امن کا خواب
تحریر یاسر محمد خان
’’جولین اسانج‘‘ وکی لیکس کا بانی ہے۔ اُس کے مسلسل انکشافات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ عالمی طاقتوں کے گھنائونے کردار سے پردہ نوچ لیا۔ وہ سب سازشیں بے نقاب ہوگئیں جنہیں بڑی طاقتوں نے پروان چڑھایا تھا۔ ناقابلِ تردید ثبوت فراہم ہوگئے کہ کس طرح عالمی امن کو تاراج کرنے کے شیطانی منصوبے بنائے گئے؟ اُن کی فنڈنگ کس طرح ہوئی؟ ایجنٹ کس طرح ہائر ہوئے؟ اور یوں ملکوں میں تباہی اور بربادی پھیلادی گئی۔ وکی لیکس کا یہ انکشاف سب سے ہولناک تھا کہ امریکا اور اُس کے اتحادی مشرق وسطیٰ میں امن کو کس طرح تاراج کرتے ہیں؟ اسرائیل کو مالی اور فوجی مدد کس طرح دی جاتی ہے؟ طاقتور عیسائی ملکوں کی ایجنسیاں کس طرح موساد کی پشت بان بنی ہوئی ہیں؟ نائن الیون کے ڈرامے پر مسلم دنیا کو کس طرح شکار کیا گیا؟ بش اور بلیئر نے یہودیوں کو ملاکر عراق کو بربادی کی طرف کیسے دھکیلا؟ افغانستان کا آگے بڑھتا سفر روک کر اُسے واپس بدامنی کی کھائی میں کیسے دھکیل دیا گیا؟
٭ شاہ سلیمان اور طیب اردگان جیسی شخصیات ملکوں میں پھیلنے والے بگاڑ کو سدھار میں بدل سکتی ہیں۔ یہ انتہائی قابل احترام ہستیاں بے پناہ اثر و رسوخ کی حامل ہیں۔ ٭
جولین اسانج نے پاکستان کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ سے بھی پردہ اُٹھایا اور اس بے چہرہ جنگ سے ملک کے زوال کی پوری طرح نقشہ گری کی۔ وہ بتاتا ہے ’’عرب بہار‘‘ کی صورت گری کس طرح وئی؟ تیونس، مصر، شام، لیبیا، یمن میں عالمی طاقتوں نے کس طرح بساط پر مہرے چلے؟ تیونس میں پائیدار امن ایک خواب بن کر رہ گیا۔ مصر میں ڈاکٹر مرسی کے اقتدار میں آنے سے امریکا کی پلاننگ فیل ہوگئی۔ کس طرح جمہوری حکومت کو جبری رخصت کیا گیا۔ شام میں ہولناک قتل و غارت کس طرح سے عالمی طاقتوں کے ایما پر پروان چڑھی؟ ان سب انکشافات میں سے اہم ترین یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے خوابیدہ فرقہ بندی کو کس طرح بیدار کیا جائے کہ اُس کے دیوقامت قدموں تلے سارے خطے کا امن مستقل طور پر پامال ہوجائے۔ آج دہائیوں تک پرسکون رہنے والے ملکوں میں حالات کو سازشی انداز میں کنٹرول سے باہر کیا جارہا ہے۔ یہودی میڈیا پہلے ایک عفریت بناتا ہے۔ پھر اپنا ہر جرم اُس کے سرتھوپ دیتا ہے۔ سارے کا سارا مشرق وسطیٰ ہولناک کرب سے گزر رہا ہے۔ فلسطین سے لبنان تک، لیبیا سے تیونس اور مصر تک، شام سے یمن تک ایک مسلسل عذاب اور آشوب دیکھنے میں آرہا ہے۔ افریقہ میں بھی جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، انہیں قدم قدم پر انہی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے۔ نائیجیریا جیسے ملک میں عیسائیوں نے انہیں اپنے ہی ملک میں اچھوت بنارکھا ہے۔ ایشیا میں فلپائن کے مسلمان اپنے تشخص کی جنگ لڑرہے ہیں۔ برما میں لاکھوں مسلمانوں کے لیے اُن کی سرزمین پر کوئی جائے امان نہیں رہی۔ افغانستان میں طالبان کی بڑی طاقت کو اقتدار کے دروازے سے باہر دھکیل کر خانہ جنگی کی فضا بنادی گئی ہے۔ افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد سینکڑوں طالبان کو قتل کیا جاچکا ہے۔ یوں اس ملک میں آنے والے دنوں مزید کشت و خون ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان کے تین صوبوں میں جنگ کی سی صورتحال درپیش ہے۔ کے پی کے میں اب نسبتاً امن ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو بھارتی اسلحہ اور امداد کے ذریعے مضبوط کیا جارہا ہے۔ سندھ میں را نے نقدی اور اسلحہ کے ذریعے جو سازشیں کیں وہ بے نقاب ہوئے جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور ملائیشیا جیسے ملکوں کو چھوڑ کے باقی مسلم دنیا میں امن ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
سعودی عرب جیسے پرامن ملک میں مئی کے مہینے میں دو بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں۔بحرین میں بم بنانے کے مواد کا ایک بڑا ذخیرہ پکڑا گیا ہے۔ یہاں سے بم سعودی عرب پہنچائے جانے تھے اور وہاں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا ایک منصوبہ تکمیل کے مراحل میں تھا۔ یمن سے متصل سعودی عرب کی سرحد پر آرام و چین مکمل طور پر غارت ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کویت سے تیونس تک پھیل گئی ہے۔26 جون کو کویت میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکہ ہوا۔ کویت جیسے پرامن ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی نے اس کی ہولناکیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ دوسرے واقعے میں 26 جون کو ہی تیونس کے سیاحتی مقام سوستہ میں مسلح افراد کے ایک جھتے نے ساحل سمندر پر واقع ہوٹلوں پر حملہ کردیا۔ چن چن کر سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ اس دہشت گردی کے بعد ہزاروں غیرملکی سیاح تیونس سے نکل گئے ہیں۔ یوں ملک کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی پر بھاری زد لگی ہے دہشت گردی کی اس لہر کے بعد مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ تیونس 2010ء کے بعد سے کبھی نارمل ملک نہیں بن پایا۔ یہاں عوامی لیڈر شپ کے نہ ابھرنے سے ایک خلا پیدا ہوا جسے موقع شناسوں نے بھرنے کی کوشش کی۔ یوں داخلی بے چینی اور بدامنی نے تیونس کو مستقل طور پر ایک انتشار کا شکار ملک بنادیا۔
مصر نے حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد ڈاکٹر مرسی کی صورت سکون و قرار کے چند ماہ دیکھے۔ ملک کی ترقی کا سفر شروع ہوگیا۔ امید کی جارہی تھی کہ مصر تمام مسلم دنیا کے سرکردہ ملکوں میں شامل ہونے جارہا ہے۔ اخوان المسلمون نے عوامی فلاح کی پالیسیاں بنائیں اور بیرون ملک بھی مصر کے امیج کو بہت بہتر بنایا۔ جنرل سیسی نے امریکی آشیرباد پر سارا دفتر لپیٹ دیا۔ مصر میں بدترین ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے ڈاکٹر مرسی کے نام لیوائوں کو مارا گیا۔ مظاہروں پر اندھی فائرنگ کی گئی۔ ایک مضحکہ خیز مقدمے کے بعد مصر کے
منتخب لیڈر کو پھانس کی سزا سنادی گئی ہے۔ اگر اس سزا پر عملدرآمد ہوتا ہے تو مصر میں دہائیوں تک امن ہونے کا خواب پورا نہ ہوپائے گا۔ لیبیا میں معمر قذافی کی جبری رخصتی پر استعمار کی طاقتوں نے بڑا جشن منایا۔ ملک میں داخلی انتشار اس درجہ پھیلا کہ امریکی سفارتخانہ نذر آتش اور سفیر زندہ جل گیا۔ تب سے یہ سفید فام گیدڑ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک گروہوں میں بٹ کر سول وار لڑے جارہا ہے۔ ایک ہفتے کے امن کے بعد چار ہفتے لڑائی مار کٹائی میں گزرتے ہیں۔ لیبیا کی اکانومی جو کبھی خاصی مضبوط تھی، سخت عدم استحکام کا شکار ہوگئی ہے۔ سارا کارسرکار غارت ہوگیا ہے۔ شام میں بشار الاسد نے اپنے عوام کے خلاف خطرناک کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ ملک پچھلے 3 سالوں سے جنگ کی بھٹی بنا ہوا ہے۔
اکانومی مکمل طور پر بیٹھ گئی ہے۔ عراق صدام حسین کے بعد کبھی امن نہ پاسکا۔ امریکیوں نے یہاں تفرقہ بازی کا وہ دائو چلا کہ اب عراق 3 مختلف گروہوں میں بٹ کر جنگ و جدل کا استعارہ بن گیا ہے۔ صدام کے حمایت، اُس کے مخالف اور کرد آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہوئے جارہے ہیں۔ یمن جو علاقے کے غریب ملکوں میں شمار ہوتا تھا، غریب تر ہوچکا ہے۔ حوثی باغیوں نے یمن کی منتخب حکومت کا دفتر لپیٹ کر اسے خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ کویت اور قطر جیسے متمول ملکوں پر بھی سارے مڈل ایسٹ میں پھیلے تاریکی کے سائے پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب جو سب اسلامی ملکوں کے سر کا تاج ہے، اس پر بھی دہشت گردی کا عفریت حملہ آور ہوگیا ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا مشرق وسطیٰ شدید ترین بدامنی کا شکار ہے۔
ایسی صورتحال میں ساری اسلامی دنیا کو اپنا سرگرم رول ادا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب کے شہادے ولید بن طلال نے اپنی ساری دولت جو 32 ارب ڈالرز بنتے ہیں، انسانی فلاح کے لیے مختص کردی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی دنیا تخلیق کی جائے جس کی بنیاد رواداری ہو، باہمی مناشقت نہ ہو۔ اسلامی دنیا میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں جن کو خدا نے بے انتہا نواز رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں کے حکمران اور سرکردہ لیڈر نہایت متمول لوگ ہیں۔ کئی شخصیات کے پاس اس قدر مال و دولت ہے کہ قارون کے خزانوں کی یادتازہ ہوجاتی ہے یا الف لیلوی کہانیوں کے امیر ترین کردار ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ ان سب کو گہری دردمندی سے مسلم امت کے زخموں پر مرہم لگانا چاہیے۔ جہاں جہاں مسلمان بدحال ہیں ان کی مدد کو پہنچنا چاہیے۔ بے روزگار، غریب اور قلاش مسلمان دہشت گردوں کے گروہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اُن کو واپس لانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ اسلامی دنیا کی ایک بڑی انٹیلی جنس ایجنسی بنائی جاسکتی ہے جو امریکا، اسرائیل اور بھارت کے واروں کا توڑ کرسکے۔ شاہ سلیمان اور طیب اردگان جیسی شخصیات ملکوں میں پھیلنے والے بگاڑ کو سدھار میں بدل سکتی ہیں۔ یہ انتہائی قابل احترام ہستیاں بے پناہ اثر و رسوخ کی حامل ہیں۔ یہ سب سے پہلے مشرق وسطیٰ میں خلفشار کا شکار ملکوں میں عوامی تائید کی حامل لیڈر شپ لائیں۔ فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے والی طاقتوں کو ایکسپوز کریں۔ عیسائیوں اور یہودیوں کا اثرو رسوخ ان ملکوں میں کم کیا جائے۔ ان ملکوں میں امن و قرار کی فضا قائم ہو۔ بندوق پستول کی جگہ ہل اور بیج لے لیں۔ تعلیم و روزگار کا جام پہیہ آگے کی طرف رواں دواں ہو۔ عبادت گاہیں صحیح معنوں میں نور بانٹنے کے مراکز ہوں۔ سعودی عرب اور ترکی کی عالمی طاقتوں کو دو ٹوک الفاظ میں بتادیں کہ جب تک وہ مسلمانوں پر ظلم کرتے رہیں گے، اسرائیل کی پیٹھ تھپکتے رہیں گے، دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوپائے گی۔ فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کے سارے مسائل کی ماں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن مسلمان ملکوں میں بھلا جمہوریت نہیں ہے، معاشی رفتار تیز ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہے۔ غربت اور بے روزگاری نہیں ہے۔ اُن ملکوں میں امن و امان بہت بہتر ہے۔ بعض جمہوری مسلمان ملکوں میں غربت و افلاس کی چڑیل نے بے انتہا بچے جن رکھے ہیں۔ جن معاشروں میں بے انصافی ہے، حکومتیں امریکی آشیربادوں پر قائم ہیں۔ ملک کی باری اکثریت کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں مصر اور افغانستان کی طرح قیام امن ناممکن ہوگیا ہے۔
ایٹمی پاکستان بھی مشرق وسطیٰ میں امن کے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی لیڈر وہ ہیں جو ترکی کی خاتون اول کا ہار چرالیتے ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آنے والا یہ تحفہ بھی اچک کر لے جاتے ہیں۔ ایسے بے مہر لیڈروں سے ساری مسلم امت کی خیرخواہی کی امید کیسے رکھی جائے؟ جنہوں نے اہل پاکستان کے کاندھوں پر دکھوں اور تکلیفوں کا بھاری پشتارہ لاد دیا ہے۔ ہمارے آرمی چیف نے کے پی کے میں امن قائم کیا ہے۔ دہشت گردی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کراچی کے معاملات سدھار کی طرف رواں دواں ہیں۔ بلوچستان میں را کی کارروائیوں کے آگے فولادی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ آرمی چیف کو مشرق وسطیٰ میں بہتے خون مسلم کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے پاکستان ساری اسلامی دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی فوج ساری مسلم دنیا میں سب سے زیادہ تربیت یافتہ ہے۔ یہ دشمنوں کی سازشوں کا توڑ کرنا جانتی ہے۔ اگر ہمارے بہترین فوجی دماغ اپنی توانائیوں کا تھوڑا سا ذخیرہ مشرق وسطیٰ کے لیے وقف کردیں تو وہاں سے ساری طاغوتی سازشوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ورق ورق بکھری ہوئی امت کی مضبوط شیرازہ بندی ہوسکتی ہے۔ صحرائوں کی ریت سے دوبارہ لالۂ صحرا پیدا ہوسکتے ہیں۔