منتخب چشم ہدایت

(۱) مذہب ایک راستہ ہے جو امن و آشتی کی طرف آتا ہے۔
(۲) مذہب کوئی چھپانے والی چیز نہیں۔
(۳) مذہب روشنی کا ایسا مینار ہے جو تمام لوگوں کی اندھیرے میں راہنمائی کرتا ہے۔
(۴) مذہب معاشرہ کی بنیاد ہے۔
(۵) مذہب تمام خوبیوں کا مأخذ اور تمام اچھائیوں کی انتہاء ہے۔
(۶) انسان عجیب مخلوق ہے، مذہب کی خاطر جان تو دیدیتا ہے مگر زندگی نہیں گذارتا۔
(۷) مذہب کو فن میں تبدیل کرکے دیکھو تو مشکل اور فرض میں تبدیل کرکے دیکھو تو بے انتہاء آسان نظر آئے گا۔
(۸) اجتماعی زندگی گذارنے سے پہلے جو شخص مذہب کو بھول جاتا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کانٹوں بھرے راستہ پر چلنے سے پہلے جوتے اتار ڈالے۔
(۹) علم تو بہت سے ہیں مگر زندگی تھوڑی! ایسا علم سیکھو جس میں تمام علوم کا احاطہ ہوجائے۔
(۱۰) مال و زر تو فرعون و قارون کی میراث ہے جبکہ علم انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔
(۱۱) علم تمہاری اور تمہارے مال کی حفاظت کرتا ہے جبکہ تم دولت کی حفاظت کرتے ہو۔
(۱۲) دولتمندوں کے بہت سے دشمن ہوسکتے ہیں، مگر صاحبِ علم کے دوست بہت ہوتے ہیں۔
(۱۳) علم پھیلانے سے بڑھے گا جبکہ دولت کم ہوگی۔
(۱۴) علماء فیاض اور دولتمند کنجوس ہوتا ہے۔
(۱۵) علم کو چرایا نہیں جاسکتا، دولت چرائی جاسکتی ہے۔
(۱۶) علم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے، جبکہ دولت گھٹتی ہے۔
(۱۷) علم سے دماغ روشن جبکہ دولت سے تاریک ہوجاتا ہے۔
(۱۸) دولت نے فرعون و نمرود جیسے خدائی دعویدار پیدا کئے، جبکہ علم نے سچے معبود کا راستہ دکھایا۔
(۱۹) علم کے ساتھ تجربہ بھی بہتر ہے۔
(۲۰) علم و دانش سے محرومی باعث ذلت ہے۔
(۲۱) ترقی کے منازل علم اور عمل کے ساتھ جلد طے ہوجاتے ہیں۔
(۲۲) انسان کو علم سے زندگی گذارنے کا سلیقہ آتا ہے۔
(۲۳) انسان کا عمر بھر کا ساتھی تو صرف علم ہی ہے۔
(۲۴) کامیابی کی پہلی کرن علم ہی ہے۔
(۲۵) ہر انسان کچھ نہ کچھ علم ضرور رکھتا ہے۔
(۲۶) محض حصولِ رزق کے لئے علم نہیں ہونا چاہئے۔
(۲۷) لازوال دولت تو صرف ہی ہے۔
(۲۸) علم ہی سے کسی انسان کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔
(۲۹) علم روشنی ہے، پھیلانے سے خوب پھیلتی ہے۔
(۳۰) علم کی مثال ایسے درخت کی سی ہے جو خشک نہیں ہوتا۔

(۳۱) علم اس پودے کی طرح جو خوب پھلتا اور خوشبو دیتا ہے۔
(۳۲) علم انسان کو بولنا ہی سکھاتا ہے، آداب نہیں ،جبکہ آداب معاشرہ سکھاتا ہے۔
(۳۳) لوگوں کو علم سکھاؤ اور ان کا علم سیکھو۔
(۳۴) علم کو دولت کی طرح حاصل کرو۔
(۳۵) علم کی تلاش خزانہ حاصل کرنے کی طرح کرو۔
(۳۶) نااہل کو علم دینا اس پر ظلم اور اہل کو نہ دینا اہل پر ظلم ہے۔
(۳۷) صاحب علم بظاہر کم حیثیت ہوتا مگر بڑا ہوتا ہے، جبکہ بے وقوف بڑا بھی نظر آئے تو بے وقوف ہی ہوتا ہے۔
(۳۸) سیدھے راستہ کی نشاندہی صرف علم ہی کرتا ہے۔
(۳۹) روحانیت بغیر علم کے بے فائدہ ہے۔
(۴۰) مراد حاصل کرنے کے لئے حصول علم لازمی ہے۔
(۴۱) کنول کا پھول پانی کے لئے ضروری ہے اور علم انسان کے لئے۔
(۴۲) علم کا سب سے بڑا دشمن تکبر ہے۔
(۴۳) علم کے ساتھ صحیح ذوق بھی ضروری ہے، علم کتنا ہی وسیع ہو وسیع ذوق نہ ہو تو علم بے نتیجہ اور بے شمر ہوجاتا ہے۔
(۴۴) علم زندگی ہے، اس کی قدر کیجئے۔
(۴۵) علم دوستی ہے، اُسے نبھائیے۔
(۴۶) علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔
(۴۷) علم ایک ایسی روشنی ہے جس سے ساری دنیا روشن ہے۔
(۴۸) علم ایک ہیرا ہے اور طالب علم جوہری۔
(۴۹) علم ایک خزانہ ہے جسے کوئی چُرا نہیں سکتا۔
(۵۰) علم ایک ایسی کشتی ہے جس پر سوار انسان کبھی نہیں ڈوبتا۔
(۵۱) جو طلب علم کے لئے نکلا ہو اللہ راستہ میں ہے۔
(۵۲) علم کے لئے کوشش پچھلے گناہوں کی تلافی ہے۔
(۵۳) علم کی بزرگی عبادت کی بزرگی سے بڑھ کر ہے۔
(۵۴) علم حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو۔
(۵۵) سردار بننے سے پہلے علم حاصل کرو۔
(۵۶) علم کے ساتھ تھوڑا عمل بھی تمہارے لئے مفید ہوگا۔
(۵۷) دین کا عالم ہزاروں مجاہدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔
(۵۸) جن سے تم علم سیکھتے یا جنہیں سکھاتے ہو ان کی عزت کرو۔
(۵۹) عالم اور مجاہد کے درمیان ستر درجے فرق ہے۔
(۶۰) محبت کرنا ہے تو صرف علم سے کرو، یہ بے وفائی نہیں کرتا، بلکہ یہ رنج و الم کا ساتھی ہے۔

(۶۱) علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
(۶۲) ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔
(۶۳) علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
(۶۴) اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو علم عطا فرماتا ہے۔
(۶۵) جو شخص علم کی تلاش میں نکلے وہ اس وقت تک اللہ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہ آجائے۔
(۶۶) علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاء کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں۔
(۶۷) علم جو نفع حاصل کرنے کے لئے سیکھا جائے دل میں گھر نہیں کرتا۔
(۶۸) علم کی بنیاد جس پر ہے عمل وہی ہے۔
(۶۹) جس شخص کا علم دنیا میں اس کے اخلاق کی اصلاح نہیں کرسکتا وہ آخرت میں سعادت حاصل نہیں کرسکتا۔
(۷۰) علم کی مدد سے انسان کی وحشت اور درندگی دور ہوجاتی ہے۔
(۷۱) اچھا سوال آدھا علم ہے۔
(۷۲) علم حاصل کرنے کے لئے خود کو شمع کی طرح پگھلاؤ۔
(۷۳) علم سے آدمی انسان بنتا ہے۔
(۷۴) چاند کے بغیر رات بیکار اور علم کے بغیر ذہن بیکار۔
(۷۵) ستارے آسمان کے لئے زیور ہیں اور تعلیم یافتہ افراد زمین کی زینت۔
(۷۶) علم جنت کے راستوں کا نشان ہے۔
(۷۷) علم کی کوشش اپنے چھپے ہوئے جذبات کا اظہار ہے۔
(۷۸) علم ایک ایسا بادل ہے جس سے رحمت برستی ہے۔
(۷۹) علم لگن سے حاصل ہوتا ہے، لگن کے فقدان سے علم کھوجاتا ہے۔
(۸۰) علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے بغیر روح کے جسم۔
(۸۱) علم انسان کی تیسری آنکھ ہے۔
(۸۲) علم کی تحقیق میں بحث کرنا جہاد ہے۔
(۸۳) علم ایسی خوشبو ہے جو انسان کے ذہن کو ہمیشہ معطر رکھتی ہے۔
(۸۴) علم ایسی روشنی ہے جو بھٹکے ہوئے انسانوں کی رہنمائی کرتی ہے۔
(۸۵) علم ایسی لاٹھی ہے جو کسی بے سہارا کے لئے سہارے کا کام دیتی ہے۔
(۸۶) علم ایسی زنجیر ہے جس سے ہر انسان کا مستقبل وابستہ ہے۔
(۸۷) ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
(۸۸) موت وقتِ مقررہ پر ہی آئے گی، ٹل نہیں سکتی۔
(۸۹) موت کے دروازے سے سبھی جانداروں کو گذرنا ہے۔
(۹۰) اچھے کام کرکے ہی بعد از موت زندہ رہا جاسکتا ہے۔
(۹۱) مومن کے لئے موت تحفہ ہے۔
(۹۲) زندگی بعد از موت کا علم کسی کو نہیں۔
(۹۳) زندگی وہ آنکھ ہے جو موت کی راہ دیکھتی رہتی ہے۔
(۹۴) موت کو یاد رکھو برائیوں سے بچ جاؤ گے۔
(۹۵) بعد از موت کسی کی برائی مت کرو۔
(۹۶) حصول علم کی جد و جہد میں موت شہادت ہے۔
(۹۷) سستی و کاہلی کی زندگی نہ زندگی نہ موت۔
(۹۸) نیک اعمال کرنا آب حیات پینے سے بہتر ہے۔
(۹۹) زندگی اور موت دو متضاد چیزیں ہیں۔
(۱۰۰) موت سے لڑنا تو بہادروں کا ہی کام ہے۔
(۱۰۱) موت تو ایک آرام وہ نیند ہے جس میں قیامت سے پہلے بیداری ممکن نہیں۔
(۱۰۲) موت کی یاد انسان کو نیک بناتی ہے۔
(۱۰۳) موت استاد ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
(۱۰۴) موت دائمی زندگی ابتداء ہے۔
(۱۰۵) موت ایک ایسا کھولنا ہے جو ٹوٹ جائے تو جڑتا نہیں۔
(۱۰۶) بے خبر ساتھی کا نام موت ہے۔
(۱۰۷) مردہ اور احمق لوگوں کے خیالات تبدیل نہیں ہوا کرتے۔
(۱۰۸) موت کو برحق نہ سمجھنے سے دعاؤں کی قبولیت نہیں ہوتی۔
(۱۰۹) گناہ اندھیرا ہے اور توبہ چراغ راہ ہے۔
(۱۱۰) ہر گناہ سے بچو کیونکہ گناہگار پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔
(۱۱۱) مسلمان کی تحقیر سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔
(۱۱۲) گناہ کے بعد ندامت بھی توبہ کی ایک شاخ ہے۔
(۱۱۳) گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹادیتا ہے۔
(۱۱۴) گناہ کو چھوٹا خیال مت کرو۔
(۱۱۵) ہر وقت اللہ سے گناہوں کی معافی مانگو۔
(۱۱۶) کسی کی رضامندی سے کوئی گناہ حلال نہیں ہوسکتا۔
(۱۱۷) گناہوں کو ان مکھیوں جیسا خیال کرو جو عطر میں لپیٹ دی گئی ہوں۔
(۱۱۸) گناہ کو زہر خیال کرو، اس سے تمہارا ضمیر مرسکتا ہے۔
(۱۱۹) بڑے گناہوں میں جھوٹی گواہی بڑا گناہ ہے۔
(۱۲۰) شرک سے برا کوئی گناہ نہیں۔

(۱۲۱) دل آزاری بہت بڑا گناہ ہے۔
(۱۲۲) گناہ کا اعتراف بزدلی نہیں بلکہ بہادری ہے۔
(۱۲۳) جس جگہ نیک عورت نہ ہو نیکی کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
(۱۲۴) اگر نیک عورت کے دل کو چیر کر دیکھ سکو تو تمہیں صبر و تحمل، برداشت اور قربانی کے جذبہ کے سواء کچھ نظر نہیں آئے گا۔
(۱۲۵) زندگی کے لئے سانس اور مرد کے لئے عورت لازمی ہے۔
(۱۲۶) عورت اس شاخ کی طرح ہے جو ہوا کے نرم جھونکوں کے ساتھ جھکتی ہے، مگر طوفان کی سختی سے ٹوٹتی نہیں۔
(۱۲۷) دنیا میں عورت کے آنسو بہت بڑی قوت ہیں۔
(۱۲۸) مرد آنکھ تو عورت اس کی بینائی ہے۔
(۱۲۹) مرد پھول اور عورت اس کی خوشبو ہے۔
(۱۳۰) محبت اور عورت لازم و ملزوم ہیں۔
(۱۳۱) عورت کا پیار کبھی نہ خشک ہونے والے چشمہ کی طرح ہے۔
(۱۳۲) محبت کے اظہار کے لئے عورت کی زبان نہیں آنکھ کام کرتی ہے۔
(۱۳۳) عورت ہر روپ میں قابل احترام ہے۔
(۱۳۴) خوب سیرت عورت دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔
(۱۳۵) خوبصورت عورت اور لال مرچ دونوں سے ہوشیار رہیں۔
(۱۳۶) اندھی عورت سے شادی خوبصورت عورت سے شادی سے بہتر ہے۔
(۱۳۷) آنسو بہاتی ہوئی عورت پر اعتبار مت کرو۔
(۱۳۸) زندگی بغیر محنت کے مصیبت اور بغیر عقل کے حیوانیت ہے۔
(۱۳۹) بناوٹ اور تصنع کے بغیر زندگی قابل تحسین ہے۔
(۱۴۰) خود اعتمادی اور خود شناسی سے زندگی کامل ہوجاتی ہے۔
(۱۴۱) زندگی ایک اکھاڑہ ہے۔
(۱۴۲) زندگی ایک کھیل ہے۔
(۱۴۳) بری زندگی نام ہے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کا۔
(۱۴۴) زندگی استاد ہے، بہت کچھ اس سے سیکھا جاسکتا ہے۔
(۱۴۵) زندگی دریا کی طرح ہے، جو ازل کی جھیل سے ابد کے سمندر کی طرح جارہی ہے۔
(۱۴۶) زندگی اللہ کی عنایت ہے، اس کو اللہ کی مخلوق کے لئے وقف کردو۔
(۱۴۷) زندگی تاریکی اور روشنی کا حسین امتزاج ہے۔
(۱۴۸) زندگی کی قدر کرو، عنقریب تم سے چھین لی جائے گی۔
(۱۴۹) زندگی کے فیصلے بدلنا کامیابی نہیں۔
(۱۵۰) زندگی دوسروں کے کام آنے کا نام ہے۔

(۱۵۱) زندگی عارضی جبکہ موت دائمی ہے۔
(۱۵۲) امید زندگی کی کشتی کا لنگر ہے، اس کے بغیر کشتی ڈوب سکتی ہے۔
(۱۵۳) زندگی کی حفاظت مقدس امانت کی طرح کرو۔
(۱۵۴) زندگی کو مقدس فرض سمجھ کر گذارنے والے کبھی ذلیل نہیں ہوتے۔
(۱۵۵) زندگی کو چھوٹی چھوٹی کامیابیاں رنگین بنادیتی ہے۔
(۱۵۶) زندگی کو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے گذارنا سیکھو۔
(۱۵۷) زندگی کا مکمل حصول مسرت نہیں تکمیل انسانیت ہے۔
(۱۵۸) زندگی اور موت میں اذان اور نماز کا وقفہ ہے۔
(۱۵۹) زندگی تو دھوکہ ہے جس کو بار بار کھانے کو جی چاہتا ہے۔
(۱۶۰) زندگی بے وفاء اور موت ایسی محبوبہ ہے جو ساتھ لے کر جاتی ہے۔
(۱۶۱) زندگی محنت سے پھولوں کی طرح رنگین اور شہد کی طرح میٹھی بن سکتی ہے۔
(۱۶۲) زندگی کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ دم آخر ہی ہوسکتا ہے۔
(۱۶۳) کچھ لوگ زندگی ہیں میں مردہ جبکہ کچھ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔
(۱۶۴) زندگی دریا ہے، آخرت اس کا ساحل اور تقویٰ اس کی کی کشتی ہے۔
(۱۶۵) زندگی کا مقصد دوسروں کے دکھ بانٹنا بنالو۔
(۱۶۶) انسان کی زندگی کی کتاب میں متعدد شخصیات ہوتی ہیں۔
(۱۶۷) زندگی نام ہے بے بسی کا۔
(۱۶۸) زندگی میں وہ واحد چیز جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری ملکیت ہے عمل ہے۔
(۱۶۹) زندگی کے فٹ پاتھوں پر نظر ڈالی جائے تو بے شمار کہانیاں دم توڑتی نظر آئیں گی۔
(۱۷۰) زندگی چند سہانے سپنوں کا مجموعہ ہے۔

(۱۷۱) زندگی ایک پھول ہے جو کہ اپنی خوبصورتی کے لئے کانٹوں کا سہارا لیتا ہے۔
(۱۷۲) زندگی ایک حسین خواب ہے جب ٹوٹتا ہے تو پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
(۱۷۳) زندگی ایک ایسا ہیرا ہے جسے تراشنا انسان کا کام ہے۔
(۱۷۴) زندگی کے گلدان میں ایسے پھول سجاؤ جو خوشبو بھی دیتے ہیں۔
(۱۷۵) انسانی زندگی کی تکمیل کے لئے مرد و عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔
(۱۷۶) زندگی محبت کی تکمیل کا ایک زینہ ہے۔
(۱۷۷) زندگی ایک ایسا گلشن ہے جہاں پھلوں کے ساتھ ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔
(۱۷۸) زندگی ایک ایسا اسٹیج ہے جہاں انسان پہلی سیڑھی پر ہی ڈگمگا جاتا ہے۔
(۱۷۹) زندگی ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں حقیقت بھی ہے اور ناٹک بھی۔
(۱۸۰) جب لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ زندگی کیا ہے؟ تو یہ آدھی خرچ ہوچکی ہوتی ہے۔
(۱۸۱) زندگی کے دکھ ہی تو انسان کو انسان بناتے ہیں۔
(۱۸۲) زندگی کا شعلہ دوسروں سے مستعار نہیں لیا جاسکتا، یہ صرف اپنی روح کے آتشکدے میں روشن کیا جاسکتا ہے۔
(۱۸۳) زندگی ایک کہکشاں ہے جہاں کوئی کہکشاں نہیں۔
(۱۸۴) زندگی کی راہیں طویل اور خاردار ہوتی ہیں۔
(۱۸۵) اگر تمہیں زندگی سے محبت ہے تو لوگوں سے محبت کرو۔
(۱۸۶) زندگی کی بساط پر وہ لوگ قابل تحسین ہیں، جو دوسروں کی خطائیں معاف کردیتے ہیں، لیکن قابل پرستش ہیں وہ جو خطائیں معاف کرکے گلے لگا لیتے ہیں۔
(۱۸۷) ہم زندگی کے بارے میں غلط اندازہ لگالیتے ہیں اور بعد میں مایوس ہوکر کہتے ہیں کہ زندگی بے وفا نکلی۔
(۱۸۸) زندگی ایک شمع کی مانند ہے جو ہوا میں رکھی گئی ہو۔
(۱۸۹) زندگی بغیر عمل اور عقل کے حیوانیت ہے۔
(۱۹۰) زندگی کا بہترین تجربہ ہے۔
(۱۹۱) زندگی کا حقدار وہ ہے جو مصیبتیں اٹھائے۔
(۱۹۲) زندگی کی سب سے بڑی فتح نفس پر قابو پانا ہے۔
(۱۹۳) پھولوں کی طرح اپنی زندگی دوسروں کے لئے وقف کردو تم نے دیکھا نہیں کہ وہ مزاروں پر بھی سجتے ہیں اور سہرے کی لڑیوں میں بھی مسکراتے ہیں۔