نماز کی اندرونی شرائط (حصہ دوم)

نماز کا بیان – سبق نمبر 10:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‏‏‏‏ لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا يُقِيمُ فِيهَا الرَّجُلُ يَعْنِي صُلْبَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں وہ نماز کافی نہیں جس میں نمازی رکوع و سجود میں کمر کو سیدھا نہ کرے ۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

نماز میں رکوع اور سجود اچھی طرح سے ادا نہ کرنے اور اطمینان وسکون کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرم نے بدترین چوری قرار دیا ہے۔ قیام، قرآن کی تلاوت، رکوع، سجدہ اور قعدہ وغیرہ نماز کا جسم ہیں اور اس کی روح خشوع وخضوع ہے۔ چونکہ جسم بغیر روح کے بے حیثیت ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ نمازوں کو اس طرح ادا کریں کہ جسم کے تمام اعضاء کی یکسوئی کے ساتھ دل کی یکسوئی بھی ہو تاکہ ہماری نمازیں روح یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں ۔ دل کی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات ووساوس سے دل کو محفوظ رکھیں اور اللہ کی عظمت وجلال کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی کوشش کریں ۔ جسم کے اعضاء کی یکسوئی یہ ہے کہ اِدھراُدھر نہ دیکھیں ، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی وفروتنی کی ایسی کیفیت طاری کریں جیسے عام طور پربادشاہ کے سامنے ہوتی ہے۔

4۔ رکوع:

رکوع کے معنی جھکنا۔ نماز میں قراء ت کے بعد اتنا جھکنا فرض ہے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں ۔ رکوع کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ:

ہتھیلوں کو گھٹنوں کے اوپراس طرح رکھا جائے جیسے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پکڑ رکھا ہو، انگلیاں کھلی ہوں ، انہیں آپس میں ملایا نہ جائے اور پنڈلیوں پر رکھا جائے، سر کمر کے برابر ہو، جھکا ہوا یا کمر سے بلند نہ ہو، کہنیاں پہلوؤں سے جدا ہوں اور بازو کمان کی طرح تنے ہوئے ہوں ۔ کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھنے کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

جب تو رکوع کرے تو اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھ، پھر اپنی انگلیوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر، پھر (اس طرح سکون کے ساتھ ٹھہر) کہ ہر عضو اپنی جگہ پر قرار پکڑ لے۔ کمر بالکل سیدھی ہو۔

حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہا:

کیا میں تمہارے سامنے اس طرح نماز نہ پڑھوں جس طرح میں نے حضور نبی اکرمﷺ کو پڑھتے دیکھا؟

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا:

کیوں نہیں؟

حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور جب رکوع کیا تو:

’’انہوں نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھا اور انگلیاں گھٹنوں کے نیچے کردیں (یعنی گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا) نیز بغلوں کو کھول دیا (پیٹ کے ساتھ ملائے نہیں رکھا) یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر جم گیا۔ ‘‘

نماز میں رکوع کی حالت میں کم از کم تین مرتبہ تسبیح پڑھنا سنت ہے، درمیانی درجہ یہ ہے کہ پانچ دفعہ پڑھے اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سات دفعہ پڑھے، بہرحال تین سے کم بار تسبیح پڑھنے سے سنت ادا نہیں ہوگی، بلکہ نماز مکروہ ہوگی، اور علامہ شامی کے بقول یہ کراہت کراہتِ تنزیہی سے زیادہ ہوگی۔ تین سے زیادہ جتنی بھی مقدار پڑھے جائز اور باعثِ زیادتی اجر و ثواب ہے، البتہ طاق عدد (۳، ۵، ۷، ۹ وغیرہ) پر ختم کرے۔

فرائض میں امام کے لیے تخفیف اور ہلکی نماز پڑھانے کا حکم ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کی رعایت رکھے اور رکوع سجدے میں اتنی طویل تسبیحات نہ پڑھے جس سے مقتدیوں پر بوجھ پڑھ جائے اور وہ اکتاجائیں ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن مبارک اور اسحاق بن ابراہیم رحمہما اللہ نے فرمایا کہ امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ رکوع و سجدہ میں پانچ دفعہ تسبیحات پڑھے ؛ تاکہ مقتدیوں کو اطمینان سے کم از کم تین دفعہ تسبیح پڑھنے کا موقع مل جائے۔

یہ بھی عمومًا دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ نمازی محض گھٹنوں کو ہاتھ لگا لینے کو کافی خیال کرتے ہوئے کمر کو گولائی دیتے ہوئے رکوع کرتے ہیں اور کمر سیدھی نہیں رکھتے۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع میں کمر سیدھی نہیں کر رہا تھا تو ارشاد فرمایا:

اے مسلمانوں کی جماعت! (سن لو کہ) اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جو رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا۔

دوسری حدیث میں ہے :

آدمی کی نماز اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک وہ رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

لوگوں میں سب سے برا چوری کرنے والا وہ (شخص) ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! نماز کی چوری کیسے کی جاسکتی ہے؟ فرمایا:

(نماز کی چوری یہ ہے کہ) وہ اس کے رکوع اور سجدے پورے (اطمینان اور آداب کے ساتھ) ادا نہیں کرتا۔

5۔ سجدہ:

سجدہ کے معنی زمین میں پیشانی رکھنا۔ نماز میں دونوں سجدے فرض ہیں ۔ سجدہ میں ناک اور پیشانی دونوں زمین پر رکھنے چاہئیں ۔ بلاعذر صرف پیشانی پر سجدہ کرنا مکروہ ہے اور صرف ناک پر بلاعذر سجدہ کرنے سے سجدہ ادانہ ہوگا۔ سجدے کے ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازی اللہ اَکْبَر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ کر سجد ے میں جائے پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھے، پھر ہاتھ کو، پھر ناک اور پیشانی کو، منہ دونوں ہاتھوں کے درمیان میں ہو اور انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رو ہوں دونوں پاؤں انگلیوں کے بل پر کھڑے ہوں اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوں ۔ پیٹ زانوؤں سے الگ اور بازو بغل سے جدا ہوں ۔ ران پنڈلی سے اور کہنیاں زمین سے علیحدہ رہیں ۔

حدیث مبارکہ میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ:

’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔ ‘‘

احناف کا عمل حدیث مبارکہ پر ہے، جس کے مطابق سجدہ کرتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں پھر ہاتھ اور اٹھتے وقت پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں پھر گھٹنے۔ یہی بہترین طریقہ ہے۔ اور سجدہ کے وقت یہ یقین ہو کہ میں اس وقت اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوں جیسا کہ نبی اکرم نے فرمایا:

’’ بندہ نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ‘‘(مسلم)۔

نماز میں سجدہ کی حالت میں کم از کم تین مرتبہ تسبیح (سبحان ربی الاعلیٰ) پڑھنا سنت ہے، درمیانی درجہ یہ ہے کہ پانچ دفعہ پڑھے اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سات دفعہ پڑھے، بہرحال تین سے کم بار تسبیح پڑھنے سے سنت ادا نہیں ہوگی، بلکہ نماز مکروہ ہوگی، اور علامہ شامی کے بقول یہ کراہت کراہتِ تنزیہی سے زیادہ ہوگی۔ تین سے زیادہ جتنی بھی مقدار پڑھے جائز اور باعثِ زیادتی اجر و ثواب ہے، البتہ طاق عدد (۳، ۵، ۷، ۹ وغیرہ) پر ختم کرے۔

فرائض میں امام کے لیے تخفیف اور ہلکی نماز پڑھانے کا حکم ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کی رعایت رکھے اور رکوع سجدے میں اتنی طویل تسبیحات نہ پڑھے جس سے مقتدیوں پر بوجھ پڑھ جائے اور وہ اکتاجائیں ۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ رکوع و سجدہ میں پانچ دفعہ تسبیحات پڑھے ؛ تاکہ مقتدیوں کو اطمینان سے کم از کم تین دفعہ تسبیح پڑھنے کا موقع مل جائے۔ نماز میں سجدہ کرنا فرض ہے ہر رکعت میں دو سجدے ہوتے ہیں اور اگر ایک بھی سجدہ رہ جائے تو نماز نہیں ہو گی اور سجدہ سہو سے بھی یہ کمی پوری نہیں کی جا سکتی بلکہ پھر سے پوری نماز پڑھنا فرض ہوجاتا ہے۔

6۔ قعدئہ اخیرہ:

نمازوں کے اخیر میں التحیات کی مقدار بیٹھنے کو کہتے ہیں ۔ خواہ فرض نماز ہو یا واجب یا سنت یا نفل۔ قعدہ اخیرہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنا فرض ہے ، اور اس معاملہ میں فرض ادا ہونے کا معیار تین بار تسبیحات کی مقدار بیٹھنا نہیں ہے، بلکہ اتنی دیر تک بیٹھنا ہے کہ پوری التحیات عبدہ ورسولہ تک پڑھ لی جائے، جبکہ پوری التحیات یعنی عبدہ و رسولہ تک ہر ہر لفظ کا پڑھنا واجب ہے، چاہے قعدہ اخیرہ ہو یا قعدہ اولیٰ۔ اور دونوں کا حکم الگ الگ ہے، دونوں ہی ضروری ہیں اور دونوں میں فرق اس وقت ظاہر ہوگا جب کہ کوئی غلطی سے تشہد میں نہ بیٹھا اور نماز مکمل کردی تو اس کی نماز ہی نہ ہوئی؛ اس لیے کہ اس نے فرض چھوڑدیا۔ اور اگر کوئی بیٹھا لیکن بھو ل کر اس نے التحیات نہیں پڑھی تو اگر یہ سجدہ سہو کرلے گا تو اس کی نماز ہو جائے گی، یہی فرق ہے فرض اور واجب میں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ” أشهد أن محمدا عبده ورسوله” تک تشہد سکھائی پھر فرمایا:

جب تم ایسے کرلو یا اسے پڑھ لو تو تمہاری نماز مکمل ہوجائے گی، پھر اگر کھڑا ہونا چاہو تو کھڑے ہوجانا اور بیٹھنا چاہو تو بیٹھ جانا۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا مکمل ہونا، قعدہ پر معلق فرمایا اور وہ چیز کہ جس کے بغیر فرض پورا نہ ہو وہ بھی فرض ہوتی ہے۔ اگر کسی کو التحیات نہیں آتی تو اس پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد التحیات یاد کرے، اگر جان کر غفلت برتے گا تو نماز کا واجب ترک کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ دو رکعت والی نماز ہو یا تین یا چار رکعت والی نماز قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد دوردِ ابراہیمی پڑھیں اور اس کے بعد دعا ماثور پڑھ کر سلام پھیر لیں ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔