باجماعت نماز کی فضیلت :از:قاری محمد اکرام

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ صَلٰوۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلٰوۃ الْفَرْدِ بِسَبْعٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم )
رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا : باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلہ میں ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اپنے کو (یعنی مسلمانوں کو )اس حال میں دیکھا ہے کہ نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والا یا تو بس کوئی منافق ہوتا تھا جس کی منافقت ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی ۔ بلکہ عام طور سے لوگوں کو اس کی منافقت کا علم ہوتا تھا یا کوئی بے چارہ مریض ہوتا تھا ۔ (جو بیماری کی مجبوری سے مسجد تک نہیں آسکتا تھا ) اور بعض مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے چل کر آتے اور جماعت میں شریک ہوتے تھے ۔ اس کے بعد حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ہم کو ’’ سنن ھدیٰ ‘‘ کی تعلیم دی ہے (یعنی دین و شریعت کی ایسی باتیں بتلائی ہیں جن سے ہماری ہدایت و سعادت وابستہ ہے ) اور انہی (سنن ھدیٰ ) میں سے ہے ۔ ایسی مسجد میں جہاں اذان دی جاتی ہو جماعت سے نماز ادا کرنا ۔ (صحیح مسلم )
ان احادیث میں جماعت کی نماز کی فضیلت بتلائی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ باجماعت نماز اکیلے طور پر نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ ثواب و اجر کی حامل ہے ۔ لہٰذا اس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں نماز باجماعت بعض آئمہ کے نزدیک فرض عین ہے اور بعض کے نزدیک فرض کفایہ ہے ۔ ہمارے (احناف ) کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے ۔
لہٰذا نماز باجماعت کے بارے میں سستی اور تساہل سے کام لے کر بلاعذر اس کو ترک کرنا فرض یا سنت مؤکدہ کا چھوڑنا ہے جو کہ گناہِ کبیرہ ہے اور موجبِ عذاب ہے ۔ اس کے علاوہ احادیث میں نماز باجماعت کی تاکید اور فضیلت اور اس کے چھوڑنے اور ترک پر بہت ہی زیادہ وعیدیں آئی ہیں ۔ لہٰذا ان فضائل اور اجر و ثواب کے حصول کی خاطر اور وعیدوں اور عذاب و عقاب سے بچنے کی خاطر مسجدوں میں جاکر نماز باجماعت ادا کرنے کا خوب اہتمام کرنا چاہئے ۔ اور بلاوجہ اور بلاعذر ترک جماعت کے گناہ کا مرتکب نہ ہونا چاہئے ۔ یہاں تک کہ تین آدمی بھی جمع ہوں تو جماعت کرا لینا چاہئے ۔
رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا : جب تین آدمی (جمع ) ہوں ایک ان میں سے امام بن جائے اور سب سے زیادہ امامت کا مستحق سب سے زیادہ قرآن دان ہے ۔ (مسلم )
اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ اکٹھے نماز پڑھنے والوں میں سے جو سب سے زیادہ عالم ہو وہی امام ہو ۔ یہ یاد رہے کہ قاری سے مراد قرآن حکیم کو محض خوش الحانی سے پڑھنے والا نہیں ہے ۔