مستحبا تِ نماز

نماز کا بیان – سبق نمبر 14:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ،

مفہوم حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مناسب نہیں کہ گھر (یعنی بیت اللہ، اور اسی کے حکم میں مسجد، مصلیٰ، نماز پڑھنے کی جگہ) میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کر دے (یعنی اس کی توجہ نمازسے ہٹا دے)

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس حرکت سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے :

جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں انہیں اس سے باز آ جانا چاہیے یا پھر ان کی نظرواپس نہ لوٹ سکے گی

دوسری روایت میں ہے کہ “یا ان کی بینائی اچک لی جائے گی”۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلا)

نماز میں ادھر ادھر دھیان دینے اور قبلے کی جانب سے چہرہ پھیرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے :

جب تُم لوگ نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ مت کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ مبارک نماز پڑہنے والے کے چہرے کی طرف کیے ہوئے پوری طرح سے متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ (نماز سے) اپنی توجہ اِدھر اُدھر نہ کر لے ۔ (سنن ترمذی کتاب الامثال باب ما جاء فی مثل الصلاۃ و الصیام و الصدقۃ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2863)

نماز اسلام کا ایک عظیم رکن ہے جسکی مشروعیت میں بڑی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں اور یہ حکمتیں اسی وقت پوری ہوسکتی ہیں جبکہ انہیں خشوع وخضوع اور حضور قلب سے ادا کیا جائے ، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسباب کے استعمال کا حکم دیا ہے جو خشوع وخضوع میں معاون ثابت ہوں اور ایسے تمام اسباب سے منع کیا ہے جو خشوع وخضوع میں رکاوٹ بنتے ہوں ، نماز کے آداب بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں ۔ کچھ کاتعلق اندرونی کیفیات سے ہے اور کچھ ظاہری حالت سے متعلق ہیں ۔ کمال عبودیت کا تقاضا ہے کہ بندہ جب اپنے رب کے حضور کھڑا ہو تو کسی بھی ادب میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نگاہیں پست ہوں اور دل رب ذوالجلال کی ہیبت سے لرزہ براندام ہو۔ یوں سمجھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دربار میں کھڑا ہوں ۔ کم سے کم اتنا یقین دل میں ہونا چاہیے کہ وہ میرے حال سے واقف ہے اور میری کوئی حرکت اور کوئی خیال اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:

نماز یوں پڑھا کر جیسے (وہ شخص پڑھتا ہے جسے معلوم ہو جائے کہ وہ ابھی دنیا سے) جانے والا ہے۔ بے شک اگر تو اسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو)نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی نماز سے فارغ ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لیے نواں حصہ بعض کے لیے آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا، پانچواں ، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے “ (ابوداوٴد)

یعنی جس درجہ کا خشوع اور اخلاص نماز میں ہوتا ہے اتنی ہی مقدار اجر وثواب کی ملتی ہے، حتی کہ بعض کو پورے اجر کا دسواں حصہ ملتا ہے اگر اس کے موافق خشوع خضوع ہو اور بعض کو آدھا مل جاتا ہے اور اسی طرح دسویں سے کم اور آدھے سے زیادہ بھی مل جاتا ہے، حتی کہ بعض کو پورا پورا اجر مل جاتا ہے اور بعض کو بالکل بھی نہیں ملتا کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہوتی۔

مستحباتِ نماز:

مرد کو دونوں ہتھیلیوں کو دونوں آستینوں سے تکبیرِ تحریمہ کے وقت نکالنا۔ ہاتھ کی آستینیں پوری طرح ڈھکی ہوئی ہونی چاہئیں ، صرف ہاتھ کھلے رہیں ، بعض لوگ آستینیں چڑھا کر نماز پڑھتے ہیں ، یہ طریقہ درست نہیں ۔

۲۔ نمازی کو قیام کے وقت سیدھے کھڑے ہونا چاہئے اور آپ کی نظر سجدے کی جگہ پر ہونی چاہئے۔ گردن کو جھکا کر ٹھوڑی سینے سے لگا لینا بھی مکروہ ہے، اور بلا وجہ سینے کو جھکا کر کھڑا ہونا بھی درست نہیں ، اس طرح سیدھے کھڑے ہوں کہ نظر سجدے کی جگہ پر رہے۔ اور رکوع میں قدم کی پشت پر اور سجدہ میں ناک کی طرف اور بیٹھنے کے وقت گود کی طرف اورسلام پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔

کھانسی کو جہاں تک ہوسکے ضبط کرنا، یعنی کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔ جمائی آنے لگے تو اس کو روکنے کی پوری کوشش کریں ۔ نہ رکے تو حالتِ قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں اور دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پیٹھ سے۔ حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگلیوں کا فاصلہ ہو۔ اگر جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ کی صف سیدھی رہے، صف سیدھی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی دونوں ایڑھیوں کے آخری سرے صف یا اس کے نشان کے آخری کنارے پر رکھ لے۔

جسم کا سارا زور ایک پاؤں پر دے کر دوسرے پاؤں کو اس طرح ڈھیلا چھوڑ دینا کہ اس میں خم آ جائے نماز کے آداب کے خلاف ہے۔ اس سے پرہیز کریں ۔ یا تو دونوں پاؤں پر برابر زور دیں ۔ یا ایک پاؤں پر زور دیں تو اس طرح کہ دوسرے پاؤں میں خم پیدا نہ ہو۔، اور دونوں پاؤں کے ٹخنے ایک دوسرے کے بالمقابل رہنے چاہئیں

ڈکار آئے تو ہوا کو پہلے منہ میں جمع کر لیا جائے، پھر آہستہ سے بغیر آواز کے اس خارج کیا جائے۔ زور سے ڈکار لینا نماز کے آداب کے خلاف ہے۔

سجدے میں جاتے وقت جب تک گھٹنے زمین پر نہ ٹکیں ، اس وقت تک اوپر کے دھڑ کو جھکانے سے حتی الامکان پرہیز کریں ۔ آج کل سجدے میں جانے کے اس مخصوص ادب سے بے پرواہی بہت عام ہو گئی ہے، اکثر لوگ شروع ہی سے سینہ آگے کو جھکا کر سجدے میں جاتے ہیں ،

ایک سجدے سے اٹھ کر اطمینان سے ، بایاں پاؤں بچھا کر اس پردوزانو بیٹھیں ، اور دایاں پاؤں اس طرح کھڑا کر لیں کہ اس کی انگلیاں مڑ کر قبلہ رخ ہو جائیں پھر دوسرا سجدہ کریں ۔ بعض لوگ دونوں پاؤں کھڑے کر کے ان کی ایڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ۔

بیٹھنے کے وقت دونوں ہاتھ رانوں پر رکھے ہونے چاہئیں ، مگر انگلیاں گھٹنوں کی طرف لٹکی ہوئی نہ ہوں ۔ بلکہ انگلیوں کے آخری سرے گھٹنے کے ابتدائی کنارے تک پہنچ جائیں ۔ قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ وہی ہو گا جو سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کا ذکر کیا گیا۔ دونوں طرف سلام پھیرتے وقت گردن کو اتنا موڑیں کہ پیچھے بیٹھے آدمی کو آپ کے رخسار نظر آ جائیں ۔ سلام پھیرتے وقت نظریں کندے کی طرف ہونی چاہئیں ۔

مختصراً یہ کہ ایسی بے جان اور بے روح نمازیں جو غفلت اور لاپرواہی سے ادا کی جاتی ہیں ‘ وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور توہین کے مترادف ہوجاتی ہے اور بالآخر تباہی کا باعث بن جاتی ہے ‘ اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ بیان کردہ احکام کی روشنی میں اپنی نمازوں کا جائزہ لیا جائے پھر جتنی کمی یا کسر پائی جائے اسے پورا کرنے کی کوشش فوراً شروع کی جائے ‘ تاکہ رفتہ رفتہ حقِ نماز پورا ادا کیا جائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔