تین اہم وصیتیں

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ: بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ (متفق عليه)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میرے خلیل) نبی ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہرماہ تین دن روزہ رکھوں، چاشت کی دورکعت اداکروں او ر یہ کہ سونے سے پہلے میں وتر ادا کروں۔ (متفق علیہ)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بزرگ صحابی ہیں، رسول اللہ !ﷺ کےمقرّب ہیں، وہ ہمیں نبی ﷺ کی وصیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے خلیل نے مجھے وصیت فرمائی۔ اور حدیث میں وارد لفظ خلیلی، حبیبی کی طرح ہے، لیکن) خلیلی (شدید محبت پر دلالت کرتا ہے، اور یہ لفظ) حبیبی (سے زیادہ بلیغ اور قوی ہے۔) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (فرماتے ہیں کہ:

میرے دوست نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی:

پہلی وصیت:

ہرماہ تین دن کا روزہ رکھنا۔ ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا عظیم سنت اور بڑی فضیلت کا کام ہے۔ نبی ﷺ یہ بتلایا ہے کہ ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا گویا پورے سال کا روزہ رکھنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر اس کے فضل وکرم کی وجہ سے ہے۔ اس سے مقصود نفلی روزہ ہے۔ اس کے رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر ماہ تین دن کا روزہ رکھے، چاہے تین دن مسلسل ہوں، یا متفرق ہوں۔ چنانچہ ترمذی شریف میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“جس نے ہر مہینہ تین روزے رکھے گویاکہ اس نے صوم الدہر یعنی پوری زندگی مسلسل روزے رکھے۔ان احادیث کے اطلاق اور ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے مہینے میں کسی بھی موقع پر مسلسل یا متفرق طور پر تین روزے رکھنے سے حاصل ہوجائے گی۔البتہ کوئی تین روزے لگاتار رکھنا چاہے تووہ ایامِ بیض یعنی ہر قمری مہینے کے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھے۔ سننِ نسائی کی ایک روایت میں حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایامِ بیض کے تین دن یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ایامِ بیض یعنی ہر قمری مہینے کے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے سے پہلی قسم کی احادیث میں وارد فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ اس لیے افضل یہ ہے کہ ہر مہینے کے تین روزے ایام بیض یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھے جائیں۔ البتہ ماہِ ذی الحجہ میں چونکہ تیرہ تاریخ کو (ایامِ تشریق میں داخل ہونے کی وجہ سے) روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے، اس لیے ذی الحجہ میں ایامِ بیض کے روزے نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ذی الحجہ میں تیرہ تاریخ کی جگہ سولہ تاریخ کو یا بعد میں کسی تاریخ کو روزہ رکھ لیا کریں۔

دوسری وصیت: صلاۃ چاشت کی وصیت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صلاۃ الضحیٰ (نمازِ چاشت) چار رکعت پڑھتے تھے اور جتنا اللہ چاہتا زیادہ کرتے تھے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ چاشت کی نماز چار رکعت پڑھتے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیتے تھے۔ پھر انھوں نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ اپنی قدرت و چستی کے بقدر چار رکعت سے زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ صلاۃ چاشت دو یا اس سے زیادہ رکعت ہیں، جو چاشت کے وقت درمیان صبح میں ادا کی جاتی ہیں۔ لہذا مسلمان کے لیے مستحب ہے کہ وہ دو یا چار یا اس سے زیادہ رکعت،چاشت کے وقت ادا کرے، کیوں کہ اس کا بہت ثواب ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔ چاشت کی نماز کو حدیث شریف میں صلاۃ الضحیٰ”” کہا گیا ہے،نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے یعنی ڈیڑھ گھنٹہ بعد شروع ہوتا ہے۔اورطلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔”

تیسری وصیت: وتر کی وصیت۔

ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم متعدد مرتبہ دیا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں فقہاء نے نماز وترواجب قرار دیا ہے، نماز وتر کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے۔الغرض! عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ متفق ہے کہ نماز وتر کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا بھی کرنی چاہیے۔ نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے طلوع صبح ہونے تک رہتا ہے، رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز وتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول بھی یہی تھا؛ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں۔ فرض نمازوں کے ساتھ ہمیں نماز وتر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ نبی اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے، جیساکہ احادیث میں ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے اور ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا فرمائے؛ تاکہ ہماری نمازیں دنیا میں ہمیں برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنیں اور قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں۔

40 hadees Hadith 14 Hadees 14 Urdu Translation Three Important Wills تین اہم وصیتیں ویڈیو

Please watch full video, like and share 40 hadees Hadith 14 Hadees 14 Urdu Translation Three Important Wills تین اہم وصیتیں. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 07:23

https://youtu.be/MsUDCqaxK3I

تین اہم وصیتیں

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : ))أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ : بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ( متفق عليه )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’میرے خلیل )نبی ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی : ہرماہ تین دن روزہ رکھوں، چاشت کی دورکعت اداکروں او ر یہ کہ سونے سے پہلے میں وتر ادا کروں۔(متفق علیہ)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بزرگ صحابی ہیں، رسول اللہ !ﷺ کےمقرّب ہیں،وہ ہمیں نبی ﷺ کی وصیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :میرے خلیل نے مجھے وصیت فرمائی۔ اور حدیث میں وارد لفظ خلیلی، حبیبی کی طرح ہے، لیکن )خلیلی( شدید محبت پر دلالت کرتا ہے، اور یہ لفظ )حبیبی( سے زیادہ بلیغ اور قوی ہے۔ )سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ( فرماتے ہیں کہ : میرے دوست نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی :
پہلی وصیت: ہرماہ تین دن کا روزہ رکھنا۔ ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا عظیم سنت اور بڑی فضیلت کا کام ہے۔ نبی ﷺ یہ بتلایا ہے کہ ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا گویا پورے سال کا روزہ رکھنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر اس کے فضل وکرم کی وجہ سے ہے۔ اس سے مقصود نفلی روزہ ہے۔ اس کے رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر ماہ تین دن کا روزہ رکھے، چاہے تین دن مسلسل ہوں، یا متفرق ہوں۔ چنانچہ ترمذی شریف میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے ہر مہینہ تین روزے رکھے گویاکہ اس نے صوم الدہر یعنی پوری زندگی مسلسل روزے رکھے۔ان احادیث کے اطلاق اور ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے مہینے میں کسی بھی موقع پر مسلسل یا متفرق طور پر تین روزے رکھنے سے حاصل ہوجائے گی۔البتہ کوئی تین روزے لگاتار رکھنا چاہے تووہ ایامِ بیض یعنی ہر قمری مہینے کے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھے۔ سننِ نسائی کی ایک روایت میں حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایامِ بیض کے تین دن یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ایامِ بیض یعنی ہر قمری مہینے کے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے سے پہلی قسم کی احادیث میں وارد فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ اس لیے افضل یہ ہے کہ ہر مہینے کے تین روزے ایام بیض یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھے جائیں۔البتہ ماہِ ذی الحجہ میں چونکہ تیرہ تاریخ کو (ایامِ تشریق میں داخل ہونے کی وجہ سے) روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے، اس لیے ذی الحجہ میں ایامِ بیض کے روزے نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ذی الحجہ میں تیرہ تاریخ کی جگہ سولہ تاریخ کو یا بعد میں کسی تاریخ کو روزہ رکھ لیا کریں۔
دوسری صلاۃ چاشت کی وصیت۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صلاۃ الضحیٰ (نمازِ چاشت) چار رکعت پڑھتے تھے اور جتنا اللہ چاہتا زیادہ کرتے تھے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ چاشت کی نماز چار رکعت پڑھتے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیتے تھے۔ پھر انھوں نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ اپنی قدرت و چستی کے بقدر چار رکعت سے زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ صلاۃ چاشت دو یا اس سے زیادہ رکعت ہیں،جو چاشت کے وقت درمیان صبح میں ادا کی جاتی ہیں۔ لہذا مسلمان کے لیے مستحب ہے کہ وہ دو یا چار یا اس سے زیادہ رکعت،چاشت کے وقت ادا کرے، کیوں کہ اس کا بہت ثواب ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔ چاشت کی نماز کو حدیث شریف میں “صلاۃ الضحیٰ” کہا گیا ہے،نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے یعنی ڈیڑھ گھنٹہ بعد شروع ہوتا ہے۔اورطلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔
تیسری وصیت: وتر کی وصیت۔
ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم متعدد مرتبہ دیا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں فقہاء نے نماز وترواجب قرار دیا ہے، نماز وتر کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے۔الغرض! عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ متفق ہے کہ نماز ِوتر کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا بھی کرنی چاہیے ۔ نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے طلوع صبح ہونے تک رہتا ہے، رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز ِوتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول بھی یہی تھا؛ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں ۔فرض نمازوں کے ساتھ ہمیں نماز وتر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ نبی اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے، جیساکہ احادیث میں ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے اور ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا فرمائے؛ تاکہ ہماری نمازیں دنیا میں ہمیں برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنیں اور قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں۔