طلبائے دین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا

‏‏‏‏‏‏إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا، ‏‏‏‏ (ترمذی 2650)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ تمہارے پیچھے ہیں، کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔

آج کل ہر جگہ نفسا نفسی اور کشا کشی ہے، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، ہرایک اپنے مفادات اور مقاصد کے پیچھے دوڑ رہا ہے، دین ومذہب اور اسلامی اخوت کو پس پشت ڈال دیاگیا ہے، مسلمان کے دل سے مسلمان کی خیر خواہی کا تصور مٹ گیا ہے، حالانکہ آنحضرت ﷺ نے تین بار دُہرا کر فرمایا: ’’دین اخلاص اور خیر خواہی کا نام ہے۔چنانچہ ترمذی شریف میں ہے: ’’سیدناحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺنے تین بار دُہرا کر فرمایا کہ ’’دین اخلاص وخیر خواہی کا نام ہے۔‘‘

اس حدِیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ دینِ اسلام فقط عبادات یا ذکر و اذکار یا وظائف کا نام نہیں، بلکہ بندوں کے حقوق، ان کے ساتھ خیرخواہی، ان کے لیے خیر اوربھلائی کا چاہنا، یہ بھی دینِ اسلام میں شامل اور اس کا حصہ ہے۔ لوگوں کی تذلیل کرنا یا اُن کے نقصان کے درپے ہونا یا اُن کے ساتھ بدخواہی کامعاملہ رکھنا یہ ایمان کی شان کے خلاف ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نصیحت، کسی حکم کوسنتے توساری عمراس حکم کو مدنظر رکھتے اور ہر موڑ پر اس کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزارتے تھے۔ ساری عمر اپنے دامن سے اس نصیحت کو چمٹائے رکھتے اور ذرہ برابر اس سے اِعراض نہ فرماتے۔ خیرخواہی کی جو انواع اوپر بیان ہوئی ہیں ان کو ان کے اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے اور طاعات وعبادات میں ان کی ہمت افزائی کی جائے۔ یہ وہ شمائل وخصائل ہیں جن کو اپنانے سے معاشرہ رشک ملائکہ بن سکتا ہے، مگر ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے۔

علم، اللہ سبحانہ و تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ یہ ان انعامات الٰہیہ میں سے ہے جن کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر تھے، اس کے بعد اُن کے علم کے وارث یہی حضرات ہیں۔ اور انہی کی بے مثل اور خالص اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا جوئی کیلئے کی گئی جدوجہد اور خدمتِ دین کا نتیجہ ہے کہ یہ دین الحمدللہ آج تک اپنی اصل شکل و صورت میں باقی ہے اور ہر دور میں اس کے دفاع کیلئے یہی علمائے کرام تھے جو سینہ سپر رہے۔

دینی تعلیمات کے تحفظ اور فروغ کے لیے ہمارے معاشرے میں ڈیڑھ سو برس سے محنت ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہوتی رہے گی۔دینی مدارس اپنے قیام سے اب تک ایک ہی مقصد کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ انسانی سوسائٹی کا تعلق وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ جڑا رہے اور زمین پر بسنے والے سب لوگ اپنی زندگی آسمانی تعلیمات کی روشنی میں وحی الٰہی کی ہدایات کے مطابق بسر کریں۔

یہ جو دینی تعلیم ہے یعنی قرآن مجید اور حدیث نبوی کی شکل میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کی پہچان حاصل کرنے میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے بغیر ہمیں دنیا میں اپنی پہچان اور اپنا تعارف مکمل نہیں کرا سکتےکہ ہم کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور ہمیں کس نے بنایا ہے؟ دنیا کے جتنے علوم و فنون ہیں یہ بہرحال ہماری ضرورت ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی، بیالوجی اور سوشیالوجی وغیرہ ان میں سے کسی چیز سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن ان کا دائرہ ہماری اس دنیوی زندگی تک محدود ہے۔ اب ہماری زندگی دس منٹ باقی ہے، دس گھنٹے باقی ہے یا دس سال باقی ہے، ان کی ضرورت بہرحال مجھےاور آپ کو زندگی کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ہے۔ جبکہ آنکھ بند ہونے کے بعد ان میں سے کوئی فن اور علم ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔ حالانکہ اسلامی عقیدے کے مطابق ہماری زندگی صرف آنکھ بند ہونے تک نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بھی ہماری زندگی ہے۔ اس سے آگے برزخ بھی ہے، حشر بھی ہے، پل صراط بھی ہے، جنت بھی ہے، اور اللہ نہ کرے جہنم بھی ہے۔ لہذٰاہماری جو اصل زندگی اور مستقبل ہے اس کے حوالے سے ہمیں جو تعلیمات، معلومات اور رہنمائی ملتی ہے تو قرآن و حدیث کی شکل میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے ملتی ہے۔

اسی وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو محفوظ کرنے کیلئے مدارس ہیں ان مدارس میں طلبائے دین کی ایک جماعت ہےجو دن رات قرآن وحدیث کو اپنے سینوں میں محفوظ کررہی ہے، یہی وہ مبارک جماعت ہے جس نے دینی مسائل پر دقیق و عمیق نظر رکھی اور دین کے ہر ہر پہلو کو اس قدر واضح کردیا کہ اب عامۃ المسلمین کیلئے شرعی اوامر و نواہی سے آگاہی حاصل کرنا نہایت آسان ہوگیا ہے۔

اگر ہم غور کریں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ نہ جانے مدارس اسلامیہ اپنے اپنے علاقے اور اپنے اپنے مقام پر کیسی کیسی عظیم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اور یہ مدارس اسلامیہ کے یہ وہ احسانات ہیں جس پر پوری امت کو ممنون و مشکور ہونا چاہیے۔

غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہی مدارس اور انکے فیض یافتہ خدامِ دین معاشرہ کی اصلاح اور امت مسلمہ کی زبوں حالی کے خاتمہ کے لیے کمر بستہ ہوکر قلیل تنخواہوں پر گذارا کرلیتے ہیں، دنیاوی لذتوں کو خیر باد کہہ کر دین اسلام کی سربلندی اور رضائے الہی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ لہذا ان نازک ترین حالات میں ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم مدارس و مساجد اور ان سے منسلک رجالِ کار ائمہ و مؤذنین، حفاظ اور علماء معلمین و معلمات کی حتی الوسع اعانت کریں، یاد رکھیے!یہ حضرات وارثتِ نبوی کے علمبردار ہیں انکی عزتِ نفس کی تذلیل ہمارے لیے خسارے کا باعث ہوسکتی ہے۔

مدارس کی طلباء کی امداد و اعانت کریں، اور مختلف طریقوں سے انکی ضروریات کا خیال کریں کیونکہ مدارس کی اعانت در اصل دین اسلام کی اعانت ہے کہ ان مدارس سے اسلام کی آبیاری ہوتی ہے۔یہ دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم تو مکمل نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں جبکہ خدام دین اور محافظین شریعت کے گھروں کے چولہے بجھے ہوئے ہیں اور فاقہ کشی سے گذر رہے ہیں، کہیں یہ حال تو نہیں کہ ان معمارانِ قوم کے معصوم بچے بھوک سے سے بلبلا رہے ہوں۔ خدارا ایسی نازک صورتحال میں اپنے مخلص مدارس اور خدام دین کو فراموش نہ کریں۔

عام حالات میں مدارسِ دینیہ کا تعاون کرنا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں، ان کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرکے باقی رکھنا دین کی بقاہے، مدارس کے غریب طلبہ کو زکات دینے میں شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص وخیر خواہی عطا فرمائے اور حدیث نبویﷺ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ پاک ہماری اور تمام امت مسلمہ اور ساری انسانیت کی حفاظت فرمائے مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ کی غیبی حفاظت فرمائے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین و صلی اللہ وسلم و بارک علیٰ نبینا محمد و علیٰ آلِہِ و صحبہ اجمعین۔

Dars e Hadees Hadith 31 Dealing well with religious studentsطلبائے دین کے ساتھ بھلائی کرنا Umar Galle ویڈیو

Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadith 31 Dealing well with religious studentsطلبائے دین کے ساتھ بھلائی کرنا Umar Galle. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 09:27

https://youtu.be/5qyNHOd0NWE