صدقہ کی آسان صورتیں

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ

سیدُنا حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ۔

اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ (سنن ترمذی: 1956)

مسکراہٹ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی اور عظیم نعمت ربانی ہے۔مسکراہٹ انسانی چہرے پر نمودار ہونے والا سب سے خوبصورت جذبہ ہے جو انسان کی خوبصورتی اور مجموعی شخصیت کو چارچاند لگادیتاہے۔ ایسا حلال جادو ہے جو دل کی گہرائی سے نکل کر ہونٹوں پر رونماں ہوتاہے بعد ازاں پیار کی خوشبو بکھیرتاہے اور نسیم محبت کے جھونکے چلاتاہے۔حسد، نفرت اور بغض کے گرہیں کھول کر الفت و محبت دلوں میں جاگزیں کرتاہے، مسکراہٹ ایک ایسا انمول تحفہ ہے جو غریب سے غریب آدمی بھی کسی کوبھی پیش کر سکتا ہے۔ہم خاتم النبین رسول کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ پر غور کریں:

آپ ﷺ نے اس حدیث مبارکہ میں اپنی امت کی رہنمائی فرمائی اور مسکراہٹ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے سے پیش آنا بھی صدقہ ہے‘‘

سبحان اللہ!کیا عالی شان فرمان ہے۔لہٰذاسب کو خوشیاں دیجئے‘ پیار بانٹیے‘ یاد رکھیے! جو چیز دوسروں کو دی جاتی ہے بانٹی جاتی ہے‘ وہ بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی، کاش ہم اس نکتہ کو سمجھ سکتے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

‏‏‏‏‏‏وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ،

تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔(سنن ترمذی: 1956)

ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا۔

نبی کریم ﷺ کے فرمان کےمطابق یہ ہمارے دینی فرائض میں داخل ہے کہ بنی نوع انسان کی دنیا کی سرفرازی اور آخرت کی سرخروئی کے لیے جو بھی بھلے کام نظر آئیں، بنی آدم کو اُن کا درس دیں اور اس کی مخالف سمت چلنے سے ان کو روکیں۔ اس فریضہ سے کوئی مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں۔ مسلم معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے کہ کلمہ حق کہے، نیکی اور بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں ان کوروکنے میں اپنی ممکن حد تک پوری کوشش صرف کردے۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام ﷩ کو مبعوث فرمایا اورانبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کے، علماء وفضلاء، مبلغین کو خصوصا اورامت کے دیگر افراد کوعموماً اس کا مکلف ٹھہرایا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس فریضہ کواس قد ر اہمیت دی گئی ہے کہ تمام مومن مردوں اورتمام مومن عورتوں پر اپنے اپنے دائرہ کار اور اپنی اپنی استطاعت کےمطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکرپر عمل کرنا واجب ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏

بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے،(سنن ترمذی: 1956)

ویسے تو یہ دنیا انسان کی بہت سی مادی ضرورتوں پر مشتمل ہے۔ لیکن سب سے اہم ترین ضرورت جس میں دنیا آخرت کی کامیابی پوشیدہ ہے وہ ہدایت ہے۔ ہدایت سے مراد رہنمائی کرنا، سیدھا رستہ دکھانا، نفع مندی کا راستہ، انبیا کا راستہ جس کی منزل جنت ہے۔ وہ راستہ جس پر اللہ نے اپنے تمام انعام یافتہ بندوں کو چلایایقیناً ان سب کی زندگیاں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ معاشرتی طور پر ہدایت کے لئے کوشش کرے۔ دین کا علم حاصل کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کے لئے مدد مانگے۔ خود ثابت قدم رہنا اور پھر دوسروں کےلئے کوشش کرنا بہت اہم اور لازمی ذمہ داری ہے جو ترک نہیں کی جا سکتی۔اور جب انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ ہدایت دیتا ہے، اللہ دل بدل دیتا ہے، گمراہ لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ آپ بھی کوشش کریں اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔لیکن اگر انسان کوشش ہی نہ کرے اللہ کا دین ہی نہ سیکھے اور کہے کہ میرے نصیب میں گمراہی لکھ دی گئی ہے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

‏‏‏‏‏‏وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ،

نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے،(سنن ترمذی: 1956)

کسی مسلمان کی پریشانی دورکرنا، مصیبت اور تکلیف میں اس کی مدد کرنا، دُکھیارے کا دکھ بانٹنا، بھٹکے ہوئے مسلمان کو راستہ بتادینابالخصوص کسی نابینا شخص کی مدد کرنا،پکڑ کر سڑک پار کرادینا،اُس کو گھر تک چھوڑ آنا،یا جس طرح کی اُ س کو حاجت ہو۔الغرَض کسی بھی نیک اورجائز کام میں مسلمان بھائی کی مددکرنا نہایت اجرو ثواب کاباعث ہے،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو نفْع پہنچا سکتا ہوتواُسےنَفع پہنچائے۔(مسلم،ص931، حدیث: 5731)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏

پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے،،(سنن ترمذی: 1956)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اسلام میں ایک دوسرے کی تکلیف دور کرنے اور راہ سے رکاوٹیں ہٹانے کی بھی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، اسلام ہمیں راستہ کی رکاوٹیں دور کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کااجر اتنا زیادہ بیان کیا گیا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔”سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کسی راستہ میں چلا جارہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی دیکھی تو اس کو ہٹا دیا پس اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو بخش دیا “(صحیح بخاری، جلد اول، حدیث628)

راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی کتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اجتماعی مفاد اور خلق خد اکی بھلائی کے نظریہ سے اس کو صدقہ کادرجہ دے دیا گیا ہے۔مگر ہمارے معاشرہ میں جہاں قانون شکنی کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں فٹ پاتھ تو یہاں دکانداروں کے قبضوں کی شکل میں ویسے ہی غائب ہوجاتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ہم تو سڑکوں پر بھی تسلط جمانا اپنا وراثتی حق سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت میں اس عمل کو پسندنہیں فرمایا۔

”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے تو میں نے ان کے اچھے اعمال میں سے اچھا عمل راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیز کا دور کردینا پایا اور میں نے ان کے برے اعمال میں سے مسجد میں تھوکنا اور اس کا دفن نہ کرنا پایا (صحیح مسلم، حدیث1228)

راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا کس قدر اہمیت و برکت کا حامل ہے کہ اسے ہمارے پیارے رسول ﷺ نے خود اپنی امت کے لئے پسند فرمایا مگر ہم اس پر بھی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ سوچئے کہ اگر ہم آپ ﷺ کی واضح ہدایات کیے باوجود ان کے منافی عمل کریں گے توہم روز محشر کس منہ سے اپنے پیارے نبی ﷺکا سامنا کریں گے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ

اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کو پانی دینا بھی ایک صدقہ ہےیعنی ایک عام سی چیز سے بھی کسی کی مدد کرنا اور اُس کے ساتھ خیر خواہی کرنا،نیکی ہے صدقہ ہے،انسانیت کی خیر خواہی دین کی بنیاد اور اس کا جوہر ہے۔ دین دراصل خیر خواہی کا نام ہے۔جب انسانیت کے حق میں بندہ خیرخواہ ہوگا تو اس کا دین کامل ہوگا۔ غمزدہ اور بے سہارا کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد کے باب سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کے حل کے لیے کوششیں تو ضرور کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اللہ کے دین کا علم حاصل کرنا اس پر عمل کرنا یہ ہی ہدایت ہے اور اسے آگے پہنچانے کے لئے کوشاں رہنا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ تو آئیے ذمہ داری کو خوب پورا کیجیے اور فلاح پائیے۔

Dars e Hadees Hadith 25 Hadees 25 Sadqa Ki Asan Soorten Simple Forms of Charity Umar Gallery ویڈیو

Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadith 25 Hadees 25 Sadqa Ki Asan Soorten Simple Forms of Charity Umar Gallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 11:19

https://youtu.be/Q4130lstBAU