رسول اللہ ! ﷺ کی دس نصیحتیں اور وصیتیں

عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: أَوْصَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشْرِ كَلِمَاتٍ قَالَ: ” لَا تُشْرِكْ بِاللهِ شَيْئًا وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَيْكَ، وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ، وَلَا تَتْرُكَنَّ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا؛ فَإِنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللهِ، وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا؛ فَإِنَّهُ رَأْسُ كُلِّ فَاحِشَةٍ، وَإِيَّاكَ وَالْمَعْصِيَةَ؛فَإِنَّ بِالْمَعْصِيَةِ حَلَّ سَخَطُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِيَّاكَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ وَإِنْ هَلَكَ النَّاسُ، وَإِذَا أَصَابَ النَّاسَ مُوتٌ وَأَنْتَ فِيهِمْ فَاثْبُتْ، وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ، وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ ” (رواه احمد)(ماخذ: معارف الحدیث – کتاب الرقاق – حدیث نمبر 238)

عَنْ مُعَاذٍ رَضِیَ اللہ عنہ قَالَ: أَوْصَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشْرِ كَلِمَاتٍ

حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دفعہ) مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی،

1 قَالَ: ” لَا تُشْرِكْ بِاللهِ شَيْئًا وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ،

رسول اللہ!ﷺ نےپہلی وصیت یہ فرمائی:

فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تم کو قتل کر دیا جائے اور جلا ڈالا جائے۔

شرک سب گناہوں سے بڑا گناہ اور سب نافرمانیوں سے بڑی نافرمانی ہے جو اللہ تعالٰی کو کسی حالت میں گوارا نہیں ہے۔ جناب نبی اکرمؐ اور دوسرے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا اولین نکتہ یہی رہا ہے کہ اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور اس کی ذات، صفات، اختیارات اور افعال میں کسی اور کو شریک نہ مانا جائے، حتٰی کہ اگر کسی موقع پر ایک مسلمان کو شرک اور قتل میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو اس کے لیے عزیمت کا راستہ یہی ہے کہ وہ قتل ہونا قبول کر لے مگر اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کرے۔

رسول اللہ!ﷺ نے دوسری وصیت یہ فرمائی

2 لَا تَعُقَّنَّ وَالِدَيْكَ، وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ،

اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو، اگرچہ وہ تم کو حکم دیں کہ اپنے اہل و عیال اور مال و منال کو چھوڑ کے نکل جاؤ۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے متعدد مقامات پر اپنی توحید اور بندگی کے ساتھ ماں باپ کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے جس کی وجہ مفسرین کرامؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ انسان کے پاس سب سے بڑی دولت اور نعمت اس کی زندگی ہے، اور زندگی دینے والا خدا ہے مگر انسان کے وجود اور زندگی کا ظاہری ذریعہ ماں باپ ہیں۔ اس لیے جس طرح اللہ تعالٰی کا شکر گزار رہنا ضروری ہے اسی طرح ماں باپ کی شکر گزاری بھی واجب ہے اور ماں باپ کا حق یہ ہے کہ جب تک وہ اللہ تعالٰی اور رسولؐ کے کسی واضح حکم کی خلاف ورزی کی بات نہ کریں ان کے حکم کو ماننا شرعاً ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اولاد کو چاہئے کہ اُن کے سخت سے سخت حکم اور ناگوار سے ناگوار حکم کو بھی مانے، ورنہ مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کے ایسے اسخت اور ناروا مطالبات کا پورا کرنا اولاد پر شرعاً واجب نہیں ہے، ہاں اگر رضاکارانہ طور پر اولاد ایسا کرے، (اور کسی دوسرے کی اس میں حق تلفی نہ ہو) تو افضل ہے اور بڑی بلند بات ہے۔

رسول اللہ!ﷺ نے تیسری وصیت یہ فرمائی:

3 وَلَا تَتْرُكَنَّ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا؛ فَإِنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللهِ

اور کبھی ایک فرض نماز بھی قصداً نہ چھوڑو، کیوں کہ جس نے ایک فرض نماز بھی قصداً چھوڑی، اس کے لئے اللہ کا عہد اور ذمہ نہیں رہا۔

ہر مسلمان مرد اور عورت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں جن کو بلاعذر ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور اگر کوئی فرض نماز رہ گئی ہے تو جب تک اس کی قضا نہیں کرے گا اور توبہ استغفار نہیں کرے گا یہ گناہ معاف نہیں ہو گا۔ اس لیے ہر مسلمان کو نماز کی پابندی کرنی چاہیے۔ جو مسلمان نمازوں کی پابندی کرتا ہے وہ اللہ تعالٰی کی خصوصی رحمت کی نگرانی اور حفاظت میں آ جاتا ہے اور جب کوئی شخص جان بوجھ کر فرض نماز ترک کرتا ہے تو یہ حفاظت اس سے اٹھ جاتی ہے۔ نماز کے متعلق آپ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک فرض نماز قصداً ترک کی، اس کے لیے اللہ کا عہد و ذمہ نہیں رہا۔ یہ اُن حدیثوں میں سے ہے جن کی بناء پر حضرت امام شافعیؒ اور بعض دوسرے ائمہ نے تارک صلوٰۃ کے قتل کا فتویٰ دیا ہے۔ حضرت امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حاکم اسلام اس کو جو سزا دینا مناسب سمجھے دے اور قید کر دے، اللہ کے عہد و ذمہ کی برأت کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ بہر حال اس میں شبہ نہیں کہ عمداً فرض نماز چھوڑنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ گناہ اگر عین کفر نہیں ہے تو قریب بہ کفر ضرور ہے۔

رسول اللہ!ﷺ نے چوتھی وصیت یہ فرمائی:

4 وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا؛ فَإِنَّهُ رَأْسُ كُلِّ فَاحِشَةٍ،

اور ہرگز کبھی شراب نہ پیو، کیوں کہ شراب نوشی سارے فواحش کی جڑ بنیاد ہے، (اسی لئے اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے)۔

شراب کو قرآن کریم نے ’’گندگی‘‘ کہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے ’’ام الخبائث‘‘ قرار دیا ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے اور شراب کی طرح ہر وہ چیز حرام ہے جو نشہ دیتی ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ نشہ دینے والی ہر چیز حرام ہے اور اس کا استعمال کبیرہ گناہ ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسی گندگی سے خود کو دور رکھے اور شراب سمیت نشہ والی کوئی چیز استعمال نہ کرے۔

رسول اللہ!ﷺ نے پانچویں وصیت یہ فرمائی:

5 وَإِيَّاكَ وَالْمَعْصِيَةَ؛فَإِنَّ بِالْمَعْصِيَةِ حَلَّ سَخَطُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،

اور ہر گناہ سے بچو کیوں کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غصہ نازل ہوتا ہے۔

یہاں نافرمانی سے مراد کسی انسان کا وہ عمومی رویہ ہے جو وہ احکام الٰہی کے بارے میں اختیار کرتا ہے۔ کسی فریضہ میں اچانک کوتاہی ہو گئی ہے یا کسی شرعی حکم پر عمل نہیں ہو سکا تو یہ گناہ کی بات ہے اور اس کی تلافی اور معافی کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن شرعی احکام کے بارے میں کسی کا عمومی طرزعمل ہی یہ ہو گیا ہے کہ نہ ماننے اور عمل نہ کرنے کا مزاج بن گیا تو ایسا شخص ’’نافرمان‘‘ کہلاتا ہے اور اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستوجب قرار پاتا ہے۔ اس لیے ہم سب کو اپنے عمومی طرزعمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ قرآن و سنت کے احکام اور ہدایات کے حوالہ سے ہمارا رویہ کیا ہے اور ایسے طرزعمل سے گریز کرنا چاہیے جس پر نافرمانی کا اطلاق ہو سکے۔

رسول اللہ!ﷺ نے چھٹی وصیت یہ فرمائی:

6 وَإِيَّاكَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ وَإِنْ هَلَكَ النَّاسُ،

میدان جنگ سے فرار اختیار نہ کرنا اگرچہ لوگ ہلاک ہو رہے ہوں۔

جہاد اور اس میں ثابت قدمی دینی تقاضوں اور فرائض میں سے ہے اور میدان جہاد میں دشمن سے لڑتے ہوئے موت کے خوف سے بھاگنا کبیرہ گناہ ہے جس کی قرآن کریم نے مذمت کی ہے۔ اس لیے کہ موت اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے جو اپنے وقت پر ہر حالت میں آ کر رہے گی اور جہاد سے بھاگنا دراصل اللہ تعالٰی کے حکم سے بھاگنا ہے جو شدید ترین نافرمانی ہے۔ البتہ جنگی حکمت کے تحت جگہ بدلنا اور عسکری ضرورت کے تحت پیچھے ہٹنا اس میں شامل نہیں ہے۔

رسول اللہ!ﷺ نے ساتویں وصیت یہ فرمائی:

7 وَإِذَا أَصَابَ النَّاسَ مُوتٌ وَأَنْتَ فِيهِمْ فَاثْبُتْ،

اور جب تم کسی جگہ پر لوگوں کے ساتھ رہتے ہو، اور وہاں (کسی وبائی مرض کی وجہ سے) موت کا بازار گرم ہو جائے تو تم وہیں جمے رہو، (جان بچانے کے خیال سے وہاں سے مت بھاگو)

شرعی مسئلہ یہ ہے اور جناب نبی اکرمؐ کی ہدایت ہے کہ اگر کسی جگہ ایسی وبا پھیل جائے کہ عام موتیں ہو رہی ہوں مثلاً ہیضہ اور طاعون وغیرہ تو وہاں رہنے والوں میں سے کوئی باہر نہ جائے، اور نہ ہی باہر سے کوئی وہاں جائے۔ اس پس منظر میں نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر ایسی صورتحال پیش آ جائے تو اللہ تعالٰی کے حکم اور تقدیر پر صابر و شاکر رہتے ہوئے وہاں سے فرار اختیار نہ کیا جائے۔

رسول اللہ!ﷺ نے آٹھویں وصیت یہ فرمائی:

8 وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ،

اور اپنے اہل و عیال پر اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق خرچ کرو (نہ بخل سے کام لو کہ پیسہ پاس ہوتے ہوئے اُن کو تکلیف ہو، اور نہ خرچ کرنے میں اپنی حیثیت سے آگے بڑھو)۔

گھر کے سربراہ پر اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری ہے اور بیوی بچوں اور زیر کفالت افراد کے اخراجات اس کا ذمہ ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہدایت یہ ہے کہ اس کی مالی حیثیت کے مطابق ہوں، اگر وہ اپنی حیثیت اور وسعت سے کم خرچ کرتا ہے اور ضروریات فراہم نہیں کرتا تو وہ بیوی بچوں کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اور اگر بیوی بچے اس کی حیثیت اور طاقت سے زیادہ کا اس سے مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اس کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں حقیقت پسندی اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس سلسلہ میں کوتاہی ہوتی ہے جس سے خاندان اور معاشرت کے نظام میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اگر ہم سب اپنے اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق میانہ روی اور توازن اختیار کریں تو بے شمار مسائل سے خودبخود جان چھوٹ جائے۔

رسول اللہ!ﷺ نے نویں وصیت یہ فرمائی:

9 وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا

اور ادب دینے کے لئے اُن پر (حسبِ ضرورت و موقع) سختی بھی کیا کرو۔

یعنی گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اس کا رعب گھر کے ماحول میں قائم رہنا چاہیے تاکہ گھر کا نظام صحیح طریقہ سے چلتا رہے اور کوئی خرابی نظر آئے تو وہ اس کی اصلاح کر سکے۔ ضروری نہیں کہ ڈنڈا ہاتھ میں لے کر گھر والوں پر برساتا ہی رہے، اصل مقصد گھر کے نظام کا کنٹرول اور اس کے ذریعے خرابیوں کی اصلاح اور نظام کو صحیح طور پر چلانا ہے، جو حکمت و دانش اور محبت و اعتماد کی فضا میں زیادہ مؤثر طریقہ سے قائم ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کسی بیوی، بچے حتٰی کہ خادم پر بھی کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا اور محبت و اعتماد کے ساتھ گھر کے نظام کو کنٹرول میں رکھا ہے۔ البتہ کبھی اشد مجبوری ہو اور اصلاح کے دیگر ذرائع ناکام ہو جائیں تو بقدر ضرورت ڈنڈے کے استعمال کی بھی گنجائش موجود ہے۔حضور ﷺ کی اس جامع وصیت کے آخری حصہ کا تعلق اولاد کی خبر گیری اور ان کی تادیب و ترہیب سے ہے۔

رسول اللہ!ﷺ نے دسویں وصیت یہ فرمائی:

10 وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ ” (ماخذ: معارف الحدیث – کتاب الرقاق – حدیث نمبر 238)

اور اُن کو اللہ سے ڈرایا بھی کرو۔ (مسند احمد)

یعنی بیوی بچوں اور زیرکفالت افراد کے بارے میں گھر کے سربراہ کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان کو کھلائے پلائے اور ان کی ضروریات زندگی کی کفالت کرے۔ بلکہ یہ بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ ان کی دینی تعلیم و تربیت، اخلاق و عادات کی اصلاح اور ایمان و عقیدہ کی درستگی و پختگی کا خیال رکھے۔ کیونکہ اگر گھر کے سربراہ کی غفلت اور بے پرواہی کی وجہ سے گھر کے افراد دین سے دور رہیں گے، ان کے عقائد خراب ہوں گے، اعمال و عبادات میں کوتاہی ہو گی اور اخلاق و عادت میں بگاڑ ہو گا تو ان کے گناہ اور ذمہ داری میں وہ بھی شریک شمار ہو گا۔فرمایا :

’’ وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ ‘‘

یعنی تمہارے ذمہ یہ ہے کہ اپنے اہل و عیال کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کرتے رہو،

اس کے لئے جو تدبیریں بھی کرنی پڑیں وہ گویا ہمارے فرائض میں سے ہیں، اور ہم اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔ اس لیے اس طرف بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

Dars e Hadees Hadith 33رسول اللہ ! ﷺ کی دس نصیحتیں اور وصیتیںTen Advices and Wills of Prophit (PBUH) ویڈیو

Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadith 33رسول اللہ ! ﷺ کی دس نصیحتیں اور وصیتیںTen Advices and Wills of Prophit (PBUH). Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 12:17

https://youtu.be/kCMGjzegHvo