اذان کے مسائل و احکام

نماز کا بیان – سبق نمبر 4:

عَنْ سَعْدٍ، مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَجْعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: « إِنَّهُ أَرْفَعُ لِصَوْتِكَ » . (رواه ابن ماجه)

سیدناسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو (مسجد قبا) میں رسول اللہ ﷺ کے مقرر کئے ہوئے موذن تھے ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیتے وقت وہ اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں ، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ایسا کرنے سے تمہاری اور آواز بلند ہو جائے گی۔ (سنن ابن ماجہ)

اذان وقت داخل ہونے کے بعد دی جائے، اگر پہلے دے دی گئی تو وقت داخل ہونے کے بعد دوبارہ دی جائے۔ اذان کے صحیح ہونے کی شرائط:

1۔ یہ کہ اذان دینے والامسلمان ہو، مرد ہو اور صاحب عقل ہو۔

2۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ اذان ترتیب کے ساتھ ہو۔

3۔ پے در پے پڑھنے والا ہو۔ اسکے کلمات کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو۔

4۔ اذان، نماز کے وقت کے داخل ہونیکے وقت ہو۔

اذان کہنے والے کو موذن کہا جاتا ہے۔ جب اذان ہو تو اتنی دیر کے لیے سلام کلام اور سارے کام بند کر دے۔ اذان کو غور سے سنے اور جواب دے۔ جو اذان کے وقت باتوں میں لگا رہے اس پر معاذ اللہ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔ اور قرآن شریف پڑھ رہا ہے تو تلاوت چھوڑ کر اذان کا جواب دے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ تلاوت شروع کردے بہرحال ہر اذان سننے والے پر جواب واجب ہے اگر کئی موذن اذان کہیں تو اول ہی کا جواب دینا ضرور ی ہے اور اگر سننے والا مسجد میں ہو تو اس پر جواب دینا واجب نہیں مستحب ہے۔ اگر زبان سے جواب دے اور بِلا عذر مسجد میں نہ آئے تو جواب ادا نہ ہوگا بلکہ چاہئے کہ زبان سے جواب دے اور پائوں سے چل کر مسجد میں حاضر ہو اس وقت جواب پورا ہوگا اذان اور اقامت کا جواب دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح موذن یا مکبّر کہے تو اسی طرح سننے والے بھی ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ہر ایک کلمہ کہتے جائیں ۔ ہر مرد و عورت ‘ پاک ناپاک کے لیے مستحب ھے ، یہ حکم عام ہے اس میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ عورت کے لیے ایامِ مخصوصہ میں بھی اذان کا جواب دینا جائز ہے ۔ اور اذان سن کر جواب دینا اذان کا حق ہے ، لہٰذا اذان سنتے وقت مؤذن جو کلمات ادا کرے گا اس کے سننے پر وہی کلمات دہرائے جائیں گے مگرحَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ سُن کرجواب میں وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کہنا چاہئے۔

مفتی عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :

حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اور ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے اور باقی الفاظ کے جواب میں وہی الفاظ کہے جو مؤذن سے سنے، یہ احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ ‏‏‏‏‏‏الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کے جواب میں کوئی خاص کلمات کہنا ثابت نہیں ہے۔ قُولْوا مِثْلَ مَا یَقُولْ (اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہے) کا تقاضہ یہ ہے کہ جواب دینے والا بھی ‏‏‏‏‏‏الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہے اور اس سے اپنے نفس کو خطاب کرے اور حنفیہ شافعیہ کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہے، اس کی کوئی اصل نہیں ۔ “

فجر کی اذان میں اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُمِّن النَّوْمِ سن کر صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ وَ بِالْحَقِّ نَطَقْتَکہے (ترجمہ) تو نے سچ کہا اور ہماری بھلائی کی بات کہی۔ اور جب اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃ سنے تو اَقَامَھَا اللّٰہُ وَاَدَاَمَھَا کہے یعنی خدانماز کو قائم و دائم رکھے۔ اقامت میں بھی اذان کی طرح حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح میں دائیں بائیں منہ پھیرنا مسنون ہے۔

اذان دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مؤذن پاک حالت میں قبلہ رو کھڑے ہوکر اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں کو کلمہ کی انگلی سے بند کر کے اپنی طاقت کے موافق بلند آواز سے اذان کہے ۔ اذان میں چھ مرتبہ اللہ اکبر ہے ، ان سب میں را کوسا کن پڑھا جائے ۔

مسئلہ نمبر(۱)

جب اذان ختم ہو تو درود شریف پڑھے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور پھر مندرجہ ذیل دعائے وسیلہ پڑھے۔ (مسلم ج۱۶۶)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو’جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کا سوال کرو۔ وسیلہ جنت میں ایک (ایسا بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ) مقام ہے۔ جس پر بندگان الٰہی میں سے صرف ایک انسان ہی فائز ہوگا۔ اور امید ہے کہ یہ شرف مجھے حاصل ہوگا۔ جس شخص نے میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کی دعا ء کی اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائے گی۔ دعائے وسیلہ یہ ہے :

اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ القَآئِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَ ن الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہ‘ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ط(حوالہ حصن حصین ص ۱۵۷)

وسیلہ کی تعریف خود نبیﷺ نے فرمادی ہے کہ وہ جنت کی منزلوں میں سے ایک منزل ہے جوسب سے اونچی اورسب سے بڑی ہے۔ اورفضیلت یاتووسیلہ ہی کے لیے بطور وضاحت آیا ہے یا اس سے مراد ہے وہ اونچا درجہ جوتمام مخلوقات میں سے صرف آپﷺ ہی کوحاصل ہوگا۔ اوراس دعا میں تیسری چیز کابھی تذکرہ ہے اور وہ ہے آپﷺ کے لیے مقام محمود مانگتا اور اس سے مراد وہ مقام ہے جس کی جنتی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اوریہ مقام ہے مقام شفاعت اور یہ کہ رسول اللہﷺ اپنی امت کے ان تمام لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے جوشرک کے مرتکب نہیں ہوئے ہوں گے۔

مسئلہ نمبر(۲)

ڈاڑھی منڈوانے والے یا مٹھی سے کم کترانے والے کی اذان واقامت مکروہ ہے۔ (ہندیہ ص۶۰ج۱)

مسئلہ نمبر(۳)

کلمات اذان کا درست ہونا ضروری ہے (شامی: ۱: ص۸۵)

مسئلہ نمبر(۴)

اذان میں ہر دو کلمات کے درمیان اتنا وقفہ کرے کہ سننے والا جواب دے سکے، جلدی جلدی کلمات کہنا مکروہ ہے (درالمختارص: ۲۴۵ج: ۱)

مسئلہ نمبر(۵)

مثل اذان کے اقامت میں بھی دائیں بائیں منہ پھیرا جائے۔ (شامی ج: ۱ ۲۵۵)

مسئلہ نمبر(۶)

سمجھدار نابالغ بچہ جو صحیح اذان کہہ سکتا ہو اسکی اذان بلاکراہت جائز ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ بالغ اذان دے (ہندیہ: ج: ۱: ص۶۰)

مسئلہ نمبر(۷)

پنج وقتی فرض نمازوں کے علاوہ اور کسی بھی نماز کیلئے اذان جائز نہیں (عالمگیری ص۶۰ج۱)

مسئلہ نمبر(۸)

بغیر وضو کے اذان مکروہ ہے ۔ (عالمگیری: ج: ۱: ص۶۰)

مسئلہ علماء کے صحیح قول کے مطابق عورت کے لئے آذان نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عہد میں کبھی کسی عورت نے اذان نہیں کہی تھی۔

اذان واقامت ہر فرض نماز کے لیے سنت موکدہ ہے ۔ سفر میں بھی باجماعت نماز کے لیے اذان اورا قامت مستحب ہے ۔ دفن کرتے وقت، وفن کے بعد، قبر کے پاس اذان کہنا یا مسلسل بارش ہونے کے وقت اذان کہنا مکروہ ہے ۔ نومولود بچے کو نہلانے کے بعد اپنے ہاتھ میں اٹھا کر قبلہ رخ ہوکر دائیں کا ن میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے ۔ ”حی علی الصلوۃ پر اپنا چہرہ دائیں طرف اور ”حی علی الفلاح“پر اپنا چہرہ بائیں طرف موڑ اجائے ۔ بعض اوقات کسی وجہ سے نومولود کو جلدی نہیں نہلاتے ، اس کی وجہ سے اذا ن میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بچے کو کپڑے سے صاف کر کے اذان کہی جاسکتی ہے ۔ اگر غفلت بالاعلمی سے کچھ دن گزر گئے ، تب بھی جب معلوم ہواذان کہی جائے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور موذن امین ہے، اے اللہ اماموں کو ٹھیک چلنے کی توفیق دے اور موذنوں کی مغفرت فرما۔ (مسند احمد جامع ترمذی)

مطلب یہ ہے کہ امام پر اپنی نماز کے علاوہ مقتدیوں کی نماز کی بھی ذمہ داری ہے اس لیے اس کو اپنے امکان کی حدتک ظاہر اور باطنا اچھی سے اچھی نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور موذن پر لوگوں نے اذان کے بارے میں اعتماد کیا ہے، لہذا اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مصالح اور خواہشات کی روایت کے بغیر صحیح وقت پر اذان پڑھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں موذن اور امام دونوں کی ذمہ داری بتلائی اور دونوں کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔