آمد کیسے ہوگی اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کو اللہ کے علم کی جانب منسوب کریں کہ اس کو اللہ بہتر جانتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں بادشاہت صرف اللہ کی ہوگیتشریح
اس دن باشاہت صرف اللہ کی ہوگی، اور اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مکلفین کو جس بھی نوعیت کی ادنی درجہ کی ظاہری ملکیت بھی عطاء کی تھی وہ وہاں اس کی نہیں ہوگی، اور نہ ہی کسی مکلف کی دوسرے کسی مکلف پر کوئی بادشاہت ہوگی، ہر طرح کی ملوکیت اور ملکیت کے دعویدار سب وہاں غلام بن کر حاضر ہوں گے۔
وہ بدلہ چکائے جانے کا دن ہوگا، اور اس دن کے مالک صرف اللہ رب العزت ہوں گے، جو ان سب کے درمیان ان کے اعمال کا بر حق فیصلہ کریں گے، جو ایمان والے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہوں گے ان کے لئے نعمتوں والی جنت کے فیصلے ہوں گے، اور وہ جنہوں نے کفر کیا ہوگا، اور اللہ رب العزت کی آیات کو جھٹلایا ہوگا ان کے لئے ذلت والے عذاب کا فیصلہ ہوگا۔
اس دن پر ایمان لازم اور فرض ہے جبکہ ہر طرح کی ظاہری اور باطنی ملکیت و ملوکیت صرف اللہ کی ہوگی، اس اعمال کے بدلہ کے دن کا مالک صرف اللہ ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کےد رمیان ان کے اعمال کے لحاظ سے فیصلہ کریں گ، اس دن کا انکار کفر ہے دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں اللہ تعالی منکرین سے خطاب فرمائیں گے۔تشریح
اللہ کامنکرینِ آخرت سے خطاب: اللہ تعالیٰ عموماً تمام مکلفین سے اور خاص طور سے کافروں سے خطاب کرکے فرمائیں گے کہ جیسے ہم نے وعدہ کیا تھا تم سب حاضر کردئیے گئے ہو۔
میدان حشر میں اللہ تعالیٰ منکرین سے خطاب کرکے یہ بھی کہیں گے بتاؤ کیا یہ دن حق نہیں ہے، اسی دن سے غفلت میں تم پڑے ہوئے تھے، اس دن ان کی نگاہیں پتھرائی ہوئی ہوں گی، ان سے کہا جائے گا، یہ ہے وہ فیصلہ کا دن جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے، دیکھو ہم نے تمہیں اور تم سے پہلے کی تمام قوموں کو جمع کردیا ہے، اب اگر اس سے بچنے کی کوئی راہ ہے تو نکال کر بتاؤ، آج اس دن کے جھٹلانے والوں کےلئے تباہی ہی تباہی ہے۔جو کچھ تم نے کمایا ہے آج اس کا بدلہ مل کررہے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں کسی پرظلم نہیں ہوگا۔تشریح
حساب و جزاء کا قاعدہ: اللہ تعالیٰ نہایت انصاف اور عدل کے ساتھ بندوں کے اعمال کا حساب و کتاب لیں گےکسی پر ظلم نہیں ہوگا یہ حساب و کتاب پورے اصول اور گواہیوں اور نہایت ضابطہ کے ساتھ ہوگا۔
جس پر جو الزام رکھا جائے گا پوری دلیل کے ساتھ رکھا جائے گا، جو کامیاب ہوگا وہ دلیل کے ساتھ کامیاب ہوگا، اور جو ہلاک ہوگا اس پر پورا اتمام حجت کیا جائےگا تبھی اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہوگا۔
روز قیامت اللہ تعالیٰ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ محض اپنے علم کی بنیاد پر اہل جنت کو جنت میں بھیج دیں، اور اہل جہنم کو جہنم رسید کردیں۔ یعنی بندوں کے اعمال کے جو ریکارڈ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہیں محض ان کی بنیاد پر حساب کتاب کے بغیر ہی جنت یا جہنم میں اللہ تعالیٰ بندوں کو بھیج سکتا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ ایسا بھی کرتے ہیں تو یہ بندوں پر ظلم نہ ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ہی یہ ضابطہ بنایا ہے کہ جس شخص کا جو بھی انجام ہو وہ علی رؤوس الاشہاد ہو، کسی قسم کے حیلہ کی گنجائش باقی نہ رہے، کوئی ہلاکت و خسران کاشکار ہوتا ہو تو بینہ (دلیل) کی بنیاد پر ہو، اور کوئی جنت کا مستحق قرار پاتا ہو تو اس طرح کے کسی کو اس کے خلاف کچھ کہنے کی گنجائش نہ رہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت جزاء اعمال کےلئے ہر اس طریقہ کو اختیار کریں گے جس سے کسی کے بارے میں لئے گئے فیصلہ کے بارے میں اتمام حجت ہو جائے گا کہ اس کا یہی انجام ہو نا تھا ۔
اللہ تعالیٰ روز قیامت فیصلوں کےلئے بندوں کے سامنے عرض اعمال، وزن اعمال، نبیوں اور فرشتوں کی گواہیاوں ، اور اسی طرح اعضاء وجوارح کی گواہیاں ہر ضروری طریقہ کو اختیار فرمائیں گے، میدان حشر میں سوال و جواب، نقد و جرح بھی ہوگی، مجرمین وہاں بھی انبیاء کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے، لیکن مضبوط گواہیوں کی روشنی میں اتمام حجت ہو گا، اور آخر کار مجرمین کو اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا ہوگا، اور اس کے بعد وہ جہنم رسید ہوں گے، اسی اہل جنت کو بڑے با وقار انداز میں ان کے لئے جنت کے فیصلہ سے مطلع کیا جائے گا، جس سے مجرمین پر واضح کیا جائے گا کہ بدلہ کے دن پر ایمان لا کر انہوں نے جب اس کےلئے محنت کی تھی تو اس دن انہیں کس طرح نوازا گیا ہے۔
یہ تفصیلات اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بھی بتلائی ہیں اور نبی ﷺ اپنے ارشادات میں اس کو بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے اہل محشر پر ان کے انجام کے سلسلہ میں اتمام حجت فرمائیں گے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے، اس لئے اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں حساب شروع ہونے سے پہلے ہر ایک کو اس کا نامۂ اعمال دے دیا جائے گا۔تشریح
اس دنیا میں اللہ نے جہاں انسان کو مکلف بنا کر امتحان کےلئے پیدا کیا ہے ساتھ ہی یہ انتظام بھی فرمایا ہے کہ جو کچھ انسان عمل کرے، خواہ ظاہر میں خواہ چھپ کر، خواہ بڑا خواہ چھوٹا، خواہ اچھا خواہ برا ایک ایک عمل اپنے فرشتوں کے ذریعہ محفوظ کرلیا جائے، جو کچھ انسان کہتا ہے یا کرتا اس کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے، انسان جہاں کہیں جو کچھ کررہا ہے خواہ وہ ذرہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو وہاں اس عمل کو محفوظ کرنے والے موجود ہیں اور اس کو محفوظ کررہے ہیں۔
یہی اعمال کا ریکار ڈ میدان حشر میں بندوں کے سامنے پیش کیا جائے گا، چھوٹے سے چھوٹا عمل اور بڑے سے بڑا عمل جو کچھ بندوں نے دنیا میں کیا تھا اس کو ان کے سامنے رکھا جائے گا، کوئی عمل ایسا نہیں ہوگا جو اس ریکارڈ میں چھوٹ گیا ہو،ظاہر اور کھلے میں کئے ہوئے اعمال اور باطن میں چھپ کر کئے ہوئے اعمال سب اس کتاب میں موجود ہوں گے، ہر ایک کا ریکارڈ اس کے حوالہ کر دیا جائے گا، اور کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کا ریکارڈ خود پڑھو، آج تم خود بھی اپنے حساب کےلئے کافی ہو۔ اس ریکارڈ کو دیکھ کر مجرمین سہمے ہوئے کہیں گے : یہ کیسا ریکارڈ ہے جس نے کسی چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کسی عمل کو بھی نہیں چھوڑا ہے ،سب کچھ اس میں ذکر کیا گیا ہے۔ ایک ذرہ کے برابر بھی کسی نے اچھائی کی ہوگی تو بندہ اس کو وہاں دیکھ لے گا اور ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کی ہوگی تو انسان اس کو بھی وہاں دیکھ لے گا، جو کچھ انسان نے کیا ہوگا خواہ وہ اچھا ہو یا برا اگلا پچھلا سب اس کے سامنے کر دیا جائے گا(القرآن)۔
حشر کے میدان میں یہ عرض اعمال بالکل بر حق ہے، ہر بندہ کا اعمال نامہ اس کے حوالہ کردیا جانا اور اس میں ہر عمل کا ذکر ہونا بالکل بر حق ہے، اس اعمال نامہ کو پڑھ کر اپنے کئے ہوئے اعمال کو یا دکرکے کہنا کہ اس میں تو ہر چھوٹا بڑے عمل مذکور ہے بالکل بر حق ہے کہ حشر کے میدان میں ایسا ضرور ہوگا، یہ قرآن میں قطعی طور پر ثابت ہے اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں جب ہر شخص اپنا نامۂ اعمال پڑھ لے گا تب اس کا حساب شروع ہوگا،اور گواہیاں پیش کی جائیں گی۔تشریح
حساب و کتاب کا آغاز۔ نامۂ اعمال کی تقسیم کے بعد انہیں پڑھنے کا حکم ہوگا، جب ہر شحص اپنا اپنا نامۂ اعمال پڑھ لے گا اور دیکھ لے گا تب اس کا حساب شروع ہوگا، کراماً کاتبین کو بطور گواہ پیش کیا جائے گا، گواہیوں کا سلسلہ شروع ہوگا، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی امت کو بطور گواہ پیش کیا جائے گا، اعضائے انسان کی بھی گواہیاں ہوں گی، ہاتھ،پاؤں اور جسم کے جس حصہ کو اللہ تعالیٰ چاہیں گے قوتِ گویائی عطا فرما کر ان سے بطور اتمامِ حجت گواہیاں لیں گے۔
ہر شخص کے اعمال کے ریکارڈ کے ساتھ ان کے ثبوت کےلئے اس پر گواہیوں کا بھی انتظام ہوگا۔انسان جو کچھ عمل کرتا ہے اس پر اول تو خود اللہ رب العزت گواہ ہیں، اور اللہ سے بڑھ کر گواہی کس کی ہو سکتی۔ ساتھ ہی اللہ رب العزت نے بندوں پر اتمام حجت کےلئے مزید گواہیوں کا نظام بھی بنایا ہے، چنانچہ حشر کے میدان میں ہر فرد کے ساتھ اس کے تمام اعمال کا ایک گواہ بھی ہوگا ، جو اس کے اعمال نامہ میں موجود ریکارڈ کے بارے میں گواہی دے گا۔
قوموں کے جرائم پر انبیاء اور فرشتے بھی گواہ ہوں گے، اور ان کی گواہی کے بعد کافروں کو جب اپنے بدترین انجام کا یقین ہو جائے گا وہ بوکھلاہٹ میں ان تمام گواہیوں کا انکار کریں گے، اور کہیں گے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ اس وقت ایک ایسی گواہی پیش کریں گے کہ اس کے بعد ان کی کچھ نہیں چلے گی ۔
بندہ کوئی بھی کام اپنے اعضاء و جوارح سے انجام دیتا ہے، یہ اعضاء و جوارح بھی درحقیقت اللہ کے حکم کے تابع ہوتے ہیں، دنیا میں اللہ نے ہر شخص کے اعضاء و جوارح ہر شخص کے پابند بنائے ہیں لیکن یہ سب ہیں اللہ کی ملکیت، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس مرحلہ پر ان کافروں اور جھوٹوں کے منہ پر مہر لگادیں گے جس کے بعد وہ خود سے کچھ نہیں کہہ سکیں گے، اور ان کے اعضاء کو گویائی عطا فرمائیں گے، جس کے بعد ہر شخص کے اعضاء ہاتھ، پیر ، منہ یہاں تک کہ جِلد تک اس کے تمام اعمال کا کچا چٹھا اگلیں گے، اور اللہ تعالیٰ کے اہم گواہ بن کر سامنے آئیں گے۔ یہ صورت حال گناہگار کو بوکھلا دے گی، اور وہ سہمے ہوئے اعضاء سے شکایت کے طور کہیں گے کہ تم ہمارے ہی خلاف گواہی دے رہے ہو اور تمہیں گویائی کیسے مل گئی، اعضاء ان کو جواب دیں گے کہ آج ہمیں اس ہستی نے گویائی دی ہے جس نے تمام مخلوقات کو گویائی عطاء فرمائی ہے۔اس کے بعداس بات کی گنجائش نہیں ہوگی کہ بندہ اپنے کئے سے انکار کر سکے، اور اس پر حجت تمام کر دی جائے گی۔
اسی طرح اچھے اعمال پر بھی گواہی ہوگی، چنانچہ خود اللہ تعالیٰ ، فرشتے ، انبیاء اور انسان حتی کہ اعمال صالحہ نیکوکاروں کےلئے ان کے اچھے اعمال کے حق میں گواہی دیں گے، حتی کہ قرآن مجید بھی اس کی تلاوت کرنے والے کے حق میں گواہی دے گا۔
حشر کے میدان اعمال پر گواہیوں کا نظام ہوگا بالکل بر حق ہے، جس میں اللہ تعالیٰ انبیاء فرشتے اور ان کے جیسے انسان حتی کہ خود انسان کے اپنے اعضاء اعمال کے حق میں یا ان کے خلاف میں گواہی دیں گے یہ بالکل بر حق ہے۔ اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں اعمال کو تولا جائے گا۔
تشریح
وزنِ اعمال: قیامت کے دن حساب و کتاب کا طریقہ گننا نہیں ہوگا کہ نیکیوں اور برائیوں کو گنا جائے؟ بلکہ وزن کرکے یعنی ترازو میں نیکیوں اور برائیوں کو تول کرحساب ہوگا۔
قیامت کے دن وزنِ اعمال دو مرتبہ ہوگا، پہلی مرتبہ مومن و کافر کو الگ الگ کرنے کے لئے وزن ہوگا، اس وزن میں جس کے پاس صرف کلمہ طیبہ ہوگا اس کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا اور وہ مؤمنین میں شمار ہوگا، دوسری مرتبہ نیک و بد کو الگ الگ کرنے کے لئے صرف مسلمانوں کے اعمال کا وزن ہوگا، جس کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا وہ کامیاب قرار پائے گا اور جنت میں داخل ہوگا اور جس کا برائیوں کا پلڑا جھک جائے گا وہ ناکام ہوگااور جہنم میں داخل ہوگا۔
جس طرح انسان کے اعمال کمیت کے اعتبار سے جمع کئے جائیں گے، اسی طرح کیفیت کے اعتبار سے ان کا وزن بھی ہوگا، یعنی کس نے کتنے عمل کس نوع کے کئے تھے گن کر ان کو بھی پیش کیا جائے گا، اور ساتھ ہی کس عمل کی کیفیت کیا تھی ، وہ کتنا خالص تھا یا اس میں کتنا کھوٹ ملا ہوا تھا، کونسا عمل بھاری تھا اور کونسا عمل ہلکا تھا اس کو بھی جانچا جائے گا۔اس کےلئے حشر کے میدان میں میزان نصب کئے جائیں گے، اور اعمال کو تولا جائے گا، اور میزان میں اعمال ان کے خلوص کے لحاظ سے ان کے وزن کو ظاہر کرے گا۔ اسی طرح اعمال کی بذات خود نوعیت کے لحاظ سے بھی ان کا وزن بھاری یا ہلکا ہوا۔ مثلاً توحید اور کلمہ توحید کا اپنا وزن ہوگا، تسبیح و تحمید کا اپنا وزن ہوگااور بہت ہی ثقیل ہوگا، اعمال بدنی کا اپنا وزن ہوگا، صدقات کا اپنا وزن ہوگا۔ اسی طرح شرک کا اپنا وزن ہوگا، اور ایسے ہی دیگر برے اعمال کا معاملہ ہوگا۔
کسی شخص نے کسی شخص پر ظلم کیا ہوگا تو اس کو بھی تولا جائے گا، اور دوسرے شخص نے بدلہ میں پہلےکا جواب دیا ہوگا تو اس کو بھی تولا جائے گا، جس کے ظلم یا جواب کا پلڑا بھاری ہوگا اس کو بھی بدلہ ملے گا۔
حدیث مبارک میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر کسی کا غلام اپنے آقا کی نا فرمانی کرے اور اس کو تکلیف پہنچائے اور آقا اس کو نافرمانی اور تکلیف دہی کی سزا دیتا ہے اور وہ سزا اس کی نافرمانی کے بدلہ سے بڑھ جائے تو قیامت کے دن اس بڑھی ہوئی سزا کو بھی تول کر اس کا بدلہ غلام کو آقا سے دلایا جائے گا۔
اگر کسی شخص کا عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا اس کو بھی تولا جائے گا، بے حیثیت قرار دے کر اس کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
یہ میزان بندوں کے انجام کا فیصلہ کرے گا، جس کے اعمال کا وزن وہاں بھاری ہوگا وہ عیش کی زندگی کا مستحق بن جائے گا، اور جس کے اعمال کا وزن ہلکا ہوگا بس اس کا فیصلہ ہو جائے گا کہ وہ آگ میں پھینک دیا جائے۔
وزن اعمال بر حق ہے، قطعی نصوص قرآن و احادیث متواترہ سے ثابت ہے اس لئے اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
قیامت کے دن اعمال ہی کا وزن ہوگا یعنی قولی، فعلی، بدنی، مالی اور ہر قسم کے اعمال کو تولا جائے گا، وزن اعمال سے اعمال ناموں کو تولا جانا یا خود صاحبِ اعمال یعنی انسان کو تولا جانا مراد نہیں ہے۔
اعتراض : انسانی اعمال اعراض ہیں: ان کا کوئی حجم یا جسم نہیں ہے، جس چیز کا کوئی حجم یا جسم نہ ہو اُسے کیسے تولا جاسکتا ہے؟
جواب: اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ ایسا تراز بنانے پر بھی قادر ہے جس میں اعراض کو تولا جائے، جس میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تلاوت اور ذکر وغیرہ کو تولا جائے، جب اس نے کہ دیا کہ میں اعمال کا وزن کروں گا تو ایک مسلمان کے لئے ماننے کے سواء کوئی چارہ نہیں، دوسرے یہ کہ سائنسی ایجادات کے نتیجہ میں آج ایسے آلات موجود ہیں جن کے ذریعہ اعراض کو تولا جارہا ہے، مثلاً سردی، گرمی اور ہوا وغیرہ کو تولا جارہا ہے، اگر انسان اعراض تولنے کے آلات ایجاد کرسکتا ہے تو کیا احکم الحاکمین ایسے آلاد ایجاد نہیں کرسکتا جن سے نیکیوں اور بدیوں کو تولا جائے یقیناً کرسکتا ہے۔
ترازو پر ایما:۔ وزنِ اعمال کے لئے قائم کئے جانے والے اس ترازو کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اس پر اتنا اجمالی ایمان کافی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ وزن اعمال کے لئے ایک ترازو قائم فرمائیں گے جس کے دو پلڑے ہوں گے، ایک میں نیکیاں اور دوسرے میں برائیاں تولی جائیں گی، یہ بھی احتمال ہے کہ ایک ترازو ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ کئی سارے ترازو ہوں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں کسی پر کسی دوسرے کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔تشریح
آخرت کے فیصلہ کا سب سے اہم ضابطہ یہ ہوگا کہ کسی شخص کے عمل کی جزاء یا سزاء اسی کو دی جائے گی، ایسا نہیں ہوگا کہ کسی نے عمل کیا ہو اور دوسرے پر اس کا بوجھ ڈال دیا جائے، نہ یہ معاملہ غلطی سے ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اللہ کے علم کے منافی ہے، اور نہ ہی یہ ظلماً ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالم نہیں ہیں کہ کسی کی برائی کا بوجھ کسی دوسرے کے کاندھے پر ڈال دے، اور نہ ہی یہ چیز اختیاراً ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص درخواست کرے کہ فلاں شخص کی سزاء کو وہ اٹھائے گا، اول تو یہ صورت ہی خارج از تصور ہے، کیونکہ وہاں صرف نفسی نفسی کا حال ہوگا، دیگر اگر کوئی دنیا میں اس طرح کا دھوکا دیتا ہے تو اس کی بات ماننے والوں کی خام خیالی ہے کہ آخرت میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے، وہاں کوئی کسی کے بدلہ میں کوئی جزاء یا سزاء نہیں پائے گا، ہر شخص کو اپنے اعمال کا بدلہ خود اٹھانا ہوگا۔
ہاں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو گمراہ کرنے کا سبب بنا ہے تو وہ ان کی گمراہی کا بوجھ بھی اٹھائے گا ، اور یہ خود اس کی بدعملی کا بوجھ ہوگا۔
یہ اصول ایمان بالآخرۃ کا جزو لازم ہے اس لئے اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جو شخص اس دنیا میں اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ وہ آخرت میں اس کا بوجھ خود پر لے لے گا اور اس طرح اللہ اور اس کی شریعت کے احکام کی پا بجائی سے روکتا ہے یا شریعت کی پیروی کی اہمیت کو کم کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اس کے دعوی کی تصدیق خود کفر ہے، اس دن ایسے تمام دعوے کرنے والے اپنے پیروکاروں سے چھپتے پھریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدانِ محشر میں حساب و کتاب سے بچانے کےلئے نہ مال کام آئےگا اورنہ رشتہ داریاں ۔تشریح
قیامت کے دن انسان کو مال ،اولاد یا رشتہ داریاں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی وہاں تو اعمال ہی سب کچھ ہوں گے، اور کافر جن کے اعمال جنت میں لے جانے والے نہیں ہوں گے وہ مال دے کر نہیں چھوٹ سکیں گے، چنانچہ بالفرض اگر کسی شخص کے پاس پوری زمین کے وزن جتنا سونا ہو اور وہ اس دن بطور فدیہ دے کر چھوٹنا چاہے وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کسی شخص کے پاس پوری دنیا کی دولت ہو بلکہ اس سے دوگنا خزانہ اس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس کو دے کر عذاب قیامت سے بچنا چاہے تو بھی اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔(القرآن)۔
اسی طرح وہاں رشتہ داریاں اور دوستیاں بھی کام نہیں آئیں گی، باپ اپنے بیٹے کا بدلہ نہیں بن سکے گا، اور نہ بیٹا باپ کا بد لہ بن سکے گا، وہاں ہر انسان کے اپنے اعمال کام آئیں گے، جبکہ کافروں کےلئے صرف اور صرف جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے(القرآن)۔
اسی طرح اس دن انسان کی یہ خواہش بھی ہوگی کہ کسی اور کو ذبردستی فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑا سکتا ہو تو اس طرح نجات حاصل کرلے، خواہ وہ اس کی اولاد، یا بیوی، یا بھائی یا اس کا پورا کنبہ یا تمام دنیا والے ہی کیوں نہ ہوں، اگر ان سب کو کسی طرح فدیہ میں دے کر وہ اپنی جان چھڑا سکتا ہو تو وہ ضرور چھڑانا چاہے گا(القرآن)۔
اس بات پر ایمان لازم ہے کہ روز قیامت مال، رشتہ داریاں اور دوستیاں کام نہیں آئیں گی، جو شخص اپنے مال یا رشتہ داریوں اور نسبتوں کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے یا جو شخص اس کی دعوت دیتا ہے کہ وہاں رشتہ داریاں یا نسبتیں کام آئیں گی اس کی دعوت اور دعوی جھوٹا ہے ، ایسے دعوی کی تصدیق کرنا خود کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدانِ محشرمیں شفاعت کی مختلف قسمیں ہوں گی۔تشریح
پہلی شفاعت:سب سے پہلی شفاعت شفاعتِ کبریٰ ہے، جو نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ محشر کی سختی میں تخفیف اور حساب و کتاب شروع کروانے کے لئے فرمائیں گے۔
دوسری شفاعت:حساب و کتاب میں سہولت اور آسانی کے لئے ہوگی کہ ان لوگوں کے حساب وکتاب میں سہولت اور آسانی کا معاملہ کیا جائے۔
تیسری شفاعت:بعض اہل ایمان کے جنت میں درجات بلند کرنے کے لئے ہوگی کہ جو درجہ اس مومن کو عطا ہوا ہے اس سے اونچا درجہ عطا فرمادیا جائے۔
چوتھی شفاعت:ان گنہگاروں کے لئے ہوگی جن کے لئے عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہوگا کہ ان کی خطاء معاف فرمادی جائے اور انہیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے۔
پانچویں شفاعت:ان گنہگاروں کے لئے ہوگی جو جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے اور یہ شفاعت انہیں جہنم سے باہر نکالنے کے لئے ہوگی۔
چھٹی شفاعت:ان لوگوں کے حق میں ہوگی جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، یعنی اصحابِ اعراف کے بارے میں کہ ان کو اعراف سے نکال کر جنت میں داخل فرمادیا جائے۔
ساتویں شفاعت:بعض لوگوں کو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل کروانے کے لئے ہوگی، چنانچہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ اس شفاعت کے نتیجہ میں بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔
آٹھویں شفاعت:مستحقینِ عذاب کے عذاب میں تخفیف کے لئے ہوگی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں بعض لوگوں کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔تشریح
شفاعت کے اہل: شفاعت صرف وہی لوگ کریں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت ہوگی، بلا اجازت کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا، شفاعت کی اجازت انبیاء، علماء، شہداء، اولیاء، حفاظ صلحاء اور فرشتوں کو ہوگی، قرآن اور روزہ بھی سفارش کریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
شفاعت صرف اہل ِایمان کے لئے ہوگی۔تشریح
شفاعت صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کیونکہ اہل ایمان ہی قابلِ معافی و مغفرت ہیں، کافروں، مشرکوں اور ان لوگوں کے لئے جن کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوگا، خلاصئ جہنم کی کوئی شفاعت نہیں ہوگی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کافروں اور مشرکوں کا کوئی شفیع نہیں ہوگا، اور نہ ان کی شفاعت کی اللہ تعالیٰ کسی کو اجازت دیں گے۔تشریح
حساب کتاب کے دن شفاعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ :شفاعت کا اصل مالک صرف اللہ ہے ۔اس لئے حساب کے دوران کوئی بھی ہستی کسی کی بھی شفاعت خود سے نہیں کر سکتی، یہاں تک کہ خود اللہ کی جانب سے شفاعت کی اجازت دی جائے ۔
اسی طرح ہر کسی کےلئے شفاعت کی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ کسی خاص شخص یا گروہ کو کسی خاص فرد یا گروہ کے لئے متعین طور پر شفاعت کی اجازت ملے گی،اور وہ بس انہیں کےلئے شفاعت کر سکیں گے۔ چنانچہ کفارومشرکین اور آخرت کا انکار کرنے والوں اور اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کےلئے کسی کو شفاعت کی اجازت نہیں ہوگی، اور ان کو کسی کی شفاعت فائدہ بھی نہیں پہنچائے گی۔
چنانچہ کفار مشرکین اور منافقین کے علاوہ مؤمنین میں سے اہل کبائر کےلئے شفاعت کی ایک خاص موقع پر اجازت دی جائے گی، جس کا ذکر آگے مستقل آرہا ہے۔
شفاعت کا یہ قانون قرآن میں قطعی طور پر ثابت ہے کہ ہر کوئی ہر کسی کےلئے شفاعت کا حق نہیں ہو گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خاص کسی کو خاص کسی کی شفاعت کی اجازت دے، اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔جو شخص اس دنیا میں اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ وہ آخرت میں اس کا شافع ہوگا، اور اس طرح اللہ اور اس کی شریعت کے احکام کی پا بجائی سے روکتا ہے یا شریعت کی پیروی کی اہمیت کو کم کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اس کے دعوی کی تصدیق خود کفر ہے، اس دن ایسے تمام دعوے کرنے والے اپنے پیروکاروں سے چھپتے پھریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
معبودوں کے لحاظ سے اہلِ محشر کی زمرہ بندی کی جائے گی۔تشریح
حساب کتاب کی تکمیل کے بعد اہل جنت کو جنت میں بھیجنے کےلئے اور اہل جہنم کو جہنم میں جھونکنے کےلئے فرشتے ندا لگائیں گے کہ ہر کوئی ان معبودوں کے پیچھے آجائے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے۔اور اس وقت تمام معبودوں کی شبیہ وہاں مہیا کردی جائے گی، مثلاً اصنام، سورج، چاند، پتھر، درخت، فرعون نمرود وغیرہ حتی کے جو لوگ جو نیکوکاروں کو ان کی مرضی کے بغیر پوجتے تھے فرشتوں کے ذریعہ ان کی شبیہ بھی بنا کر ان کے سامنے کردی جائے گی۔ان سارے معبودوں کو جہنم کی جانب ہانکا جائے گا اور سب ایک کے بعد ایک جہنم رسید ہوں گے اور ان کے پیچھے ان کی عبادت کرنے والے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔
اخیر میں اہل کتاب میں سے مشرکین اور ہر دور کے تمام مؤمن و مسلم باقی رہ جائیں گے، یہودیوں کو آواز دی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا وہ کس کی پرستش کرتے تھے، وہ کہیں گے کہ وہ اللہ کے بیٹے عزیر کی پرستش کرتے تھے، ان سے کہا جائے گا۔ تم جھوٹے ہو نہ اللہ کی کوئی بیوی ہے نہ کوئی بیٹا ہے۔ پھر ان سے سوال ہوگا تمہیں کیا چاہئے؟ وہ کہیں گے :ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی چاہئے، انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ چلو آؤ، اور انہیں ہانک کر جہنم کی جانب لے جایا جائے گا، جہنم انہیں سراب کی شکل میں پانی نظر آئے گا، اور وہ اس کے قریب جا کر اس میں گریں گے۔
پھر نصاری کوبلایا جائے گا، ان سے کہا جائے گا : تم کس کی پرستش کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کی پرستش کرتے تھے، ان سے کہا جائے گا تم جھوٹے ہو اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے نہ کوئی بیٹا ہے۔ پھر ان سے بھی پوچھا جائے گا تمہیں کیا چاہئے، وہ بھی کہیں گے ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی چاہئے، انہیں بھی اشارہ کیا جائے گا کہ چلوآؤ، اور انہیں ہانک کر جہنم کی جانب لے جایا جائے گا، جہنم انہیں سراب کی شکل میں پانی نظر آئے گا، اور وہ اس کے قریب جا کر اس میں گریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مشرکین سے ان کے شرکاء کے بارے میں سوال ہوگا کہ وہ کہاں گم ہیں۔تشریح
معبودوں اورشرکاء سے سوال: انبیاء ورسولوں نے نبوت و رسالت کی ذمہ داری صحیح انجام دی تھی اور قوموں تک اللہ کے پیغام کو صحیح صحیح پہنچا دیا تھا اس کی شہادت ہو جانے کے بعد قوموں سے براہ راست ان کے اعمال کا حساب شروع ہوگا ، ہر قوم کا حساب ان کے نبی کے سامنے ہوگا، عرض اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ مشرکین سے سوال کریں گے کہ تمہارے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک کیا کرتے تھے، مشرکین پہلے تو اس بات سے ہی انکار کردیں گے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بھی کرتے تھے، اور شرک کے ذریعہ دنیا میں اللہ پر جو بہتان انہوں نے باندھا تھا اس کے بارے میں ایسے ظاہر کریں گے جیسے ان سے ایسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ، حالانکہ آگے تمام شہادتیں ثابت کردیں گی کہ وہ مشرک تھے اور اس طرح وہ خود اپنے خلاف گواہی دینے والے بن جائیں گے۔اور پھر وہ یہ بھی کہیں گے کہ وہ شرکاء جنہیں وہ اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے وہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں، کہیں گم ہو گئے ہیں (القرآن)۔
اللہ تعالی پھر ان شرکاء کو بھی وہاں مشرکین کے ساتھ جمع کردیں گے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے ،مشرکین ان کے بارے میں کہیں گے کہ ہاں انہیں کی وہ پرستش کرتے تھے، اور خود ان شرکاء کا حال یہ ہوگا کہ وہ مشرکین کو جھٹلائیں گے ، کہ ان کے شرک کے گناہ میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا ، اور ان سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہیں گے(القرآن)۔
اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرشتوں سے بھی سوال کریں گے کہ مشرکین ان کی بھی پرستش کرتے تھے تو کیا خود فرشتوں نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا، فرشتوں فوراً اپنی صفائی دیں گے کہ انہوں نے مشرکین کو ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی، اور جنوں پر بات ڈال دیں گے کہ مشرکین تو جنوں کی پرستش کرتے تھے۔ جبکہ جن بھی مشرکین سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہیں گے(القرآن)۔
ایسا ہی سوال حضرت عیسی سے بھی ہوگا کہ کیا انہوں نے ان کی قوم سے کہا تھا کہ ان کی اور ان ماں کی پرستش کی جائے ، حضرت عیسی گڑگڑاکر عرض کریں گے، ائے اللہ ! میں ایسی کوئی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق ہی نہیں ہے، اگر میں ایسی کوئی بات کہتا تو آپ کو وہ ضرور معلوم ہوتی، آپ تو غیب کی بات جاننے والے ہیں۔ میں نے انہیں اسی بات کا تعلیم دی جس کا آپ نے حکم فرمایا تھا، کہ صرف اللہ کی پرستش کریں جو میرا اور تمہارا دونوں کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج صرف سچوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے، اور انہیں کےلئے نجات ہے(القرآن)۔
اس پورے عمل میں دو باتیں ہوں گی ایک مشرکین پر ان کے شرکاء کی حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ان کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے، اور ان کے شرکاء خود ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں، بلکہ اس بات پر تو وہ ان کے دشمن بن گئے ہیں، دوسرے یہ کہ شرک جیسا بدترین جرم ان پر اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ پہلے تو وہ اس سے انکار کرتے رہے تھے اور پھر ان کے معبودوں کو پھنسانے کے چکر میں اس کا اقرار بھی کرلیا کہ وہ ان کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے ۔
میدان حشر میں شرکاء و مشرکین سے سوال ہونا بر حق ہے، یہ بھی بر حق ہے کہ یہ سوال تمام شرکاء حتی کہ جنوں، فرشتوں اور حضرت عیسی علیہ السلام سے تک ہوگا۔ یہ بھی بر حق ہے کہ شرکاء مشرکین کے عمل سے اپنی برأت کو ظاہر کریں گے اور گڑگڑائیں گے کہ یہ ظلم خود مشرکین کا ہے اس میں ان شرکاء کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہاں جو شرکاء جو خود مشرکین کی گمراہی کا باعث بنے ہوں گے ان کی حالت خراب ہوگی ۔ یہ تمام امور قرآن میں قطعی طور پر ثابت ہیں ان پر ایمان فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کافرو ں کے نیک اعمال آخرت میں ان کو جہنم سے نہیں بچا سکیں گے۔تشریح
کافروں کے اچھے اعمال : ایمان کے بغیر کافروں کے دیگر اچھے اعمال ان کو جہنم سے نہ بچا سکیں گے، کیونکہ آخرت میں کامیابی کا پہلا معیار کفر سے بچنا اور ایمان والا ہونا ہے۔وہ کافر جو آخرت کو مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی کفر کے بھی مرتکب تھے انہیں ان کے نیک اعمال سراب کی مانند نظر آئیں گے ، وہ اسی سراب کے پیچھے چل پڑیں گے جب کہ وہ جہنم ہوگی۔ جبکہ وہ کافر جنہیں آخرت پر ایمان ہی نہیں تھا انہیں کم از کم خوش گمانی میں مبتلا کرنےو الا ایسا سراب بھی دکھائی نہیں دے گا، وہ سخت تاریکی میں ہوں گے اور ان کا انجام جہنم کا سخت ترین عذاب ہوگا۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ اللہ ظالم نہیں ہے، اس لئے تمام کفار اور مشرکین کفر و شرک کے بنیادی عذاب میں تو برابر ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ جس شخص کا برا عمل جتنا زیادہ ہوگا اسی کے مطابق اس کے عذاب میں سختی بڑھی ہوئی ہوگی۔ظاہر ہے انبیاء کے مقابلہ میں کھڑے ہونے والے سرکش اور مترفین و متکبرین، نمرود، فرعون، ہامان، ابو جہل ،ابو لہب اور ولید بن مغیرہ کا انجام عام کفار و مشرکین کے مقابلہ میں ان کی سرکشی اور بد اعمالیوں کے مطابق سخت سے سخت ترین اور بھیانک ہوگا ۔
ایمان کے بغیر دیگر نیکیاں اور اچھے اعمال آخرت میں جہنم سے خلاصی کا ذریعہ نہیں بنیں گے (جزاء اعمال کا )یہ قاعدہ اور یہ حقائق نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں ان پر ایمان لازم ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں کافر اپنے انجام کو دیکھتے ہوئے آپس میں جھگڑے کریں گے کہ انہیں کی وجہ سے وہ اس انجام کو پہنچے ہیں۔تشریح
میدان حشر میں کافروں اور مجرموں کے جھگڑے: میدان حشر میں جب کافروں اور مجرموں کو اپنے بدترین انجام کا حال دکھائی دیگا، وہاں وہ اپنی بدکاریوں پر افسوس کرتے ہوں گے اور شدید حسرت کا شکار ہوں گے، اور وہ لوگ جن کی وجہ سے وہ گمراہی کا شکار ہوئے تھے یا جن کے نام پر گمراہی کا شکار ہوئے تھے ان سے جھگڑنے لگیں گے، اور وہ لوگ جو بڑے مجرموں کے پیروکار تھے ان سے لڑیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان والے ہوتے، آج تو ہمیں آگ سے بچا لو، جبکہ وہ لوگ جن کی پیروی کی جاتی تھی جواب میں کہیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں حق قبول کرنے سے ذبردستی روکا تھا، سچ یہ ہے کہ تم بھی برابر کے مجرم ہو۔پیروکار جواب میں کہیں گے ہاں تمہاری دن و رات کی سازش یہی تھی کہ ہمیں اللہ کی آیات کے انکار کا حکم دیتے تھے، لیکن ان جھگڑوں سے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا، انہیں پا بہ زنجیر کرکے ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر ان کے انجام کےلئے ہانکا جائے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان حشر میں شیطان کے پیروکار شیطان سے جھگڑے کریں گے کہ اس نے انہیں بہکا کر اس انجام کو پہنچایا ہے۔تشریح
شیطان اور اس کے پیروکاروں کے جھگڑے: جب آخری فیصلہ ہو چکے گا تو ہر مجرم شیطان کو کوسے گا جو اس کو بہکانے کا سبب بنا تھا، اور باری تعالیٰ سے درخواست کرے گا کہ اس کے بہکانے والے کو شدید عذاب دیا جائے، جبکہ شیطان کہے گا :پروردگار !میں نے اس پر سرکشی کی راہ اختیار کرنے کےلئے کوئی ذبردستی نہیں کی تھی بلکہ وہ خود گمراہی میں جا پڑا تھا۔ باری تعالی ٰ فرمائیں گے: یہاں اب مت جھگڑو ،تمہیں اس دن کے بارے میں پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا۔ نہ اس دن جزاء و سزاء کے بارے میں میرا قول بدل سکتا ہے اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں۔ یعنی جس کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ بالکل حق بجانب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
شیطان اعتراف کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا جبکہ خود شیطان نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہوا؛ کیونکہ اس کے وعدے اور دلائی گئی تمنائیں سب جھوٹے تھے۔تشریح
شیطان کا اعتراف: اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں مکلفین کے سامنے ہر طرح کھول کھول کر شیطان کی دشمنی کو بیان کیا ہے، لیکن لوگ شیطان کو اپنا دوست بناتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں، شیطان انسان سے جھوٹے وعدے کرتا ہے اور جھوٹی تمنائیں دلاتا ہے لیکن لوگ باوجود تنبیہ کردئیے جانے کے اس کے بہکاوے کا شکار ہوتے ہیں ، جبکہ شیطان کی دعوت حقیقت میں جہنم کےلئے اور وہ اپنے بہکاوے میں آنے والوں کو جہنم کی جانب لے جا رہا ہے۔
کل قیامت کے دن جب سب فیصلے ہو جائیں گے شیطان کہے گا، کچھ وعدےتو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تم سے کئے تھے (قیامت کا، حساب و کتاب کا جنت و جہنم کا)، اور کچھ وعدے وہ ہیں جو میں نے تم سے کیا تھے (تمنائیں اور خوش گمانیاں)، اللہ نے جو وعدے کئے اس نے وہ سب پورے کردئیے ہیں لیکن میں نے اپنے وعدہ کو پورا نہیں کیا، کیونکہ وہ جھوٹا وعدہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا، میں نے تو صرف تمہیں برائی کی دعوت دی تھی، اور تم نے خود اس کو قبول کیا، اس لئے آج تم مجھ پر کوئی ملامت مت کرو، بلکہ تم خود ملامت کے لائق ہو تم خود پر ملامت کرو، نہ میں تمہارا مدد گار ہوں اور نہ تم میرے مدد گار ہو، تم جو شرک اس سے پہلے کرتے تھے میں خود اس سے بیزار ہوں۔
یقیناًظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔حشر کے میدان میں یہ واقعہ پیش آنا یقینی ہے کیونکہ یہ اللہ کے علم سے بیان کیا گیا ہے، اس پر ایمان لانا لازمی ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان حشر میں فیصلوں کے بعد کافر اللہ تعالیٰ سے فریادیں کریں گے لیکن تب ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوگی۔تشریح
کافروں کی فریاد: جب مجرمین کے سامنے عذاب کے آثار ظاہر ہوجا ئیں گے اور ان کے جہنم رسید کئے جانے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا وہ اللہ سے فریادیں کریں گے ، ائے اللہ ہمیں ایک موقع دیجئے ہم فرماں بردار بن کر دکھا دیں گے، لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تمہارے سامنے بار بار حق کی باتیں اور یاد دہانی آتی رہی ہیں تم نے پہلے کونسی اصلاح کی ہے جو اب کروگے اور جس طرح تم نے اس دن ملاقات کو بالکل بھلا دیا تھا آج تمہیں بھی ایسے ہی بھلا دیا جائے گا، اوران کے چہرے تاریک ہو جائیں گے اور وہ سب جہنم رسید ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ مجرمین کہیں گے کہ اگر انہیں ایک موقع دیا جائے تو وہ فرماں بردار ی کی راہ اختیار کریں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر انہیں دوبارہ موقع دیا جائے تب بھی یہ اسی نا فرمانی کی راہ کو اختیار کریں گے، یہ مجرمین جھوٹے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مؤمن نیکوکاروں اور متقین کا حساب آسان ہوگا، جبکہ کفار اور بدکاروں کے ساتھ مناقشہ ہوگا، اور ان کے ساتھ طویل جرح ہوگی۔تشریح
حساب ِیسیر اور مناقشہ: روزِ محشر بندوں کے اعمال کا حساب دو طرح کا ہوگا: ایک یہ کہ نافرمانوں اور مجرموں اور سرکشوں کے حساب کتاب میں اس کے ہر عمل ہر عمل پر روک ٹوک ہوگی، بڑے اعمال کے ساتھ ہی چھوٹے سے چھوٹے عمل کے بارے میں بھی سوال اور نقد و جرح ہوگی، ان کے ساتھ کسی قسم کی ڈھیل کا معاملہ نہیں کیا جائے گا، اسی کو ’’مناقشہ‘‘ کہتے ہیں۔ اور جس کے ساتھ ایسا ہو جائے بس اس کے لئے عذاب یقینی ہے۔
جبکہ روز قیامت مؤمنوں اور نیکواروں کا بھی حساب ہوگا البتہ نیک مؤمنوں کا حساب ہلکا ہوگا، بلکہ یہ ایک طرح کی صرف پیشی ہوگی، اور اس کے اعمال کے ریکارڈ کو سرسری طور پر دیکھ کر اس سے درگذر کیا جائے گا ، اور تیزی کے ساتھ ان کا حساب نپٹا دیا جائے گا، ۔چنانچہ نبی ﷺنمازوں میں ہلکے حساب کےلئے دعامانگا کرتے تھے، فرماتے:أللّٰهم حاسِبْنِي حِساباً يَسِيراً ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں کامیاب لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے اور نا کام لوگوں کے چہرے تاریک ہوں گے۔تشریح
روشن اور تاریک چہرے: جن کو کامیابی اور نجات کا پروانہ مل جائے گا ان کے چہرے تر و تازہ اور چمکتے ہوئے ہوں گے،ان پر خوشی کی کیفیت طاری ہوگی، وہ ہنستے ہوں گے، اور ایک دوسرے کو خوشخبریاں اور مبارک بادی دے رہے ہوں گے، یہ مؤمنین اور صالحین ہوں گے ۔جبکہ دوسرا گروہ وہ ہوگا جن کے چہرے غبار آلو ہوں ہوگے، ان پر تاریکی چھائی ہوئی ہوگی، یہ کافر و فاجر ہوں گے۔
حشر کے میدان میں اچھے اعمال والوں کا بالآخر خوش ہونا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دینا اور فاسقوں فاجروں کا پریشان حال ہونا بالکل بر حق ہے ، اس حقیقت پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
برائیوں کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی برائی کی گئی ہوگی، جبکہ نیکیوں کا بدلہ بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا۔تشریح
نیکیوں اور برائیوں کی جزاء میں فرق: جزاء اعمال کا ایک اہم ضابطہ یہ ہوگا کہ جس انسان نے جیسا عمل کیا ہوگا اس سے وہی عمل منسوب ہوگا، اور جتنی برائی کی ہوگی اس برائی کےمثل ہی مقررہ سزاء اس کےلئے مقدر ہوگی، اس پر کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ہاں نیکی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو اختیار ہوگا کہ اس کا بدلہ وہ جتنا چاہے بڑھا کر دے، چنانچہ بہت سے نیک اعمال ایسے ہوں گے جن کا بدلہ دس گنا اور بہت سے اعمال کا ستر گنا بڑھا کر دیا جائے گا، بلکہ بعض اعمال ایسے ہوں گے جن کا بدلہ سات سو گنا یا بے حساب دیا جائے گا۔
نیکیوں اور برائیوں کی جزاء کے بارے میں یہ قانون قرآن میں قطعی طور پر ثابت ہے اس لئے اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حشر کے میدان سے کوئی مکلف اس وقت تک نہیں ٹل سکے گا جب تک کہ اس سے یہ سوال نہیں ہو جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کہاں کھپائی، جوانی کہاں ملوث کی، مال کیا کمایا، اور کہاں خرچ کیا، اور اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔تشریح
حشر کے میدان کے سوالات: قیامت کے دن انسان کے شعور اور بلوغ کے ہر پل کا حساب لیا جائے گا، اور کچھ وہ کرتے رہے ہیں سب سے ان کے اعمال کا حساب ہوگا اور اس سے ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا، دنیا میں انسان خود کے بارے میں بڑی غلط فہمیوں میں مبتلا ہے، وہ ہمیشہ سوچتا ہے کہ اس کو کچھ نہیں ملا ہے، اور اللہ کی بڑی بڑی نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے، اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ایک موقعہ پر جبکہ آپ اور آپ کے اصحاب سخت بھوکے تھے کچھ کھجور اور ٹھنڈے پانی کے میسر ہونے پر فرمایا کہ اس نعمت کے بارے میں بھی قیامت کے دن سوال ہوگا، ایک صحابی نے فرمایا : یا رسول اللہ اس کھجور کے بارے میں جس سے ہم اپنا نصف پیٹ بھی نہیں بھر سکے، اور اس پانی کے بارے میں سوال ہوگا؟ آپ نے فرمایا ہاں اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔
حدیث کے مطابق اگر انسان کو ایک کپڑے کا تکڑا جس سے وہ اپنی ستر چھپا سکے، پیٹ بھرنے کےلئے جو کچھ بھی کھانے اور پینے کو میسر ہوجائے، اور سر چھپانے کےلئے کوئی سوراخ یا غار مل جائے تو بھی وہ زندہ رہ سکتا تھا اور اس کے لئے کافی تھا۔ لیکن مفلس ترین انسان کو بھی اس دنیا میں جو کچھ اسباب عیش اللہ نے دئیے ہیں وہ بلاشبہ عظیم ترین نعمتیں ہیں جن کا انسان شمار نہیں کر سکتا۔
جب آیت لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ نازل ہوئی تو صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ کس نعمت کے بارے میں سوال ہوگا، کیا صرف اس کھجور اور پانی کے بارے میں سوال ہوگا جو اس وقت ہماری کل غذا ہے، جبکہ بے امنی کا یہ عالم ہے کہ دشمن ہمارے سر پر ہیں اور تلواریں ہماری گردنوں پر ہیں، آپ نے فرمایا: ہاں سوال تو یقیناً ہوگا، اور قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جو سوال ہوگا وہ یہ ہے کہ کیا ہم نے تمہیں صحت مند نہیں بنایا تھا؟ کیا ہم نے تمہیں سیراب کرنے کےلئے پانی جیسی نعمت نہیں دی تھی۔
حدیث پاک کے مطابق صحت اور فراغت ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں انسان نا قدری میں مبتلا رہتا ہے۔ اول تو ان کو نعمت ہی نہیں سمجھتا ، دوسرے جب یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور صحت مندی اور فراغت کی حالت میں آخرت کی تیاری نہیں کرتا ہے، جبکہ آخرت میں اس سے وقت اور صحت دونوں کے بارے میں سوال ہوگا۔
دیکھنے سننے اور سمجھنے کی نعمت کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ کہ ان نعمتوں پر شکر ادا کیا یا نہیں ؟ اور ان نعمتوں کا خود اللہ کے احکام کی تعمیل میں کیا استعمال کیا؟ (القرآن)۔
حدیث کے مطابق دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کومال کے علاوہ جاہ و عزت کے بارے میں بھی سوال کرے گا۔ اور بنیادی جاہ ہر انسان کو میسر ہے، ہر شخص کو اللہ نے خاندان، بیوی بچے دئیے ہیں، جن پر اس کی حکومت چلتی ہے، جس کو جس درجہ جاہ ملے گا اس سے اسی درجہ کا سوال ہوگا۔
قیامت کے دن انسان کے قدم حش رکے میدان سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہیں ہو جائے گا، (۱) اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں اس کو کھپایا ہے، زندگی کے لمحات کن کاموں میں گذرے ہیں (۲) جوانی کہاں کھپائی، شرمگاہ کی حفاظت کی یا نہیں؟ (۳) جو کچھ مال اس نے کمایا کیسے کمایا؟ حلال و حرام کا خیال رکھا یا نہیں(۴) اور جو مال اس نے کمایا تھا اس کو کہاں خرچ کیا؟ یعنی حرام جگہ تو خرچ نہیں کیا ، فضول خرچی تو نہیں کی، کنجوسی کرکے مال جمع کر کرکے تو نہیں رکھا (۵) اور جو عمل حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جس میں زندگی کا ہر پہلو شامل ہوگیا ہے جب تک انسان ان کا جواب نہیں دے گا حشر کے میدان سے وہ چھوٹے گا نہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں نیکوکار دائیں جانب کئے جائیں گے۔ اور بدکار بائیں جانب کئے جائیں گے اور مقربین عرش کے سائے میں ہوں گے۔تشریح
اہل محشر کی اعمال کے لحاظ سے گروہ بندی ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمام اہل محشر کی ان کے اعمال یا جرائم کے لحاظ سے گروہ بندی ہوگی، مؤمنین کو اور مجرمین کو الگ الگ کر دیا جائے گا ، مجرمین کو سختی سے کہا جائے گا : اے مجرمو تم علیحدہ ہوجاؤ(القرآن)۔
حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ جب اٹھایا جائے گا اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے تمام اہل محشر میں سے جہنمیوں کو الگ کردو، حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے پوچھیں گے: ائے پروردگار! کتنے الگ کروں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ہر ہزار میں سے نو سو ننیانوے لوگوں کو جہنم کے لئے الگ کرلو۔
یہی وہ حکم ہے جس کے بارے میں اللہ نےفرمایا کہ جس کو سن کر اہل محشر کی یہ حالت ہوگی اور اس حکم اور خبر کا اہل محشر پر ایسے اثر پڑے گا جیسے کوئی بچہ بھی اس کو سنتا تو بوڑھا ہو جاتا(القرآن)۔
پھر مجرمین کی ان کے جرائم کے لحاظ سے گروہ بندی ہوگی، اس دن ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم نافرمانوں اور مجرمین کا حق کی مخالفت میں ایک دوسرے سے بڑا گٹھ جوڑ تھا آج ایک دوسرے کو اپنی مدد کےلئے کیوں آمادہ نہیں کرتے، یہ ان سے اس لئے کہا جائے گا کیوں کہ وہ حق کے مقابلہ میں دنیا میں کہا کرتے تھے کہ وہ ایک جان ہیں اور ان پر کوئی بھی بپتا پڑے گی تو وہ ایک دوسری کی مدد کریں گے(القرآن)۔
روز محشر تمام اہل ارض کے بنیادی طور پر تین گروہ کئے جائیں گے ، ایک وہ جو عرش کے دائیں جانب جمع کئے جائیں گے، انہیں ’’اصحاب المیمنۃ اور اصحاب الیمین‘‘ کہا جاتا ہے، اہل جنت کی اکثریت انہیں کی ہوگی۔ دوسرے وہ جو عرش کے بائیں جانب جمع کئے جائیں گے، انہیں ’’اصحاب المشئمۃ اور اصحاب الشمال‘‘ کہاجاتا ہے،یہ سب جہنمی ہوں گے۔ تیسرا گروہ عرش کے بالکل سامنے کا ہوگا، یہ ’’المقربین‘‘ کہلاتے ہیں، یہ انبیاء کا گروہ ہوگا، انہیں میں وہ بھی ہوں جو ’’السابقون ‘‘ کہلاتے ہیں۔
میدان حشر میں اعمال کے لحاظ سے اہل محشر کی گروہ بندی بر حق ہے، مؤمنین کو الگ اور مجرمین کو الگ کردیا جانا بر حق ہے، اور یہ بھی بر حق ہے کہ الگ الگ نوع کے گناہوں کے مرتکبین کو الگ الگ کردیا جائے گا، مؤمنین میں بھی گروہ ہوں گے، حق کے لئے بہت زیادہ پہل کرنے والوں کو خاص مقام حاصل ہوگا، اور عام نیکوکاروں کی بھی اچھی حالت میں زمرہ بندی ہوگی، یہ سب امور قرآن و حدیث سے قطعی طور پر ثابت ہیں ان پر ایمان لازم ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مقربین اور اصحابِ ِیمین میدان حشر میں راحت میں ہوں گے۔تشریح
میدان حشر میں مقربین اور اصحاب الیمین کافروں اور فاسقوں کے مقابلہ میں راحت میں ہوں گے، جنت ان سے قریب کردی جائے گی، اور ان کے چہروں پر تازگی ہوگی۔
وہ حشر کے میدان میں جہنم سے دور ہوں گے، اور وہ میدان حشر کی سختیوں سے بھی دور ہوں گے، اور بہت سے نیکوکار ایسے ہوں گے جنہیں اللہ رب العزت کے عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی جس دن عرش کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : میدان حشر میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کےلئے کپڑے لائے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ، حضرت ابراہیم جب کپڑے پہن لیں گے وہ عرش کی سمت بیٹھ جائیں گے۔ پھر میرے لئے کپڑے لائے جائیں گے، میں ان ک وپہننے کے بعد حضرت ابراہیم کے داہنی جانب ایسی جگہ بیٹھوں گا جہاں میرے علاوہ کوئی نہیں بیٹھ سکتا ، وہ ایسی جگہ ہوگی جس پر اولین و آخرین سب رشک کریں گے۔
مؤمنین حتی کہ انبیاء بھی حشر کےمیدان میں حساب کتاب کی سختیوں سے کسی درجہ متأثر ہوں گے یہ بر حق ہے، انبیاء کا کم ازکم درجہ کا تأثر یہ ہوگا کہ ان پر انفعالی کیفیت طاری ہوگی کہ کہیں ہم سے بھی سوال نہ ہو جائے۔ مؤمنین میں سے فاسق و فاجر جو اعمال سئیہ میں مبتلا تھے وہ بھی حشر کے میدان کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے، البتہ مؤمنین صالحین حشر کے میدان کی عمومی سخت کیفیت سے متأثر ہو نے کے باوجود امن میں ہوں گے، خوف و حزن سے دور ہوں گے، فرشتے بھی ان کو تسلی دے رہے ہوں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ امور نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں ان پر ایمان لازم ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔
اور انبیاء میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم کو کپڑے پہنایا جانا اور پھر نبی ﷺ کو کپڑے پہنایا جانا اور آپ ﷺ کو حشر کے میدان میں ایک خاص مقام کا حاصل ہونا جو نہ صرف عوام بلکہ خواص و اخص الخواص کےلئے بھی رشک کا مقام ہوگا احادیث سے ثابت امر ہے جس پر ایمان ضروری ہے اور اس کا انکار سخت گناہ کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کے دن دیگر جانداروں اور جانوروں کے ظلم کا بھی فیصلہ ہوگا، اور پھر انہیں موت دے دی جائے گی۔تشریح
دیگر مخلوقات کا حشر: انسانوں جنوں اور فرشتوں کے علاوہ تمام جاندار بھی حشر کے میدان میں جمع کئے جائیں گے، چنانچہ جب فیصلہ کا وقت آئے گا تو ان کا بھی انصاف ہوگا، یہاں تک کہ اگر کوئی بغیر سینگھ والی بکری پر کسی سینگھ والی بکری نے زیادتی کی ہوگی تو اس کا بھی انصاف کیا جائے گا ، البتہ جب ان جانداروں کو انصاف مل چکے گا تو ان کو مٹی بنا دیا جائے گا، اور اسی وقت کافر خواہش کرے گا کہ کاش کہ اسے بھی مٹی بنا دیا جاتا، لیکن اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہوگی۔
اس بارے میں احادیث مشہور درجہ کی ہیں جن پر ایمان واجب ہے اور ان کا انکار سخت گناہ کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان محشر میں جہنم کو کھینچ کر لایا جائے گا۔تشریح
احادیث میں آیا ہے کہ جہنم کو کھینچ کر عرش کے بائیں جانب لایا جائے گا ،جہنم سخت غضب ناک ہوگی اور اس سے سخت آوازیں آتی ہوں گی۔ اس دن جہنم کو ستر ہزار لگامیں لگی ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اس کو کھینچ رہے ہوں گے، گویا جہنم کو کھینچ کر لانے والے ان فرشتوں کی تعداد ۴ ارب نود کروڑ فرشتوں کی ہوگی۔
اس منظر کو دیکھ کر اہل محشر کا حال یہ ہوگا کہ وہ اس دن اس سے عبرت و نصیحت حاصل کریں گے، لیکن وہاں نصیحت حاصل کرنے کا کیا فائدہ ، وہاں کافر و بدکار کہیں گے کاش کہ وہ اس زندگی کے لئے کوئی تیاری کئے ہوتے(القرآن)۔
جہنم کو کھینچ کا لایا جانا قطعی طور پر ثابت ہے ، اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح احادیث سے ثابت مذکورہ بالا امور پر بھی ایمان واجب ہے اور ان کا انکار سخت گناہ کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کے اوپر ایک پل ہوگا،سب کو اس پر چلنے کا حکم دیاجائے گا ۔جس کو پل صراط کہاجاتا ہے۔تشریح
پل صراط: ایک حقیقی پل ہے جو باقاعدہ نظر آئے گا اور محسوس ہوگا، کوئی تخیلاتی افسانہ نہیں ہے، باقی اس کی اصل حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔
مؤمنین کا جہنم کے پُل پر سے گذرنا اور منافقین کا جہنم رسید ہونا۔ جنت تک پہنچنے کےلئے اہلِ جنت کا جہنم کے پل پر سے گذرنا بر حق ہے۔جہنم کا پل بہت سخت مرحلہ ہوگا، اس کو مؤمنین ان کے ایمان کے لحاظ تیزی سے یا مشکل سے پار کرلیں گے۔ منافقین اور بعض مؤمن گناہ گار اس کو نہیں پار کر سکیں گے اور جہنم میں گر جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ مؤمنین سے فرمائیں گے : ہاں میں تمہارا رب ہوں۔ پھر جہنم پر پل باندھا جائے گا، جس پر سے گذر کر جنت تک پہنچنا ہوگا، اور اس پر شدید اندھیرا چھایا ہوگا، اور اس پل پر آنکڑے لگے ہوں گے، مؤمنوں کو اس پل پر سے گذرنے کا کہا جائے گا، اور ہر مؤمن کو اس کے ایمان کے بقدر نور دیا جائے گا تاکہ وہ اس کی روشنی میں اس پل پر سے گذر سکے، اور اس کے ایمان کے بقدر ہی اس کو رفتار بھی دی جائے گی اور ہر شخص اپنے ایمان کے بقدر رفتار سے اس پل پر سے گذرے گا، اور انہیں جنت کی خوشخبری دی جائے گی۔
کسی کے نور کی روشنی اتنی وسیع ہوگی جیسے مدینہ سے عدن اور صنعا ء تک کی وسعت ہے، پھر بتدریج درجات کے لحاظ سے کمی ہوگی، کسی کا نور پہاڑ جیسا ہوگا، کسی کا نور کھجور کے درخت جتنا ہوگا، کسی کا نور اس کے قد جتنا ہوگا، یہاں تک کہ بعض کا نور اس کے صرف دونوں پیروں کو روشن کررہا ہوگا، اور کسی کا نور اس کے صرف انگھوٹے جتنا ہوگا جو کبھی جلے گا اور کبھی بجھ جائے گا اور وہ اسی میں ٹھٹک ٹھٹک کر چلے گا۔ منافقین کو بھی نور دیا جائے گا، لیکن پل پر سے گذرنے سے پہلے ہی ان کا نور پورے طور پر بجھ جائے گا، ان کی اس درگت کو دیکھ کر مؤمنین اللہ تعالیٰ سے اپنے نور کے اتمام کی دعائیں مانگتے ہوئے پل پر سے گذریں گے۔
کوئی تو ہوگا جو اس پُل کو پَل جھپکتے ہی پار کرلے گا، اور کوئی بجلی کی طرح کوند کر اس پل سے گذر جائے گا، کوئی ہوا کی طرح گذرے گا، کوئی پرندہ کی رفتار سے اس پل کو پار کرے گا، کوئی گھوڑوں کی سی رفتار سے پار کرے گا، اس پل سے گذرنے والوں میں تین طرح کے لوگ ہوں گے ایک وہ جو اس پل کو بے تکلف پار کرلیں گے ، کچھ ایسے ہوں گے جو خدشات کا شکار رہیں گے لیکن بالآخر ٹھٹک ٹھٹک کر اس پل کو پار کر ہی لیں گے۔
اور کچھ ایسے ہوں گے جنہیں کچھ سجھائی نہیں دے گا اور وہ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے جہنم میں جا گریں گے یا پھر اس پل پر لگے ہوئے آنکڑے انہیں پکڑ پکڑ کر جہنم میں پھینک رہے ہوں گے، یہ منافقین ہو ں گے ان کا نور بجھ چکا ہوگا، یہ مؤمنین سے کہہ رہے ہوں گے کہ تھوڑا ٹھیر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرکے چلیں گے، ان سے کہا جائے گا واپس لوٹ جاؤ اور اپنے لئے نور حاصل کرو، بھلا اندھا دیکھنے والی کی آنکھوں کی روشنی سے خود کہاں دیکھ سکتا ہے، پھر ان منافقین اور مؤمنین کے درمیان ایک آڑ آجائے گا جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس دروازہ کے اندر رحمت ہوگی جبکہ اس کے ظاہر سے محسوس ہوگا کہ وہ عذاب کا دروازہ ہے، مؤمنین اپنی نور کی روشنی میں اس رحمت کا ادراک کرکے اس دروازہ سے گذر جائیں گے جبکہ منافق اس سے نہ گذر سکیں گے، وہ مؤمنین کو آوازیں دیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ ہی نہیں تھے؟ مؤمنین کہیں گے ہاں تم ہمارے ساتھ تو تھے لیکن تم آزمائش میں پورے نہیں اترے، عبادت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بچتے رہے، شکوک کا شکار رہے، اور خواہشات نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ بھی آگیا، آج نہ تم سے یا کافروں سے کوئی فدیہ لیا جائے گا اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور وہ سب جہنم رسید ہوں گے۔
سب سے پہلے نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ساتھ اس پل کو عبور کریں گے، پھر باقی انبیاء و رسل اس پل سے گذریں گے، نیک لوگوں کی زبان پر یہ ورد ہوگا ’’اے اللہ سلامت رکھنا، اے اللہ سلامت رکھنا‘‘۔
کافروں اور فاسقوں کو جہنم کی جانب ہنکا دیا جائے گا، اور ان کا ایک کے بعد دوسرا گروہ جہنم رسید کیا جائے گا، ان کے پیچھے پھر یہود و نصاری بھی جہنم میں پہنچیں گے، اور پھر منافقین جو مؤمنوں کے ساتھ جنت کی جانب بچ نکلنا چاہیں گے جہنم کے پل پر سے جہنم کی جانب اس کے کانٹوں سے پکڑ کر پھینکے جائیں گے یا پھر سخت اندھیرے میں اس پل پر سے خود گر گر کر جہنم رسید ہوں گے۔ یہ سب حقائق یعنی مؤمنوں کا جہنم پر سے گذرنا، انہیں ان کے ایمان و اعمال کے بقدر نور نصیب ہونا، اور اسی کے بقدر تیزی اور آسانی سے یا پھر سست رفتاری اور مشکل سے اس پل کو پار کر سکنا ، اور منافقوں کا جہنم رسید ہونا سب نصوص قطعیہ سے ثابت ہے جن پر ایمان لانا لازم ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔
اور اس پر بھی ایمان لازم ہے کہ مؤمنین میں سے بھی فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہوں کے مرتکبین ہوں گے جو اپنے نور کی کمی کی وجہ سے اس پل کو پار نہیں کر پائیں گے اور جہنم کا شکار ہو جائیں گے،اور صرف یہی مؤمنین پھر بعد میں اللہ تعالیٰ کے حضور نبی ﷺ مؤمنوں اور فرشتوں کی شفاعت سے جہنم سے نجات پائیں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ کو حوض کوثر سے نوازیں گے۔آپﷺ کی امت اس کے پانی سے سیراب ہوگی،اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔تشریح
روز محشر اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کو ایک اور اعزاز سے نوازیں گے، یہ حوض کوثر کا اعزاز ہوگا، جس کی لمبائی اور چوڑائی ایک مہینہ کی مسافت جتنی ہوگی ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا، اس کی خوشبو مشک سے زیادہ مہکتی ہوئی ہوگی، اس کے پینے کے برتن اتنی تعداد میں ہوں جیسے آسمان کے ستارے ہیں، یہ پاکیزہ مشروب حوض کوثر میں جنت کی نہر کوثر سے سونے اور چاندی کے دو پرنالوں سے آرہا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں نبی ﷺ کےلئے خاص کر رکھا ہے، اس حوض پر امت محمدیہ آرہی ہوگی، ایک بار جو بھی شخص حوض سے پی لے گا پھر کبھی وہ پیاسا نہیں ہوگا۔
حوض کوثر کےلئے وارد نبی ﷺ کی احادیث متواتر ہیں، پچاس سے زائد صحابہ نے حوض کوثر کی احادیث بیان کی ہیں، معنی کے اعتبار سے بھی ان احادیث کا مفہوم بالکل واضح اور قطعی ہے، اور اس اعتبار سے حوض کوثر پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل بدعت کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا۔تشریح
آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق حوض کوثر پر آپ خود استقبال کرنے کےلئے پہلے سے موجود ہوں گے، وارد ہونے والے دوسرے لوگ بھی ہوں گے لیکن آپ ﷺ اس کے نگران ہوں گے، اور جو اس کے مستحق نہیں ہوں گے آپ ﷺ ان کو اس سے ایسے ہی دور رکھیں گے جیسے کوئی شخص اپنے پانی کے ذخیرہ سے دوسرے لوگوں کے اونٹ کو پینے سے روکتا ہے۔ صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ ہمیں کیسے پہچانیں گے آپ نے فرمایا وضوء کے اثر سے تمہارے چہرہے چمک رہے ہوں گے اسی سے میں تمہاری پہچان کر لوں گا۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنہیں میں ان کی بعض پہچان سے اپنا سمجھوں گا لیکن جب وہ میرے پاس آئیں گے تو ان کے اور میرے درمیان آڑ کر دی جائے گی، میں اس پر کہوں گا کہ وہ تو میرے لوگ ہیں، آپ کو جواب دیا جائے گا کہ آپ کے بعد انہوں نے دین میں تبدیلی کردی تھی، آپ فرمائیں گے جنہوں نے میرے دین میں میرےبعد تبدیلی کی ہو انہیں دور ہی رکھو۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت میں جانے سے پہلے مؤمنین اللہ کے حکم سے اللہ کو سجدہ کریں گے،منافقین سجدہ کرنے میں ناکام رہیں گے۔تشریح
ہم عالمِ برزخ وقبر میں جزاء و سزا کوکس طرح مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد ›فہرست
عقیدہ:
جنت کی جو نعمتیں قرآن کریم یا طریقِ متواتر سے معلوم ہیں ان پر ایمان لانا فرض ہے ،ان میں سے کسی ایک نعمت کے انکار سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ جنت کی بعض نعمتیں اخبارِ آحاد میں بیان کی گئی ہیں، ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے، تاہم ان کے انکار سے آدمی کافر نہیں ہوتا۔تشریح
مثلاً جنت میں کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوگا، جنت میں ملنے والی نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوں گی، وہاں جنتی کی ہر خواہش پوری ہوگی، جنت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار نصیب ہوگا، اہل جنت کے لئے جنت کے دروازے پہلے سے کھلے ہوں گے، ہر جنتی کے گھر میں چار نہریں ہوں گی، پانی کی نہر، تازہ دودھ کی نہر، جس کا ذائقہ خراب نہیں ہوگا، پاکیزہ شراب کی نہر اور صاف ستھرے شہد کی نہر، تمام جنتی کامیاب قرار دئے جائیں گے، اہل جنت کے دل میں اگر ایک دوسرے کی طرف سے کوئی رنجش، کدورت یا عداوت ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو دلوں سے نکال دیں گے، اہلِ جنت جنت میں بالکل خوشی خوشی اور بھائی بھائی ہوکر رہیں گے، جنت میں اونچے اونچے باغات ہوں گے، جن کے خوشے لٹک رہے ہوں گے، جنتیوں کے لئے ریشم کا لباس اور سونے چاندی کے کنگن ہوں گے، جنت میں انار، انگور، کیلے اور مختلف اقسام کے میوے اور پھل ہوں گے، پرندوں کا گوشت اور حوریں ہوں گی، لمبے سائے اور پانی کی بہتی ہوئی آبشاریں ہوں گی، جنت کی یہ نعمتیں قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں، ان پر اور ان کے علاوہ دوسرے ان نعمتوں پر جو قرآن یا احادیثِ متواتر میں بیان کی گئی ہیں ایمان لانا فرض ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت پیدا کی جاچکی ہے اور اس وقت موجود ہے۔دلائل
عقیدہ:
اہل جنت جنت میں قیامت کے بعد داخل ہوں گے۔تشریح
اہل جنت جنت میں قیامت کے بعد داخل ہوں گے، قیامت سے پہلے کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا، سوائے حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کے،کہ وہ زمین پر آنے سے پہلے جنت میں رہ چکے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت ہمیشہ ہمیشہ رہے گی اور اہل جنت بھی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔تشریح
جنت دائمی ہے، یعنی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی اور اہل جنت بھی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ جو ایک مرتبہ جنت میں داخل ہوجائے گا تو وہ وہاں سے کبھی نکالا نہیں جائے گا۔ جو شخص جنت کے فناء ہونے کا قائل ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس لئے کہ قرآن مجید کے متعدد آیات سے جنت کا ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنا ثابت ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت میں اہل ایمان ہی داخل ہوں گے، اگرچہ سزا بھگتنے کے بعد ہی داخل ہوں۔ دلائل
عقیدہ:
تمام اہلِ جنت کا جنت میں داخلہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے کرم سے ہوگا، جنت میں کسی کا داخلہ اللہ تعالیٰ پر واجب اور ضروری نہیں۔دلائل
عقیدہ:
جنت کافر و مشرک پر حرام ہے، کوئی کافر، مشرک اور منافق ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ دلائل
عقیدہ:
اصحاب الاعراف بالآخر جنت میں داخل کردئے جائیں گے۔تشریح
جنت اور جہنم کے درمیان ایک اونچی دیوار حائل ہوگی اس دیوار کا نام اعراف ہے، اس جگہ نہ تو جنت جیسی راحت ہوگی اور نہ جہنم جیسا عذاب ہوگا، وہ لوگ جن کے لئے ابتدائی طور پر جنت کا فیصلہ نہیں ہوگا کچھ مدت یہاں ٹھہریں گے، جنتیوں کو ان کے سفید چہروں سے اور جہنمیوں کو ان کے سیاہ شہروں سے پہچانیں گے، جنتیوں اور جہنمیوں سے ہم کلام بھی ہوں گے، اصحاب الاعراف بالآخر جنت میں داخل کردئے جائیں گے۔
اعراف میں وہ لوگ ہوں گے جنہیں مستقبل میں جنت میں داخل ہونا ہوگا، بعض عوارض کی بناء پر کچھ دیر اعراف میں رکھے جائیں گے، ان عوارض میں سے نیکیوں اور بدیوں کا برابر ہونا یا نیکیوں کی وجہ سے پل صراط سے گذر کر جہنم سے بچ جانا اور نیکیوں کی کمی کی وجہ سے فی الحال جنت میں داخل نہ ہوسکنا یا والدین کی اجازت کے بغیر جہاد فرضِ کفایہ میں شرکت کرنا وغیرہ ہوسکتا ہے۔
اصحاب الاعراف جنتیوں کو دیکھ کر ان کو سلام کریں گے اور جنت میں جانے کی تمناء اور آرزو کریں گے اور دوزخیوں کو دیکھ کر ان کے عذاب سے پناہ مانگیں گے، گویا بیک وقت جنت اور جہنم کے حالات کا مشاہدہ کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے فضل سے جنت میں داخل فرمادیں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بعض لوگوں کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔تشریح
بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونے والے: کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے ایمان و اعمال کی غیر معمولی خوبی کی وجہ سے ان کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا، اور وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح دمکتے ہوں گے، ان کی تعداد امت محمدیہ میں سے ستر ہزار افراد کی ہوگی، ان کا پہلا شخص بھی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ آخری آدمی داخل نہیں ہوگا، یعنی سب بیک وقت جنت میں داخل ہوں گے۔ اوراحادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ ان اونچے لوگوں میں سے ہوں گے جو جنت میں اس وقت داخل ہوں گے جبکہ تمام جنت والے جنت میں داخل ہونے کے بعد اپنے ٹھکانے حاصل کرلیں گے۔
ایک حدیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نبی ﷺ کو آپ کی امت میں بغیر حساب کے داخل ہونے والے اصحاب کی ستر ہزار کی تعداد دی گئی، آپ ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی کہ ائے اللہ ان میں مزید اضافہ فرمائیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان ستر ہزار میں سے ہر ایک ساتھ مزید ستر ہزار ہوں گے۔ گویا ان خوش نصیبوں کی تعداد ۴ ارب نود ہزار افراد کی ہوگی، ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ تعداد کا ذکر ہے۔
بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے والوں سے متعلق یہ احادیث سند کے اعتبار سے اونچے درجہ کی ہیں، خاص طور سے امت محمدیہ میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے یہ احادیث متواتر درجہ کی ہیں ، جن کو صحابہ میں سے حضرت ابو بکر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابو الدرداء ، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت ابو ایوب انصاری،حضرت ابو ہریرہ، حضرت عمران بن حصین، حضرت سہل بن سعد، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر، حضرت رفاعہ جہنی ، اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔اس لئے اس حقیقت پر ایمان لازمی ہے اور اس کا انکار کفر کے ہے ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت ایک پاکیزہ ٹھکانہ اور ہر طرح کے خوف و حزن سے امن کا مقام ہے۔تشریح
جنت ایک پاکیزہ ’امن کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس جنت کا مؤمنین سے وعدہ کیا ہے وہ ایک نہایت امن کا مقام اور پاکیزہ ٹھکانہ ہے، جہاں مؤمنین کےلئے نہ کسی نعمت کے چھننے کا خوف ہوگا، اور نہ گذری ہوئی زندگی کی کسی محرومی کا کوئی غم ہوگا، یہ جنت ایسی ہوگی جہاں اہل جنت ہر طرح کی نعمتوں میں امن اور چین کی زندگی بسر کریں گے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا بہت عمدہ اور عزت والا ٹھکانہ ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت نعمتوں کی عظیم مملکت ہے۔تشریح
جنت نعمتوں کی عظیم مملکت: جنت نعمتوں کی عظیم مملکت ہے، جس کی وسعتیں نا قابل بیان ہیں، جہاں اہل جنت کی رہائش اس طرح ہوں گی کہ ایک جنتی کو دوسرے اہل جنت کا مقام ایسے نظر آئے گا جیسے ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ صرف مجاہدین کےلئے اللہ نے جنت میں سو درجات رکھے ہیں جن میں سے دو درجوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان و زمین کے درمیان مسافت ہوتی ہے۔ جنت کے باغات ایسے طویل ترین ہوں گے جن کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا، جنت کے درخت کے سایے اتنے طویل ہو ں گے کہ ایک تیز گھوڑ سوار ان کے نیچے سو سال تک بھی چلتا رہے تب بھی ان کی مسافت طے نہ ہو۔ ایسی عظیم جنت میں ایسی نعمتیں میسر ہوں گی کہ نہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا ہوگا نہ کسی کان نے سنا ہوگا نہ کسی دل پر ان کا گمان بھی گذرا ہوگا۔ جب ایک دیکھنے والا جنت کو دیکھے گا تو ایسے گمان کرے گا کہ گویا جنت نعمتوں کی عظیم مملکت ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت میں اہل جنت اپنے درجات کے لحاظ سےگروہ در گروہ داخل ہوں گے۔جنت کے فرشتے اہلِ جنت کا استقبال کریں گے اور انہیں خوشخبریاں سنائیں گے۔تشریح
جنت کی جانب اہل جنت جماعت در جماعت ان کے درجات کے لحاظ سے لے جائے جائیں گے، مثلاً مقربین میں سے انبیاء، صدیقین ، اسی طرح پھر شہداء اور ابرار وصالحین بھی ان کے درجات کے لحاظ سے جماعت در جماعت جنت تک پہنچیں گی۔
اور جب وہ جہنم کے پل کو پار کرکے جنت تک پہنچ جائیں گے وہاں ان سے حشر اور پل کی شدت کے آثار کو صاف کیا جائے گا، اور پھر جنت میں داخلہ کی اجازت انہیں حاصل ہوگی۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ جب مؤمنین جنت کے دروازوں تک پہنچیں گے وہاں وہ آپس میں مشاورت کریں گے کہ کون ان کے لئے جنت میں داخلہ کےلئے اجازت طلب کرے گا، چنانچہ وہ حشر کے میدان کی طرح حضرت آدم سے شروع کریں گے لیکن پھر بات خاتم النبیین محمد الامین ﷺ تک ہی پہنچے گی، آپ ﷺ ہی وہ پہلی ہستی ہوں گے جو جنت کے دروازے کو کھٹکھٹائیں گے۔ حدیث پاک میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ جب آپ ﷺ جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے جنت کا دربان سوال کرے گا :آپ کون ہیں؟ آپ ﷺ جواب میں فرمائیں گے : محمد، وہ کہے گا : مجھے آپ کے بارے میں ہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی اور کےلئے جنت کا دروازہ نہ کھولوں۔
پھر جنت کے دروازے دیگر جنتیوں کےلئے بھی کھول دیئے جائیں گے، اور جنت کے دربان جنتیوں کا استقبال کریں گے، انہیں سلامتی کی دعائیں دیں گے، اور مژدہ سنائیں گے کہ ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اور خود جنتیوں کا یہ حال ہوگا کہ ان کی زبان پر باری تعالیٰ کے لئے حمد ہوگی اور وہ کہتے ہوں گے کہ ائے اللہ ! آپ ہی کےلئے حمد ہے آپ نے اپنے وعدہ کو سچ کردیا۔
حدیث پاک میں ہی یہ بھی وارد ہوا ہے کہ: سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخلہ کےلئے پہنچے گا ان کی صورت چودہویں رات کے چاند کی طرح دمکتی ہوئی ہوگی، اور ان کے بعد میں آنے والوں کی حالت ایسی ہوگی جیسے نہایت روشن ستارہ ہوتا ہے۔جنت میں ان کی حالت یہ ہوگی کہ نہ ان کو کبھی تھوک آئے گا، اور نہ ہی ناک میں ریٹ پیدا ہوگا، اور نہ ہی کبھی ان کو قضاء حاجت کی ضرورت لا حق ہوگی۔ ان کے برتن حتی کے کنگھے تک سونے چاندی کے ہوں گے، وہاں کی دھونی عود کی ہوگی، ان کا پسینہ مشک جیسا خوشبو دار ہوگا۔ ان میں سے ہر ایک دو بیویاں ہوں گی ، وہ نہایت خوب صورت ہوں گی ۔نہ ان میں کوئی جھگڑا ہوگا اور نہ ہی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کےلئے کوئی کدورت ہوگی، ان کے دل ایک ہوں گے ،اور وہ سب صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کررہے ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت کے آٹھ دروازے ہوں گے۔تشریح
جنت کے دروازے: جنت میں داخلے کے آٹھ دروازے ہوں گے، خاص خاص نیک اعمال کرنے والوں کےلئے الگ الگ دروازے، نمازوں کا اہتمام کرنے والوں کےلئے الگ دروازہ، صدقہ کا اہتمام کرنے والوں کے لئے الگ دروازہ، مجاہدین کے لئے الگ دروازہ، روزہ داروں کےلئے الگ دروازہ جس کا نام احادیث میں ’’ریّان‘‘ آیا ہے، اسی طرح دیگر دروازے ہوں گے، بعض لوگ وہ ہوں گے جو کسی بھی دروازے سے داخل ہوسکیں گے۔ وہ لوگ جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے ان کے لئے جنت کا بالکل داہنی جانب کا دروازہ مختص ہوگا، ہاں ساتھ ہی وہ دوسرے دروازوں سے داخل ہونے کے بھی مجاز ہوں گے۔
ان دروازوں کی وسعت کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ یہ دروازے اتنے وسیع ہوں گے جیسے شہر مکہ سے ہجر تک کی مسافت، اور دیگر احادیث میں مکانی مسافت کے بجائے زمانی مسافت بیان کی گئی ہے کہ ان دروازوں کے درمیان اتنی مسافت ہوگی کہ ایک چوکھٹ سے دوسری چوکھٹ تک کا حصہ چالیس سال میں طے ہو سکے گا۔ اس کے باوجود ان دروازوں پر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس پر گذرنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے تنگی محسوس ہوگی۔
دیگر صحیح احادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ بغیر حساب جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد ستر ہزار ہوگی، اور ایک اور حدیث کے مطابق ان ستر ہزار میں سے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار افراد ہوں گے، اور یہ سب بیک وقت جنت میں داخل ہوں گے، خود اس سے جنت کے دروازوں کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت ،جنت میں ہمیشہ جوان ہی رہیں گے۔تشریح
اہل جنت کی عمر اور جسمانی ساخت۔ جنت میں داخلہ کے وقت اہل جنت کی عمر ۳۰ سے کچھ زائد ہوگی، اور پھر کبھی ان کی عمر اس سے بڑھے گی نہیں، وہ ہمیشہ جوان رہیں گے۔ اور اہل جنت کا قد حضرت آدم کی پیدائش کے وقت جتنا تھا اتنا ہوگا یعنی ۶۰ ہاتھ لمبا، وہ بالکل صاف شفاف چہرہ والے ہوں گے، جن پر داڑھیاں اگی ہوئی نہیں ہوں گی، وہ نہایت حسین اور ذی وجاہت ہوں گے۔
ا ہل جنت کے یہ احوال و صفات احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ان پر ایمان واجب ہے اور ان کا انکار سخت گناہ کا موجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت کے دلوں کو ہر طرح کی کدورت و آلودگی سے پاک کردیا جائے گا۔تشریح
اہل جنت کی داخلہ کے وقت دلی کیفیت: دنیا میں نیکوکار لوگوں کے درمیان میں بھی کبھی رنجشیں اور مخالفتیں ہو جاتی ہیں، حشر کے میدان میں بھی اس کا اظہار ہوگا کہ قریبی رشتہ دار تک ایک دوسرے سے بھاگے پھر رہے ہوں گے، اور اگر کسی پر کسی کا کوئی حق باقی ہو تو وہ اس کو چھوڑے گا نہیں بلکہ اس کا بدل حاصل کرنے کی ضرور کوشش کرے گا، لیکن جنت کسی بھی قسم کی مخالفت ، رنجش یا کدورت کا مقام نہیں ہے، جنت میں کسی کو کسی سے پرخاش نہیں ہوگی، چنانچہ اللہ تعالیٰ جب اہل جنت کو جنت میں داخل کریں گے تو ان کے دل سے تمام مخالفتوں کے اثرات کو صاف کردیں گے، اور ہر جنتی دوسرے سے محبت رکھے گا اور سب کے دل برابر ہوں گے ۔
حدیث پاک میں بھی یہ وارد ہوا ہے کہ جب مؤمنین کو جہنم سے نجات مل جائے گی لیکن ان کے کچھ بدلے باقی ہوں گے ، جنت و جہنم کے درمیان ایک پل پر انہیں روک کر ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ دلادیا جائے گا، پھر جب ان کے معاملات کی صفائی ہو جائے گی تب انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت ملے گی۔
اہل جنت آپس میں کسی قسم کا کد اور بغض نہیں رکھیں گے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اور یہ بھی یقینی طور پر ثابت ہے کہ ان کے دلوں سے ایک دوسرے کےلئے ہر طرح کی خلش نکال دی جائے گی اور جنت میں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے محبت اور دوستی کا تعلق رکھیں گے قطعی نصوص سے ثابت ہے اس کی تصدیق لازم ہے یہ سوچنا کہ اہل جنت کا آپس میں کسی قسم کا کوئی بغض ہوگا یا ان کے دلوں میں کسی کےلئے میل ہوگا کفر یہ خیال ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تمام اہل جنت آپس میں ایک دوسرے سے محبت،عزت و اکرام کا معاملہ کریں گے۔تشریح
اہلِ جنت کے باہمی تعلقات: اہل جنت کے باہمی تعلقات نہایت خوش گوار ہوں گے، بیویاں اور حوریں پاکیزہ ،نہایت محبت کرنے والی ، نگاہیں نیچی رکھنے والی اور شرم و حیاء والی ہوں گی، جو اپنے شوہروں کو نہایت عزت و احترام دینے والی ہوں گی۔
اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے اور ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دیتے ہوں گے، ان کی محفلیں اجتماعی ہو ں گی جس میں وہ ایک دوسرے سے ملیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور لذت لیں گے اور محظوظ ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت میں سب سے اونچا درجہ جنت الفردوس کا ہوگا، جو جنت کا سب سے اعلی مقام ہے، اور اس سے بلند پھر رحمنٰ کا عرش ہے۔تشریح
اہل جنت کے درجات: اہل جنت اپنے اعمال کے لحاظ سے مختلف درجات والے ہوں گے، سب سے اعلی درجہ پر مقربین ہوں گے، اور مقربین میں سب سے بلند ترین مقام انبیاء علیہم السلام کا ہے، جن میں سب سے اعلی درجہ خاتم النبیین محمد الامین ﷺ کا ہے۔
مقربین میں انبیاء علیہم السلام کے بعد صدیقین کا مقام ہے، یہی صدیقین حق کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور حق کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں، ہر زمانہ میں ان کی تعداد بہت کم رہی ہے، پہلوں میں یہ کچھ زیادہ گذرے ہیں اور بعد والوں میں تو ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی ہے۔
ان کے بعد اصحاب الیمین ہیں ان میں بھی شہداء کا خاص مقام ہے، جبکہ شہداء کے علاوہ صدقہ و خیرات کرنے والے، نمازوں کا اہتمام کرنے والے، کثرت سے ذکر کرنے والے، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے، نرم خو اور عمدہ اخلاق والے، اسی طرح علماء، قرآن کے حافظ، قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے والے، زیادہ روزہ رکھنے والے اس طرح الگ الگ اعمال کے لحاظ سے جنتیوں کے الگ الگ درجات ہیں، ان میں صاحب قرآن کا ایک انوکھا اور بلند ترین مقام ہے ، اور جس کو جتنا قرآن زیادہ حفظ ہوگا اس کو اس سے اتنا زیادہ فائدہ حاصل ہوگا، اس سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتے جاؤ اور درجات کی بلندی طے کرتے جاؤ ، جہاں جا کر تلاوت رکے گی وہی ان کے درجہ کی بلندی ہوگی۔
احادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ جنت میں سو درجات ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کا فاصلہ ہوتا ہے۔
لیکن جنت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہوگی کہ اس میں جس شخص کو جو درجہ حاصل ہوگا وہ اس سے پوری طرح نہ صرف مطمئن ہوگا بلکہ وہ خود کو سب سے زیادہ نعمتوں میں سمجھے گا، اور کیوں نہ ہو کسی کمی اور محرومی کا احساس خود جنت کے منافی ہے اس لئے اہل جنت اس طرح کے منفی احساسات سے کلی طور پر محفوظ ہوں گے۔
جنت الفردوس:جنت میں سب سے اونچے درجات جنت الفردوس کے ہوں گے، وہ جنت کا سب سے بلند ترین اور سب سے ممتاز مقام ہوگا، وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہوں گی، اور اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے، نبی ﷺ صحابہ کو تعلیم دیتے کہ اللہ تعالیٰ سے جب مانگو تو فردوس مانگو۔ أللہم إنا نسئلک جنت الفردوس۔
وہ صاحب ایمان جو نمازوں کو خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں، لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں، زکاۃ ادا کرتے ہیں، شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، امانت داری اور عہد کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، اور نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے صاحب ایمان و عمل جنت الفردوس کے مستحق ہوں گے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے(القرآن)۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کمترین جنتی کو بھی اللہ تعالیٰ اس دنیا کی نعمتوں کے مقابلہ میں دس گنا نعمتوں سے نوازیں گے۔تشریح
کمترین جنتی کا مقام: جنت میں جس شخص کو سب سے کمترین مقام حاصل ہوگا اس کو بھی اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں موجود تمام نعمتوں سے دس گنا زیادہ نعمتوں سے نوازیں گے۔ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو جہنم سے سب سے آخر میں نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا، اللہ تعالیٰ اس سےفرمائیں گے جنت میں داخل ہو جاؤ، وہ آئے گا لیکن اس کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے گی کہ جنت تو بھر گئی ہے، وہ لوٹ جائے گا اور کہے گا ائے پروردگار جنت تو بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ وہ پھر آئے گا پھر اس کو یہی خیال ہوگا کہ جنت تو بھر گئی ہے وہ پھر لوٹ جائے گا اور کہے گا : ائے پروردگار جنت تو بھر گئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ وہ پھر آئے گا پھر اس کو یہی خیال ہوگا کہ جنت تو بھر گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں دنیا اور اس کے مثل دس گنا نعمتیں دی گئیں، وہ کہے گا ائے اللہ !آپ تو بادشاہ ہیں تو کیا آپ بھی میرا مذاق بناتے ہیں ، صحابی راوی کہتے ہیں آپ ﷺ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہو گئے۔ یہ اہل جنت میں سب سے کم ترین مقام کا جنتی ہوگا، یعنی جسے دنیا سے دس گنا زیادہ نعمتیں دی گئی ہیں۔
کمترین جنتی کو اللہ تعالیٰ یہ مقام دیں گے یقینی امر ہے جس کی تصدیق لازم ہے، اور اس کا انکار سخت گناہ کا موجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دنیا کی نعمتوں کا جنت کی نعمتوں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔تشریح
جنت کی نعمتوں کو کبھی فنا نہیں ہے، اس میں کوئی نقص نہیں ہوگا، وہاں نعمتوں میں یکسانیت نہیں ہوگی کہ کہیں بیزارگی طاری ہو جائے۔ جنت کی نعمتیں ایسی خوبیوں والی ہوں گی کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے، اور نہ کبھی اس کا کسی کے دل میں تصور بھی آیا ہوگا۔
جنت کی نعمتوں کی خصوصیت: دنیاوی نعمتوں کے مقابلہ میں جنت کی نعمتوں کی خصوصیات نا قابل شمار ہیں، البتہ چند ایسی ہیں جو بہت مہتم بالشان ہیں، جنت کی ہر شے پاکیزہ ہے، جنت کی نعمتیں کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں، جنت کی نعمتوں پر کبھی باسی پن یا کوئی سڑاند طاری نہیں ہوگی ، کوئی نعمت جس کا پہلے تجربہ ہو چکا ہے اہل جنت جب اس کو دوبارہ استعمال کریں گے تو ایسے محسوس ہوگا جیسے اس کا مزہ بالکل نیا ہے، ہر نعمت تر و تازہ اور مہکتی ہوئی ہوگی۔
جنت میں اہل جنت کی جسمانی تازگی اور صفائی کی حالت یہ ہوگی کہ نہ ان کو کبھی تھوک آئے گا، اور نہ ہی ناک میں ریٹ پیدا ہوگا، اور نہ ہی کبھی ان کو قضاء حاجت کی ضرورت لا حق ہوگی، ان کا پسینہ مشک جیسا خوشبو دار ہوگا۔
اور جنت کا یہ حال ہوگا کہ وہاں اہل جنت پر کبھی کوئی تھکن طاری نہیں ہوگی، بیماری اور سر درد تو دور کبھی کوئی گرانی کا شکار نہیں ہوگا، نعمتوں کا یہ سلسلہ جنت میں ابدی ہوگا جس سے وہ کبھی محروم نہیں کئے جائیں گے، یہی ہے جس کو باری تعالیٰ حقیقی زندگی اور فوز عظیم قرار دیتے ہیں۔
جنت کی نعمتوں کی مذکورہ بالا صفات قطعی نصوص سے ثابت ہیں، ان میں کسی قسم کا شک کرنا گویا ان کا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت کی رہائش اور گھر بہت خوبصورت، اونچے اور عالیشان ہوں گے، جو کئی منزلوں والے اور خوشبو دار ہوں گے۔تشریح
جنت کے گھر: اہل جنت کے مکانات بلند و بالا ، اونچے اور کئی منازل پر مشتمل ہوں گے، یہ مکانات عدن کے باغات کے درمیان بنے ہوں گے، اور یہ بڑی پر سکون اور امن والی رہائش ہوگی، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوگی۔ (القرآن) جنت کی عمارتوں کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہوگی، اور ان کو جوڑنے کےلئے جو مسالہ استعمال ہوگا وہ مشک کا ہوگا، اور اس کی ریت یاقوت اور موتی ہوں گے، اور ان کی مٹی زعفران ہوگی، جو ان میں داخل ہوگا بڑی نعمت اور ترو تازگی میں ہوگا، اس پر کبھی باسی پن طاری نہیں ہوگا، وہ اس میں ہمشیہ ہمیش رہے گا۔
درجات کے لحاظ سے اہل جنت کے گھر مختلف النوع بھی ہوں گے، لیکن ہر ایک اپنے میں غیر معمولی خوبصورتی اور خصوصیت لئے ہوئے ہوگا، حدیث پاک میں یہ بھی وار دہوا ہے کہ جنت کے گھر سرخ یاقوت کے یا ہرے زبردج کے یا سفید موتیوں کے بنے ہوں گے ، جس میں نہ کہیں کوئی دراڑ ہوگی نہ شگاف ہوگا۔
حدیث پاک کے مطابق اہل جنت کی یہ رہائشیں درجات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے نہایت بلندی پر بھی واقع ہوں گی، اور ایک جنتی دوسرے جنتی کے مکان کو ایسے دیکھ سکیں گے جیسے ہم ستاروں کو دیکھ پاتے ہیں۔
جنت کی نعمتوں کی مذکورہ بالا صفات قرآن مجید و حدیث سے ثابت ہیں، ان میں کسی قسم کا شک کرنا گویا ان کا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت کو اللہ تعالیٰ پاکیزہ بیویاں عطا فرمائیں گے، جن میں ان کی بیویاں بھی ہوں گی، اور جنتی حوریں بھی ہوں گی۔ جنت کی حوریں بڑی آنکھوں والی اور نہایت خوبصورت ہوں گی، جن کو کسی انسان یا جن نے پہلے کبھی نہیں چھوا ہوگا۔تشریح
مشک کے ٹیلے، پاکیزہ بیویاں، حوریں: اہل جنت کو اللہ تعالیٰ نہایت خوبصورت پاکیزہ بیویاں اور حوریں عطاء فرمائے گا، ایسی حوریں گویا کے چھپے ہوے موتی ہیں، وہ بڑی بڑی آنکھوں والی ، نہایت شرم و حیاء والی اور اپنی نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی، جنہیں بہت خوبصورتی میں ڈھالا گیا ہوگا، جو کنواریاں اور متناسب الأعضاء ہوں گی، اور جن کو پہلے کبھی کسی انسان یا جن چھوا تک نہ ہوگا۔(القرآن)
اہل جنت کےلئے جنت میں حوریں ہوگی، جو مذکورہ بالا صفات کی حامل ہوں گی باری تعالیٰ کے کلام سے قطعی طور پر ثابت ہیں ، ان پر ایمان اور ان کی تصدیق لازم ہے اور اس کا انکار یا اس میں کوئی شک کرنا کفر ہے۔
ان کی خوبصورتی کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اگر ان کی ایک پرچھائی دنیا پر پڑ جائے تو پوری دنیا جگمگا جائے، اور وہ اتنی میٹھی ہوں گی کہ اگر کڑوے سمندروں میں اپنا لعاب ڈال دیں تو وہ سمندر میٹھے ہو جائیں ۔ جنتی حوروں کی یہ صفات صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان پر ایمان واجب ہے اور اس میں کوئی شک کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت مرد و عورتوں کو جنت میں خوبصورت زیورات پہنائے جائیں گے۔تشریح
جنت کے لباس و زیور: اہل جنت کو قیامت کے دن قیمتی لباس پہنائے جائیں گے، یہ لباس مہین اور باریک ململ کے اور دبیز مخمل کےاور اسی طرح ریشم کے ہوں گے، اور ایسے ہی اہل جنت کو زیورات بھی پہنائے جائیں گے چنانچہ اہل جنت کو سونے چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور جنت میں مردوں کےلئے زیورات اور ریشم پہننا سبھی حلا ل ہوگا۔
مردوں کےلئے دنیا میں ریشم اور زیور پہننا حتام ہے جب کہ جنتی مردوں کےلئے ریشم اور زیورپہننا حلا ل ہوں گا قطعی نصوص سے ثابت ہے اس کی تصدیق لاز م ہے۔اس کاانکار کرنا قرآن کا انکار کرنا ہے جو کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت کےلئے باغات ہوں گے جن میں ہر طرح کے رزق کی فراوانی ہوگی۔تشریح
جنت کے باغات اور رزق کی فراوانی: اہل جنت کو اللہ تعالیٰ بلند و بالا مکانات / اور غرفات کے ساتھ باغات سے بھی نوازیں گے ، جن کے نیچے سے نہریں اور چشمے بہتے ہوں گے، جن میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی ، اور ہر طرح کے پھل جن کی اہل جنت خواہش کریں گے وہ ان میں موجود ہوں گے، ان باغات کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے اور ان کے خوشہ جھکے ہوئے ہوں گے، ایسے جھکے ہوئے ہوں گے کہ اگر اہل جنت ان درختوں کے نیچے بیٹھ جائیں تو ان کے پھل جھک کر ان کے قریب آجائیں اور اگر وہ اُٹھ کھڑے ہوں تو وہ ان کے ساتھ بلند ہو جائیں۔ یہ پھل نہایت وافر مقدار میں ہونے کے ساتھ ان کا موسم کبھی ختم نہیں ہوگا اور نہ ان کے حصول میں کسی قسم کی رکاوٹ ہوگی، اور ان سے کہا جائے گا کہ ان نعمتوں سے کھاؤ ان اعمال کے بدلہ میں جو تم اللہ کی رضا کےلئے کیا کرتے تھے، ان باغات کے سایےانتھائی طویل ترین ہوں گے، (حدیث مبارک کے مطابق جنت کے باغات کے سایے اتنے طویل ہوں گے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا ان کے نیچے سو برس تک چلتا رہے تب بھی ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا)(القرآن) ۔
اہل جنت کے لئے ہر طرح کے رزق کی فراوانی ہوگی، وہ اپنے باغات کے سایوں میں اپنے جوڑوں کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے، جہاں انہیں ان باغات کے پھل بھی میسر ہوں گے اور جو کچھ وہ چاہیں گے انہیں وہاں ملے گا، اور ان کے رب کی جانب سے سلامتی کا مژدہ سنایا جاتا رہے گا۔(القرآن)
جنت کے باغات اور جنت کے رزق کی مذکورہ بالا تفصیل قطعی نصوص سے ثابت ہے جن کی تصدیق لازم ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت میں اللہ تعالیٰ اہل جنت کو خادم عطاء فرمائے گا جو اپنے ظاہر اور خدمت دونوں میں بہت خوبصورت ہوں گے۔تشریح
اہل جنت کے خادمان: اہل جنت کو اللہ تعالیٰ خاص خادمان سے نوازے گا، یہ خادمان کم عمر لڑکے ہوں گے جو ہمیشہ اسی عمر میں رہیں گے، اور نہایت خوبصورت ہوں گے، دیکھنے والا انہیں ایسے محسوس کرے گا جیسے وہ موتی ہوں، اور وہ اپنے آقاؤں کی خدمت میں ہر جگہ بکھرے ہوئے ہوں گے، جو سونے چاندی کے برتن اور پیالے اٹھائے ان کی خدمت کرتے ہوئے اور ان کے سامنے نعمتیں پیش کرتے ہوں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت جنت کی نہریں ہیں جو اہل جنت کے باغات اور رہائش گاہوں کے نیچے بہتی ہوں گی۔تشریح
جنت کی نہریں : وہ جنت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس میں ایسے پانی کی نہریں ہوں گی جو بالکل شفاف ہوگا، جن میں کوئی کدورت نہیں ہوگی، وہ ہمیشہ تر و تازہ ہوگا، اور اس میں کسی قسم کی ناگوار بو نہیں ہوگی۔ اس جنت میں متقیوں کےلئے دودھ کی نہریں ہوگی جن کا مزہ کبھی خراب نہیں ہوگا۔ اور شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کو بڑا مزہ دیں گی، جس میں کسی قسم کا نشہ ، گرانی یا نقصان نہیں ہوگا، اور صاف شہد کی نہریں ہوگی اور ہر طرح کے پھل ہوں گے ۔ (القرآن)
نیکوکاروں کو جنت کے مشروبات پیالوں میں ایسی نہر سے دئیے جائیں گے جن میں ٹھنڈک اور خوشبوئیں ہوگی اس نہر کا نام ہی کافور ہوگا، اس نہر اور اس کی شاخوں کو وہ اپنے ساتھ جہاں چاہیں گے موڑ سکیں گے۔ اسی طرح جنت میں وہ پیالوں میں ایسے مشروب کو بھی پیئیں گے جن کا مزاج گرم ہوگا اور اس چشمہ کا نام جس سے انہیں ایسا مشروب حاصل ہوگا ’’سلسبیل‘‘ہوگا۔ان مشروبات کے پیالے نو عمر لڑکے نازک اور خوبصورت پیالوں میں انہیں پیش کرتے پھریں گے (القرآن)
اہل جنت کو مہر بند مشروب پلایا جائے گا یہ مہر مشک کی ہوگی اور اس میں ’’تسنیم‘‘ کی آمیزش ہوگی، یہ تسنیم جنت میں ایک چشمہ ہوگا ، جس کا خالص مشروب مقربین پئیں گے۔(القرآن)
جنت میں ایک نہر ہوگی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی نہر ہوگی، یعنی نہر ’’کوثر‘‘ یہی وہ نہر ہوگی جس کا مشروب پرنالوں سے ہو کر میدان حشر میں حوض میں آئے گا، اس نہر پر ایک بڑا محل ہوگا، اور بھی بہت سی خیر کی چیزیں ہوں گی، اس کا رنگ دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی مٹھاس شہد سے زیادہ ہوگی۔اس نہر پر خاص قسم کے پرندے ہوا کریں گے، اس نہر کا گذر موتیوں پر ہوگا اور اس کی مٹی یاقوت ہوں گے جو مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی۔
جنت کی نہروں اور مشروبات کی مذکورہ بالا تفصیل قرآن و حدیث کے قطعی نصوص سے ثابت ہیں، ان کی تصدیق لازم ہے، ان کا انکار یا ان میں کسی قسم کا شک کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت کی نعمتوں میں ایک بڑی نعمت وہاں کے نیک ساتھی بھی ہوں گے۔تشریح
نیک ساتھی: جنت تمام کی تمام نیکوکاروں کا مسکن ہے، وہاں نہ کسی برے کا دخل ہے، اور نہ ہی کسی نیکوکار کے دل میں کبھی کوئی برائی کا اثر پیدا ہو سکتا ہے، اور تمام نیکوکار ایک دوسرے کے دوست ہوں گے، قیامت کے بعد سوائے متقین کے سب ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، جبکہ متقین آپس میں ذبردست دوست ہوں گے۔ مؤمنین آپس میں مل بیٹھیں گے، کبھی دنیا کے احوال پر کلام کریں گے، کافروں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر بھی کریں گے، اور اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات کا مذاکرہ کرکے شکر گذار ہوں گے۔ انبیاء کی صحبت بھی حاصل ہوگی، اور دنیا میں جس کو جس جس سے محبت تھی وہاں ان کا ساتھ نصیب ہوگا، اور وہ سب اس ساتھ پر بہت خوش ہوں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں کی دعائیں: جنت میں اہل جنت سے فرشتے ملاقاتیں کریں گے اور انہیں دعائیں دیں گے۔تشریح
فرشتے جنت میں اہل جنت سے ملاقات کیا کریں گے ، اور ااور ان کو سلامتی کی دعائیں دیں گے اور جنت کی نعمتوں پر مبارک باد دیں گے۔(القرآن)احادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ فرشتے اہل جنت کی رہائش گاہوں پر حاضر ہو کر ان کے خادمین سے داخلہ کی اجازت طلب کریں گے اور جب انہیں اجازت ملے گی تو ان کے لئے دروازہ کھولا جائے گا وہ آئیں گے اور انہیں سلام کرکے لوٹ جائیں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت کو خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی کا پروانہ دیا جائے گا۔تشریح
اللہ تعالیٰ کا سلام اہل جنت کے نام: اہل جنت کو اللہ تعالیٰ سلام کریں گے۔ (القرآن) حدیث پاک میں آیا ہے کہ اہل جنت نعمتوں میں ہوں گے کہ ایک موقع پر انہیں اپنے اوپر نور کی ایک چمک دکھائی دے گی، وہ اپنے سروں کو اٹھائیں گے، وہاں وہ اپنے رب کو پائیں گے، اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے السلام عليكم يا أهل الجنة آیت مبارکہ سَلامٌ قَوْلا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ میں اسی کا ذکر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت کی نعمتوں میں سب سے عظیم اور اہم ترین نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا، جس سے اللہ تعالیٰ تمام اہل جنت کو نوازیں گے، اور بعض اہل جنت اس نعمت سے بار بار مشرف ہوں گے۔تشریح
رؤیت باری تعالیٰ پر ایمان: قیامت کے دن اہل جنت کو اللہ تعالیٰ اپنے دیدار سے نوازیں گے۔ اور جنت میں بھی اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار کا شرف عطا فرماتے رہیں گے۔اہل جنت نے جو کچھ نیکیاں کی ہوں گی اس کی جزاء انہیں دیگر نعمتوں کی شکل میں ملے گی لیکن اللہ کا دیدار ایک اضافی اور سب سے بڑی نعمت ہوگی ۔ دیدار باری تعالیٰ کی نعمت سے غیر مؤمنین محروم رہیں گے(القرآن)
حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جب اہل جنت جنت میں داخل ہو جائیں گے ، اللہ تعالیٰ اہل جنت سے سوال کریں گے : کیا تمہیں کچھ اور بھی چاہئے؟ اہل جنت کہیں گے : ائے اللہ ! آپ نے ہمارے چہروں پر عزت ،نعمت اور کامیابی کی روشنی بکھیر دی ہے، ہمیں جنت میں داخل کردیا، اور ہمیں جہنم سے نجات دے دی اس سے زیادہ ہمیں کیا چاہئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے حجاب کو ختم کردیں گے، اور اہل جنت کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائیں گے، اور یہ ایسی لذت والی نعمت ہوگی کہ اس کے مقابلہ میں انہیں کوئی اور نعمت محبوب نہیں ہوگی۔
ہر مؤمن جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے کم از کم ایک مرتبہ ضرور مشرف ہوگا، جبکہ درجہ کے اعتبار سے افضل مؤمنین دن میں دو بار اللہ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔
رؤیت باری تعالیٰ کا ثبوت قرآن کی قطعی آیات سے اور قطعی متواتر احادیث سے ہے، اس لئے اس پر ایمان لازمی ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت کو اللہ تعالیٰ باعلان اپنی رضا سے مطلع کریں گے کہ اب کبھی اللہ ان سے ناراض نہیں ہو گا۔تشریح
اللہ کی رضا کا مژدہ: اہل جنت جنہوں نے دنیا میں اللہ کے احکام کی تعمیل کی اوراپنی زندگی کو خالص اسی کے حکم کے مطابق گذارا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کو اپنی رضا کا مژدہ سنا دیا تھا، اور یہ اعلان کردیا تھا کہ اللہ ان سے راضی ہیں اور وہ اللہ سے راضی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں بھی اہل جنت سے خطاب کرکے فرمائیں گے، ائے نفس مطمئنہ چل اپنے رب کی جانب لوٹ چل، اس حال میں کہ تو اللہ سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی، میرے بندوں میں داخل ہو جا اور جنت میں داخل ہوجا(یہ مخصوص بندوں سے خطاب ہوگا)، پھر اللہ تعالیٰ جنت میں تمام اہل جنت کو ساری نعمتوں کو دینے کے بعد اعلان فرمائے گا کہ اللہ ان سے راضی ہے اوریہ اہل جنت کےلئے سب سے بڑی بات ہوگی۔ (القرآن) دلائل
.بند
عقیدہ:
اہل جنت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کی حمد و شکر بجالائیں گے۔تشریح
اہل جنت کی شکر گذاری: اہل جنت کی زبان پر ہمیشہ اللہ کی تسبیح ہوگی، جنت کی نعمتوں کو برتتے ہوئے ان کی زبان اللہ کی پاکی بیان کرتی رہے گی، اور وہ آپس میں جب بھی ملیں گے ایک دوسرے پر اللہ کی سلامتی کے دعائیں دیں گے، اور ہمیشہ ان کی زبان پر اللہ رب العزت کی تعریف اور اس کی شکر گذاری ہوگا جس نے انہیں دنیا و آخرت میں کامیاب کیا اور اپنی جنت اور اپنی نعمتوں سے نوازا اور اپنی رضا کا پروانہ عطا کیا الحمد للہ رب العلمین دلائل
.
عقیدہ:
جہنم میں مختلف قسم کا عذاب ہوگا، جو عذاب قرآن مجید یا طریقِ متواتر سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے، ان میں سے کسی ایک عذاب کے انکار سے یا اس میں شک کرنے سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ جہنم کے جو عذابات و سزاء خبرِ واحد سے ثابت ہیں ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے، تاہم ان میں سے کسی کے انکار سےآدمی دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔تشریح
جو چیزیں قرآن کریم یا حدیثِ متواترسے ثابت ہیں وہ یہ ہیں۔مثلاً جہنم میں آگ کا عذاب ہوگا، آگ کا لباس ہوگا، جہنمیوں کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کے پیٹ اور کھالیں جھلس جائیں گی، وہ سخت عذاب کی وجہ سے جہنم سے نکلنا چاہیں گے مگر نہیں نکل سکیں گے، مرنا چاہیں گے لیکن مر بھی نہیں سکیں گے، پینے کے لئے پیپ اور سینڈھ ہوگی، جہنمی جسے گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا، مگر پی نہیں سکے گا، ہر طرف موت کا سامان ہوگا مگر موت نہیں آئے گی، گلے میں طوق پہناکر زنجیروں میں جکڑا جائے گا، کھانے کے لئے زخموں کا دھوون ہوگا، جہنمیوں کے چہروں کو آگ میں الٹا پلٹا جائے گا، جہنم میں کافر و منافق سب جمع ہوں گے، جہنمیوں کے مال و متاع کو جہنم کی آگ میں پگھلا کر ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا، جہنم میں گرمی کا عذاب الگ ہوگا اور سردی کا عذاب الگ ہوگا، جنوں اور انسانوں سے جہنم کو بھرا جائے گا، جہنم ایک بُرا اور بدترین ٹھکانہ ہوگا، جہنمیوں کو جہنم میں ذلیل و خوار کرکے داخل کیا جائے گا، جہنم کے دروازے بند ہوں گے، جہنمیوں کے آنے پر کھولے جائیں گے، جیسے جیل کا دروازہ قیدیوں کے آنے پر کھلتا ہے، جہنم کے ساتھ دروازے ہیں، جہنم کی آگ جب کبھی ہلکی ہوگی اُسے اور بھڑکادیا جائے گا، جہنمی جہنم میں نہ تو زندوں جیسا ہوگا اور نہ ہی مُردوں جیسا، جہنم میں مشرکوں کے ساتھ ان کے معبودانِ باطلہ کو بھی ڈالا جائے گا، کافر لوگ جہنم کی آگ کے لئے بطور ایندھن بھی ہوں گے، منافقین جہنم کے نچلے درجہ میں ہوں گے، جہنم میں عذاب کی وجہ سے کافروں کے خوب چیخ و پکار ہوگی، جہنمیوں کے جسم پر گندھک کا لباس ہوگا، جہنمیوں کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جائے گا اور ان کے لئے ہلاکت ہی ہلاکت ہوگی، جہنمیوں کے اوپر بھی آگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے بھی آگ کے سائبان ہوں گے، ایسا کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا جس سے ہونٹ جھلس جائیں گے اور آنتیں کٹ جائیں گی، جہنم کی آگ اس قدر شدید ہوگی کہ دل پر براہِ راست اثر کرے گی۔
ان پر اور ان کے علاوہ دیگر ان عذابوں پر ایمان لانا اور ان پر یقین کرنا فرض ہے جو بطریق تواتر ثابت ہیں دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت کی طرح جہنم بھی پیدا کی جاچکی ہے اور اس وقت موجود ہے۔تشریح
جہنم اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے اور پیدا کردی گئی ہے، چنانچہ اس وقت جہنم موجود ہے، معراج کی رات آپ ﷺ کو مجرمین کو جہنم میں دئیے جانے والے عذاب کا بھی مشاہدہ کرایا گیا، جس کے احوال نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے بیان بھی کئے ہیں۔
جہنم کے پیدا کردئیے جانے اور موجود ہونے پر نصوص قطعی درجہ کے ہیں اس لئے اس پر ایمان لانا لازم ہے اور اس کا انکار کرنا کفرہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم میں اہل جہنم قیامت کے بعد ہی داخل ہوں گے، اس سے پہلے برزخ کا عذاب ہوگا۔دلائل
عقیدہ:
جہنم ہمیشہ ہمیشہ رہے گی اور کفارو مشرکین اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جہنم مؤمنوں کاٹھکانہ نہیں ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ نے جہنم کو بہت سخت اور بری جگہ بنایا ہے، لیکن وہاں بھیجنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر ذریعہ سے اس تک پہنچنے سے خبردار کیا ہے، اور جہنم کے عذاب کی سختیوں کو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ کھول کھول کر بیان کیا ہے، لیکن جب انسان اپنی سرکشی میں ان تنبیہات کو نظر انداز کرتا ہے اور آخرت کا انکار کرکے اور نا فرمانیاں کرکے خود کو جہنم کا مستحق بناتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ پر کیا الزام جبکہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی یہ ساری سختیاں یہیں دنیا میں ظاہر کردی ہیں، اور کونسے کرتوت ان سزاؤں کا مستحق بنائیں گے ان کو بھی واضح کردیا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندوں پر ہر طرح اتمام حجت کردیا ہے، پھر جو مجرم نہیں ہے اس کو اللہ جہنم میں نہیں جھونکیں گے، اور ایسے کو جہنم میں جھونک کر اللہ کو کیا ملے گا ، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرمین اور فرماں برداروں کے ساتھ یکساں معاملہ کرے، چنانچہ مجرموں کو جہنم میں جھونکا جانا اور ان کے برے اعمال کے نتیجہ میں عذاب میں مبتلا کیا جانا خود اللہ کے عدل و انصاف کا تقاضہ ، اور جو کچھ ہوگا خود انسان کے اعمال کا وبال ہوگا، جس پر اللہ نے ہر طرح تنبیہ کرکے اتمام حجت کردیا ہے۔
جہنم کافروں ،مشرکوں اور منافقوں کےلئے پیدا کی گئی ہے ، جہنم کے اصل مستحق وہی ہیں۔ شیطان کے وہ تمام گرگے جنہوں نے ہر طرح کی تنبیہ کے باوجود اللہ کی نافرمانی کرکے شیطان کی پیروی کی اور اسی کی طرح سرکشی کی راہ اختیار کی ان کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے طے کیا ہے کہ وہ ان سب سے خواہ وہ انسان ہوں یا جن جہنم کو بھردے گا۔(القرآن)
فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے مؤمن بھی اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ڈالے جائیں گے، اللہ تعالیٰ کی کسی بھی نافرمانی کا راستہ جہنم کی جانب جاتا ہے، ہر سرکش، خیر میں رکاوٹ بننے والا، اپنی حد سے آگے بڑھنے والا اور بدلہ کے دن میں شک کرنے والا سب جہنم رسید ہوں گے۔اگر توبہ کرلی جائے تو اس کو خلاصی مل سکتی ہے۔ (القرآن)
یا پھر جہنم میں تو وہ جائے گا البتہ آپ ﷺ، یا دیگر انبیاء ملائکۃ اور مؤمنین کی شفاعت سے بھی اسے جہنم سے خلاصی مل سکتی ، اور پھر جہنم میں صرف کافر مشرک اور منافق باقی رہ جائیں گے، اور وہاں سے انہیں کبھی چھٹکارہ نہیں ملے گا۔
(۱)جہنم در حقیقت کافروں کےلئے تیار کی گئی ہے(۲)البتہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب بھی جہنم میں جائیں گے (۳) اور پھر شفاعت کے ذریعہ یا اپنی سزاء مکمل کرکے انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا ان تمام امور پر نصوص قطعی اور یقینی درجہ کے موجود ہیں ، اس لئے ان دونوں باتوں پر ایمان لازم ہے اور ان کا انکار کرنا کفر ہے۔
جہنم ابدی ہے اور اہل جہنم اس میں ہمیشہ ہمیش عذاب میں رہیں گے قطعی اور یقینی نصوص قرآن و احادیث دونوں سے ثابت ہے، قرآن مجید نے جہنم کا ’’خلود‘‘ اور اس کا ’’ابدی‘‘ ہونا بار بار ذکر کیا ہے، اس لئے اس پر ایمان فرض ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
یہودیوں کا یہ نظریہ غلط ہے کہ ہم کچھ عرصہ کے لئے جہنم میں داخل ہوں گے پھر نکل جائیں گے۔ دلائل
عقیدہ:
اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر نعمت و عطاء اس کا فضل و کرم ہوگا اور اہلِ جہنم کے لئے ہر عقوبت و سزاء اس کا عدل و انصاف ہوگا۔ دلائل
عقیدہ:
کافر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈالنا بالکل صحیح اور عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔تشریح
اس لئے کہ یہ کوئی ضابطہ اور اصول نہیں کہ سزاء کا وقت جرم کے وقت سے زیادہ نہ ہو، قاتل صرف پانچ سیکنڈ میں فائر کرکے کسی کو قتل کردیتا ہے تو کیا اس کی سزاء بھی صرف پانچ سیکنڈ قید ہوتی ہے؟ اس کی سزاء عمر قید ہوتی ہے جو جرم کے وقت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے، معلوم ہوا کہ سزاء کا وقت وقتِ جرم سے زیادہ ہونا عدل و انصاف کے منافی نہیں ہے۔
نیز کافر کی نیت ہمیشہ ہمیشہ کافر رہنے کی ہوتی ہے، جیسے مسلمان کی نیت ہمیشہ ہمیشہ مسلمان رہنے کی ہوتی ہے، مسلمان ہمیشہ ہمیشہ مسلمان رہنے کی نیت کی بناء پر ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہے گا اور کافر ہمیشہ ہمیشہ کافر رہنے کی نیت اور عزم کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، کافر کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کرنا کوئی ظلم نہیں بلکہ عین عدل و انصاف ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم مجرمین کو گھیر رہی ہے۔ تشریح
جو مجرمین دنیامیں حق بات قبول کرنے کے بجائے آخرت اور جہنم کی حقیقت کو مذاق میں اڑاتے رہے اور حق کی دعوت دینے والوں کے ساتھ استہزاء کرتے رہے ایسے مجرموں کا جہنم ہر طرف سے احاطہ کررہی ہے، قیامت کے روز ایسے مجرموں کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینکا جائے گا، اور جہنم ہر طرف سے ان کو ڈھانک لے گی، اوپر سے ، نیچے سے ، ان کے ہر طرف جہنم ہی جہنم ہوگی، جس سے بچ کر وہ کبھی نہیں نکل پائیں گے ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم ایک بدترین ٹھکانہ ہے۔ تشریح
جہنم ایک بدترین ٹھکانہ ہے، جہاں کی سزاؤں اور سختیوں کا محض بیان ہی اس درجہ ہولناک ہے کہ اس کو سن کر یا پڑھ کر ہوش اڑ جائیں اور پتہ پانی ہو جائے، خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جہنم برا ٹھکانہ ہے۔ (القرآن)
جہنم کی ہولناکی کا تصور اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ وہ شحص جو دنیا میں ہمیشہ عیش و عشرت میں رہا ہو ، اور کوئی معمولی قسم کی بھی تکلیف اور ناگوار چیز سے اس کا واسطہ نہ پڑا ہوا حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہیں گے کہ اس کو جہنم کی صرف جھلک دکھلا کر لاؤ، فرشتے جب اس کو جہنم کی جھلک دکھلا کر لائیں گے اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے : تو نے کبھی کوئی اچھائی اور عیش دیکھا ہے ؟اس شخص پر جہنم کی ایک جھلک کا ایسا اثر ہوگا کہ وہ صاف انکار کردے گا کہ کبھی اس نے کوئی سکون بھی دیکھا ہو۔
جہنم کی سختی کا یہ عالم ہے کہ خود جہنم نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کی کہ ائے اللہ میرے بعض حصوں نے بعض دوسرے حصوں کو کھالیا ہے، اللہ تعالیٰ نے پھر جہنم کو دو سانسوں کی اجازت دی جس سے خود جہنم کو اپنے آپ سے راحت ملی، ایک سانس وہ چھوڑتی ہے تو اس سے دنیا میں گرمیاں پھیلتی ہیں، اور ایک سانس کے اثر سے سردیاں پھیلتی ہیں۔
پھر دنیا میں گرمی کی شدت کا جو احساس ہوتا ہے وہ جہنم کی سانس کا نتیجہ ہے، یہاں تک کہ حدیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ بخار کا اثر تک انسان پر جہنم کی گرمی کا اثر ہے۔
جہنم اتنی بدترین جگہ ہے کہ نبی ﷺ اس سے پناہ مانگنے کی مستقل تعلیم فرماتے، اور فرماتے کے جہنمیوں کےلئے تو تباہی ہی تباہی ہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کی وسعتیں اور گہرائیاں نا قابل بیان ہیں۔تشریح
جہنم کی وسعتیں اور گہرائیاں۔ جب تمام مجرمین یعنی مشرک، کافر اور منافق جہنم میں جھونک دئیے جائیگےجن کی تعداد نا قابل بیان ہوگی اللہ تعالیٰ جہنم سے سوال کریں گے ، کیا تو بھر گئی؟ جہنم جواب دے گی اور لاؤ ۔(القرآن)
حدیث پاک میں آیا ہے کہ حشر کے میدان میں جہنم کو کھینچ کر لایا جائے گا، جہنم اتنی بڑی ہوگی کی اس کو ستر ہزار لگامیں لگی ہوں گی، اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے، گویا جہنم کو کھینچ کر لانے والے فرشتوں کی تعداد چار (۴ )ارب نود (۹۰) لاکھ ہوگی۔
حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ جہنم اتنی گہری ہے کہ ایک عظیم چٹان اوپری جانب سے جہنم میں لڑھکائی جائے تو وہ ستر سال تک گرتے رہے گی تب بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گی۔
اسی طرح بعض جہنمیوں کے عذاب سے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جہنم میں ایک آگ کا پہاڑ ’’صعود‘‘ نامی ہے، جس پر کافر ستر سال تک چڑھتا رہے گا اور پھر گر پڑے گا، اور پھر چڑھنا شروع کرے گا ایسے ہی ہمیشہ چلے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کے سات دروازے ہیں،ہر دروازہ سے مختلف مجرمین کو داخل کیا جائے گا۔تشریح
جہنم میں داخلہ کی نوعیت: جہنم کے سات دروازے ہیں، اور ہردروازہ مختلف مجرمین کےلئے مختص ہوگا، اور جہنمیوں کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی جانب ہنکایا جائے گا، جب جہنمی جہنم کے دروازے پر پہنچ جائیں گے جہنم کا دربان ان سے پوچھے گا کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں آج کے دن سے ڈراتے، وہ حسرت کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے، لیکن وہاں تو کافروں کے لئے عذاب مقدر ہو چکا ہوگا، ان سے کہا جائے گا چلو جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، یہی تمہارا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے، اور متکبرین کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہوگا ۔ جہنمیوں کو جب جہنم کی جانب ہانکا جائے گا وہ سخت پیاسے ہوں گے۔ اور جو لوگ بہت سخت مجرم ہوں گے انہیں جہنم میں منہ کے بل گھسیٹ کر جمع کیا جائے گا (القرآن)۔
گروہ در گروہ جہنمی جب جہنم میں جھونکے جا رہے ہوں گے، ہر نئے آنے والوں کو کہا جائے گا : جنوں اور انسانوں کے ان نافرمان گروہوں کے ساتھ تم بھی شامل ہو جاؤ، اور جب بھی کوئی گروہ جہنم میں داخل ہوگا اس سے پہلے داخل ہوچکا پہلا گروہ ان پر لعنت بھیجے گا(القرآن)۔
بڑے مجرمین جہنم میں پہلے داخل کئے جائیں گے، اور جب سب جمع ہو جائیں گےتو بعد والے کہیں گے ائے پروردگار انہیں لوگوں نے ہمیں بہکایا تھا انہیں دوگنا عذاب دیجئے، پہلے والے گروہ کہیں گے تمہیں ہم پر کوئی اونچا مقام یہاں حاصل نہیں ہوگا، چنانچہ سبھی کو ان کی کرنی بھگتنی ہوگی(القرآن)۔
جہنمی جب جہنم میں داخل کئے جائیں گے وہاں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی بلکہ کھلے لفظوں میں کہا جائے گا ، تم کوئی ایسے کارنامے انجام دے کر نہیں آئے ہو کہ تمہارا استقبال کیا جائے، بلکہ یہ تو تمہاری بداعمالیوں کی سزا کا برا ٹھکانہ ہے (القرآن)۔
سرکش مجرمین پر جہنم خود گھات لگائے بیٹھی ہوگی، اور وہ ان کا شکار کرے گی، اور کھینچ کھینچ کر انہیں جہنم میں جمع کرے گی (القرآن)۔
جہنمیوں کے جہنم میں داخلہ کی مذکورہ بالا کیفیت اور احوال نصوص قطعیہ سے اسی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ، ان کی تصدیق لازم ہے اور ان میں سے کسی بھی امر کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کی سزاؤوں کو جھیلنے کےلئے جہنمیوں کی جسمانی ساخت میں غیر معمولی تبدیلی کی جائے گی۔تشریح
جہنمیوں کی جسمانی ساخت:دنیا وی زندگی میں انسان کو جس طرح کا جسم حاصل ہے جہنم کے عذاب اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، اگر اسی ساخت پر وہ عذاب آزمائے جائیں تو یہ جسم باقی ہی نہ رہے، اس لئے جہنمیوں کو ان کے کرتوت کا مکمل بدلہ دینے کےلئے اللہ تعالیٰ جہنمیوں کی جسمانی ساخت میں غیر معمولی تبدیلی کریں گے۔
حدیث پاک کے مطابق :کافر کی جسمانی ساخت اس درجہ بڑھا دی جائے گی کہ ایک تیز رفتار گھوڑ سوار اس کے دو مونڈھوں کے درمیانی حصہ کو تین دن میں طے کر سکے گا۔ (یہ حدیث صحیح ہے )
جہنمیوں کی جسمانی سخت میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی تبدیلی کر دیں گے، یہ احادیث صحیحہ سے ثابت امرہے جس پر ایمان واجب ہے اور اس کا انکار سخت گناہ کا موجب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کی خاص سزا آگ ہوگی، جو جہنمیوں کو اوپر سے نیچے سے ہر جانب سے گھیرے گی، وہاں کا سایہ بھی آگ ہوگا، اور آگ پگھلا کر جہنمیوں پر انڈھیلی جائے گی۔تشریح
جہنم کی آگ اور سزائیں:جہنم کے عذاب ایسے سخت ہوں گے کہ انسان کی چاہے گا کسی اور کو ذبردستی فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑا سکتا ہو تو اس طرح نجات حاصل کرلے، خواہ وہ اس کی اولاد، یا بیوی، یا بھائی یا اس کا پورا کنبہ یا تمام دنیا والے ہی کیوں نہ ہوں، اگر ان سب کو کسی طرح فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑا سکتا ہو تو وہ ضرور چھڑانا چاہے گا(القرآن)۔
جہنم کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں نہایت شدید ترین ہوگی۔(القرآن)۔ وہ خالص شعلے ہوں گے جس میں کسی قسم کی آمیزش نہیں ہوگی، وہ آگ سر ، ہاتھ اور پاؤں کی کھال کھینچ لینے والی ہوگی، وہ آگ مجرموں کو خود بلائے گی اور ہر اس شخص کو جو حق بیچ کر اپنا پیٹ بھرتا تھا، اور مال کو جمع کرکر کے رکھتا تھا وہ آگ اس کو اپنی جانب کھینچے گی ۔ (القرآن)
حدیث پاک کے مطابق دنیا کی آگ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں انسٹھ درجہ ہلکی ہے جبکہ جہنم کی آگ انسٹھ گنا بڑھی ہوئی ہے۔
ایسی آگ میں مجرمین اور جھٹلانے والوں کو اور جو گمراہیوں اور شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے تھے جھونکا جائے گا ، ایسی آگ جو انہیں پوری طرح گھیرے ہوئے ہوگی، جس میں سے کوئی نکلنے کی سبیل نہیں ہوگی اور ان سے کہا جا ئے گا یہ ہے وہ آگ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (القرآن)
جہنم کی آگ مجرمین کو اوپر سے بھی گھیرے ہوئے ہوگی، اور نیچے سے بھی گھیرے ہوئے ہوگی ، اور مجرمین کے جسم ، چہروں اور انکی پیٹھ کو جلائے ڈال رہی ہوگی، وہ آگ کی زد میں پورے جسم کے ساتھ ہوں گے حتی کہ وہ اپنے چہروں اور پیٹھ کو بچا نہ سکیں گے، وہ آگ ان کے چہروں کو ایسے ڈھانک لے گی کہ اس کی سخت جلن کے اثر سے ان کے چہرے کی کال گر جائے گی اور دانت ظاہر ہو جائیں گے اور نیچے کے دانت اور نچلا جبڑا لٹک جائے گا، جبکہ اوپری دانتوں کی کھال کھنچ کر سر تک پہنچ جائے گی۔ (القرآن)
اس آگ میں مجرمین کو ان کے جرائم کے لحاظ سے مختلف ہیبتناک اور سخت ترین عذاب دئیے جائیں گے، سب سے بدترین حالت مشرکین کی ہوگی۔ یہ مشرکین اور وہ معبود جن کی وہ پرستش کرتے تھے خود جہنم کا ایندھن ہوں گے، اور جہنم کی آگ کے ساتھ خود بھی جلتے ہوں گے۔(القرآن)
یہ جہنم کی آگ ہمیشہ جلتی رہے گی، جب کبھی اس آگ میں کمی آئے گی اس کو دوبارہ بھڑکایا جائے گا۔ اس آگ کا ایندھن خود اس آگ میں سزاء پانے والے بھی بنائے جائیں گے، اور وہ معبود بھی جن کی وہ پرستش کرتے تھے(القرآن)۔
جہنم کی اندرونی آگ ایسی ہوگی جس میں بالکل دھواں نہ ہوگا، اور اوپری آگ سخت بھڑکتی ہوئی لپٹوں والی ہوگی (القرآن)۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ جہنم کی آگ کو ایک ہزار برس تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ بالکل سرخ ہوگئی۔ اس آگ کو پھر ایک ہزار برس تک دھکایا گیا جس سے وہ بالکل سفید ہوگئی۔ اور پھر اس آگ کو ایک ہزار برس تک دھکایا گیا جس سے وہ سخت سیاہ اور کالی پڑ گئی(اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ ہزار برس کے دورانیے دنیاوی پیمانہ کے سال کے حساب کے ہیں یا آخرت کے پیمانہ کے سال ہیں جہاں کا صرف ایک دن دنیا کے ہزار سال کا ہوتا ہے)۔
مجرموں سے کہا جائے گا چلو اس آگ کی طرف جس کو تم جھٹلاتے تھے، چلو اس تین شاخوں والے سایہ کی طرف ، یہ سایہ نہ تپش اور جلن سے بچائے گا نہ کوئی راحت دے گا ۔ وہاں ایسی آگ ہوگی جو بڑے بڑے محل جتنے شعلہ اور شرارے برسا رہی ہوگی ، اور جس سے ایسی لپٹیں اٹھ رہی ہوگی گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں(القرآن)۔
جہنم کی آگ کے نتیجہ میں شدید جھلسا دینے والی بھانپ پیدا ہوگی، یہ بھانپ مجرمین کا جسم یہاں تک کہ جلد کے اندر کلیجہ تک کو جلا ڈالے گی، وہ اس تکلیف سے بچاؤ کےلئے پانی کی جانب بھاگیں گے جبکہ وہ پانی خود بری طرح سے کھولتا ہوا ہوگا جس کو پی کر وہ مزید عذاب میں مبتلا ہوں گے،جہنمی اس تکلیف کی شدت سے بچنے کے لئے سائے کی جانب پڑھیں گے ، حالانکہ وہ سایہ خود انتہائی سیاہ اور انتہائی جھلسا دینے والا ہوگا جس میں انہیں کسی قسم کی ٹھنڈک و راحت نہیں ملے گی (القرآن)۔
جہنمیوں کو پگھلتی ہوئی آگ سے عذاب دیا جائے گا، سیال اور پگھلا ہوا تانبا جس کی سختی اور عذاب ناقابل بیان ہے جہنمیوں پر انڈھیلا جائے گا(القرآن)۔
جہنم میں کفار کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی ان کی جلد جل جائے گی ان کی جلد دوبارہ پہلے جیسی کر دی جائے گی تاکہ وہ دوبارہ اس جلنے والے کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں (القرآن)۔
جہنم کا ایک حصہ ایسا ہے جس کا نام ’’سقر‘‘ ہے، اس حصہ میں جن سرکشوں کو پھینکا جائے گا وہ ان کو جلا کر کوئلہ بنا ڈالے گا، اور ان کی جلد، گوشت، ہڈیاں سب کچھ ختم کر دے گا، اور پھر اس کو دوبارہ پہلی والی حالت میں لایا جائے گا اور پھر ویسا ہی عمل ہوگا(القرآن)۔
وہ لوگ جو شرک کا ارتکاب کریں ، اور نا حق کسی کا قتل کردیں، اور زناکاری میں مبتلا ہوں انہیں جہنم میں ایک ایسی وادی میں پھینکا جائے گا جس کانام ’’اثام‘‘ ہے(القرآن)۔
وہ لوگ جو نماز کو ضائع کرنے والے تھے اور دنیاوی شہوات میں مبتلا تھے انہیں جہنم کے ایک گڑھے ’’غی‘‘ میں پھینکا جائے گا، یہ جہنم کا ایک بہت ہی گہرا گڑھا ہے ، نہایت بدبودار ، جہاں جہنمیوں کے زخموں کا خون اور پیپ جمع ہوگا(القرآن)۔
وہ لوگ جو مال جمع کر کر کے رکھتے تھے اور ان جگہوں پر خرچ نہیں کرتے تھے جہاں اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اسی مال کو آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی کو ، ان کی پیٹھ کو اور ان کے بازووں کو چرکے لگائیں جائیں اور ساتھ ہی کہا جائے گا ،لو چکھو اس مال کو جمع کرنے کا مزہ ۔ (القرآن)
جہنمیوں کو پینے کےلئے سخت کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو ان کی آنتوں تک کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ اور اسی طرح انہیں پینے کےلئے انہیں کے زخمیوں /زخموں کا انتہائی بدبو دار دُھووَن اور پیپ دیا جائے گا، پیاس سے بلبلا کر وہ اس کے گھونٹ تو لیں گے لیکن اس کو نگل نہ سکیں گے، موت کے اسباب اور موت جیسی سختیاں ہر طرف سے انہیں گھریں گی لیکن ان کےلئے موت کہاں ، بس سخت ترین عذاب ان کا مقدر ہوگا۔ (القرآن)
وہ لوگ جو حق بات کو چھپا کر نا حق بات کو اللہ کے نام پر عام کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ معمولی دنیا کو حاصل کریں جہنم میں ان کو آگ کھانے کا عذاب دیا جائے گا اور وہاں وہ آگ کو اپنے پیٹوں میں بھریں گے۔ اسی طرح وہ لوگ جو دنیا میں یتیموں کا مال نا حق کھائیں گے انہیں بھی یہی عذاب دیا جائے گا کہ جہنم میں وہ آگ سے اپنے پیٹوں کو بھریں گے (القرآن)۔
مجرمین کو اس آگ کے عذاب میں جھونکنے کے بعد خواہ وہ اس پر صبر کریں یا بلبلاتے رہیں بہر حال انہیں اسی آگ اور عذاب میں ہمیشہ ہمیش رہنا ہے(القرآن)۔
عذاب کی یہ صورتیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، جن باتوں کو یہاں قرآن کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے وہ قطعی امور ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے، محض یہ گمان کرکے کہ اتنا سخت عذاب اللہ کیسے دے سکتا ہے اور ان قطعی نصوص میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے، اور وہ باتیں جو یہاں احادیث سے اضافی نقل کی گئی ہیں وہ بھی بر حق ہیں ان پر بھی ایمان واجب ہے اور ان کا انکار کرنا سخت گناہ کی بات ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کا کمترین عذاب یہ ہوگا کہ آگ کے جوتے پیر میں پہنائے جائیں گے جس سے اس عذاب کو جھیلنے والے کا دماغ ایسے کھولے گا جیسے آگ پر ہانڈی کھولتی ہے۔تشریح
کمترین عذاب والا جہنمی:جہنم میں جس شخص کو سب سے کمترین عذاب دیا جائے گااس کے پیروں کے نیچے دو انگارے رکھے جائیں گے لیکن اس کی آگ اتنی شدید ہوگی کہ اس کے اثر سے دماغ ایسے کھولے گا جیسے ہانڈی پکتی ہے دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنمیوں کو پینے کےلئے کھولتا ہوا پانی، اور خود جہنمیوں کے زخموں کا دھون اور پیپ دیا جائے گا، جس کو نگل بھی نہیں سکیں گے، اور اگر نگل لیں تو اس سے انکی آنتیں تک کٹ جائیں گی۔تشریح
جہنم میں پینے کی چیز:مذکورہ بالا عذاب کے علاوہ جہنمیوں کےلئے اور بھی سخت سزائیں ہوگی، چنانچہ جہنم میں کھولتے ہوئے پانی کے چشمے ہوں گے اور جہنمی جب پیاس کی شدت سے پانی مانگیں گے ان کو انہیں چشموں سے پلایا جائے گا، یہ کھولتا ہوا پانی ایسے ہوگا جیسے کھولتا ہوا زیتون کا تیل ہوتا ہے جب وہ اسے پینے کے لئے چہرے کے قریب کریں گے اس کی تپش سے ان کے چہرہ کی کھال گر پڑے گی۔اور اس کے باوجود شدت طلب کی وجہ سے وہ جب اس کھولتے ہوئے پانی کو پییں گے تو ان کی آنتیں تک اس سے کٹ جائیں گی(القرآن)۔
اتنا ہی نہیں جہنمیوں کو جو عذاب دیا جائے گا اس کے نتیجہ میں ان کے زخم ہو جائیں گے اور اس سے خون اور پیپ بہہ کر جہنم کے گڑھوں میں جمع ہوگا اور جہنمیوں کو پینے کےلئے ان گڑھوں سے انتہائی بدبو دار پیپ دیا جائے گا، پیاس سے بلبلا کر وہ اس کے گھونٹ تو لیں گے لیکن اس کو نگل نہ سکیں گے، موت کے اسباب اور موت کی جیسی سختیاں ہر طرف سے انہیں گھریں گی لیکن ان کےلئے موت کہاں ، بس سخت ترین عذاب ان کا مقدر ہوگا۔ (القرآن)
یہ ساری سزائیں اہل جہنم کا مقدر ہوں گی جو قرآن پاک سے قطعی طور پر ثابت ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے کہ اہل جہنم کے ساتھ ایسا یقینی طور پر ہوگا اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنمیوں کا کھانا کانٹے دار درخت زقوم ہوگا، جس کو وہ کھا نہیں سکیں گے، اور اگر وہ اس کو کھالیں تو اس سے نہ ان کی بھوک مٹے گی اور نہ ان کو اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔تشریح
جہنمیوں کا کھانا:جہنمیوں کو کانٹے دار جھاڑ جھنکاڑ کھانے کو ملے گاجو نہ ان کی بھوک مٹاسکے گا اور نہ ہی ان کو کوئی اور فائدہ دے گا۔(القرآن)وہ کوئی اور کھانا چاہیں گے تو انہیں ایک دوسرا کھانا دیا جائے گا لیکن وہ بھی ان کے حلق میں اٹک جائے گا جس کو وہ نہ اگل سکیں گے نہ نگل سکیں گے۔ (القرآن)
جہنمیوں کا ایک کھانا زقّوم کادرخت ہوگا، یہ درخت جہنم کی جڑ اور نچلے حصہ سے اگا ہوا ہوگا، اس کے پھل ایسے کریہہ المنظر ہوں گے جیسے سانپ کے پھن ہوتے ہیں، جہنمی یہ پھل کھائیں گے اور اسی سے اپنے پیٹ بھریں گے، اور اس پر انہیں پینے کےلئے صرف کھولتا ہوا پانی ملے گا (القرآن)۔
یہ مجرمین کا جہنم میں کھانا ہوگا، یہ کھانا بھی ان کے پیٹ میں آگ پر پکے ہوئے تیل کی طرح کھولے گا، پھر اس کے اوپر سے ان جہنمیوں کے سروں پر بھی کھولتا ہوا پانی انڈھیلا جائے گا(القرآن)۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ زقوم کا اگر ایک قطرہ بھی دنیا میں ڈال دیا جائے تو پوری دنیا والوں کی زندگی اجیرن ہو جائے ، پھر ان کے بارے میں غور کرو جن کا کھانا یہی درخت اور اس کے پھل ہوں گے۔
اسی طرح جہنمیوں کو کھانے کےلئے خون اور پیپ دیا جائے گا جو ان کے زخموں سے بہہ کر جمع ہوا ہوگا۔(القرآن)
عذاب کی یہ صورتیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، جن باتوں کو یہاں قرآن کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے وہ قطعی امور ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے، اور ان کا انکار کرنا کفر ہے، اور وہ باتیں جو یہاں احادیث سے اضافی نقل کی گئی ہیں وہ بھی بر حق ہیں ان پر بھی ایمان واجب ہے اور ان کا انکار کرنا سخت گناہ کی بات ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنمیوں کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا، جو انہیں جھلسا دے گا۔تشریح
جہنمیوں کا لباس: روز قیامت مجرمین کو ان کے جرائم کی مناسبت سے الگ الگ گروہ کی شکل میں جمع کیا جائے گا، اور وہ سب بیڑیوں میں بندے ہوئے ہوں گے، ان کا لباس اس وقت قطران/تار کول کا ہوگا، جس کو آگ جلد لپٹ جاتی ہے، اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانکی ہوئی ہوگی۔ (القرآن)
اسی طرح کافروں کو راست آگ کا ہی لباس پہنایا جائے گا، اور ان کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی انڈھیلا جائے گا، جس سے ان کی جلد اور جو کچھ ان کے پیٹ میں ہوگا گل کر نکل جائے گا، ان کےلئے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے جب وہ اس سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں دھکیل دیا جائے گا اور کہا جائے گا اس جلانے والے عذاب کو چکھو۔(القرآن)
جہنم کے یہ عذاب قطعی اور یقینی طور پر اللہ کے کلام سے ثابت ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنمی آپس میں ایک دوسرےسے جھگڑے کریں گے، اور وہ جو دوسروں کی وجہ سے گمراہ ہوئے تھے جہنم میں آپس میں ایک دوسرے الجھیں گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔تشریح
جہنم میں جھگڑے:جہنمی آپس میں جھگڑے کریں گے، خاص کر وہ لوگ جو کسی اور کے ذریعہ گمراہی کے راستہ پر پڑے ہوں گے وہ اپنے گمراہ کرنے والوں سے الجھیں گے، چنانچہ بڑے مجرمین جہنم میں پہنچائے جانے کے بعد ان کےپیچھے ان کی پیروی کرنے والوں کی باری ہوگی اور جب وہ جہنم میں داخل ہوں گے وہ کہیں گے ائے پروردگار یہی ہیں جنہوں نے ہمیں بہکایا تھا (القرآن)۔
جہنمیوں کو جہنم رسید کرتے وقت پوچھا جائے گا کہ جن کی تم پرستش کرتے تھے وہ کہاں گم ہو گئے، دیکھو کہ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں، یا پھر یہ دیکھو کہ کہیں انہیں ہی تمہاری مدد کی ضرورت تو نہیں ہے، وہ مجرمین آپس میں لڑ پڑیں گے، اور کہیں گے واقعی ہم گمراہی پر تھے، اور کہیں گے کہ ہمیں تو مجرموں نے ہی بہکایا ہے(القرآن)۔
جب ایک کے بعد دوسرا مجرموں کا گروہ جہنم میں داخل ہوگا تو پہلے والے کہیں گے لو تم بھی آگئے ، تم پر خدا کی مار ہو، وہ آنے والے جواب میں کہیں گے اصل میں تو تم پر خدا کی مار ہو، تمہی تو ہو جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے، پھر کہیں گے: پروردگار ! جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے ان کو دوگنا عذاب دیجئے، پھر وہ اپنے اشرار ساتھیوں کو ڈھونڈیں گے، اور ان کے ساتھ بھی الجھیں گے، اہل جہنم کا اس طرح جھگڑا کرنا بالکل بر حق ہے ، جہنم میں ایسے ہی پیش آئے گا (القرآن)۔
جہنمی جہنم میں جب سخت عذاب سے دوچار ہوں گے تب حسرت کریں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی، اور کہیں گے :ائے پروردگار ہم نے تو ہمارے آقاؤں کی پیروی کی تھی اور انہوں نے ہمیں راہ حق سے گمراہ کردیا، ائے پروردگار انہیں دوگنا عذاب دیجئے اور ان پر سخت لعنت بھیجئے (القرآن)۔
اسی طرح کفار جہنم میں باری تعالیٰ سے کہیں گے: پروردگار ! ہمیں ان جنوں اور انسانوں کو دکھائیے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ہم انہیں اپنے پیروں سے روندیں گے (القرآن)۔
ایسا بھی ہوگا کہ جہنم میں مجرمین الجھ پڑیں گے اور دنیا میں جو کمزور قسم کے متبعین تھے وہ اپنے بڑے متکبرین سے کہیں گے ہم تو تمہارے پیچھے چلتے تھے، تو کیا آج تم ہمیں اس عذاب سے تھوڑی بھی راحت نہیں دلا سکتے، وہ متکبرین کہیں گے ہم سب کا ایک ہی انجام ہوا ہے، اللہ اپنے بندوں میں فیصلہ سے فارغ ہو چکے ہیں۔ (القرآن) یعنی اب کوئی تبدیلی بھی نہیں ہو سکتی اور ایسے ہی جو فیصلہ تمہارے لئےہوا ہے وہ اللہ نے کیا ہے اس لئے اس عذاب کے تم برابر کے مستحق ہو۔
کفار دنیا میں ان کے پیچھے چلنے والوں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پیچھے چلتے رہو اگر کچھ ہوگا تو تمہارا بوجھ بھی ہم اٹھا لیں گے، لیکن قیامت کے دن وہ ان کا بوجھ تو نہیں اٹھا سکیں گے ہاں البتہ اپنے جرم کے ساتھ دوسروں کو بہکانے کے جرم کا بوجھ ضرور اٹھائیں گے (القرآن)۔
جہنم میں جہنمیوں کے یہ جھگڑے ہونا یقینی ہیں، جو اللہ نے اپنے علم کی بنیاد پر بیان کئے ہیں، یہ نص قطعی قرآن مجید سے ثابت ہے اس لئے ان کی تصدیق لازمی ہے، اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنم کے فرشتے بڑے سخت اور تند خو ہوں گے، ان میں کوئی رحم نہیں ہوگا، وہ جہنمیوں سے بڑی سختی سے پیش آئیں گے، ان کے بڑے افسروں کی تعداد انیس ہوگی، ہاں باقیوں کی اصل تعداد نا قابل بیان ہے ۔تشریح
عقیدہ:
جہنم کی سزاؤوں سے پریشان حال جہنمی بچاؤ کی کوئی صورت نہ دیکھ کر اصحاب اعراف اور جنتیوں سے فریاد کریں گے، اہل جنت سے کہیں گے کہ کچھ کھانے پینے کو انہیں دیں، لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوگی۔تشریح
جہنمیوں کی جنتیوں سے فریاد: اللہ تعالیٰ اہل جنت کو موقع دیں گے کہ وہ کافروں اور متکبرین کا انجام دیکھیں، کہ وہ کفار جو مؤمنین کا دنیا میں مذاق اڑاتے تھے اور انہیں اذیتیں دیتے تھے جہنم میں ان کے انجام کو دیکھیں۔ اور جہنمی جہنم کے عذاب کی سختیوں اور بھوک اور پیاس کی شدت سے بلبلاتے ہوئے ان سے فریادیں کریں گے کہ اللہ نے انہیں جو نعمتیں دی ہیں اس میں کچھ وہ انہیں دیں، وہ وجواب میں کہیں گے اللہ تعالیٰ نے جنت کے پانی اور اس رزق کو کافروں کےلئے حرام کردیا ہے، جنہوں نے دین کو کھلواڑ بنالیا تھا، اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ میں متبلا کررکھا تھا۔ اہل جنت جہنمیوں کی یہ حالت دیکھ کر ان پر ایسے ہی ہنسیں گے جیسے کفار دنیا میں ان پر ہنستے تھے، انہیں دکھا دیا جائے گا کہ کفار کو ان کے کئے کی سزا مل گئی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہنمی بہت حسرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے فریادیں کریں گے کہ انہیں ایک موقع دیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں جھڑک دیں گے کہ انہیں پورے موقع دئیے گئے اور پھر دوبارہ وہ وہی کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں، اور ان کی زبانوں پر مہر لگادی جائے گی، اور وہ ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے۔تشریح
جہنمیوں کی اللہ سے فریادیں: قیامت کے دن مجرمین جب عذاب کی صورت دیکھیں گے اور دیکھیں گے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے اور اللہ تعالیٰ سزاء دینے کے معاملہ میں نہایت سخت ہے، اور عذاب سے بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، کوئی مدد گار نہیں ہے، وہ دیکھیں گے کہ خود وہ لوگ جن کی وہ پیروی کرتے تھے وہ پیچھا چھڑا کر بھاگ رہے ہیں وہ عذاب کو دیکھیں گے اور اندازہ کرلیں گے تمام بچاؤ کے اسباب ختم ہوچکے ہیں، وہ کہیں گے کہ کاش کہ ہمیں ایک اور موقع ملتا تو ہم بھی ان سے ایسے ہی پیچھا چھڑائیں جیسے کہ یہ ہم سے پیچھا چھڑا رہے ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو ایسے ہی حسرت کی شکل میں دکھائے گا، لیکن وہاں ان کےلئے جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی (القرآن)۔
مجرمین کو جب جہنم میں پھینک دیا جائے گا، اور شیطان کا پورا لشکر بھی ان کے ساتھ ہوگا، وہاں وہ آپس میں لڑ پڑیں گے، وہاں انہیں احساس ہوگا کہ جس شیطان اور اس کے گرگوں نے انہیں بہکایا تھا وہ ان کے ہمدرد نہیں بلکہ واقعی مجرم تھے، لیکن وہاں ان کی کوئی شفاعت کرنے والا بھی نہیں ہوگا، اور کوئی دوست اور یار بھی نہیں ہوگا، وہاں وہ حسرت کے ساتھ کہیں گے: کاش ہمیں ایک اور موقع ملتا تو ہم بھی مؤمن ہوتے(القرآن)۔
جب مجرمین کےلئے عذاب کا فیصلہ ہو جائے گا تب ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا، اس وقت مجرمین حسرت کریں گے کہ انہوں نے کیسی سرکشی اور حد سے زیادتی کی ہے، وہ اس وقت کہیں گے کہ اگر ایک موقع اور مل جائے تو وہ یقیناً مخلص فرماں بردار بن جائیں گے، لیکن اس وقت ان سے کہا جائے گا، ہمارا پیغام اور دلائل تو تمہارے پاس آتے رہے ہیں لیکن تم نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کی روش اختیار کی، اور کافر ہی رہے (یعنی پھر ایک اور موقع کا کیا مطلب، پھر کوئی موقع انہیں نہیں ملے گا) اور ان جھٹلانے والوں کے چہروں پر سیاہی طاری ہو جائے گی(القرآن)۔
جہنم کے عذاب میں جلتے ہوئے مجرمین اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور فریاد کریں گے کہ کیا اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت ہے (القرآن)۔
اور جہنمی جہنم کے عذاب کو جھیلتے ھوئے بار بار فریاد کرتے ھوئے کہیں گے کہ پروردگار ہماری بد بختی ہم پر غالب آگئی تھی، یقیناً ہم گمراہ تھے، ائے پروردگار ہمیں اس عذاب سے نجات دے دیجئے، اگر ہم دوبارہ مجرم بنیں تو یقیناً ہم ظالم ہوں گے، اللہ تعالیٰ انہیں دھتکار دیں گے کہ پڑے رہو اسی جہنم میں ذلیل ہو کر اور مجھ سے بات بھی نہ کرو، میرے جو بندے دنیا میں کہتے تھے ائے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے ہماری بخشش فرما اور رحم فرما آپ بہترین رحم کرنے والے ہیں، اور تم ان ایمان والوں کا مذاق اڑاتے تھے یہاں تک کہ تمہاری اس ذلیل حرکت نے تمہیں میری یاد سے غافل کردیا اور تم ان کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا کرتے تھے، آج میں نے انہیں اسی صبر کا بدلہ دیا ہے کہ وہ کامیاب ہیں اور آج وہ دنیا کی ان سختیوں کو ایک آدھ دن کی سختی سمجھتے ہیں(القرآن)۔
یہ سارے حقائق اور واقعات قرآن مجید سے قطعی طور پر ثابت ہیں، جو آخرت میں یقیناً پیش آئیں گے، جن پر ایمان لازم ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔