نماز کا بیان – سبق نمبر 2:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ:
« كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ » (رواه النسائى)
سیدناحضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب گرمی ہوتی تو دیر کر کے ٹھنڈے وقت (ظہر کی) نماز پڑھتے اور جب سردی کا موسم ہوتا تو جلدی (یعنی اول ہی وقت میں) پڑھ لیتے۔ (نسائی)
اے اہل اسلام سب سے پہلا فرض نماز ہے اور دن رات میں پانچ وقت کی نماز ہر عاقل وبالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے ۔ یہ بھی یاد رہے شریعت مطہرہ نے نماز کی جو شرائط مقرر کی ہیں ان میں ایک شرط وقت بھی ہے ۔ فی زمانہ تو ہمارے لئے بہت آسانی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان ہوتی ہے اور ہمیں نماز کے وقت کا پتہ لگ جاتا ہے لیکن زمانۂ ماضی میں جب اذان لاؤڈ اسپیکر پر نہیں ہوتی تھی تب مسلمان سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھ کر نماز کے وقت کا اندازہ کرلیا کرتے تھے ۔ فی زمانہ دینی تعلیمات سے دوری کے باعث جہاں اور بہت سے دینی معاملات سے مسلمان نا واقف ہیں وہیں نمازوں کے اوقات سے بھی ایک بہت بڑی تعداد غافل ہے ۔
فجر کا وقت:
صبح صادق سے آفتاب کی کرن چمکنے تک ہے۔ صبح صادق سے مراد ایک روشنی ہے جو مشرق کی طرف سے اسکے اوپر آسمان کے کنارے میں دکھائی دیتی ہے اور آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے۔ فجر کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے ادا کرنی چاہیئے اور اس کامستحب وقت جس وقت اجالا ہو جائے اور سنت کے موافق نماز ادا کر لی جائے اور پھر بھی اتنا وقت بچ جائے کہ اگر دوسری مرتبہ کسی وجہ سے نماز سنت کے موافق پڑھی جائے تو وقت موجود رہے ۔
اس حدیث میں فرمایا گیا:
اگرسخت موسم گرما ہوتو نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا سنت ہے لیکن نماز کا وقت خارج نہ ہونے پائے۔ ظہر اور جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے سے اس وقت تک ہے کہ ہر چیز کا سایہ، سایہ اصلی کے علاوہ دو چند ہو جائے۔ سایہ اصلی سے مراد وہ سایہ ہے جو ہر چیز کا عین زوال کے وقت ہوتا ہے۔ زوال سے پہلے ہر چیز کا سایہ گھٹتا جاتا ہے اور دو ڈھائی منٹ تک نہ گھٹتا ہے اور نہ بڑھتا ہے یہ ہے سایہ اصلی۔ اسکے بعد یعنی زوال کے بعد سایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہر چیز کا سایہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ تو ہمارے نزدیک ظہر کا وقت ہر چیز کا سایہ دوچند ہونے تک ہے۔
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جبرئیل نے بیت اللہ شریف میں دو مرتبہ جماعت کرائی۔ پہلی دفعہ عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ ایک چند تھا۔ دوسری دفعہ اس وقت جماعت کرائی جب ہر چیز کا سایہ دو چند ہو گیا تھا۔
افضل یہ ہے کہ ظہر سایہ ایک چند ہونے سے پہلے ادا کی جائے اور عصر دو چند ہونے کے بعد ادا کی جائے۔ اس حدیث پاک میں واضح فرمایا کہ دوسری دفعہ دو چند سایہ پر جماعت کرائی۔ تو ہمارے احناف کے نزدیک سایہ دو چند ہونے پر ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کا وقت داخل ہوتا ہے۔
باقی نمازوں میں اتنا اختلاف نہیں ہے۔ سورج غروب ہونے پر عصر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور مغرب کا شروع ہو جاتا ہے۔ سورج ڈوبنے کے بعد جنوبا اور شمالا جو سفیدی ہوتی ہے اسکے ختم ہوتے ہی مغرب کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عشاء کا شروع ہو جاتا ہے۔
بہرحال بہتر یہ ہے کہ ایک مثل کے اندر ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔
مستحب وقت:
گرمی کے موسم میں اتنی تاخیر سے نماز ظہر پڑھنا مستحب ہے کہ گر می کی تیزی کم ہو جائے ، سردی کے موسم میں اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے ۔
نماز عصر:
اس کا وقت دو مثل کے بعد شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے۔
مستحب وقت:
عصر کی نماز ہر موسم میں دیر سے پڑھنا مستحب ہے، آفتاب میں زردی آنے کے بعد (تقریبا غروب سے آدھا گھنٹہ پہلے) مکر وہ وقت ہوتا ہے۔
نماز مغرب:
اس کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور شفق کی سفیدی ختم ہونے تک رہتا ہے (یہ وقت ہمارے ملک میں تقریبا ایک گھنٹہ بیس منٹ سے ایک گھنٹہ پینتیس منٹ تک مختلف موسموں کے لحاظ سے رہتا ہے، ایک گھنٹہ بیس منٹ سے کم نہیں ہے اور ایک گھنٹہ پینتیس منٹ سے زیادہ نہیں ہے ) ۔
مستحب وقت:
مغرب کی نماز اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے ۔
نماز عشا:
اس کا وقت شفق کی سفیدی غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے ۔
مستحب وقت:
ایک تہائی رات گزرنے کے بعد مستحب وقت ہے، آدھی رات تک مباح رہتا ہے اور آدھی رات کے بعد مکروہ ہے۔
شرعی طور پر رات غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے اور صبح صادق تک رہتی ہے۔
نماز وتر:
اس کا وقت نماز عشا کے بعد ہے ۔
مستحب وقت:
جو آ خر رات میں اٹھنے کا عادی ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ اٹھ کرپڑھے اور جو عادی نہ ہو وہ نماز عشا کے بعد ہی پڑھ لے ۔
نماز جمعہ:
اس کا وقت بھی ظہر کی طرح ہے، البتہ سردی گرمی کے دنوں موسموں میں نماز جمعہ کا اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے ۔
نماز عید ین:
اس کا وقت آفتاب کے اچھی طرح نکل آنے کے بعد شرو ع ہوتا ہے اور زوال آفتاب تک رہتا ہے۔
مستحب وقت:
عیدین کی نماز کا جلدی پڑھنا مستحب ہے خاص کر عیدالاضحیٰ کی نماز
نمازوں کے ممنوع اوقات
تین اوقات ایسے ہیں جن میں ہرقسم کی نماز منع ہے، خواہ ادا ہو یا قضا، فرض ہو یاواجب، سنت ہو یانفل، نماز جنازہ ہو یا سجدہ تلاوت۔ البتہ اسی روز کی عصر کی نماز کاپڑھنا اور اگر ان اوقات میں سے کسی وقت میں کوئی جنازہ آ جائے اس کا پڑھنا یاسجدہ تلاوت اس وقت واجب ہوا ہوتو اس کا ادا کرنا جائز ہے۔
وہ تین اوقات یہ ہیں :
طلوع آ فتاب سے تقریبا دس منٹ بعد تک۔
جب سورج بالکل سر پر ہواس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد تک۔
غروب آفتاب سے تقریبا دس منٹ پہلے سے غروب تک۔
تین اوقات ایسے ہیں جن میں صرف نوافل مکر وہ ہیں:
صبح صادق سے طلوع آفتاب تک۔
عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک۔
نماز عیدین سے پہلے گھر اور عید گاہ میں ۔
وہ حالات جن میں ہر قسم کی نماز مکروہ ہے جب خطیب خطبہ شروع کر دے۔ چھوٹے ، بڑے پیشاب کی حاجت کے وقت، اور ہوا خارج ہونے کے اندیشے کے وقت، البتہ اگر نماز قضا ہو رہی ہو تو پھر اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ۔ جماعت کی نماز شروع ہونے کے بعد سے اگر فجر کی ایک رکعت ملنے کی امید ہوتو سنتیں پڑھی جائیں ، جہاں تک ہو سکے جماعت کی جگہ سے علاحدہ ہو کر پڑھی جائیں ، مسجد سے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو کسی دیواریاستون کی آڑ میں پڑھی جائیں ، صف کے پیچھے بغیر آڑ کے پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ۔ مسجد کے دو حصے ہوں تو دوسرے حصے میں پڑھی جائیں ۔