نماز کی فضیلت واہمیت

نماز کا بیان – سبق نمبر 6:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم:

إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ بِصَلَاتِهِ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ.نسائی، السنن، کتاب الصلاة، باب المحاسبة علی الصلاة، 1: 232، رقم: 465

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اگر نماز شرائط، اَرکان اور وقت کے مطابق ادا کی گئی ہوئی تو وہ شخص نجات اور چھٹکارا پائے گا اور مقصد حاصل کرے گا۔ ‘‘

ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز اہتمام سے ادا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہو گی، (جس سے قیامت کی اندھیریوں میں اس کو روشنی ملے گی اور اس کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اس کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی نشانی) اور دلیل ہو گی، اور اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گی، اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا (اور اس سے غفلت اور بے پروائی برتی) تو وہ اس کے واسطے نہ نور بنے گی، نہ برہان اور نہ ذریعہ نجات، اور وہ بدبخت قیامت میں قارون، فرعون، ہامان اور مشرکین مکہ کے سرغنہ) ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ (مسند احمد، مسند دارمی، شعب الایمان للبیہقی)

مطلب یہ ہے کہ نماز سے لاپرواہی وہ جرم عظیم ہے جو آدمی کو اس جہنم میں پہنچائے گا جہاں فرعون و ہامان اور قارون اور ابی بن خلف جیسے خدا کے باغی ڈالے جائیں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جہنم میں جانے والے سب لوگوں کا عذاب ایک ہی درجہ کا نہ ہو گا، ایک قید خانہ میں بہت سے قیدی ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جرائم کے مطابق ان کی سزائیں مختلف ہوتی ہیں ۔

اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ پورا اسلام دوحصوں پر مشتمل ہے ؛ایک دل ودماغ سے یقین کرنے اور سچ جاننے والاحصہ، جس کو عقیدہ سے تعبیر کرتے ہیں ، اور جو دوسرے حصے کی قبولیت کی بنیاد ہے۔ اور دوسرا حصہ وہ ہے جو جوارح یعنی ہاتھ اور پاؤں سے انجام دیا جائے، یعنی وہ عمل جو پہلے حصے کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔ تو اس دوسرے حصے کے تمام مشمولات (یعنی اعمال صالحہ) میں سب سے پہلا مقام اور درجہ نماز کا ہے۔

ہرقوم کا اپنا اپنا ایک امتیازی نشان ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں کا امتیازی نشان دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کے سامنے باوضوء ہوکر کھڑے ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے رب سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے مسلمانوں کے لیے یہ پانچ نمازیں اتنی ضروری ہیں کہ ان میں بھی ایک جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے

’’من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر‘‘

نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اور سلام کا دوسرا رکن عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ نماز ادا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں تقریبًا سات سو مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ اِس کے علاوہ کثیر احادیث مبارکہ میں فضیلتِ نماز بیان کی گئی ہے اور نماز ادا نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ نیز نماز کی جملہ تفصیلات بھی ہمیں احادیث میں ہی ملتی ہیں ۔ اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ بے نماز ی کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے۔ نماز فواحش ومنکرات سے انسان کو روکتی ہے ۔ بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سے نماز کا پابند بنایا جائے ۔

قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے۔ اور نمازکی عدم ادائیگی پر وعید کی گئی ہے ۔ نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان جنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔

نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کے لیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی۔ او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے۔ انہیں کے طریقے کے مطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کے لیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ نماز کی صحت کے لیے تعدیل ارکان کالحاظ رکھنا بہت ضروری ہے ایسی نماز جس میں خشوع وخضوع نہ ہو اور تعدیل ارکان کالحاظ نہ رکھا گیاہو وہ نماز باطل قرار پاتی ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اگر نماز شرائط، اَرکان اور وقت کے مطابق ادا کی گئی ہوئی تو وہ شخص نجات اور چھٹکارا پائے گا اور مقصد حاصل کرے گا۔ ‘‘

نماز کیبے بے بہا خصوصیات اور تاثیرات میں چند یہ ہیں ،

اول یہ کہ وہ اہل ایمان کی معراج ہے اور آخرت میں تجلیات الہی کے جو نظارے اہل ایمان کو نصیب ہونے والے ہیں ، ان کی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنے کا وہ خاص ذریعہ ہے۔

دوم یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و رحمت کے حصول کا وسیلہ ہے۔

سوم یہ کہ نماز کی حقیقت جب کسی بندہ کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کی روح پر نماز کی کیفیت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ بندہ نور الہی کی موجوں میں ڈوب کر گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے (جیسے کہ کوئی میلی کچیلی چیز دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک صاف ہو جاتی ہے یا جیسے لوہا آگ کی بھٹی میں رکھ کر صاف کیا جاتا ہے۔

چہارم یہ کہ نماز جب حضور قلب اور صادق نیت کے ساتھ پڑھی جائے تو غفلت اور برے خیالات و وساوس کے ازالہ کی وہ بہترین اور بے مثل دوا ہے۔

پنجم یہ کہ نماز کو جب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک معروف و مقرر رسم اور عمومی وظیفہ بنا دیا گیا تو اس کی وجہ سے کفر و شرک اور فسق و ضلال کی بہت سی تباہ کن رسوم سے حفاظت کا فائدہ بھی حاصل ہو گیا اور مسلمانوں کا وہ ایک ایسا امتیازی شعار اور دینی نشان بن گیا، جس سے کافر اور مسلم کو پہچانا جا سکتا ہے۔

ششم یہ کہ طبیعت کو عقل کی رہنمائی کا پابند اور اس کا بابع فرمان بنانے کی مشق کا بہترین ذریعہ یہی نماز کا نظام ہے۔

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے۔ (صحیح مسلم)

اس حدیث سے واضح ہوگيا کہ تمام اعمال میں نماز ایک ایسا عمل ہے، جس کا ترک کفر کو لازم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صحابہ ؓکے نزدیک بھی بے نمازی کافر ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ ان صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ علیہم) کے اقوال ملاحظہ فرمائيں :

سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

اس آدمی کا اسلام میں کچھ بھی حصہ نہیں ، جس کے پاس نماز نہیں “۔

اسی طرح انہی کا ایک قول ہے :

“لا إیمان لمن لاصلاۃ لہ”

“اس کے پاس ایمان ہی نہیں ، جس کے پاس نماز نہیں ۔ ”

سیدنا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

جو نماز نہیں پڑھتا، اس کے پاس دین ہی نہیں ۔ ”

صحابہ کرام قرآن وسنت کے اوّلین اور بزبان رسالت مآب دین کے معتبر شارحین ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نماز کی بابت ارشاد باری تعالیٰ اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہی میں صحابہ نے ترک نماز پر مذکور ہ حکم لگا یا ہے۔ تو اس عاجز کے نزدیک اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام دین کے دوسرے ارکان و اعمال مثلاً روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد اور اسی طرح اخلاق و معاملات وغیرہ ابواب کے احکام میں کوتاہی کرنے کو تو بس گناہ اور معصیت سمجھتے تھے، لیکن نماز چونکہ ایمان کی نشانی اور اس کا عملی ثبوت ہے اور ملت اسلامیہ کا خاص شعار ہے، اس لیے اس کے ترک کو وہ دین اسلام بے تعلقی اور اسلامی ملت سے خروج کی علامت سمجھتے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

نماز دین اسلام کا ایسا شعار ہے اور حقیقت ایمان سے اس کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کے بعد آدمی گویا کفر کی سرحد میں پہنچ جاتا ہے۔