مساجد کے آداب و احکام

نماز کا بیان – سبق نمبر 27:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَحَبُّ الْبِلاَدِ إِلَى اللَّهِ مَسَاجِدُهَا وَ أَبْغَضُ الْبِلاَدِ إِلَى اللَّهِ أَسْوَاقُهَا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شہروں میں سب سے پیاری جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسجدیں ہیں اور سب سے بری جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بازار ہیں ۔ ‘‘

اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ عزو جل کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور فضل و شرف کی حامل جگہیں مساجد ہیں ؛ اس لیے کہ ان مساجد میں نمازیں قائم کی جاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے، علم کی محفلوں کا انعقاد عمل میں لایا جاتاہے اور لوگوں کو ان کے دینی امور سے متعلق علم و آگہی بہم پہنچائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بازاروں سے بڑھ کر بدتر اور ناپسندیدہ مقامات کوئی اور نہیں ؛ کیوں کہ یہاں لگاتارہنگامہ خیزی کا ماحول قائم رہتا ہے، فضول و بے معنی کام کیے جاتے ہیں ، قسمیں کھانے، دھوکہ بازیاں کرنے اور جھوٹ بولنے کا چلن بہت زیادہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر و یاد سے لاپرواہی و غفلت عام ہوتی ہے۔

مساجد روئے زمین پر زمین کا سب سے بہتر حصہ ہیں احتراما انہیں بیت اللہ یعنی اللہ کاگھر بھی کہا جاتاہے اسلا م اور مسلمانوں کامرکزی مقام یہی مسجدیں ہیں اور مسجد اللہ کا وہ گھر ہے جس میں مسلمان دن اوررات میں کم ازکم پانچ مرتبہ جمع ہوتے ہیں اوراسلام کا سب اہم فریضہ ادا کرکے اپنے دلو ں کوسکون پہنچاتے ہیں ، مسجد وہ جگہ ہے جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کااظہار کرتے ہیں ، او رمسجد ہی زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے پاکیزہ متبرک اوربہترین جگہ ہے ۔ قرآن مجید میں اور احادیث نبویہ ﷺ میں بے شمار مقامات پر مسجد کی اہمیت اور قدر منزلت کوبے بیان کیا ہے۔

مسجدوں میں سب سے افضل مسجد مکہ معظمہ کی مسجد ہے جس کو مسجدالحرام کہتے ہیں کیونکہ اس میں خانہ کعبہ ہے ، اس کے بعد مسجد نبوی علٰی صاحبہا الصلوة و السلام ہے پھر بیت المقدس کی مسجد ہے جس کو مسجدِ قدس بھی کہتے ہیں پھر مسجد قبا پھر اس کے بعد ہر شہر کی جامع مسجدیں پھر محلے کی مسجدیں پھر راستے کی مسجد، اپنی محلے کی مسجد میں پنجوقتہ نماز پڑھنا اگرچہ وہاں جماعت تھوڑی ہو جامع مسجد سے افضل ہے اگرچہ وہاں جماعت بڑی ہو بلکہ اگر محلے کی مسجد میں جماعت نہ ہوئی ہو تو وہاں تنہا جائے اور اذان و اقامت کہے اور نماز پڑھے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اس کی یہ نماز جامع مسجد کی جماعت سے افضل ہے۔

مسلمانوں کی پہچان ان کی عبادت گاہوں سے ہے اور ان کی عبادت گاہیں مساجد ہیں ان ہی کی برکت سے ہمارے ہر کام میں برکت ہوتی ہے آدابِ مساجد قرآن و سنت میں موجود ہیں ان پہ مسلمان عمل کرتے ہوئے اپنی مساجد کا خیال رکھیں مساجد کو آباد کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کوآباد کرناان ہی لوگوں کاکام ہے جواللہ تعالیٰ پر اورقیامت کے دن پر ایمان لائے اورنماز کی پابندی کی اورزکوٰ ۃ دی (اللہ تعالیٰ پر ایساتوکل کیاکہ) سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اورسے نہ ڈرے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں امیدہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہوں گے یعنی اللہ پاک نے انہیں ہدایت دینے کاوعدہ فرمایاہے (سورہ توبہ)

مسجد کا سب سے پہلاادب تو یہی ہے کہ اسے صرف ذکرِ الٰہی اور اعلی دینی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ رسول ﷺ نے اس بارے میں تفصیلی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:

اللہ کے گھروں سے دور رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو، دیوانوں کو، اپنے خریدو فروخت کے معاملات کو، اپنے جھگڑوں کو، اپنی آواز بلند کرنے کو، اپنی حدود کی تنفیذ کو اور اپنی تلواریں کھینچنے کو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب مایکرہ فی المساجد)

مسجد کاایک ادب اس کی صفائی اور نظافت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دو عظیم نبیوں حضرت ابرہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کو فرمایا:

میرے گھر کو صاف رکھو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لئے۔ (سورۃ البقرہ ۱۲۶)

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امت مسلمہ کو گھروں اور محلوں میں مساجد تعمیر کرنے اور انہیں صاف ستھرا اور خوشبو دار رکھنے کا حکم دیا۔ (ابو دائود کتاب الصلو ۃباب اتخاذ المساجد فی الدور)

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے دیواروں پر تھوک کے دھبے تھے۔ آپﷺ نے کھجورکی ٹہنی لے کر تمام دھبے اپنے ہاتھ سے مٹائے۔ (بخاری کتاب الصلوۃ)

ایک خاتون ام محجن مسجد نبوی کی خدمت کرتی تھیں ۔ ایک رات وہ فوت ہوگئیں ۔ صحابہ نے رسول کریم ﷺ کی تکلیف کا خیال کرکے آپ کو اطلاع نہ دی اور انہیں دفن کر دیا۔ آنحضرت ﷺ نے چند دن اسے نہ دیکھا تو صحابہ سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ صحابہ نے واقعہ بتایا تو آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اوراس کے لئے دعا کی۔ (بخاری کتاب الصلوۃ)ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

میں نے مسجد کی صفائی کی بدولت اس عورت کو جنت میں دیکھا ہے۔ (الترغیب والترھیب کتاب الصلوۃ)

آنحضور ﷺ اکثر تحریک فرماتے تھے کہ خاص طور پر اجتماعات کے مواقع پر مسجدوں کی صفائی کا خاص خیال رکھاکریں اور ان میں خوشبو جلایا کریں تاکہ ہوا صاف ہو جائے۔ (مشکو ۃ المصابیح کتاب الصلوۃ)

مسجد کا ایک ادب اس کی زینت کا قیام ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت ساتھ لے جایا کرو۔ زینت ساتھ لے جانے سے مراد ظاہری پاکیزگی کے علاوہ دل کاتقوی اور پاک خیالات بھی ہیں اور یہ بھی مراد ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہنو اور خوشبو وغیرہ لگا کر جائو اور مساجد کے ماحول کو بھی معطر کر و۔ (سورۃ الاعراف)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مسجد کے دروازوں کے قریب طہارت خانے بنائو اور جمعہ وغیرہ کے موقع پر مساجد میں خوشبو کی دھونی دیا کرو۔ (ابن ماجہ کتاب المساجد باب مایکر ہ فی المساجد)

جمعہ اور عیدین وغیرہ کے موقع پر لوگ کثرت سے مساجد اور دیگر مقامات پر جمع ہوتے ہیں ۔ اس لئے خصوصیت سے رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جمعہ کے دن ضرور غسل کیا جائے۔ دانت صاف کئے جائیں ۔ اچھے کپڑے پہنے جائیں اور خوشبو لگائی جائے۔ (بخاری کتاب الجمعہ باب فضل الغسل یوم الجمعہ والدھن للجمعہ)

رسول کریم ﷺ نے مسجد میں آنے سے قبل ان تمام چیزوں کے استعمال سے روک دیا جو بد بو پیدا کرتی ہیں ۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

جو شخص پیاز یا لہسن کھا ئے وہ ہمارے پاس نہ آئے اور ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے۔ (بخاری کتاب الاطمعہ باب مایکرہ من الثوم)

اوراگر نماز میں تاخیر ہو جائے تو وقار کو ملحوظ رکھاجائے۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس میں دوڑ کر شامل نہ ہو اکرو بلکہ وقار اور سکینت سے چل کر آئو۔ نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب المشی الی الجمعۃ)

مساجد کے ماحول کو پھولوں ، کیاریوں اور سبزہ سے خوبصورت رکھنا چاہئے اور اس کے ساتھ مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے جالوں کی صفائی کی جائے، پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں ۔ غرض جب آدمی مسجد کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے۔ اور جن مساجد میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے، لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے، مٹی چلی جاتی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کے دن تو بہرحال صفائی ہونی چاہئے اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کو بھی صاف رکھنا چاہئے اس کا بھی باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔

.مسجد کو بلا عذر راستہ بنا لینا مکروہ ہے اگر کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں سے گزرتا ہے تو جائز ہے لیکن اس کو چاہئے ہر روز جب وہ ایک یا کئی مرتبہ گزرے تو ایک مرتبہ اس میں تحیتہ المسجد پڑھ لیا کرے بلا عذر گزرنے کی عادت والا بھی اگر اعتکاف کی نیت کر لیا کرے تو گناہ سے بچ جائے گا۔

مسجد کو ہر قسم کی گندگی و خرابی سے بچانا چاہئے اور نجاست کا مسجد میں لے جانا مکروہ ہے مثلاً ناپاک تیل مسجد کے اندر جلانا یا ناپاک گارے سے لیپنا، کلی کرنا، وضو کرنا، وغیرہ۔ ایسے بچوں اور پاگلوں کو جن سے مسجد کے ناپاک ہونے کا گمان غالب ہو مسجد میں لے جانا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر یہ گمان غالب نہ ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔ مسجد میں جوتیاں اور موزے لے جانے والے کو چاہئے کہ اچھی طرح صاف کر کے لے جائے۔ مسجد میں کچا لہسن یا پیاز یا مولی وغیرہ کھانا یا کھا کر جانا جب تک اس کی بو باقی ہو مکروہِ تحریمی ہے کوڑھ اور سفید داغ والے اور گندہ دہن و گندہ بغلی کی بیماری والے اور غیبت اور چغلی کرنے والے وغیرہ کو مسجد میں آنے سے منع کیا جائے ۔ اگر کوئی اپنے مال سے مسجد میں نقش و نگار بنائے یا چونا گچ کرے اور مسجد کی تعظیم کی نیت ہو اور قبلے والی دیوار و محراب پر نہ ہو تو مکروہ نہیں اور اگر قبلے والی دیوار اور محراب پر ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے نمازیوں اور امام کے دل کو مشغولی ہو گی بلکہ دائیں بائیں کا بھی یہی حکم ہے وقف کے مال سے نقش و نگار کرنا حرام ہے۔ مسجد میں سوال کرنا مطلقاً حرام ہے اور اس سائل کو دینا ہر حال میں مکروہ ہے۔ گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں پوچھ گچھ کرنا مکروہ ہے۔ مسجد میں شعر پڑھنا اگر حمد و نعت و وعظ و نصیحت وغیرہ کے لئے ہو تو بہتر ہے اگر گزشتہ زمانوں اور امتّوں کا ذکر ہے تو مباح ہے۔ مسجد میں خرید و فروخت کرنا منع و مکروہ ہے البتہ اعتکاف کرنے والے کے لئے جائز ہے جبکہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضرورت کے لئے ہو تجارت کے لئے نہ ہو اور وہ چیز مسجد میں نہ لائی گئی ہو، ضرورت سے زیادہ اس کے لئے بھی جائز نہیں ۔ بلند آواز سے ذکر کرنا اس وقت مکروہ ہے جبکہ اس میں ریاح کا خوف ہو یا نمازیوں یا قاریوں یا سونے والوں کو تکلیف و خلل کا خوف ہو مگر ان باتوں کا خوف نہ ہو تو مکروہ نہیں ۔ مسجد میں باتوں کے لئے بیٹھنا مکروہ ہے اگرچہ وہ باتیں مباح ہوں اگر عبادت کے لئے بیٹھا ہو اور دنیا کا کلام بھی کر لیا تو مکروہ نہیں ۔ انسان کو اپنی ظاہر ی زینت بھی اختیار کرنی چاہیے پاک صاف کپڑے اور باوضو ہو کر داخل ہونا چاہیے اس سے صفائی پیدا ہوتی ہے خاص طور پر جمعہ کے دن تو نہا کر آنے کو پسند کیا گیا ہے۔ ظاہری طور پر صفائی کا خیال رکھنے سے روح کی بھی صفائی کی ہوجائے گی اوراللہ تعالی کی خشیت اور تقوی دل میں پیدا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں مسجد کے آداب پہ عمل کرنے کی اور مساجد کو آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین