نماز کا بیان – سبق نمبر 7:
فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ:
أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.(أبوداود، السنن، کتاب الصلاة،، رقم: 425)
سیدنا حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے کہا:
میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :
اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں ، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع و سجود کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے۔
نماز کی فرضیت سے متعلق بہت سی احادیث آتی ہیں حتیٰ کہ دین اسلام میں نماز کی فرضیت بدیہی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا منکر مرتدہے جسے توبہ کاموقع دیا جائے گا، اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کرنے پر امت مسلمہ کے علماء کا اتفاق ہے۔ لیکن یہاں پر یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ بے نمازی کو سزا دینا ہر آدمی کے اختیار میں نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اٹھ کر مرتد کو قتل کردے بلکہ یہ کام حکومت وقت کا ہے۔
نماز کو عربی زبان میں “صلاۃ” کہتے ہیں جس کا لغوی معنی”دعا” ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
نماز کا شرعی اور اصطلاحی معنی:
وہ مخصوص اقوال وافعال ہیں جن کی ابتدا اللہ اکبر سے اور انتہا سلام پھیرنے سے ہوتی ہے۔ “چونکہ نمازی نماز میں عبادت، ثنااور طلب ودرخواست کی شکل میں اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہتا ہے، اس لیے نماز کو عربی زبان میں “صلاۃ” کہا جاتا ہے۔
اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں 92 مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ اور متعدد مقامات پر صیغہ امر کے ساتھ (صریحاً) نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ نماز کی اہمیت اور تاکید سب سے زیادہ ہے۔ نماز عبادت کی کامل اور حسین صورتوں کا مجموعہ ہے۔ نماز عبادت کی بہت سی اقسام پر مشتمل ہے، جیسے ذکر الٰہی، تلاوت قرآن، قیام، رکوع، سجدہ، دعا، تسبیح اور تکبیر وغیرہ۔ نماز بدنی عبادات کی چوٹی ہے۔ اللہ کے رسولوں میں سے کسی کی شریعت نمازسے خالی نہ تھی۔
جملہ احکام شرعیہ میں نماز کا یہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ختم الرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت فرض کی جب آپ معراج کی رات آسمان پر گئے تھے۔ نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔ قرآن و سنت اور اجماع کی رو سے اس کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں ۔
کتب احادیث میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کے اوقات مقرر ہیں ۔ ان اوقات سے پہلے نماز ادا کرنا جائز نہیں ۔ چونکہ اکثر لوگوں کو نماز کا وقت ہوجانے کا علم نہیں ہوتا یاکسی کام میں اس قدر مشغول ہوتے ہیں کہ نماز کی طرف ان کی توجہ نہیں رہتی۔ ان وجوہات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اذان کو مشروع فرمایا ہے۔ تاکہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع ہوجائے جیساکہ اس سے پہلے اسباق میں آپ اذان کے فضائل واحکام میں سن چکے ہیں ۔
ہجرت سے پہلے معراج کی رات(ہرعاقل، بالغ مسلمان مردو عورت پر دن رات میں) پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ لڑکے اور لڑکی کا بالغ ہونا علامات سے بھی ہوسکتا ہے، (مثلاً: لڑکے کو احتلام ہوجائے، یا لڑکی کو حیض آجائے، وغیرہ)، اگر پندرہ سال سے پہلے بالغ ہونے کی علامتیں ظاہر ہوجائیں تو ان پر بالغوں کے اَحکام جاری ہوں گے، اور اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو پندرہ برس کی عمر پورا ہونے پر ان کو بالغ شمار کیا جائے گا اور ان پر نماز، روزہ وغیرہ فرائض لازم ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے بالغ ہونے کے بعد بھی نماز، روزہ میں کوتاہی کی، اب وہ توبہ کرکے نماز، روزہ قضا کرنا چاہتا ہے، اور اسے یہ یاد نہیں کہ وہ کب بالغ ہوا تھا؟ تو لڑکے کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ تیرہویں سال کے شروع ہونے سے نماز، روزہ قضا کرے، کیونکہ بارہ سال کا لڑکا بالغ ہوسکتا ہے، اور لڑکی کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نو برس پورے ہونے اور دسویں سال کے شروع ہونے سے نماز، روزہ قضا کرے، کیونکہ نو برس کی لڑکی بالغ ہوسکتی ہے۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز کی تلقین کرے باوجود یہ کہ اس پر نماز فرض نہیں لیکن سرپرست اس کا اہتمام ضرور کرے، اسے نماز کا عادی بنائے، اس سے بچے اور اس کے سرپرست دونوں کو اجر وثواب ملے گا۔ والدین، سرپرست اور ولی کو چاہیے کہ بچے کو نماز اور طہارت کے مسائل کی تعلیم دے۔ اگر بچے کی عمر دس برس کی ہو جائے اور وہ نماز میں سستی کرے تو سرپرست اسے مار کر نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
تمہارے بچے سات برس کے ہوں تو انھیں نماز کی تلقین کرو۔ جب دس برس کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں توانھیں مارو۔ اوران کے بستر الگ الگ کردو۔
جس شخص نے نماز کی فرضیت واہمیت کا انکار کیے بغیر محض سستی اور کوتاہی سے نماز چھوڑدی تو اس نے (اہل علم کی صحیح رائے کے مطابق) کفر کا ارتکاب کیا۔ اس بارے میں ایک دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آدمی اور اس کے کفر کے درمیان فرق، نماز کا چھوڑنا ہے۔ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو نماز چھوڑنے کو حلال سمجھے وہ کافر ہے، البتہ جو اس کو حلال نہ سمجھے، بلکہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس حکم میں داخل نہ ہوگا، وہ فاسق ہے۔
اس طرح کے قرآن وحدیث، آثار صحابہ اور اقوال اَئمہ کی روشنی میں تارکِ صلاۃ کو کافر قرار دیا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو قصداً نماز چھوڑنے والے کے کفر کے قائلین کے دلائل کافی مضبوط ہیں لیکن اس کے باوجود ایک جماعت تارکِ نماز کے کفر کی قائل نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر قصدا نماز کو چھوڑنا گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، کافر نہیں ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کوتہدیداً یعنی دھمکی کے طور پر کافر فرمایا ہے، تاکہ وہ اس کے ترک کرنے سے بچ سکے۔ اور صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا کہ وہ دائرہ اسلام سے نکل جائے، بلکہ اس گناہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق تو ہے، لیکن کافر نہیں ۔ تاہم اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا ہی انکار کر دے تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کا نکاح بھی ختم ہوجائے گا، اس پر سچی توبہ کے ساتھ تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح لازم ہوگا۔ اور جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ ”بندہ اور کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنا ہے۔ “
جوشخص نماز کا تارک ہو، اس کے اس عمل کی عام تشہیر کرنی چاہیے حتیٰ کہ اس رسوائی سے شرمندہ ہوکر نمازادا کرنے لگے۔ اگر وہ نماز ادا نہ کرے تو اسے سلام نہ کہا جائے، اس کی دعوت قبول نہ کی جائے ، حتیٰ کہ توبہ کرے اور نماز قائم کرے۔ کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور یہی عمل مسلمان اور کافر کے درمیان فرق وامتیاز کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص جب تک نماز ضائع کرتارہے گا، اس کا کوئی عمل بھی نفع مند اورمفید نہ ہوگا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں ۔
بعض نادان لوگ علاج کی خاطر جب ہسپتال میں بیڈ پر ہوتے ہیں اور وضو کرنے کے لیے نیچے اتر نہیں سکتے یا ناپاک کپڑے تبدیل نہیں کرسکتے یا ان کے پاس تیمم کے لیے مٹی موجود نہیں ہوتی یاانھیں پانی یا مٹی مہیا کرنے والا کوئی ساتھی نہیں ہوتا تو اس حالت میں نماز کو مؤخر کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارا عذر ختم ہوجائے گا تو تب نماز ادا کرلیں گے۔
اس طرح بسا اوقات وہ کئی ایک نمازیں چھوڑدیتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی غلطی اور خطا ہے اور نماز کاضائع کرنا ہے، جس کاسبب لاعلمی اور مسائل دریافت نہ کرنا ہے۔ ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ ہرحال میں وقت پر نماز ادا کرے اور وہ اسے کفایت کرجائے گی۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ) اگر کسی کو ناپاکی کے تسلسل کا عارضہ لاحق ہے خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہے تو آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کر کے نماز ادا کیا کریں ۔ اگر وضو ممکن نہیں ہے تو تیمم کر کے نماز ادا کر سکتے ہیں لیکن نماز کسی صورت معاف نہیں ہے، جیسا کہ سخت وعیدات آپ نے اوپر ملاحظہ کی ہیں ، اس لیے کسی صورت بھی نماز سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں کیونکہ شیطان کا یہی مشن ہے کہ انسان کو اس طرح کے وساوس میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور رکھا جائے۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ نے شیطان کی بات ماننی ہے یا رحمٰن کی بات مان کر اپنی نجات کا سامان کرنا ہے؟ اگر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر عبادت کرو گے تو یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔