نماز کا بیان – سبق نمبر 22:
عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: «لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ» قَالَ: فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ: أَنِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ؟ قَالَتْ: «نَعَمْ»
عبد الرحمان سے روایت کی کہ انہوں نے نبی ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ عورتوں نے (بناؤ سنگھار کے) جو نئے انداز نکال لیے ہیں اگر رسول اللہﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے عمرہ سے پوچھا: کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں ۔
عہد نبوی وخیرالقرون کا زمانہ تھا، حضورؐ براہ راست موجود تھے اس لئے وہاں عورتوں کو مسجد وں اور عیدگاہ میں جانے اور باجماعت مردوں کے ساتھ نماز ادا کرنے کی اجازت تھی لیکن جب فتنہ کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا، صحابہؓ نے اتفاق کیا، عورتوں کے لئے جماعت کا مقرر نہ کیا جانا ان کے لئے اللہ کی ایک رحمت ہے اور اس میں بے شمار فوائد و مصالح ہیں ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس نے معاشرے کے ہر فرد کیلئے حدود اور علیحدہ دائرہ کار متعین کردیا ہے ، خواتین کیلئے تدبیر منزل، امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور مرد کو من جملہ اسکی ذمہ داریوں کے ایک منصب امامت بھی دیا گیا ہے ۔ جہاں تک خواتین کی امامت کا مسئلہ ہے توچونکہ عورتوں کیلئے امامت اصلاً نہیں ہے اسی لئے خواتین کی امامت مرد حضرات کیلئے درست نہیں اور خواتین کیلئے کسی خاتون کی امامت خواہ فرائض میں ہو یا نوافل میں مکروہ تحریمی ہے ۔
اگر عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز ہوتا، تو کم از کم ایک آدھ مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیانِ جواز کے طور پر ثابت ہونا چاہیئے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے (مذکورہ بالا روایت سے جواز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ واضح ہوچکا) نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی بات ثابت ہوتی، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں کوئی تواس پر عامل پایا جاتا۔ اس کے بالمقابل حسبِ ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ عورت، مردوں کی امامت نہیں کرسکتی یا عورت کو مردوں کی امامت نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔
واضح رہے کہ عورتوں کا جماعت سے پنج وقتہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد جانا مکروہ ہے، عورتوں کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھیں ۔
یہ استدلال کرنا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں ، تو واضح رہے کہ وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے، اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، لیکن اس وقت بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات پہن کر اور خوشبو لگا کر نہ آئیں ، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں ، ان پابندیوں کے ساتھ آپ ﷺ نے عورتوں کو مسجد میں آنے کو منع نہیں فرمایا، لیکن پسند بھی نہیں فرمایا، جس کی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺنے خواتین کو یہ ترغیب دی کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کوٹھری کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔
چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھری) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں ، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے اور اسلامی احکام کی تکمیل اور تعلیم کا مقصد پورا ہونے کے بعد جب عورتوں کے نکلنے کی ضرورت بھی نہ رہی، اور ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہوا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں (خصوصاً جوان عورتوں) کے نماز میں حاضر ہونے سے منع فرمادیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض نہیں کیا، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ وہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے، تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے۔
اسی طرح عورت کا دیگر عورتوں کی امامت کرانا خواہ پنجگانہ نمازیں یا جمعہ ہو یا عیدین ہوں خواہ نماز تراویح ہو یا عظمت والی راتوں ۔ (لیلۃ القدر، شب برأت، شب معراج وغیرہ) کے نوافل کی ہو مکروہ تحریمی ہے ۔ امامت کا حق دراصل مرد کے لیئے ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے نزدیک عورت کی امامت درست نہیں ‘ شریعت کا یہ حکم عورت کے حاجات و ضروریات کی مناسبت سے دیا گیا ہے (اس میں عورت کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں) عورت کے لئے پنجگانہ فرض نمازیں گھر میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ، جب فرض نماز کے لئے ان کی جماعت نہیں رکھی گئی تو سنت و نفل کے لئے ان کی جماعت کیسے درست ہوگی؟
ان وجوہات کی بنا پر حضرات فقہائے کرام نے یہ فتوی دیا ہے کہ عورتوں کا پنج وقتہ نماز کے لئے مسجد میں جانا مکروہ ہے، کیوں کہ اس زمانے میں فتنے حضرت عمر کے زمانے کے فتنوں سے کہیں زیادہ ہیں ، البتہ جس طرح مردوں کے لیے شرعی احکامات سیکھ کر ان پر عمل کرنا ضروری ہے، اسی طرح خواتین کے لیے بھی دین کے بنیادی احکامات سیکھنا ضروری ہے، اگر ان کے لیے گھر میں والد، بھائی یا شوہر وغیرہ سے سیکھنا ممکن ہو، تو وہیں سیکھیں ، لیکن عام طور پر گھروں میں یہ مشکل ہوتا ہے، اس لیے اگر گھر میں انتظام نہ ہو تو خواتین کے لیے پردے کے ساتھ کسی قریبی مسجد میں جاکر تعلیم حاصل کرلینے کی گنجائش ہے، تاکہ دینی احکامات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہو، جب کہ نماز گھر میں پڑھنے میں ایسا کوئی عذر نہیں ، بلکہ گھر میں نماز پڑھنے میں ان کے لیے زیادہ اجر وثواب ہے۔
مردوں کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ عورتوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، لہذا مردوں کو مسجد میں اور عورتوں کو گھر میں نماز ادا کرنی چاہیے، اگرکسی وجہ سے مسجد میں جماعت ہوجائے یا مسجد میں نماز کا موقع نہ مل سکے تو ایسی صورت میں مرد کو چاہیے کہ یا تو دوسری مسجد کی جماعت میں شامل ہوجائے، ورنہ تنہا نماز ادا کرنے کے بجائے اس کے لیے گھر والوں کے ساتھ مل کر جماعت سے نمازپڑھنا افضل ہے، رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے تھے، جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے اور مسجد پہنچے تو جماعت ہوچکی تھی، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے گھر تشریف لے جاکر گھر والوں کو جماعت سے نماز پڑھائی تھی۔
گھر میں نماز کی جماعت میں صف بنانے کا طریقہ یہ ہے :
اگر صرف ایک مرد اور ایک عورت ہو (مثلاً میاں بیوی) تو ان میں سے مرد امام بنے اور جو بھی عورت ہو وہ پچھلی صف میں کھڑی ہو، امام کے ساتھ دائیں یا بائیں کھڑی نہ ہو۔ اگر ساتھ میں ایک سے زیادہ بچے بھی ہوں یا دیگر محرم مرد ہوں تو امام آگے کھڑا ہو، پہلی صف میں مرد /بچے کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا جو گھر کی خواتین ہوں ، کھڑی ہوں ۔ اور اگر امام کے علاوہ ایک مرد یا ایک بچہ ہو تو وہ مرد کے دائیں طرف تھوڑا پیچھے کھڑا ہو اور باقی خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوں ۔ نیز گھر میں جماعت کرواتے وقت جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نمازوں کے لیے اذان و اقامت دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، البتہ افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت شوہر کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو بھی شوہر یا سمجھ دار بچہ دے۔
الغرض!’ اکیلی عورتوں کی جماعت حرام(کراہت تحریمی) کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ امام عورت تما م نماز پڑھنے والیوں کے آگے ہوگی یا صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی۔ پہلی میں تو بے پردگی ہے اور وہ مکروہ ہے اور دوسری میں امام کی جگہ کو چھوڑ دینا ہے وہ بھی مکروہ تحریمی ہے ۔ جماعت سنت ہے اور مکروہ تحریمی کے ارتکاب کے وقت سنت کو چھوڑ دینا افضل ہے ۔ بہرحال شریعت میں عورتوں کے لیے نماز باجماعت، کسی بھی درجے میں مطلوب ومقصود نہیں ہے احادیث وکتب فقہ میں صراحت موجود ہے کہ عورتوں کامسجد و عیدگاہ وغیرہ فتنہ کی وجہ سے جانا ممنوع ہے۔ دور حاضر جس میں فساد کا بول بالاہے عورتوں کا تمام ترجماعتوں میں جانااور پرخطر ہے، اس لئے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین