قر آن سیکھنے سکھانے کی فضیلت

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (رواه البخاري) .

سیدنا عثمان بن عفاّ ن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺنے فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو(خود )قرآ ن سیکھے اور اسے (دوسروں کو) سکھلائے۔‘‘ اؔسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

یہ حدیث قرآ ن کریم کے سیکھنے اور سکھلانے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ جو لوگ قرآ ن کو سیکھتےاور سکھلاتے ہیں، وہ لوگوں میں سب سے بہترین اوراچھے لوگ ہیں۔

قرآنِ مجید سیکھنے والے کو اللہ تعالیٰ چار نعمتوں سے نوازتے ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم،سنن ابو داود و ترمذی اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب کچھ لوگ اللہ کے گھر (مسجد) میں جمع ہوکر قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے ہیں تو:

1۔ ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔

2۔ اللہ کی رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے۔

3۔ فرشتے انھیں احتراماً گھیر ے میں لے لیتے ہیں۔

4۔ اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان کے پاس کرتے ہیں جو اس کے پاس ہیں (یعنی فرشتے)اور(یاد رکھو!)جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا اس کا نسب اس کو آگے نہیں کرسکے گا۔‘‘

’’انسان کے مرنے کے بعد اس کے اعمال اور اس کی نیکیوں میں سے جو چیزیں اسے نفع پہنچاتی ہیں وہ یہ ہیں:

1۔ علم،جو اس نے دوسروں کو سکھایا اور پھیلایا۔

2۔ نیک اولاد جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑی۔

3۔ (قرآن کے)علم کا کسی کو وارث بنایا۔

4۔ مسجد تعمیر کی ہو۔نہر(کنواں یا نلکا وغیرہ جیسی کوئی چیز)جاری کی ہو۔

7۔ اور صدقہ جو اپنے مال سے اپنی زندگی اور صحت کی حالت میں نکالاہو۔یہ تمام چیزیں انسان کے مرنے کے بعد بھی اسے فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں۔

اپنی اولاد کو قرآن مجید کی تعلیم دلوانے والے والدین کو قیامت کے روز دو ایسے قیمتی لباس پہنائے جائیں گے جن کے سامنے دنیا و ما فیہا کی ساری دولت ہیچ ہوگی۔اور قرآنِ مجید زبانی یاد کرنے والے کی جنت میں تاجپوشی کی جائے گی۔اس کے دائیں ہاتھ میں جنت کی بادشاہت کا پروانہ اور بائیں ہاتھ میں جنت میں ہمیشہ رہنے کا پروانہ عطا کیا جائے گا۔بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا اصول اسلام میں سے ہے کیونکہ بچوں کی پرورش فطرت سلیمہ پر ہوتی ہے لہٰذا ان کے دل خواہشات کی آماجگاہ بننے اور معصیت وگمراہی کی سیاہی سے پہلے حکمت کے انوار سے پُر ہوتے ہیں۔ پس چھوٹے بچوں اور بچیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں قرآن مجید کی تعلیم پر ڈال دیا جائے تا کہ ان کا یہ پختہ عقیدہ قائم ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کا رب ہے اور قرآن مجید اس کا کلام ہے۔ ااور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ان کے دلوں میں قرآن مجید کی محبت راسخ ہو گی اور ان کے اذہان، افکار، صلاحیتیں اور حواس اس کے نور سے روشن ہوں گے۔ اس طرح ہم بچپن میں ہی قرآنی عقائد سیکھ لیں گے اور ہماری پرورش قرآنی اخلاق کی روشنی میں ہو گی۔ ہم اس کے احکامات پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کریں گے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بچپن کا حفظ پختہ ہوتا ہے اور دیر تک یاد رہتا ہے اور دل میں گھس جاتا ہے اور نفس پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔

آج قرآنِ مجید کے ساتھ ہمارے اعراض کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کے کنٹرول میں موجود ذرائع اِبلاغ کو فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے لیے تو دن رات کے چوبیس گھنٹے میسر ہیں، اگر نہیں تو قرآنِ مجیدکی آیات سیکھنے سکھانےکیلئے چند منٹ کا وقت بھی میسر نہیں۔

سکولوں اور کالجوں میں ہر طرح کا نصاب پڑھانے کے لیے اساتذہ میسر ہیں اگر نہیں تو قرآنِ مجید پڑھانے کے لیے قرّاء میسر نہیں۔ عوامی سطح پر قرآنِ مجید سے اعراض کا حال یہ ہے کہ گھروں اور دکانوں سے،کھیتوں اور کھلیانوں سے،تفریح گاہوں اور پارکوں سے،ویگنوں اور بسوں سے ہر وقت غلیظ،گندے اور لچر گانوں کی بے ہنگم آوازیں توہر وقت سنی جاسکتی ہیں، لیکن قرآنِ مجید کی تلاوت کی آواز کہیں سے سنائی نہیں دیتی۔الا ما شآء اللہ

اس لیے ہر مسلمان مرد اور عورت کو چاہیے کہ وہ قرآ ن سے لگاؤ رکھتے ہوئے تلاوتِ قر آن کا اہتمام کریں، اسے سیکھنے، اور اس کے تلفظ کو صحیح ادا کرنے اور اس میں مہارت پیدا کرنے کی حرص اور لالچ رکھیں اور اسے دوسرے کو سکھلانے میں ساجھی دار بنیں۔

سب سے بہترین اور نفع بخش بات یہ ہے کہ قرآ ن سیکھنے کی غرض سے مدارس وادارے اور مساجد میں قائم ہونے والی قرآ نی حلقات میں داخلہ لیا جائے۔ اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ ہدایت، بھلائی اور نور کی راہ پر ہے۔