نماز کا بیان – سبق نمبر 12:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: « كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ حَتَّى يَقُومَ. (رواه الترمذى والنسائى)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب پہلی دو رکعتوں پر بیٹھتے تھے (یعنی قعدہ اولیٰ فرماتے تھے تو آپ جلدی کرتے تھے) جیسے کہ آپ تپتے پتھروں پر بیٹھتے ہیں ، یہاں تک کہ تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی)
حضور ﷺ کے اس دوامی طرز عمل سے یہ سمجھا گیا ہے کہ قعدہ اولیٰ میں صرف تشہد پڑھ کے جلدی سے کھڑا ہو جانا چاہئے۔
8۔ پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنا۔ ہمارے فقہاء احناف کے نزدیک دونوں قعدوں میں تشہد یعنی التحیات للہ سے عبدہ ورسولہ تک پڑھنا واجب ہے چاہے کوئی بھی نماز ہو۔ البتہ چار رکعات میں پہلا قعدہ واجب اور دوسرا قعدہ فرض ہے
9۔ تشہد پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے فورًا کھڑا ہونا۔ چار یا تین رکعات والی فرض نماز کے پہلے قعدے میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھے بغیر فوراً تیسری رکعت کے لیے اٹھنا لازم ہے، لہٰذا اگر بھولے سے درود شریف شروع کردیا تو یاد آتے ہی اسے چھوڑ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجانا چاہیے اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا چاہیے ؛ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرض نماز کے قعدہ اولیٰ میں درود شریف ثابت نہیں ہے، اہلِ علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں :
اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، البتہ سننِ غیر مؤکدہ کے قعدہ اولی میں تشہد کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ سکتے ہیں ، یہ پڑھنا لازمی نہیں ، مستحب ہے۔ جب کہ سننِ مؤکدہ (مثلاً ظہر اور جمعہ سے پہلے والی سنن) اور وتر کا وہی حکم ہے جو فرض نماز کا ہے۔
10۔ اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ کے ساتھ نماز ختم کرنا۔ نماز کے واجبات میں سے ہے۔ اوراس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ کامل اور صاف طریقہ سے السلام علیکم ورحمۃ ﷲ کہے، اگر السلام علیکم کے بجائے سلام علیکم کہے گا تو سنت کو ترک کرنے والا ہوگا اگرچہ نماز ہوجائے گی، لیکن اگر ایسا کرنے والا اسی پر مصر ہے تو گنہگار بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ لفظ السلام کے چھوٹ جانے سے نماز اپنے وقت کے اندر واجب الاعادہ ہے۔ اگر وقت کے اندر اندر نماز نہیں لوٹائی گئی تو اس کے بعد اُسی نماز کو دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں ہے،
11۔ نمازِ وتر میں قنوت کے لیے تکبیر کہنا اور دعائے قنوت پڑھنا یعنی اور مخصوص دعا « اللهم انا نستعینک …الخ »پڑھنا سنت ہے، لہذا اگر کوشش کے باوجود دعائے قنوت یاد نہ ہو تو «ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة وقنا عذاب النار»پڑھ سکتے ہیں ، (لیکن دعائے قنوت یاد کرنے کی کوشش جاری رکھے اور دعا یاد ہوتے ہی دعائے قنوت پڑھنے کا اہتمام کرے، ) البتہ اگر کوئی بھی دعا نہ پڑھی تو قصداً ایسا کرنے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی اور بھول کر چھوڑ دینے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہوگا۔
بہرحال جو بھی دعائے قنوت احادیث سے ثابت ہو ہم وتر کی آخری رکعت میں پڑھ سکتے ہیں ۔ مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ دعائے قنوت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ یعنی آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک سے رائج ہے۔ نماز وتر واجب ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول ہے۔
12۔ دونوں عیدوں میں زائد تکبیریں کہنا۔ عید الفطر اور عید الأضحیٰ کی دو رکعات نماز جو چھہ زائد تکبیرات سے ادا کی جاتی ہے . پہلی رکعت میں ثنا کے بعد قرأت سے پہلے تین (٣) زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں ، اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین (٣) زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں واجب ہیں ۔
13۔ عید کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیرکہنا:
اگرعید کی نمازمیں دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیرچھوڑدی توسجدہ سہو واجب ہوگا، اس لیے کہ یہ(دوسرے رکوع کی تکبیر)عید کی تکبیرات واجبہ کے ضمن میں واجب تھی اس لئے امام اخیر میں سجدہ سہو کرلے، اور اگر لوگوں کی کثرت ہے، مجمع زیادہ ہے، تو انتشار اور گڑبڑ ہوجانے کے خوف سے سجدہ سہو معاف ہے، سجدہ سہو کے بغیر نماز ہوجائے گی۔، اورگرمقتدیوں کی تشویش کااندیشہ نہ ہومثلاً جماعت مختصرہے اورتمام لوگوں کوسجدہ سہوکاعلم بھی ہوجائے گااس صورت میں اگرکوئی واجب ترک ہوجائے توسجدہ سہواداکردیاجائے۔
14۔.امام کو نماز فجر، نماز جمعہ، نماز عیدین اورمغرب وعشاء کی پہلی دو رکعتوں میں زور سے قراء ت کرنا، ایسے ہی تراویح میں اور رمضان کے وتر میں امام کو قراء ت آواز سے کرنا۔ یعنی ن نمازوں میں یا جن رکعتوں میں آہستہ آواز سے قراءت کرنا ضروری ہے اس میں اگر امام بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے یا سری نماز میں بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے تو اگر اتنی مقدار بلند آواز سے یا آہستہ آواز سے قراءت کرلے کہ جس مقدارِ قراءت سے نماز درست ہوجاتی ہے یعنی تین مختصر آیتوں یا ایک لمبی آیت کے بقدر تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، صرف ایک دو کلمہ سری نماز میں بلند آواز سے اور جہری نمازوں میں آہستہ آواز سے قراءت کرلینے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تین نمازیں قراء ت کے ساتھ اور دو نمازیں بغیر قراءت کے کیوں پڑہتے ہیں؟ واضح رہے کوئی بھی نماز قرأت کے بغیر نہیں ہو تی، ہر نماز قرأت کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے، البتہ تین نمازوں (یعنی فجر، مغرب اور عشاء کی باجماعت فرض نماز) میں قرأت جہراً (یعنی بلند آواز سے ) کی جاتی ہے اور دو نمازوں (یعنی ظہر اور عصر کی باجماعت فرض نماز) میں قرأت سراً (یعنی آہستہ آواز میں ) کی جاتی ہے، اصل وجہ تو اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور رسول اللہ ﷺ کا طریقہ یہی ہے۔ البتہ پس منظر اس کا یہ ہے کہ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ تمام نمازوں میں جہری قرأت کرتے تھے تو مشرکین قرآن کی آواز سن کر آجاتے تھے اور آپ ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور تنگ کرنے کے لیے خوب شور مچاتے، زور زور سے اشعار پڑھتے، الٹی سیدھی بکواس کرتے اور گالم گلوچ کرتے تھے، اور وہ اپنے لوگوں کو ایسا کرنے کی باقاعدہ ترغیب دیتے تھے ، تاکہ جب قرآن پڑھا جائے تو وہ لوگ شور شرابا کر کے غالب آجائیں اور آپ ﷺ خاموش ہوجائیں ، کیوں کہ قرآن میں توحید کا بیان ہوتا تھا، جس کا سننا ان لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا تھا، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل کی:
﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾ [الإسراء: 110]
اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور پاک ﷺ کو یہ حکم دیا کہ آپ نہ تو ساری نمازوں میں جہری قرأت کریں اور نہ ہی ساری نمازوں میں سری قرأت کریں ، بلکہ درمیانی صورت اختیار کریں یعنی اندھیرے میں پڑھی جانے والی نمازوں (فجر، مغرب اور عشاء) میں جہری قرأت کریں ، جب کہ دن کی روشنی میں پڑھی جانے والی نمازوں (ظہر اور عصر) میں سری قرأت کریں ، لہٰذا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ ظہر اور عصر کی نمازوں میں سری قرأت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ ان اوقات میں مشرکین تکلیف پہنچانے کے لیے بالکل تیار ہوتے تھے، جب کہ مغرب، عشاء اور فجر میں جہری قرأت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ مغرب میں وہ لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوتے تھے، اور عشاء و فجر میں وہ لوگ سو رہے ہوتے تھے، بعد میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوت اور شان و شوکت عطا کردی اور کفار کی یہ جرأت نہ رہی، لیکن مذکورہ حکم باقی رہا (جیسا کہ طواف میں رمل) اور آپ ﷺ دنیا سے پردہ فرمانے تک اسی پر عمل پیرا رہے اور آپ ﷺ کے بعد امت کا یہی عمل متوارث رہا، لہٰذا آپ ﷺ کی اس مواظبت کے سبب فقہاء نے امام کے لیے فجر، مغرب اور عشاء میں جہری قرأت اور ظہر و عصر میں سری قرأت کرنے کو نماز کے واجبات میں سے شمار کیا ہے۔
اگر کسی شخص سے بھول کر نماز میں کوئی واجب چھوٹ جائے، یانماز کے واجبات اور فرائض میں سے کسی واجب یا فرض کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے، یاکسی فرض کو پہلے ادا کردے (یعنی ارکان کی ترتیب بدل دے، جو کہ واجب ہے) یا تکرار کے ساتھ اداکرے یاکسی واجب کو تبدیل کردے ان صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔